رمضان کی فضیلت و برکات
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :
یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔
ترجمہ: اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے اُسی طرح فرض کر دئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔(البقرۃ: 184)
روزہ کو عربی زبان میں صوم کہتے ہیں۔ صوم کا لغوی معنی رکنے کے ہیں ۔دینی اصطلاح میں روزے سے مراد صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور عمل مباشرت سے رک جانے کا نام ہے بشرطیکہ یہ عبادت کی نیت سے ہو۔روزہ اسلام کی مقرر کردہ عملی عبادات میں سے ایک اہم روحانی عبادت ہے۔اس مہینہ میں خدا تعالیٰ کی خاص رحمت میں جوش میں آتی ہے اور خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں پر اپنی رحمت کی بارش کرتا ہے۔روزہ اطاعت الٰہی کی ایک ذریعہ ہے روزہ خداتعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں رکھا جاتا ہے ۔روزہ کا حقیقی مقصد بھی خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے ۔روزہ انسان کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں ۔کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کا نام رمضان اس لئے رکھا گیا ہے کہ یہ گناہوں کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے ۔
(الفردوس بما ثور الخطاب جلد 2 صفحہ 60حدیث 2339)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں ۔کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ۔روزے ڈھال ہیں اور آگ سے بچاؤ کا مضبو ط کا قلعہ ہیں ۔
(مسند احمد حدیث 8857)
رمضان کا مہینہ بے شمار برکات کا مہینہ ہے ۔حضرت ابو مسعود غفاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رمضان شروع ہونے کے بعد ایک روز آنحضور ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ اگر لوگوں کو رمضان کی فضیلت کا علم ہوتا تو میری امت اس بات کی خواہش کرتی کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔ اس پر بنو خزاعہ کے ایک آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ﷺ ! ہمیں رمضان کے فضائل سے آگاہ کریں چنانچہ آپؐ نے فرمایا : یقیناً جنّت کو رمضان کے لئےسال کے آغاز سے آخر تک مزین کیا جاتا ہے ،پس جب رمضان کا پہلا دن ہو تا ہے ۔توعرش الٰہی کے نیچے ہوائیں چلتی ہیں
(الترغیب والتر ھیب کتاب الصوم ،الترغیب فی صیام رمضان)
رمضان ایک ایسا پیارامہینہ ہے ۔ جس کے لیے خدا تعالیٰ کےبرگزیدہ بندے انتظار کرتے ہیں ۔ بلکہ اس حدیث مبارکہ میں بیان ہو ا ہے کہ آسمان پر بھی اس کے استقبال کی تیاری کی جاتی ہے ۔اس سے رمضان کی اہمیت کا اندازہ لگائیں تو انسان کی سوچ ادھر تک نہیں جاسکتی کہ رمضان اپنے اندر کتنی برکتیں سموئے ہوئے ہے ۔ رمضان انسان کے نفس کی پاکیزگی کا موجب بنتا ہے ۔کیونکہ انسان اس بابرکت مہینے میں حتی الوسع اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی سعی کرتا ہے اوریہی سعی اس کو خدا تعالیٰ کے مقربین میں شمار کرنے کا موجب بنتی ہے ۔
چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ’’ماہ رمضان کے استقبال کے لئے یقیناًسارا سال جنت سجائی جاتی ہے اور جب رمضان آتا ہے تو جنت کہتی ہے کہ یا اللہ اس مہینے میں اپنے بندوں کو میرے لئے خاص کردے ‘‘۔(بیہقی شعب الایمان)
ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیؐ نے ایک موقعہ پر اس ماہ مبارک کی آمد کی خبر یوں دی کہ
’’سنو سنو تمہارے پاس رمضان کا مہینہ چلا آتا ہے ۔ یہ مہینہ مبارک مہینہ ہے جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کردیئے ہیں اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور سرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے اور اس میں ایک رات ایسی مبارک ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس کی برکات سے محروم رہا تو سمجھو کہ وہ نامراد رہا‘‘۔(نسائی کتاب الصوم)
روزہ رکھنے والے کو روزہ کی جزاء میں خدا ملتاہے۔ لقاء الٰہی اور دیدار الٰہی نصیب ہوتا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
’’ تمہارا رب فرماتا ہے کہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے اور روزہ کی عبادت تو خاص طورپر میرے لئے ہے اورمیں خود اس کی جزاء دوں گا یا میں خود اس کا بدلہ ہوں‘‘۔(ترمذی ۔ابواب الصوم)
اسی طرح آپ ؐ نے فرمایا کہ
’’روزہ دار کے لئے دو خوشیاں مقدر ہیں ایک خوشی اسے اس وقت ملتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی اس وقت ہوگی جب وہ روزہ کی وجہ سے اپنے رب سے ملاقات کرے گا‘‘۔(بخاری کتاب الصوم)
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رمضان آیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
’’ تم پر ایک ایسا مہینہ آیا ہے کہ اس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو شخص اس مہینہ میں نیکی کرنے سے محروم رہا وہ ہر نیکی سے محروم رہا۔ اور اس ماہ میں نیکی سے وہی محروم رہتاہے جو بدنصیب ہو۔‘‘(ابن ماجہ)
رمضان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :
’’رَمَض سورج کی تپش کو کہتے ہیں ۔رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے ۔دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے ۔روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا ۔اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینے میں آیا ۔اس لئے رمضان کہلایا ۔میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ۔کیونکہ عرب کے لئے یہ خصوصیت نہیں ہو سکتی ۔روحانی رمض سے مراد روحانی ذوق و شوق اور حرارت دینی ہوتی ہے ۔ رمض اس حرارت کو بھی کہتے ہیں ۔ جس سے پتھر وغیرہ گرم ہو جاتے ہیں ۔
( الحکم 24 ؍جولائی 1901ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر روزہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے رکھا ہے تو پھر جتنا بھی روزے کا وقت ہے یہ بھی ذکرِ الٰہی میں گزارو۔ ایک دوسری جگہ آپ نے فرمایا کہ بھوکے پیاسے رہنے سے تو بعض جوگیوں میں بھی ایسی حالت پیدا ہو جاتی ہے کہ اُن کو بھی کشف ہو جاتے ہیں لیکن یہ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصدنہیں ہے۔ ایک مومن کی زندگی کا مقصد تبتّل اور انقطاع ہے اور یہ عبادت سے، ذکرِ الٰہی سے پیدا ہوتا ہے اور نمازیں اس کا بہترین ذریعہ ہیں جو روح پر اثر ڈالتی ہیں، جو خدا تعالیٰ کے قرب کا باعث بنتی ہیں۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ696-697۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس اصل روزہ وہ ہے جس میں خوراک کی کمی کے ساتھ ایک وقت تک جائز چیزوں سے بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے رُکے رہناہے۔ یہ تقویٰ ہے۔ذکرِ الٰہی اور عبادت ہر دوسری چیز پر مقدم ہو جائے۔
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
’’پس رمضان کلام الٰہی کو یاد کرانے کا مہینہ ہے ۔ اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت زیادہ کرنی چاہئے۔ اور اسی وجہ سے ہم بھی اس مہینہ میں درس قرآن کا انتظام کرتے ہیں ۔ دوستوں کوچاہئے کہ اس مہینہ میں زیادہ سے زیادہ تلاوت کیاکریں۔ اور قرآن کریم کے معانی پر غور کیاکریں تا کہ ان کے اندر قربانی کی روح پیدا ہو جس کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔‘‘
(تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ سورۃ البقرہ زیر آیت ۱۸۶)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں:
’’رمضان المبارک میں جو لوگ روزے نہیں رکھتے وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کن نیکیوں سے محروم رہ گئے ہیں۔ چند دن کی بھوک انہوں نے برداشت نہیں کی ۔چند دن کی پابندیاں انہوں نے برداشت نہیں کیں اور بہت ہی بڑی نعمتوں سے محروم رہ گئے۔ اور پہلے سے اور بھی زیادہ دنیا کی زنجیروں میں جکڑے گئے کیونکہ جو رمضان کی پابندیاں برداشت نہیں کرتا اس کی عادتیں دنیا سے مغلوب ہو جاتی ہیں اور وہ درحقیقت اپنے آپ کو مادہ پرستی کے بندھنوں میں خود جکڑنے کاموجب بن جایا کرتاہے۔ یہ لوگ دن بدن ادنیٰ زندگی کے غلام ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد اگرچاہیں بھی تو پھران بندھنوں کو توڑ کر آزاد نہیں ہو سکتے اس لئے یہ بھی ضروری فیصلہ ہے کہ رمضان کی چند دن کی پابندیاں بشاشت اور ذوق وشوق سے قبول کی جائیں… تم یہ پابندیاں اختیار کر کے دیکھو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ اس کے فائدے لامتناہی ہیں۔ چند دن کی سختیاں بہت وسیع فائدے ایسے چھوڑ جائیں گی کہ سارا سال تم ان چند دنوں کی کمائیاں کھاؤ گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍اپریل 1988ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ہر رمضان ہمارے لئے ایک نئی پیدائش کی خوشخبری لے کر آتا ہے۔ اگر ہم ان شرطوں کے ساتھ رمضان میں سے گزر جائیں جو آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائی ہیں تو گویا ہرسال ایک نئی روحانی پیدائش ہوگی اور گزشتہ تما م گناہوں کے داغ دھل جائیں گے‘‘۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍ جنوری 1996ء)
اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم بے فائدہ اور بے حکمت نہیں ہوتا ۔روزہ تقویٰ کے معیار کو بلند کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’پس ایک اَور رمضان کا ہماری زندگیوں میں آنا اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ رمضان اس لئے آتا ہے کہ تم تقویٰ اختیار کرو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ فرمانا کہ اس سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لئے ہی قائم کیا ہے ہم پر بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے کہ ہم ہر وقت اپنی حالتوں کے جائزے لیتے رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ خاص فضل کے دن رکھے ہوئے ہیں ان میں اپنے اندر ایسی تبدیلیاں پیدا کریں اور اپنے تقویٰ کے معیاروں کو ایسا بڑھانے کی کوشش کریں جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ اور پھر رمضان تک ہی محدودنہ رہیں بلکہ اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘آمین
(خطبہ جمعہ فرمودہ ؍2 جون 2017ء)
رموز آگہی کا ہے سراسر ازداں روزہ
حدیث معرفت کی ہے مجسّم داستان روزہ
٭…٭…٭