کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو ماننا ضروری ہے؟ (حصہ دوم۔ آخر)
دیکھو۔پادری لوگ گلی اور کوچوں اور بازاروں میں یہی کہتے پھرتے ہیں کہ ہمارا یسوع زندہ ہے اور تمہارا رسول مر چکا ہے۔ اس کا جواب تم ان کو کیا دے سکتے ہو؟ یہ زمانہ تو اسلام کی ترقی کا زمانہ ہے۔ کسوف خسوف بھی پیشگوئی کے مطابق ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے واسطے وہ پہلو اختیار کیا ہے جس کے سامنے کوئی بول نہیں سکتا۔ سوچو انیس سو سال تک مسیحؑ کو زندہ ماننے کا کیا نتیجہ ہوا؟ یہی کہ چالیس کروڑ عیسائی ہو گئے۔ اب دوسرے پہلو کو بھی چند سال کے واسطے آزماؤ اور دیکھو کہ اس کا کیا نتیجہ ہوتا ہے۔ کسی عیسائی سے پوچھو کہ اگر یسوع مسیح کی وفات کو تسلیم کر لیا جائے تو کیا پھر بھی کوئی عیسائی دنیا میں رہ سکتا ہے۔ تمہارا یہ طیش اور یہ غضب مجھ پر کیوں ہے؟ کیا اسی واسطے کہ میں اسلام کی فتح چاہتا ہوں۔ یاد رکھو کہ تمہاری مخالفت میرا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی۔ میں اکیلا تھا۔ خدا تعالیٰ کے وعدے کے موافق کئی لاکھ آدمی میرے ساتھ ہو گئے اور دن بدن ترقی ہو رہی ہے۔ لاہور میں بشپ صاحب نے یہی سوال مسلمانوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ ہزاروں آدمی جمع تھے اور بڑا بھاری جلسہ تھا۔ یسوع کی فضیلت اس نے اس طرح بیان کی کہ وہ زندہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فوت ہو چکے ہیں۔ تب کوئی مسلمان اس کا جواب نہ دے سکا لیکن ہماری جماعت میں سے مفتی محمد صادق صاحب اٹھے جو اِس جگہ اِس وقت موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ثابت کرتا ہوں کہ قرآن، حدیث، انجیل سب کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ چنانچہ انہوںنے ثابت کر دیا۔ تب بشپ کوئی جواب نہ دے سکا اور ہماری جماعت کے ساتھ مخاطب ہونے سے اعراض کیا۔
ان مولویوں پر افسوس ہے کہ میری تذلیل کی خاطر یہ لوگ اسلام پر حملہ کرتے ہیں اور اسلام کی بے عزتی کرتے ہیں۔
تلوار
اور کہتے ہیں کہ مہدی آئے گا تو وہ تلوار کے ساتھ دین پھیلائے گا۔ اے نادانو! کیا تم عیسائیوں کے اعتراض کی مدد کرتے ہو کہ دینِ اسلام تلوار کے ساتھ پھیلا ہے۔ یاد رکھو کہ اسلام کبھی تلوار کے ساتھ نہیں پھیلا یا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی دین جبراً پھیلانے کے واسطے تلوار نہیں اٹھائی بلکہ دشمنوں کے حملوں کو روکنے کے واسطے اور وہ بھی بہت برداشت اور صبر کے بعد غریب مسلمانوں کو ظالم کفار کے ہاتھ سے بچانے کے واسطے جنگ کی گئی تھی اور اس میں کوئی پیش قدمی مسلمانوں کی طرف سے نہیں ہوئی تھی۔ یہی جہاد کا سِرّ ہے۔ آجکل عیسائیوں کے حملے تلوار کے ساتھ نہیں بلکہ قلم کے ساتھ ہیں۔ پس قلم کے ساتھ ان کا جواب ہونا چاہیے۔ تلوار کے ساتھ سچا عقیدہ نہیں پھیل سکتا۔ بعض بیوقوف جنگلی لوگ ہندوؤں کو پکڑ کر ان سے جبراً کلمہ پڑھواتے ہیں۔ مگر وہ جا کر پھر ہندو ہی ہندو ہوتے ہیں۔ اسلام ہر گز تلوار کے ساتھ نہیں پھیلا بلکہ پاک تعلیم کے ساتھ پھیلا ہے۔ صرف تلوار اٹھانے والوں کو مزہ چکھایا تھا۔ اب قلم کے ساتھ، دلائل اور براہین کے ساتھ اور نشانوں کے ساتھ مخالفوں کو جواب دیا جارہا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ کو یہی منظور ہوتا کہ مسلمان جہاد کریں تو سب سے بڑھ کر مسلمانوں کو جنگی طاقت دی جاتی اور آلات حرب کی ساخت اور استعمال میں ان کو بہت دسترس عطا کی جاتی مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ مسلمان بادشاہ اپنے ہتھیار یورپ کے لوگوں سے خرید کر لیتے ہیں۔ تم میں تلوار نہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشا ہی نہیں کہ تم تلوار کا استعمال کرو۔ سچی تعلیم اور معجزات کے ساتھ اب اسلام کا غلبہ ہو گا۔ میں اب بھی نشان دکھانے کو تیار ہوں۔ کوئی پادری آئے اور چالیس روز تک میرے پاس رہے تلواروں کو تو زنگ بھی لگ جاتا ہے پر نشانات کو جو تازہ ہیں کون زنگ لگا سکتا ہے۔
اسلام کے واسطے ایک انحطاط کا وقت ہے۔ اگر ہمارا طریق ان لوگوں کو پسند نہیں تو فتح اسلام کے واسطے کوئی پہلو یہ لوگ ہم کو بتلائیں ہم قبول کر لیں گے۔ اب تو ہر ایک عقلمند نے شہادت دے دی ہے کہ اگر اسلام کی فتح کسی بات سے ہو سکتی ہے تو وہ یہی بات ہے۔ یہانتک کہ عیسائی خود قائل ہیں کہ وفات مسیح کا یہی ایک پہلو ہے جس سے عیسوی مذہب بیخ و بُن سے اُکھڑ جاتا ہے۔ اگر یہ لوگ عیسائیت کو چھوڑ دیں گے تو پھر ان کے واسطے بجز اس کے اَور کوئی دروازہ نہیں کہ اسلام کو قبول کریں اور اس میں داخل ہو جائیں۔ یہی ایک راہ ہے۔ اگر کوئی دوسری راہ کسی کو معلوم ہے تو اس پر فرض ہے کہ اس کو پیش کرے بلکہ اس پر کھانا پینا حرام ہے جب تک اس پہلو کو پیش نہ کر لے۔
اے مسلمانو! سوچو۔ اس میں تمہارا کیا حرج ہے کہ عیسیٰ فوت ہو گیا۔ کیا تمہارا پیارا نبی فوت نہیں ہو گیا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے نام پر تمہیں غصّہ نہیں آتا۔ عیسیٰؑ کی وفات کا نام سن کر تمہیں کیوں غصّہ آتا ہے؟
میرا مطلب نفسانیت کا نہیں۔میں کوئی شہرت نہیں چاہتا۔ میں تو صرف اسلام کی ترقی چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرے دل کو خوب جانتا ہے۔ اسی نے میرے دل میں یہ جوش ڈال دیا میں اپنی طرف سے بات نہیں کہتا۔ پچیس برس سے خدا تعالیٰ کا الہام مجھ سے یہ بات کہلا رہا ہے اُسی زمانہ کا یہ الہام ہے اَلرَّحۡمٰنُ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ۔ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ مُجرم علیحدہ ہو جائیں۔ اور راستباز علیحدہ ہو جائیں۔ میرے پر حملہ کرنے کا کچھ فائدہ نہیں۔ بصیرت والا اپنی بصیرت کو نہیں چھوڑ سکتا۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر کوئی صادق طالب حق ہے تو میرے پاس آوے۔ میں تازہ تر نشان دکھاؤں گا۔ کیا میں اس قدر یقین کو ترک کر کے تمہاری ظنّی باتوں کے پیچھے پڑجاؤں۔ جس شخص کو خدا تعالیٰ نے بصیرت دی۔ نشانوں کے ساتھ اپنےمخاطبات اور مکالمات کے ساتھ اس کی صداقت پر مُہر لگا دی وہ تمہاری خیالی باتوں کو کیا کرے؟ اگر تم اس قدر باتوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہیںلا سکتے تو
اِعۡمَلُوۡا عَلٰی مَکَانَتِکُمۡ اِنِّیۡ عَامِلٌ ۚ فَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ (الانعام:136)
تم اپنی جگہ کام کرو، میں اپنا کام کرتا ہوں۔ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ سچا کون ہے۔
(ملفوظات جلد 8 صفحہ 203تا206۔ ایڈیشن 1984ء )
٭…٭…٭