رمضان المبارک کی برکات
’’رمضان کی اصل غرض یہ ہے کہ اس ماہ میں انسان خداتعالیٰ کے لیے ہر ایک چیز چھوڑنے کے لیے تیار ہو جائے۔‘‘
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ شعبان کے آخری دن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں یہ بشارت دی کہ
‘‘کل سے تم پر ایک عظیم مہینہ طلوع ہو رہا ہے اس مہینہ میں ایک رات ایسی آتی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے فرض قرار دیے ہیں۔اس ماہ کی راتوں میں تہجد کے لیے اٹھنا بہت بڑی طوعی نیکی ہے ۔اس ماہ کے دوران جو شخص بھی کوئی نفلی کام کرتا ہے اسے اتنا ثواب ملتا ہے جتنا کہ دیگر مہینوں میں فرض ادا کرنے سے ملتا ہے اورفرض کا ثواب تو اس ماہ میں ستر گنا زیادہ ہو جا تا ہے ۔
یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ۔پھر یہ باہمی ہمدردی کا مہینہ ہے ۔اس ماہ میں مومن کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔جو شخص اس مہینہ میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرواتا ہے اسے گناہوں سے مغفرت حاصل ہوتی ہے اور اس کی گردن آگ سے آزاد کی جاتی ہے اور روزہ دار کے ثواب میں کسی قسم کی کمی کیے بغیر روزہ افطار کرانے والے کو بھی ویسا ہی ثواب ملتا ہے ’’
بچپن کے ابتدائی دور، اطفال کی تنظیم میں آنے سے قبل ہی ہمیں یہ یاد کروایا گیاتھا کہ ارکان اسلام پانچ ہیں:
1۔ کلمہ طیبہ ،لَا اِلٰهَ اِ لَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہ
2۔نماز قائم کرنا
3۔رمضان کے روزے رکھنا
4۔زکوٰة ادا کرنا اور
5۔بیت اللہ کا حج بجا لانا
رمضان کے روزے ہر ایسے مسلمان پر فرض ہیں جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے ہوں ۔بیمار اور مسافر نہ ہوں اور حائضہ خواتین نہ ہوں ۔لیکن انہیں معاف نہیں ہیں ان کے لیے حکم ہے کہ وہ بعد میں اپنے روزے پورےکریں البتہ ایسے کمزور ،ناتواں ، مستقل مریض نیز ایسی مرضعہ اورحاملہ خواتین جنہیں صحت یاب ہونے کی توقع نہ ہو وہ حسبِ توفیق روزوں کے بدلہ میں فدیہ ادا کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ رمضان المبارک اپنی تمام برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ چند دنوں میں شروع ہو رہا ہے۔ رمضان کے روزے قمری حساب سے رکھے جاتے ہیں ۔چنانچہ یہ سال کے مختلف موسموں میں آتے رہتے ہیں ۔امسال یہ موسم بہار میں آ رہے ہیں۔ یہ مہینہ روحانیت کا بھی موسم بہار ہے۔رمضان کے روزے فرض ہیں چنانچہ قرآن کریم میں ارشادِ خداوندی ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ۔اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔ شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٮکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ۔(البقرہ:184تا186)
‘‘اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔گنتی کے چند دن ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اتنی مدت کے روزے دوسرے ایام میں پورے کرے۔ اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ پس جو کوئی بھی نفلی نیکی کرے تو یہ اس کے لیے بہت اچھا ہے۔ اور تمہارا روزے رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لیے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اُتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اِس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرنا دوسرے ایام میں ہوگا۔ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم (سہولت سے) گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اُس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو۔’’
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ روزے اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جس طرح دوسرے مذاہب میں فرض کیے گئے تھے۔ چنانچہ گو روزے کے طریق میں فرق ہے لیکن روزے یہود،عیسائی اور ہندو مت وغیرہ میں بھی پائے جاتے ہیں۔
روزہ اور اس کا شاندار اجر
روزے کی اہمیت واضح کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ
‘‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کے سب کام اس کی اپنی ذات کے لیےہی ہوتے ہیں لیکن روزہ میرے لیےہے اور میں خود اس کی جزاء بنوں گایعنی اُس کی اس نیکی کے بدلہ میں اسے اپنا دیدار نصیب کروں گا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔روزہ ڈھال ہے۔ پس تم میں سے جس کا روزہ ہو تووہ نہ بیہودہ باتیں کرے گا۔ نہ شور و شر کرے گا۔اور اگر اس سے کوئی گالی گلوچ کرے یا لڑائی جھگڑا کرے تو وہ جواب میں کہہ دے ۔میں نے تو روزہ رکھا ہوا ہے ۔فرمایا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے روزے دار کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے بھی زیادہ پاکیزہ اور خوشگوار ہے۔ کیونکہ اس نے اپنا یہ حال خدا تعالیٰ کی خاطر کیا ہے ۔ روزے دار کےلیے دو خوشیاں مقدر ہیں ۔ایک خوشی اُسے اُس وقت ہوتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی اُسے اُس وقت ہو گی جب روزے کی وجہ سے اسے اللہ تعالیٰ کی ملاقات نصیب ہو گی۔’’
(بخاری کتاب الصوم)
روزہ فرض ہے لہذا اسے کسی معمولی بات کو عذر بنا کر چھوڑنا درست نہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
‘‘ جو شخص بغیر کسی عذر کے رمضان کا ایک روزہ بھی ترک کرتا ہے وہ شخص بعد میں تمام عمر بھی اس کے بدلے میں روزے رکھے تو بھی بدلہ نہیں چکا سکے گا’’
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
‘‘میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتا ہوں۔طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی’’
روزہ کی غرض و غایت
روزہ کی غرض و غایت قرآن کریم نے ‘‘تقویٰ’’ بیان فرمائی ہے۔تقویٰ کیا ہے! تقویٰ قلب کی وہ کیفیت ہے جس سے انسان کے دل میں نیک کاموں کی رغبت پیدا ہو جاتی ہے اور بُرے کاموں سے نفرت ہو جاتی ہے ۔انسان جس طرح نیکی میں قدم بڑھاتا ہے اس کے لیے تقویٰ کی باریک راہیں بھی کھلتی چلی جاتی ہیں ۔ روزہ دراصل انسان کی روحانی بیماریوں کا علاج ہے۔ صرف بھوکا اور پیاسا رہنے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح موعود رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں:‘‘روزوں کی اصل غرض کسی کو بھوکا یا پیاسا مارنا نہیں ہے۔اگر بھوکا مرنے سے جنت مل سکتی تو میں سمجھتا ہوں کافر سے کافر اور منافق سے منافق لوگ بھی اس کے لینے کے لیے تیار ہو جاتے کیونکہ بھوکا پیاسا مَر جانا کوئی مشکل بات نہیں’’
نیز فرمایا:
‘‘رمضان کی اصل غرض یہ ہے کہ اس ماہ میں انسان خداتعالیٰ کے لیے ہر ایک چیز چھوڑنے کے لیے تیار ہو جائے۔ اس کا بھوکا رہنا علامت اور نشان ہوتا ہے اس بات کا کہ وہ اپنے ہر حق کو خدا کے لیے چھوڑنے کے لیے تیار ہے ۔کھانا پینا انسان کا حق ہے ۔میاں بیوی کے تعلقات اس کا حق ہے۔اس لیے جو شخص ان باتوں کو چھوڑتا ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے لیے اپنا حق چھوڑنے کے لیےتیار ہوں ۔ناحق کا چھوڑنا تو بہت ادنیٰ بات ہے اور کسی مومن سے یہ اُمید نہیں کی جا سکتی کہ وہ کسی کا حق مارے مومن سے جس بات کی اُمید کی جا سکتی ہے وہ یہی ہے کہ خداتعالیٰ کی رضاء کے لیے اپنا حق بھی چھوڑ دے۔ لیکن اگر رمضان آئے اور یونہی گذر جائے اور ہم یہی کہتے رہیں کہ ہم اپنا حق کس طرح چھوڑ دیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے رمضان سے کچھ حاصل نہ کیا کیونکہ رمضان یہی بتانے کے لیے آیا تھا کہ خدا کی رضا کے لیے اپنے حقوق بھی چھوڑ دینے چاہئیں۔’’
(الفضل 30؍ مارچ 1926ء)
چنانچہ قرآن کریم نے یہ بتایا ہے اگر تم روزے رکھو گے۔ اپنے حقوق خداتعالیٰ کے لیے چھوڑ دو گے تو تمہارے لیے تقویٰ کی راہیں کھل جائیں گی۔
نمازوں کا التزام
نماز کا قیام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑے اہتمام سے فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے ۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ‘‘ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔’’اس مہینہ میں نمازوں کو اُس کی پوری شرائط کے ساتھ ادا کرنا انتہائی لازمی ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ نماز کو اس وجدان کے ساتھ ادا کرو کہ گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو۔اور اگر ایسا نہ ہوتو کم از کم اس بات کا یقین ہو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الایمان)
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ نماز انسان کو بے حیائی اور بدیوں سے متنفر کر دیتی ہے ۔حقیقت یہ ہےکہ نماز انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور عظمت پیدا کرتی ہے۔جس کے نتیجہ میں وہ ہر نافرمانی سے بچتا اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکام پر عمل کرنےکی کوشش کرتا ہے۔نماز کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ‘‘مومن کا معرا ج’’ قرار دیا ہے ۔مومن کو تمام روحانی رفعت نماز سے ہی ملتی ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
‘‘ہمارا اپنا اور ان راستبازوں کا جو پہلےہو گزرے ہیں ان سب کا تجربہ ہے کہ نماز سے بڑھ کر خدا کی طرف لے جانے والی کوئی چیز نہیں ’’
(ملفو ظات جلد 9صفحہ110۔ایڈیشن 1984ء)
قیام اللیل
فرض نمازوں کے بعد جس نفلی عبادت پر زور دیا گیا ہے وہ تہجد کی نماز ہے۔ارشادِ ربّانی ہے
وَ مِنَ الَّيلِ فَتَهَجَّد بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ۔ (بنى اسرائيل :80)
یعنی رات کو اُٹھ کر عبادت کر یہ تجھ پر ایک زائد انعام ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ آپ رات کے پچھلے حصّہ میں بیدار ہو کر ایک بڑا حصّہ عبادت میں گزارتے تھے ۔رمضان کے مہینہ میں آپ کے اس معمول میں شدت آجاتی تھی ۔آخری عشرہ میں تو اپنی ازواج کو بھی تہجد کے لیے جگایا کرتے تھے۔
(بخاری کتاب الصوم)
تہجد کی نماز تزکیہ نفس اور روح کی صفائی کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے ۔رمضان کا مہینہ اس کی عادت ڈالنے کے لیے بہترین موقع فراہم کرتا ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
‘‘ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں’’
(ملفوظات جلد دوم صفحہ182ایڈیشن1988ء)
تراویح
معذور اور محنت کش طبقہ کے لوگ جو تہجد کے لیے اُٹھ نہیں سکتے ۔ان کے لیے ماہ رمضان میں نماز تراویح کا انتظام کیا جاتا ہے تاکہ وہ تہجد کے ثواب سے بالکل محروم نہ رہ جائیں۔ نماز تراویح نماز عشاء کے بعد با جماعت ہوتی ہے ۔اس میں قرآن کریم سنایا جاتا ہے۔روزہ کے لیے نماز تراویح کی شرط نہیں اگر کسی نے روزہ نہ بھی رکھنا ہو تو وہ بھی نماز تراویح ادا کر سکتا ہے۔
اگر کورونا وائرس کی وجہ سے زیادہ افراد کے اکٹھے ہونے پر حکومت کی طرف سے پابندی ہو اور تراویح باجماعت ادا نہ ہو سکتی ہو تو احباب نماز تہجد کا باقاعدگی سے التزام کریں۔نماز عشاء کے بعد وتر پڑھنے کی بجائے نماز تہجد کے ساتھ وتر ادا کیے جا سکتے ہیں۔
غیر معمولی علاقوں میں روزے
انتہائی شمالی علاقوں میں دن اور رات کے اوقات غیر معمولی حد تک طویل ہوتے ہیں ۔ناروے کے انتہائی شمال میں یورپ کا خشکی کا علاقہ ختم ہو جاتاہے اس لیے اسے دنیا کا آخری کنارہ بھی سمجھا جاتا ہے اسے نارتھ کیپ یا نور کپ کہتے ہیں۔ یہاں اپریل سے لے کر جولائی /اگست تک سورج روشنی دیتا رہتا ہے اس لیے اس علاقہ کو چھ ماہ دن اور چھ ماہ رات کی سر زمین کہا جاتا ہے جب ہمارے ہاں آدھی رات ہوتی ہے یہاں سورج اپنی تابناک کرنوں سے روشنی پھیلا رہا ہوتا ہے اس لیے یہ نصف شب کے سورج کی سرزمین بھی کہلاتی ہے۔ناروے اور اسی طرح فن لینڈ اور شمالی روس میں جیسے جیسے شمال کی طرف بڑھتے جائیں دن اور رات کا دورانیہ غیر معمولی طور پر طویل ہوتا جاتا ہے۔گرمیوں میں دن لمبے ہوتے ہیں جبکہ سردیوں میں بہت چھوٹے ہو جاتے ہیں ۔ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں بسا اوقات گرمیوں میں دن کا دورانیہ بیس سے اکیس گھنٹے ہو جاتا ہے۔ تراویح سے فارغ ہو کر جب انسان گھر پہنچتا ہے تو بمشکل سحری سے فارغ ہوتا ہے۔یہاں مقیم غیر از جماعت بعض مسلمان اپنے اپنے ممالک کے اوقات کی پابندی کرتے ہیں ۔بعض قریبی ممالک اور بعض مکہ اور مدینہ کے اوقات کو مدِّ نظر رکھتے ہیں۔ جماعت احمدیہ خلافت کی نعمت سے سرفراز ہے اس لیے حضرت خلیفۃ المسیح کے حکم کے مطابق عمل کرتی ہے چنانچہ ایسے علاقوں کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ وہ سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے کا انتظار نہ کریں بلکہ سحری اور افطار کے اوقات مقرر کر لیں ۔اسی طرح نماز کے بھی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر ناروے،فن لینڈ ، اور روس کے شمالی علاقوں کےغیر معمولی اوقات کے لیےمرکز کا یہ فیصلہ ہے کہ مقامی جماعتیں باہمی مشورہ سے اوقات کا تعین کر لیں افطاری اورسحری میں کم از کم چھ گھنٹے کاوقفہ رکھ لیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث صحیح مسلم کتاب الفتن میں بھی یہی ہے کہ ان علاقوں میں نماز وغیرہ کے لیے وقت کا اندازہ کر لیا کرنا ۔
تلاوت قرآن مجید
قرآن پاک کو رمضان المبارک سے ایک خاص نسبت ہے۔اس مہینہ میں حضرت جبر ئیل ؑآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر قرآن کریم کا دَور مکمل کیا کرتے تھے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا۔ جبرئیل ہر سال رمضان میں میرے ساتھ قرآن کریم کا دَور کیا کرتے تھے۔اس سال انہوں نے دو دفعہ قرآن کریم کا دَور مکمل کیا ہے۔ جس سے میں سمجھتا ہوں کہ میری وفات کا وقت قریب ہے۔
ماہ رمضان میں قرآن مجید کو معمول سے زیادہ پڑھنا چاہیے۔ اس کی کثرت سے تلاوت کرنی چاہیے۔قرآن کریم کی تلاوت کا طریق اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ
رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ۔(سورۃ المزمل:5)
قرآن کو خوب نکھار کر پڑھا کر۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ۔ (سورۃ ص :30)
عظیم کتاب جسے ہم نے تیری طرف نازل کیا، برکت دی گئی ہے تاکہ یہ (لوگ) اس کی آیات پر تدبر کریں اور تاکہ عقل والے نصیحت پکڑیں۔
ہمارے جن بھائیوں بہنوں کو ترجمہ نہیں آتا ان کو عمدہ ترجمہ والا قرآن حاصل کر کے تلاوت کے ساتھ ساتھ ترجمہ بھی پڑھنا چاہیے۔اردو تراجم میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تفسیر صغیر،حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا ترجمہ اور حضرت میر محمد اسحٰق صاحب رضی اللہ عنہ کا ترجمہ قرآن بہترین تراجم ہیں۔تلاوت کے دَوران قرآن کریم کے مضامین پر غور کرتے رہنا چاہیے۔جب تلاوت کے دوران خدا تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کا ذکر آتا تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے اور جب رحم و کرم کی آیات آتیں تو دعا کیا کرتے تھے۔ تدبر سے تلاوت کرنے سے قلب و روح کا تزکیہ ہوتا ہے اور اعمالِ صالحہ بجا لانے کی تحریک ہوتی ہے۔امام مہدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے:
‘‘تم قرآن کو تدبرسے پڑھواور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہوکیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا اَلْخَيْرُ كُلُّهٗ فِىْ القُرآن کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہی ہیں’’
(کشتی نوح ،روحانی خزائن جلد 19صفحہ26تا27)
جماعت احمدیہ میں خلافت ثالثہ کے زمانے سے احمدی احباب و خواتین کی سہولت کی غرض سے تعلیم القرآن کا ایک شعبہ قائم ہے ۔اس شعبہ کے زیر انتظام قرآن کریم درست تلفظ کے ساتھ ،تجوید اور حفظ قرآن سکھانے نیز ترجمہ اور تفسیر بھی پڑھانے کا انتظام کیا گیا ہے ۔مستورات اور بچوں (اطفال خدام انصار اور لجنات) کے لیے بھی الگ انتظام موجود ہے۔نہایت قابل اور تجربہ کار اساتذہ آن لائن کلاسز میں پڑھاتے ہیں۔یہ کلاسز چوبیس گھنٹے مہیّا ہوتی ہیں اور دنیا کے کسی بھی ملک سے احمدی طلباء و طالبات اپنے گھروں سے اس انتظام سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان انتظامات سے کما حقہ استفادہ کریں۔
ایم ٹی اے سے استفادہ
رمضان المبارک کے دوران ایم ٹی اے سے درس القرآن کے علاوہ دیگر دینی، علمی اور تربیتی پروگرام آتے ہیں۔ ان مبارک ایام میںدیگرپروگراموں کو دیکھنے کی بجائے ایم ٹی اے کے روحانی پروگراموں سے استفادہ کیا جانا چاہیے ۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی پیغام میں ارشاد فرمایا ہے کہ احباب ان دنوں میں اپنے افراد خاندان کے ساتھ اکٹھے بیٹھ کر ایم ٹی اے کے پروگرام دیکھا کریں ۔
غرباء سے ہمدردی
رمضان کے مبارک دنوں میں غریبوں سے عملی ہمدردی کی بہت ضرورت ہے۔روزہ انسان کے اندر رحم، ہمدردی اور ایثار کے احساس اور جذبات کو پیدا کرتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یوں تو بہت فیّاض اور سخی تھے لیکن رمضان کے مہینہ میں تو آپ کا جود و کرم اتنا بڑھ جاتا تھا کہ آپ غرباء اور مستحقین کے لیے باد و باراں سے بڑھ کر ابر رحمت بن کر برستے تھے۔
(بخاری کتاب الصوم)
قرآن کریم میں یتیموں کی پرورش،بیوائوں اور مساکین کی خبر گیری، اور محتاجوں کی حاجت روائی کی با بار تاکید آئی ہے۔اسے احسان کا نام نہیں دیا گیا بلکہ ارشاد ہے کہ یہ ان کا حق ہے ۔اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتا ہے:
وَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ
(الذاریات:20)
یہ اور ان کے اموال میں سوال کرنے والوں اور بے سوال ضرورت مندوں کے لیے ایک حق تھا۔
لہذا ہمارا یہ فرض ہے کہ اس بابرکت مہینہ میں کثرت سے صدقات دیں تاکہ جماعتی نظام کے تحت مستحقین کی بروقت امداد کی جا سکے۔اسی طرح فطرانہ مقامی جماعت کی طرف سے مقرر کردہ شرح کے مطابق عید سے قبل رمضان میں ہی ادا کر دینا چاہیے تاکہ جماعتی نظام کے تحت مستحقین تک بروقت پہنچ سکے۔
حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ کا خصوصی پیغام
کورونا وائرس کی وجہ سے حکومت کی طرف سےجمعہ کے اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی تھی ۔چنانچہ مورخہ 27؍ مارچ بروز جمعہ حضور نے خطبہ جمعہ ارشاد نہیں فرمایا بلکہ اپنے دفتر سے احباب جماعت کو پیغام دیا جس میں ارشاد فرمایا کہ ان دنوں میں جبکہ احباب اپنے گھروں تک محدود ہیں اپنے گھروں میں نماز با جماعت کی عادت ڈالیں۔ اس وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اہل و عیال کی تربیت میں وقت گزاریں۔
اگر اس وبا کا اثر رمضان تک جاتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ رمضان کے بابرکت ایام حضور انورکے اس ارشاد پر عمل کرتے ہوئے گزاریں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے پیارے خلیفہ کے ہر حکم پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے اور ہمیں اپنی رضاکی جنت کا وارث بنائے۔اور رمضان کی برکات سے ہمیں اور ہمارے اہل و عیال کو مستفیض فرمائے ۔آمین۔
٭…٭…٭