رؤیتِ ہلال کا انوکھا طریق
اسلام نے ان معاملات میں عوام الناس کی سہولت پر بنیاد رکھی ہے
سابقہ سالوں کی طرح اس سال بھی میں ارادہ رکھتا تھا کہ انشاء اللہ رمضان کی برکات کے متعلق دوستوں کے فائدہ کے لئے ایک مضمون لکھ کر شائع کروں گا لیکن رمضان سے ایک ہفتہ پہلے بیماری نے اس طرح پکڑا کہ کسی مضمون کے ذریعہ دوسروں کو فائدہ پہنچانا تو درکنار خود بھی روزوں سے محروم ہوا جاتا ہوں۔ مسلسل بخار اور انتڑیوں کی سوزش اور جگر کے بڑھ جانے نے نڈھال کر رکھا ہے۔ اس لئے اپنے اس ارادہ کو پورا نہیں کر سکا۔ احباب سے دُعا کی درخواست ہے ۔
لیکن اس رمضان کے شروع میں ایک ایسی بات پیش آئی ہے جس نے مجھے یہ مختصر نوٹ املا کرانے پر مجبور کر دیا ہے۔ جیساکہ اخبار پڑھنے والے دوستوں کو معلوم ہو گا۔ اس سال گو پنجاب میں اتوار یعنی ۱۸ جون ۱۹۵۰ءکو پہلا روزہ رکھا گیا ہے لیکن جیسا کہ پاکستان ٹائمز وغیرہ میں چھپاہے کراچی میں ہفتہ یعنی ۱۷ جون سے پہلی رات کو چاند دیکھا گیا اور اس تاریخ کو وہاں پہلا روزہ ہوا۔ خیر اس قسم کے اختلاف تو مطلع کے اختلاف کے نتیجہ میں بھی ہو جایا کرتے ہیں لیکن کراچی میں چاند دیکھنے کا جو طریق بیان کیا گیا ہے وہ بالکل انوکھا اور غالباً اسلام کی تاریخ میں اس قسم کی پہلی مثال ہے کیونکہ جیسا کہ اخباروں میں چھپا ہے کراچی میں جمعہ کی شام کو علماء کی ایک پارٹی ہوائی جہاز میں بیٹھ کر فضا میں بلند ہوئی اور جب تک چاند نظر نہیں آیا۔ ( کیونکہ اس وقت قریب کی فضا میں بادل تھے۔) پارٹی بلند سے بلند تر ہوتی گئی۔ حتیٰ کہ وہ پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ گئی۔ اس بلندی پر پہنچ کر سب سے پہلے جہاز کے پائیلٹ نے جہاز کے دیدیان میں سے جھانک کر ہلال کو دیکھا اور اس کے بعد اس کی دعوت پر علماء کی اس پارٹی کے ایک ایک فرد نے اس کی جگہ لے کر چاند کی زیارت کی اور پھر زمین پر اتر کر رمضان المبارک کا اعلان کر دیا گیا۔
(پاکستان ٹائمز لاہور 17؍جون1950ء)
بظاہر یہ طریق ایک نیا علمی طریق ہے اور غالباً اس سے پہلے کسی اسلامی ملک میں اس طریق کو اختیار نہیں کیا گیا اور شاید اکثر لوگ اس خبر کو پڑھ کر خوش بھی ہوئے ہوں گے کہ اس نئی ایجاد نے ہلال بینی کی مشکل کو حل کر دیا ہے۔ مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ طریق اسلامی منشاء کے خلاف ہے۔ کیونکہ اسلام نے اس قسم کے معاملات میں جو عام پبلک عبادتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ سائنس کے مخصوص طریقوں اور باریک علمی رستوں کی بجائے عوام الناس کی سہولت اور جمہور کے بدیہی منظر پر بنیاد رکھی ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ
الشھر تسع و عشرون لیلۃً فلا تصو موا حتیٰ تروہ فان غُم علیکم فاکملوا العدّۃ ثلاثین۔
(بخاری کتاب الصوم باب قول النبی اذا رائیتم الھلال فصومواواذا راٰیتموہ)
‘‘یعنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ کبھی چاند کا مہینہ انتیس رات کا ہوتا ہے (اور کبھی تیس رات کا ہوتا ہے) پس اے مسلمانو تم رمضان کے روز ے اس وقت تک شروع نہ کیا کرو جب تک کہ شعبان کی انتیس تاریخ کے بعد چاند نہ دیکھ لو اور اگر انتیس تاریخ کی شام کو تمہارے علاقہ میں بادل ہوں تو اس صورت میں تیس کی گنتی پوری کر کے روزے شروع کیا کرو۔ ’’
اس صحیح حدیث میں جو غالباً بخاری اور مسلم دونوں میں آتی ہے ہلال کی رؤیت کایہ واضح اور صاف طریق بیان کیا گیا ہے کہ چونکہ چاند کا مہینہ کبھی انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دن کا ہوتا ہے۔ اس لئے اگر انتیس شعبان کی شام کو چاند نظر آجائے اور لوگ اسے دیکھ لیں تو فبہا لیکن اگر انتیس کو چاند نظر نہ آئے اور بادل ہوں تو پھر تیس کی گنتی پوری کر کے اگلے دن سے روزہ شروع کرنا چاہئے۔ اب اس صاف اور سیدھے طریق کو چھوڑ کریہ خیال کرنا کہ ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر اور بادلوں سے اوپر پرواز کر کے چاند دیکھنے کی کوشش کی جائے ایک خواہ مخواہ کا تکلف ہے جو اس قسم کے معاملات میں اسلامی منشاء کے خلاف ہے۔ دراصل ان عبادات کے معاملہ میں جو عوام الناس سے تعلق رکھتی ہیں اسلام نے کسی باریک علمی طریق پر بنیاد نہیں رکھی بلکہ پبلک کی سہولت اور عوام الناس کی رؤیت پر بنیاد رکھی ہے اور یہ اصول روزے کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ ہر وسیع اسلامی عبادت کے معاملہ میں یکساں چلتا ہے مثلاً جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے نمازوں کے اوقات میں سورج کے طلوع اور زوال اورغروب پر بنیاد رکھی گئی ہے جو ایک بدیہی چیز ہے اور ہر شخص کی پہنچ کے اندر ہے نہ کہ کسی خاص طبقہ کی اجارہ داری۔ اسی طرح رمضان میں روزوں کے مہینہ کے آغاز کو چاند کی رؤیت پر مبنی قرار دیا گیا ہے اور یومیہ روزہ کی ابتداء اور انتہاء کو سورج کے طلوع اور غروب کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے اور یہ بھی اسی طرح کی ایک بدیہی چیز ہے جو کسی خاص گروہ کے ساتھ مخصوص نہیں۔ اسی طرح حج کے مہینہ اور حج کی تاریخوں کو چاند کی رؤیت کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے مگر حج کے روزانہ مراسم کو سورج کی حرکات کے ساتھ جوڑا گیا ہے گویا اس قسم کی ساری عمومی عبادتوں کو چاند اور سورج کی نظر آنے والی حرکات پر مبنی قرار دیا گیا ہے تاکہ عوام الناس ان کے متعلق خود اپنی تسلی اور رؤیت کے مطابق فیصلہ کر سکیں۔
اوپر کی تشریح میںضمناً اس سوال کا جواب بھی آ جاتا ہے جو بعض لوگ جلد بازی میں کیا کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ اسلام کے احکام اور اسلام کے اوقات صرف چاند کے ساتھ وابستہ کیے گئے ہیں اور گویا نظام قمری کو اختیار کر کے نظام شمسی کو ترک کر دیا گیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ اعتراض بالکل غلط اور جہالت پر مبنی ہے کیونکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اسلامی عبادتوں کے احکام صرف چاند کے ساتھ ہی وابستہ نہیں بلکہ حسب ضرورت اور حسب حالات چاند اور سورج دونوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ یعنی اگر کسی امر میں عوام الناس کی سہولت چاند کی رؤیت کے ساتھ وابستہ ہے تو اسے چاند کی حرکات پر مبنی قرار دے دیا گیا ہے اور اگر کسی امر میں پبلک کی سہولت سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ ہے تو اسے سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ قرار دے دیا گیا ہے۔ پس نظام شمسی اور نظام قمری دونوں اسلامی نظام ہیں اور دونوں سے اسلام نے یکساں فائدہ اٹھایا ہے بلکہ شاید اسلام کے زیادہ احکام نظام شمسی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مثلاً نمازوں کے اوقات جو سب سے افضل ترین عبادت ہے کلیۃً سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس کے مقابل پر رمضان کے بعض احکام ( مثلاً رمضان کے مہینہ کا آغاز اور انجام) چاند کی رؤیت کے ساتھ وابستہ ہیں اور بعض احکام (مثلاً یومیہ روزے کا آغاز اور انجام) سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہی حال حج کا ہے کہ اس کے مہینہ اور تاریخ کی تعیین تو چاند کے ساتھ وابستہ ہے لیکن تاریخوں کے اندر حج کے یومیہ مراسم سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ گویا موٹے طور پر نماز اور روزہ اور حج کے احکام کا ۳\۲ حصہ سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے اور ۳\۱ حصہ چاند کی حرکات کے ساتھ وابستہ رکھا گیا ہے اور اس سارے نظام میں یہی حکیمانہ اصول چلتا ہے کہ عوام الناس کی سہولت کے لئے چاند اور سورج کی بدیہی رؤیت اور بدیہی حرکات پر بنیاد رکھی جائے۔ الغرض اسلام نے عبادتوں کے اوقات کو عوام الناس کی سہولت کے لئے چاند اور سورج کی بدیہی حرکات پر مبنی قرار دیا ہے۔ اس لئے میری ناقص رائے میں یہ بات درست نہیں کہ ان معاملات میں اسلامی عبادتوں کے احکام کو ان کے بدیہی میدان سے ہٹا کر کسی مخصوص علمی اور سائینٹفک طریق سے وابستہ کر دیا جائے اور عبادات کے اوقات کا فیصلہ ایک خاص طبقہ کی اجارہ داری بن جائے۔
اسلام کے مقرر کردہ طریق میں ایک بھاری حکمت یہ بھی ہے کہ اس میں ہر مسلمان کی ذاتی دلچسپی براہ راست قائم رہتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں دینی روح لازماً ترقی کرتی ہے اور عبادتوں کے اوقات کے انتظار اور تعیین میں ہر فرد کا ذاتی شوق نہ صرف حصہ دار بنتا ہے بلکہ بڑھتا اور نشوونما پاتا ہے۔ دیکھو یہ کیسا روح پرور نظارہ ہے کہ شعبان کی انتیس تاریخ کو ہر مسلمان رمضان کے انتظا رمیں اور ہلال رمضان کی رؤیت کے شوق میں آسمان کی طرف نظریں اٹھائے رہتا ہے کہ اس کا محبوب چاند کب نظر آتا ہے اور پھر وہ چاند کو دیکھ کر کتنی روحانی خوشی سے بھر جاتا ہے اور نئے زمانہ کی برکات کے واسطے کس طرح دعائوں وغیرہ میں منہمک ہو جاتا ہے لیکن ہوائی جہاز میں بیٹھ کر چند علماء یا چند امراء کا فضا کی بلندیوں میں پہنچ کر چاند دیکھ لینا اور عوام الناس کا اس سے محروم رہنا اس ساری روحانی کیفیت اور اس سارے ذوق و شوق پر گویا پانی پھیر دیتا ہے۔ بے شک بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ باریک ہونے کی وجہ سے چاند صرف چند تیز نظر لوگوں کو نظر آتا ہے لیکن یہ بات شاذ ہے اور بہر حال قاعدہ یہی ہے کہ اکثر لوگ خود چاند کو دیکھ کر ذاتی شوق کو پورا کرتے ہیں اور جنہیں چاند نظر نہیں آتا۔ وہ بھی کم از کم اس کی جستجو اور تلاش میں کچھ وقت خرچ کر کے اپنے شوق و ذوق کے جذبے کو پورا کر لیتے ہیں۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ انتیس شعبان کی شام کو صحابہ کرام ؓ روزوں کے آغاز کے انتظار میں اس طرح باہر نکل نکل کر آسمان کی طرف دیکھتے تھے کہ اس سے مدینہ کی گلیوں میں ایک خاص قسم کی روحانی کیفیت اور گہما گہمی پیدا ہو جاتی تھی۔ یہ کیفیت بھلا ہوائی جہازوں کی رؤیت کے ذریعہ کس طرح حاصل کی جا سکتی ہے؟
لیکن سب سے زیادہ اہم بات غالباً مطلع کے اختلاف کی ہے۔ ہر شخص جانتا ہے زمین کے گول ہونے کی وجہ سے مختلف مقامات کا مطلع جدا ہوتا ہے اور جن دو جگہوں میں ایک خاص نوع کا فاصلہ زیادہ ہو جائے وہاں مطلع کا فرق اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ ایک جگہ چاند نظر آتا ہے اور دوسری جگہ نظر نہیں آتا ۔بہر حال جو چاند یہاں نظر آ رہا ہے ضروری نہیں کہ وہ خاص جہت کے فرق سے پانچ سات سو میل پیچھے کے علاقہ میں بھی نظر آئے خصوصاً جبکہ وہ افق کے قریب ہو اور اس کے طلوع کا وقت بھی تھوڑا ہو۔ بہر حال جغرافیائی لحاظ سے ہر جگہ کا مطلع جدا ہوتا ہے اور حدیث میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ ہر علاقہ کے لوگوں کو اپنے مطلع کی رؤیت پربنیاد رکھنی چاہئے۔
چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ایک مسلمان شام سے مدینہ کی طرف آیا اور اس نے آکر خبر دی کہ شام میں فلاں دن چاند دیکھ کر روزہ رکھا گیا ہے۔ یہ دن مدینہ کی رؤیت ہلال کے خلاف تھا اس پر بعض مسلمانوں میں چہ میگوئی ہوئی اور وہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ یا شائد حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس پہنچے اور ان سے پوچھا کہ اس معاملہ میں اسلام کا کیا فتویٰ ہے انہوں نے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرمایا کرتے تھے کہ لوگوں کو چاہئے کہ اپنے مقامی مطلع پر بنیاد رکھا کریں۔ پس اگر شام میں کسی اَور دن روزہ رکھا گیا ہے تو کوئی بات نہیں۔ شام والوں کے لئے وہی رمضان کا آغاز سمجھا جائے گا جبکہ انہوں نے شام میں چاند دیکھا لیکن ہم مدینہ والوں کے لئے رمضان کا آغاز اس تاریخ کے مطابق سمجھا جائے گا جبکہ مدینہ میں چاند دیکھا گیا۔
(نیل الاوطار مصنفہ امام شوکانی)
اس حدیث سے جو اس وقت میں نے یاد سے لکھی ہے۔ مگر اس کا معین حوالہ بعد میں تلاش کر کے پیش کیا جا سکتا ہے ثابت ہے کہ اسلام نے اس معاملہ میں مطلع کے اختلاف کو بھی ضرور ملحوظ رکھا ہے۔ یعنی اگر مطلع مختلف ہو جائے تو حکم یہ ہے کہ اپنی مقامی رؤیت کے مطابق عمل کرو۔ اب ظاہر ہے کہ جس طرح فاصلہ کے لحاظ سے مطلع بدلتا ہے اسی طرح وہ بلندی کے لحاظ سے بھی بدلتا ہے۔ زمین پر کھڑے ہو کر ہمارا مطلع اور ہوتا ہے اور پندرہ ہزار فٹ اوپر جانے کے نتیجہ میں وہ اور ہو جائے گا اور اس فرق کے نتیجہ میں یہ بالکل ممکن بلکہ اغلب ہے کہ جو چیز زمین پر کھڑے ہو کر نظر نہیں آسکتی وہ اوپر جانے سے نظر آنے لگے۔ دراصل جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے مطلع کا اختلاف زیادہ تر زمین کی گولائی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جس طرح خاص جہت میں چند سو میل آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے زمین کے درمیانی حصہ کی گولائی کا عنصر کم و بیش ہو جاتا ہے اسی طرح لازماً وہ بلندی کے نتیجہ میں بھی بدل سکتا ہے اور بدلے گا۔ پس اس لحاظ سے بھی یہ بات درست نہیں کہ ہم پندرہ پندرہ ہزار فٹ فضاء میں بلند ہو کر چاند دیکھنے کی کوشش کریں۔کیونکہ اس طرح مطلع کافی بدل سکتا ہے حالانکہ شریعت ہمیں ہمارے مقامی مطلع کی پابند قرار دیتی ہے نہ کسی دوسرے مطلع کی۔
خلاصہ یہ کہ چاند دیکھنے کا جو طریق اس سال کراچی میں ایجاد کیا گیا ہے وہ میری رائے میں درست نہیں کیونکہ :
(۱) وہ رؤیتِ عامہ کے اصول کے خلاف ہے۔(۲) وہ عوام الناس کے جذبہ شوق و ذوق کو کم کرنے والا ہے۔ اور(۳) اس میں مطلع بدل جاتا ہے۔ حالانکہ شریعت کا منشاء یہ ہے کہ ایسے امور میںمقامی مطلع پر بنیاد رکھی جائے۔
میں نے یہ نوٹ بیماری کی حالت میں بستر میں لیٹے لیٹے املا کرایا ہے اور تکلیف کی وجہ سے اس کی نظر ثانی بھی نہیں کر سکا لیکن بہرحال میں امید کرتا ہوں کہ میرا یہ نوٹ ہمارے دوستوں کو کم از کم ایک ذہنی خوراک مہیا کرنے میں ضرور کامیاب ہو گا۔ بالآخر میں پھر اپنے لئے دعا کی درخواست کرتا ہوں۔
(مطبوعہ الفضل 24؍جون 1950ء)