شرائط بیعت اور ہماری ذمہ داریاں
بغاوت کے طریقوں سے بچو اور نفسانی جوشوں سے مغلوب نہ ہو
دوسری شرط بیعت(حصہ پنجم)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
بغاوت کے طریقوں سے بچو
پھر اسی شرط دوئم میںاس بات کا بھی عہد ہے کہ بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
وَقٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ لِلّٰہِ (البقرۃ:194)۔
یعنی اس حد تک ان کا مقابلہ کرو کہ ان کی بغاوت دور ہو جاوے اور دین کی روکیں اٹھ جائیں اور حکومت اللہ کے دین کی ہو جائے۔ اور پھر فرمایا
قُلۡ قِتَالٌ فِیۡہِ کَبِیۡرٌ وَ صَدٌّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ کُفۡرٌۢ بِہٖ وَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ٭ وَ اِخۡرَاجُ اَہۡلِہٖ مِنۡہُ اَکۡبَرُ عِنۡدَ اللّٰہِۚ وَ الۡفِتۡنَۃُ اَکۡبَرُ مِنَ الۡقَتۡلِؕ وَ لَا یَزَالُوۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ حَتّٰی یَرُدُّوۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِکُمۡ اِنِ اسۡتَطَاعُوۡا(البقرۃ:218)
یعنی شہر حرام میں قتل تو گناہ ہے لیکن خداتعالیٰ کی راہ سے روکنا اور کفر اختیار کرنا اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو مسجد حرام سے خارج کرنا یہ بہت بڑا گناہ ہے اور بغاوت کو پھیلانا یعنی امن کا خلل انداز ہونا قتل سے بڑھ کر ہے۔
(جنگ مقدس ۔روحانی خزائن۔ جلد 6۔ صفحہ 255)
فرمایا:‘‘چونکہ مَیںدیکھتاہوں کہ ان دنوںمیں بعض جاہل اور شریر لوگ اکثر ہندوئوں میں سے اور کچھ مسلمانوں میں سے گورنمنٹ کے مقابل پر ایسی ایسی حرکتیں ظاہرکرتے ہیں جن سے بغاوت کی بو آتی ہے۔ بلکہ مجھے شک ہوتاہے کہ کسی وقت باغیانہ رنگ ان کی طبائع میں پیدا ہو جائے گا۔ اس لیے مَیں اپنی جماعت کے لوگوں کو جو مختلف مقامات پنجاب اور ہندوستان میں موجود ہیں جو بفضلہ تعالیٰ کئی لاکھ تک ان کا شمار پہنچ گیاہے نہایت تاکید سے نصیحت کرتاہوں کہ و ہ میری اس تعلیم کو خوب یاد رکھیں جو قریباً ۲۶برس سے تقریری اور تحریری طورپر ان کے ذہن نشین کرتاآیاہوں یعنی یہ کہ اس گورنمنٹ کی پوری اطاعت کریں کیونکہ وہ ہماری محسن گورنمنٹ ہے……سو یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ ایسا شخص میری جماعت میں داخل نہیں رہ سکتا جو اس گورنمنٹ کے مقابلہ پر کوئی باغیانہ خیال دل میں رکھے۔ اور میرے نزدیک یہ سخت بدذاتی ہے کہ جس گورنمنٹ کے ذریعہ سے ہم ظالموں کے پنجے سے بچائے جاتے ہیں اور اس کے زیر سایہ ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے اس کے احسان کے ہم شکرگزار نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتاہے
ھَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ
یعنی احسان کا بدلہ احسان ہے اور حدیث شریف میں بھی ہے کہ جو انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خدا کا شکر بھی نہیں کرتا۔ یہ تو سوچو کہ اگر تم اس گورنمنٹ کے سایہ سے باہر نکل جائو تو پھر تمہارا ٹھکانہ کہاںہے۔ ایسی سلطنت کا بھلا نام تو لو جو تمہیں اپنی پناہ میں لے لے گی۔ ہر ایک اسلامی سلطنت تمہارے قتل کے لیے دانت پیس رہی ہے کیونکہ ان کی نگاہ میں تم کافر اور مرتد ٹھہر چکے ہو۔ سو تم اس خداداد نعمت کی قدر کرو…۔ اب خواہ نخواہ ایسے اعتقاد پھیلانا کہ کوئی خونی مہدی آئے گا اور عیسائی بادشاہوں کو گرفتار کر ے گا یہ محض بناوٹی مسائل ہیں جن سے ہمارے مخالف مسلمانوں کے دل سیاہ اور سخت ہو گئے ہیں اور جن کے ایسے عقیدے ہیں وہ خطرناک انسان ہیں۔ اور ایسے عقیدے کسی زمانہ میں جاہلوں کے لیے بغاوت کا ذریعہ ہو سکتے ہیں بلکہ ضرور ہوں گے ۔سو ہماری کوشش ہے کہ مسلمان ایسے عقیدوں سے رہائی پاویں ۔یادرکھو کہ وہ دین خدا کی طرف سے نہیں ہوسکتا جس میں انسانی ہمدردی نہیں۔ خدانے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ زمین پر رحم کرو تا آسمان سے تم پررحم کیا جائے’’۔
(مجموعہ اشتہارات۔ جلد 3۔ صفحہ 582تا 585)
نفسانی جوشوں سے مغلوب نہ ہو
پھر اسی شرط دوئم میں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ نفسانی جوشوں کے وقت اس کا مغلوب نہیں ہوگا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘روحانی وجود کا چوتھا درجہ وہ ہے جس کو خداتعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے۔
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ (المؤمنون:6)
یعنی تیسرے درجہ سے بڑھ کر مومن وہ ہیں جو اپنے تئیں نفسانی جذبات اور شہوات ممنوعہ سے بچاتے ہیں۔ یہ درجہ تیسرے درجہ سے اس لیے بڑھ کر ہے کہ تیسرے درجہ کا مومن تو صرف مال کو جو اس کے نفس کو نہایت پیارا اور عزیز ہے خداتعالیٰ کی راہ میں دیتا ہے لیکن چوتھے درجہ کا مومن وہ چیز خداتعالیٰ کی راہ میں نثار کرتا ہے جو مال سے بھی زیادہ پیاری اور محبوب ہے یعنی شہوات نفسانیہ۔ کیونکہ انسان کو اپنی شہوات نفسانیہ سے اس قدر محبت ہے کہ وہ اپنی شہوات کے پورا کرنے کے لیے اپنے مال عزیز کو پانی کی طرح خرچ کرتا ہے اور ہزارہا روپیہ شہوات کے پورا کرنے کے لیے برباد کر دیتا ہے اور شہوات کے حاصل کرنے کے لیے مال کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتا۔ جیسا کہ دیکھا جاتا ہے ایسے نجس طبع اور بخیل لوگ جو ایک محتاج، بھوکے اور ننگے کو بباعث سخت بخل کے ایک پیسہ بھی دے نہیں سکتے شہوات نفسانیہ کے جوش میں بازاری عورتوں کو ہزارہا روپیہ دے کر اپنا گھر ویران کر لیتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ سیلاب شہوت ایسا تند اور تیز ہے کہ بخل جیسی نجاست کو بھی بہا لے جاتا ہے۔ اس لیے یہ بدیہی امر ہے کہ بہ نسبت اس قوت ایمانی کے جس کے ذریعہ سے بخل دور ہوتا ہے اور انسان اپنا عزیز مال خدا کے لیے دیتا ہے یہ قوت ایمانی جس کے ذریعہ سے انسان شہوات نفسانیہ کے طوفان سے بچتا ہے نہایت زبردست اور شیطان کا مقابلہ کرنے میں نہایت سخت اور نہایت دیرپا ہے کیونکہ اس کا کام یہ ہے کہ نفس امارہ جیسے پرانے اژدھا کو اپنے پیروں کے نیچے کچل ڈالتی ہے۔ اور بخل تو شہوات نفسانیہ کے پورا کرنے کے جوش میں اور نیز ریاء اور نمود کے وقتوں میں بھی دُور ہو سکتا ہے۔ مگر یہ طوفان جو نفسانی شہوات کے غلبہ سے پیدا ہوتا ہے یہ نہایت سخت اور دیرپا طوفان ہے جو کسی طرح بجز رحم خداوندی کے دُور ہو ہی نہیں سکتا اور جس طرح جسمانی وجود کے تمام اعضاء میں سے ہڈی نہایت سخت ہے اور اس کی عمر بھی بہت لمبی ہے اسی طرح اس طوفان کے دُور کرنے والی قوت ایمانی نہایت سخت اور عمر بھی لمبی رکھتی ہے تا ایسے دشمن کا دیر تک مقابلہ کر کے پامال کر سکے اور وہ بھی خداتعالیٰ کے رحم سے۔ کیونکہ شہوات نفسانیہ کا طوفان ایک ایسا ہولناک اور پرآشوب طوفان ہے کہ بجز خاص رحم حضرت احدیت کے فرو نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے حضرت یوسف کو کہنا پڑا
وَ مَاۤ اُبَرِّیٴُ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ (یوسف:54)
یعنی میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتا۔ نفس نہایت درجہ بدی کا حکم دینے والا ہے اور اس کے حملہ سے مخلصی غیرممکن ہے مگر یہ کہ خود خداتعالیٰ رحم فرما دے۔ اس آیت میں جیسا کہ فقرہ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ ہے۔ طوفان نوح کے ذکر کے وقت بھی اسی کے مشابہ الفاظ ہیں کیونکہ وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
لَا عَاصِمَ الۡیَوۡمَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ (ہود:44)
پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ طوفان شہوات نفسانیہ اپنی عظمت اور ہیبت میں نوح کے طوفان سے مشابہ ہے۔’’
(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن۔ جلد 21۔ صفحہ205-206)
(باقی آئندہ)