فقہی مسائلمتفرق مضامین

رؤیت ہلال

(انیس احمد ندیم۔ مبلغ انچارج جاپان)

چاند دیکھنے کی روایت اور موجودہ زمانہ میں علمی و سائنسی ذرائع کا استعمال

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارک سے ثابت ہے کہ آپؐ نئے چاند کا استقبال دعا سے کرتے اوراللہ تعالیٰ کے حضور امن و سلامتی کے لیے ملتجی ہوتے ۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب نیا چاند دیکھتے تو یہ دعا مانگتے۔

أللّٰہُمَّ !أ ہِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْأ مْنِ وَالْاِیْمَانِ،وَ السَّلاَمَۃِ وَ الْاِسْلَامِ ، رَبِّی وَ رَبُّکَ اللّٰہُ ۔

( الترمذی۔ کتاب الدعوات باب مایقول عند رویة الہلال )

حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب نیا چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے ۔ ھِلاَلُ خَیْرٍوَّ رُشْدٍ ، پھرتین دفعہ یہ فقرات دہراتے :

أللّٰہُمَّ! اِنِّی أسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِ ہٰذَا اور تین دفعہ ہی یہ دعائیہ فقرات پڑھتے، أللّٰہُمَّ! اِنِّی أسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِ ہٰذَا الشَّہْرِ وَ خَیْرِ الْقَدْرِوَ أعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہٖ

(المعجم الکبیر للطبرانی جلد 4صفحہ276)

حضرت عبد اللہ بن مطرف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ جب نیا چاند دیکھتے تو یہ دعا مانگتے ۔

ھِلاَلُ خَیْرٍوَّ رُشْدٍ ، ألْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی ذَھَبَ بِشَہْرٍ کَذًا وَجَآءَ بِشَہْرٍ کَذًا، أسْألُکَ مِنْ خَیِرِ ھٰذَا الشَّہْرِوَنُوْرِہٖ وَبَرَکَتِہٖ وَھُدَاہُ وَطُھُوْرِہٖ وَمُعَافَاتِہٖ۔( کنزالعمال 18047)

احادیث کے مختلف متون اور متفرق صحابہ کی بیان فرمودہ روایات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموما ًچاند دیکھنے کا اہتمام فرماتے تھے اور چاند دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے خیر وبرکت کی دعا مانگا کرتے تھے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کے تتبع میں رؤیت ہلال کا پہلو کسی نہ کسی صورت میں مسلمانوں کی تہذیب وثقافت کا حصہ بنا چلا آرہا ہے۔عیدین اور رمضان کے چاند کو دیکھنے کے لیےغیر معمولی ذوق وشوق کا اظہار مذہبی مسئلہ سے زیادہ اسلامی معاشرہ کے تہذیبی پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

کچھ دہائیوں پہلے تک رمضان اور عیدین کےچاند دیکھنے کے لیے لوگ اپنی چھتوں پر چڑھ آتےیا کھلے میدانوں میں نکل کردُور افق کی طرف نظریں جمائے بڑی بے تابی سے رؤیت ہلال کا اہتمام کرتے تھے ۔ اور جب چاند نظر آجاتا تو خوشی ومسرت دیدنی ہوتی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کی پیروی میں دعاؤں کے ساتھ نئے چاند کو خوش آمدید کہنے کا رواج عام تھا ۔

قادیان میں رؤیت ہلال کا اہتمام

مسلم معاشرہ میں رؤیت ہلال کے لیے جو ذوق وشوق پایاجاتا تھا اس کی ایک جھلک قادیان میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ چاند دیکھنے کے بارے میں امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معمول کے بارہ میں یوں ذکر ملتا ہے کہ

یکم دسمبر 1902ء۔دربار شام

آج رمضان المبارک کا چاند دیکھا گیا ۔ بعد نماز مغرب خود حجة اللہ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام) سقفِ مسجد پر رؤیت ہلال کے لئے تشریف لے گئے اور چاند دیکھا اور مسجد میں آکر فرمایا کہ رمضانِ گزشتہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کل گیا ہے۔

(الحکم نمبر 44 جلد 6 ،10؍ دسمبر 1902ء صفحہ 8)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قادیان میں عید کا چاند دیکھنے کے اشتیاق کے بارے میں ایک موقع کا ذکر کرتے ہوئےآپ فرماتے ہیں:

‘‘جب لوگ چھتوں پر چاند کو دیکھنے کے لئے چڑھے تو میں بھی چھت پر چڑھا اور دوربین سے میں نے چاند کو دیکھنا چاہا ۔ کیونکہ میری نظر کمزور ہے لیکن میں نہ دیکھ سکا اور بیٹھ گیا اچانک میرے کان میں ایک بچہ کی جو میرا ہی بچہ ہے آواز آئی جو یہ تھی کہ چاند دیکھ لیا ۔ چاند دیکھ لیا ۔ میں نے بھی چاند دیکھ لیا ۔ ’’

(الفضل 3؍جون 1924ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دور میں رؤیت ہلال کے بارے میں شہادتوں کے ذریعہ عید کے اعلان کا بھی ذکر ملتا ہے ۔ آپؓ ایک عید کے موقع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

‘‘لاہور فون سے دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہاں جالندھر سے رپورٹ آئی ہے کہ شملہ میں لوگوں نے چاند دیکھا ہے ۔ اسی طرح معلوم ہوا کہ سولن پہاڑ پر بھی اور بمبئی میں بھی چاند دیکھا گیا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ چاند بہت کم اونچا تھا ۔ قادیان کے احمدی دوست چونکہ اس وقت دعا میں مشغول تھے اس لئے وہ چاند نہ دیکھ سکے اور باہر بھی تھوڑے تھوڑے غبار کی وجہ سے نظر نہ آیا مگر پہاڑوں پر چونکہ اتفاقا ًمطلع صاف تھا اس لئے وہاں کے رہنے والوں نے چاند کو دیکھ لیا ۔ چنانچہ اس بارہ میں جتنی رپورٹیں آئیں ان میں سے اکثر پہاڑی مقامات کی ہیں سوائے کپورتھلہ کے کہ وہاں بھی بعض نے چاند دیکھ لیا تھا ۔’’

(خطبات محمود ۔ خطبہ فرمودہ یکم اکتوبر 1943ء)

تیز ترین صنعتی ترقی اور دیہاتوں سے شہروں کی طرف منتقل ہونے کے رحجان کے علاوہ چاند کی پیدائش اور طلوعِ ہلال کے بارے میں سائنسی و تکنیکی علوم کے فروغ کے بعد چاند دیکھنے کے لیے ظاہری رؤیت کے ساتھ ساتھ نئے ذرائع سے استفادہ شروع ہوا ۔ سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘اِن ملکوں میں جو مغربی ممالک ہیں، یورپین ممالک ہیں نہ ہی حکومت کی طرف سے کسی رؤیت ہلال کا انتظام ہے اور نہ ہی اس کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس لئے ہم چاندنظر آنے کے واضح امکان کو سامنے رکھتے ہوئے روزے شروع کرتے ہیں اور عید کرتے ہیں۔ ہاں اگر ہمارا اندازہ غلط ہو اور چاند پہلے نظر آ جائے تو پھر عاقل بالغ گواہوں کی گواہی کے ساتھ، مومنوں کی گواہی کے ساتھ کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے پہلے بھی رمضان شروع کیا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ جو ایک چارٹ بن گیا ہے اس کے مطابق ہی رمضان شروع ہو۔ لیکن واضح طور پر چاندنظر آنا چاہئے۔ اس کی رؤیت ضروری ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ ہم ضرور غیر احمدی مسلمانوں کے اعلان پر بغیر چاند دیکھے روزے شروع کر دیں اور عید کر لیں یہ چیز غلط ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو اپنی ایک کتاب سرمہ چشم آریہ میں بھی بیان فرمایا۔ حساب کتاب کو یا اندازے کو ردّ نہیں فرمایا۔ یہ بھی ایک سائنسی علم ہے لیکن رؤیت کی فوقیت بیان فرمائی ہے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍ جون 2016ء)

رؤیت ہلال یعنی چاند دیکھنے کا اہتمام مسلم معاشروں کی ایسی روایت رہی ہےجس سے اسلامی تہذیب و ثقافت کا رنگ جھلکتا ہے۔سائنسی علوم کی ترقی کے بعد بجائے اس کےکہ مسلمان علماء زمانے سے ہم آہنگ ہوکر مسلمان معاشرہ کو رؤیت ہلال کے جدید پہلوؤں سے آشنا کرتے اور اسلامی تہواروں کی عزت وعظمت میں اضافہ کا باعث بنتے اب یہ عالم ہے کہ رمضان اور عیدین کا آغاز دنیا بھر کے مسلمانوں کے نزدیک وجہ نزاع بنا رہتا ہے ۔ کہیں تو مسلمان علماء شدت سے اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ ظاہری آنکھ سے چاند دیکھے بغیر نئے قمری مہینہ کا آغاز ممکن نہیں تو کہیں جدید سائنسی ذرائع سے ناواقفیت اور اس کے استعمال سے اجتناب کی وجہ سے یہ مسئلہ ہنوز لا ینحل ہے ۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیوں قبل جس وضاحت اور حکمت سے رؤیت ہلال کے اصول وضوابط عطا فرمائے تھے افسوس کہ مسلمان علماء اس میراث کو سنبھالنے سے قاصر رہے اورثابت شدہ سائنسی حقائق سے استفادہ کی بجائے علومِ جدیدہ کی راہ میں مزاحم ہونے لگے ۔ اس موقع پر قارئین کے استفادہ کے لیے وہ رہنما تعلیم پیشِ خدمت ہے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پیشتر بیان فرمائی تھی۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ٔمبارک میں رؤیت ہلال کا طریق

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤیت ہلال یا چاند دیکھنے کا طریق بیان کرتے ہوئے ہدایت فرمائی ہے کہ جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھنا شروع کرو اور جب (اگلا ) چاند دیکھو تو روزہ رکھنا چھوڑ دو ۔ اور اگر تمہارے ہاں مطلع ابر آلود ہو تو پھر اندازہ کر لیا کرو ۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں :۔

عَنِ ابْنَ عُمَرَ رضى اللّٰه عنهما قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم يَقُولُ‘‘إِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهٗ ”

(الجامع الصحیح للبخاری ۔ کتاب الصوم باب ما یقال رمضان او شھرُ رمضان ومن رای کلہ واسعا)

اسی طرح سنن ابی داؤد کتاب الصیام کی روایت کے مطابق آپؐ نے ایک موقع پر فرمایا کہ

فإن حال دونه غمامة فاتموا العدة ثلاثين ثم افطروا

یعنی اگر بادل وغیرہ حائل ہوجائے اور چاند نظر آنا ممکن نہ ہو تو پھر تیس روزے پورے کرکے عید مناؤ۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں زیادہ تر رمضان 29؍دنوں کے تھے۔حضر ت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق:۔ما صمت مع النبي صلى اللّٰه عليه وسلم تسعا وعشرين اكثر مما صمنا ثلاثين یعنی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیس دن کے روزے رکھنے سے زیادہ 29 دن کے روزے رکھے ہیں۔یعنی آپؐ کی زندگی میں جوزیادہ تر رمضان آئے وہ 30ن کی بجائے 29دن کے تھے۔

(سنن ترمذی کتاب الصیام باب مَا جَاءَ أَنَّ الشَّهْرَ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ)

ان احادیث سے پتا چلتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانہ مبارک میں علم ہیئت کے مطابق قمری مہینوں کے دنوں کے بارے میں مروجہ اصولوں سے استفادہ کیا جا رہا تھا ۔ اور اس بات پر یقین تھا کہ علم ہیئت کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق ایک قمری مہینہ یا تو29دن کا ہو سکتا ہے یا 30کا۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘ہم ان پڑھ لوگ ہیں نہ ہم لکھنا جانتے ہیں اور نہ حساب و کتاب، مہینہ ایسا، ایسا اور ایسا ہوتا ہے، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے بتایا)’’ راوی حدیث سلیمان نے تیسری بار میں اپنی انگلی بند کر لی، یعنی مہینہ انتیس یا تیس دن کا ہوتا ہے۔

(سنن ابی داؤد کتاب الصیام باب الشَّهْرِ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ)

رؤیتِ ہلال انفرادی کی بجائے معاشرتی ذمہ داری

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

‘‘مہینہ انتیس دن کا (بھی) ہوتا ہے لہٰذا چاند دیکھے بغیر نہ روزہ رکھو، اور نہ ہی دیکھے بغیر روزے چھوڑو، اگر آسمان پر بادل ہوں تو تیس دن پورے کرو۔’’ راوی کا بیان ہے کہ جب شعبان کی انتیس تاریخ ہوتی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما چاند دیکھتے اگر نظر آ جاتا اور بادل اور کوئی سیاہ ٹکڑا اس کے دیکھنے کی جگہ میں حائل نہ ہوتا تو دوسرے دن روزہ نہ رکھتے اور اگرنظر نہ آتا اور بادل یا کوئی سیاہ ٹکڑا دیکھنے کی جگہ میں حائل ہو جاتا تو صائم ہو کر صبح کرتے۔ راوی کا یہ بھی بیان ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما لوگوں کے ساتھ ہی روزے رکھنا چھوڑتے تھے، اور اپنے حساب کا خیال نہیں کرتے تھے۔

(سنن ابی داؤد کتاب الصیام باب الشَّهْرِ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ)

اسی طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤیت ہلال کے ضمن میں معاشرتی اور اجتماعی شیرازہ قائم رکھنے تعلیم عطا فرمائی ہے اور ایسے معاملات میں انفرادی نہیں بلکہ جماعتی پہلو کو ترجیح دینے کی نصیحت فرمائی ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

‘‘وفطركم يوم تفطرون واضحاكم يوم تضحون’’

تمہاری عید الفطر اس دن ہے جس دن تم افطار کرتے ہو ۱ور عید الاضحی اس دن ہے جس دن تم قربانی کرتے ۔

(سنن ابی داؤد کتاب الصیام باب إِذَا أَخْطَأَ الْقَوْمُ الْهِلاَلَ)

یعنی روزہ اور عیدین کے چاند کے بارے میں جب اجتماعی اور معاشرتی سطح پر ایک فیصلہ ہوجائے تو پھر اسی پر عمل کیا جائے ۔

دنیا بھر میں ایک ہی دن رمضان اور عید کے آغاز کا مسئلہ

قرآن کریم فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ کا اصول بیان فرماتا ہے ۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ آیت کے اس حصہ کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

‘‘ رمضان بھی بعینہ ایک ہی تاریخ کو ہر جگہ شروع نہ ہوتا ہے ، نہ ہوسکتا ہے ۔ ممالک بدل جائیں پھر تو ویسے ہی نا ممکن ہے۔ کیونکہ اگر جب بھی رمضان کا چاند طلوع ہوگا ۔اس وقت کسی جگہ گھپ اندھیرا ،آدھی رات ہوگی ۔ کسی جگہ صبح کا سورج طلوع ہورہا ہوگا۔ کسی جگہ دوپہر ہوگی ، کسی جگہ عصر کی نماز پڑھی جارہی ہوگی ۔تو کیسے ممکن ہے کہ خدا نے جو نظام پیدا فرمایا ہے اس کے برعکس احکام جاری فرمائے ۔ اس لئے‘‘مَنْ شَھِدَ’’کا مضمون جو ہے بہت ہی اہمیت رکھتا ہے ۔ ہر گز خدا کا یہ منشا ءنہیں کہ سب اکٹھے روزے رکھیں اور اکٹھے ختم کریں ۔ہر گزیہ منشاء نہیں کہ تمام دنیا میں ایک دن عید منائی جائےیا سارے ملک میں اگر وسیع ملک ہے ایک ہی دن عید منائی جائے ۔’’

( خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍جنوری 1996ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8؍ مارچ 1996ء)

ہر ملک اور خطے کی رؤیت کا فیصلہ اس علاقہ کے مطابق ہوگا

نئے چاند کا فیصلہ ہر ملک اور خطہ کے جغرافیائی حالات کے پیش نظر ہوگا ۔ اس سلسلہ میں صحاح ستہ کے مؤلفین اور علماء بڑی صراحت سے درج ذیل حدیث بیان کرکے ہر ملک اور خطہ کے مطابق رؤیت ہلال کے اصول کو بیان فرمارہے ہیں۔ اس روایت کے مطابق :

کریب کو سیدہ ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف ملکِ شام کو بھیجا۔وہ بیان کرتے ہیں کہ میں شام گیا اور جو کام سپرد تھا و ہ کیا ۔ شام میں قیام کے دوران انہوں نے جمعہ کی رات کو رمضان کا چاند دیکھااور پھر واپس مدینہ کے سفر پر روانہ ہوگئے ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے (شام میں ) چاند کب دیکھا تھا۔ میں نے کہا جمعہ کی رات کو ۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا تم نے خود چاند دیکھا تھا؟ میں نے کہا ہاں اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا تھا اورحضرت معاویہ سمیت دیگر لوگوں نے اس کے مطابق روزہ رکھا تھا ۔اس پر حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ہم نے ہفتہ کی شب چاند دیکھا تھا ۔ لہذا ہم اسی کے مطابق رمضان کے تیس روزے رکھیں گے یا چاند نظر آیا تو اسی صورت میں عید کریں گے۔ روای بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباسؓ سے کہا کہ کیا آپ کے لئے حضرت معاویہ کا چاند دیکھ لینا اور اس کے مطابق روزہ رکھنا کافی نہیں ؟آپ نے فرمایا کہ نہیں کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح حکم فرمایا ہے۔اس حدیث کو صحاح ستہ کے ائمہ نے درج ذیل ابواب کے تحت بیان کرکے ہر ملک اورجغرافیہ کے مطابق رؤیت کے اصول کو تسلیم فرمایا ہے:

صحیح مسلم باب الصیام باب بَيَانِ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلاَلَ بِبَلَدٍ لاَ يَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ۔

یعنی ہر خطہ کی رؤیت الگ ہوگی اور ایک علاقہ کے لوگوں کے چاند دیکھنے سے دوسروں پر یہ حکم واجب نہیں ہوگا۔

سنن نسائی کتاب الصیام بَابُ: اخْتِلاَفِ أَهْلِ الآفَاقِ فِي الرُّؤْيَةِ ۔

یعنی رؤیت میں افق کے اختلاف کا امکان موجود ہے۔

سنن ترمذی کتاب الصیام میں باب مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ ۔

ہر خطہ کے لوگوں کے لیے رؤیت الگ ہوگی۔

گواہی اور شہادتوں کے ذریعہ رمضان کا اعلان

عن ابن عباس قال: جاء اعرابي إلى النبي صلى اللّٰه عليه وسلم، فقال: إني رايت الهلال، قال:اتشهد ان لا إله إلا اللّٰه، اتشهد ان محمدا رسول اللّٰه قال: نعم، قال: يا بلال اذن في الناس ان يصوموا غدا ۔

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں نے چاند دیکھا ہے، آپ نے فرمایا: ‘‘کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور کیا گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟’’اس نے کہا: ہاں دیتا ہوں، آپ نے فرمایا: ‘‘بلال! لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ کل روزہ رکھیں۔’’

(سنن ترمذی کتاب الصیام باب مَا جَاءَ فِي الصَّوْمِ بِالشَّهَادَةِ)

رؤیت ہلال کے لیے علمی و سائنسی ذرائع کااستعمال

رؤیت ہلال سے اصل مقصود چاند کی محبت و کشش نہیں بلکہ مراد یہ تھی کہ نئے چاند کے ذریعہ ماہ و سال کی تعیین کی جاسکے۔ اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند دیکھنے اور رؤیت کے مطابق رمضان کے آغاز اور عیدمنانے کی نصیحت فرمائی ۔ لیکن جب سائنس اور ثابت شدہ حقائق نے شمس و قمر کی گردش اور لیل و نہار کی تبدیلی کے اصول وضع کردیے تو ان سے استفادہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء کے بر خلاف نہیں بلکہ عین مطابق ہے ۔ درج ذیل امور سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ رؤیت ہلال کے لیے جدید علوم اور ذرائع سے استفادہ کرنا بانیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے عین مطابق ہے:

۱۔ بادلوں وغیرہ کی وجہ سے جب ظاہری آنکھ چاند دیکھنے سے قاصر رہے توآپ نے ‘‘فَاقْدِرُوْا لَهٗ’’ کا بھی حکم دیا ہے۔یہ الفاظ علمی اور سائنسی ذرائع سے رؤیت کا دروازہ کھولتے ہیں ۔ ‘‘فَاقْدِرُوْا لَهٗ’’کا مطلب ہے کہ پھر اندازہ اور حساب کتاب سے کام لیا جائے ۔

۲۔ چاند کا معاملہ مشتبہ ہوجائے تو آپ نے تیس روزے پورے کرنے کی نصیحت فرمائی ہے ۔قمری مہینہ کے دن انتیس یا زیادہ سے زیادہ تیس ہوں گے ۔ اس بات کا علم بھی تو اُس زمانہ کے مروجہ فلکیاتی حساب کے ذریعہ ہوا تھا ۔ پس اگر آئندہ فلکیاتی اور سائنسی علوم ترقی کر جائیں تو ان سے استفادہ کیسے ممنوع ہوسکتا ہے؟

۳۔یہ بات خلاف عقل ہوتی اگرآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسی قوم کو علم فلکیات کے اصول سمجھاتے جو عمومی طور پرلکھنے پڑھنے سے نابلد اور حساب کتاب کے اصولوں سے ناواقف تھے۔پس اس زمانہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی رؤیت کے لیے ایسے طریقہ کار کاحکم دیا،جو زمانہ کے حالات سے بکلی ہم آہنگ تھا۔پس اگر اس ترقی یافتہ زمانے میں چاند کا پتہ کرنے کے لیے دوسرے یقینی ذرائع میسر ہیں توان ذرائع کے استعمال میں کیا قباحت ہوسکتی ہے؟

۴۔نئے چاند کے بارے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی کا اصول قبول فرمایا ہے ۔ بلکہ ایک سادہ دیہاتی کی گواہی قبول فرماتے ہوئے عید کے د ن کے اعلان میں ردو بدل فرمادیا۔ تو کیا ماہرین فلکیات کے وضع کردہ اصول بطور گواہی نہیں سمجھے جاسکتے ہیں۔

۵۔چاند دیکھ کر رمضان کا آغاز کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے آپ نے اس بات سے منع نہیں فرمایا کہ کوئی دوسرا طریقہ کا ر اختیار نہ کیا جائے۔معاملہ مشتبہ ہونے کی صورت میں ‘‘فَاقْدِرُوْا’’ یا پھر تیس روزے پورے کرنے کی نصیحت سے پتا چلتا ہے کہ ظاہری آنکھ کی رؤیت کے علاوہ بھی طریقہ کار اختیار کرنا جائز ہے۔

۶۔ سورج اور چاند کی گردش کے بارے میں ماہرین فلکیات جو معلومات مہیا کرتے ہیں وہ بعینہ درست ثابت ہوتی ہیں ۔ گذشتہ صدیوں کے علاوہ آئندہ زمانے کے بھی چاند اور سورج گرہن کے کیلنڈرز بن چکے ہیں ۔ نمازوں کے لیے دھوپ گھڑی کی بجائے سورج کی حرکت سے وابستہ گھڑیاں سامنے آچکی ہیں ۔ سحر وافطار ماہرین فلکیات کی فراہم کردوہ معلومات کے مطابق چل رہے ہوتے ہیں تو صرف رؤیت ہلال کے مسئلہ کو آنکھ کی ظاہری رؤیت سے منسلک کر ناسمجھ سے بالا ہے۔

آخری زمانہ میںسائنسی ذرائع سے چاند دیکھنے کی پیشگوئی

آخری زمانہ میں علوم فلکیات کی ترقی اور چاند کی رؤیت کے بارہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث واضح طور پر اشارہ کرتی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ سے مترشح ہے کہ قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہلال بڑا نظر آئے گا۔ گویا دور بینوں اور سائنسی آلات کی ایجاد کے بعد دور سے چاند کا دیکھ لینا ممکن ہوجائے گا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‘‘مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ انتفاخُ الْأَهِلَّةِ، حَتَّى يُرَى الْهِلَالُ لِلَيْلَتِهِ، فَيُقَالُ: هُوَ لِلَيْلَتَيْنِ’’

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘قرب قیامت کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ چاند معمول سے بڑا اورابھرا ہوا نظر آئے گا۔یہاں تک کہ پہلی رات کےہلال کو دیکھ کر کہا جائے گا کہ یہ تو دو راتوں کا چاند ہے۔’’

(المعجم الاوسط للطبرانی:6864)

علم ہیئت اور فلکیات کے اصولوں کے مطابق رؤیت ہلال

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ رؤیت ہلال کا طریق قبلِ اسلام سے رائج تھا۔ لیکن جب مسلمانوں نے علم ہیئت و فلکیات میں ترقی کی توانہوں نے چاند کی visibilityکا انحصار اس کے زاویہ پر رکھا ۔موجودہ زمانہ میں علم فلکیات کی غیر معمولی ترقی کے بعد ہیت دانوں اور ماہرین نے جو اصول وضع کیے ہیں اس سے درج ذیل رہ نما اصول اخذ کرتے ہوئے چاند کی visiblityکا فیصلہ کیا جا سکتا ہے:

۱۔ چاند کی پیدائش سے مراد Astronomical New Moonہے ۔ اسےConjunctionبھی کہا جا تا ہے ۔یہ وہ مرحلہ ہے جب زمین، چاند اور سورج ایسے زاویہ پر ہوتے ہیں کہ اس وقت ظاہری آ نکھ سے چاند نظر آنا ممکن نہیں ۔ پس سائنسی لحاظ سے چاند کی محض پیدائش رؤیت ہلال کے لیے ناکافی سمجھی جائے گی۔

۲۔Conjunctionسے ہلال بننے تک۔چاند کی پیدائش کے بعد عمر کم از کم 20گھنٹے ہونا ضروری ہے ۔ لیکن صرف اتنی شرط بھی ناکافی ہے اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ چاند کی پیدائش کی عمر بیس گھنٹہ ہونے کے باوجود ظاہر آنکھ سے نہ دیکھا جاسکے۔

۳۔ اس کے لیے ایک اور اصول وضع کیا گیا ہے کہ چاند کی پیدا ئش کے بعد عمر 20گھنٹہ سے زائد ہو اورغروب آفتاب کے بعد چاند کم از کم 20منٹ تک افق پر موجود رہے اور ایک خاص زاویہ پر ہو توایسا چاند ظاہری آنکھ سے نظر آنا ممکن ہے ۔

رؤیت کی شرط رکھنے میں حکمت

امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رؤیت ہلال کے ضمن میں ایک اور نہایت لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے ۔آپ فرماتے ہیں:

‘‘ سو یہ بڑی سیدھی بات اور عوام کے مناسب حال ہے کہ وہ لوگ محتاج منجم و ہیئت دان نہ رہیں اور چاند کے معلوم کرنے میں کہ کس تاریخ نکلتا ہے اپنی رؤیت پر مدار رکھیں۔ صرف علمی طور پر اتنا سمجھ رکھیں کہ تیس کے عدد سے تجاوز نہ کریں ۔اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ …رؤیت کو قیاساتِ ریاضیہ پر فوقیت ہے’’

( سر مہ چشم آریہ ،روحانی خزائن جلد 2صفحہ 192)

سائنسی ترقی اور ایجادات کے موجودہ دورمیں جہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ مروجہ سائنسی ذرائع سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے فلکیاتی علوم سے استفادہ کیا جائے وہاں امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق رؤیت کو فوقیت دیتے ہوئے چاند دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ہر قمری مہینہ کا آغاز خیر وبرکت اور امن و سلامتی کی دعا سے کرناچاہیے ۔

أَللّٰہُمَّ !أ ہِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْأ مْنِ وَالْاِیْمَانِ

وَ السَّلاَمَۃِ وَ الْاِسْلَامِ ، رَبِّی وَ رَبُّکَ اللّٰہُ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button