خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 10؍اپریل2020ء
آج کل دعاؤں، دعاؤں اور دعاؤں پر بہت زور دیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کو اور مجموعی طور پر جماعت کو بھی ہر لحاظ سے اپنی حفظ و امان میں رکھے
وبا کے ایام میں دعاؤں کے ساتھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین
کاروباری احباب کو انسانیت کی خدمت اور ہمدردی کے جذبے کے تحت حقوق العباد ادا کرتے ہوئے کھانے پینے کی چیزوں اور ضروری لازمی اشیاء کو کم از کم منافعے پر بیچنے کی نصیحت
خلافت سے سچا پیار کا تعلق رکھنے والے،کامل اطاعت کرنے والے، اللہ تعالیٰ سے کیے گئے ہر عہد کو پورا کرنے والے، عملہ حفاظتِ خاص کے کارکن، انتہائی مخلص اور بے لوث خادم ِسلسلہ محترم ناصر احمد سعید صاحب کی وفات پر ان کا ذکرِ خیر
’’یہ ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ شہید ہیں‘‘
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 10؍اپریل2020ء بمطابق 10؍شہادت 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک ،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج کل کرونا کی وبا کی وجہ سے جو دنیا کے حالات ہیں اس نے اپنوں کو بھی، غیروں کو بھی سب کو پریشان کیا ہوا ہے۔ لوگ خط لکھتے ہیں، اپنی پریشانیوں کا اظہار کرتے ہیں۔ اپنے پیاروں، قریبیوں، رشتہ داروں کی بیماریوں کی وجہ سے پریشان ہیں چاہے وہ کوئی بھی بیماری ہو۔ ان حالات میں بہت زیادہ پریشانی کا اظہار ہوتا ہے کہ اگر کوئی اور بیماری بھی ہے تو کمزور جسم اس وبا کی بیماری کو لے ہی نہ لے۔ احمدیوں میں سےکچھ کو اس بیماری کا حملہ بھی ہوا ہے۔ بہرحال ایک پریشانی نے دنیا کو گھیرا ہوا ہے۔ ایک مربی صاحب نے مجھے لکھا کہ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کیا ہو گیا ہے اور کیا ہو رہا ہے۔ بات ان کی ٹھیک ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ کچھ پتا نہیں لگ رہا کہ دنیا کو کیا ہو رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بھی انہی حالات کے متعلق، آج کل کے زمانے کے حالات کے مطابق فرماتا ہے کہ
وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا (الزلزال: 4)
اور انسان کہہ اٹھے گا کہ اسے ہو کیا گیا ہے؟
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فروری 1920ء میں آج سے تقریباً سو سال پہلے وباؤں، قحط، ابتلا اور طوفانوں کا ذکر کرتے ہوئے اس آیت کی مختصر وضاحت فرمائی تھی کہ پہلے ایک آدھ ہی وبا یا ابتلا آتے تھے لیکن اب یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس میں ابتلاؤں کے دروازے کھل گئے ہیں۔
(ماخوذ از خطبات محمود جلد 6 صفحہ 387 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 6 فروری 1920ء)
مَیں بھی گذشتہ کئی سالوں سے یہ کہہ رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد اور جب سے کہ آپؑ نے دنیا کو خاص طور پر آفات اور آسمانی بلاؤں سے آگاہ کیا ہے، ہوشیار کیا ہے دنیا میں طوفانوں ، زلزلوں ، وباؤں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اور عمومی طور پر یہ وبائیں اور آفات انسان کو ہوشیار کرنے کے لیے آ رہی ہیں کہ تم اپنے پیدا کرنے والے کے بھی حق ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بھی حق ادا کرو، اس کے بندوں کے بھی حق ادا کرو۔ پس ان حالات میں ہم نے خود بھی اللہ تعالیٰ کی طرف پہلے سے زیادہ جھکنا ہے اور دنیا کو بھی ہوشیار کرنا ہے۔ بعض بیماریاں یا طوفان اور وبائیں ایسی ہیں کہ جب دنیا میں آئیں تو قدرتی طور پر اس کا اثر ہر ایک پر پڑتا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یہ فرماتے ہیں کہ ٹھیک ہے بعض ابتلاؤں کا ہم سے تعلق نہیں ہے لیکن اس دنیا میں جب ہم رہتے ہیں تو کئی باتوں میں مثلاً وبائیں ہیں، قحط ہیں ان میں ہمیں بھی ایک حد تک حصہ لینا پڑتا ہے یعنی ہم بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔ ہم پر بھی وہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ الٰہی جماعتوں کو ان سے بالکل محفوظ رکھا جائے۔ آپؓ نے فرمایا کہ کیونکہ یہ خدا کی مصلحتوں کے خلاف ہوتا ہے۔
(ماخوذ از خطبات محمود جلد 6 صفحہ 387-388 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 6 فروری 1920ء)
لیکن مومن ان مشکلات سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے، اس کا شکرگزار بندہ بنتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ہمیں ان دنوں میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور بہت جھکنا چاہیے اور اس کا رحم اور فضل مانگنا چاہیے۔ اس لیے پہلے سے بڑھ کر ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بعض لوگ بعض تبصرے کر دیتے ہیں کہ یہ وبا نشان کے طور پر ہے اور احتیاط کی یا بعض علاج کی کوئی ضرورت نہیں یا اس قسم کے اَور ایسے تبصرے جو دوسروں کے جذبات کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ ہمیں نہیں پتا کہ یہ نشان ہے، خاص طور پر کوئی نشان ہے یا نہیں لیکن عمومی طور پر بہرحال ہم کہتے ہیں جیسا کہ مَیں نے ابھی بھی کہا اور چند خطبے پہلے بھی میں نے اس بیماری کے ذکر میں شروع میں ہی کہا تھا کہ زمینی اور آسمانی بلائیں اور آفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے بعد بہت بڑھ گئی ہیں۔ پس عمومی طور پر تو بےشک کہا جا سکتا ہے لیکن اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کے طاعون کے ساتھ ملانا اور پھر اس قسم کی باتیں کرنا کہ نعوذ باللہ جو احمدی اس بیماری میں مبتلا ہیں یا اس سے وفات پا گئے ہیں ان کا ایمان کمزور ہے یا تھا۔ یہ کہنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔
طاعون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے ایک نشان کے طور پر ظاہر ہوا گو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیماری سے فوت ہونے والے کو شہید قرار دیا ہے۔(صحیح البخاری کتاب الطب باب ما یذکر فی الطاعون حدیث 5733)لیکن بہرحال یہ کیونکہ ایک طاعون کی بیماری کےنشان کے طور پر ظاہر ہوا تھا اور اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو خاص طور پر فرمایا تھا، اس بارے میں آپؑ نے اعلان بھی فرمایا تھا کہ یہ نشان ہے اور اس بارے میں جماعت کو ہدایات بھی فرمائی تھیں اس لیے اُس طاعون کی جو آپؑ کے زمانے میں آیا ایک علیحدہ حیثیت تھی لیکن ساتھ ہی اُس وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقعے پر جماعت کو یہ فرمایا بلکہ مفتی صاحبؓ کو کہا کہ اخبار میں اس کا اعلان کر دیں کہ مَیں اپنی جماعت کے لیے بہت دعا کرتا ہوں کہ وہ اس کو بچائے رکھے ۔مگر آپؑ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم سے یہ ثابت ہے کہ جب قہر ِالٰہی نازل ہوتا ہے تو پھر بدوں کے ساتھ نیک بھی لپیٹے جاتے ہیں اور پھر ان کا حشر اپنے اپنے اعمال کے مطابق ہو گا۔ پھر صرف یہ نہیں کہ ان کو، نیکوں کو کوئی اثر نہ ہو گا ہاں نیکوں پربھی اثر ہو اجیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ یہ قانونِ قدرت ہے۔ اثر تو ہوتا ہے۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں دیکھو حضرت نوحؑ کا طوفان سب پر پڑا اور ظاہر ہے کہ ہر ایک مرد ، عورت اور بچے کو اس سے پوری طرح خبر نہ تھی کہ نوحؑ کا دعویٰ اور اس کے دلائل کیا ہیں لیکن طوفان کی زد میں آ گیا۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ جہاد میں جو فتوحات ہوئیں وہ سب اسلام کی صداقت کے واسطے نشان تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ جہاد میں شامل ہوئے۔ جہاد میں فتوحات ہوئیں۔ اس کے بعد خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی جہاد ہوئے۔ ان میں بعض جگہ شکستیں بھی ہوئیں لیکن عمومی طور پر فتوحات ہوئیں۔ آپؑ فرماتے ہیں یہ سب اسلام کی صداقت کے واسطے ایک نشان تھیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ لیکن ہر ایک میں کفارکے ساتھ مسلمان بھی مارے گئے۔ یہ نہیں ہوا کہ صرف کافر مارے گئے۔ گو جہاد نشان کے طور پر تھا لیکن اس میں مسلمان بھی مارے گئے اور فرمایا کہ مسلمان جو مارا گیا وہ مسلمان شہید کہلایا۔ آپؑ فرماتے ہیں ایسا ہی طاعون ہماری صداقت کے واسطے ایک نشان ہے اور ممکن ہے کہ اس میں ہماری جماعت کے بعض آدمی بھی شہید ہوں۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ سب سے اول حقوق اللہ کو ادا کرو۔ اپنے نفس کو جذبات سے پاک رکھو۔ اس کے بعد حقوق العباد کو ادا کرو۔ فرمایا خدا تعالیٰ پر سچا ایمان لاؤ اور تضرع کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور میں دعا کرتے رہو اور کوئی دن ایسا نہ ہو جس دن تم نے خدا تعالیٰ کے حضور رو کردعا نہ کی ہو۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اسبابِ ظاہری کی رعایت رکھو یعنی جو ظاہری احتیاطیں ہیں وہ تمام بجا لاؤ، وہ پوری کرو۔ پھر فرمایا جو تم میں سے بتقدیرِ الٰہی طاعون میں مبتلا ہو جاوے اس کے ساتھ اور اس کے لواحقین کے ساتھ پوری ہمدردی کرو۔ اور ہر طرح سے ان کی مدد کرو اور اس کے علاج معالجہ میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھو ۔ ہر قسم کی کوشش کرو۔ فرمایا لیکن یاد رہے کہ ہمدردی کے یہ معنے نہیں کہ اس کے زہریلے سانس یا کپڑوں سے متاثر ہو جاؤ۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 9صفحہ 251 تا 253)
ہمدردی بےشک کرو لیکن احتیاطی تدابیر بھی ضروری ہیں۔ ان سے بچنا بھی ضروری ہے۔ بلکہ اس اثر سے بچو۔پس اس بات سے ہمیں یہ سبق لینا چاہیے کہ جو بھی مدد کرنے والے ہیں ان کو جو یہ ضروری احتیاطیں ہیں مثلاً آج کل یہ کہا جاتا ہے ماسک پہنو اور دوسری احتیاطیں ہیں ان کو سامنے رکھنا چاہیے۔ اسی طرح سے بلا وجہ لوگوں کے گھروں میں آنے جانے سے بھی بچنا چاہیے۔ حکومت نے بھی منع کیا ہے۔ اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔
آج کل یہاں یوکے میں باوجود حکومت کے کہنے کے اور منع کرنے کے لوگ پارکوں میں جا کر اکٹھے ملنا جلنا رکھتے ہیں۔ اجازت تو صرف اس حد تک ہے کہ تم واک (walk)کر سکتے ہو۔ تھوڑی سی کھلی ہوا میں جاسکتے ہو ۔ یہ نہیں ہے کہ پارکوں میں بیٹھ کر پکنکیں منانی شروع کر دو اور کئی لوگ اکٹھے ہو جائیں ۔ یہ غلط طریق ہے اور حکومت بار بار اس طرف توجہ دلا رہی ہے۔ کاروں میں بیٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ حکومت نے کہا ہے کہ اگر تم یہ کہتے ہو کہ ہم ہوا کے لیے جاتے ہیں۔ exercise کے لیے پارک میں جاتے ہیں تو پھر گھروں سےپیدل جاؤ یا سائیکلوں پرجاؤ۔ یہ کاروں میں اکٹھے بیٹھ کر جو جاتے ہو یہ بھی غلط طریقہ ہے۔ اب بعض جگہ کونسلوں نے پارکنگ کی جگہیں بند کرنے کا اعلان کیا ہے کہ کاریں آنے کی اجازت ہی نہیں۔ پارکنگ کی اجازت ہی نہیں ہے۔ بہرحال احمدیوں کو اس قسم کی حرکتوں سے بچنا چاہیے۔ جن کے سپرد مدد کے کام ہیں، خدام الاحمدیہ نے بھی بہت سارے والنٹیئر پیش کیے ہیں اور بھی مدد کر رہے ہیں وہ تمام احتیاطوں اور دعاؤں کے ساتھ اس مدد کے فریضے کو سرانجام دیں اور بے احتیاطیوں سے بچیں۔ بلاوجہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالیں۔ یہ جہالت ہے۔ یہ کوئی بہادری نہیں ہے، یہ جہالت کہلاتی ہے۔ پس بہت احتیاط کریں۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جو خدا نخواستہ اس بیماری سے مر جائے وہ شہید ہے۔ اُس وقت جو طاعون تھی اس کے واسطے غسل کی ضرورت نہیں اور نیا کفن پہنانے کی ضرورت نہیں۔ اس سے پھر شہید والا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہاں تو حکومت نے کچھ حد تک اجازت دی ہوئی ہے۔ غسل بھی کر سکتے ہیں اور کفن بھی پہنا دیتے ہیں۔ اس زمانے میں جو یہ شدید حالات تھے اس وقت آپؑ نے یہ فرمایا تھا کہ ضرورت نہیں۔ پھر تاکیداً آپؑ نے یہ بھی فرمایا کہ گھروں کی صفائی بہت زیادہ کرو اس کے متعلق خاص طورپر ہدایت فرمائی۔ اور گھروں کی صفائی کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اپنے کپڑوں کی صفائی رکھو۔ اپنے کپڑے بھی صاف رکھو اور نالیاں بھی صاف کراتے رہو۔ یہاں تو سارا سیوریج سسٹم (sewerage system)اَنڈرگراؤنڈ (underground)ہوتا ہے۔ غیر ترقی یافتہ ممالک میں جہاں نالیاں کھلی ہوتی ہیں یہ خاص طور پر بہت ضروری چیز ہے کہ نالیاں صاف رکھی جائیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو خاص طور پر فرمایا کہ سب سے مقدم یہ ہے کہ اپنے دلوں کو بھی صاف کرو اور خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری صلح کر لو۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 9 صفحہ 253)
پس ہمیں ان حالات میں بھی جو آج کل اس وبا کی وجہ سے ہیں اور ہر ایک اس سے متاثر ہے جیسا کہ میں نے کہا لکھنے والے لکھتے بھی ہیں ان باتوں کی طرف خاص توجہ رکھنی چاہیے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے لیے دعاؤں کا راستہ کھلا ہے۔ ہمیں اس یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے دعاؤں کا راستہ کھولا ہے اور خدا تعالیٰ دعائیں سنتا ہے۔ اگر خالص ہو کر اس کے آگے جھکا جائے تو وہ قبول کرتا ہے، کس رنگ میں قبول کرتا ہے یہ وہ بہتر جانتا ہے۔ عمومی طور پر اپنے لیے، اپنے پیاروں کے لیے، اپنے عزیزوں کے لیے، جماعت کے لیے اور عمومی طور پر انسانیت کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں۔ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں اور ان میں احمدی بھی ہوں گے جن کے پاس احتیاط کے سامان میسر نہیں، جن کو علاج کی سہولتیں نہیں ہیں، کھانے پینے کی سہولتیں نہیں ہیں اللہ تعالیٰ ان پر بھی اور ہم سب پر بھی رحم فرمائے۔ ہم جماعتی طور پر کوشش کرتے ہیں کہ ان حالات میں خوراک وغیرہ ہر احمدی تک پہنچائیں لیکن پھر بھی ہو سکتا ہے ، کمی رہ جاتی ہے بلکہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ خوراک یا علاج کی سہولتیں پہنچائیں۔ احمدیوں کے گھر پہنچانے کی اس کوشش کے باوجود کمی رہ جاتی ہے بلکہ ہم تو یہاں تک کوشش کرتے ہیں کہ غیروں تک بھی یہ سب سہولتیں علاج کی سہولت یا خوراک وغیرہ کی سہولت جہاں ضرورت ہے پہنچے اور بے غرض ہو کر یہ خدمت خالصۃً ہمدردی کے جذبے سے ہم کرتے ہیں لیکن پھر بھی بعض متعصب میڈیا کے ذرائع یا نام نہاد علماء یہ الزام لگا دیتے ہیں کہ احمدی جو یہ خدمت کر رہے ہیں یا خوراک پہنچا رہے ہیں یا میڈیکل ایڈ دے رہے ہیں یہ اپنی تبلیغ کے لیے مدد کرتے ہیں تا کہ ان کی تبلیغ کے رستے کھلیں۔ بہرحال ہمیں ان الزاموں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں اور ہمارے جذبے کو جانتا ہے۔ پھر مَیں کہوں گا کہ آج کل دعاؤں، دعاؤں اور دعاؤں پر بہت زور دیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر لحاظ سے جماعت کے ہر فرد کو ہر لحاظ سے اور مجموعی طور پر جماعت کو بھی ہر لحاظ سے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی دعائیں کرنے اور دعاؤں کی قبولیت سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ بات بھی مَیں بعض احمدی کاروباری لوگوں کے لیے کہنا چاہتا ہوں کہ جو احمدی کسی کاروبار میں ہیں وہ اِن دنوں میں اپنی چیزوں پر غیر ضروری منافع بنانے کی کوشش نہ کریں اور غیر ضروری منافع بنانے کی بجائےاور خاص طور پر کھانے پینے کی چیزوں میں اور ضروری لازمی اشیاء میں غیر ضروری منافع بنانے کی بجائے یہ ان چیزوں کو کم از کم منافعے پر بیچیں اور یہی انسانیت کی خدمت کے دن ہیں جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تلقین فرمائی ہے کہ ہمدردی کا جذبہ پیدا کرو۔ حقوق العباد کی ادائیگی کے یہی دن ہیں اور اس ذریعہ سے یہ خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے بھی دن ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو جو بھی کاروباری لوگ ہیں اس کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ ان حالات میں بجائے غیر ضروری منافعوں کے ایک ہمدردی کے جذبے کے تحت اپنے کاروباروں کو بھی چلائیں۔
اب مَیں گذشتہ دنوں فوت ہونے والے ہمارے ایک انتہائی مخلص کارکن اور خادم ِسلسلہ محترم ناصر احمد سعید صاحب کا ذکر کروں گا جو 5؍اپریل کو بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
ناصر احمد سعید صاحب 1951ء میں ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں تاج دین صاحب کے گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام تاج دین تھا۔ آپ پیدائشی احمدی تھے۔ تعلیم زیادہ حاصل نہیں کی۔ انہوں نے مڈل تک، آٹھویں کلاس تک تعلیم حاصل کی ۔ پھر 1973ء میں نظارت امور عامہ کے تحت بطور کارکن حفاظتِ خاص ان کا تقرر ہوا۔ (حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکی اپریل 84ء میں میرا خیال ہے ربوہ سے ہجرت ہوئی تھی۔) اس کے بعد بہرحال پھر 1985ء میں ان کا ربوہ سے لندن تبادلہ ہو گیا۔ اور خدمت سرانجام دیتے رہے۔ عمر کے لحاظ سےجو قواعد کی دفتری کارروائی ہوتی ہے اس کے مطابق ان کو اکتوبر 2010ء میں ریٹائر کر دیا گیا تھا لیکن انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنا کام جاری رکھا، ڈیوٹی کے فرائض سرانجام دیتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافتِ ثالثہ سے لے کے اب تک، میرے وقت تک ان کو ڈیوٹی کی سعادت ملی۔
ناصر سعید صاحب بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ بڑی ایمانداری اور مستعدی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے تھے۔ خلافتِ احمدیہ کے ساتھ ان کو بڑا سچا پیار کا تعلق تھا۔ ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ کلثوم بیگم صاحبہ ہیں۔ ایک بیٹا ہے خالد احمد سعید اور آگے ان کے خالد سعید صاحب کے بچے ہیں۔ خالد سعید صاحب بھی رضا کار کے طور پر حفاظت خاص میں ڈیوٹی دیتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ناصر سعید صاحب کی طرح وفادار بنائے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ناصر سعید صاحب کی اہلیہ کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
ناصر سعید صاحب کے ایک رشتے دار ہیں۔ ان کے ماموں زاد محمود صاحب ربوہ میں ہیں۔ محمود صاحب پہلے فوج میں تھے اور ان کے ہم عمر ہی تھے۔ کہتے ہیں کہ ناصر سعید صاحب کے والدین نے بھی ان کو کہا کہ فوج میں بھرتی ہو جاؤ یا کوئی اَور نوکری کر لو تو انہوں نے انہیں جواب دیا کہ اگر کوئی نوکری کرنی ہوئی تو جماعتی نوکری کروں گا ورنہ یہ چھوٹا سا زمیندارہ ہے یہی اپنازمینداری کا کام کرتا رہوں گا اور اس کے بعد پھر جیسا کہ میں نے کہا یہ جماعت میں آئے اور بھرتی ہو گئے۔ اپنے ان کے رشتے دار ہی لکھتے ہیں کہ اپنے سب عزیزواقارب سے نہایت پُرخلوص محبت کا سلوک رکھتے تھے اور بہت سے ضرورت مند اقرباء کی خاموشی سے امداد بھی کرتے رہتے تھے۔
ربوہ میں حفاظت خاص کے عملے کے کارکن شکور صاحب ہیں وہ کہتے ہیں کہ مجھے 1990ء سے 98ء تک لندن میں ناصر سعید صاحب کے ساتھ ڈیوٹی کا موقع ملا اور ہمیشہ انہیں خلافت کا وفادار اور اطاعت شعار پایا اور ڈیوٹی کے معاملے میں ہمیشہ بڑے ایماندار تھے۔ ہمیشہ اپنی ڈیوٹی کے لیے وقت سے پہلے آ جایا کرتے تھے اور بصیغۂ راز کوئی پیغام ہوتا تھا تو ہمیشہ اس کو راز رکھتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی یہ تلقین کرتے کہ بصیغۂ راز رکھنا چاہیے اور اپنے کسی ساتھی سے بھی کبھی اس کا ذکر نہیں کرتے تھے۔
میجر محمود صاحب افسر حفاظتِ خاص ہیں انہوں نے جو لکھا ہے کہتے ہیں کہ ناصر سعید صاحب انتہائی وفاشعار کارکن تھے۔ ان کی روح کا محور صرف اور صرف خلافتِ احمدیہ تھی۔ دنیاوی آلائشوں سے مبرا تھے۔ خدمت دین ہی ان کا نصب العین تھا ۔خدمت کرنے کے علاوہ ان کی اَور کوئی سوچ نہیں تھی۔ دلی خواہش رکھتے تھے کہ خلافت کے دَر پر جان نکلے اور اسی کو انہوں نے سچ کر دکھایا۔ مہمان نوازی میں بھی بڑے آگے بڑھے ہوئے تھے۔ اپنی مثال آپ تھے۔ ہر بڑے چھوٹے کی عزت کا خیال رکھتے تھے۔ اپنے سے سینئر کی بےحد عزت کرتے تھے ۔کبھی ہونٹوں پر کبھی زبان پر گلہ شکوہ نہیں لائے اور ہمیشہ ہر حکم کی تعمیل کو اپنا فرض جانا۔ میجر صاحب نے لکھا ہے کہ وقفِ زندگی کی وہ ایک لاجواب مثال تھے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ بے لوث ہو کے انہوں نے اپنی زندگی میں خدمت کی ہے۔
جامعہ جرمنی کے ایک طالبعلم ہارون صاحب ہیں وہ بھی لکھتے ہیں کہ کئی دفعہ ان کو تجربہ ہوا کہ اگر لوگوں کی، فریقین میں کوئی رنجشیں ہیں چپقلشیں ہیں تو ان میں صلح صفائی کرانے میں بڑا کردار ادا کرتے تھے۔کہتے ہیں ایک دفعہ مَیں نے ان سے پوچھا کہ آپ چھٹیوں میں کبھی کہیں جاتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ خلیفۂ وقت کی جو خدمت ہے وہاں حاضر رہنا اور ڈیوٹی دینا وہی واقف زندگی کی رخصتیں ہیں اور کوئی اَور مقصد نہیں ہونا چاہیے۔ پھر بےشمار لوگوںنے ان کے اخلاق ، ان کی مہمان نوازی، خوش مزاجی اور پیار اور محبت کا ذکر کیا ہے۔ گو وہ جماعت کے کسی بڑے اعلیٰ عہدے پر فائز نہیں تھے لیکن معمولی خدمت گزار ہونے کے باوجود ہر دلعزیز تھے۔ جس سے ملتے اس کا دل موہ لیتے تھے۔
جرمنی کے نصیر باجوہ صاحب ہیں کہتے ہیں بڑے عمدہ اخلاق اور عادات کے مالک تھے۔ سب کے لیے بہتر سوچتے تھے۔ ہر وقت ہر شخص کی خدمت کے لیے تیار رہتے تھے اور دوسروں کی مدد کر کے خوش ہوتے تھے اور اس میں دلی تسکین محسوس کرتے تھے۔ امریکہ کے ایک خادم سید اویس ہیں انہوں نے بھی یہ لکھا کہ جب بھی امریکہ کے دورے پہ آئے بڑی بشاشت سے ملتے۔ کبھی تھکاوٹ کے آثار ان میں نہیں دیکھے اور خدام کو بھی بڑے پیار سے ملتے اور بڑے پیار سے سمجھاتے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کرتے۔ ان میں یہ بڑی خوبی تھی۔ ہر ملک کے لوگوں کے خطوط آ رہے ہیں۔ سارے تو یہاں بیان بھی نہیں ہو سکتے۔
فیروز عالم صاحب ہیں انہوں نے بھی بہت ساری انہی خوبیوں کا ذکر کر کے لکھا کہ عاجزی، انکساری تھی۔ اور جب وہ اکیلے یہاں تھے تو مہمان نوازی ان کی بھی کرتے رہے۔ پھر عبادت کا بھی ذکر کیا کہ میں نے حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی بیماری کے دنوں میں مسجد میں رات کو تہجد کے وقت بڑی تڑپ سے ان کو دعائیںکرتے ہوئے دیکھا۔
جرمنی کے سابق صدر خدام الاحمدیہ حسنات صاحب ہیں۔ وہ بھی واقفِ زندگی ہیں۔ انہوں نے بھی یہی لکھا ہے کہ ان کے اخلاص، ڈیوٹی میں لگن، خلافت سے وفا کو دیکھ کر ہمیشہ رشک آتا تھا۔ ایک طرف سادگی کی انتہا تھی تو دوسری طرف ایک عجیب عرفان بھی ان کے اندر تھا۔ پھر کہتے ہیں ان سے خدام الاحمدیہ کے صدر کی حیثیت سے ڈیوٹیوں کے حوالے سے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کبھی اپنی صحت یا عمر زیادہ ہونے کا اظہار نہیں کیا۔ اپنی ڈیوٹی میں وہ دوسروں کی طرح جوان نظر آتے تھے اور حسنات صاحب ہی یہ لکھتے ہیں کہ میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ وہ اس بات کو برداشت نہیں کرتے تھے کہ اِن سے عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے کوئی امتیازی سلوک کرے۔ ٹھیک ہے جس طرح باقی خدام ڈیوٹی دے رہے ہیں، باقی سیکیورٹی ڈیوٹی دے رہے ہیں میں بھی ڈیوٹی دوں گا۔ اپنے چھوٹوں سے بڑی عزت سے پیش آتے۔ بڑے پیار سے پیش آیا کرتے تھے وہ کہتے ہیں کہ ان کے سلوک سے ہمیں بڑی شرمندگی ہوتی تھی۔ ہماری ڈیوٹی دینے والے خدام کی بڑی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ یہ بڑی اچھی بات لکھی ہے۔ کہتے ہیں کہ لوگ باتیں کر کے یا کیمپ منعقد کر کے کسی کو ٹریننگ دیتے ہیں لیکن آپ کی ڈیوٹی، آپ کی جو یہ ٹریننگ تھی کہ بے لوث ہو کے اپنی ڈیوٹی دینا، حاضر دماغی، اخلاص اور دعاؤں کے ذریعے سے آپ کی ٹریننگ تھی اور کہتے ہیں جب بھی موقع ملتا ،کہیں ملتے تو ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ دعا کرو میرا خاتمہ بالخیر ہو۔
رشین ڈیسک کے خالد احمد صاحب ہیں انہوں نے اور بہت ساری باتوں کے ساتھ جو سب لکھ رہے ہیں یہ بھی لکھا کہ وہ ہمیشہ خاموشی سے نہ صرف خود مستحقین کی مدد کیا کرتے تھے بلکہ بہت سے متمول افرادِ جماعت کو بھی اپنے غریب اور مستحق بھائیوں اور بہنوں کی مدد کی طرف مستقل طور پر توجہ دلاتے اور راغب کرتے رہتے تھے۔
پھر ان کی ایک نمایاں خوبی اکرام ِضیف تھی۔ خاص طور پر جلسے کے دنوں میں ان کی یہ صفت اپنے عروج پر ہوتی تھی۔ جلسہ پر آئے ہوئے مہمانوں کا دلی احترام کیا کرتے تھے اور بلا مبالغہ کئی مہمانوں کو مرکز سے آئے ہوں یا دیگر ممالک سے آئے ہوں ان کی روزانہ صبح شام اپنے گھر پر مدعو کر کے بلا تکلف مجلس بناتے، ان کو بٹھاتے اور پھر ان کو پُر تکلف کھانا کھلاتے۔ اور پھر ساتھ ہی ہر ایک مہمان کو مسجد میں بچھائی ہوئی ایک جائے نماز کا تحفہ بھی دے دیا کرتے تھے۔
جرمنی کے اطہر زبیر صاحب ہیں انہوں نے بھی یہی لکھا کہ خصوصیت کے ساتھ خلافت کے ساتھ وفا کا تعلق تھا۔ بڑے مخلص تھے اور گفتگو کا انداز بڑا شفقت والا اور نرم تھا اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ اگر اگلی شفٹ پہ آنے والے کسی کارکن کو دیر بھی ہو جاتی تو شکایت نہ کرتے تھے بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے تھے کہ خلیفہ وقت کی ڈیوٹی میں کچھ مزید وقت مجھے مل گیا اور ہر وقت ڈیوٹی کے لیے کمربستہ رہتے تھے۔ بیمار ہوتے تب بھی ڈیوٹی سے جلد فارغ ہونے کی خواہش نہ کرتے بلکہ آخری بیماری میں بھی میں نے سنا ہے کہ اپنے بیٹے کو یہی کہا کہ اچھا ، وقت کیا ہے؟ تو اس کا مطلب ہوا کہ آج کی ڈیوٹی تو پھر گئی۔ آج میںڈیوٹی پر جا نہیں سکوں گا ۔ شدید بیماری میں بھی اس وقت ڈیوٹی کی فکر تھی۔
پھر یہاں ایک حمزہ رشید صاحب ہیں وہ کہتے ہیں کہ بڑے پیار اور محبت کرنے والے اور حوصلہ افزائی کرنے والے نیک بزرگ تھے۔ خدام کے لیے ایک نمونہ تھے۔ بڑی جانفشانی سے ،محنت سے اور لگن کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھاتے تھے۔ خلافت سے والہانہ محبت کرنے والے تھے۔ خدام کو ہمیشہ توجہ دلاتے کہ تم لوگوں نے محبت کرتے ہوئے خلیفہ وقت کی ڈیوٹی سرانجام دینی ہے اور اس بات کو اپنی تمام دوسری چیزوں پر مقدم کرنا ہے۔
سید طہٰ نور صاحب مربی سلسلہ انڈونیشیا ہیں ۔کہتے ہیں جب بھی مجھے ملے انڈونیشیا کا ذکر کیا کرتے تھے اور اس زمانے کی باتوں کا ذکر کرتے تھے جب وہ 2000ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے ساتھ انڈونیشیا گئے تھے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ یہاں مسجد میں آئے ہوئے تھے اور وہاں کپڑے دھونے کا انتظام نہیں تھا تو ہم نے انہیں کہا کہ ہمیں دیں ہم باہر سے دھلوا لیں لیکن آپ نے اور آپ کے جو دوسرے ساتھی تھے انہوں نے کہا کہ ہم کپڑے تو خود دھوتے ہیں ۔ کہنے لگے کہ ہم تو نوکر لوگ ہیں ہمارا یہ مقام نہیں ہےکہ دوسرے لوگ ہمارے کپڑے دھوئیں اور بڑی کوشش کے بعد بھی انہوں نے اپنے کپڑے نہیں دیے۔ اب یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی معمولی باتیں ہیں لیکن ایک وقفِ زندگی کی اصولی روح کا ان باتوں سے پتا چلتا ہے کہ ایک واقفِ زندگی کو کس طرح کا ہونا چاہیے اور نوجوانوںکو بھی اس سے سبق ملتا ہے۔
عدنان ظفر صاحب سابق مہتمم مقامی یوکے ہیں۔ انہوں نے بھی لکھا ہے کہ ڈیوٹی دینے کی طرف خاص طور پہ ہمیں توجہ دلاتے رہتے تھے اور باقی باتیں تو لکھیںڈیوٹی کے دوران کھانے پینے کا خیال رکھنے والی باتیں اور چیزیں بھی لکھیں۔ اس کے علاوہ جو خاص چیز انہوں نے لکھی وہ لکھتے ہیں کہ مجھے خلافت کے آداب انہوں نے سکھائے۔ خلافت سے مضبوط تعلق کے گُر سمجھائے۔ انتہائی دور اندیش شخصیت تھی۔ جب بھی کسی معاملہ میں مشورہ مانگا ہمیشہ فائدہ ہوا۔
اطہراحمد صاحب حفاظتِ خاص کے کارکن ہیں یہ بھی لکھتے ہیں کہ مَیں نے نو سال ڈیوٹی کی۔ 11ء سے لے کر 20ء تک عمومی میں تھا ۔ اس کی ڈیوٹی کی۔ پھر حفاظتِ خاص میں شامل ہوا تو انہوں نے ناصر سعید صاحب سے پوچھا کہ آپ نے اڑتالیس سال، تین خلافتوں کے ساتھ ڈیوٹی کی ہے۔ مجھے کوئی نصیحت کریں تا کہ میں بھی آپ کی طرح ڈیوٹی کر سکوں تو انہوں نے کہا کہ یہاں اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنا اور زبان بند رکھنا اور اس کے ساتھ دعا کرتے رہنا۔ یہ نصیحت جو ہے اس پر عمل کرنا عمومی طور پر ہر واقفِ زندگی کے لیے ضروری ہے، بلکہ ہر کارکن اور جماعتی خدمت گزار کے لیے ضروری ہے، ہر عہدیدار کے لیے ضروری ہے۔ یہ بڑی پتے کی بات ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ڈیوٹی کر کے، ان کو لوگ لالہ جی کہتے تھے کہ لالہ جی کے ساتھ ڈیوٹی کر کے پتا چلا کہ جب کسی افسر کی طرف سے حکم آئے تو جو بھی حکم آتا ہے اس کو ویسے ہی کرنا ہے۔ اس پر اس طرح عمل درآمد کرتے اورکرواتے تھے کہ وہ اسی طرح کرنا ہے اور اس حکم کے اندر سے اپنے مطلب نہیں نکالتے تھے کہ ایسے بھی ہو سکتا ہے، ویسے ہو سکتا ہے۔کہتے ہیں جتنا ان کو کہا جاتا اور جیسے کہا جاتا بالکل ویسے کرتے تھے اور ہم لوگوں سے بھی ویسے ہی کرواتے تھے اور اگر یہ کہا جاتا کہ فلاں شفٹ انچارج تو اس طرح کرتے ہیں تو کہتے مجھے نہیں پتا وہ کیا کرتے ہیں۔ مجھے تو جیسے حکم ملامیں نے ویسے ہی کرنا ہے اور پھر یہ دعا کے لیے بھی خاص طور پر کہا کرتے تھے کہ جب تک ہوں اللہ تعالیٰ چلتا پھرتا رکھے اور جب وقت آئے تو چلتا پھرتا ہی لے جائے ،کسی کا محتاج نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے ایسا ہی سلوک کیا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند کرے۔ ان کی اہلیہ کو بھی صحت والی زندگی عطا فرمائے اور صبر اور حوصلہ بھی عطا فرمائے۔ ان کے بیٹے کو بھی جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا تھا بلکہ ان کی نسل کو بھی اولاد کو خلافت اور جماعت سے وفا کے ساتھ جوڑے رکھے۔
میں ان کو اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ جماعت کی خدمت کے لیے ربوہ میں آئے تھے۔ یقیناً سب لکھنے والوں نے جو بھی لکھا ہے بڑی حقیقت ہے۔ بڑے بے لوث ہو کر خدمت کرنے والے تھے اور کامل اطاعت کرنے والے تھے۔ ان کی وفات ایسے حالات میں ہوئی ہے جب جنازے میں زیادہ لوگ شامل نہیں ہو سکتے۔ کچھ عرصے سے یہ دل کے مریض تھے۔ اینجیوپلاسٹی بھی ہوئی ہوئی تھی۔ چند دن پہلے بیمار ہوئے، ہسپتال بھی گئے۔ بلکہ جب ہسپتال میں داخل ہوئے ہیں اور ہسپتال میں ہی تھے۔ ڈاکٹروں نے داخل کر لیا اور کہا کہ یہ شدید دل کا حملہ ہوا ہے۔ پھر بعد میں انہوں نے کہا کہ جو وائرس ہے اس کا بھی حملہ ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ پہلے کسی سے لیایا ہسپتال میں جو آج کل کے حالات ہیں وہاں جا کریہ لیا لیکن بہرحال چند دن ہسپتال میں زیر ِعلاج رہے اور وہیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ یہاں جو قانونی پابندیاں ہیں اس وجہ سے جنازہ بھی یہاں نہیں لایا جا سکتا اور چند قریبی افراد کے علاوہ جنازہ میں جمع بھی نہیں ہو سکتے اور پھر جنازے کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ ان کا جو funeral homeیا قبرستان ہے اسی میں ہی جنازہ ہو گا۔ اس لیے آج کل جو حالات ہیں اس وجہ سے میں بھی بہرحال ان کا جنازہ غائب ان شاء اللہ بعد میںکسی وقت پڑھاؤں گا ۔
بےشمار لکھنے والوں نے جیسا کہ مَیں نے کہا ان کی خوبیاں لکھی ہیں اور جو بھی لکھی ہیں واقعی حق لکھا ہے۔ یہی خوبیاں ان میں موجود تھیں جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں۔ اپنی خدمت کو، اپنے عہد کو وفا سے نبھاتے ہوئے یہ اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ ہر عہد جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا اس کو پورا کیا۔ ان کی زندگی میںہمیں یہی نظر آتا ہے ۔ اس لحاظ سے یہ ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ شہید ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ان میں شامل فرمائے اور وہ تمام احمدی جن کی اس بیماری کی وجہ سے وفات ہوئی ہے اللہ تعالیٰ ان سے بھی رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور ہر ایک سے، اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس کے ساتھ کیا ہے ہماری تو یہی دعا ہے کہ ہر ایک جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت حاصل کرنے والا ہو۔
(الفضل انٹر نیشنل یکم مئی 2020ء صفحہ 05تا08)