آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت معاذ بن حارث رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔ خلاصہ خطبہ جمعہ 17؍اپریل 2020ء
دو مسلمان نوجوانوں کے ہاتھوں کافروں کے سردار ابو جہل کے قتل کے واقعہ کی تفصیلات
انتہائی مخلص کارکن اور خادمِ سلسلہ ، ممبر عملہ حفاظت خاص مکرم رانا نعیم الدین صاحب ابن مکرم فیروز دین منشی صاحب کا ذکرِ خیر
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 17؍اپریل 2020ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 17؍اپریل 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم سفیر احمدصاحب کے حصے میں آئی۔
تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج بدری صحابہ میں سے حضرت معاذ بن حارث ؓکا ذکر کروں گا۔ آپؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو مالک بن نجار سے تھا۔ حضرت معاذؓ اپنے دو بھائیوں کے ہم راہ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے۔ دیگردونوں بھائی تو غزوۂ بدر میں شہید ہوگئے لیکن معاذؓبعد کے غزوات میں بھی رسول اللہ ﷺ کے ہم راہ شریک رہے۔ حضرت معاذؓ اُن آٹھ انصار میں شامل ہیں جو آنحضرتﷺ پر بیعتِ عقبہ اولیٰ کے موقعے پرمکّے میں ایمان لائے۔ اسی طرح آپؓ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقعے پر بھی موجود تھے۔ آنحضرت ﷺ نے آپؓ کی مؤاخات حضرت معمربن حارثؓ کے ساتھ قائم فرمائی۔
گذشتہ سال کے خطبے میں ابو جہل کے قتل کی تفصیل بیان ہوچکی ہے لیکن اس کا حضرت معاذؓسے بھی تعلق ہےاس لیے یہاں بھی بیان کرتاہوں۔ بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ روایت کرتے ہیں کہ مَیں بدر کی لڑائی میں صف میں کھڑا تھا ۔ میرے دائیں اور بائیں چھوٹی عمر کے دو انصاری لڑکے کھڑے تھے۔اُن میں سے ایک نے مجھے ہاتھ سے دبا کر ابوجہل کے متعلق پوچھا کہ کیا آپ اسے جانتے ہیں؟میرے دریافت کرنے پر کہ تمہیں ابوجہل سے کیا کام ہے اس انصاری لڑکے نے کہا کہ وہ رسول اللہﷺ کو گالیاں دیتا ہے اور پھر خدا کی قسم کھا کر ابو جہل کو قتل کرڈالنےکا عزم ظاہرکیا۔ اس کے ساتھ ہی دوسرے لڑکے نےبھی مجھ سے یہی سوال کیا۔ عبدالرحمٰنؓ کہتے ہیں کہ تھوڑی دیر میں مَیں نے ابو جہل کو دیکھ کر اشارے سے بتایا کہ وہ ابوجہل ہے تو یہ سنتے ہی وہ دونوں جلدی سے اپنی تلواریں لیے اس کی طرف لپکے اور بھرپور حملہ کرکےاسےجان سے مارڈالا۔ پھر لوٹ کر یہ خبر رسول اللہﷺ کو دی۔ آپؐ نے دریافت فرمایا کہ تم دونوں میں سے کس نے اُسے مارا ہے۔ دونوں کے اقراری جوابات پر آپؐ نے ان کی تلواریں دیکھیں جو خون آلود تھیں اور فرمایا کہ تم دونوں نے ہی اُس کو مارا ہے۔ اِن دونوں کے نام معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن جموح تھے۔
بخاری کی ایک اور روایت کے مطابق حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ بدرکے دن رسول اللہﷺ کے ارشاد پر حضرت ابن مسعودؓ ابوجہل کا حال دیکھنے کے لیے گئے۔ آپؓ نے دیکھا کہ عفراء کے دونوں بیٹوں معاذ اور معوذ نے اسےاتنا مارا ہے کہ وہ مرنے کے قریب ہے۔ایک اور جگہ اس قتل کی تفصیل یوں ملتی ہے کہ معاذ بن عمرو نے ابو جہل پر حملہ کرکے اس کی ٹانگ کاٹ دی تھی۔ اس پر عکرمہ بن ابوجہل نے تلوار کا وار کرکے معاذ کا ہاتھ یا بازو کاٹ ڈالا۔ پھر معوذ نے حملہ کیااور اِن دونوں لڑکوں کے پےدرپے حملوں سے ابوجہل بالکل نڈھال ہوگیا لیکن ابھی زندگی کی رمق باقی تھی کہ عبداللہ بن مسعود نے اس کا سر تن سے جدا کردیا۔
حضورِانور نے بعض دیگر حوالہ جات کی روشنی میں قاتلینِ ابوجہل کی مزید تفاصیل بیان فرمائیں۔ اسی طرح اس قتل کے متعلق حضرت صاحب زادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ کی رقم فرمودہ تفصیل بھی پیش فرمائی۔آپؓ فرماتے ہیں کہ عکرمہ کےوارسےمعاذؓ کا بازو کٹ کر لٹکنے لگا۔ معاذ نے عکرمہ کا پیچھا کیا مگر وہ بچ کرنکل گیا چونکہ کٹا ہوا بازو لڑنے میں مزاحم ہوتا تھا۔ معاذ نے اسے زور سے کھینچ کر اپنے جسم سے الگ کردیا اور پھر لڑنے لگ گئے۔
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ ابو جہل جس کی پیدائش پر ہفتوں اونٹ ذبح کرکے لوگوں میں گوشت تقسیم کیا گیا تھا۔دفوں کی آواز سے مکّہ کی فضا گونج اٹھی تھی۔ جب بدر کی لڑائی میں مارا جاتا ہے تو پندرہ پندرہ سال کے دو انصاری چھوکرے تھے جنہوں نے اسے زخمی کیا تھا۔ جب عبداللہ بن مسعودؓ ابوجہل تک پہنچے تو وہ زخموں کی ناقابلِ برداشت تکلیف سے بےچین تھا۔ ابو جہل نے عبداللہ بن مسعودؓ کواہلِ مکّہ ہونے کا واسطہ دے کر درخواست کی کہ اسے قتل کردیں اور ساتھ ہی اس خواہش کا اظہار کیا کہ عرب کے سردار ہونے کی حیثیت سے اُس کی گردن رواج کے مطابق لمبی کرکے کاٹی جائے۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے ابوجہل کی گردن بالکل ٹھوڑی سے کاٹ دی اور کہا کہ تیری یہ آخری حسرت بھی پوری نہیں کی جائے گی۔
حضرت معاذ بن حارثؓ نے چار شادیاں کی تھیں۔ اُسدالغابہ میں آپؓ کی وفات کے متعلق مختلف اقوال درج ہیں۔ ایک قول کے مطابق معاذؓ غزوۂ بدر میں زخمی ہونے کے باعث مدینے پہنچ کر زخموں کی تاب نہ لاکر فوت ہوئے۔ دوسرے قول کے مطابق آپؓ حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت تک زندہ رہے۔ جبکہ ایک تیسرے قول کے مطابق آپؓ حضرت علیؓ کے دورِ خلافت تک حیات تھے۔ حضورِانور نےاِن متفرق روایات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اولاد اور بیویوں کو دیکھاجائے(اگر یہ وہی ہیں ) تو یہی لگتا ہے کہ آپؓ نے لمبی عمر پائی تھی۔
خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ ا لعزیز نے مکرّم رانا نعیم الدین صاحب ابن مکرّم فیروز دین منشی صاحب کا ذکرِ خیر فرمایا جو چند روز قبل وفات پاگئے تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کاغذات کے مطابق آپ کی پیدائش 1934ء میں ہوئی۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد کے ذریعے ہوا جنہوں نے 1906ء میں بذریعہ خط حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کی تھی۔ 1948ء میں آپ نے خود کو فرقان بٹالین کے لیے پیش کیا۔ اس کے بعد حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے انہیں میرپورخاص کے قریب زمینوں پر بھجوادیا۔ آپ 1951ءسے نظامِ وصیت میں شامل تھے۔حفاظتِ خاص میں 3؍اگست 1954ء کو ان کا تقرر ریزروآن ڈیوٹی کے طور پرہوا اور پھر 1955ءسے 1959ء تک عملہ حفاظتِ خاص میں بطور گارڈ رہے۔ اس دوران حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ نخلہ، جابہ میں کئی کئی مہینے خدمت کی توفیق ملی۔ 1978ء میں عملہ حفاظتِ خاص سے فارغ ہوئےاور ہڑپّہ ضلع ساہی وال چلے گئے۔ جب 1984ء میں احمدیہ مسجد ساہی وال پر حملہ ہوا تو حفاظتی ڈیوٹی پر مامور ہونے کی بنا پر رانا نعیم الدین صاحب نے جواب دیا۔ حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کی بجائےمرحوم اور دیگر احمدی احباب کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس طرح 26؍ اکتوبر 1984ء سے مارچ 1994ء تک آپ کواسیرِ راہِ مولیٰ رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ فوجی عدالت میں لمبے عرصے تک آپ کا کیس معلّق رہا اور بعد میں اسی عدالت نے محترم الیاس منیر صاحب مربی سلسلہ اور رانا نعیم الدین صاحب کو سزائے موت کی سزا سنادی۔ اس فیصلےکے خلاف اپیل پرعدالتِ عالیہ لاہورسے مارچ 1994ء میں رہا ہوئے۔دورانِ اسیری پولیس کی طرف سے تشددکے ذریعے بیان لینے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اس مقدمے سے رہائی کےبعد 1994ء میں آپ لندن شفٹ ہوگئےاور یہاں اپنی عمر کے لحاظ سے بہت بڑھ کر عملہ حفاظت میں ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے۔
مرحوم نے پس ماندگان میں ایک بیٹے رانا وسیم احمد صاحب واقفِ زندگی اور چار بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔ مرحوم صوم و صلوٰة کے پابند، تہجدگذار اور بڑی دعاگو شخصیت کے مالک تھے۔ چندوں کی بےانتہا پابندی کرتے اور ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو چندہ ادا کیا کرتے۔ ربوہ میں آپ کو حضرت اماں جانؓ کی دربانی کا بھی موقع ملا۔ بہت مہمان نواز اور غریب رشتےداروں کا خیال رکھنے والے تھے۔
خلافت کا احترام اور اطاعت کا معیار بہت بڑھا ہوا تھا۔ ایک دفعہ نخلہ میں سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کسی بات پر مرحوم سے خفا ہوگئے اور آپ کو مسجد کے صحن میں بیٹھ کر استغفار کرنے کا حکم دیا۔ آپ مسجد کے صحن میں بیٹھ کر استغفار کرنے لگے ۔ اتنے میں تیز بارش شروع ہوگئی لیکن آپ اپنی جگہ سے نہ ہلے اور استغفار میں مصروف رہے۔ کافی دیر بعد حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کے متعلق دریافت فرمایا تو لوگ آپ کی تلاش میں نکلے۔ جب آپ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؓ نے فرمایا مجھے پتا تھا کہ تم اُدھر ہی بیٹھے ہوگے۔ جاؤ مَیں نے تمہیں معاف کیا۔مرحوم اپنی اولاد کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ خلافت سےایسے چمٹ جاؤ جیسے لوہا مقناطیس سے چمٹتا ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے مرحوم کو ایک خط میں فرمایا کہ اعلیٰ ایمان کی جس مضبوط چٹان پر آپ کھڑے ہیں وہ قابلِ فخر ہے۔ آپ لوگوں کی سعادت پر رشک آتا ہے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ مَیں انہیں بچپن سے جانتا ہوں۔ ہم بھی کچھ دنوں کے لیےبچپن میں نخلہ، جابہ جایا کرتے تھے۔ اُس وقت بھی بڑی شفقت کا سُلوک ہوتا تھا اور خلافت کے بعد تو میرے ساتھ اِس کا رنگ ہی اور تھا۔ حالات کی وجہ سےمَیں ان کا جنازہ نہیں پڑھ سکا اس کا افسوس بھی ہے ان شاء اللہ کسی وقت اِن کا جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔
خطبے کے اختتام پرکورونا وائرس سےمتاثر ہونے والے احمدی مریضوں کے متعلق حضورِانور نےدعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سب کو شفائے کاملہ عطافرمائے اوراپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق دے۔صحیح رنگ میں عبادت کا اور حقوق العباد کا حق ادا کرنے کی توفیق بخشے اور جلد یہ بلا دُور فرمائے۔ دنیا کو بھی عقل دے اور وہ ایک خدا کو پہچاننے والے اور توحید کو جاننے والےبنیں۔
٭…٭…٭