ابتلاؤں میں ہی دعاؤں کے عجیب وغریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے
ابتلاء اور ہمّ وغم کا فائدہ
ﷲ تعالیٰ چاہتا تو انسان کو ایک حالت میں رکھ سکتا تھا۔ مگر بعض مصالح اور امور ایسے ہوتے ہیں کہ اس پر بعض عجیب وغریب اوقات اور حالتیں آتی رہتی ہیں۔ ان میں سے ایک ہمّ و غم کی بھی حالت ہے۔ ان اختلاف حالات اور تغییر وتبدیل اوقات سے اﷲ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتیں اور اسرار ظاہر ہوتے ہیں۔ کیا اچھا کہا ہے ؎
اگر دنیا بیک دستور ماندے
بسا اسرارہا مستور ماندے
جن لوگوں کو کوئی ہمّ وغم دنیا میں نہیں پہنچتا اور جو بجائے خود اپنے آپ کو بڑے ہی خوش قسمت اور خوشحال سمجھتے ہیں، وہ اﷲ تعالیٰ کے بہت سے اسرار اور حقائق سے ناواقف اور ناآشنا رہتے ہیں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ مدرسوں میں سلسلہ تعلیم کے ساتھ یہ بھی لازمی رکھا گیا ہے کہ ایک خاص وقت تک لڑکے ورزش بھی کریں۔ اس ورزش اور قواعد وغیرہ سے جو سکھائی جاتی ہے سررشتہ تعلیم کے افسروں کا یہ منشا تو ہو نہیں سکتا کہ ان کو کسی لڑائی کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور نہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ وقت ضائع کیا جاتا ہے اور لڑکوں کا وقت کھیل کود میں دیا جاتا ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اعضاء جو حرکت کو چاہتے ہیں۔ اگر ان کو بالکل بے کار چھوڑ دیا جائے تو پھر ان کی طاقتیں زائل اور ضائع ہو جاویں اور اس طرح پر اُس کو پورا کیا جاتا ہے۔ بظاہر ورزش کرنے سے اعضاء کو تکلیف اور کسی قدر تکان اُن کی پرورش اور صحت کاموجب ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح پر ہماری فطرت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ تکلیف کو بھی چاہتی ہے تا کہ تکمیل ہو جاوے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہی ہوتا ہے۔ جو وہ انسان کو بعض اوقات ابتلاؤں میں ڈال دیتا ہے۔ اس سے اس کی رضا بالقضا اور صبر کی قوتیں بڑھتی ہیں۔ جس شخص کو خدا پر یقین نہیں ہوتا ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ ذرا سی تکلیف پہنچنے پر گھبرا جاتے ہیں اور وہ خود کشی میں آرام دیکھتا ہے، مگر انسان کی تکمیل اور تربیت چاہتی ہے کہ اس پر اس قسم کی ابتلاء آویں اور تاکہ اﷲ تعالیٰ پر اس کا یقین بڑھے۔
عدم ابتلاء سے نقصان
اﷲ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، لیکن جن کو تفرقہ اور ابتلاء نہیں آتا ان کا حال دیکھوکہ کیسا ہوتا ہے۔ وہ بالکل دنیا اور اس کی خواہشوں میں منہمک ہو گئے ہیں اُن کا سر اوپر کی طرف نہیں اٹھتا۔ خدا تعالیٰ کا ان کو بھول کر بھی خیال نہیں آتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اعلیٰ درجہ کی خوبیوں کو ضائع کر دیا اور بجائے اس کے ادنیٰ درجہ کی باتیں حاصل کیں، کیونکہ ایمان اور عرفان کی ترقی ان کے لیے وہ راحت اور اطمینان کے سامان پیدا کرتے جو کسی مال و دولت اور دنیا کی لذت میں نہیں ہیں۔ مگر افسوس کہ وہ ایک بچہ کی طرح آگ کے انگارہ پر خوش ہو جاتے ہیں اور اس کی سوزش اور نقصان رسانی سے آگاہ نہیں، لیکن جن پر اﷲ تعالیٰ کافضل ہوتاہے اور جن کو ایمان اور یقین کی دولت سے مالا مال کرتا ہے ان پر ابتلاء آتا ہے۔ جو کہتے ہیں کہ ہم پر کوئی ابتلاء نہیں آیا وہ بدقسمت ہیں۔ وہ نازونعمت میں رہ کر بہائم کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی زبان ہے، مگر وہ حق بول نہیں سکتی۔ خدا کی حمد وثنا اس پر جاری نہیں ہوتی، بلکہ وہ صرف فسق وفجور کی باتیں کرنے کے لیے اور مزہ چکھنے کے واسطے ہے۔ ان کی آنکھیں ہیں، مگر وہ قدرت کا نظارہ نہیں دیکھ سکتیں، بلکہ وہ بدکاری کے لیے ہیں۔ پھر ان کو خوشی اور راحت کہاں سے میسّر آتی ہے۔ یہ مت سمجھو کہ جس کو ہمّ وغم پہنچتا ہے وہ بدقسمت ہے۔ نہیں۔ خدا اس کو پیار کرتا ہے۔ جیسے مرہم لگانے سے پہلے چیرنا اور جراحی کا عمل ضروری ہے۔ غرض یہ انسانی فطرت میں ایک امر واقعہ شدہ ہے جس سے اﷲ تعالیٰ یہ ثابت کرتا ہے کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے اور اس میں کیا کیا بلائیں اور حوادث آتے ہیں۔ ابتلاؤں میں ہی دعاؤں کے عجیب وغریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے۔
مجیب اور بولنے والا خدا صرف اسلام پیش کرتا ہے
دنیا میں جس قدر قومیں ہیں۔ کسی قوم نے ایسا خدا نہیں مانا جو جواب دیتا ہو اور دعاؤں کو سنتا ہو۔ کیا ایک ہندو ایک پتھر کے سامنے بیٹھ کر یا درخت کے آگے کھڑا ہو کر یا بیل کے رُوبرو ہاتھ جوڑ کر کہہ سکتا ہے کہ میرا خدا ایسا ہے کہ میں اس سے دعاکروں تو یہ مجھے جواب دیتاہے؟ ہر گز نہیں۔ کیاایک عیسائی کہہ سکتا ہے کہ میں نے یسوع کو خدا مانا ہے۔ وہ میری دعا کو سنتا اور اس کا جواب دیتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلام کا خدا ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے۔ جس نے کہا
اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : 61)
تم مجھے پکارو میں تم کو جواب دوں گا اور یہ بالکل سچی بات ہے۔ کوئی ہو جو ایک عرصہ تک سچی نیت اور صفائی قلب کے ساتھ اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہو۔ وہ مجاہدہ کرے اور دعاؤں میں لگا رہے۔ آخر اس کی دعاؤں کا جواب اُسے ضرور دیا جاوے گا۔
قرآن شریف میں ایک مقام پر ان لوگوں کے لیے جو گو سالہ پرستی کرتے ہیں اور گو سالہ کو خدا بناتے ہیں آیا ہے
اَلَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمْ قَوْلًا(طٰہٰ : 90)
کہ وہ اُن کی بات کا کوئی جواب اُن کو نہیں دیتا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو خدا بولتے نہیں ہیں وہ گوسالہ ہی ہیں۔ ہم نے عیسائیوں سے بار ہا پوچھا ہے کہ اگر تمہارا خدا ایسا ہی ہے جو دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کے جواب دیتا ہے تو بتاؤ وہ کس سے بولتا ہے؟ تم جو یسوع کو خدا کہتے ہو۔ پھر اس کو بلا کر دکھاؤ۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ سارے عیسائی اکٹھے ہو کر بھی یسوع کو پکاریں۔ وہ یقیناً کوئی جواب نہ دے گا، کیونکہ وہ مر گیا۔
(ملفوظات جلد 3صفحہ199تا201۔ایڈیشن1984ء)