الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
احمدی شہید کا جنازہ
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ‘‘خدیجہ’’ (شمارہ 2۔2010ء) میں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد شامل ہے:
’’ذکر تھا کہ بعض چھوٹے گاؤں میں ایک ہی احمدی گھر ہے اور مخالف ایسے متعصّب ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی احمدی مر جائے تو ہم جنازہ بھی نہ پڑھیں گے۔ حضرت صاحبؑ نے فرمایا کہ ایسے مخالفوں کا جنازہ پڑھاکر احمدی نے کیا لینا ہے۔ جنازہ تو دعا ہے۔ جو شخص خود ہی خداتعالیٰ کے نزدیک
مَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ
میں ہے اُس کی دعا کا کیا اثر ہے؟ احمدی شہید کا جنازہ خود فرشتے پڑھیں گے۔ ایسے لوگوں کی ہرگز پرواہ نہ کرو اور اپنے خدا پر بھروسہ رکھو۔‘‘
(ملفوظات جلد9صفحہ285)
مکرم وسیم احمد بٹ صاحب شہید
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ‘‘خدیجہ’’ (شمارہ 2۔2010ء) میں مکرمہ پروین بٹ صاحبہ کے قلم سے محترم وسیم احمد بٹ صاحب شہید کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔ قبل ازیں شہید مرحوم کا مختصر تذکرہ 14؍فروری 2020ء کے شمارے کے ‘‘الفضل ڈائجسٹ’’ میں کیا جاچکا ہے۔
مکرم وسیم احمد بٹ صاحب کے دادا محترم غلام محمد بٹ صاحب قادیان کے نواحی علاقے کے رہنے والے تھے۔ آپ نے 1933ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ یہ وہ دَور تھا جب احمدیت کی شدید مخالفت ہورہی تھی اور آپ کی بیعت کے اگلے ہی سال قادیان میں احراریوں نے آکر وہاں کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کا دعویٰ کیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ احمدی خاندان سمن آباد (فیصل آباد) آگیا۔ اتفاق سے ان کے پرانے گاؤں سے وہ خاندان بھی یہیں آبسا جو احمدیت کا شدید مخالف تھا اور انہوں نے 1953ء سے ہی اپنی مخالفانہ کارروائیاں یہاں بھی شروع کردیں۔
مکرم وسیم احمد بٹ صاحب 1970ء میں پیدا ہوئے۔ بڑے ہوئے تو پاورلومز آپریٹ کرنے کا ذاتی کام شروع کیا۔ آپ کے والد مکرم محمد رمضان بٹ صاحب قریباً 26 سال سے بوجہ بیماری فارغ ہی تھے۔30؍اگست 1994ء کو مکرم وسیم احمد بٹ صاحب دوپہر کا کھانا کھانے گھر آرہے تھے جب تین دہشتگردوں نے آپ پر فائرنگ کردی۔ گولیاں آپ کی ٹانگ، کلائی اور سینے میں لگیں۔ کلاشنکوف کا ایک برسٹ بھی مارا گیا۔ آپ نے اسی حالت میں ایک دہشت گرد سے اُس کی گن چھین لی لیکن پہلا فائر کرتے ہی گرگئے اور شہید ہوگئے۔ آپ کے ہمراہ آنے والے آپ کے بھائی مکرم محمد امین بٹ صاحب اور دو چچازاد بھائی مکرم اختر کریم بٹ صاحب اور مکرم حفیظ احمد بٹ صاحب بھی شدید زخمی ہوئے۔جن میں سے مکرم حفیظ احمد بٹ صاحب بھی بعدازاں شہید ہوگئے۔
مکرم وسیم احمد بٹ صاحب بہت کم گو تھے لیکن اکثر یہ بات کہا کرتے کہ ‘‘پتہ نہیں کب بلاوا آجائے’’۔ اپنے بزرگوں اور گھر والوں سے بہت محبت اور دوستی رکھتے۔ کام سے واپسی پر کبھی خالی ہاتھ نہ آتے، ہمیشہ کوئی کھانے کی چیز ساتھ ہوتی۔نماز بروقت اور سنوار کر ادا کرتے۔ تلاوت قرآن کریم بھی اُن کا محبوب مشغلہ تھا۔ حقوق العباد کا بہت خیال رکھتے۔ اکثر اپنے نئے کپڑے بھی غرباء میں بانٹ دیتے۔ اُن کی غریب پروری اور سماجی خدمات کی وجہ سے ہی آپ کی شہادت پر غیراحمدی دکانداروں نے ہڑتال کی اور جلوس نکال کر قاتلوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ شہید مرحوم کی نماز جنازہ پانچ مرتبہ ادا کی گئی۔ دو بار احمدیوں نے اور دو بار غیرازجماعت شرفاء نے جبکہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے بھی نماز جنازہ غائب پڑھائی اور اپنے ایک خطبہ جمعہ میں شہیدمرحوم کا ذکرخیر بھی کیا۔
مکرم کیپٹن مرزا نعیم الدین صاحب شہید
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ‘‘خدیجہ’’ (شمارہ 2۔2010ء) میں محترم کیپٹن مرزا نعیم الدین صاحب شہید کا ذکرخیر مکرمہ امۃالودود طاہرہ صاحبہ اور مکرم مرزا عبدالحق صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔ شہید مرحوم کا ذکرخیر قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 8؍نومبر 2019ء کے کالم ‘‘الفضل ڈائجسٹ’’ میں شامل ہے۔ ذیل میں اضافی امور پیش ہیں:
محترم مرزا نعیم الدین صاحب فتح پور ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔دہشتگردوں کے حملے کے وقت محراب کے ساتھ ٹیک لگاکر بیٹھے تھے کہ پیٹ میں گولی لگی۔ آپ نے گھر فون کیا لیکن اپنے زخمی ہونے کا نہیں بتایا۔ مسجد میں دوسرے لوگوں کو بچنے کے لئے ہدایات دیتے رہے ۔ آپ نے ورثاء میں اہلیہ کے علاوہ پانچ بیٹیاںا ور دو بیٹے چھوڑے۔
آپ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ شادی کے وقت آپ ایک سپاہی تھے مگر آگے بڑھنے کی لگن تھی۔ اپنی تعلیم اور ملٹری کورسز جاری رکھے۔ اس سلسلے میں دو سال اٹلی میں بھی مقیم رہے۔ احمدیت کی وجہ سے مخالفت بھی تھی لیکن خلیفہ وقت کو خط لکھتے ہوئے ایمانداری اور محنت سے ترقی کرتے رہے۔ صبر و تحمل بہت تھا۔ سادہ طبیعت اور ہنس مکھ تھے۔ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔ شہادت والے دن کی صبح بھی قرآن کریم کا ایک دَور مکمل کیا تھا۔ ہر بیٹی کی پیدائش پر الحمدللہ کہتے کہ اللہ کی رحمت آئی ہے۔ ہر بار اللہ تعالیٰ فوج میں ترقی سے نوازتا رہا۔ آپ نے بچوں سے دوستانہ تعلق رکھا اور انہیں اعلیٰ تعلیم دلوائی۔
وہ میری زندگی کا دوست اور بڑا ہی مہربان خاوند تھا۔ ساری زندگی میرا بہت خیال رکھااور ہمارے درمیان کبھی کوئی ناراضگی نہیں ہوئی۔شہید مرحوم 1971ء اور کارگل کی جنگوں میں شامل ہوئے۔ شہادت کی بہت تمنّا تھی۔ شہادت والے دن خلافِ معمول خوش تھے۔ گھر سے نماز جمعہ کے لیے نکلے پھر واپس آئے اور مجھے خاص طور پر کہا کہ تمہیں خداحافظ کہنے آیا ہوں۔
شہید مرحوم کی بیٹی مکرمہ نزہت عامر صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میرا بھائی عامر نعیم مسجد کے بیرونی گیٹ پر دو خدام کے ہمراہ ڈیوٹی دے رہا تھا۔ دیگر دونوں خدام تو شہید ہوگئے جبکہ عامر کے ایک گولی بازو کے آرپار ہوگئی اور دوسری کہنی کو چھوکر گزر گئی۔ پھر دہشتگرد نے اپنی گن عامر کے سینے کی طرف کردی لیکن میگزین کی گولیاں ختم ہوچکی تھیں۔ اس پر عامر نے زخمی ہونے کے باوجود دہشت گرد کو دھکا دے کر گرادیا تو دوسرے دہشت گرد نے عامر پر فائرنگ کی جس سے عامر کے دونوں پاؤں زخمی ہوگئے۔ زخمی ہونے کے باوجود عامر نے دلیری سے دو خدام کی مدد سے ہال کا گیٹ بند کیا جس سے اندر کے لوگ محفوظ ہوئے مگر فائرنگ اور گرینیڈز کی بارش سے دروازہ ٹوٹ گیا اور ہال کے اندر اتنی شہادتیں ہوئیں۔
شہید مرحوم نہایت ذہین تھے۔ میٹرک کے امتحان میں ضلع بھر میں اوّل آئے۔ تلاوتِ قرآن کریم روزانہ گھنٹہ بھر ترتیل کے ساتھ (جو بیگم سے سیکھی تھی) بآواز بلند کرتے۔ بچوں کو خلافت سے مضبوط تعلق کی تلقین کرتے۔ جلسہ یوکے اور دیگر اہم مواقع پر شادی شدہ بیٹیوں کو بھی مدعو کرتے اور گھر پر خاص طور پر کھانا تیار کرواتے۔
مکرم شیخ شمیم احمد صاحب شہید
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ‘‘خدیجہ’’ (شمارہ 2۔2010ء) میں مکرمہ بشریٰ ممتاز شیخ صاحبہ کے قلم سے اُن کے بھتیجے محترم شیخ شمیم احمد صاحب شہید کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔
شہید لاہور مکرم شیخ شمیم احمد صاحب اپنے والد محترم شیخ نعیم احمد صاحب مرحوم کے اکلوتے بیٹے تھے۔ آپ حضرت شیخ محمد حسین صاحبؓ کے پوتے اور حضرت شیخ کریم بخش صاحبؓ کے پڑپوتے تھے۔
شہید مرحوم کی پیدائش سے قبل ان کے والدین کے چار بچے پیدا ہونے کے بعد فوت ہوچکے تھے۔ تب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی دعاؤں کی برکت سے شہید مرحوم کی پیدائش ہوئی۔ مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ میرے کہنے پر شہید مرحوم کے والد نے اپنی اہلیہ کے حاملہ ہونے پر ہی پیدا ہونے والے بچے کا تحریک جدید اور وقف جدید کا علیحدہ چندہ ادا کرنا شروع کردیا۔ خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے شہید مرحوم کو 38 سال کی صحت مند اور کام کرنے والی زندگی عطا فرمائی اور پھر شہادت کے ذریعے حیات جاوداں عطا ہوگئی۔
شہید مرحوم الفلاح بینک میں آڈٹ آفیسر تھے اور بینک کی مختلف شاخوں میں ڈیوٹی پر جایا کرتے تھے۔ 28؍مئی 2010ء کو آپ کی ڈیوٹی گڑھی شاہو کی برانچ میں تھی۔ چنانچہ آپ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے پیدل ہی مسجد دارالذکر چلے گئے۔ حسب عادت آپ مسجد پہنچ کر پہلے کسی نہ کسی مد میں چندہ کٹواتے۔ اُس روز کی رسید مرحوم کی شہادت کے بعد جیب سے برآمد ہوئی۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ دہشت گردوں کے حملے کے دوران آپ امیر صاحب کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ دہشت گرد نے آپ سے پوچھا کہ تیرے پیچھے کون ہے۔ آپ نے کہا میرے بیوی بچے اور میرا خدا۔ اُس نے گولیاں برساتے ہوئے کہا کہ چل پھر اپنے خدا کے پاس۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ میری بیٹی کی وفات جرمنی میں ہوئی تو جنازہ پاکستان بھجوایا گیا۔ وہاں تدفین تک کے سارے انتظامات کے لئے شہید مرحوم سے درخواست کی تھی۔ بعد میں جب اُنہیں اخراجات کے لئے باربار پوچھا گیا تو انہوں نے یہی کہا کہ آپ یہی سمجھیں کہ آپ نے ہی سب کچھ کیا ہے اور یہی مَیںنے سب سے کہا بھی ہے۔
شہید مرحوم نے اپنے والد اور پھر بیمار والدہ کی بہت خدمت کی توفیق پائی۔ آپ کی شہادت کے صرف اٹھارہ دن بعد آپ کی والدہ مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ بھی وفات پاگئیں۔ آپ نے پسماندگان میں اہلیہ مکرمہ صائمہ صاحبہ کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑیں۔ شہید مرحوم کا ذکرخیر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا کہ شہید مرحوم کو خواب میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے فرمایا کہ یہ بچے ہمیں دے دو۔ اس پر آپ نے اگلے ہی روز چاروں بچوں کو تحریک وقف نَو میں پیش کردیا۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ شہید مرحوم کی شہادت کے بعد جب مَیں نے اُس کی اہلیہ کو تعزیت کرنے کے لئے فون کیا تو اُس نے مجھے دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ پھوپھو آپ ایک آنسو بھی نہ لائیں، ایک گیا ہے تو دو باپ کی جگہ لینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔
فینسنگ (Fencing)
ماہنامہ ‘‘تشحیذالاذہان’’ ربوہ اپریل 2011ء میں فینسنگ کے حوالہ سے ایک مختصر معلوماتی مضمون عزیزم ثمر احمد کے قلم سے شائع ہوا ہے۔
فینسنگ کا لفظ انگریزی محاورے میں تلوار کو خاص انداز میں استعمال کرنے کے لئے بولا جاتا ہے۔ یہ ان چار کھیلوں میں شامل ہے جو ہر سال اولمپک گیمز میں شامل کی جاتی رہی ہیں۔ فینسنگ اپنی پرانی شکل میں یورپ کے بعض علاقوں میں بارھویں صدی میں بھی کھیلی جاتی تھی لیکن 16ویں صدی میں اس کی مقبولیت اتنی بڑھ گئی کہ سکولوں میں اساتذہ کے ذریعے اس کی تربیت دی جانے لگی۔ اس کا جدید دَور 17ویں صدی میں جدید اصولوں کے تحت شروع ہوا۔ کھلاڑی مضبوط کاٹن یا نائیلون کا لباس استعمال کرتے ہیں۔ چہرے پر ایک ماسک (Mask) ہوتا ہے جو گردن پر حملے کو بھی روکتا ہے۔ لباس کے اوپر ایک چیز پہنی جاتی ہے جسے Lame کہتے ہیں۔ اس کھیل میں تین اقسام کے ہتھیار (Foil, Epee & Sabre) استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں برقی تاریں ہوتی ہیں اور جب بھی کوئی ہتھیار Lameکو چھُوتا ہے تو آواز آتی ہے اور مخالف کھلاڑی کا پوائنٹ ہوجاتا ہے۔ دو کھلاڑیوں کے درمیان 9 میچز کھیلے جاتے ہیں۔ ہر میچ تین منٹ کا ہوتا ہے لیکن اگر مقررہ وقت سے پہلے 5 پوائنٹس مکمل ہوجائیں تو میچ ختم ہوجاتا ہے۔ فینسنگ کی پہلی عالمی چیمپئن شپ 1921ء میں پیرس (فرانس) میں منعقد ہوئی۔