معاشرے میں عورت کا کردار
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نےجماعت احمدیہ گھانا کے جلسہ سالانہ 2004ء کے خطاب میں خاص طور خواتین سے بھی چند منٹ کے لئےخطاب فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
‘‘خواتین کا معاشرے میں ایک اہم کردار ہے۔ ایک عورت کا بنیادی کردار اس کے گھر سے شروع ہوتا ہے جہاں وہ ایک بیوی اور ایک ماں کی حیثیت سے عمل کر رہی ہوتی ہے یا مستقبل کی ماں کی حیثیت سے اگر ابھی شادی نہیں ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہماری توجہ اس طرف مبذول کروائی ہے کہ ہمیشہ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو۔ اگر عورتیں اس بات کو سمجھ لیں اور خدا کا خوف کرنے لگیں اور تقویٰ کی راہوں پر چلیں تو وہ اس قابل ہوجائیں گی کہ ایک انقلاب معاشرے میں پیدا کردیں۔ ایک عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اور جب خاوند گھر پر نہ ہو تو وہ اس بات کی ذمہ دار ہے کہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت پر زیادہ توجہ دے’’۔
پھر فرمایا: ‘‘پس اے احمدی عورتو! تم اپنے اس اعلیٰ مقام کو پہچانواور اپنی نسلوں کو معاشرے کی برائیوں سے بچاتے ہوئے ان کی اعلیٰ اخلاقی تربیت کرواور اس طرح سے اپنی آئندہ نسلوں کے بچاؤ کی ضمانت بن جاؤ۔ اللہ ان لوگوں کی مدد نہیں کرتا جو اس کے احکام کو وقعت نہیں دیتے۔ اللہ آپ کو اپنا مقام سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ اپنی آئندہ نسل کو سنبھالنے والی بن سکیں۔ آمین’’۔
(جلسہ سالانہ گھانا 2004ء۔ اَلاَزْھَارُلِذَوَاتِ الْخِمَار۔ ‘‘اوڑھنی والیوں کیلئے پھول’’ جلد سوم حصہ اول)
2004ء میں نائیجیریا میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطاب میں احمدی خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘ عورتیں یاد رکھیں کہ اُن کا اسلامی معاشرے میں ایک بلند مقام ہے۔ اگر انہوں نے اپنے اس بلند مقام کو نہ پہچانا تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ ان کی آئندہ نسلیں ایمان پر قائم رہیں گی۔ خواتین اپنے اس مقام کو پہچانیں جو اُن کا معاشرے میں ہے۔ نہیں تو وہ اپنے خاوندوں اور آئندہ نسلوں کی نافرمان اور اُن کا حق ادا نہ کرنے والی سمجھی جائیں گی اور سب سے بڑھ کر وہ اپنے پیدا کرنے والے سے بے وفائی کر رہی ہوں گی۔ پس یہ انتہائی اہم ہے کہ ہر احمدی عورت اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتی رہے اور ہمیشہ یہ دعا کرتی رہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی راہنمائی کرے اور اس کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کی اسلامی تعلیمات کے مطابق پرورش کرسکے۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ایک عورت جو اپنی پانچ وقت نمازوں کی پابندی کرتی ہے اور جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اپنے آپ کو اخلاقی برائیوں سے بچایا اور اپنے خاوند کی اخلاص اور وفا سے خدمت کی۔ ایسی عورت کا حق ہے کہ وہ جنت میں کسی بھی دروازے سے داخل ہوجائے۔ میری دعا ہے کہ ہر احمدی عورت اپنے خاوند کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والی ہو اور اپنے بچوں کے فرائض کا حق ادا کرنے والی ہو۔ اللہ کرے کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کرے اور ان کی پاک اور بااخلاق ماحول میں پرورش کرے اور اس وجہ سے جنتوں کی وارث بنے’’۔
(جلسہ سالانہ نائجیریا 2004ء۔ اَلاَزْھَارُلِذَوَاتِ الْخِمَار۔ ’’اوڑھنی والیوں کیلئے پھول‘‘ جلد سوم حصہ اول)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ یوکے 2006ء کے موقع پر احمدی مسلمان عورتوں کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشادفرمایا:
‘‘عورت کو ہمارے دین نے گھر کا نگران اور خاوند کے گھر کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ جب تک تم اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانو گی اور اپنی ذمہ داری نہیں سمجھوگی تمہارے ہاں سکون نہیں پیدا ہوسکتا ’’۔
مزید فرمایا:
‘‘ آپ احمدی عورتیں کسی قسم کے احساس کمتری کے بجائے احساس بر تری کی سوچ پیدا کریں۔ اپنی تعلیم کو کامل اور مکمل سمجھیں۔ قرآن کریم کی تعلیم پر پوری توجہ دیں اس پر کاربند ہوں تو آپ انشاء اللہ تعالیٰ دنیا کی رہنما کا کردار ادا کریں گی۔ ورنہ اگر صرف اس دنیا کے پیچھے ہی دوڑتی رہیں تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ سب کچھ ختم ہوجائے گا اور ہاتھ ملتی رہ جائیں گی اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسی قومیں عطا فرمائے گا جو اس کام کو آگے بڑھائیں گی۔ لیکن مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ اعزاز ان پرانی نسلوں اور پرانے خاندانوں ان احمدی عورتوں کے ہاتھ میں ہی رہے گا جو مشکل وقت میں جن کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت ملی۔ پس آپ لوگ اپنے اندر یہ احساس ذمہ داری کبھی ختم نہیں ہونے دیں گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ آپ کو توفیق دے۔ پس اس نعمت عظمیٰ کی قدر کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے تاکہ آپ کا ہر قدم اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں آگے سے آگے بڑھتا چلاجانے والا قدم ہو اور آپ اپنے پیچھے ایسی نسل چھوڑ کر جانے والی ہوں جو اگلی نسلوں کے دلوں میں بھی اللہ کے دین کی عظمت پیدا کرنے والی ہوں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو ’’۔
(جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ 29؍ جولائی2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍جون 2015ء)
٭…٭…٭