خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 17؍اپریل2020ء
عبدالرحمٰنؓ کہتے ہیں کہ میرا اشارہ کرنا تھا کہ وہ دونوں بچے باز کی طرح جھپٹے اور دشمن کی صفیں کاٹتے ہوئے ایک آن کی آن میں وہاں پہنچ گئے اور اس تیزی سے وار کیا کہ ابوجہل اوراس کے ساتھی دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے اور ابوجہل خاک پر تھا
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت معاذ بن حارث رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
دو مسلمان نوجوانوں کے ہاتھوں سردارِ کفار ابوجہل کی ہلاکت کی تفصیلات
خلافت کے اطاعت گزار اور عاشق ،دلیر، بہادر اور کلمے کی حفاظت کرنے والے،اسیر راہِ مولیٰ، وفادار خادم ِسلسلہ ، عملہ حفاظتِ خاص کے کارکن محترم رانا نعیم الدین صاحب کی وفات پر ان کا ذکرِ خیر
’’ مَیں نے ان کے چہرے پر ہمیشہ بڑی طمانیت دیکھی اور خلافت کے لیے محبت دیکھی ہے‘‘
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 17؍اپریل2020ء بمطابق 17؍شہادت 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک ،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج بدری صحابہؓ میں سے حضرت معاذ بن حارثؓ کا مَیں ذکر کروں گا۔ حضرت معاذؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو مالک بن نجار سے تھا۔ حضرت معاذؓ کے والد کا نام حارث بن رفاعہ تھا۔ ان کی والدہ کا نام عفراء بنت عُبَیْد تھا۔ حضرت معوذؓ اور حضرت عوفؓ ان کے بھائی تھے۔ یہ تینوں بھائی اپنے والد کے علاوہ اپنی والدہ کی طرف بھی منسوب ہوتے تھے اور ان تینوں کو بنو عفراء بھی کہا جاتا تھا۔ حضرت معاذؓ اور ان کے دو بھائی حضرت عوفؓ اور حضرت معوذؓ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے۔ حضرت عوفؓ اور حضرت معوذؓ دونوں غزوۂ بدر میں شہید ہو گئے مگر حضرت معاذؓ بعد کے تمام غزوات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک رہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت معاذ بن حارثؓ اور حضرت رافع بن مالک زُرَقِیؓ ان اولین انصار میں سے ہیں جو حضور اکرمؐ پر مکّے میں ایمان لائے تھے اور حضرت معاذؓ ان آٹھ انصار میں شامل ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بیعتِ عقبہ اولیٰ کے موقع پر مکے میں ایمان لائے۔ اسی طرح بیعت عقبہ ثانیہ میں بھی حضرت معاذؓ حاضر تھے۔ حضرت مَعْمَر بن حَارِثؓ جب مکے سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور حضرت معاذ بن حارثؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔
(اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 190 – 191 حضرت مُعاذ بِنْ اَلْحَارِث بن رِفَاعَۃ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان 2003ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 374 حضرت مُعاذ بِنْ اَلْحَارِث دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)
ابوجہل کے قتل کی تفصیل گو پہلے گذشتہ سال کےایک خطبے میں کچھ حد تک بیان ہو چکی ہے (خطبہ جمعہ 05؍ اپریل 2019ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 26؍ اپریل 2019ء) لیکن یہاں بھی یہ بیان کرتا ہوں۔ یہ بھی ضروری ہے کیونکہ حضرت معاذؓ سے بھی اس کا تعلق ہے اور یہ بخاری کی روایات ہیں جو بیان کروں گا اور خلاصہ تو ان کا بیان نہیں ہو سکتا ، بخاری کی پوری روایت ہی پڑھنی ہو گی۔
صالح بن ابراہیم اپنے دادا حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بتایا کہ مَیں بدر کی لڑائی میں صف میں کھڑا تھا کہ مَیں نے اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو انصاری لڑکے ہیں۔ ان کی عمریں چھوٹی ہیں۔ مَیں نے آرزو کی کہ کاش مَیں ایسے لوگوں کے درمیان ہوتا جو ان سے زیادہ جوان اور تنو مند ہوتے۔ اتنے میں ان میں سے ایک نے مجھے ہاتھ سے دبا کر پوچھا کہ چچا کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ مَیں نے کہا ہاںبھتیجے۔ تمہیں اس سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا مجھے بتلایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے اور اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مَیں اس کو دیکھ پاؤں تو میری آنکھ اس کی آنکھ سے جدا نہ ہو گی جب تک ہم دونوں میں سے وہ نہ مر جائے جس کی مدت پہلے مقدر ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ مجھے اس سے بڑا تعجب ہوا۔ پھر دوسرے نے مجھے ہاتھ سے دبایا۔ دوسری طرف جو کھڑا تھا اور اس نے بھی مجھے اسی طرح پوچھا۔ ابھی تھوڑا عرصہ گزرا ہو گا کہ مَیں نے ابوجہل کو لوگوں میں چکر لگاتے دیکھا۔ مَیں نے کہا دیکھو یہ ہے وہ تمہارا ساتھی جس کے متعلق تم نے مجھ سے دریافت کیا تھا۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں جلدی سے اپنی تلواریں لیے اس کی طرف لپکے اور اسے اتنا مارا کہ اس کو جان سے مار ڈالا اور پھر لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپؐ کو خبر دی۔ آپؐ نے پوچھا تم میں سے کس نے اس کو مارا ہے۔ دونوں نے کہا مَیں نے اس کو مارا ہے۔ آپؐ نے پوچھا کیا تم نے اپنی تلواریں پونچھ کر صاف کر لی ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آپؐ نے تلواروں کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دونوں نے ہی اس کو مارا ہے۔ پھر فرمایا کہ اس کا مال معاذ بن عمرو بن جموح کو ملے گا اور ان دونوں کا نام معاذ تھا۔ مُعَاذ بن عفراء اور مُعَاذ بن عَمرو بن جَموح یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔
(صحیح البخاری کتاب فرض الخمس باب من لم یخمس الاسلاب……… حدیث 3141)
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ بدر کے دن فرمایا کون دیکھے گا کہ ابوجہل کا کیا حال ہوا ہے؟ حضرت ابن مسعودؓ گئے اور جا کر دیکھا کہ اس کو عفراء کے دونوں بیٹوں حضرت معاذؓ اور حضرت معوذؓ نے تلواروں سے اتنا مارا ہے کہ وہ مرنے کے قریب ہو گیا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے پوچھا کیا تم ابو جہل ہو؟ حضرت ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے ابوجہل کی داڑھی پکڑی۔ ابوجہل کہنے لگا کیا اُس سے بڑھ کر بھی کوئی شخص ہے جس کو تم نے مارا ہے یا یہ کہا کہ اُس شخص سے بڑھ کر کوئی ہے جس کو اس کی قوم نے مارا ہو۔ احمد بن یونس نے اپنی روایت میں یوں کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے یہ الفاظ کہے کہ تم ہی ابوجہل ہو؟ یہ بھی بخاری کی حدیث ہے۔
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل حدیث 3962)
بخاری کی جو روایت ہے اس حدیث کی شرح میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ درج کرتے ہیں کہ
بعض روایات میں ہے کہ عفراء کے دو بیٹوں معوذؓ اور معاذؓ نے ابوجہل کو موت کے قریب پہنچا دیا تھا۔ بعد ازاں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کیا تھا۔ بخاری کتاب المغازی میں یہ ہے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اس احتمال کا اظہار کیا ہے کہ معاذ بن عمروؓ اور معاذ بن عفراءؓ کے بعد معوذ بن عفراءؓ نے بھی اس پر وار کیا ہو گا۔
(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب فرض الخمس جلد 5 صفحہ 491حاشیہ، اردو ترجمہ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
غزوۂ بدر کے موقعےپر ابوجہل کے قتل میں کون کون شریک تھا۔ اس کے بارے میں ایک جگہ تفصیل یوں ملتی ہے۔
ابن ہشام نے علامہ ابن اسحاق سے روایت کی ہے کہ مُعاذ بن عَمرو بن جَموحؓ نے ابوجہل کی ٹانگ کاٹی تھی جس کے نتیجے میں وہ گر گیا اور عکرمہ بن ابوجہل نے حضرت معاذؓ کے ہاتھ پر تلوار ماری جس کے نتیجے میں وہ ہاتھ یا بازو الگ ہو گیا ۔ پھر مُعوذ بن عَفراءؓ نے ابوجہل پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں وہ نیچے گر گیا اور اس میں زندگی کی کچھ رمق ابھی باقی تھی کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مقتولین میں ابوجہل کو تلاش کرنے کا حکم دیا تھا۔ یعنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا تھا کہ ابوجہل کو مقتولین میں تلاش کریں تو اس وقت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کیا۔ صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق عفراء کے دو بیٹوں نے ابوجہل پر حملہ کیا تھا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ اسی طرح بخاری میں باب قتلِ ابی جہل میں بھی ایسا ہی ذکر ہے۔ امام قرطبی کے نزدیک یہ وہم ہے کہ عفراء کے دو بیٹوں نے ابوجہل کو قتل کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض راویوں پر معاذ بن عَمرو بن جموحؓ مشتبہ ہو گئے یعنی معاذ بن عَفراءؓ کی بجائے وہ معاذ بن عَمرو بن جموحؓ تھے جنہیں لوگ سمجھے کہ معاذ بن عفراءؓ ہیں۔ کہتے ہیں معاذ بن عمرو بن جموحؓ معاذ بن عفراءؓ کے ساتھ مشتبہ ہو گئے ہیں۔ علامہ ابن الجوزی کہتے ہیں کہ معاذ بن جموحؓ، عفراء کی اولاد میں سے نہیں اور معاذ بن عفراءؓ ابوجہل کو قتل کرنے والوں میں شامل تھا ۔ شاید معاذ بن عفراء کا کوئی بھائی یا چچا اس وقت موجود ہو یا روایت میں عفراء کے ایک بیٹے کا ذکر ہو اور راوی نے غلطی سے دو بیٹوں کا کہہ دیا ہو۔ بہرحال ابوعمر کہتے ہیں کہ اس روایت کی نسبت حضرت انس بن مالکؓ کی حدیث زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ ابن عفراء نے ابوجہل کو قتل کیا تھا یعنی عفراء کا ایک بیٹا تھا۔ ابن تِیْن کہتے ہیں کہ اس بات کا احتمال موجود ہے کہ دونوں معاؓذ یعنی معاذ بن عمرو بن جموحؓ اور معاذ بن عفراءؓ ماں کی طرف سے بھائی ہوں یا دونوں رضاعی بھائی ہوں۔ علامہ داؤدی نے عفراء کے دونوں بیٹوں سے مراد سہل اور سہیل لیے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ دونوں معوذ اور معاذ ہیں۔
(عمدۃ القاری جلد 15 صفحہ 100-101 مطبوعہ دار الفکر بیروت )
بہرحال یہ روایتیں آتی ہیں کہ تین نے قتل کیا ۔بعض میں دو نے اور ان میں حضرت معاذ بن حارثؓ کا بھی ذکر ملتا ہے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے غزوہ ٔبدر کے جو حالات لکھے ہیں اور جس میں ابوجہل کے قتل کا واقعہ لکھا ہے اس کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ
’’میدانِ کارزار میں کشت وخون کامیدان گرم تھا۔ مسلمانوں کے سامنے ان سے سہ چند جماعت تھی۔‘‘ تین گنا جماعت تھی ’’جو ہرقسم کے سامانِ حرب سے آراستہ ہوکر اس عزم کے ساتھ میدان میں نکلی تھی کہ اسلام کا نام ونشان مٹا دیا جاوے اور مسلمان بیچارے تعداد میں تھوڑے، سامان میں تھوڑے، غربت اور بے وطنی کے صدمات کے مارے ہوئے ظاہری اسباب کے لحاظ سے اہل ِمکہ کے سامنے چند منٹوں کا شکار تھے مگر توحید اور رسالت کی محبت نے انہیں متوالا بنا رکھا تھا اور اس چیز نے جس سے زیادہ طاقتور دنیا میں کوئی چیز نہیں یعنی زندہ ایمان نے ان کے اندر ایک فوق العادت طاقت بھر دی تھی۔ وہ اس وقت میدانِ جنگ میں خدمتِ دین کا وہ نمونہ دکھا رہے تھے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہر اک شخص دوسرے سے بڑھ کر قدم مارتا تھا اور خدا کی راہ میں جان دینے کے لیے بے قرار نظر آتا تھا۔ حمزہؓ اور علیؓ اور زبیرؓ نے دشمن کی صفوں کی صفیں کاٹ کر رکھ دیں۔ انصار کے جوشِ اخلاص کا یہ عالم تھا کہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ روایت کرتے ہیں کہ جب عام جنگ شروع ہوئی تو مَیں نے اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی مگر کیا دیکھتا ہوں کہ انصار کے دو نوجوان لڑکے میرے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں۔ انہیں دیکھ کر میرا دل کچھ بیٹھ سا گیا کیونکہ ایسے جنگوں میں دائیں بائیں کے ساتھیوں پر لڑائی کابہت انحصار ہوتا تھا اور وہی شخص اچھی طرح لڑ سکتا ہے جس کے پہلو محفوظ ہوں۔ مگر عبدالرحمٰن ؓکہتے ہیں کہ مَیں اس خیال میں ہی تھا کہ ان لڑکوں میں سے ایک نے مجھ سے آہستہ سے پوچھا کہ گویا وہ دوسرے سے اپنی یہ بات مخفی رکھنا چاہتا ہے۔‘‘ یہ چاہتا ہے کہ دوسرے کو پتا نہ لگے جو دوسری طرف کھڑا ہے ’’کہ چچا وہ ابو جہل کہاں ہے جومکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ دیا کرتا تھا۔ مَیں نے خدا سے عہد کیا ہوا ہے کہ مَیں اسے قتل کروں گا یاقتل کرنے کی کوشش میں مارا جاؤں گا۔ مَیں نے ابھی اس کا جواب نہیں دیا تھا۔‘‘ عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں کہ مَیں نے ابھی جواب نہیں دیا تھا۔ ’’کہ دوسری طرف سے دوسرے نے بھی اسی طرح آہستہ سے یہی سوال کیا۔ مَیں ان کی یہ جرأت دیکھ کر حیران سا رہ گیا کیونکہ ابوجہل گویا سردارِلشکر تھا اور اس کے چاروں طرف آزمودہ کار سپاہی جمع تھے۔ مَیں نے ہاتھ سے اشارہ کرکے کہا کہ وہ ابوجہل ہے۔ عبدالرحمٰنؓ کہتے ہیں کہ میرا اشارہ کرنا تھا کہ وہ دونوں بچے باز کی طرح جھپٹے اور دشمن کی صفیں کاٹتے ہوئے ایک آن کی آن میں وہاں پہنچ گئے اور اس تیزی سے وار کیا کہ ابوجہل اوراس کے ساتھی دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے اور ابوجہل خاک پر تھا۔ عکرمہ بن ابوجہل بھی اپنے باپ کے ساتھ تھا وہ اپنے باپ کو تو بچا نہ سکا مگر اس نے پیچھے سے معاذؓ پر ایسا وار کیا کہ اس کا بایاں بازو کٹ کر لٹکنے لگا۔ معاذؓ نے عکرمہ کا پیچھا کیا مگر وہ بچ کر نکل گیا چونکہ کٹا ہوا بازو لڑنے میں مزاہم ہوتا تھا۔ معاذ نے اسے زور سے کھینچ کراپنے جسم سے الگ کردیا اور پھر لڑنے لگ گئے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 362)
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ
’’ابوجہل جس کی پیدائش پر ہفتوں اونٹ ذبح کر کے لوگوں میں گوشت تقسیم کیا گیا تھا۔ جس کی پیدائش پر دفوں کی آواز سے مکہ کی فضا گونج اٹھی تھی۔‘‘ بڑے ڈھول دھمکے بجائے جا رہے تھے اور بڑے باجے بجائے جا رہے تھے، دف بجائے جا رہے تھے اور اس کی پیدائش پر بڑی خوشی منائی جا رہی تھی کہ مکہ کی فضا بھی گونج اٹھی تھی۔ پھر لکھتے ہیں کہ ’’بدر کی لڑائی میں جب مارا جاتا ہے تو پندرہ پندرہ سال کے دو انصاری چھوکرے تھے جنہوں نے اسے زخمی کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جب جنگ کے بعد لوگ واپس جا رہے تھے تو مَیں میدان میں زخمیوں کو دیکھنے کے لیے چلا گیا۔ آپؓ بھی مکہ کے ہی تھے اس لیے ابوجہل آپؓ کو اچھی طرح جانتا تھا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ مَیں میدان جنگ میں پھر ہی رہا تھا کیا دیکھتا ہوں کہ ابوجہل زخمی پڑا کراہ رہا ہے۔ جب مَیں اس کے پاس پہنچا تو اس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مَیں اب بچتا نظر نہیں آتا۔ تکلیف زیادہ بڑھ گئی ہے۔ تم بھی مکہ والے ہو۔ مَیں یہ خواہش کرتا ہوں کہ تم مجھے مار دو تا میری تکلیف دور ہو جائے لیکن تم جانتے ہو کہ مَیں عرب کا سردار ہوں اور عرب میں یہ رواج ہے کہ سرداروں کی گردنیں لمبی کر کے کاٹی جاتی ہیں اور یہ مقتول کی سرداری کی علامت ہوتی ہے۔ میری یہ خواہش ہے کہ تم میری گردن لمبی کر کے کاٹنا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے اس کی گردن ٹھوڑی سے کاٹ دی۔‘‘ ٹھوڑی کے قریب سے کاٹی ’’اور کہا تیری یہ آخری حسرت بھی پوری نہیں کی جائے گی۔ اب انجام کے لحاظ سے دیکھو تو ابوجہل کی موت کتنی ذلت کی موت تھی۔ جس کی گردن اپنی زندگی میں ہمیشہ اونچی رہا کرتی تھی وفات کے وقت اس کی گردن ٹھوڑی سے کاٹی گئی اور اس کی یہ آخری حسرت بھی پوری نہ ہوئی۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 101)
حضرت رُبَیِّعْبنتِ مُعَوِّذؓ سے مروی ہے کہ میرے چچا حضرت مُعاذ بن عَفراءؓ نے مجھے کچھ تروتازہ کھجوریں دے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زیور عطا فرمایا جو بحرین کے حاکم نے آپؐ کو بطور ہدیہ بھیجا تھا ۔ ایک اَور روایت میں ہے کہ حضرت رُبَیِّعْبنتِ معوذ ؓسے روایت ہے کہ میرے چچا حضرت مُعاذؓ نے میرے ہاتھ ایک ہدیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو آپؐ نے اسے زیور عطا فرمایا جو بحرین کے حاکم کی طرف سے آپؐ کو ملا تھا۔ علامہ ابن اَثیرلکھتے ہیں کہ بحرین کے حاکم اور دیگر بادشاہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تب تحائف وغیرہ بھیجے تھے جب اسلام وسعت اختیار کر چکا تھا اور آپؐ نے بادشاہوں کے نام خطوط لکھے تھے اور انہیں تحائف ارسال فرمائے تھے۔ تو انہوں نے بھی آپ کی خدمت میں خطوط لکھے اور اپنے تحائف ارسال کیے۔
(اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 192 ’’حضرت مُعَاذ بِنْ اَلْحَارِث بن رِفَاعَۃ‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
حضرت معاذ بن حارثؓ نے چار شادیاں کی تھیں جن کی تفصیل یہ ہے۔ حَبِیبہ بنتِ قَیس۔ ان سے ایک بیٹا عُبَیْداللہ پیدا ہوا۔ دوسری شادی ام حارث بنت سَبْرَہ سے تھی ان سے حارث ، عوف، سلمٰی، ام عبداللہ اور رَمْلَہ پیدا ہوئے۔ ام عبداللہ بنت نُمَیر تیسری بیوی تھیں۔ ان سے ابراہیم اور عائشہ پیدا ہوئے۔ ام ثابت رَمْلَہ بنتِ حارث چوتھی تھیں ان سے سارہ پیدا ہوئیں۔
(الطبقات الکبریٰ الجزء الثالث صفحہ 373 – 374 ’’حضرت مُعَاذ بِنْ اَلْحَارِث ‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
علامہ ابن اَثیرنے اپنی تصنیف اُسد الغابہ میں حضرت معاذؓ کی وفات کے متعلق مختلف اقوال درج کیے ہیں۔
ایک قول کے مطابق حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ بدر میں زخمی ہوئے اور مدینہ واپس آنے کے بعد ان زخموں کی وجہ سے ان کی وفات ہوئی۔ ایک قول کے مطابق وہ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت تک زندہ رہے۔ ایک قول کے مطابق وہ حضرت علیؓ کے دورِ خلافت تک زندہ رہے۔ ان کی وفات حضرت علیؓ اور امیر معاویہ کے درمیان جنگِ صِفِّین کے دوران ہوئی۔ جنگِ صِفِّین چھتیس اور سینتیس ہجری میں ہوئی تھی اور حضرت مُعاذؓ نے حضرت علی ؓکی طرف سے جنگ میں شرکت کی تھی۔
(اسد الغابہ جلد6صفحہ 191 حضرت مُعَاذ بِنْ اَلْحَارِث بن رِفَاعَۃ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان 2003ء)
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب الجزء الثالث صفحہ 1409-1410 ’’حضرت مُعَاذ بِنْ عَفْرَاء‘‘ دار الجیل بیروت)
بہرحال ان کی وفات کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں بعض باتیں جو ہیں ان سے یہی پتا لگتا ہے اوراگر یہ وہی ہیں تو ان کی اولاد اور بیویوں کو اگر دیکھا جائے تو انہوں نے لمبی زندگی پائی تھی ۔
ان صحابی کے ذکر کے بعد مَیں اب مکرم رانا نعیم الدین صاحب ابن مکرم فیروز دین منشی صاحب کا ذکر کروں گا جن کی 09؍ اپریل کو وفات ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔بڑے عرصے سے بیمار تھے۔ مختلف عوارض سے کئی دفعہ ہسپتال جاتے تھے۔ ڈاکٹر کہتے تھے اب آخری وقت ہے پھر اللہ تعالیٰ فضل فرما دیتا تھا، تو ٹھیک ہو کے آ جاتے تھے اور جب بھی ٹھیک ہوتے تھے، چلنے کے قابل ہوتے تھے تو یہاںمسجد میں بھی آ جایا کرتے تھے ۔ بہرحال ان کی یہ آخری بیماری جان لیوا ثابت ہوئی اور ان کی وفات ہوئی۔
رانا صاحب کی پیدائش جو کاغذات کے مطابق ہے 1934ء کی ہے اور بعض روایات کے مطابق 1930ء یا 32ء کی بنتی ہے۔ بہرحال کاغذات کے مطابق 34ء کی ہے۔ اس لحاظ سے چھیاسی سال عمر تھی۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد محترم فیروز دین صاحب کے ذریعے سے ہوا تھا جنہوں نے 1906ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بذریعہ خط بیعت کی تھی اور پھر تقسیمِ ملک کے بعد جب ہندوستان اور پاکستان کی پارٹیشن ہوئی ہے یہ خاندان پاکستان شفٹ ہو گیا اور پہلے لاہور میں ہی رہے۔ پھر 1948ء میں رانا صاحب ربوہ آ گئے۔ پھر انہوں نے اپنے آپ کو فرقان بٹالین کے لیے پیش کیا اور فرقان بٹالین کے بعد حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رانا صاحب کو میر پور خاص کے قریب زمینوں پر بھجوا دیا جہاں یہ چند سال رہے۔ نظام ِوصیت میں بہت پرانے شامل ہیں۔ 1951ء سے ان کی وصیت ہے۔ ان کی اہلیہ کا نام سارہ پروین تھا جوحضرت چوہدری دولت خان صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی تھیں۔ پھر ان کے بارے میں دفتر کا جو ریکارڈ ہے عملہ حفاظتِ خاص کا جو آفس آرڈر کا رجسٹر ہے اس کے مطابق رانا نعیم الدین صاحب کا 3؍اگست 1954ء کو ریزرو آن ڈیوٹی کے طور پر تقرر ہوا اور اس کے بعد پھر نومبر 1955ء سے 11؍مئی 1959ء تک عملہ حفاظتِ خاص میں بطور گارڈ رہے۔ جب حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تفسیر کے کام کے سلسلے میں نخلہ، جابہ جایا کرتے تھے اور کئی کئی مہینے وہاں قیام فرمایا کرتے تھے تو مرحوم کی بھی اس وقت وہاں حفاظت اور جنریٹر کی دیکھ بھال کی ڈیوٹی تھی۔ وہاں بجلی تو تھی نہیں ڈیزل کا جنریٹر چلتا تھا۔ عمومی طور پر یہ ایک چھوٹی سی جگہ آباد کی گئی تھی اور اس کی آبادی کی حفاظت کی ذمہ داری بھی تھی۔
دفتر وصیت کے ریکارڈ کے مطابق 1978ء میں عملہ حفاظت سے فارغ ہوئے اور پھرہڑپہ ضلع ساہیوال چلے گئے اور بعد ازاں ساہیوال مسجد میں بطور خادم مسجد خدمت کرتے رہے۔ اس دوران اکتوبر 1984ء میں احمدیہ بیت الذکر ساہیوال پر جب مخالفین نے حملہ کیا تو یہ اس میں حفاظتی ڈیوٹی پر مامور تھے اور انہوں نے اس کا جواب دیا تو رانا نعیم الدین صاحب کے ساتھ کل گیارہ افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور اس طرح رانا صاحب کو 26؍اکتوبر 1984ء سے مارچ 1994ء تک اسیرِِراہ مولیٰ رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
پولیس نے یہ حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے ہمارے گیارہ احبابِ جماعت کے خلاف مقدمہ درج کیا اور ان کو سزا ہوئی۔ یہ جو کیس تھا وہ ملٹری کورٹ کو ریفر (refer)کر دیا گیا۔ یہ ضیاء الحق کے زمانے کی خاص عدالت تھی جہاں 16؍ فروری 85ء سے باقاعدہ سماعت شروع ہوئی اور جون، یکم جون 1985ء تک یہ سماعت جاری رہی اور اس میں پہلے توکل گیارہ افراد تھے لیکن بعد میں پھر سات احباب جن میں رانا نعیم الدین صاحب بھی شامل تھے ان کا فیصلہ pendingکر دیا گیا۔ دو باہر ملک چلے گئے تھے اور دو کو بری کر دیا گیا تھا تو یہ سات افراد جو تھے ان کا معاملہ پینڈنگ تھا۔ بعد میں اسی کورٹ نے جو سپیشل ملٹری کورٹ تھا اس نے الیاس منیر صاحب مربی سلسلہ اور رانا نعیم الدین صاحب کو موت کی سزا سنا دی اور باقی جو پانچ ملزمان تھے ان کو پچیس پچیس سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ بہرحال اس فیصلہ کے خلاف اپیل پر لاہور ہائی کورٹ نے مارچ 1994ء میں رہائی کا حکم دیا اور کاغذات کی تکمیل پر 19مارچ 1994ء کو ان کی رہائی عمل میں آئی اور اس طرح یہ جو ہمارے اسیر تھے ان کو ساڑھے نو سال راہ ِمولیٰ میں اسیری برداشت کرنے کا شرف حاصل ہوا، اسیر رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ مخالفین کی طرف سے ان اسیران کی رہائی کے بارے میں ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی اور اس کی ہیئرنگ (hearing)کا مئی 2013ء میں آغازہوا تاہم یہ دونوں بیرون ملک تھے تو کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور ابھی تک یہ کیس پینڈنگ ہے۔
دوران اسیری پولیس کی طرف سے خاص طور پر تشدد کیا جاتا رہا اور ان سے بیان لینے کی کوشش کی جاتی تھی کہ چونکہ تم اپنے خلیفہ کے باڈی گارڈ رہے ہواس لیے انہوں نے تمہیں یہ کام کرنے کے لیے بھیجا ہے کہ اس طرح مسلمانوں کو مارو۔ رانا نعیم الدین صاحب اس مقدمے سے رہائی کے بعد 1994ء میں لندن شفٹ ہو گئے اور یہاں بھی اپنی عمر کے لحا ظ سے بہت بڑھ کے عملہ حفاظت میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے۔ اور 2010ء میں ان کی بڑی بیٹی کی وفات ہوئی اور پھر چند دن بعد ان کی اہلیہ کی بھی وفات ہو گئی۔ تو پھر انہوں نے مجھ سے پاکستان جانے کا پوچھا تھا۔ حالات ایسے تھے کہ بظاہر مشکل لگتا تھا لیکن بہرحال مَیں نے کہا کہ جا کے جلدی واپس آ جائیں اور یہ چند دن کے لیے گئے اور پھر واپس آ گئے۔
مرحوم نے پسماندگان میں ایک بیٹا اور چار بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔ان کے بیٹے رانا وسیم احمد واقفِ زندگی ہیں۔ پرائیویٹ سیکرٹری یو۔کے کے دفتر میں کام کر رہے ہیں اور چاروں بیٹیاں بھی لندن میںہی مقیم ہیں۔ ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ ہمارے والد نے ہمیں ہمیشہ یہی سبق دیا کہ خلافت سے چمٹے رہنا اور سب کچھ خلافت سے وابستہ ہے۔ خود بھی خلافت کے شیدائی تھے اور کہتے تھے مَیں ڈیوٹی پر جاتا ہوں تو خلیفۂ وقت کو دیکھتا ہوں تو جوان ہو جاتا ہوں۔ میری صحت کا راز بھی یہی ہے کہ مَیں اس عمر میں بھی ڈیوٹی پر آتا ہوں ورنہ مَیں تو چارپائی سے لگ جاؤں۔ وقت کے بہت پابند تھے۔ ہمیشہ ڈیوٹی کے لیے دو تین گھنٹے پہلے تیار رہتے تھے۔ اگر مَیں کہتا کہ ابو جان ابھی تو ٹائم بہت ہے تو کہتے کیا ہوا گھر بیٹھ کر کیا کرنا ہے۔
ایک ڈاکٹر ہشام ہیں انہوں نے بھی یہ لکھا کہ مَیں نے ان کے کاغذات دیکھے، ان کی فائل دیکھی، پڑھی تو مَیں حیران رہ گیا کہ اس بیماری کے ساتھ اس عمر میں تو بندہ گھر میں بیٹھ جاتا ہے یا کیئر ہوم ( care home) میں چلا جاتا ہے لیکن یہ چلتے پھرتے بھی ہیں اور یہی کہا کرتے تھے میری صحت اور چلنے پھرنے کا راز یہی ہے کہ مَیں آجاؤں اور خلیفۂ وقت کے ساتھ رہوں اور ان کی صحبت میں رہوں۔ ان کے بیٹے رانا صاحب بھی لکھتے ہیں کہ اکثر ان کی مالش کیا کرتا تھا۔ ایک دن مَیں ان کی ٹانگوں کی مالش کر رہا تھا۔ ان کے گھٹنے کے پاس آیا تو ان کی ہلکی سی آواز نکلی۔ مَیں نے پوچھا کیا ہواتو کہنے لگے کچھ نہیں۔ بہرحال وہ کہتے ہیں مَیں نے ذرا اصرار کیا تو کہنے لگے کہ یہ جیل کی چوٹوں کی درد ہے۔ ہمیشہ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اور جیل میں جب مارا جاتا ہے تو پاکستانی جیلوں میں بڑے ظالمانہ طریقے سے مارا جاتا ہے۔ بہرحال یہ سب کچھ انہوں نے برداشت کیا اور باہر آ کے بھی ان کا صبر کا معیار بہت بلند تھا۔ کبھی طبیعت خراب ہوتی تو کسی کو نہیں بتاتے تھے بلکہ اکثر یہی کہتے تھے کہ الحمد للہ مَیں ٹھیک ہوں۔
ان کا خلافت کی اطاعت کا معیار کیا تھا؟ کہتے ہیں ایک دفعہ مَیں والد صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور اکثر مَیں ان سے واقعات سنانے کے لیے کہتا ۔ایک دن کہنے لگے کہ جب حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جابے نخلہ گئے تھے، جہاں وہ تفسیر لکھ رہے تھے تو مَیں ان کے ساتھ تھا جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا کہ وہ وہاں رہے ہیں تو کسی بات پر وہ مجھ سے خفا ہو گئے۔ حضرت خلیفہ ثانیؓ رانا نعیم الدین صاحب سے خفا ہو گئے اور مجھے فرمایا کہ تم مسجد میں چلے جاؤ اور جا کے استغفار کرو۔کہتے ہیں کہ مَیں مسجد میں چلا گیا۔ جابے میں چھوٹی سی کچی مسجد ہوتی تھی۔ کچا صحن ہوتا تھا۔ مسجد کے صحن میں بیٹھ کر استغفار کرنے لگ گیا۔ اتنے میں تیز آندھی آئی اور بارش شروع ہو گئی مگر مَیں اپنی جگہ پر بیٹھا استغفار کرتا رہا۔ جب کافی دیر ہو گئی اور مسجد کا ایک سائبان جو لگایا ہوا تھا وہ بھی اڑ گیا تو حضورؓ نے، خلیفہ ثانیؓ نے فرمایا کہ نعیم کدھر گیا ہے۔ کچھ لوگ مجھے ڈھونڈتے ہوئے مسجد میں آئے اور کہا کہ تمہیں حضورؓ بلا رہے ہیں۔ جب مَیں حضور خلیفہ ثانیؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت خلیفہ ثانیؓ نے فرمایا کہ مجھے پتا تھا کہ تم ادھر ہی بیٹھے ہو گے۔ جاؤ مَیں نے تمہیں معاف کیا۔ پھر ان کے یہ بیٹے ہی ان کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جب خلیفہ ثانیؓ نے تفسیر لکھنی شروع کی تھی اس وقت والد صاحب کو ان کے پاس رہ کر خدمت کا موقع ملا اور اپنی اس خدمت کا بڑا اظہار کیا کرتے تھے، خوشی کا اظہارکرتے تھے اور یہ ان کی عادت تھی کہ اپنی خوشی تو ہر ایک سے شیئر کرتے تھے مگر غم کبھی کسی کو نہیں بتاتے تھے۔
پھر ان کی خوبیوں میں لکھتے ہیں نہایت شفیق باپ تھے اور سچے دوست تھے۔ رانا وسیم نے جب وقف کیا ہے تو کہتے ہیں میرا وقف قبول ہوا تو مجھے ایک دن کہنے لگے کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ہمیشہ توبہ استغفار کرتے ہوئے اپنے وقف کو نبھانا۔ کبھی کوئی دکھ بھی دے تو چپ کر جانا نہ کہ بحث کرنا اور تمام بات اللہ پر چھوڑ دینا اور صبر کرنا اور صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس طرح مجھے نصیحت کرتے تھے جیسے کہ دوست ہوں۔ اور پھر کہتے ہیں میری اہلیہ جو رانا صاحب کی بہو تھیں ان سے بھی دوستوں کی طرح پیش آتے بلکہ بیٹیوں سے بھی بڑھ کے پیش آتے۔ کہتے ہیں ایک واقعہ انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ربوہ میں والد صاحب کو حضرت اماں جان کی دربانی کا بھی موقع ملا۔ پھر جب انہوں نے خود وصیت کی تو اپنے دوسرے رشتہ داروں کو بھی وصیت کی تلقین کرتے تھے۔ چندے کی بے انتہا پابندی کرتے تھے۔ ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو چندہ ادا کرتے اور اس کے بعد باقی خرچ کرتے تھے۔ ہمیشہ خاموشی سے بہت سے لوگوں کی مالی مدد کرتے تھے۔ کبھی کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا کرتے تھے۔ ان کی بیٹیاں بیان کرتی ہیں کہ خلافت سے تو ابا جان کا تعلق ایسا تھا کہ رشک آتا تھا۔ خلافت سے محبت تو ان کی رَگ رَگ میں تھی۔ ہمیشہ جب بھی خلیفہ وقت کا ذکر ہوتا تو آنکھیں نم ہو جاتیں۔
ان کی بیٹی نے افسر کے احترام کا ایک واقعہ لکھا ہےکہ ایک دفعہ ہم سب بہنیں ابو جان کے ساتھ ملاقات کے لیے پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں بیٹھی تھیں اور انتظار کر رہی تھیں کہ ملاقات کے لیے اندر جائیں تو اچانک ہم نے دیکھا کہ ابا جان الرٹ ہو کے کھڑے ہو گئے ہیں جیسے ڈیوٹی پہ کھڑے ہوتے تھے۔ ہم حیران ہوئے کہ اچانک کیا ہو گیا ہے۔ جب ہلکا سا سر اٹھا کر دیکھا تو دیکھا کہ نائب افسر حفاظت جو تھے وہ دفتر میں تھے۔ کسی کام سے آئے تھے یا ڈیوٹی کرنے کے لیے آئے تھے اور کہتی ہیں ان کے احترام میں میرے والد کھڑے ہو گئے اور جب تک وہ وہاں رہے وہ وہاں کھڑے رہے اور جب وہ باہر چلے گئے تب ابا جان بیٹھ گئے۔ کہتی ہیں کہ یہ چند ایک منٹ کی بات تھی لیکن ہمیں بہت کچھ سکھا گئی۔ ہمیں ساری عمر یہی نصیحت کی کہ زندگی میں فائدہ لینا ہے تو خلافت سے ایسے چمٹ جاؤ جیسے لوہا مقناطیس کے ساتھ چمٹتا ہے۔اور پھر اب وفات سے چند دن پہلے ہی اپنے بچوں کو عیدی بھی دے کے گئے۔ یہ کہتی ہیں کہ ابا جان نے ہم چاروں بہنوں، بھائی اور بھابھی کو کچھ دن پہلے جب عیدی دی تو ہم نے کہا کہ ابا جان ابھی تو رمضان بھی شروع نہیں ہوا۔ کہنے لگے کہ وقت کا پتا نہیں ہوتا اپنے فرض پورے کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔
ان کی بہو بیان کرتی ہیں کہ میرا بہت خیال کرتے تھے۔ ہمیشہ باپ بن کے مجھے نصیحت کرتے تھے۔ جب ان کی بہو کے والد کی وفات ہو گئی تو فوراً اپنے بیٹے کو کہا کہ تم دونوں میاں بیوی پاکستان جاؤ اور وہاں ان کے جنازے میں شامل ہو۔ پھر یہ بہو لکھتی ہیں کہ جب بھی رات کے کسی پہر میں میری آنکھ کھلتی تو مَیں نے ہمیشہ ان کو نماز پڑھتےہی دیکھا۔ خلافت سے بے انتہا عشق تھا۔ ہر ایک لکھنے والے نے تقریباً یہی لکھا ہے کہ خلافت سے وفا کا بہت تعلق تھا اور کہا کرتے تھے کہ خلافت کی دعاؤں کی بدولت ہی جیل میں رہا ہوں اور خلافت کی دعاؤں سے ہی یہاں ہوں۔ اور کہتے تھے کہ جس ملک کے صدر نے موت کے کاغذ پر دستخط کیے تھے خلافت کی دعاؤں کی وجہ سے اس کا تو پتا نہیں چلا کہ کہا ںگیا اور رانا صاحب زندہ نشان بن کر دنیا کے سامنے آ گئے۔
ان کی ایک بیٹی عابدہ ہیں وہ کہتی ہیں کہ ہمارے بچوں کو ایک نصیحت ہمیشہ کرتے تھے کہ خدا سے اور خلافت سے ہمیشہ پختہ تعلق رکھو اور کہتے تھے اسی میں تمہاری بقا ہے۔ ہمیشہ قرآن مجید پڑھنے کی تلقین کرتے رہتے۔ نمازاور تہجد کے پابند تھے۔ کہتی ہیں مَیں نے کبھی اپنی زندگی میں نہیں دیکھا کہ انہوں نے کبھی تہجد چھوڑی ہو۔ ہمارے لیے وہ دعاؤں کا خزانہ تھے۔ بہت زیادہ مہمان نواز تھے۔ غریب رشتہ داروں کا خیال رکھتے تھے۔ رانا صاحب اپنے والد اور والدہ کا اور پھر اپنی اہلیہ کا مرحومہ کا بھی وفات کے بعد چندہ باقاعدگی سے ادا کیا کرتے تھے۔ کہتی ہیں ایک شعر مَیں نےان کو ہمیشہ اونچی آواز میں پڑھتے دیکھا اور سنا ہے کہ
ہو فضل تیرا یا رب یا کوئی ابتلا ہو
راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو
ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ امی جان کی وفات کے بعد ہم سب بہنوں کا بہت زیادہ خیال رکھا اوراپنی بہو کے ساتھ بھی بیٹیوں سے بڑھ کے سلوک کیا۔ جو بھی چیز لاتے یا جب عیدی وغیرہ دینی ہوتی تو پہلے بہو کو دیتے اور پھر ہم سب کو دیتے اور ہمیشہ کہتے کہ کسی کی بیٹی کو گھر لائے ہیں اس کا زیادہ خیال رکھنا ہے۔ مَیں نے خدا کو جواب دینا ہے۔
ایک بیٹی لکھتی ہیں کہ واقعی انہوں نے آزمائش کے وہ دن جو جیل میں گزارے اس کی رضا پر اور دین کی محبت اور خلافت کی محبت میں گزارے ۔کبھی ان کے منہ سے شکوہ تو دور اُف تک نہیں سنا۔ کہتی ہیں کبھی نماز اور تہجد میں تاخیر نہیں کی نہ کبھی بیماری میں ناغہ کیا۔ جیل میں تشدد کی وجہ سے گردے کی تکلیف ہو گئی جو آخری زندگی میں آکر زور پکڑ گئی تھی ۔ سانس کی تکلیف یا کوئی اَور تکلیف بھی ساتھ تھی کہتی ہیں اس میں بھی کبھی ہم نے ان سے ایسے الفاظ نہیں دیکھے کہ جو بے چینی والے ہوں۔ ہمیشہ شکر الحمد للہ کے علاوہ ان کے منہ سے کوئی جملہ نہیں سنا۔
پھر ایک کہتی ہیں کہ ہمارے لیے یہاں تک سوچا تھا کہ کہتے تھے میری بڑی عمر ہو گئی ہے ستاسی اٹھاسی سال عمر ہو گئی وقت کا پتہ نہیں ہے۔ جب مَیں نہ رہوں یا فوت ہو جاؤں تو مجھے پاکستان لے کر جانا اور بیٹیوں کو پھریہ بھی ساتھ کہا کہ مَیں نے آپ سب کے لیے ٹکٹ کے پیسے رکھے ہوئے ہیں تا کہ جب میرا جنازہ لے کرجاؤ تو اپنے خاوندوں کی طرف نہ دیکھو۔ اپنے باپ کے خرچے پر اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ۔ ابھی تو حالات کی وجہ سے جنازہ جا نہیں سکتا ۔ امانتاً تدفین کی گئی ہے اگر کوئی راستہ نکلا تو ان کی خواہش کے مطابق ان شاء اللہ جنازہ بھجوانے کی کوشش کی جائے گی۔
ان کے بھانجے رانا شبیر ہیں جو ربوہ میں طاہر ہارٹ میں ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کو اسیری کے دوران رانا صاحب سے کئی دفعہ ملاقات کا موقع ملا اور جب بھی ان کو جیل میں سامان پہنچانے گئے تو ہمیں پریشانی ہوتی تھی اور وہ اکثر ہمیں صبر اور دعا کی تلقین کرتے تھے اور بڑے اعلیٰ پائے کے بزرگ تھے اور بڑے صبر کرنے والے انسان تھے۔ اسی طرح ان کی بھتیجی ہیں وہ لکھتی ہیں کہ 1980ء تک قصر ِخلافت میں رہتے تھے اور جلسے پر جب ہم جاتے تھے اور بعض دفعہ ایک دو غیر احمدی فیملیاں بھی ساتھ ہوتی تھیں۔ جلسے پر عزیز دوست چلے جاتے تھے تو ہمارے پھوپھا جان ہمیشہ(یہ ان کی بیوی کی بھتیجی روبینہ صاحبہ ہیں) اپنی اہلیہ کو کہا کرتے تھے کہ مہمانوں کا ہمیشہ خیال رکھنا ہے اور کھانے میں اور سونے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔ اگر جگہ کم ہوتی تو خود بچوں کو لے کر سٹور یا کچن میں سو جاتے اور مہمانوں کو کمرہ یا برآمدہ میں اچھی جگہ پر سلاتے۔اور کہتے یہ مسیح موعودؑ کے مہمان ہیں ان کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ ان کے ایک بھانجے کہتے ہیں کہ مَیں انہیں جیل میں ملنے گیا اور جب ان سے خیریت دریافت کی اور واقعہ کے بارے میں جاننا چاہا تو بڑے جوشیلے انداز میں فرمایا بیٹا ہر حال میں کلمے کی حفاظت کرنی ہے۔ اگر آپ کی جان بھی چلی جائے تو کوئی پروا نہیں۔ یہ بھانجے کہتے ہیں کہ مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ الفاظ کسی انسان کے نہیں بلکہ کسی فرشتے کی آواز ہے۔ بڑے دلیر، بہادر اور کلمے کی حفاظت کرنے والے، خلافت سے عشق کرنے والے نڈر احمدی مسلمان تھے۔
پھر یہ کہتے ہیں کہ جب مَیں بیلجیم سے لندن شفٹ ہوا تو کہتے ہیں کہ جب یہاں آئے ہو تو پھر خلافت کے ساتھ چمٹ جانا۔ اگر یہاں خلافت کی وجہ سے آئے ہو اور خلیفۂ وقت کی ہر بات پہ لبیک نہیں کہنا تو کوئی فائدہ نہیں۔ اور پھر یہ بھی کہا کہ باقاعدگی سے نمازیں ادا کرو اور کسی بھی مسئلہ پر گھبرانے کی بجائے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو۔ جھوٹے اور منافق سے سخت بیزار تھے۔ اپنی ڈیوٹی کے بارے میں بہت فکر میں رہتے۔ کبھی طبیعت زیادہ خراب ہوتی اور گھر والے کہتے کہ آج آرام کر لیں تو کہتے نہیں مَیں ٹھیک ہوں۔ یہ تو میرے بونس (bonus)کے دن ہیں۔ بڑھاپے میں مجھے خدمت کا موقع مل رہا ہے تو مجھے ملنے دو۔
الیاس منیر صاحب جو جیل میں رانا صاحب کے ساتھی تھے وہ لکھتے ہیں کہ رانا صاحب کے ساتھ میری زندگی کا ایک حصہ گزرا ہے اور اس آخری وقتِ رخصت ان کو دیکھ بھی نہیں سکتا تو دل سخت مضطرب ہے۔ رانا صاحب مرحوم کے ساتھ دس سال کا عرصہ اسیری میں گزرا۔ ایک دن بھی مَیں نے انہیں حوصلہ ہارتے ہوئے نہیں دیکھا حتیٰ کہ جب فوجی ڈکٹیٹر کی طرف سے آپ کو سزائے موت کا ظالمانہ اور بہیمانہ حکم سنایا گیا تو بھی اسے خندہ پیشانی سے سنا اور قبول کیا۔ کثیر العیال تھے اور سبھی بچے چھوٹی عمروں کے تھے۔ ذریعہ معاش بھی کوئی خاص نہ تھا مگر توکّل تھا۔ خدمت دین کا جذبہ تھا اور جماعت کی عزت کا فکر تھا اور بس۔ جب کبھی پریشان ہوتے تو یہی کہتے کہ ان کے ارادے بہت خطرناک ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان سے محفوظ رکھے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کے کام سنوارے۔ بچیوں کی شادیاں بھی دورِ اسیری میں ہی ہو گئیں۔
الیاس منیر صاحب واقعہ کا کچھ مختصر سا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب بلوائیوں نے مسجد پر حملہ کر دیا اور کلمہ طیبہ اور آیات و احادیث کی بے حرمتی شروع کر دی۔کہتے ہیں اس موقعے کا وہ منظر مجھے نہیں بھولتا جب آپ کو پہلی مرتبہ نہایت کڑک دار آواز میں للکارتے ہوئے سنا تھا۔ رانا صاحب نے کہا کہ تم کلمہ مٹانے والے کون ہوتے ہو؟ کون ہو تم کلمہ مٹانے والے! اور کہتے ہیں کہ اس سے پہلے مَیں نے کبھی ان کو اردو بولتے ہوئے نہیں سنا تھا لیکن اس وقت اردو میں بولے اور بڑی کڑک دار آواز میں بولے اور اکیلے ہی تیس چالیس آدمیوں کو، حملہ آوروں کو پہلے مسجد کے کونوں میں چھپنے اور پھر دوڑنے پر مجبور کر دیا ۔ پھر لکھتے ہیں کہ آپ نے نہ صرف یہ کارروائی نہایت شجاعت سے کی بلکہ جب پولیس افسر نے پوچھا کہ یہ فائرنگ کس نے کی تھی تو ایک لمحہ بھی توقف نہ کیااور فورا ًآگے بڑھ کر کہا کہ مَیں نے کی ہے۔ اس کے بعد آپ پر مختلف انداز سے تشدد کیا گیا اور مجبور کرنے کی کوشش کی گئی کہ جماعتی عہدیداران کا نام لیںکہ ان کے کہنے پر انہوں نے یہ کارروائی کی ہے مگر آفرین ہے اس شیر دل پر جس نے نظام ِجماعت پر ذرہ برابر بھی آنچ نہیں آنے دی۔ اور حقیقت بھی یہی تھی۔ عہدیداران کو یہ علم تک نہ تھا کہ ان کے پاس اپنی ذاتی بندوق بھی ہے۔ پھر عدالت اور وہ بھی خصوصی فوجی عدالت، اس کے سامنے بھی کسی قسم کے دباؤ میں نہیں آئے۔ زبانی اور تحریری طور پر صاف ضمیرکے ساتھ، جرأت اور بہادری کے ساتھ یہ اعتراف کیا کہ فائرنگ انہوں نے ہی کی تھی اور آپ کی یہی بہادری اور شجاعت اور صاف گوئی اور سلسلے کے وقار و عزت کا جذبہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بالآخر آپ کو سرخرو کیا اور آخر دم تک پھر ان کو خلافت کے ساتھ خدمت کی توفیق بھی ملی۔
پھر الیاس منیر صاحب ہی لکھتے ہیں کہ دورانِ اسیری جب ان کے والد صاحب کو خلیفہ رابعؒ کے خط آتے، اور ان کے والد دورانِ اسیری حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے خطبات کا متن ہمارے لیے لاتے، اس وقت ایم۔ٹی۔اے کا رواج، باقاعدہ انتظام تو شروع نہیں ہوا تھا، خطبات تحریری آتے تھے، تو کہتے ہیں رانا صاحب مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیتے تھے کہ خطبہ سناؤ اور جتنا عرصہ ہم سزائے موت کی کوٹھڑیوں میں رہے علیحدہ علیحدہ ہوتے تھے ناں۔اس دوران جب کچھ دیر کے لیے دونوں کو اکٹھے کرنے کے لیےکھولا جاتا تو وہ اکٹھے ہونے کا جو وقت تھا وہ صرف خطبہ سننے کے لیے وقف کر دیتے اور بڑے اہتمام سے خطبہ سنتے۔
پھر کہتے ہیں کہ جو نماز باجماعت ہو سکتی تھی اس کے لیے باقاعدہ اہتمام کرتے بلکہ بعض اوقات جیل میں موجود بعض دیگر احمدیوں کو بھی بلا لیتے۔ رمضان کا جہاں تک تعلق ہے تو کہتے ہیں کہ ہمیں مئی جون اور جولائی کے سخت روزے جیل میں آئے اور محترم رانا صاحب اپنی بڑی عمر اور جیل کی صعوبتوں کے باوجود تمام روزے رکھتے رہے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے بڑا غیر معمولی ہمت اور حوصلہ دکھایا اور پوری بشاشت کے ساتھ ہر صورتِ حال کا مقابلہ کیا اور جب ان کو سزائے موت کا حکم بھی سنایا گیا تو اس وقت بھی بڑی ہمت سے انہوں نے وقت گزارااور ان کی جرأت کی یہ جو کیفیت تھی غیروں نے بھی محسوس کی۔ کہتے ہیں سزائے موت کا حکم ملنے کے بعد جس پہ صدر نے بھی دستخط کر دیے تھے، رانا نعیم الدین صاحب کے پاس جیل کا ایک وارڈن آیا اور کہنے لگاکہ بزرگو! دیکھو یہ مرزائی عجیب ہیں۔ ان کو سزائے موت کی تاریخ مل گئی ہے اور اپنے انجام کی آخری منزل پر پہنچ گئے ہیں مگر ان کے چہروںپر کوئی اثر نہیں ہو ااور کوئی فرق نہیں آیا۔ذرا بھی کملائے نہیں اور بہرحال لمبی باتیں کرتا رہا۔ رانا صاحب کہتے ہیں کہ مَیں سمجھ گیا کہ اسے میرا پتہ نہیں کہ مَیں کون ہوں۔ چنانچہ جب اس نے اپنی بات مکمل کر لی تو رانا صاحب نے اس سے پوچھا کہ میرے چہرے پر تم نے کوئی اثر دیکھا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ اس پر رانا صاحب کے اس انکشاف نے اسے ہلا کر رکھ دیا کہ مَیں بھی احمدی ہوں اور انہی میں سے ہوں۔
آخر میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کا ایک خط بھی پڑھتا ہوں جو رانا نعیم الدین صاحب کو حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے ستمبر 86ء میں لکھا تھا۔ اس کاکچھ حصہ یہ ہے کہ ’’آپ کے خلوص بھرے خطوط ملے۔ اعلیٰ ایمان کی جس مضبوط چٹان پر آپ کھڑے ہیں وہ قابلِ فخر ہے۔ اللہ والوں کو اعلیٰ مقام کے حاصل کرنے سے پہلے اس قسم کی دشوار گزار راہوں سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ آپ لوگوں کی سعادت پر رشک آتا ہے۔ درخت اپنے پھل سے جانا جاتا ہے۔ آپ لوگ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخت کی سرسبز شاخیں اور شیریں پھل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرے گا۔ جماعت دعائیں کر رہی ہے میری دعائیں بھی آپ کے لیے ہیں۔ امید ہے آپ نے میری تازہ نظم بھی سن لی ہوگی۔ اس میں آپ اور آپ جیسے مخلصین کے لیے ہی چاہتوں کاپیغام اور سلام ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوںسے مدد کرے اور دشمن کے پنجے سے نجات بخشے۔ اللہ آپ کے ساتھ ہو۔‘‘ یہ خط خلیفہ رابعؒ نے رانا صاحب کو لکھا تھا۔
مبارک صدیقی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مَیں نے ان سے ان کی اسیری کے دنوں کی بات کی اور جیل میں مشکلات کا ذکر کیا تو مسکرا کر کہنے لگے کہ ہم احمدیوں کی زندگی اللہ تعالیٰ کے لیے، رسول کے لیے اور خلیفۂ وقت کی اطاعت کے لیے وقف ہے۔ اس لیے مجھے کبھی کوئی مشکل مشکل نہیں لگتی۔ مَیں ہر حال میں اللہ کی رضا پر راضی رہنے والا ہوں۔ یقینا ًوہ ہر حال میں آخر دم تک اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے۔ مَیں نے بھی جب بھی ان کا حال پوچھا تو الحمد للہ ہی کہتے رہے۔ ہسپتال سے آتے تھے تو اگلے دن پہنچ جاتے تھے اور کہتے تھے بالکل ٹھیک ہوں۔ بلکہ ساتھ ہی مجھے بھی دعائیں دیا کرتے تھے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا ایک ڈاکٹر نے کہا کہ اس قسم کے عوارض کے جو لوگ ہیں جن کی ٹانگیں بھی سوجی ہوئی ہوں وہ تو گھر سے باہر نہیں نکل سکتے تو یہ ڈیوٹی پہ آ کے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس بات پر ان کو، ڈاکٹر کو حیرانی تھی۔ ڈاکٹر تو حیران ہوتے ہوں گے لیکن ان کو کیا پتا کہ ان میں ایک جذبہ تھا۔ خلافت سے پیار تھا۔ اُس کے قریب رہنے کی تڑپ تھی جو ان کو مسجد میں کھینچ لاتی تھی، ڈیوٹی پر لے آتی تھی ۔ مَیں نے ان کے چہرے پر ہمیشہ بڑی طمانیت دیکھی اور خلافت کے لیے محبت دیکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے اگلے جہان میں بھی پیار اور محبت کا سلوک فرمائے اور اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے۔
مَیں انہیں بچپن سے جانتا ہوں جیسا کہ ذکر ہوا، جب اس وقت وہ جابہ، نخلہ میں حضرت خلیفة المسیح الثانی کے ساتھ جایا کرتے تھے تو ہم بھی کچھ دنوں کے لیے گرمیوں میں وہاں جایا کرتے تھے۔ تو اس وقت بھی ہم سے ان کا بڑی شفقت کا سلوک ہوتا تھا اور خلافت کے بعد تو میرے ساتھ اس کا رنگ ہی اَور تھا۔ جیسا کہ خلافت سے وفا کے واقعات اور احساسات، جذبات ہم نے سن لیے ہیں وہ ہر وقت نظر آتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ہمیشہ وفا کے ساتھ اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حالات کی وجہ سے ان کا جنازہ تو مَیں نہیں پڑھ سکا کچھ حکومتی پابندیاں بھی تھیں اور restrictionsتھیں،اس کا افسوس بھی ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ کسی وقت ان کا جنازہ غائب بھی پڑھا دوں گا۔
آخر پر مَیں دوبارہ آج کل کی مرض کے حوالے سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے بعض احمدی مریض ہیں ان کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو شفائے کاملہ عطا فرمائے اور ہمیں بھی اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ صحیح رنگ میں ہمیں عبادت کا اور حقوق العباد کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جلد یہ بلا ہم سے دور فرمائے۔ دنیا کو بھی سمجھ اور عقل دے۔ وہ بھی ایک خدا کو پہچاننے والے بنیں۔ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے بنیں۔ توحید کو جاننے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ سب پر رحم فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل لندن ، 08مئی 2020ء صفحہ 05تا09)