آگ برساتا آسمان۔ صداقت حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک عظیم الشان نشان
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ۔(المومن:52)
ترجمہ:: یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور اُن کی جو ایمان لائے اِس دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور اُس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔
دنیا میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ دوست ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ دوستوں کو ایک دوسرے پر بھروسہ بھی ہوتا ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا والوں کی دوستی اگر کسی ایسے شخص کے ساتھ ہوجائے جو اعلیٰ عہدہ پر فائز ہو تو بسااوقات وہ اس پر بڑا فخر اور ناز کرتے ہیں۔لیکن اُس شخص کے بارہ میںکیا کہیں گے جس کا دوست تمام بادشاہوں کا مالک ، زمین و آسمان کاپیدا کرنے والا ہر وفاکرنے والے سے زیادہ وفادار قادر مطلق خدا دوست بن جائے۔ جسے اللہ تعالیٰ کی دوستی کا شرف نصیب ہوجائے اسے اور کیا چاہیے؟
اولیاء اللہ کے مقدس گروہ میں سب سے بڑھ کے خدا تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں۔اور اس زمانہ میں اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی کامل غلامی میں جس پاک اور بابرکت وجود کو خدا تعالیٰ نےنبوت کی خلعت پہنا کر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے مبعوث فرمایا اور خدائی قدرت کے نشانوں کو ایک مرتبہ پھر پوری آب و تاب سے دنیا پر ظاہر کرنے کے لیے کھڑا کیا وہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وجود ہے۔
خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید ونصرت میں بے شمارنشان دکھائے جو یقیناً سب کے سب ہستی باری تعالیٰ کےزبردست ثبوت ہیں۔ جن کے ذریعہ اسلام اور بانیٔ اسلام کی صداقت دنیا میں ظاہر و باہر ہوئی اور ہوتی رہے گی ۔ آج جب کہ ساری دنیا کورونا وائرس کے قہر سے ڈری ڈبکی گھروں میں چھی ہوئی ہے۔ اس نظریہ سے بھی انسانوںکو غور فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں یہ خدا تعالیٰ کے کسی مامور کے انکار کانتیجہ تو نہیں ہے۔؟
بہر حال آج کے اس مضمون میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تائیدمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونےوالےایک جلالی نشان کا ذکر کرنا مقصود ہے۔ اور اس کا موضوع آسمان سے برسنےوالی آگ کا ظاہر ہونا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے آگ بطور خادم
بانئی جماعت احمدیہ کی بابرکت سیرت و سوانح کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آگ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے اظہار کا ایک ذریعہ بنایا۔ تاریخ احمدیت میں یہ واقعہ درج ہے کہ ایک دفعہ جب ایک ہندو نے اسلام پر یہ اعتراض کیا کہ قرآن نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ بات قانون قدرت کے خلاف بیان کی ہے کہ دشمنوں نے ان کو آگ میں ڈالا اور خدا کے حکم سے آگ ان پرٹھنڈی ہوگئی تو حضرت مولانا نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا کہ حقیقی آگ مراد نہیں بلکہ جنگ اور مخالفت کی آگ مراد ہے ۔ جب حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ جواب سنا تو آپ نے بڑےجلال کے ساتھ فرمایا:
‘‘اس تاویل کی ضرورت نہیں۔حضرت ابراہیم کا زمانہ تو گزر چکا۔اب ہم خدا کی طرف سے اس زمانہ میں موجود ہیں ہمیں کوئی دشمن آگ میں ڈال کر دیکھ لے کہ خدا ا ُس آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے کہ نہیں۔آج اگر کوئی دشمن ہمیں آگ میں ڈالے گا تو خدا کے فضل سے ہم پر بھی آگ ٹھنڈی ہوگی۔’’
(سیرت المہدی، روایت147)
دنیا کی نظر میں اس ہندو کا اعتراض بظاہر معقول معلوم ہوتا ہے۔اور قانون قدرت یہی ہے کہ آگ جلاتی ہے۔لیکن یہ جری اللہ فی حلل الانبیاء ، اللہ تعالیٰ کا یہ پہلوان جو تمام انبیاء کا لبادہ اوڑھے ہوئے اور ان کی متفرق خصوصیات اپنے وجود میں جمع کیے ہوئے اس زمانہ میں مبعوث ہوا تاکہ زندہ نشانوں کے ذریعہ اسلام کو تمام مذاہب پر غالب کر دکھائے کس شان سے فرماتے ہیں کہ دنیا کی نظر میں قانون قدرت یہی ہوگا کہ آگ جلاتی ہے لیکن جس قادر مطلق ہستی نے مجھے کھڑا کیا ہے وہ قانون قدرت کا بھی مالک ہے اور آج بھی اگر اسلام پر کوئی اعتراض کرتا ہے تو مجھے خدا کی نصرت پر ایسا یقین ہے کہ وہ ضرور آج بھی میرے ہاتھ پر گذشتہ زمانے کے معجزات ظاہر کرےگا جو بظاہر دنیا کی نظر میں بالکل ناممکن اور قانون قدرت کے خلاف ہیں۔ خدا تعالیٰ نے تو حضرت اقدس علیہ السلام کو الہاماً یہ بھی فرمایا کہ تو لوگوں سے کہہ دے۔
‘‘آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔’’
(البدر، جلد 1، نمبر 5، 6، مورخہ 28؍نومبر + 5؍دسمبر 1902ء، صفحہ 34)
آگ برسنے کے نشان کا ظہور
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے1906ء میں اپنی کتاب ‘چشمہ مسیحی ’میں بطور انذار ایک نظم شائع فرمائی جس میں تحریر فرمایاکہ
دوستو! جاگو کہ اب پھر زلزلہ آنے کو ہے
پھر خدا قدرت کو اپنی جلد دکھلانے کو ہے
وہ جو ماہِ فروری میں تُم نے دیکھا زلزلہ
تُم یقیں سمجھو کہ وہ اِک زَجر سمجھانے کو ہے
آنکھ کے پانی سے یارو! کچھ کرو اِس کا علاج
آسماں اَے غافلو اب آگ برسانے کو ہے
کیوں نہ آویں زلزلے تقوٰی کی رہ گم ہو گئی
اِک مسلماں بھی مسلماں صرف کہلانے کو ہے
( بحوالہ چشمہ ء مسیحی ٹائیٹل پیج صفحہ2مطبوعہ 1906ء)
اس کے اگلے سال31؍مارچ 1907ء کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ظاہر کرنے کے لیے آسمان سےبرستی ہوئی آگ کے نشان کو ظاہر فرمایا۔اس نشان کی تفصیل خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عظیم الشان کتاب ‘حقیقۃ الوحی ’میں بیان فرمائی ہے ۔
حضور نشان نمبر 197 کے تحت درج کرتےہیں کہ
‘‘آسماؔن بارد نشان الوقت میگوید زمین
این دو شاہد از پئے تصدیق من استادہ اند
پرچہ اخباربدر مورخہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۰۷ء مطابق ۲۸؍ محرم ۱۳۲۵ ھ میں ایک الہام شائع ہوا تھا جو ۷؍ مارچ ۱۹۰۷ء کو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر پیشگوئی کے طور پر ظاہر کیا گیا تھا اور اس کی نسبت جو تفہیم ہوئی تھی وہ بھی اسی پرچہ ۱۴؍ مارچ میں درج کردی گئی تھی اور وہ الہام یہ ہے جو کہ اخبار مذکور کے صفحہ ۳ کے پہلے کالم میں درج کیا گیا ہے پچیس۲۵ دن یا یہ کہ پچیس ۲۵ دن تک یعنی ۷؍ مارچ ۱۹۰۷ء سے پچیسویں دن یا یہ کہ ۲۵ دن تک جو ۳۱؍ مارچ ہوتی ہے کوئی نیا واقعہ ظاہر ہونے والا ہے اور اس الہام میں جو تفہیم ہوئی تھی وہ اسی کالم میں مندرجہ ذیل عبارت میں درج ہے اور وہ یہ ہے۔
الہام میں یہ اشارہ ہے کہ ۷؍ مارچ ۱۹۰۷ء سے پچیس دن پورے ہونے کے سر پر یا ۷؍ مارچ سے پچیس۲۵ دن تک کوئی نیا واقعہ ظاہر ہوگا اور ضرور ہے کہ تقدیر الٰہی اس واقعہ کو روک رکھے جب تک کہ سات مارچ ۱۹۰۷ء سے ۲۵ دن گذر نہ جاویں یا یہ کہ ۷؍ مارچ سے ۲۵ دن تک یہ واقعہ ظہور میں آجائے گا۔ اگر صرف ۲۵ دن کے لحاظ سے معنی کیے جاویں تو اس طور سے ضرور ہے کہ اس واقعہ کے ظہور کی یکم اپریل سے امید رکھی جائے کیونکہ الہام الٰہی کی رو سے ساتویں مارچ پچیسویں دن کے شمار میں داخل ہے۔ اس صورت میں پچیس۲۵ دن مارچ کے اکتیسویں دن تک پورے ہوجاتےہیں۔مگر یہ سوال کہ وہ واقعہ کیا ہے جس کی پیشگوئی کی گئی ہے اس کا ہم اس وقت کوئی جواب نہیں دے سکتے بجز اس کے کہ یہ کہیں کہ کوئی ہولناک یا تعجب انگیز واقعہ ہے کہ ظہور کے بعد پیشگوئی کےؔ رنگ میں ثابت ہوجائے گا۔ دیکھو پرچہ اخبار بدر ۱۴؍ مارچ ۱۹۰۷ء پہلا اور دوسرا کالم۔
اس کے بعد جس رنگ میں یہ پیشگوئی ظہور میں آئی وہ یہ ہے کہ ٹھیک ٹھیک ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء کو جس پر ۷؍ مارچ سے۲۵ دن ختم ہوتے ہیں ایک بڑا شعلہ آگ کا جس سے دل کانپ اُٹھے آسمان پر ظاہر ہوا اور ایک ہولناک چمک کے ساتھ قریباً سات ۷۰۰سو میل کے فاصلہ تک(جو اب تک معلوم ہو چکا ہے یا اس سے بھی زیادہ) جا بجا زمین پر گرتا دیکھا گیا اور ایسے ہولناک طور پر گرا کہ ہزارہا مخلوقِ خدا اُس کے نظارہ سے حیران ہو گئی اور بعض بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے اور جب ان کے مُنہ میں پانی ڈالا گیا تب ان کو ہوش آئی۔ اکثر لوگوں کا یہی بیان ہے کہ وہ آگ کا ایک آتشی گولہ تھاجو نہایت مہیب اور غیرمعمولی صورت میں نمودار ہوا اور ایسا دکھائی دیتا تھا کہ وہ زمین پر گرا اور پھر دُھواں ہو کر آسمان پر چڑھ گیا۔ بعض کا یہ بھی بیان ہے کہ دُم کی طرح اس کے ایک حصہ میں دُھواں تھا اور اکثر لوگوں کا بیان ہے کہ وہ ایک ہولناک آگ تھی جو شمال کی طرف سے آئی اور جنوب کو گئی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ جنوب کی طرف سے آئی اور شمال کو گئی اور قریب ساڑھے پانچ بجے شام کے اِس وقوعہ کا وقت تھا اور بعض کا بیان ہے کہ آسمان پر مغرب کی طرف سے ایک بڑا سا انگارا نمودار ہوا اور پھر مشرق کی طرف نہایت نمایاں اور خوفناک طور پر دور تک چلا گیا اور زمین کے اس قدر قریب آجاتا تھا کہ ہر جگہ دیکھنے والوں کا یہی خیال تھا کہ اب گرا اب گرا۔ اور بڑی بڑی عمر کے آدمیوں نے یہ گواہی دی کہ اس قسم کا واقعہ مہیب اور ہولناک انہوں نے کبھی نہیں دیکھا اور جہاں جہاں سے ہمارے پاس خط پہنچے ہیں جن کا خلاصہ ہم نے شہادتوں کے طور پر ہر ایک مقام کے متعلق اس مضمون کے ساتھ شامل کر دیا ہے وہ بہت سے مقام ہیں منجملہ اُن کے کشمیر۔ راولپنڈی۔ پنڈی گھیپ۔ جہلم۔ گجرات۔ گوجرانوالہ۔ سیالکوٹ۔ وزیر آباد۔ امرتسر۔ لاہور۔ فیروزپور۔ جالندھر۔ بسی سرہند۔ پٹیالہ۔ کانگڑہ۔ بھیرہ۔ خوشاب وغیرہ ہیں۔ اور ایک صاحب خدا بخش نام راولپنڈی سے لکھتے ہیں کہ یہ آگ کانشان ہندوستان میں بھی دیکھا گیا ہے۔پس یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ تنبیہ کے طور پر ان ممالک میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آگ برسی ہے جیسا کہ میں نے شائع کیا تھا کہ آسمان اے غافلو اب آگ برسانے کو ہے سو خدا نے یہ پیشگوئی پوری کی۔ اگرچہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا صرف بعض آدمی بے ہوش ہو گئے مگر یہ آگ کی بارش آئندہ کسی بڑے عذاب کی خبر دے رہی ہے۔ اے سننے والو !ہوشیار ہو جاؤ بعد میں پچھتاؤ گے یہ ایک نشان ان نشانوں میں سے ہے جن کی خدا نے مجھے خبر دی اور فرمایا تھا کہ میں ساٹھ یا ستر اور نشان دکھلاؤں گا اور آخری نشان یہ ہوگا کہ زمین کو تہ و بالا کر دیا جائے گا اور ایک ہی دَم میں لاکھوں انسان مر جائیں گے۔ کیونکہ لوگوں نے اس کے فرستادہ کو قبول نہ کیا۔ ہولناک زلزلے آئیں گے اور ہولناک طورپرموتیں وقوع میں آئیں گی۔ اور نئے نئے طور پر عذاب نازل ہوں گے۔ یہاں تک کہ انسان کہے گا کہ یہ کیا ہونے والا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوگا کہ زمین مر گئی اور انسانوں نے خدا کے نشان دیکھے اور پھر ان کو قبول نہ کیا۔ وہ اُن کیڑوں سے بد تر ہو گئے جونجاست میں ہوتے ہیں اور خدا کے وجود پر ان کا ایمان نہ رہا اس لیے خدا فرماتا ہے کہ میں ایک ہولناک تجلّی کروں گا اور خوفناک نشان دکھاؤں گا اور لاکھوں کو زمین پر سے مٹا دوں گا مگر کون ہے جو ہم پر ایمان لایا اور کس نے ہماری یہ باتیں قبول کیں۔’’
(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 517تا519)
ایک صدی بعد سائنس دانوں کی مزید تائیدی گواہی
اسلام، قرآن مجید اور بانیٔ جماعت احمدیہ کی صداقت کے لیے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے آگ برسائی تا اہل دنیا پر آپؑ کی حجت پوری ہو اور وہ خدا تعالیٰ کے اس مامور کو تسلیم کریں اور امن میں داخل ہو جائیں۔ ایک صدی قبل کا نشان اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ
‘‘آسمان اے غافلو اب آگ برسانے کو ہے’’ آج ایک نئی شان میں ظاہر ہوا ہے۔ علم فلکیات کے ماہرسائنس دانوں نے مارچ2020ء میں اپنی تحقیقات کےبعد ایک نئے سیارہ کی دریافت کی ہے۔ جہاں پر واقعی آگ کی بارش ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ کہنا کہ ‘‘آسمان اے غافلو اب آگ برسانے کو ہے۔’’ ایک نئی شان سے پورا ہو رہا ہے۔
چنانچہ اس حوالہ سے لندن سےشائع ہونےوالے مشہور اخبار ڈیلی میل نے 12؍مارچ 2020ء کی اشاعت میں تحریرکیا ہے کہ
4,000 F planet thats so hot it rains iron
SCIENTISTS have found a planet 640 light years away where they bellieve it rains iron. The planet, called WASP-76b, faces its sun on one side where the temperature hits 2,400C(4,350 F)hot enough to vaporise metal in the air. strong winds are believed to carry the iron vapour across to its dark side, which is a cooler, 1,500C(2700F). University of Geneva experts think that creates clouds which rain down iron vapour on the planet in the Plsces constellation. They used the European Southern Observatorys very Large Telescope in Chile,
(Daily Mail London. 12 March 2020)
ترجمہ: سائنس دانوں نے ایک سیارہ دریافت کیا ہے یہ یہاں سے 640روشنی سال دور ہے۔ اور ان سائنسدانوں کے مطابق وہاں آگ برستی ہے۔ اس کرّہ کی وہ سائڈ جو سورج کےسامنے ہے وہاں اس شدید تپش میں ہوا میں جو لوہا ہےوہ پگھل کر بخارات بن جاتا ہے اور تیز ہوائیں ان بخارات کو کرّہ کی دوسری طرف لے جاتی ہیں جو قدرے ٹھنڈی ہے۔ وہاںکی حرارت 2,700 فارن ہائیٹ ڈگری رہتی ہے۔ وہاں یہ پگھلے ہوئے لوہے کے بخارات بادل بن کر آگ کی طرح برستے ہیں۔یہ آسمان سے آگ برسنے کی تحقیق یونیورسٹی آف جنیوا کے ماہرین نے کی ہے۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک صدی قبل جو آگ برساتے آسمان کا ذکر فرمایا تھا۔ آج سائنسدان اپنی تحقیقات سے ایسے کرّوں کی نشاندہی کر رہے ہیں جہاںواقعی سارا سال آسمان سےآگ برستی ہے۔
آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ کے ساتھ اپنےاس مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں۔
‘‘…صادق تو ابتلاؤں کے وقت بھی ثابت قدم رہتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ آخر خدا ہمارا ہی حامی ہوگا اور یہ عاجز اگرچہ ایسے کامل دوستوں کے وجود سے خداتعالیٰ کا شکر کرتا ہے لیکن باوجود اس کے یہ بھی ایمان ہے کہ اگرچہ ایک فرد بھی ساتھ نہ رہے اور سب چھوڑ چھاڑ کر اپنا اپنا راہ لیں ۔ تب بھی مجھے کچھ خوف نہیں۔ مَیں جانتا ہوں کہ خداتعالیٰ میرے ساتھ ہے اگر میں پیسا جاؤں اور کچلا جاؤں اور ایک ذرّے سے بھی حقیر تر ہو جاؤں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور لعنت دیکھوں ۔تب بھی میں آخر فتح یاب ہوں گا ۔ مجھ کو کوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے میں ہرگز ضائع نہیں ہوسکتا ۔ دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لاحاصل ہیں۔
اے نادانو اور اندھو مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاؤں گا ۔کس سچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ ہیچ ہیں۔ میں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا ۔ میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا کبھی نہیں چھوڑے گا کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا کبھی نہیں ضائع کرے گا دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا میں اُس کے ساتھ وہ میرے ساتھ ہے کوئی چیز ہمارا پیوند توڑ نہیں سکتی اور مجھے اُس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اِس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اُس کے دین کی عظمت ظاہر ہو اُس کا جلال چمکے اور اُس کا بول بالا ہو۔ کسی ابتلا سے اُس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگرچہ ایک ابتلا نہیں کروڑ ابتلا ہوں ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے۔’’
(انوار الاسلام،روحانی خزائن جلد9صفحہ 23)
٭…٭…٭