پنج وقتہ نمازوں کا التزام کرو
تیسری شرط بیعت(حصہ دوم)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پنج وقتہ نمازوں کا التزام کرو(حصہ دوم)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ‘‘نماز پڑھو، نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کنجی ہے’’۔
(ازالہ اوہام۔ صفحہ829۔ طبع اول۔ روحانی خزائن۔ جلد نمبر3۔ صفحہ549)
حضور ؑمزید فرماتے ہیں:‘‘نماز کا مغز اور روح بھی دعا ہی ہے’’۔
(ایام الصلح ۔ روحانی خزائن جلد نمبر14۔صفحہ241)
آپؑ مزید فرماتے ہیں:
‘‘ اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو۔ آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جائوگے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم ماروگے۔ سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو۔ اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔ نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو۔ یقینا ًیاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے۔ ہرایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے۔ جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہو گی۔ وہ عمل بھی ضائع نہیں ہو گا۔’’
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن۔ جلد19۔ صفحہ 15)
آپؑ فرماتے ہیں :
‘‘نماز کیا چیز ہے۔ وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے۔ سو جب تم نماز پڑھو تو بیخبر لوگوں کی طرح اپنی دعائوں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو۔ کیونکہ ان کی نماز اور ان کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں۔ لیکن تم جب نماز پڑھو تو بجز قرآن کے جو خدا کا کلام ہے۔ اور بجز بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول کا کلام ہے باقی اپنی تمام عام دعائوں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضرعانہ ادا کر لیا کرو تاکہ تمہارے دلوں پر اس عجز و نیاز کا کچھ اثر ہو’’۔
(کشتی نوح ۔روحانی خزائن۔ جلد19۔ صفحہ68-69)
پھر آپؑ نے فرمایا :
‘‘نماز ایسی شئے ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمان انسان پر جھک پڑتاہے۔ نماز کا حق ادا کرنے والا یہ خیال کرتاہے کہ مَیں مر گیا اور اس کی روح گداز ہو کر خدا کے آستانہ پر گر پڑی ہے… جس گھر میں اس قسم کی نماز ہوگی وہ گھر کبھی تباہ نہ ہوگا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر نوحؑ کے وقت میں نماز ہوتی تو وہ قوم کبھی تباہ نہ ہوتی۔ حج بھی انسان کے لئے مشروط ہے ، روزہ بھی مشروط ہے ،زکوٰۃ بھی مشروط ہے مگرنماز مشروط نہیں۔ سب ایک سال میں ایک ایک دفعہ ہیں مگر اس کا حکم ہر روز پانچ دفعہ ادا کرنے کاہے۔ اس لئے جب تک پوری پوری نماز نہ ہوگی تو وہ برکات بھی نہ ہوں گی جو ا س سے حاصل ہوتی ہیں اور نہ اس بیعت کا کچھ فائدہ حاصل ہوگا’’۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد سوم۔ صفحہ 627)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرتﷺ کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی کہ یارسول اللہؐ!ہمیں نماز معاف فرما دی جائے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں۔ مویشی وغیرہ کے سبب کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا اور نہ ہمیں فرصت ہوتی ہے۔تو آپؐ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو جب نماز نہیں ،تو ہے ہی کیا؟وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں۔ نماز کیا ہے؟یہی کہ اپنے عجزو نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا۔ کبھی اس کی عظمت اور اس کے احکام کی بجاآوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور کبھی کمال مذلت اور فروتنی سے اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔اس سے اپنی حاجات کا مانگنا یہی نماز ہے۔ایک سائل کی طرح کبھی اس مسئول کی تعریف کرناکہ تُو ایسا ہے، تُو ایسا ہے۔اس کی عظمت اور جلال کا اظہار کرکے اس کی رحمت کو جنبش دلانا پھر اس سے مانگنا۔پس جس دین میں یہ نہیں، وہ دین ہی کیا ہے۔
انسان ہر وقت محتاج ہے اس سے اس کی رضا کی راہیں مانگتا رہے اور اس کے فضل کا اس سے خواستگار ہو کیونکہ اسی کی دی ہوئی توفیق سے کچھ کیا جاسکتا ہے۔
اے خدا! ہم کو توفیق دے کہ ہم تیرے ہوجائیں اور تیری رضا پر کاربند ہوکر تجھے راضی کرلیں۔ خدا کی محبت،اسی کا خوف ،اسی کی یاد میں دل لگا رہنے کا نام نماز ہے اور یہی دین ہے۔
پھر جو شخص نماز ہی سے فراغت حاصل کرنی چاہتا ہے اس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیاکیا ؟ وہی کھانا پینااور حیوانوں کی طرح سو رہنا ۔ یہ تو دین ہرگز نہیں ۔ یہ سیرتِ کفار ہے بلکہ جو دم غافل وہ دم کافر والی بات بالکل راست اور صحیح ہے’’۔
(الحکم۔جلد7۔ مؤرخہ 31؍مارچ1903ء۔ صفحہ8)
نماز میں ذوق کس طرح حاصل ہو ۔اس بارہ میںحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘اے اللہ تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نابینا ہوں اور میں اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آجائوں گا ۔اس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا لیکن میرا دل اندھا اور ناشناسا ہے۔ تو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا انس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے۔ تو ایسا فضل کر کہ میں نابینا نہ اٹھوں اور اندھوں میں نہ جا ملوں۔
جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام اختیار کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئے گا کہ اس بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رقت پیدا کردے گی’’۔
(ملفوظات۔جدید ایڈیشن۔ جلد دوم۔ صفحہ616)
(باقی آئندہ)