متفرق مضامین

رمضان المبارک: سید الشُہور

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

احکامِ خدا وندی، مظہر اتم الوہیت اور اس کے ظلِ کامل ﷺکے اسوہ اور ارشادات کی روشنی میں

رمضان! ایک واجب التکریم مہمان،روحانی بہار کا موسم، رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ، مغفرت، بخشش اور آگ سے آزادی کا ذریعہ۔رمضان ! رضائے باری تعالیٰ کی خاطر بھوک پیاس برداشت کرنے ،روحانی اور جسمانی طور پر صحت مند ہونے کا مہینہ۔رمضان! شب بیداری ، تہجد و تراویح، صدقہ و خیرات کا مہینہ۔ تلاوت قرآن مجید اور لاریب کتاب کے مطلب و معانی پر غور کرنے کا موسم۔رمضان ! نفس امّارہ کے شر سےبچنے کے لیے ڈھال۔ہر طاقت،خواہش،جذبہ اور میلان ضبط ِنفس کی زنجیروں میں جکڑنے کا مہینہ۔رمضان! تبتّل الی اللہ اور اعتکاف کا مہینہ،ہزار راتوں سے بہتر لیلۃ القدر کا حامل مومنوں کے لیے رحمٰن خدا کا عظیم تحفہ۔

رمضان اور قرآن

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕوَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٮکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشکُرُوۡنَ۔(البَقَرَة:184تا186)

وَ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الۡخَیۡطُ الۡاَبۡیَضُ مِنَ الۡخَیۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیۡلِ ۚ۔(البَقَرَة: 188)

اےوہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔گنتی کے چند دن ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اتنی مدت کے روزے دوسرے ایام میں پورے کرے۔ اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ پس جو کوئی بھی نفلی نیکی کرے تو یہ اس کے لیے بہت اچھا ہے۔ اور تمہارا روزے رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لیے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اُتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اِس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرنا دوسرے ایام میں ہوگا۔ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم (سہولت سے) گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اُس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو۔

اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ فجر (کے ظہور) کی وجہ سے (صبح کی) سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے تمہارے لیے ممتاز ہو جائے۔ پھر روزے کو رات تک پورا کرو۔

(ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ)

احادیث رسول ﷺ رمضان کی فرضیت

عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللّٰہِ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَائِرَ الرَّأْسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰہِ، أَخْبِرْنِي مَاذَا فَرَضَ اللّٰہُ عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ؟ فَقَالَ: الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ شَيْئًا، فَقَالَ: أَخْبِرْنِي مَا فَرَضَ اللّٰہُ عَلَيَّ مِنَ الصِّيَامِ؟ فَقَالَ: شَهْرَ رَمَضَانَ، إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ شَيْئًا، فَقَالَ: أَخْبِرْنِي بِمَا فَرَضَ اللّٰہُ عَلَيَّ مِنَ الزَّكَاةِ؟ فَقَالَ: فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ، قَالَ: وَالَّذِي أَكْرَمَكَ لَا أَتَطَوَّعُ شَيْئًا وَلَا أَنْقُصُ مِمَّا فَرَضَ اللّٰہُ عَلَيَّ شَيْئًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ، أَوْ دَخَلَ الْجَنَّةَ إِنْ صَدَقَ۔

(صحیح البخاری،كِتَاب الصَّوْمِ۔بَابُ وُجُوبِ صَوْمِ رَمَضَانَ)

حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ‘‘ ایک پریشان حال بدوی بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ،اُس نے پوچھا: یا رسول اللہ! بتائیے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کتنی نمازیں فرض کی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پانچ نمازیں، یہ اور بات ہے کہ تم اپنی طرف سے نفل پڑھ لو، پھر اس نے کہا بتائیے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کتنےروزے فرض کیے ہیں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کے مہینے کے، یہ اور بات ہے کہ تم خود اپنے طور پر کچھ نفلی روزے اور بھی رکھ لو، پھر اس نے پوچھا اور بتائیے زکوٰۃ کس طرح مجھ پر اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہے؟ آپ ﷺ نے اسے شرع اسلام کی باتیں بتا دیں۔ اس کے بعد ا س بدوی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو عزت دی اُس سے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فرض کر دیا ہے کچھ بڑھاؤں گا اور نہ گھٹاؤں گا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ مراد کو پہنچا ( یا فرمایا کہ) اگر سچ کہا ہے تو جنت میں جائے گا’’۔

رؤیت ہلال

عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ۔

(سنن ابن ماجه كتاب الصيام،بَابُ: مَا جَاءَ فِي صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘جب تم چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو، اور چاند دیکھ کر ہی روزے رکھنا ختم کرو، اور اگر چاند بادل کی وجہ سے مشتبہ ہو جائے تو تیس دن کی گنتی پوری کرو’’ ۔

أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ هِلَالُ رَمَضَانَ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْنَا الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَأَنْتَ رَأَيْتَهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ؟ فَقُلْتُ: رَآهُ النَّاسُ وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، قَالَ: لَكِنْ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ يَوْمًا أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَلَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ قَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

(سنن ترمذي كتاب الصيام باب مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ)

‘‘کریب بیان کرتے ہیں کہ ام فضل بنت حارث نے انہیں معاویہ رضی الله عنہ کے پاس شام بھیجا، میں شام آیا اور جو کام میرے ذمہ لگایا گیا ،اسے مکمل کیا۔ اور (اسی درمیان) رمضان کا چاند نکل آیا، اور میں شام ہی میں تھا کہ ہم نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا ، پھر میں مہینے کے آخر میں مدینہ آیا تو ابن عباس رضی الله عنہما نے مجھ سے وہاں کے حالات پوچھے پھر انہوں نے چاند کا ذکر کیا اور کہا: تم لوگوں نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہم نے اسے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا، تو انہوں نے کہا: کیا تم نے بھی جمعہ کی رات کو دیکھا تھا؟ تو میں نے کہا: لوگوں نے اسے دیکھا اور انہوں نے روزے رکھے اور معاویہ رضی الله عنہ نے بھی روزہ رکھا، اس پر ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا، اور ہم تیس دن پورے کر یں گے، سوائے اس کے کہ ہم 29رمضان کو چاند دیکھ لیں، تو میں نے کہا: کیا آپ معاویہ کے چاند دیکھنے اور روزہ رکھنے پر اکتفا نہیں کریں گے؟ انہوں نے کہا: نہیں، ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے ’’۔

أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ ابْنَةَ الْحَارِثِ، بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، فَاسْتَهَلَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْنَا الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرَ، فَسَأَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ قُلْتُ: رَأَيْتُهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، قَالَ: أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ وَرَآهُ النَّاسُ، قَالَ: لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ، فَلَا نَزَالُ نَصُومُهُ حَتَّى نُكْمِلَ الثَّلَاثِينَ أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَفَلَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ قَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔

(سنن ابي داودكتاب الصيام باب إِذَا رُؤِيَ الْهِلاَلُ فِي بَلَدٍ قَبْلَ الآخَرِينَ بِلَيْلَةٍ)

کریب کہتے ہیں کہ ام الفضل بنت حارث نے انہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا، میں نے وہاں پہنچ کر اپنے مفوضہ کام کو پورا کیا۔ میں ابھی شام ہی میں تھا کہ رمضان کا چاند نکل آیا، ہم نے جمعہ کی رات میں چاند دیکھا، پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آ گیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے چاند کے متعلق پوچھا کہ تم نے چاند کب دیکھا؟ میں نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات میں، فرمایا: تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، اور لوگوں نے بھی دیکھا ہے، اور روزہ رکھا ہے، معاویہ نے بھی روزہ رکھا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: لیکن ہم نے ہفتہ کی رات میں چاند دیکھا ہے لہٰذا ہم تیس روزے پورے کریں گے، یا 29رمضان کو چاند نظر آیا تو ختم کریں گے۔ اس پر میں نے کہا کہ کیا معاویہ کی رؤیت اور ان کا روزہ کافی نہیں ہے؟ کہنے لگے: نہیں، ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح حکم دیا ہے۔

استقبالِ رمضان

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ فَلْيَصُمْ ذَلِكَ الْيَوْمَ ۔

(صحیح البخاری،كِتَاب الصَّوْمِ۔بَابُ لاَ يَتَقَدَّمَنَّ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ وَلاَ يَوْمَيْنِ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ‘‘ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص رمضان سے پہلے (شعبان کی آخری تاریخوں میں) ایک یا دو دن کے روزے نہ رکھے البتہ اگر کسی کو اِن دنوں میں روزے رکھنے کی عادت ہو تو وہ اس دن بھی روزہ رکھ لے’’۔

وَعَن سَلْمَان قَالَ: خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ فَقَالَ:’’يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيْمٌ مُبَارَكٌ شَهْرٌ فِيْهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مَنْ أَلْفِ شَهْرٍ جَعَلَ اللّٰهُ تَعَالَى صِيَامَهُ فَرِيضَةً وَقِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا مَنْ تَقَرَّبَ فِيْهِ بِخَصْلَةٍ مِّنَ الْخَيْرِ كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ وَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيهِ كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ وَالصَّبْر ثَوَابه الْجنَّة وَشهر الْمُوَاسَاة وَشهر يزْدَاد فِيهِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ لَهُ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللّٰہِ لَيْسَ كلنا يجد مَا نُفَطِّرُ بِهِ الصَّائِمَ. فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُعْطِي اللّٰہُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى مَذْقَةِ لَبَنٍ أَوْ تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ اللّٰہُ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ وَمَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ فِيهِ غَفَرَ الله لَهُ وَأعْتقهُ من النَّار’’۔

( مشكوٰة المصابيح كتاب الصوم )

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ شعبان کی آخری رات صحابہ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا:‘‘ اے لوگو ایک عظیم الشان برکت والا مہینہ تم پر سایہ فگن ہوا ہے۔اس مہینے میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے، اور راتوں کے قیام کو نفل عبادت اور اپنے قرب کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔ جو شخص ان ایام میں قرب خداو ندی کے حصول کی نیت سےکوئی نیکی کرتا ہے ،اُسے فرض کا ثواب ملتا ہے ۔ اور جس نے رمضان میں کوئی فرض ادا کیا ،اُس کا ثواب ستر گنا ملے گا۔یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں مومن کے رزق میں برکت دی جاتی ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کروائے گا تو یہ عمل اُس کے لیے مغفرت اور آگ سے آزادی کا ذریعہ بنے گا۔اور افطار کرنے والے کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ہم میں سے ہر کوئی اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ وہ کسی کا روزہ افطار کروائے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ چاہے کوئی ایک گھونٹ دودھ، ایک کھجوریا ایک گھونٹ پانی سے کسی کا روزہ افطار کروائے ، وہ بھی ثواب کا مستحق ہے۔ اور جو شخص کسی روزہ دار کو سیر ہوکر کھانا کھلائے گا، اللہ اُسے میرے حوض سے شربت پلائے گا اور وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہیں ہوگا۔یہ ایسا مہینہ کہ جس کا پہلا عشرہ رحمت، درمیانی عشرہ بخشش اور آخری عشرہ آگ سے آزادی کا ذریعہ ہے۔ان ایام میں جو شخص اپنے ملازم کا بوجھ ہلکا کرے گا تو اس کا یہ عمل اُس کی بخشش اور جہنم کی آگ سے نجات کا ذریعہ بنے کا’’۔

فضائل و برکات

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا كَانَتْ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ، وَمَرَدَةُ الْجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ، وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ، وَنَادَى مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ۔

(سنن ابن ماجه كتاب الصيام بَابُ: مَا جَاءَ فِي فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور سرکش جن زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور اس کا کوئی بھی دروازہ کھلا ہوا نہیں رہتا، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں رہتا، منادی پکارتا ہے: اے بھلائی کے طالب! بھلائی کے کام پہ آگے بڑھ، اور اے برائی کے چاہنے والے! اپنی برائی سے رک جا، ان ایام میں اللہ کچھ لوگوں کی گردن جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے، اور ایسا رمضان کی ہر رات کو ہوتا ہے’’ ۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: دَخَلَ رَمَضَانُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ قَدْ حَضَرَكُمْ وَفِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَهَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَيْرَ كُلَّهُ، وَلَا يُحْرَمُ خَيْرَهَا إِلَّا مَحْرُومٌ ۔ (سنن ابن ماجه كتاب الصيام بَابُ: مَا جَاءَ فِي فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رمضان آیا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ‘‘ایک بابرکت مہینہ تمہاری زندگی میں آیا ہے۔ اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس سے محروم رہا وہ ہر طرح کے خیر (بھلائی) سے محروم رہا، اور اس کے فیض سے وہی محروم رہے گا جو (واقعی) محروم ہو’’۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ،أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الصِّيَامُ جُنَّةٌ، فَلَا يَرْفُثْ، وَلَا يَجْهَلْ، وَإِنِ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أَوْ شَاتَمَهُ، فَلْيَقُلْ: إِنِّي صَائِمٌ مَرَّتَيْنِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللّٰہِ تَعَالَى مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، يَتْرُكُ طَعَامَهُ، وَشَرَابَهُ، وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجْلِي الصِّيَامُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا ۔

(صحیح البخاری، كِتَاب الصَّوْمِ۔بَابُ فَضْلِ الصَّوْمِ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ‘‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے (روزہ دار) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہیے کہ میں روزہ دار ہوں، (یہ الفاظ) دو مرتبہ (کہہ دے) اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے، (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لیے چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی سے دس گنا ہوتا ہے’’۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ مَا شَاءَ اللّٰہُ، يَقُولُ اللّٰہُ: إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِي، لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ، وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ۔

(سنن ابن ماجه كتاب الصيام،بَابُ: مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصِّيَامِ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘انسان کی ہر نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: سوائے روزے کے اس لیے کہ وہ میرے لیے خاص ہے، اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، آدمی اپنی خواہش اور کھانا میرے لیے چھوڑ دیتا ہے، روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملنے کے وقت، اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بہتر ہے’’۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ۔ (صحیح البخاری، كِتَاب الصَّوْمِ۔بَابُ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا وَنِيَّةً)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت کے لیے کھڑا ہو اس کے تمام اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے’’۔

عَنْ سَهْلٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا، يُقَالُ لَهُ: الرَّيَّانُ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، يُقَالُ: أَيْنَ الصَّائِمُونَ؟ فَيَقُومُونَ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ، فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ۔

(صحيح البخاري كِتَاب الصَّوْمِ بَابُ الرَّيَّانُ لِلصَّائِمِينَ)

حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہو گا، پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے ۔ جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر کوئی اُس سے داخل نہ ہو گا’’۔

سحر و افطار

عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ سورة البقرة آية 187، عَمَدْتُ إِلَى عِقَالٍ أَسْوَدَ وَإِلَى عِقَالٍ أَبْيَضَ، فَجَعَلْتُهُمَا تَحْتَ وِسَادَتِي، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ فِي اللَّيْلِ فَلَا يَسْتَبِينُ لِي، فَغَدَوْتُ عَلَى رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنَّمَا ذَلِكَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَارِ ۔ (صحیح البخاری، كِتَاب الصَّوْمِ،بَابُ قَوْلِ اللّٰہِ تَعَالَى:{وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ} )

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ‘‘ جب یہ آیت نازل ہوئی ‘‘تاآنکہ کھل جائے تمہارے لیے سفید دھاری سیاہ دھاری سے۔’’تو میں نے ایک سیاہ دھاگہ لیا اور ایک سفید اور دونوں کو تکیہ کے نیچے رکھ لیا اور رات میں دیکھتا رہا مجھ پر ان کے رنگ نہ کھلے، جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے تو رات کی تاریکی (صبح کاذب) اور دن کی سفیدی (صبح صادق) مراد ہے’’۔

افطار کی دعائیں

حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ سَالِمٍ الْمُقَفَّعَ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَى الْكَفِّ، وَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ، قَالَ: ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللّٰہُ۔

(سنن ابي داودكتاب الصيام باب الْقَوْلِ عِنْدَ الإِفْطَارِ)

مروان بن سالم مقفع کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، وہ اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے، اور کہتے کہ رسول اللہ ﷺ جب افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے:‘‘پیاس ختم ہو گئی، رگیں تر ہو گئیں، اور اگر اللہ نے چاہا تو ثواب مل گیا’’۔

عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ، أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ، قَالَ: اللّٰہُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ۔

(سنن ابي داودكتاب الصيام باب الْقَوْلِ عِنْدَ الإِفْطَارِ)

معاذ بن زہرہ سے روایت ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب روزہ افطار فرماتے تو یہ دعا پڑھتے: ‘‘اے اللہ! میں نے تیری ہی خاطر روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا’’۔

سفر اور روزہ

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُمْ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَرَأَى زِحَامًا وَرَجُلًا قَدْ ظُلِّلَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟ فَقَالُوا: صَائِمٌ، فَقَالَ: لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِي السَّفَرِ ۔

(صحیح البخاری،كِتَاب الصَّوْمِ۔بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ ظُلِّلَ عَلَيْهِ، وَاشْتَدَّ الْحَرُّ)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ‘‘رسول اللہ ﷺ ایک سفر (غزوہ فتح) میں تھے آپ ﷺ نے دیکھا کہ ایک شخص پر لوگوں نے سایہ کر رکھا ہے، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ایک روزہ دار ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ سفر میں رو زہ رکھنا اچھا کام نہیں ہے’’۔

وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: أَغَارَتْ عَلَيْنَا خَيْلُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَغَدَّى، فَقَالَ: ادْنُ فَكُلْ، قُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: اجْلِسْ أُحَدِّثْكَ عَنِ الصَّوْمِ، أَوِ الصِّيَامِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ شَطْرَ الصَّلَاةِ، وَعَنِ الْمُسَافِرِ، وَالْحَامِلِ، وَالْمُرْضِعِ الصَّوْمَ، أَوِ الصِّيَامَ، وَاللّٰہِ لَقَدْ قَالَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِلْتَاهُمَا، أَوْ إِحْدَاهُمَا، فَيَا لَهْفَ نَفْسِي، فَهَلَّا كُنْتُ طَعِمْتُ مِنْ طَعَامِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

(سنن ابن ماجه كتاب الصيام۔بَابُ: مَا جَاءَ فِي الإِفْطَارِ لِلْحَامِلِ وَالْمُرْضِعِ)

قبیلہ بنی عبداللہ بن کعب کے ایک شخص نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے سوار ہمارے اوپر حملہ آور ہوئے تو میں آپ ﷺ کے پاس آیا، اور آپ دوپہر کا کھانا تناول فرما رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: ‘‘قریب آ جاؤ اور کھاؤ’’ میں نے کہا: میں روزے سے ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ‘‘بیٹھو میں تمہیں روزے کے سلسلے میں بتاتا ہوں’’اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف کر دی ہے، اور مسافر، حاملہ اور مرضعہ (دودھ پلانے والی) سے روزہ معاف کر دیا ہے، قسم اللہ کی نبی اکرم ﷺ نے یہ دونوں باتیں فرمائیں، یا ایک بات فرمائی، اب میں اپنے اوپر افسوس کرتا ہوں کہ میں آپ کے ساتھ کھانے میں کیوں شریک نہ ہوا ’’۔

تہجد و تراویح

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهَا: كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰہِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ، قَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي ۔

(صحيح البخاري كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ، بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ)

حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ(تراویح یا تہجد کی نماز) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپؐ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ:إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ، ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ، قَالَ عُمَرُ: نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُومُوْنَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ، وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُوْنَ أَوَّلَهُ۔

(صحيح البخاري كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ، بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ)

حضرت عبدالرحمٰن بن عبدالقاری نے بیان کیا میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ اس ارادے کے مطابق آپ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔

اسوۂ کامل

…أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ جِبْرِيْلُ عَلَيْهِ السَّلَام يَلْقَاهُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ، حَتَّى يَنْسَلِخَ يَعْرِضُ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ، فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، كَانَ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيْحِ الْمُرْسَلَةِ۔

(صحیح البخاری،كِتَاب الصَّوْمِ۔بَابُ أَجْوَدُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكُونُ فِي رَمَضَانَ)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ‘‘ نبی کریم ﷺ سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور آپ ﷺ کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرئیل علیہ السلام آپﷺسے رمضان میں ملتے، جبرئیل علیہ السلام نبی کریم ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریم ﷺ جبرئیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺ سے ملنے لگتے تو آپ ﷺچلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے’’۔

عمومی مسائل

وَيُذْكَرُ عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَاكُ وَهُوَ صَائِمٌ مَا لَا أُحْصِي أَوْ أَعُدُّ، وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ وُضُوءٍ، وَيُرْوَى نَحْوُهُ، عَنْ جَابِرٍ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَخُصَّ الصَّائِمَ مِنْ غَيْرِهِ، وَقَالَتْ عَائِشَةُ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ، مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ، وَقَالَ عَطَاءٌ، وَقَتَادَةُ يَبْتَلِعُ رِيقهُ۔

(صحیح البخاری،كِتَاب الصَّوْمِ۔بَابُ سِوَاكِ الرَّطْبِ وَالْيَابِسِ لِلصَّائِمِ)‏‏

حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ‘‘انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو روزہ کی حالت میں بےشمار دفعہ وضو میں مسواک کرتے دیکھا اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث بیان کی کہ اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتی تو میں ہر وضو کے ساتھ مسواک کا حکم وجوباً دے دیتا۔ اسی طرح کی حدیث جابر اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما کی بھی نبی کریم ﷺ سے منقول ہے۔ اس میں نبی کریم ﷺ نے روزہ دار وغیرہ کی کوئی تخصیص نہیں کی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺکا یہ فرمان نقل کیا کہ (مسواک) منہ کو پاک رکھنے والی اور رب تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور عطاء اور قتادہ نے کہا روزہ دار اپنا تھوک نگل سکتا ہے۔’’

اعتکاف

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ۔

(صحيح مسلم ،كِتَاب الِاعْتِكَافِ۔باب اعْتِكَافِ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ)‏‏‏

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ‘‘ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے’’۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ ۔

(صحيح مسلم ،كِتَاب الِاعْتِكَافِ۔ باب اعْتِكَافِ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ)
‏‏

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ ہمیشہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے وفات پائی۔ پھر آپ ﷺ کے بعد آپ کی ازواج رضی اللہ عنہن اعتکاف بیٹھا کرتی تھیں۔

آخری عشرہ

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ، أَحْيَا اللَّيْلَ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ، وَجَدَّ وَشَدَّ الْمِئْزَرَ ۔

(صحيح مسلم كِتَاب الِاعْتِكَافِ،باب الاِجْتِهَادِ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب رمضان کے آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو آپ کی راتیں زندہ ہوجاتیں۔آپ کمر ہمت کس لیتے،اور اپنے اہل و عیال کو بھی عبادت کے لیے بیدار کرتے۔

قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهَا كَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ ۔(صحيح مسلم كِتَاب الِاعْتِكَافِ،باب الاِجْتِهَادِ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)
‏‏‏

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اتنی کوشش کرتے عبادت میں جو اور دنوں میں نہ کرتے۔

لیلۃ القدر

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ۔

(صحيح البخاري كِتَاب فَضْلِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ؛ بَابُ تَحَرِّي لَيْلَةِ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي تَاسِعَةٍ تَبْقَى، فِي سَابِعَةٍ تَبْقَى، فِي خَامِسَةٍ تَبْقَى۔ (صحيح البخاري كِتَاب فَضْلِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ؛ بَابُ تَحَرِّي لَيْلَةِ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا، لیلۃالقدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، جب نو راتیں باقی رہ جائیں یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔ (یعنی اکیسویں یا تئیسویں یا پچیسویں راتوں میں لیلۃالقدر کو تلاش کرو)۔

ارشادات امام آخرالزمانؑ

فرضیت

‘‘ کُتِبَ’’سے فرضی روزے مراد ہیں۔’’

‘‘تم پر روزے فرض کیے ہیں مگر جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر پر ہو وہ اتنے روزے پھر رکھے’’۔

‘‘میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتا ہوں طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی۔ یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول کے دن ہیں ’’۔

‘‘خداتعالیٰ نے دین اسلام میں پانچ مجاہدات مقرر فرمائے ہیں ۔1نماز ،2روزہ، 3زکوٰۃ،صدقات ، 4حج ،5اسلامی دشمن کا ذبّ اور دفع خواہ سیفی ہو یا قلمی ۔ یہ پانچ مجاہدے قرآن شریف سے ثابت ہیں ، مسلمانوں کو چاہیے کہ ان میں کوشش کریں اور ان کی پابندی کریں یہ روزے تو سال میں ایک ماہ کے ہیں ۔ بعض اہل اللہ تو نوافل کے طور پر اکثر روزے رکھتے ہیں اور ان میں مجاہدہ کرتے ہیں ۔ ہاں دائمی روزے رکھنا منع ہیں ، یعنی ایسا نہیں چاہیے کہ آدمی ہمیشہ روزے ہی رکھتا رہے ، بلکہ ایسا کرنا چاہیے کہ نفلی روزے کبھی رکھے اور کبھی چھوڑدے’’۔

برکات و فوائد

‘‘تیسری بات جو اسلام کا رکن ہے وہ روزہ ہے ، روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اصل یہ ہےکہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے۔ روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اوراس کا اثر ہے، جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اُسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے ، اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں ۔ خدا تعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ہمیشہ روزہ دار کو یہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے ، بلکہ اُسے چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے ، تاکہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو ۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کے لیے تسلی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا کے لیے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں ، جس سے دوسری غذا اُنہیں مل جاوے ’’۔

عبادات کا مقصد

‘‘روزہ اور نماز ہر دو عبادتیں ہیں ۔ روزے کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زورروح پر ہے۔ نماز سے ایک سوزو گذازپیدا ہوتی ہے۔ اس واسطے وہ افضل ہےروزے سے کشوف پیدا ہوتے ہیں ۔ مگر یہ کیفیّت بعض دفعہ جوگیوں میں بھی پیدا ہو سکتی ہے ۔ لیکن روحانی گدازش جو دعاؤں سے پیدا ہوتی ہے، اس میں کوئی شامل نہیں’’۔

رمضان کا فلسفہ

‘‘رمض سورج کی تپش کو کہتے ہیں ۔ رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور دیگر تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے ، دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ایک جوش اور حرارت پیدا کرتا ہے ۔ روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا ۔ اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینے میں آیا اس لیے رمضان کہلایا میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ عرب کے لیے یہ خصوصیت نہیں ہو سکتی ۔ روحانی رمض سے مراد روحانی ذوق و شوق اور حرارت دینی ہوتی ہے ۔ رمض اُس حرارت کو بھی کہتے ہیں جس سے پتھر وغیرہ گرم ہو جاتے ہیں’’۔

‘‘اگر خدا چاہتا تو دوسری امتوں کی طرح اِس امُت میں کوئی قید نہ رکھتا ، مگر اس نے قیدیں بھلائی کے واسطے رکھی ہیں۔ میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینے میں تو مجھے محروم نہ رکھ ، تو خدا ا ُسے محروم نہیں رکھتا ، اور ایسی حالت میں اگر انسان ماہ رمضان میں بیمار ہو جاوے تو یہ بیماری اس کے حق میں رحمت ہوتی ہےکیونکہ ہر ایک عمل کا مدار نیت پر ہے۔ مومن کو چاہیےکہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کر دے ۔ جو شخص روزے سے محروم رہتا ہے مگر اس کے دل میں یہ نیت درد دل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا اور روزہ رکھتا اور اُس کا دل اس بات کے لیے گریاں ہے تو فرشتے اُس کے لیے روزے رکھیں گے ، بشرطیکہ وہ بہانہ جو نہ ہوتو خدا تعالیٰ ہرگز اُسے ثواب سے محروم نہ رکھے گا۔یہ ایک باریک امر ہے کہ اگر کسی شخص پر (اپنے نفس کی کسل کی وجہ سے )روزہ گراں ہے اور وہ اپنے خیال میں گمان کرتا ہے کہ میں بیمار ہوں اور میری صحت ایسی ہے کہ اگر ایک وقت نہ کھاؤں تو فلاں فلاں عوارض لاحق حال ہوں گے اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا تو ایسا آدمی جوخدا کی نعمت کو خود اپنے اوپر گراں گمان کرتا ہے کب اُس ثواب کا مستحق ہوگا ۔ ہاں وہ شخص جس کا دل اس بات پر خوش ہے کہ رمضان آگیا اور اس کامنتظر تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھر بوجہ بیماری کے نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے’’۔

بیمار اور مسافر

‘‘اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔خداتعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے۔ اس لیے اس حکم پر بھی تو عمل کرنا چاہیے۔ میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے ، کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے نہ اپنی مرضی، اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرماں برداری میں ہے جو حکم وہ دے اُس کی اطاعت کی جاوئے۔ اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے ۔ اُس نے تو یہ حکم دیا ہے مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ۔ اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یا ایسی بیماری ہو ۔ میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا ، اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں چنانچہ آج بھی میری طبیعت اچھی نہیں اور میں نے روزہ نہیں رکھا’’۔

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام، جلد دوم صفحہ 258تا 265۔ایڈیشن 2004،مطبوعہ پرنٹ ویل امرتسر )

تہجد و تراویح

ایک شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان میں نماز تراویح آٹھ رکعت باجماعت قبل خفتن مسجد میں پڑھنی چاہیے ، یا کہ پچھلی رات کو اٹھ کر اکیلے گھر میں پڑھنی چاہیے؟۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ ‘‘نماز تراویح کوئی جدا نماز نہیں ۔ دراصل نماز تہجد کی آٹھ رکعت کو اوّل وقت میں پڑھنے کا نام تراویح ہے۔ اور یہ ہر دو صورتیں جائز ہیں جو سوال میں بیان کی گئی ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے ہر دوطرح پڑھی ہے۔ لیکن اکثر عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر تھا کہ آپ پچھلی رات کو گھر میں اکیلے یہ نماز پڑھتے تھے’’۔

(ملفوظات جلد 10،صفحہ 17،18۔ایڈیشن 1984ء)

‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ِدائمی تو وہی آٹھ رکعت ہے اور آپؐ تہجد کے وقت ہی پڑھا کرتے تھے اور یہی افضل ہے ۔ مگر پہلی رات بھی پڑھ لینا جائز ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے رات کے اوّل حصہ میں اُسے پڑھا ۔ بیس رکعات بعد میں پڑھی گئیں ۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت وہی تھی جو پہلے بیان ہوئی’’۔

(ملفوظات جلد 10،صفحہ 17،18۔ایڈیشن 1984ء)

مولا کریم ہم سب کو محض اپنے فضل سے خلوص نیت کے ساتھ ان بابرکت ایام سے بھر پور فائدہ اٹھانے ، روزے رکھنے، نمازیں پڑھنے ، قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کرنے اور صدقہ و خیرات کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button