کیا کوروناوائرس کے سامنے ’مذہب‘ گھٹنے ٹیک رہا ہے؟
کوروناوائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہواہے۔چاورں طرف خوف کا سماں ہے۔اس صورتحال میں مثبت پہلو یہ ابھر کےسامنے آرہاہے کہ لوگوں میں ہمدردری اورمروت کا جذبہ ابھر رہاہے ۔انسان جو مصروفیت کے نام پہ نہ اپنے اندر جھانک پارہاتھااورنہ اپنے معاشرے میں ضرورت مندوں کاخیال رکھ رہاتھااچانک اپنے گھر میں محصور ہوکر ان سب کی طرف اپنا دھیان مبذول کررہاہے۔بکھری ہوئی فیملیاں پھر اکھٹی ہورہی ہیں ۔
اس ناگہانی آفت کی وجہ سے اگرچہ معاشی اورسیاسی طاقتیں بے بس نظر آرہی ہیں تاہم ان حالات میں مذہب بھی ہدف تنقید بن رہاہے ۔کچھ غلط اورانتہاء پسند مذہبی رجحانات کی وجہ سے کچھ دہریہ اوراسلام دشمن عناصر اپنا منفی کردار ادا کررہے ہیں۔
زیر نظرمضمون میں اس حوالے سے بعض پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا۔
مذہب دوااورتدبیر سے نہیں روکتا
مذہب مخالف اور دہریہ حضرات کا یہ خیال کہ سائنس دان اورڈاکٹرز اس وائرس کا علاج ڈھونڈ نکالیں گے اس لیے خدا تعالیٰ پر ایمان رکھنے کی ضرورت نہیں بالکل غلط خیال ہے ۔
یہ خیالی عمارت اس بات پر کھڑی کی گئی ہے کہ مذہب ظاہر ی تدبیر اور علاج و معالجہ کی ترغیب دیے بغیر ہی خداپر ایمان لانے کا معتقد ہے۔ جبکہ حضورﷺ کی واضح حدیث ہے کہ پہلے اونٹ کا گھٹنہ باندھوں پھر خدا پر توکل کرو۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سائنس دان اپنے آرام و راحت کو ترک کر کے دکھی انسانیت کے لیے اس وائرس کے علاج میں کوشاں ہیں ۔لیکن جس خالق ومالک نے ان سائنس دانوں کو پیدا کیا اور اس کائنات میں ایسے وسائل و وسائط پیدا کیے جن سے ایسی مہلک بیماریوں کا علاج ممکن ہوتاہے اس کو کیونکر نظر انداز کیا جاسکتاہے ۔آخر اسی کی ذات ہےجو کوششوں کو بارآور کرتاہے اور ان کو ضائع ہونے سے بچاتاہے ۔ترقی یافتہ ممالک میں کئی دنیا دار اس وقت اس بات کے متعلق سوچنے پر مجبور ہیں کہ باوجود تمام تر معاشی اور علمی ترقی کے ہم آخر کیوں ایک معمولی وائرس کا مقابلہ نہیں کر سکے جس نے چند دنوں میں ہماری زندگیوں کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔
خدا صرف مسجد یا عبادت گاہوں میں ہی محصور نہیں ہے
دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اعتراض بھی کیاجا رہا ہے کہ اس وقت جبکہ لوگوں کو خدا کی سب سے زیادہ ضرورت تھی مساجد اور عبادت گاہوں کو خالی کر دیا گیاہے ۔جن جگہوں کو انسانیت کی خیر وبھلائی اورنجات اورحفاظت کی جگہ قرار دیا جاتاتھا وہی آج ویران اورسنسان پڑی ہیں۔جس سے نتیجہ یہ اخذ کیا جاتا ہے کہ مذہب ایک غیر اہم اورغیر ضروری چیز ہے جس کے بنا بھی گزارا انسان کے لیے ممکن ہے۔
موجودہ صورتحال میں مساجد اوردیگر عبادت گاہوں کا خالی ہونا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ خد اکی عبادت نہیں ہورہی ہے یا یہ کہ مذہب کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ہمارا اصل معبود و مقصود خدا کی ذات ہے نہ کہ مسجد کی ظاہری عمارت۔ جیساکہ قرآن کریم میں بھی آیا ہے کہ رب کعبہ کی عبادت کرو۔خدا کو کسی مسجد یا مندر میں محصو ر اورمقید نہیں کیا جاسکتا۔انسان کو عبادت کی ضرورت ہے نہ کہ خدا کو اس بات کی ضرورت ہےکہ انسان عبادت کرے۔
پیغمبرخداﷺ نے الدِّیْنُ یُسْرٌ فرمایا کہ اسلام کو آسانی کا دین قرار دیا۔ یہ اپنے پیروکاروں کے لیے آسانی چاہتاہے اور ان کی صحت اور جیون کا خیال رکھتاہے۔اور ان پر ایسابوجھ نہیں ڈالتاجو ان کی طاقت سے باہر ہو۔اگر ایک مسلمان کھڑا ہوکر نماز ادا نہیں کرسکتاہے تو اسے بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ہے حتی کہ بعض حالات میں اشاروں سے بھی پڑھنے کی رخصت دی گئی ہے۔ اسی طرح ساری زمین کو مسجد قرار دیا گیاہے۔کہیں بھی انسان نماز پڑھ لے ا س کی نماز ادا ہوجائے گی۔ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ پھر مسجدیں کیوں بنائی جاتی ہیں۔تو علاوہ مختلف مقاصد واغراض کے تعمیر مسجد کی ایک بڑی غرض یہ ہے کہ انسان دوسروں سے میل ملاپ رکھے اور دوسروں کے حالات اورسکھ دکھ سے باخبر رہے اور اپنے بھائی کی تنگدستی اورضرورت سے اطلاع پاکر اس کی ضرورت پوری کرے، گویا معاشرے میں ایک صحت مند اجتماعیت پیدا ہو اور پھولے پھلے۔ اسی غرض کی بنا پر مساجد میں باجماعت نمازاداکرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ عبادت گاہیں خالی ہورہی ہیں اورعبادت گزار میدان چھوڑ کے بھاگ گئے ہیں بودا اور بےبنیاد ہے۔
عبادات میں کمی کیا ان حالات میں توہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی احباب جماعت کو پہلے سےبڑھ کر عبادتوں اوردعاؤں کی طرف توجہ کرنےکا ارشاد فرمایا ہے اور جہاں مسجد میں با جماعت نماز کارستہ بند ہوا ہے وہاں متبادل کےطور پر گھر کےافراد کو ملا کر پنج وقتہ نمازوں اور نماز جمعہ کا التزام کرنے کا تاکیدی ارشادفرمایا ہے۔
کیا بعض حالات میں مسجد جانا ترک کیا جاسکتاہے
بانی اسلام حضرت محمد مصطفے ﷺ نے سخت بارش میں اپنے گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے اور موذن سےکہا کہ اذان میں یہ الفاظ ملادو کہ حَیَّ عَلیٰ الصَّلوٰۃِ کے بجائے صَلُّوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ یعنی اپنے گھروں میں نماز ادا کرو۔اس سے دین اسلام کی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔اسلام انسانی جان کا احترام کرتاہے اور اسے ہلاکت میں ڈالنے سے منع کرتاہے۔ اگر حفظ ماتقدم کے طور پر مسجد جانے سے اعراض کیا جائے تویہ ایک لحاظ سے قابل تحسین اورقابل ستائش امر ہے ۔اسلام نے تو بدبودا ر چیزیں جیسے پیا ز ،لہسن وغیر کھا کر مسجد جانے سے منع کیا ہے ۔یہاں وائرس کی وجہ سے تو انسانی جان کو خطرہ لاحق ہوجاتاہے تو اسلام جو انسانی جان کے تحفظ کا علمبردار ہے کس قدر احتیاط برتنے کی ترغیب دیتاہوگا۔
سائنس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے
ایک مشہور رائٹر ارنیسٹ ہیمنگ وئےEarnest Hemingway کا قول کہ’’ سارے عقلمند انسان دہریہ ہیں‘‘ کودہریہ طبقہ میں کافی پذیرائی ملی ہے۔ یہ ایک خیال خام ہے جس کی کوئی بھی تاریخی حقیقت نہیں ہے۔ تاریخ میں بہت سارے سائنس دان گزرے ہیں جو مذہب پر پختہ یقین رکھتے تھے ۔سائنس ان کی ایجادات اورانکشافات کا مرہون منت ہے۔مذہبی سائنس دان کا سائنس کے تئیں کردار ایک الگ ،طویل اوردرخشندہ باب ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔بات بیان کرنے کا مقصد یہ ہےکہ سائنس پر کسی ایک طبقہ کی اجارہ داری کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
مذہبی عبادت گاہیں ضروتمندوں کی پناہ گاہ
عبادتگاہیں آفات اور مصائب میں دکھی اورضروتمندوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہیں۔اس کی تاریخ میں بےشمار مثالیں ملتی ہیں۔حضرت نبی کریم ﷺکی مسجد جو کہ مسجد نبوی کہلاتی ہے نہ صرف نماز کے لیے استعمال ہوتی تھی بلکہ وہ ایک مدرسہ اور مکتب کا بھی کام دیتی تھی ۔جہاں لوگ علم و ادب حاصل کرتے تھے۔ اس مسجد میں فاقہ کش لوگ جمع ہوتے تھے اور ان کی بھوک مٹائی جاتی تھی ۔اس مسجد میں قوم کی بہتری اوربھلائی کے منصوبے طے پاتے تھے ۔
اس دَور میں اگر چہ ظاہری طور پر مساجد پناہ تو نہیں دے رہیں کیونکہ یہ حکومتی ہدایات اور موجودہ وبا سے لڑنے کے اصول کی خلاف ورزی ہو گی تا ہم مذہب کی تعلیم کے زیر اثر دنیا بھر میں ایسے احمدی نوجوان موجود ہیں جو ان ایام میں نہ صرف اپنوں کی بلکہ پورے معاشرے کی بلا تفریق رنگ و نسل بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں کردار ادا کر رہی ہیں اور خدمت انسانیت کی روشن مثالیں قائم کر رہے ہیں۔
یہ وبا ء دہریہ حضرات اور ان کو جوانسانی تدبیر کو سب کچھ خیال کرتے ہیں دعوت فکر دینے والی ہونی چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ باوجود تمام تر طاقت اوروسائل مہیا ہونے کے دنیا کی تمام طاقتیں ایک ایسے وائرس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبوراور بے بس نظر آتی ہے جو ظاہری آنکھ سے دیکھا بھی نہیں جا سکتا؟