رمضان المبارک کے بابرکت ایام میں قادیان اور ربوہ کی رونقیں (قسط اول)
رمضان المبارک اسلامی دنیا میں متلاشیانِ توحید و قربِ الٰہی کے لیے موسمِ بہار کی مانند ہے۔ رمضان اور جماعت احمدیہ کا ایک ایسا روحانی تعلق ہے جو نسلاً بعد نسلٍ مستحکم اور تنومند ہوتا جا رہا ہے۔ اور امام الزمان حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے احمدیت کے بابرکت سایہ کے جلو میں احبابِ جماعت ابتداء سے اس بابرکت ماہ کے روحانی فیوض سے مستفیض ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔انشاءاللہ۔
قاديان ہمارا دائمی مرکز ہے جہاں کے ماحول کي تربيت يافتہ روحوں نے نئے مرکز احمديت ربوہ ميں اسی طرح روايات اور وہاں کي تہذيب کو مروّج کرنے ميں اہم کردار ادا کيا۔ قاديان ہو يا ربوہ يا جہاں بھی احمديوں کي کثرت ہو۔ وہاں قاديان يا ربوہ جيسا ماحول بنا لينا نہايت سہل امر ہے اور جہاں بھی خليفۂ وقت کي موجودگی ہو تو روشني کے پروانوں کا تو اصل مرکز وہاں ہی ہوتاہے۔
رمضان المبارک کے ایام سے گزرنے کی تیاری سے لے کر رمضان میں عبادات کا قیام، تہجد، سحر و افطار، درس القرآن، درسِ حدیث، زیارت بہشتی مقبرہ، اعتکاف، صدقات و انفاق فی سبیل اللہ وہ بنیادی امور ہیں جو ہر مرکزِ احمدیت کی امتیازی شان ہیں اور مرور زمانہ کے ساتھ ایم ٹی اے بھی احمدی معاشرہ کی بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔جہاں سے علم و عرفان کے چشمے ہمہ وقت جاری ہیں۔
اس ضمن میں مرکزی اخبارات البدر/بدر قادیان، الحکم قادیان، الفضل قادیان/ لاہور/ ربوہ نے خصوصاً اور دیگر رسائل و جرائد نے بھی احبابِ جماعت کی تعلیم و تربیت اور مرکز کی جملہ دینی روایات اور اقدار کو زندہ رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
مضمون ہذا میں عنوان کے پیشِ نظر مراکز میں رمضان کے حالات اپنے الفاظ میں بیان کرنا کوئی مشکل امر نہیں۔ لیکن آج کل کے وبائی حالات میں جہاں سہولیات کے پیشِ نظر کتب بینی اور لائبریری میں جا کر ایسے تاریخی امور تلاش کرنے کا وقت ہر کس و ناکس کے پاس نہیں ۔اس لیے یہ واقعات اور ارشادات جماعتی امانت خیال کرتے ہوئے بعینہ اور بعض اختصاراً احباب کے لیے بطور ہدیہ تبریک پیش ہیں۔
حضرت مسيح موعودعليہ الصلوٰة و السلام رمضان ميں مصروفيات کا ذکر
حضرت سیٹھ عبد الرحمٰن صاحبؓ مدراسی نے اپنے کسی ضروری کام کے لیے مدراس واپس جانے کی اجازت طلب کی کیونکہ ان کو واپسی کے لیے تار بھی آیا تھا۔اس پر حضرت مسیح موعوؑد نے فرمایا:
’’آپ کا اس مبارک مہینہ(رمضان)میں یہاں رہنا از بس ضروری ہے۔‘‘
اور فرمايا: ’’ہم آپ کے لئے وہ دعا کرنے کو تیار ہیں جس سے باذن اللہ پہاڑ بھی ٹل جائے۔ فرمایا:آج کل میں احباب کے پاس کم بیٹھتا ہوں اور زیادہ حصہ اکیلا رہتا ہوں۔یہ احباب کے حق میں از بس مفید ہے۔میں تنہائی میں بڑی فراغت کے ساتھ دعائیں کرتا ہوں اور رات کا بھی بہت سا حصہ دعاؤں میں صرف ہوتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 424،ايڈيشن 2016ء)
حضرت ڈاکٹر مير محمد اسماعيل صاحبؓ بيان کرتے ہيں کہ
’’1895ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفا ق ہوا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اوّل شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دو دو رکعت کرکے آخر شب میں ادا فرماتے تھے ۔ جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے یعنی
اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ سے وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْم
تک اوردوسری رکعت ميں سورة اخلاص کي قراء ت فرماتے تھے اور رکوع و سجود ميں
يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِيْثُ
اکثر پڑھتے تھے۔ اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سُن سکتا تھا نیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے اوراس میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ بعض دفعہ کھاتے کھاتے اذان ہوجاتی تھی اور آپ بعض اوقات اذان کے ختم ہونے تک کھانا کھاتے رہتے تھے۔ خاکسار (حضرت مرزا بشیر احمد صاحب)عرض کرتا ہے کہ دراصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب تک صبح صادق افق مشرق سے نمودار نہ ہوجائے سحری کھانا جائز ہے اذان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ صبح کی اذان کا وقت بھی صبح صادق کے ظاہر ہونے پر مقرر ہے ۔ اس لئے لوگ عمومًا سحری کی حد اذان ہونے کو سمجھ لیتے ہیں ۔ قادیان میں چونکہ صبح کی اذان صبح صادق کے پھوٹتے ہی ہو جاتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی اور بے احتیاطی سے اس سے بھی قبل ہوجاتی ہو۔اس لئے ایسے موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اذان کا چنداں خیال نہ فرماتے تھے اور صبح صادق کے تبیّن تک سحری کھاتے رہتے تھے اور دراصل شریعت کا منشاء بھی اس معاملہ میں یہ نہیں ہے کہ جب علمی اور حسابی طورپرصبح صادق کا آغاز ہواس کے ساتھ ہی کھانا ترک کر دیا جاوے بلکہ منشاء یہ ہے کہ جب عام لوگوں کی نظر میں صبح کی سفیدی ظاہر ہو جاوے اس وقت کھانا چھوڑ دیا جاوے۔چنانچہ تبیّن کا لفظ اسی بات کو ظاہر کررہا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی اذان پر سحری نہ چھوڑا کرو بلکہ ابن مکتوم کی اذان تک بیشک کھاتے پیتے رہا کرو۔ کیونکہ ابن مکتوم نابینا تھے اور جب تک لوگوں میں شور نہ پڑ جاتا تھا کہ صبح ہوگئی ہے، صبح ہوگئی ہے اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے۔‘‘
(سيرت المہدی جلداول صفحہ295تا296۔ روايت نمبر 320)
روزانہ کي مصروفيات
رمضان 1902ء ميں حضرت مسيح موعود ؑکے روزانہ دستور العمل کے متعلق البدر نے يوں رپورٹ درج کی کہ
’’حضرت مسیح موعود ؑسوائے حالتِ بیماری کے جس میں آپ بہت سخت لاچار ہوں ہر ایک نماز باجماعت ادا کرتے ہیں۔ حضورعلیہ الصلوٰة والسلام خود نماز کی جماعت نہیں کرتے بلکہ مقتدی ہو کر نماز ادا کرتے ہیں ۔ جب کسی جنازہ کی نماز پڑھنی ہو تو حضور علیہ الصلوٰة والسلام اس وقت خود امام ہوتے ہیں۔
سوائے مغرب کی نماز کے سنت مؤکدہ کے باقی کل سنت نوافل ہر ایک نماز کی ما قبل و مابعد آپ گھر میں ادا کرتے ہیں مگر آج کل رمضان میں مغرب کی سنت مؤکدہ آپ گھر میں ادا کرتے ہیں۔
آجکل رمضان میں تو نہیں مگر آپ کی مستمرہ عادت ہے کہ فجر کی نماز ادا کر کے گھنٹہ یا دو گھنٹہ بعد سیر کے لئے تشریف لاتے ہیں اور اپنے اصحاب کے ساتھ میل یا دو میل تک چہل قدمی فرماتے ہیں اور راستہ میں مختلف قسم کے ذکر و اذکار ہوتے رہتے ہیں۔ جن میں کبھی جماعت کو نصیحت ہوتی ہے یا کسی سوال کا جواب یا اپنی مشن کا تذکرہ وغیرہ۔
عام طور پر آپ کی مجلس کا وقت مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد سے عشاء کی ادائیگی تک ہے۔ مگر اکثر اوقات ظہر اور عصر کے اوقات میں بھی مجلس کرتے ہیں اور ان مجالس میں نو وارد مہمان آپ سے نیاز اور ملاقات حاصل کرتے ہیں۔ جب کبھی آپ کی طبیعت علیل ہو اور نماز میں شامل نہ ہو سکیں تو کہلا بھیجتے ہیں کہ نماز پڑھ لو میں نہیں آ سکتا تا کہ لوگ انتظار میں نہ رہیں اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو حضرت اقدسؑ اس کے آگے سے نہیں گزرتے۔
جس مسجد میں جماعت ہوتی ہے اس میں دو منزل ہیں ایک اونچی اور ایک نیچی۔ آپ دولت سرا سے تشریف لا کر جب اول نیچے کے حصہ میں داخل ہوتے ہیں تو جو جماعت وہاں موجود ہوتی ہے آپ اس پر سلام علیکم کرتے ہیں۔ پھر جب اونچے حصہ میں آتے ہیں تو وہاں کی جماعت پر سلام کرتےہیں اور اسی طر ح سے جاتے ہوئے ہر ایک جماعت پر سلام کرتے ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ اکثر ابتدا سلام علیکم کی آپ کی طرف سے ہوتی ہے اور جتنی دفعہ آپ آویں جاویں برابر سلام علیکم کرتےہیں۔ تکبیر تحریمہ کے وقت آپ کانوں تک ہاتھ اٹھاتے ہیں اور دست ِ مبارک سینہ (صدر) پر باندھتےہیں اور آج تک ایک وقت بھی آپ سے آمین بالجہر نہیں سنی گئی نماز کے کسی رکن میں بھی آپ امام سے پیش دستی نہیں کرتے ۔ حالتِ قیام میں آپ کے پائے مبارک ایڑھیوں کی طرف سے کچھ ملے ہوئے اور پنجہ کی طرف سے کچھ کشادہ ہوتے ہیں۔‘‘
(البدر قاديان۔ 18؍رمضان المبارک بمطابق 19؍ دسمبر 1902ء)
رؤيت ہلال
حضرت مسیح موعودؑ رویت ہلال کے لیے خود بھی مسجد کی چھت پر تشریف لے جاتے اور چاند دیکھ کر دعا بھی فرماتے۔ اور قادیان میں چاند نظر نہ آیا اور بعد میں پتہ چلا کہ باہر کسی نے چاند دیکھا ہے تو اس صورت میں آپ نے تحقیق بھی فرمائی۔ یہ امر ذیل کی روایات سے ظاہر ہے۔
مغرب کی نماز سے چند منٹ پیشتر ماہ رمضان کا چاند دیکھا گیا۔حضور ؑ مغرب کی نماز گذار کر مسجد کی سقف پر چاند دیکھنے تشریف لے گئے کہ چاند کو دیکھیں اور دیکھا اور پھر مسجد میں تشریف لائے۔فرمایا کہ
’’رمضان گذشتہ ايسا معلوم ہوتا ہے جيسے کل گيا تھا۔‘‘
(ملفوظات جلد 3صفحہ 424،ايڈيشن 2016ء)
حضرت مياں خير الدين صاحب سيکھوانی تحرير کرتے ہيں کہ
’’ايک دفعہ ماہ رمضان کا روزہ خود چاند ديکھ کر تو نہيں بعض غير احمديوں کي شہادت پر روزہ رکھ ليا اور اسی دن (ہم)قاديان قريباً ظہر کے وقت پہنچے اور يہ ذکر کيا کہ ہم نے روزہ رکھا ہو اہے اور حضور عليہ السلام بھی مسجد ميں تشريف لے آئے۔ اسی وقت احاديث کي کتابيں مسجد ميں ہي منگوائی گئيں اور بڑی توجہ سے غور ہونا شروع ہو گيا کيونکہ قاديان ميں اس روز روزہ نہيں رکھا ہو ا تھا۔ اسی دوران ميں ہم سے سوال ہو اکہ ’’کيا چاند تم نے خود ديکھ کر روزہ رکھا ہے ؟‘‘ ہم نے عرض کيا کہ ’’ بعض غير احمديوں نے ديکھا تھا‘‘۔ ہمارے اس فقرے کے کہنے پر کہ’’ چاند غير احمديوں نے ديکھا تھا ‘‘ کتاب کو تہہ کرديا اور فرمايا کہ ’’ہم نے سمجھاتھا کہ تم نے خود چاند ديکھ کر روزہ رکھا ہے اس لئے تحقيقات شروع کی تھی۔ اس کے بعد دير تک ہنستے رہے۔‘‘
(سيرت المہدی جلد 2صفحہ 265۔روايت نمبر1480)
روزوں کي عادت
حضرت مسیح موعود ؑ کے روزوں کے حوالے سے مجاہدات ایک حیرت انگیز تفصیل لیے ہوئے ہے۔ لگاتار 8تا 9ماہ کے روزے عین جوانی میں رکھنا اور پھر ان روزوں میں افطار اور سحر میں معمولی کھانا کھا کر گزارہ کرنا یہ ایک برگزیدہ نبی کی ہی شان ہے۔
حضرت ڈاکٹر مير محمد اسماعيل صاحبؓ فرماتے ہيں کہ
’’آپ نے اوائل عمر میں گوشہ تنہائی میں بہت بہت مجاہدات کئے ہیں اور ایک موقعہ پر متواتر چھ ماہ کے روزے منشاء الٰہی سے رکھے اور خوراک آپکی صرف نصف روٹی یا کم روزہ افطار کر نے کے بعد ہو تی تھی ۔اور سحری بھی نہ کھاتے تھے اور گھر سے جو کھانا آتا وہ چھپا کر کسی مسکین کو دیدیا کرتے تھے۔ تاکہ گھر والوں کو معلوم نہ ہو مگر اپنی جماعت کیلئے عام طورپر آپ نے ایسے مجاہدے پسند نہیں فرمائے بلکہ اس کی جگہ تبلیغی اور قلمی خدمات کو مخالفانِ اسلام کے برخلاف اس زمانہ کا جہاد قرار دیا۔ پس ایسے شخص کی نسبت یہ خیال کرنا کہ وہ دنیاوی لذتوں کا خواہش مند ہے سراسر ظلم نہیں تو کیا ہے ؟۔‘‘
(سيرت المہدی جلد اول صفحہ 428۔روايت نمبر447)
حضرت اماں جانؓ فرماتی ہيں کہ
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جوانی کا ذکر فرمایا کرتے تھے کہ اس زمانہ میں مجھ کو معلوم ہوا یا فرمایا اشارہ ہوا کہ اس راہ میں ترقی کر نے کے لئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں ۔فرماتے تھے پھر میں نے چھ ماہ لگا تار روزے رکھے اور گھر میں یا باہر کسی شخص کو معلوم نہ تھا کہ میں روزہ رکھتا ہوں ۔صبح کا کھانا جب گھرسے آتا تھاتو میں کسی حاجتمند کو دے دیتا تھا اورشام کا خود کھا لیتا تھا۔‘‘
(سيرت المہدی جلد اول صفحہ 14۔روايت نمبر 18)
ابتدائی روزوں ميں سير نہ کرتے
يکم دسمبر 1902ء بروز دوشنبہ (بوقت سير): حسب معمول سير کے لئے تشريف لائے تو آتے ہی فرمايا کہ
’’آج ہی کے دن سير ہے کل سے انشاء اﷲ روزہ شروع ہوگا۔تو چار پانچ دن تک سير بند رہے گی تا کہ طبيعت روزے کي عادی ہو جائے اور تکليف محسوس نہ ہو۔‘‘
(ملفوظات جلد 3صفحہ418،ايڈيشن 2016ء)
سحري کا اہتمام
حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعالٰی فرماتے ہيں کہ
’’اسی طرح سحری کھانے کا معاملہ ہے۔ سحری کھا کر روزہ رکھنا ضروری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں یہی حکم دیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزے کے دنوں میں سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھا کر روزہ رکھنے میں برکت ہے۔
(صحيح بخاری کتاب الصوم باب برکة السحور … الخ حديث 1923)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس کی پابندی فرمایا کرتے تھے۔ خود بھی اور جو اپنے جماعت کے احباب افراد تھے ان کو بھی کہا کرتے تھے کہ سحری ضروری ہے۔ اسی طرح جو مہمان قادیان میں آیا کرتے تھے ان کے لئے بھی سحری کا باقاعدہ انتظام ہوا کرتا تھا بلکہ بڑا اہتمام ہوا کرتا تھا۔‘‘
(خطبہ جمعہ بيان فرمودہ 3؍جون 2016ء مطبوعہ الفضل انٹر نيشنل 24؍جون 2016ءصفحہ 6)
سحری ميں کيا پسند فرماتے
حضرت ڈاکٹر مير محمد اسماعيل صاحب ؓتحرير فرماتے ہيں کہ
’’سحری آپ ہمیشہ گھر میں ہی تناول فرماتے تھے اور ایک دو موجودہ آدمیوں کے ساتھ یا تنہا ۔ سوائے گھر کے باہر جب کبھی آپ کھانا کھاتے تو آپ کسی کے ساتھ نہ کھاتے تھے یہ آپ کا حکم نہ تھا مگر خدام آپ کو عزت کی وجہ سے ہمیشہ الگ ہی برتن میں کھانا پیش کیا کرتے تھے ۔اگر چہ اور مہمان بھی سوائے کسی خاص وقت کے الگ الگ ہی برتنوں میں کھایا کرتے تھے ۔ ۔…
رمضان کی سحری کیلئے آپ کے لئے سالن یا مرغی کی ایک ران اور فرنی عام طور پر ہوا کرتے تھے اور سادہ روٹی کے بجائے ایک پراٹھا ہو ا کرتا تھا۔ اگرچہ آپ اس میں سے تھوڑا سا ہی کھاتے تھے ۔‘‘
(سيرت المہدی جلد اول صفحہ 421+428۔روايت نمبر447)
سحری کے وقت احتياط کي ايک مثال
حضرت صاحبزادہ مرزا بشير احمدصاحبؓ تحرير کرتے ہيں کہ
’’حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ ماہ رمضان میں سحری کے وقت کسی شخص نے اصل وقت سے پہلے اذان دے دی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لے آئے اورفرمایا کہ میں نے دودھ کا گلاس منہ کے قریب کیا ہی تھا کہ اذان کی آواز آئی۔ اس لئے وہ گلاس مَیں نے وہیں رکھ دیا۔ کسی شخص نے عرض کی۔ کہ حضور ابھی تو کھانے پینے کا وقت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ بعد اذان کچھ کھایا جائے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ روایت اگر درست ہے تو حضور نے اس وقت اپنی ذات کے لئے یہ احتیاط برتی ہوگی۔ ورنہ حضور کا طریق یہی تھا کہ وقت کا شمار اذان سے نہیں بلکہ سحری کے نمودار ہونے سے فرماتے تھے۔ اوراس میں بھی اس پہلو کو غلبہ دیتے تھے کہ فجر واضح طورپرظاہر ہوجاوے۔ جیسا کہ قرآنی آیت کا منشاء ہے مگر بزرگوں کا قول ہے کہ فتویٰ اور ہے اور تقویٰ اور۔‘‘
(سيرت المہدی جلد اول صفحہ520۔روايت نمبر507)
سحری میں مسیح کا من و سلویٰ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشير احمدؓ صاحب تحرير کرتے ہيں کہ
’’حضرت شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان جوکہ سخت سردیوں کے ایام میں آیا ۔ اس کے گذارنے کے لئے دارالامان آیا۔ حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کتب خانہ کے انچارج اور مہتمم تھے اور کمرہ متصل مسجد مبارک میں کتب خانہ تھااور وہیں حکیم صاحب کا قیام تھا۔ خاکسار کے پہنچنے پر حکیم صاحب نے مجھے بھی اُسی کمرہ میں ٹھہرنے کی اجازت دے دی ۔ خاکسار نے شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک گوشہ میں بستر لگا لیا۔ اور بہت آرام ولطف سے وقت گزرنے لگا ۔ حضرت صاحب ہر نماز کے لئے اسی کمرہ سے گزر کر مسجد میں تشریف لے جاتے تھے۔ ایک دفعہ سحری کے وقت دروازہ کھلا۔ خاکسار سامنے بیٹھا تھا۔ یہ دیکھ کر کہ حضرت صاحب دروازہ میں کھڑے ہیں ۔ تعظیماً کھڑا ہوگیا ۔ حضور نے اشارہ سے اپنی طرف بلایا۔ میں جب آگے بڑھا (تو دیکھا) کہ حضور کے دونوں ہاتھوں میں دو چینی کے پیالے ہیں ۔ جن میں کھیر تھی۔ حضور نے وہ دونوں پیالے خاکسار کو دیتے ہوئے فرمایا کہ جن احباب کے نام ان پر لکھے ہوئے ہیں دیکھ کر اُن کو پہنچادو، میں نے وہ حکیم صاحب کے پیش کئے ۔ انہوں نے مسجد میں سے کسی کو طلب کر کے وہ پیالے اُن احباب کو پہنچا دئیے جن کے نام سیاہی سے لکھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد پھر دروازہ کھلا۔ پھر حضرت صاحب دو پیالے پکڑا گئے ۔ وہ بھی جن کے نام کے تھے ان کو پہنچا دئیے گئے ۔ اس طرح حضرت صاحب خود دس گیارہ دفعہ پیالے لاتے رہے اور ہم اُن اشخاص کو مہمان خانہ میں پہنچاتے رہے ۔ اخیر دفعہ میں جو دو پیالے حضور نے دئیے ۔ اُن میں سے ایک پر حکیم صاحب کانام اور دوسرے پر میرا نام تحریر تھا۔ حکیم صاحب نے کھیر کھا کر کہا کہ آج تو مسیح کا من وسلویٰ اُتر آیا۔‘‘
(سيرت المہدی جلد 2صفحہ 68تا69۔روايت نمبر 1088)
اصحاب کے ليے من پسند سحری
حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی ؓ کی روایت سیرت المہدی میں اس طرح درج ہے کہ
’’ميں قاديان ميں مسجد مبارک سے ملحق کمرے ميں ٹھہرا کرتا تھا۔ ميں ايک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسيح موعودعليہ السلام تشريف لے آئے ۔ ديکھ کر فرمايا۔ ’’آپ دال سے روٹی کھاتے ہيں؟‘‘ اور اسی وقت منتظم کو بلوايااور فرمانے لگے کہ ’’آپ سحری کے وقت دوستوں کو ايسا کھانا ديتے ہيں؟يہاں ہمارے جس قدر احباب ہيں وہ سفر ميں نہيں۔ ہر ايک سے معلوم کرو کہ اُن کو کيا کيا کھانے کي عادت ہے اور وہ سحري کو کيا کيا چيز پسند کرتے ہيں۔ ويسا ہی کھانا ان کے لئے تيارکياجائے۔‘‘ پھر منتظم ميرے لئے اور کھانا لايا مگر ميں کھاناکھا چکا تھا اور اذان بھی ہوگئی تھی ۔ حضور نے فرمايا : ’’کھالو۔ اذان جلد دی گئی ہے اس کا خيال نہ کرو۔‘‘
(سيرت المہدی جلد 2 صفحہ 127۔روايت نمبر 1163)
کشميری پراٹھے کي مہمان نوازی
’’محترمہ اہليہ صاحبہ ڈاکٹر خليفہ رشيد الدين صاحب مرحوم بيان کرتی ہيں کہ 1903ء کا ذکر ہے کہ ميں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم رُڑکی سے آئے۔چار دن کي رخصت تھی۔حضور ؑ نے پوچھا۔’’ سفر ميں روزہ تو نہيں تھا؟‘‘ ہم نے کہا نہيں۔ حضور ؑنے ہميں گلابی کمرہ رہنے کو ديا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ’’ہم روزہ رکھيں گے‘‘۔آپؑ نے فرمايا ’’ بہت اچھا! آپ سفر ميں ہيں‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا ۔ حضورؑ! چند روز قيام کرنا ہے دل چاہتا ہے روزہ رکھوں۔آپؑ نے فرمايا۔’’اچھا ! ہم آپ کو کشميری پراٹھے کھلائيں گے۔‘‘ ہم نے خيال کياکشميری پراٹھے خد اجانے کيسے ہونگے؟ جب سحری کا وقت ہوا اور ہم تہجد ونوافل سے فارغ ہوئے اور کھانا آيا تو حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰةوالسلام خود گلابی کمرے ميں تشريف لائے (جوکہ مکان کي نچلی منزل ميں تھا) حضرت مولوي عبدالکريم صاحب مکان کی اوپر والی تيسری منزل پر رہا کرتے تھے۔ان کی بڑی اہليہ کريم بی بی صاحبہ جن کو مولويانی کہا کرتے تھے کشميری تھيں اور پراٹھے اچھے پکايا کرتی تھيں ۔ حضورؑ نے يہ پراٹھے ان سے ہمارے واسطے پکوائے تھے۔پراٹھے گرما گرم اوپر سے آتے تھے اور حضور عليہ السلام خود لے کر ہمارے آگے رکھتے تھے اور فرماتے تھے۔’’ اچھي طرح کھاؤ‘‘۔مجھے تو شرم آتی تھی اور ڈاکٹر صاحب بھی شرمسار تھے مگر ہمارے دلوں پر جو اثر حضورؑ کی شفقت اور عنايت کا تھا اس سے روئيں روئيں ميں خوشی کا لرزہ پيدا ہو رہا تھا۔ اتنے ميں اذان ہوگئی توحضورؑ نے فرمايا کہ’’اور کھاؤ ابھی بہت وقت ہے۔ فرماياقرآن مجيد ميں اللہ تعاليٰ نے فرمايا ہے۔
کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰي يَتَبَيَّنَ لَکُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (البقرة:188)۔
اس پر لوگ عمل نہيں کرتے۔آپ کھائيں ابھی وقت بہت ہے۔مؤذن نے وقت سے پہلے اذان دے دی ہے۔’’ جب تک ہم کھاتے رہے حضورؑ کھڑے رہے اور ٹہلتے رہے۔ہر چند ڈاکٹر صاحب نے عرض کيا کہ حضورؑ تشريف رکھيں۔ميں خود خادمہ سے پراٹھے پکڑ لونگا يا ميري بيوی لے ليں گی۔مگر حضورؑ نے نہ مانا اور ہماري خاطر تواضع ميں لگے رہے۔اس کھانے ميں عمدہ سالن اور دودھ سوياں وغيرہ کھانے بھی تھے۔‘‘
(سيرت المہدی جلد 2صفحہ202تا203۔روايت نمبر 1320)
افطار کی مہمانی
حضرت منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی تحرير کرتے ہيں کہ
’’ایک مرتبہ میں اور حضرت منشی اروڑے خان صاحب اور حضرت خان صاحب محمد خاں صاحب لدھیانہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ میں نے روزہ رکھا ہوا تھا اورمیرے رفقاء نے نہیں رکھا تھا۔ جب ہم حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو تھوڑا سا وقت غروب آفتاب میں باقی تھا۔ حضرت کو انہوں نے کہا کہ ظفر احمد نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ حضرت فوراً اندر تشریف لے گئے اور شربت کا ایک گلاس لے کر آئے اورفرمایا روزہ کھول دو۔ سفر میں روزہ نہیں چاہئے۔میں نے تعمیل ارشاد کی اوراس کے بعد بوجہ مقیم ہونے کے ہم روزہ رکھنے لگے۔ افطاری کے وقت حضرت اقدس خود تین گلاس ایک بڑے تھال میں رکھ کر لائے۔ ہم روزہ کھولنے لگے۔میں نے عرض کیا کہ حضور منشی جی کو (منشی اروڑے خاں صاحب کو) ایک گلاس میں کیا ہوتا ہے۔حضرت مسکرائے اورجھٹ اندر تشریف لے گئے۔ اور ایک بڑا لوٹا شربت کا بھر کر لائے اورمنشی جی کو پلایا۔ منشی جی یہ سمجھ کر حضرت اقدس کے ہاتھ سے شربت پی رہا ہوں پیتے رہے اور ختم کردیا۔‘‘
(روايت حضرت منشی ظفراحمد صاحب کپورتھلوی ؓاصحاب احمد جلد4صفحہ224نيا ايڈيشن )
دعوتِ افطار
حضرت نواب مبارکہ بيگم صاحبہؓ دختر حضرت مسيح موعود عليہ السلام فرماتی ہيں کہ
’’قبل بلوغت کم عمری میں آپؑ روزہ رکھوانا پسند نہیں کرتے تھے۔ بس ایک آدھ رکھ لیا کافی ہے۔ حضرت اماں جان نے میرا پہلا روزہ رکھوایا تو بڑی دعوتِ افطار دی تھی۔یعنی جو خواتین جماعت تھیں سب کو بلایا تھا۔اس رمضان کے بعد دوسرے یا تیسرے رمضان میں مَیں نے روزہ رکھ لیا اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایاکہ آج میرا روزہ پھر ہے۔ آپؑ حجرہ میں تشریف رکھتے تھے۔پاس سٹول پر دو پان لگے رکھے تھے۔غالبًا حضرت اماں جانؓ بنا کر رکھ گئی ہوں گی۔آپ نے ایک پان اُٹھاکر مجھے دیا کہ لو یہ پان کھالو۔تم کمزورہو،ابھی روزہ نہیں رکھنا۔ توڑ ڈالو روزہ۔میں نے پان تو کھالیامگر آپ سے کہاکہ صالحہ (یعنی ممانی جان مرحومہ چھوٹے ماموں جان کی اہلیہ محترمہ)نے بھی رکھا ہے۔اُن کا بھی تڑوادیں۔فرمایا بلاؤ اس کو ابھی۔میں بُلا لائی۔وہ آئیں تو اُن کو بھی دوسرا پان اُٹھاکر دیا اورفرمایا لو یہ کھالو۔تمہارا روزہ نہیں ہے ۔ میری عمر دس سال کی ہوگی غالبًا۔‘‘
(تحريراتِ مبارکہ صفحہ227تا228)
مسافروں کا روزہ کھلوا ديتے
اس باب میں کئی روایات ملتی ہیں کہ روزہ رکھ کر قادیان تشریف لانے والے اصحاب کے روزے افطار کروا دیا کرتے تھے۔ لیکن بغرض ریکارڈ ایک ہی درج کی جارہی ہے۔
’’حضرت ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ لاہور سے کچھ احباب رمضان میں قادیان آئے۔ حضرت صاحب کو اطلاع ہوئی تو آپ معہ کچھ ناشتہ کے ان سے ملنے کے لئے مسجد میں تشریف لائے ۔ان دوستوں نے عرض کیا کہ ہم سب روزے سے ہیں ۔آپ نے فرمایا۔‘‘سفر میں روزہ ٹھیک نہیں اللہ تعالیٰ کی رخصت پر عمل کرنا چاہیے ۔چنانچہ ان کو ناشتہ کر وا کے ان کے روزے تڑوا دیئے۔‘‘
(سيرت المہدی جلد اول صفحہ 344تا345۔روايت نمبر 381)
رمضان ميں بچوں کي مہمانی
حضرت مصلح موعودؓنے پہلا روزہ بارہ تيرہ برس کی عمر ميں رکھا چنانچہ خود ہی فرماتے ہيں:
’’مجھے جہاں تک ياد ہے۔ حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ يا تيرہ سال کی عمر ميں دی تھی… مجھے پہلے سال صرف ايک روزہ رکھنے کی حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے اجازت دی تھی۔‘‘
(الفضل 19؍نومبر 1940ء)
’’حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی تحریر کرتےہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ماہ رمضان مبارک تھا اور گرمی کا موسم تھا۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اس سردخانہ میں تھے جو قدیمی مکان کے شرقی دروازہ سے ڈیوڑھی کو عبور کرتے ہوئے بجانب شمال تھا۔ آپ صائم تھے اور میں نے روزہ نہیں رکھا تھا کیونکہ میری عمر ابھی سن بلوغ کو نہیں پہنچی تھی۔ اور ایک اور شخص جمال نامی جو میاں جان محمد صاحب مرحوم کا بھائی تھا وہاں تھا۔ ہم دونوں حضر ت اقدس علیہ السلام کودبا رہے تھے ۔ جب سورج مغرب کی طرف مائل ہو گیا ہو ا تھا اس وقت چنے سفید رنگ کے جو سرد خانہ کے ایک کونے میں ایک گھڑے میں تھے نکلوائے اور بھنوا کر حضر ت اقدسؑ نے اپنے دست مبارک سے ہم دونوں کو تقسیم کر دئیے ۔‘‘
(سيرت المہدی جلد 2صفحہ 271۔روايت نمبر 1489)
مخالفين کی رمضان ميں ہرزہ سرائی
محترمہ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب بیان کرتی ہیں کہ بعض دفعہ مرزا نظام الدین کی طرف سے کوئی رذیل آدمی اس بات پر مقرر کردیا جاتا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو گالیاں دے ۔ چنانچہ بعض دفعہ ایسا آدمی ساری رات گالیاں نکالتا رہتا تھا۔ آخرجب سحری کا وقت ہوتا تو حضرت جی دادی صاحبہ کو کہتے کہ اب اس کو کھانے کو کچھ دو۔ یہ تھک گیا ہوگا۔ اس کا گلا خشک ہوگیا ہوگا۔ میں حضرت جی کو کہتی کہ ایسے کم بخت کو کچھ نہیں دینا چاہئے ۔ تو آپ فرماتے ۔ ’’ہم اگر کوئی بدی کریں گے تو خدا دیکھتا ہے۔ ہماری طرف سے کوئی بات نہیں ہونی چاہئے ۔‘‘
(سيرت المہدی جلد 2صفحہ 102تا103۔روايت نمبر 1130)
اخير عمر ميں چند روزے
حضرت مرزا بشير احمد صاحب ؓ فرماتے ہيں کہ
’’میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ آخرعمر میں بھی آپ نفلی روزے رکھتے تھے یا نہیں؟ والدہ صاحبہ نے کہا کہ آخر عمر میں بھی آپ روزے رکھا کر تے تھے خصوصًاشوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے ہاں مگر آخری دو تین سالوں میں بوجہ ضعف و کمزوری رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ سکتے تھے ۔(خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب البریہ میں حضرت صاحب نے روزوں کا زمانہ آٹھ نو ماہ بیان کیا ہے)‘‘
(سيرت المہدی جلد اول صفحہ 14روايت نمبر 18)
معمولی بيماری ميں روزہ رکھنے کي اجازت
حضرت منشی حبيب الرحمن صاحبؓ لکھتے ہيں کہ
’’ایک دفعہ میں نے رمضان شریف کا آخری عشرہ قادیان میں گذارا۔ ان دنوں میں حضور علیہ السلام کو تپ لرزہ یومیہ آتا تھا۔ ظہر کے بعد لرزہ سے تپ ہوجاتا تھا۔ اس لئے ظہر کے وقت حضور جماعت میں شریک ہوا کرتے تھے اور باقی نمازوں میں شریک نہیں ہوسکتے تھے۔ ظہر سے پہلے کبھی کبھی بانتظار نمازیاں بیٹھتے تھے۔میری عادت تھی کہ میں ضرور اس جگہ پہنچ جایا کرتا تھا جہاں حضور بیٹھتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں دور رہا ہوں۔ اگر ایسا اتفاق ہوتا بھی جو صرف ایک دفعہ ہوا تو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی سامان کردیتا کہ میں قریب پہنچ جاؤں۔ غرض جب حضور ظہر کی نماز کے واسطے تشریف لاتے میں طبیعت کا حال دریافت کرتا تو فرماتے کہ سردی معلوم ہو رہی ہے۔ بعض دفعہ فرماتے کہ نماز پڑھو۔ سردی زیادہ معلوم ہورہی ہے مگر باوجود علالت کے حضور روزہ برابر رکھتے تھے ۔ ایک دن میں نے عرض کیا کہ تپ کی تکلیف ہے اور کئی دن ہوگئے ہیں۔ اگر روزہ افطار کردیا(یعنی بوقت بخار کھول یا توڑ لیا )کریں(تو بہتر ہو) فرمایا کہ روزہ کی وجہ سے کچھ تکلیف محسوس نہیں ہوتی ہے بلکہ آرام معلوم ہوتا ہے۔ بھوک پیاس کچھ معلوم نہیں ہوتی۔ رات کو البتہ کچھ زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ اس لئے روزہ رکھ لیتا ہوں۔ صبح کو تپ اتر جاتا تھا تو حضور سیر کو تشریف لے جایا کرتے تھے۔(قلمی کاپی صفحہ 52تا54)
(اصحابِ احمد جلد10صفحہ397،398نيا ايڈيشن روايت حضرت منشی حبيب الرحمن صاحب ؓ)
شبِ قدر
15؍نومبر1906ء کو فرمايا کہ
’’آج رات ستائیسویں رمضان المبارک تھی اور اِس پر یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ یہ رات شب ِ قدر کی ہوتی ہے۔ مَیں نے سوچا کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں شاید پھر یہ رات نصیب ہو یا نہ ہو۔ پس مَیں اُٹھا اور مَیں نے نماز پڑھ کر دُعا کی۔ بعد میں مفصّلہ ذیل الہامات ہوئے:
(1) قادر ہے وہ بارگاہ جو ٹوٹا کام بناوے
بنا بنايا توڑ دے کوئی اس کا بھيد نہ پاوے
(2) کمترين کا بيڑہ غرق ہوگيا (يعنی کِسی کے قول کی طرف اشارہ ہے) اور يا شايد کمترين سے مُراد کوئی شديد مخالف ہے۔
(3) تيری دعا قبول کی گئی۔
اصل ميں يہ ہرسہ الہام پيشگوئياں ہيں خواہ ايک شخص کيلئے ہوں اور خواہ تين جُدا شخصوں کے حق ميں ہوں۔‘‘
(بدر جلد 2نمبر47۔ 22؍نومبر 1906ءصفحہ 3 – الحکم جلد 10نمبر39۔17؍نومبر1906ءصفحہ 2)
رمضان ميں علمی بحث و تمحيص
حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعالٰی فرماتے ہيں کہ
’’حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کا ذکر فرمایا جن کا سحری کے اوقات کے بارے میں اپنا ایک نظریہ تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی کس طرح رہنمائی فرمائی وہ بھی عجیب ہے۔ فرماتے ہیں کہ ‘‘ہماری جماعت میں ایک شخص ہواکرتے تھے جسے لوگ فلاسفر کہتے تھے۔ اب وہ فوت ہو چکا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے۔ (فرماتے ہیں کہ) اسے بات بات میں لطیفے سوجھتے تھے جن میں سے بعض بڑے اچھے ہوا کرتے تھے۔ فلاسفر اسے اسی لئے کہتے تھے کہ وہ ہر بات میں ایک نیا نکتہ نکال لیتا تھا۔ ایک دفعہ روزوں کا ذکر چل پڑا۔ کہنے لگا کہ انہوں نے (یعنی مولویوں نے یا فقہ کے ماہرین نے) یہ محض ایک ڈھونگ رچایا ہؤا ہے کہ سحری ذرا دیر سے کھاؤ تو روزہ نہیں ہوتا۔ بھلا جس نے بارہ گھنٹے فاقہ کیا اس نے پانچ منٹ بعد سحری کھا لی تو کیا حرج ہؤا۔ مولوی جھٹ سے فتویٰ دیتے ہیں کہ اس کا روزہ ضائع ہو گیا۔ غرض اس نے اس پر خوب بحث کی۔ صبح وہ گھبرایا ہوا حضرت خلیفہ اوّل کے پاس آیا۔ زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کی بات ہے) مگر چونکہ حضرت خلیفہ اوّل ہی درس وغیرہ دیا کرتے تھے اس لئے آپ کی مجلس میں بھی لوگ کثرت سے آ جایا کرتے تھے۔ آتے ہی کہنے لگا کہ آج رات تو مجھے بڑی ڈانٹ پڑی۔ آپ نے فرمایا کیا ہوا؟ کہنے لگا کہ رات کو میں بحث کرتا رہا کہ مولویوں نے ڈھونگ رچایا ہوا ہے کہ روزہ دار ذرا سحری دیر سے کھائے تو اس کا روزہ نہیں ہوتا۔ میں کہتا تھا کہ جس شخص نے بارہ گھنٹے یا چودہ گھنٹے فاقہ کیا ہووہ اگر پانچ منٹ دیر سے سحری کھاتا ہے تو کیا حرج ہے۔ اس بحث کے بعد میں سو گیا تو میں نے رؤیا میں دیکھا کہ ہم نے تانی لگائی ہوئی ہے۔ فلاسفر جولاہا تھا۔ اس لئے خواب میں بھی اسے اپنے پیشہ کے مطابق یاد آئی۔ (رسّی، دھاگہ جو کپڑا بنانے کے لئے کھینچتے ہیں تو کہتے ہیں) دونوں طرف میں نے کیلے گاڑ دئیے اور تانی کو پہلے ایک کیلے سے باندھا اور پھر میں اسے دوسرے کیلے سے باندھنے کے لئے لے چلا۔ جب کیلے کے قریب پہنچا تو دو انگلی ورے سے تانی ختم ہو گئی۔ میں بار بار کھینچتا کہ کسی طرح اسے کیلے سے باندھ لوں مگر کامیاب نہ ہو سکا اور میں نے سمجھا کہ میرا سارا سوت مٹی میں گر کر تباہ ہو گیا۔ چنانچہ میں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ میری مدد کے لئے آؤ۔ دو انگلیوں کی خاطر میری تانی چلی۔ (وہ دھاگہ جو تھا خراب ہو رہا ہے۔) اور یہی شور مچاتے مچاتے میری آنکھ کھل گئی۔ جب میں جاگا تو میں سمجھا کہ اس رؤیا کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مجھے مسئلہ سمجھایا ہے کہ دو انگلیوں جتنا فاصلہ رہ جانے سے اگر تانی خراب ہوجاتی ہے تو روزے میں تو پانچ منٹ کا فاصلہ کہہ رہے ہو۔ اس کے ہوتے ہوئے کس طرح روزہ قائم رہ سکتا ہے۔
(تعلق باللہ۔ انوار العلوم جلد23 صفحہ178-177)‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍اگست 2015ءمطبوعہ الفضل انٹرنيشنل 21؍ اگست 2015ءصفحہ27)
قاديان ميں رمضان کي رونقيں
حضرت نواب محمد علي خان صاحب فرماتے ہيں کہ
’’جب سورج گرہن اور چاند گرہن رمضان میں واقع ہوئے تو غالباً1894ء تھا ۔ میں قادیان میں سورج گرہن کے دن نماز میں موجود تھا۔ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے نماز پڑھائی تھی۔ اور نماز میں شریک ہونے والے بے حد رو رہے تھے۔ اس رمضان میں یہ حالت تھی کہ صبح دو بجے سے چوک احمدیہ میں چہل پہل ہوجاتی ۔ اکثر گھروں میں اور بعض مسجد مبارک میں آموجود ہوتے ۔ جہاں تہجد کی نماز ہوتی۔ سحری کھائی جاتی اور اول وقت صبح کی نماز ہوتی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تلاوت قرآن شریف ہوتی اور کوئی آٹھ بجے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کو تشریف لے جاتے ۔ سب خدام ساتھ ہوتے۔ یہ سلسلہ کوئی گیارہ بارہ بجے ختم ہوتا۔ اس کے بعد ظہر کی اذان ہوتی اور ایک بجے سے پہلے نماز ظہر ختم ہوجاتی اور پھر نماز عصر بھی اپنے اول وقت میں پڑھی جاتی ۔ بس عصر اور مغرب کے درمیان فرصت کا وقت ملتا تھا۔ مغرب کے بعد کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر آٹھ ساڑھے آٹھ بجے نماز عشاء ختم ہوجاتی اور ایسا ہُو کا عالم ہوتا کہ گویا کوئی آباد نہیں ۔ مگر دو بجے سب بیدار ہوتے اور چہل پہل ہوجاتی۔‘‘
(سيرت المہدی جلد 2صفحہ 40تا41۔روايت نمبر 1042)
(جاري ہے)
٭…٭…٭