فرائضِ مستورات (قسط دوم)
از: سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں سب تعلقات ہیچ سمجھو
سب سے اعلیٰ تعلق انسان سے خدا تعالیٰ کا ہے۔ ماں باپ کا بہت بڑا تعلق ہوتا ہے لیکن خداتعالیٰ کےتعلق کے مقابلہ میں وہ بھی ہیچ ہے۔ ایک ماں کا بچہ سے یہی تعلق ہوتا ہے کہ وہ اسے نو ماہ تک اپنے پیٹ میں رکھتی ہے اور جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی خبرگیری کرتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا تعلق اس سے بہت زیادہ ہے۔ خداتعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے ماں نے پیدا نہیں کیا۔ پھر ماں جن چیزوں کے ذریعہ بچہ کی پرورش کرتی ہے وہ خداتعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوتی ہیں ماں کی پیدا کردہ نہیں ہوتیں۔ کہتے ہیں ماں نے بچہ کو دودھ پلایا ہوتا ہے اس لئے اس کا بڑا حق ہوتا ہے۔ مگر میں پوچھتا ہوں ماں کہاں سے دودھ پلاتی ہے کیا وہ خدا تعالیٰ کا پیدا کردہ نہیں ہوتا؟ پس اگر ماں نے بچہ کو دودھ پلایا ہے تو خداتعالیٰ نے دودھ بنایا ہے۔ پھر ماں بچہ کو کھانا کھلاتی ہے مگر ماں کا تو اتنا ہی کام تھا کہ کھانا پکا کر کھلا دیتی۔ جب اس کا بچہ پر اتنا بڑا احسان ہے تو خداتعالیٰ جس نے کھانا بنایا اس کا کس قدر احسان ہو گا؟ پھر بچہ جوان ہو کر ماں باپ کی خدمت کرتا ہے اور ان کو کھلاتا پلاتا ہے لیکن خداتعالیٰ کو اس قسم کی کوئی احتیاج نہیں ہوتی۔ پھر ماں باپ کا تعلق مرنے سے ختم ہو جاتا ہے مگر خداتعالیٰ کا تعلق مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ پس ماں باپ کا تو بچہ سے ایسا تعلق ہوتا ہے جیسے راہ چلتے مسافر کا تعلق اس درخت سے ہوتا ہے جس کے نیچے وہ تھوڑی دیر آرام کرتا ہے۔ لیکن خداتعالیٰ کا تعلق ایسا ہوتا ہے کہ جو کبھی ختم ہی نہیں ہوتا۔ تو خداتعالیٰ کا انسان سے بہت بڑا اور عظیم الشان تعلق ہے۔ مگر افسوس کہ لوگ دنیا کے رشتہ داروں کا تو خیال رکھتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ عام طور پر عورتیں جھوٹ بول لیتی ہیں کہ ان کے مرد خوش ہو جائیں اور یہ خیال نہیں کرتیں کہ اللہ تعالیٰ کا ان سے جو تعلق ہے اس کو اس طرح کس قدر نقصان پہنچ جائے گا۔ اسی طرح دنیا کی محبت میں اس قدر منہمک ہو جاتی ہیں کہ جب بچہ پیدا ہو جائے تو بچہ کی محبت کی وجہ سے نماز میں سست ہو جاتی ہیں اور اکثر تو نماز چھوڑ ہی دیتی ہیں۔ روزہ کی کوئی پروا نہیں کرتیں حالانکہ انہیں خیال کرنا چاہئے کہ بچہ کی حفاظت اور پرورش تو ہم کرتی ہیں لیکن خدا وہ ہے جو ہماری حفاظت اور پرورش کر رہا ہے۔
برادری کی رسوم کو شریعت پر ترجیح نہ دو
پھر کئی قسم کی رسمیں اور بدعتیں ہیں جن کے کرنے کے لئے عورتیں مردوں کو مجبور کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اگر اس طرح نہ کیا گیا تو باپ دادا کی ناک کٹ جائے گی گویا وہ باپ دادا کی رسموں کو چھوڑنا تو پسند نہیں کرتیں کہتی ہیں اگر ہم نے رسمیں نہ کیں تو محلہ والے نام رکھیں گے لیکن اگر خداتعالیٰ ان کا نام رکھے تو اس کی انہیں پروانہیں ہوتی۔ محلہ والوں کی انہیں بڑی فکر ہوتی ہے لیکن خداتعالیٰ انہیں کافر اور فاسق قرار دے دے تو اس کا کچھ خیال نہیں ہوتا۔ کہتی ہیں یہ ورتارا ہے اسے ہم چھوڑ نہیں سکتیں۔ حالانکہ قائم خدا تعالیٰ ہی کا ور تارا رہے گا باقی سب کچھ یہیں رہ جائے گا اور انسان اگلے جہان چلا جائے گا جہاں کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کا دن ایسا سخت اور خطرناک ہو گا کہ ہر ایک رشتہ دار رشتہ داروں کو چھوڑ کر الگ الگ اپنی فکر میں گرفتار ہو گا۔ پس عورتوں کو چاہئے کہ اس دن کی فکر کریں۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرو اور اس تعلق کو مضبوط کرو جو قیامت میں تمہارے کام آئے گا۔ دنیا کے تعلق اور دنیا کی باتیں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں۔
ہمارے پیشوا خاتم الانبیاء کا اسوہ ٔحسنہ
دیکھو جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور آکر کہا کہ خدا ایک ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں ہے اس وقت ان کے سارے رشتہ دار بتوں کے آگے سجدے کرتے اور ان کو خداتعالیٰ کا شریک سمجھتے تھے۔ اکثر عورتوں کو معلوم ہو گا کہ مجاوروں کا گزارہ لوگوں کی منتوں پر ہی ہوتا ہے۔ احمدیت سے پہلے تم میں کئی عورتیں خانقاہوں پر جاتی ہوں گی یا جن کو احمدیت کی تعلیم سے ناواقفیت ہے اور جو اپنے مذہب میں کمزور ہیں ممکن ہے وہ اب بھی جاتی ہوں۔ انہوں نے دیکھا ہو گا کہ مجاوروں کی آمدنی انہی لوگوں کے ذریعہ ہوتی ہے جو وہاں جاتے ہیں۔ تو مکہ والے بتوں کے مجاور تھے انہوں نے کعبہ میں بت رکھے ہوئے تھے جن پر لوگ دور دور سے آکر نذریں چڑھاتے تھے جنہیں وہ آپس میں بانٹ لیتے تھے۔ یا لوگ بتوں کی پرستش کے لئے وہاں جمع ہوتے اور وہ تجارت کے ذریعہ ان سے فائدہ اٹھاتے تھے اس لئے بتوں کو چھوڑ دینے سے وہ سمجھتے تھے کہ ہم بھوکے مر جائیں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے رشتہ دار ایسے ہی تھے جن کا گزارہ بتوں پر تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کھڑے ہوئے تو آپؐ نے کسی رشتہ دار کی پروا نہ کی اور بڑے زور کے ساتھ کہہ دیا کہ صرف خدا ہی ایک معبود ہے باقی سب معبود جھوٹے ہیں۔ یہ بات آپؐ کے رشتہ داروں کو بہت بری لگی اور انہوں نے آپؐ کو تکلیفیں دینا شروع کر دیں۔ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک پہاڑ پر چڑ ھ گئے اور لوگوں کو بلایا جب لوگ آگئے تو کہا تم جانتے ہو مَیں جھوٹ بولنے والا نہیں۔ انہوں نے کہا ہاں ہم جانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا لشکر موجود ہے جو مکہ کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو تم مان لو گے؟ انہوں نے کہا ہاں ہم مان لیں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کا عذاب تم پر آنے والا ہے تم اس سے بچ جاؤ اور شرک کر کے خداتعالیٰ کے عذاب کے مستوجب نہ بنو۔ یہ بات سن کر وہ گالیاں دیتے چلے گئے اور کہنے لگے یہ تو سودائی ہو گیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی پروانہ کی اور پہلے کی طرح ان کو شرک سے روکتے رہے۔ اس پر لوگ جمع ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے پاس گئے اور جا کر کہا اپنے بھتیجے کو سمجھاؤ یہ ہمارے بتوں کی مذمت کرتا ہے باز آجائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا نے لوگوں سے کہہ دیا کہ جو بات وہ سچے دل اور پورے یقین کے ساتھ کہتا ہے اسے وہ کس طرح چھوڑ سکتا ہے۔ آخر بڑے بڑے لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں اور جا کر کہیں کہ جو کچھ تم کہو گے ہم مان لیں گے لیکن تم بتوں کے خلاف کہنا چھوڑ دو۔ چنانچہ لوگ گئے اور جا کر کہا کہ ہم قوم کی طرف سے آئے ہیں اور تم بہت اچھے آدمی ہو ہم نہیں سمجھتے تم قوم کو تباہ ہونے دو گے ہم تمہارے پاس ایک پیغام لائے ہیں اس کو قبول کرو تاکہ تفرقہ نہ پڑے اور ہماری قوم تباہ نہ ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سناؤ کیا پیغام لائے ہو۔ انہوں نے کہا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر تمہیں مال کی ضرورت ہے تو ہم تمہیں مال جمع کر کے دے دیں۔ اور اگر تم کسی اعلیٰ گھرانے میں رشتہ کرنا چاہتے ہو تو امیر سے امیر گھرانہ کی اچھی سے اچھی عورت سے رشتہ کرا دیتے ہیں اور اگر یہ چاہتے ہو کہ لوگ تمہاری باتیں مانیں تو ہم لکھ دیتے ہیں کہ جس طرح سے تم کہو گے اسی طرح ہم کریں گے۔ اگر تم بادشاہ بننا چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں مگر تم یہ نہ کہو کہ ایک ہی خدا ہے اور کوئی معبود نہیں ہے۔ اس کا جواب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا دیا۔ یہ کہ اگر تم سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کر بھی رکھ دو تو پھر بھی میں تمہاری یہ بات نہ مانوں گا۔
رسموں کو چھوڑ دو
مگر عورتیں کہتی ہیں اگر ہم نے فلاں رسم نہ کی تو محلہ والے کیا کہیں گے۔ اب تو رسمیں کم ہوتی جاتی ہیں تاہم ہندوؤں کی رسمیں جو مسلمانوں میں آگئی ہیں ان کے متعلق سوچنا چاہئے کہ ان کا کیا فائدہ ہے؟ عقلمند انسان وہی کام کرتا ہے جس میں کوئی فائدہ ہو۔ مگر آج کل بیاہ شادیوں میں جو رسمیں کی جاتی ہیں ان کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ صرف اس لئے کی جاتی ہیں کہ ہمارے باپ دادا کی رسمیں ہیں۔ مگرجن لوگوں میں ایمان داخل ہو جاتا ہے اور وہ دین پر عمل کرتے ہیں وہ ہرگز اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ ان کے باپ دادا کیا کیا کرتے تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کے باپ دادا کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے۔ آپؐ نے کفر سے نکال کر ایمان جیسی نعمت عطاء کی اس لئے آپؐ سے بڑھ کر کسی کی کیا وقعت ہو سکتی ہے۔ لیکن افسوس کہ لوگ آپؐ کو چھوڑ کر باپ دادا کی فضول رسموں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور چونکہ یہ باتیں زیادہ تر عورتوں میں پائی جاتی ہیں اس لئے ان کی حالت بہت ہی قابلِ افسوس ہے۔
ایک صحابیؓ عورت کا نمونہ
مَیں مثال کے طور پر بتاتا ہوں کہ وہ عورتیں جو سچے دل سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتی تھیں ان کی کیا حالت تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب دشمنوں کے تکلیفیں پہنچانے پر مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آگئے تو مکہ والوں نے وہاں بھی آپؐ کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہاں بھی لڑائی کرنے کے لئے آگئے۔ مدینہ سے چار میل کے فاصلہ پر ایک جگہ تھی جہاں لڑائی شروع ہوئی۔ اگرچہ کافر بہت زیادہ تھے اور ان کے مقابلہ میں مسلمان بہت تھوڑے تھے لیکن مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ جب فتح ہو گئی تو چند لوگ جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ کھڑے رہنے کا حکم دیا تھا اور فرمایا تھا خواہ کچھ ہو تم اس جگہ سے نہ ہلنا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں لڑائی کے لئے یہاں کھڑا کیا گیا تھا جب ہماری فتح ہو گئی ہے تو پھر ہمیں یہاں کھڑے رہنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے سردار نے کہا خواہ کچھ ہو چونکہ ہمیں کھڑے رہنے کا حکم ہے اس لئے یہاں سے نہیں جانا چاہئے۔ لیکن دوسروں نے کہا ہمارا کھڑا ہونا لڑائی کے لئے تھا اب جبکہ دشمن بھاگ گیا تو پھر کھڑے رہنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ کہہ کر جب وہ وہاں سے ہٹ گئے تو کافروں نے جو بھاگے جارہے تھے دوبارہ یک لخت حملہ کر دیا اور ایسے زور سے حملہ کیا کہ مسلمانوں میں جو دشمن کی طرف سے مطمئن ہو چکے تھے ابتری پھیل گئی۔ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو گئے اور آپؐ کے دو دانت شہید ہو گئے اور مشہور یہ ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں یہ سن کر مسلمانوں کوبہت صدمہ ہوا۔حتیٰ کہ فرطِ غم کی وجہ سے حضرت عمرؓ جیسے بہادر انسان سر نیچے کر کے بیٹھ گئے۔ایک صحابی ؓ ان کے پاس سے گزرے اور پوچھا کیا ہوا۔ انہوں نے کہا رسول کریم ﷺ شہید ہو گئے ہیں۔ یہ سن کر اس صحابیؓ نے کہا اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو یہاں بیٹھنے کا کیا فائدہ؟ چلو جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گئے ہیں وہیں ہم بھی جائیں۔ یہ کہہ کر وہ دشمن پر حملہ آور ہوا اور اس قدر سختی سے لڑا کہ جب اس کی لاش دیکھی گئی تو معلوم ہوا کہ اس پر ستر زخم لگے ہوئے ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ تھے۔ اور کیوں محفوظ نہ ہوتے جب کہ خداتعالیٰ کا آپؐ سے وعدہ تھا کہ کوئی تمہیں مار نہیں سکتا۔ (المائدۃ:68)آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جو صحابی آپؐ کے ساتھ تھے انہیں تو آپؐ کے زندہ ہونے کا علم ہو گیا لیکن مدینہ میں پہلے خبر پہنچ چکی تھی اس لئے مدینہ کے بچے اور عورتیں دیوانہ وار باہر نکلے۔ اس وقت جبکہ لشکر واپس آرہا تھا ایک صحابی آگے آگے تھا اس سے ایک عورت نے بے تحاشا آکر پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس کے دل میں چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اطمینان اور تسلی تھی اس لئے اس نے اس بات کو معمولی سمجھ کر کہا تمہارا باپ مارا گیا ہے۔ عورت نے کہا میں نے تم سے پوچھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا تمہارا بھائی بھی مارا گیا ہے۔ عورت نے کہا میں یہ پوچھتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا تیرا خاوند بھی مارا گیا ہے۔ عورت نے کہا میری بات کا تم جواب کیوں نہیں دیتے۔ میں پوچھتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں یہ سن کر عورت نے کہا شکر ہے خدا کا ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو ہمیں اَور کسی کی پروانہیں۔ (سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 92)
(جاری ہے)
٭…٭…٭