شرائط بیعت اور ہماری ذمہ داریاں
خیانت نہ کرو اور فساد سے بچو
دوسری شرط بیعت(حصہ چہارم)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
خیانت نہ کرو
پھر خیانت کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ
وَ لَا تُجَادِلۡ عَنِ الَّذِیۡنَ یَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ خَوَّانًا اَثِیۡمًا (النساء:108)
اور ان لوگوں کی طرف سے بحث نہ کر جو اپنے نفسوں سے خیانت کرتے ہیں۔ یقینا ًاللہ سخت خیانت کرنے والے گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔
ایک حدیث میں ہے۔حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ جو تمہارے پاس کوئی چیز امانت کے طور پر رکھتا ہے اس کی امانت اسے لوٹا دو۔ اور اس شخص سے بھی ہرگز خیانت سے پیش نہ آئو جو تم سے خیانت سے پیش آچکا ہے۔
(سنن ابوداؤد۔ کتاب البیوع۔ باب فی الرجل یاخذ حقہ … )
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
‘‘دوسری قسم ترک شر کے اقسام میں سے وہ خلق ہے جس کو امانت و دیانت کہتے ہیں۔ یعنی دوسرے کے مال پر شرارت اور بدنیتی سے قبضہ کر کے اس کو ایذا پہنچانے پر راضی نہ ہونا۔ سو واضح ہو کہ دیانت اور امانت انسان کی طبعی حالتوں میں سے ایک حالت ہے۔ اسی واسطے ایک بچہ شیرخوار بھی جو بوجہ اپنی کم سنی اپنی طبعی سادگی پر ہوتا ہے اور نیز بباعث صغر سنی ابھی بری عادتوں کا عادی نہیں ہوتا اس قدر غیر کی چیز سے نفرت رکھتا ہے کہ غیر عورت کا دودھ بھی مشکل سے پیتا ہے’’۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۰۔ صفحہ۳۴۴)
فساد سے بچو
پھر فساد کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے
وَ ابۡتَغِ فِیۡمَاۤ اٰتٰٮکَ اللّٰہُ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ وَ لَا تَنۡسَ نَصِیۡبَکَ مِنَ الدُّنۡیَا وَ اَحۡسِنۡ کَمَاۤ اَحۡسَنَ اللّٰہُ اِلَیۡکَ وَ لَا تَبۡغِ الۡفَسَادَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُفۡسِدِیۡنَ (القصص:78)۔
اور جو کچھ اللہ نے تجھے عطا کیا ہے اس کے ذریعہ دارِآخرت کمانے کی خواہش کر اور دنیا میں سے بھی اپنا معیّن حصہ نظرانداز نہ کر اور احسان کا سلوک کر جیسا کہ اللہ نے تجھ سے احسان کا سلوک کیا اور زمین میں فساد (پھیلانا) پسند نہ کر۔ یقیناً اللہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جنگ دو طرح کی ہے ۔ ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے امام کی اطاعت کی جاتی ہے۔ایسا شخص اپنا اچھا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتاہے اور اپنے شریک سفر کے لئے سہولت پیدا کرتاہے اور فساد سے اجتناب کرتاہے۔ پس ایسے شخص کا سونا جاگنا تمام کا تمام مستوجب اجرہے۔ اور ایک وہ شخص ہوتاہے جو فخرکے لئے اور دکھاوے کے لئے اور اپنی بہادری کے قصے سنانے کے لیے لڑتا ہے ۔ایسا شخص امام کی نافرمانی کرتاہے اور زمین میں فساد پھیلاتاہے۔ پس ایسا شخص اوپر والے شخص کا ہم پلّہ ہو کرنہیں لوٹتا۔
(سنن ابی داؤد ۔کتاب الجہاد ۔ باب فیمن یغزو ویلتمس الدّنیا)
حضرت اسماءؓ بنت یزید روایت کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ کیا مَیں تم میں سے بہترین لوگوں کے بارہ میں تم کو نہ بتائوں؟ صحابہ ؓنے عرض کیا: کیوں نہیں یارسول اللہ ! ضرور بتائیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جب وہ کوئی اچھا منظر دیکھتے ہیں تو ذکرالٰہی میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ پھر فرمایا: کیامَیں تم کو شریر ترین افراد سے نہ آگاہ کروں؟ شریر ترین لوگ وہ ہیں جو چغل خوری کی غرض سے چلتے پھرتے ہیں۔ محبت کرنے والوں کے درمیان بگاڑ پیدا کردیتے ہیں ۔
ورفرمانبردار لوگوں کے بارہ میں ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ گناہ میں مبتلا ہو جائیں ۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد 6۔ صفحہ 459۔ مطبوعہ بیروت)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
‘‘تمہیں چاہئے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیںکہ تم نے خداتعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کرلی ہے ان سے دنگہ یا فساد مت کرو بلکہ ان کے لئے غائبانہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے۔ تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر دکھائو کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔ دیکھو مَیںاس امر کے لئے مامور ہوں کہ تمہیں باربار ہدایت کرو ں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیا ں سن کر بھی صبر کرو۔ بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہترہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جائو اور نرمی سے جواب دو۔ … …جب مَیںیہ سنتاہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے ۔اس طریق کو مَیں ہرگز پسند نہیں کرتا اور خداتعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے۔ بلکہ مَیں تمہیں یہ بھی بتادیتاہوں کہ اللہ تعالیٰ یہاں تک اس امر کی تائید کرتاہے کہ اگر کوئی شخص اس جماعت میں ہو کر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یاد رکھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے۔ نہایت کار اشتعال اور جوش کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں تو اس معاملہ کو خداکے سپرد کردو۔ تم اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ میرا معاملہ خدا پر چھوڑ دو۔ تم ان گالیوں کو سن کر بھی صبر اور برداشت سے کام لو’’۔(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد چہارم۔ صفحہ 157)
(شرائط بیعت اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ 38تا41)