مامور من اللہ کی دعاؤں کا کُل جہان پر اثر ہوتا ہے
بعثت انبیاء پر لوگ کس طرح ہدایت پاتے ہیں
جب انبیاء علیہم السلام مامور ہوکر دنیا میں آتے ہیں تو لوگ تین ذریعوںسے ہدایت پاتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ تین ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں ظالم، مقتصد، سابق بالخیرات۔
اوّل درجے کے لوگ تو سابق بالخیرات ہوتے ہیں جن کو دلائل اور معجزات کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ وہ ایسے صاف دل اور سعید ہوتے ہیں کہ مامور کے چہرہ ہی کو دیکھ کراس کی صداقت کے قائل ہو جاتے ہیںاور اُس کے دعویٰ کو ہی سُن کر اس کو برنگ دلیل سمجھ لیتے ہیں۔ اُن کی عقل ایسی لطیف واقع ہوئی ہوتی ہے کہ وہ انبیاء کی ظاہری صورت اور اُن کی باتوں کو سن کر قبول کرلیتے ہیں۔
دوسرے درجہ کے لوگ مقتصدین کہلاتے ہیںجو ہوتے تو سعید ہیں مگر اُن کو دلائل کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ شہادت سے مانتے ہیں۔
تیسرے درجہ کے لوگ جو ظالمین ہیں ان کی طبیعت اور فطرت کچھ ایسی وضع پر واقع ہوتی ہے کہ وہ بجز مار کھانے اور سختی کے مانتے ہی نہیں۔
جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام جبرسے پھیلا ہے وہ تو بالکل جھوٹے ہیں۔ کیونکہ اسلامی جنگیں دفاعی اصول پر تھیں، مگر ہاں یہ سچ ہے کہ خداتعالیٰ نے اپنے قانون میں یہ بات رکھی ہوئی ہے کہ تیسرے درجہ کے لوگوں یعنی ظالمین کے لیے ایک طریق رکھا ہوا ہے جو بظاہر جبر کہلاتاہے اور ہرنبی کے وقت میں عوام کی ہدایت جبر کے کسی نہ کسی پیرایہ میں ہوئی ہے، کیونکہ دُوربین سے دیکھنے والے کامقابلہ مجرد آنکھ سے دیکھنے والا نہیںکرسکتا۔ جب استعداد یں مختلف ہیں تو پھر سب کے لیے ایک ہی ذریعہ کیونکر مفید ہوسکتاہے۔
بڑے مقبول اور مقرب اور رسالت کی سچی خلافت حاصل کرنے والے وہی ہوتے ہیں جو سابق بالخیرات ہوتے ہیں اُن کی مثال حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سی ہے کہ آپ نے کو ئی معجزہ اور نشان طلب نہیںکیا سنتے ہی ایمان لے آئے۔ او رحقیقت میں یہ ہے بھی سچ اس لیے کہ جس شخص کو مامور کی اخلاقی حالت کی واقفیت ہو اس کو معجزہ اور نشان کی ہرگز ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد دلایا کہ
فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِہٖ (یونس : 17)
سابقین کو تویہ صورت پیش آتی ہے کہ وہ اپنی فراست صحیحہ سے ہی تاڑ جاتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب آپؐ مدینہ تشریف لے گئے تو بہت سے لوگ آپؐ کو دیکھنے آئے۔ ایک یہودی بھی آیا اور اس سے جب لوگوں نے پوچھا تو اُس نے یہی کہا کہ یہ منہ تو جھوٹوں کا نہیں ہے۔ اور مقتصد لوگ وہ ہوتے ہیں جو دلائل اور معجزات کے محتاج ہوتے ہیں اور تیسری قسم ظالمین کی ہے جو سختی سے مانتے ہیں۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں کبھی طاعون سے اورکبھی زلزلہ سے ہلاک ہوئے اور دوسروں کے لیے عبرت گاہ بنے۔ یہ ایک قسم کا جبر ہے جو اس تیسری قسم کے لیے خداتعالیٰ نے رکھا ہوا ہے اور سلسلہ نبوت میں یہ لازمی طور پر پایا جاتاہے۔
مامور من اللہ شفیع ہوتا ہے
مامور من اللہ کی دعاؤں کا کُل جہان پر اثر ہوتا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا ایک باریک قانون ہے جس کو ہر ایک شخص نہیں سمجھ سکتا جن لوگوں نے شفیع کے مسئلہ سے انکار کیا ہے انہوں نے سخت غلطی کھائی ہے۔ شفیع کو قانونِ قدرت چاہتا ہے۔ اُس کو ایک تعلق شدید خداتعالیٰ سے ہوتا ہے اور دوسرا مخلوق سے۔ مخلوق کی ہمدردی اس میںاس قدر ہوتی ہے کہ یوںکہناچاہیے کہ اُس کے قلب کی بناوٹ ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ ہمدردی کے لیے جلد متأثرہوجاتاہے اس لیے وہ خداسے لیتاہے اور اپنی عقد ہمت اور توجہ سے مخلوق کو پہنچاتا ہے اور اپنا اثر اُس پر ڈالتا ہے۔ اور یہی شفاعت ہے۔
انسان کی دعااور توجہ کے ساتھ مصیبت کارفع ہونا یا معصیت اور ذنوب کا کم ہونا یہ سب شفاعت کے نیچے ہے۔ توجہ سب پر اثر کرتی ہے خواہ مامور کو اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کانام بھی یاد ہونہ ہو۔
صادق کی صحبت بہترین معلم ہے
شریعت کی کتابیں حقائق اور معارف کا ذخیرہ ہوتی ہیں۔ لیکن حقائق اور معارف پر کبھی پوری اطلاع نہیںمل سکتی جب تک صادق کی صحبت اخلاص او رصدق سے اختیار نہ کی جاوے۔ اسی لیے قرآن شریف فرماتا ہے
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ(التّوبۃ: 119)
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور اتقاء کے مدارج کامل طور پر کبھی حاصل نہیں ہوسکتے جب تک صادق کی معیت اور صحبت نہ ہو، کیونکہ اس کی صحبت میں رہ کر وہ اس کے انفاسِ طیبہ، عقد ِہمت اور توجہ سے فائدہ اُٹھاتاہے۔
قبول ہونے والی دعا کا راز
دعا جب قبول ہونے والی ہوتی ہے تو اللہ اس کے لیے دل میں ایک سچا جوش اور اضطراب پیدا کر دیتا ہے اور بسا اوقات اللہ تعالیٰ خود ہی ایک دعا سکھاتا ہے اور الہامی طور پر اس کا پیرایہ بتا دیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے
فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ(البقرۃ:38)
اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے راستباز بندوں کو قبول ہونے والی دعائیں خود الہاماً سکھا دیتا ہے۔ بعض وقت ایسی دعا میں ایسا حصہ بھی ہوتا ہے جس کو دعا کرنے والا ناپسند کرتا ہے، مگر وہ قبول ہو جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس آیت کے مصداق ہے۔
عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ (البقرۃ:217)
(ملفوظات جلد 3صفحہ219تا221۔ ایڈیشن1984ء)