وباؤں میں احتیاطی تدابیر ازروئے اسلام
آج کل کورونا وائرس خطرناک عالمی وبا کی شکل اختیار کرچکا ہے جس کے نتیجہ میں دنیا کے200سے زائد ممالک میں اب تک پونے تین لاکھ سے زائد افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور چار ملین سے زائد لوگ متاثر ہیں۔اوریہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس جانکاہ حادثۂ فاجعہ کے نتیجہ میں تیزی سے رواں دواں دنیا کا پہیہ تھم کر رہ گیا ہے اور سارا عالم اس آفت آسمانی کے آگے بے بس ہے۔
سائنسی و طبی مشاہدہ و تجربہ سے ثابت ہے کہ یہ متعدی بیماری ایک دوسرے سے رابطہ، چھوت چھات اور ملاقات کے نتیجہ میں بڑی تیزی سے پھیلتی ہے اس لیے ڈاکٹرز اس سے بچنے کے لیے باہمی خلاء ملا کی بجائے ماحول سے الگ تھلگ ہوکر تنہائی اور خلوت اختیار کرتے ہوئے گھروں میں رہنے کی ہدایت دے رہے ہیں اوریہ تجربہ شدہ حقیقت ہر صاحب بصیرت کے لیے قابل فہم ہونے کے ساتھ قابل عمل بھی ہے۔اس لیے مزید قیمتی انسانی جانیں ضائع ہونے سے بچانے کے لیے اس وقت ایسی تمام احتیاطی تدابیر پرعمل کرنا اورکروانا ہرذمہ دار فرد معاشرہ کے لیے ضروری ہے اور مسلمانوں کے لیے تویہ فرض ہے کیونکہ اللہ اوراس کےرسولؐ کا بھی یہی حکم ہے۔
عالمی وبا اور علمائے کرام
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس نازک موقع پرہمارے ملک کے بعض مسلمان علماء اپنے دینی نقطۂ نظر کے حوالے سے وحدت امت کا نمونہ دکھانے کی بجائے دو گروہوں میں تقسیم رہے ہیں۔سنجیدہ اہل علم دینی طبقہ تو احتیاطی تدابیر کے حق میں تھا جبکہ مولوی حضرات کا ایک دوسرا طبقہ مذہب کے نام پر ان حفاظتی تدابیر کی مخالفت میں یہ موقف رکھتا تھا کہ حدیث رسولؐ کے مطابق کوئی بھی بیماری متعدی نہیں ہوتی اس لیے نماز جمعہ اور نمازوں پر پابندی نہ لگائی جائے۔ حالانکہ بیماری کے متعدی ہونے کی نفی کے ارشاد نبویؐ کے سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہے کہ دراصل اس حدیث میں زمانہ جاہلیت میں پیدا ہونے والے اس مشرکانہ خیال کی تردید تھی کہ مشیت الٰہی کے بغیر محض کسی بیمار سے بیماری لگ جاتی ہے۔ اور یہ سمجھانا مقصود ہے کہ حقیقی قدرت مسبّب الاسباب خدا کوحاصل ہے۔
دوسرے اس حدیث میں زمانۂ جاہلیت کے اس وہم کا ازالہ بھی مقصود تھا جو ہر بیماری کو متعدی سمجھنے کے نتیجہ میں ہمدردی کے مستحق مریض کے علاج معالجہ اوراس کی تیمارداری میں مشکلات پیداکرسکتا تھا۔ورنہ بیماریوں کا متعدی ہونا ایسی بیّن صداقت ہے جس سے ہمارے سید الحکماء کیسے انکار فرماسکتے ہیں۔تبھی تو اسی حدیث کے دوسرے جملہ میں آپؐ نےبالبداہت متعدی بیماری والے جذامی یعنی کوڑھی سے اجتناب کی تلقین فرمائی ہے۔(بخاری کتاب الطب باب الجذام)مگریہ دلچسپ تفصیل اپنی جگہ ایک الگ مضمون کی محتاج ہے جو فی الوقت آئندہ پرچھوڑنا ہوگا۔
بہرحال موجودہ وباکےدوران پاکستان کےبعض دینی گروہوں نے توابتدائی طبی ہدایات کی اہمیت کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنےتبلیغی سفر جاری رکھے۔ ان کے ان سفروں کی وجہ سے اللہ نہ کرے کہ بیماری کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو۔
امرواقعہ یہ ہے کہ اس بارے میں اسلام کی مبنی براحتیاط تعلیم نہایت جامع اورمکمل ہے۔جس کی روشنی میں ایک طرف اسلام کا حسین چہرہ دنیا کےسامنے پیش کرنے کا موقع ہے تو دوسری طرف اس کے مطابق احتیاطی تدابیر کی مخالفت کرنے والوں کو یہ باورکروانے کی بھی ضرورت ہے کہ ایسے لوگ نہ صرف اپنی جان کے دشمن ہیں بلکہ ملک وملت کے بھی دوست نہیں اور اگر ان کی اس مخالفانہ روش کے نتیجہ میں کوئی ایک جان بھی ضائع ہوتی ہے تو قرآنی ارشاد کے مطابق عملاًوہ پورے معاشرے کے لیے مہلک ہیں۔جیساکہ ارشادربانی ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا (المائدہ: 33)
جس نے بھى کسى اىسے نفس کو قتل کىا جس نے کسى دوسرے کى جان نہ لى ہو ىا زمىن مىں فساد نہ پھىلاىا ہو تو گوىا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دىا۔
حفاظت جان کی قرآنی تعلیم
زندگی خدا کی امانت ہے اس لیے ہرانسان کی جان بہت قیمتی ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کوتوصاف طور پرخودحفاظتی کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:
وَلَا تُلْقُوْا بِأَيْدِيْكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرة: 196)
اور اپنے ہاتھوں (اپنے تئىں) ہلاکت مىں نہ ڈالو۔
اسی طرح فرمایا:
وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ (النساء: 30)
اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔
پس موجودہ عالمی وبا کی صورت میں احتیاطی تدابیرسے احتراز(سورة المائدة:33کے مطابق) عملاً اجتماعی خودکشی کے مترادف ہوگا اورانفرادی خودکشی ہی اپنی ذات میں ایک ایسا گھناؤنا جرم ہے کہ رسول اللہﷺ نے خودکش شخص کا جنازہ پڑھنا بھی پسند نہیں فرمایا۔
(سنن نسائی کتاب الجنائز تَرْكُ الصلَاةِ عَلَى مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ)
الغرض اس قرآنی تعلیم کی روشنی میں طبّی ہدایات کے مطابق حسب حالاتِ وبااصولاًاجتماعات سے کنارہ کشی کرتے ہوئےتخلیہ اختیار کرنا لازم ہے۔
موجودہ متعدّی بیماری میں مساجد میں اجتماعی نماز اور جمعہ سے استثناء
بے شک پنج وقت نمازوں اور نماز جمعہ کی باجماعت ادائیگی ایک مسلمان پر فرض ہے لیکن جیساکہ اللہ تعالیٰ نے اسلامی تعلیم کی لچک کا یہ حسن بیان فرمایا ہے کہ
وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ(الحج: 79)
کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دین میں کوئی تنگی روا نہیں رکھی۔ چنانچہ فرض عبادات خصوصاً احکام روزہ کی ذیل میں یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ
يُرِيدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ(البقرة: 186)
کہ اللہ تمہاری آسانی چاہتا ہے تمہیں مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ جیساکہ اپنی جان بچانے کی قرآنی تعلیم کا ذکر پہلےہوچکاہے۔ رسول کریمﷺ نے بھی فرمایا:
إِنَّ الدِّيْنَ يُسْرٌ (بخاری کتاب الایمان باب الدین یسر)
کہ دین آسانی کا نام ہے اورآپؐ نے اپنے مقررکردہ امیرحضرت معاذؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو ہدایت فرمائی کہ
يَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا (صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر بَابٌ فِي الْأَمْرِ بِالتَّيْسِيرِ، وَتَرْكِ التَّنْفِيرِ)
کہ تم لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا اور مشکل پیدا نہ کرنا۔
مسافرکےلیے آنحضرتﷺ نے جمعہ کی بجائے نمازظہر ادا کرلینے کی رخصت عطا فرمائی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الجمعة باب من قال:لیس علی المسافر جمعة) اسی طرح بارش اور کیچڑ کی صورت میں ‘‘صَلُّوا فِي الرِّحَالِ’’ یعنی اپنے ڈیروں یا گھروں میں نماز پڑھ لینے کی ہدایت فرمائی۔
(صحیح البخاری کتاب الاذانبَابُ الرُّخْصَةِ فِي المَطَرِ وَالعِلَّةِ أَنْ يُصَلِّيَ فِي رَحْلِهِ)
اس حدیث کی تشریح میں علامہ عینی شارح بخاری نے واضح کیا ہے کہ بے شک یہ سفر کی بات ہے مگر علماء نے اس سے سفراوربارش کے علاوہ دیگر مختلف عذروں کی وجہ سے بھی جمعہ میں شامل نہ ہونے کی رخصت کا استدلال کیا ہے۔ جس میں اپنی یا قریبی عزیز والد وغیرہ کی شدید بیماری یا جنازہ وغیرہ میں شرکت کےمتفرق عذر بھی شامل ہیں۔
(ملخص ازعمدة القاري شرح صحيح البخاري جزء6صفحہ 196)
اسی طرح شارح مسلم علامہ نووی لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اس حدیث میں بارش وغیرہ کی مجبوری کی بنا پر جمعہ کو ساقط کرنے کی دلیل ہے۔
(شرح النووي على مسلم جزء5صفحہ208)
اسی پرصحابہ کا عمل تھا،چنانچہ حضرت ابن عباسؓ نے بارش کےایک موقع پر مدینہ منورہ میں اذان میں ‘‘حَيَّ عَلَى الصَّلاَةِ’’ (یعنی نماز پر آؤ)کی بجائے یہ الفاظ کہلوائے کہ ‘‘صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ’’کہ اپنے گھروں میں نماز جمعہ ادا کرو۔اورجب اس پربعض لوگوں کی طرف سے تعجب کا اظہار کیا گیا توحضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ یہی عمل اس ہستی نے کیا تھاجو مجھ سے بہتر تھے(یعنی نبی کریمﷺ)۔
(بخاری کتاب الجمعة باب الرخصة ان لم یحضر الجمعة فی المطر)
مذکورہ بالا ارشادات سےظاہرہےاولوالامر یعنی نظام حکومت یاخلیفۂ وقت اور ان کا مقرر کردہ نظام وبا کے حالات دیکھ کر جب اورجہاں ضروری سمجھیں لوگوں کی سہولت اور حفظان صحت کی مجبوری کے پیش نظر نماز جمعہ اور فرض نمازوں کی مسجد میں ادائیگی سے رخصت کے فیصلہ کے مجاز ہیں اوراس کی پابندی لازم ہے کہ عدم تعمیل میں عموم بلویٰ کاخدشہ ہے۔
خداکے فضل سے فی زمانہ جماعت احمدیہ اسلامی تعلیم پر عامل اور حکام وقت کی اطاعت میں صف اول کی جماعت ہے۔موجودہ تشویشناک وبائی صورت حال میں مذکورہ بالا اسلامی تعلیم کی روشنی میں امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 27؍مارچ2020ء بروز جمعة المبارک ازراہ احتیاط باقاعدہ معمول کاعالمی سطح پرٹیلی کاسٹ ہونے والے خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے کی بجائے اپنے دفتر سےMTA کے ذریعہ مختصر پیغام نشرکرنے کا فیصلہ فرمایا جس میں اسلامی تعلیم کے علاوہ عالمگیرجماعت کے ہرفرد کو اپنی اپنی جگہ حکومت وقت کے مفاد عامہ سے متعلق اس معروف فیصلہ کی تعمیل کی ہدایت فرمائی۔اس کے نتیجہ میں نہ صرف پاکستان کےہزارہا احمدیوں بلکہ وباسے متاثرہ ممالک کی کل احمدی دنیانےاس ارشاد امام کی تعمیل کرکے ایک شاندار وحدت ملّی کا مظاہرہ کیااورکررہے ہیں۔جس سے ظاہرہے کہ آئندہ بدلے ہوئے بہترحالات میں بھی یہ جماعت اطاعت اوروحدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قیام نماز و جمعہ کے لیے بھی اسی طرح صدق دل سے کوشاں اورپیش پیش ہوگی جو وحدت و یگانگت کی ایک اور خوبصورت تصویر ہوگی۔ان شاء اللہ
اجتماعی توبہ کی ضرورت؟
حیرت ہے کہ ایک طرف وبا کی مصیبت کے پیش نظر فرض نمازوں اور جمعہ کے مساجد میں اجتماعات سے استثنائی رخصت کی مجبوری ہے دوسری طرف اس کے برخلاف بعض معروف علماء نے اس وبا کو عذاب الٰہی قرار دے کر توبہ کے لیے قوم یونس کی طرح ایک جگہ جمع ہوکر اجتماعی توبہ کا خلاف حکمت مشورہ دے ڈالا ہے جبکہ اس بیماری کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہی اجتماع ہیں جن سے توبہ کی ضرورت ہے۔اور قہارخداکو جو رحمان و رحیم بھی ہے، راضی کرنے کے لیے ہر شخص کوانفرادی طور پر مخلصانہ رنگ میں اپنی اپنی جگہ توبہ و استغفار اور دعا سے کام لینے کا وقت ہے۔موقع محل کی مناسبت سے یہی وہ ‘‘عمل صالح’’ ہے جس کامومنوں کو حکم ہے۔
دراصل قوم یونس کامجموعی طورپر خدا کے نبی کو جھٹلانا تھا تو اس قومی گناہ کا مداوا اجتماعی توبہ سے ہی ممکن ہوا۔اگر آج بھی ہم سے کوئی ایسا جرم سرزدہواہے تو بھی عمل صالح کے تقاضاکے مطابق انفرادی محاسبہ اور توبہ سےہی اس کا علاج ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (البقرة: 223)
یقىناً اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے اور پاک صاف رہنے والوں سےمحبت کرتا ہے۔
اس ارشاد باری تعالیٰ میں موجودہ وبا میں انفرادی صفائی کی طرف توجہ کے علاوہ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہےکہ ذاتی صفائی اور طہارت تو تخلیہ اور تنہائی میں ہی کی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے توایسی ’’انفرادی توبہ‘‘ کیوں محبوب و مقبول نہیں ہوگی۔اصل چیز پوری شرائط کے ساتھ ایسی توبہ ہے جس میںi۔گذشتہ گناہوں پر ندامت کے ساتھ خداسے معافی مانگی جائےii۔سابقہ گناہوں کاممکنہ ازالہ کیاجائے iii۔اورآئندہ سے وہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم ہوتوموجودہ حالات میں مخلصانہ انفرادی توبہ ہی زیادہ مؤثر اور مقبول ہوگی۔
بے شک اجتماعی توبہ کا نظریہ نیا نہیں مگر تاریخ شاہد ہے کہ اس کےبے محل استعمال سے غلط نتائج اور نقصانات پہلے بھی ظاہر ہوچکےہیں۔چنانچہ شارح بخاری علامہ حافظ ابن حجر(متوفی:852ھ) لکھتے ہیں کہ
’’وبا سے نجات کے لیے دعا کرنا منع نہیں لیکن جہاں تک قحط کے وقت بارش کے لیے نماز استسقاء کی طرح ردّوبا کےلیےاجتماعی دعا کا تعلق ہے تو یہ بدعت ہے…764ھ میں دمشق میں طاعون پھیلی تو اکابر شہر اور لوگ صحرا میں نکل گئے اور انہوں نے اجتماعی دعا اور فریاد کی۔لیکن اس کے بعد طاعون اور زیادہ ہوگئی جبکہ ان کی اجتماعی دعا سے پہلے اس کا زورکم تھا۔‘‘
(بذل الماعون فی فضل الطاعون لابن حجر صفحہ328تا329)
مزید برآں علامہ ابن حجراپناذاتی مشاہدہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ
’’ہمارے زمانہ میں بھی ایسا ہوا جب 27ربیع الآخر 833ھ میں قاہرہ میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی۔جس سے ہرروز مرنے والوں کی تعداد چالیس تھی۔اعلان کیا گیا کہ لوگ تین دن روزے رکھیں۔پھر4جمادی الاول کولوگ صحراء کی طرف نکل پڑےجیساکہ نمازاستسقاء میں کیاجاتا ہے۔اورسب لوگوں نے جمع ہوکر دعا کی اور کچھ وقت وہاں اکٹھے رہ کرواپس آگئے۔ایک ماہ بھی نہ گزرا کہ اس اجتماع کےبعد قاہرہ میں اس وبا سے مرنے والوں کی تعدادروزانہ ایک ہزار سے زائدتک جاپہنچی اور پھر یہ اور بڑھ گئی (کیونکہ اجتماع نے تندرست لوگوں کو بھی متاثر کردیا)‘‘
(بذل الماعون فی فضل الطاعون لابن حجر صفحہ328تا329)
تاریخ اسلام کے مطالعہ سے اس امر کی مزید تائید ہوتی ہے۔چنانچہ حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت میں ملک شام میں طاعون عمواس پھیلی۔خود حضرت عمرؓ نے اسی زمانہ میں جب ملک شام کی طرف سفر اختیارکیاتھا،سرغ مقام پرامرائے لشکر نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یہاں طاعون کی وبا بہت سخت ہے اور طاعون زدہ علاقہ میں حضرت عمرؓ کی تشریف آوری کے بارہ میں اختلاف رائے ہوا۔حضرت عمرؓ نے مدینہ واپسی کی رائے قبول فرمائی۔بعد میں حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ نے وبا کے بارے میں حضرت عمرؓ کے فیصلہ کی تائید میں یہ حدیث بھی بیان کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب تم کسی علاقہ میں وبا کا سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جہاں تم ہو اگر وہاں وبا ہو تو وہاں سے اس سے بچنے کے لیے نہ نکلو(تاکہ وبا پھیل نہ جائے)۔
اسی موقع پر اختلاف رائے کرتے ہوئے حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کو مدینہ واپسی سے روکتے ہوئے کہا کہ کیا آپ خدا کی تقدیر سے بھاگیں گے۔خلیفہ راشدنے کیا خوب ارشاد فرمایا کہ ہم اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف جائیں گے(یعنی احتیاطی تدبیر اختیار کرکے طاعون سے بچنا چاہیں گے)۔
(صحیح بخاری کتاب الطب بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الطَّاعُونِ)
اور بالآخرخلیفۂ راشد کا یہ فیصلہ ہی بابرکت ثابت ہوا۔اور ان ہدایات کی تعمیل کرنے والے سرخروہوئے۔
حضرت عمرؓ نے اسلامی افواج کے سالار حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کو بھی ہدایت فرمائی کہ مسلمانوں کو موجودہ پڑاؤسے بلند،صاف،ہوادار جگہ پر لے جائیں۔ انہوں نے حضرت ابوموسیٰؓ کو ایسی جگہ تلاش کرنے کا کہا۔مگر اس جگہ سے کوچ کرنے سے قبل بروقت اس تدبیر پر عمل نہ کرسکنے سے طاعون سے وفات پائی۔
(تاريخ ابن خلدون جزء2صفحہ 554)
بہرحال یہ بھی ایک الٰہی تقدیر تھی جو منشاء الہٰی کے مطابق غالب آئی جس سےتقدیر کا یہ مضمون بھی خوب کھل کر سامنے آجاتا ہے جو حضرت عمرؓ نے بیان فرمایا جس کا ماحصل یہ تھاکہ تدبیر اختیار کرنا بھی دراصل تقدیر الٰہی کا حصّہ ہے اور یہ بات انہوں نے دراصل اپنے آقا ومولا حضرت محمد مصطفیٰﷺ سے ہی سیکھی، جب ایک صحابی نے نبی اکرمؐ کی خدمت میں یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا میں اونٹ کو باندھ کر پھر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں؟آپؐ نے فرمایا پہلے اونٹ کو باندھو پھر(خدا پر) توکل کرو۔
(ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّاقَائِقِ وَالْوَرَعِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ باب 60)
گویا احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بھی دراصل تقدیر اور توکل کے برخلاف نہیں بلکہ ان میں شامل ہے۔بقول جلال الدین رومی
برتوکل زانوئے اشتربہ بند
پس موجودہ حالات میں ہمیں تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئےضروری حد تک گوشہ نشینی اور خلوت اختیار کرنی چاہیے جو محض اونٹ کا گھٹنا باندھنے کے مترادف ہوگی۔جب ہم مذکورہ اسلامی تعلیم پر عمل کے مخلصانہ ارادہ سے ایسا کریں گے تویہ خلوت بھی اعتکاف کی طرح مفید عبادت بن سکتی ہے بشرطیکہ دلی اخلاص کے جذبہ سے توبہ اور استغفار کے ساتھ رجوع الی اللہ کرتے ہوئے ہم راتوں کو اٹھ کر اپنے مولیٰ کے حضور مناجات اور گریہ و زاری کرنے والے ہوں تو یقیناً رحمان ورحیم رب کریم کی رحمت خاص سے حصہ پانے والے ہوں گے۔خداکرے کہ ایسا ہی ہو۔آمین
امام الزمان و مہدیٔ دوراں نے بھی ہمیں یہی تلقین فرمائی:
کیا تضرُّع اور توبہ سے نہیں ٹلتا عذاب
کس کی یہ تعلیم ہے دکھلاؤ تم مجھ کو شِتاب
کوئی کشتی اب بچا سکتی نہیں اِس سَیل سے
حیلے سب جاتے رہے اِک حضرتِ تواب ہے
٭…٭…٭
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اس اسلامی تعلیم اور اسوہ رسول اور اسوہ امام الزمان پر کما حقہ عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ ما شا اللہ بہت مفصل مدلل اور پر حکمت مضمون ہے۔