متفرق مضامین

موت کے اندھیروں سے زندگی تک واپسی کا سفر (قسط دوم)

(ابراہیم اخلف۔واقف زندگی)

مہبطِ انوار الہٰیہ خلافت احمدیہ

ایک تکلیف دہ حادثہ

سوموار کے روز نرسوں نے مجھے بتایا کہ ICU میں مَیں نے لاشعوری طور پراُس ٹیوب کو کھینچ کر اتار دیا جو میری سانس کی نالی میں جا رہی تھی۔ اس وقت دو نرسوں نے مجھے روکنے کی کوشش بھی کی لیکن کامیاب نہ ہو سکیں۔

اس خطرناک حرکت سے میرے حلق میں زخم آگیا۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میر ی سانس کی نالی اورگلے کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا۔ اس حرکت کے باعث مجھے مسلسل تین ہفتے گلے میں شدیددرد رہا اور الحمد للہ میں آہستہ آہستہ اس سے صحت یاب ہو رہا ہوں، اگرچہ کچھ تکلیف ابھی بھی باقی ہے۔

جیسا کہ اس مضمون کی گذشتہ قسط میں لکھا گیا ہے کہ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فاروق آفتاب صاحب کو تاکیداً فرمایا تھا کہ وہ مجھے کچھ ہومیوپیتھک ادویہ کھلائیں تاہم بہت کوشش کے باوجود ہسپتال کے اس وارڈ میں جہاں پر میں داخل تھا یہ کام ناممکن معلوم ہوتا تھا کیونکہ اس دوا کے مجھ تک پہنچنے میں بہت سے مراحل حائل تھے۔ لیکن آخر کار اللہ تعالیٰ کے فضل سے کنسلٹنٹ /ڈاکٹرنے اس شرط پر مجھے دوا کھلانے کی اجازت دے دی کہ میری فیملی میں سے کوئی ذمہ دار شخص اس کی اجازت دے۔ میری اہلیہ ریم نے اس پر رضامندی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز سے یہ بھی کہا کہ ابراہیم یہ ہومیو پیتھک دوائیں لے کر بہت خوش ہوں گے۔

چنانچہ سوموار کی سہ پہر پونے چاربجے کے قریب دوا مجھے میسر آ گئی۔ اس موقعے پر ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ ایک سینئر نرس نے جب میرے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھ کرپوچھا کہ میرے پاس کیا ہے تو میرے جواب دینے پر کہ یہ ہومیوپیتھک دوائی ہے وہ رنجیدہ سی ہوگئی، اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے اور وہ وہاں سے چلی گئی۔مجھے یہ بات بہت عجیب لگی۔ میں نے سوچا کہ لوگ بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں۔ اگر وہ اللہ کے وجود کو ثابت کرنے میں ناکام ہو جائیں تو وہ اس کی ذات سے منکر ہو جاتے ہیں اور اگر وہ ہومیوپیتھی کے فوائد کو ثابت کرنے میں ناکام رہیں تو وہ اس کا بھی انکار کردیتے ہیں۔

الحمد للہ میری آپ بیتی یہ ثابت کرتی ہے کہ ہومیوپیتھی ایک انتہائی مؤثر طریقہ علاج ہے۔

اپنے پیارے آقا حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خاطر میں نے ضعف کے باوجود فاروق آفتاب صاحب کو ویڈیو کال کی اور انہیں دکھایا کہ مجھے ہومیوپیتھک دواموصول ہو گئی ہے اور ان کے سامنے ایک نرس کی موجودگی میں مَیں نے وہ دوا لے لی۔

معجزانہ طور پر بروقت اسلام آباد منتقلی

میرے پیارے بھائیو اور بہنو!سوچیں اور غور کریں! میری بیماری کے دوران میرے ذہن میں رہ رہ کر یہ خیالات آ رہے تھے کہ وہ ذات کون ہے جس نے بروقت حضورِ انور کی رہ نمائی فرمائی کہ آپ لندن سے اسلام آباد منتقل ہو جائیں! ذرا سوچیں کہ اگر حضور اسلام آباد منتقل نہ ہوتےتو اس وبائی مرض کے دوران کتنی فکر انگیز صورت حال ہوتی! لندن کوروناوائرس کاگڑھ بن چکا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یورپ کے دوسرے بڑے شہروں کے مقابلے پر لندن کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہو سکتا ہے۔ایسے حالات میں حضور انور اور جماعت کے دیگر کارکنان کے لیے جماعتی امور کو بجا لانا کتنا مشکل ہوسکتا تھا اور وہ بھی ایسی چھوٹی اور تنگ سی جگہ پر جہاں کھلی جگہ کی سہولت بھی میسر نہ ہو۔ ویسے بھی موجودہ حالات میں لندن میں کام کرنا غایت درجہ غیرمحفوظ اور خطرناک ہے کیونکہ وہاں دیگر مشکلات کے علاوہ ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ قائم رکھنا (social distancing) ایک ناممکن سا عمل ہے۔ کیا یہ خدا تعالیٰ کی عظیم الشان قدرت کا اعجاز نہیں ہے کہ حضورِ انور کے لندن سے اسلام آباد تشریف لے جانے کا فیصلہ انتہائی بروقت ہوا۔ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ کیا اس وقت کسی نے کورونا وائرس کی پیشگوئی کر رکھی تھی؟ یقیناً یہ سوچ کر بے اختیار زبان سے ‘‘سبحان اللہ’’ نکلتا ہےکہ اللہ تعالیٰ کس طرح ہر مرتبہ اس الٰہی جماعت کی بہتری کے لیے خلیفۂ وقت کی رہ نمائی فرماتا ہے۔

ایک عیسائی نرس

میری حالت بہتر ہونے پر مجھے ایک اَور وارڈ میں منتقل کردیا گیا۔ مَیں نے اس وارڈ میں ایک رات گزاری۔ وہاں میرے حواس پہلے سے بہترتھے۔ لیکن پھر بھی میرے لیے حرکت کرنا مشکل تھا کیونکہ نرسوں نے خون حاصل کرنے کی غرض سے میرے جسم پر چار جگہوں پر نالیاں لگا رکھی تھیں جن میں سے دو نالیاں میری دونوں کلائیوں پر، ایک میرے بازو اور ایک میری گردن پر تھی۔رات کو ایک نرس معمول کے مطابق مجھے دوائی دینے آئی۔ وہ بہت با اخلاق اور پروقار معلوم ہوتی تھی۔مجھے تھکن سے چُور دیکھ کر اس نے پوچھا:‘‘میں آپ کے لیے کیا کرسکتی ہوں؟‘‘

میں نے بے ساختہ اس سے کہا: ’’میرے لیے دعا کریں۔‘‘

اس نے جواب دیا: ’’میں آپ کے لیے دعا کروں گی، یہ میرا وعدہ ہے‘‘

پھر جب وہ کمرے سے نکلنے کے لیے دروازے کے پاس پہنچی تو میں نے اسے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:

’’آپ میرے لیے دعا کریں گی؛ کیا میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں؛ کیا آپ مسیحی عقیدہ رکھتی ہیں یا دہریہ ہیں؟‘‘

اس نے جواب میں کہا : ’’میں ایک راسخ العقیدہ مسیحی ہوں کیونکہ میں نےایک مسیحی گھرانے میں پرورش پائی ہے۔‘‘

میں نے محسوس کیا کہ میرے نحیف جسم میں خدائے واحد و یگانہ کی عزت و ناموس کے دفاع کی خاطر ایک جوش پیدا ہو گیا ہے اور غیب سے توانائی آ گئی ہے۔میں نے اس سے کہا:’’میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں۔ آپ ایک مسیحی ہونے کے ناطے تین خداؤں یعنی باپ خدا، بیٹاخدا (مسیح علیہ السلام )اور روح القدس پر ایمان رکھتی ہیں۔ ہم بھی بحیثیت مسلمان خدا کو (سب کا پیدا کرنے والا باپ) مانتے ہیں، اور اسے ’اللہ‘ کہتے ہیں۔ ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ایک عظیم نبی اور ایک مسیحا تو تھے لیکن اپنی ذات میں وہ صرف ایک انسان تھے۔ آپؑ کو خدا کا بیٹا محض استعارے کے رنگ میں کہا گیا، جبکہ روح القدس روح القدس ہی ہے۔ ہمارے عقیدے کے مطابق یہ دراصل تثلیث کی حقیقت ہے۔ اور یہی بنیادی بات ہے جس میں مسیحی غلطی خوردہ ہیں۔ لہذا اگر آپ دعا کرنا چاہتی ہیں تو برائے مہربانی میرے لیے’’باپ‘‘ خدا سے دعا کیجیے گا، عیسیٰ علیہ السلام سے نہ کیجیے گا کیونکہ ہم ان کا بے حد احترام کرتے ہیں لیکن وہ صرف ایک انسان اور خدا کے برگزیدہ تھے، خدا نہیں۔ اگر آپ باپ خدا سے دعا کریں گی تو آپ کی دعا قبول بھی ہوگی۔ اور میں بھی آپ کے لیے دعا کروں گا۔‘‘

اس نے انتہائی جذباتی انداز میں میری طرف اس طرح دیکھا جیسے رونے والی ہو اور کہا: ’’یہ پہلا موقع ہے کہ مجھے اسلام کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔ مجھے ان باتوں کا علم نہیں تھا۔ اور آپ کو کیسے اندازہ ہوا کہ میں مذہب پر یقین رکھتی ہوں؟‘‘ پھر وہ اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کمرے سے روانہ ہو گئی۔

یہ ایک عجیب واقعہ تھا۔ اس وقت میں اپنی اہلیہ کے اس خواب سے بھی واقف نہیں تھا جس میں انہوں نے دیکھا کہ نورا نامی ایک عیسائی نرس اسپتال میں توجہ اور محبت کے ساتھ میری دیکھ بھال کررہی ہے۔ اسی دوران اس نے مجھے مسیحی بنانے کی کوشش بھی کی ہے۔

اللہ کےفضل سے میں صرف چار دن آئی سی یو میں رہا جو کہ اپنی ذات میں ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔

اس کے بعد مجھے ایک اَور وارڈ میں لے جایا گیا جہاں کے مناظر انتہائی اندوہناک تھے۔یہاں ہمیں ماسک پہننے کی ہدایت کی گئی جو کہ میرے لیے بڑا مشکل کام تھا کیونکہ مجھے ابھی تک سانس لینے میں خاصی دشواری تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس وارڈ میں مجھے شدید گھٹن کا احساس ہونے لگا۔ اسی وارڈ میں Covid-19 میں مبتلا ایک چینی شخص بھی موجود تھا، پھر ایک بیچارہ بوڑھا آدمی بھی،جو خود چل کر باتھ روم بھی نہیں جاسکتا تھا اور میڈیکل سٹاف شدید مصروفیت کی وجہ سے اس کی مدد بھی نہیں کر پا رہا تھا۔ پھر ایک ایسی خاتون بھی وہاں موجود تھی جو اس وائرس میں مبتلا ہونے کے سبب مسلسل روئے چلے جا رہی تھی۔ اس وقت میں ہسپتال سے فراغت کے لیے دعاؤں میں مگن تھا کیونکہ میرے لیے یہ ماحول ناقابلِ برداشت تھا۔

اللہ کے فضل سے حضور انور کی تجویز کردہ ہومیو پیتھک دوامجھ پر تیزی سے اثر انداز ہو رہی تھی اور میں روبہ صحت ہو رہا تھا۔ بدھ کے روز ڈاکٹروں نے میرے ساتھ حیرت کا اظہار کیا کہ میں اتنی جلدی صحت یاب ہو رہا ہوں۔ دراصل وہ ہمیشہ میری اہلیہ،فاروق آفتاب صاحب یا طاہر صاحب کو یہ اطلاع دیتے رہتے تھے کہ میری حالت بہت بہتر ہے۔ اور یہ بات کہ مجھے ‘‘سنگل آرگن وینٹیلیٹر‘‘(single organ ventilator) پر رکھا گیا تھا اپنی ذات میں ایک تسلی بخش امر تھا۔اگرچہ میری نظر بہت کمزور تھی اور مجھے مسلسل چکر آ رہے تھے،پھر بھی ڈاکٹرز نے مجھے ہسپتال سے گھر بھیجنے کا فیصلہ کر دیا۔اللہ تعالیٰ تما م طبی عملے کو اپنی حفاظت خاص میں رکھے جو دن رات انسانیت کی انتھک خدمت میں مصروف ہیں۔

میری گھر واپسی

میں گھر پہنچا تو اپنی اہلیہ کی قابلِ رحم حالت دیکھ کر کافی پریشان ہوا۔

آنحضرتﷺ نےجس طرح حضرت سلمان فارسی ؓ کو گویا اپنے گھر کا فرد سمجھتے ہوئے خیال رکھا تھا اسی طرح حضور انور ایّدہ اللہ بنصرہ العزیز ایک شفیق باپ کی طرح ابتداسے ہی ہمارا خیال رکھتے آئے ہیں۔ اور اس بیماری کے بعد تو حضور پہلے سے بھی زیادہ شفقت فرمانے لگے۔

سبحان اللہ! میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ حضورِ انور مجھ سےاپنے بیٹوں کی طرح سلوک فرماتے ہیں۔ میری زندگی کے ہر قدم پرحضور انورنےہمیشہ میرے ساتھ بہت ہی پیار اور شفقت کا سلوک فرمایا اور جب بھی ضرورت پڑی حضورِ انور نے نہ صرف میری رہ نمائی فرمائی بلکہ روزمرہ امور، دینی معاملات، میری ذمہ داریوں اور تاریخ سے آگاہی وغیرہ کے تمام پہلوؤں کے حوالے سے میری تربیت بھی فرماتے رہے۔

میں حضور انور کا بے حد ممنونِ احسان ہوں کیونکہ حضور ایک ایسے استاد ہیں جنہوں نے میری تربیت کی اور میرے روحانی علم اور استعدادوں کو صیقل فرمایا۔

حضور انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کمال شفقت فرماتے ہوئے ان ایام میں ہمارے معاملات کو گویا مکمل طور پر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ چنانچہ ایک مرتبہ ہمارے لیے تیار کیے جانے والے کھانے کے بارے میں استفسار فرمایا اور ہدایت دی کہ

’’ان کو پاستا (pasta)نہ دیں، انہیں گوشت کھلائیں۔‘‘

حضور انور عربی کھانوں اور عرب ثقافت سے خوب واقف ہیں۔حضورِ انور نے عبدالقدوس عارف صاحب، صدر مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کو روزانہ ہمارے لیے دوپہر کے کھانے کا انتظام کرنے کا ارشاد فرمایا جس کے مطابق روزانہ ہمارے لیے گوشت کی یخنی بھی تیار کی جاتی جس سے یقیناًمجھے بہت فائدہ پہنچا۔ حضور انور کی ہدایات کے مطابق یہ کھانا صدر صاحب کی اہلیہ محترمہ بڑی باقاعدگی کے ساتھ ہمارے لیے تیار کر کے بھجواتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کواور ان کے اہل خانہ کو بے شمار فضلوں سے نوازے۔آمین۔

حضورانورنے ہمیں وہ قہوہ پینے کی بھی ہدایت فرمائی جو سپینش فلو کے زمانے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تجویز فرمایا تھا۔دریں اثنا دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے توسط سے حضورِ انور نے ایک اَور مشروب کھانسی کی دواکے طور پربھی تجویز فرمایا جس میں دار چینی، کالی مرچ، سونف،ادرک اور شہد شامل تھے۔

مومنوں کی مثال محبت، رأفت او ررحمدلی میں ایک جسم کی سی ہے۔ جب کسی ایک عضو کو درد ہو تو گویا تمام جسم ہی بخار اوربے آرامی محسوس کرتا ہے۔ ( صحیح بخاری کتاب الادب باب رحمة الناس و البہائم نمبر5665)

میری اہلیہ کے غیر احمدی بہن بھائی اُس کے اور بچوں کے گزر بسر وغیرہ کے بارے میں پریشان تھے۔ میری اہلیہ نے ان سے کہا: ’’فکر نہ کریں، یہ الٰہی جماعت ہے اور تمام مومن بھائی بھائی ہیں۔ جماعت کے افراد ہماری تمام ضروریات کا خیال رکھ رہے ہیں۔‘‘

دراصل رات کے کھانے کا اہتمام لجنہ اماء اللہ آلڈر شاٹ(Aldershot)کی مقامی صدر صاحبہ ، صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ یو کےمحترمہ ڈاکٹر فریحہ خان صاحبہ کی نگرانی میں کر رہی تھیں۔ اس کے علاوہ ہمارے کچھ احباب اپنے طور پر ہی کھانا اور دیگر ضروری سامان وغیرہ مہیا کر رہے تھے۔امیر صاحب جماعت یوکے محترم رفیق احمد حیات صاحب بھی مسلسل ہمارا حال دریافت کر رہے تھے اور ہمارےلیے فکر مند تھے۔ ہسپتال میں قیام کے دوران انہوں نے دودفعہ مجھ سے رابطہ کیا۔ آپ میری اہلیہ سے مسلسل رابطے میں تھے اورہمارے لیے دعا گو تھے۔ پھر صدر جماعت آلڈرشاٹ محترم خالد بھٹی صاحب اور ریجنل امیر اسلام آباد محترم عطا القدوس صاحب سے مسلسل ہماری صحت کے بارے میں دریافت کرتے رہے۔

یہ سب احباب ہماری دعاؤں کے مستحق ہیں اور ہم ہمیشہ ان کے ممنونِ احسان رہیں گے۔ ہم ان کے حق میں دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں آنحضور ﷺ کی ان دعاؤں کا وارث بنائے:

اللّٰهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِي وَأَسْقِ مَنْ أَسْقَانِي (صحیح مسلم)،

اللّٰهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِيمَا رَزَقْتَهُمْ وَاغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ (ابو داؤد)

’’اے اللہ ان کو کھلاجنھوں نے ہمیں کھلایا ہے اور انہیں سیر کر جنہوں نے ہمیں پلایا ہے۔ اے اللہ ان کے رزق میں برکت عطا فرما، ان کو معاف فرما اور ان پر رحم فرما۔‘‘

ہمیں ہر وقت یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی یہ پاک جماعت قرآن شریف میں مذکورہ علامات کے عین مطابق حقیقی بھائی چارےکی لڑی میں پروئی گئی ہے۔ جماعت احمدیہ کا ہر فردایک جسم کے مختلف اعضاء کی مانند ہے، مومنین کی یہ جماعت باہم محبت، شفقت اور رحمت کی ایک مجسم تصویر ہے۔اور یہ یگانگت، یہ محبت در حقیقت خلافت کی برکت سے ہی ہے جو اِس جماعت کی اصل اوررُوح و رواں ہے۔ اور رُوح کے بغیر سوائے بے جان جسم کے اور رہ بھی کیا جاتا ہے! سچ ہے کہ یہ سب نعمتیں اس برکتوں والی جماعت کے علاوہ دنیا میں اور کہیں نصیب نہیں ہو سکتیں۔ میرے ساتھ پیش آنے والے ان حالات میں ہمارے بچوں نے امامِ وقت اور پھر جماعت کی اہمیت کا عملی نمونہ دیکھا۔

ایک پریشان کن واقعہ

بہر کیف، گھر میں نمازِ عشا کے بعد میں بستر پر آرام کر رہا تھا۔ اچانک زیرِ استعمال ادویہ کے اثرات اور شدید تھکن کی وجہ سے مجھے اپنا دل بیٹھتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ مجھے اس قدر درد ہوا کہ میرے لیے بات کرنا مشکل ہو گیا اور یوں لگا کہ میرا آخری وقت آ گیا ہے۔ میں نے صدر صاحب خدام الاحمدیہ کو فون کیا جو فوراً حضورِ انور کی خدمت میں تشریف لے گئے۔حضور پُرنور نے ازراہِ شفقت ایک ہومیوپیتھک دواتجویز فرمائی اور یہ دوا لیتے ہی معجزانہ طور پر میری طبیعت سنبھلنے لگی۔سبحان اللہ!

نبی اکرمﷺ کی پیشگوئی کیا ہی سچی ہے کہ خلافت کے بغیر زندگی نہیں۔ اور کتنے بدقسمت ہیں اس عظیم نعمت کا انکار کرنے والے، کتنے قابلِ رحم ہیں وہ لوگ جو امام وقت کی ہدایات پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔

کتنی خوبصورت ہےیہ الٰہی جماعت جسے خود اللہ تعالیٰ نے خلافت کے ذریعے پروان چڑھایا ہے اور احمدیوں کے دلوں کو ایسی محبت میں پرو دیا ہے کہ وہ ایک جسم کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔

میری اس بیماری کے دوران سوشل میڈیا پر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اس امید پر کہ میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا خوشیاں منا رہے تھے۔ لیکن شاید وہ یہ بھول گئے تھے کہ میری زندگی اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔

ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃو السلام اور آپؑ کے خلیفہ کو قبول کرنے کی توفیق ملی۔ دنیا کے لوگوں کے لیے دو ہی راستے ہیں، یا تو خلافت کی آغوش میں آ جائیں یا آپ اپنے غیض میں کڑھتے رہیں۔

ہم پوری دنیا کے اپنے تمام احمدی بھائیوں اور بہنوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے ممبران کے شکر گزار ہیں جو ہمارے لیے دعا ئیں کرتے رہے۔

آخر پرمیں پھر عرض کرتا چلوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کی دعاؤں کو حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں کی برکت سے ہی شرفِ قبولیت بخشا۔ حضور انور نے ہمارے لیے نہ صرف دعا کی، بلکہ صدقہ بھی دیا۔

ایک انتہائی جذباتی اور ناقابلِ بیان لمحہ

الحمدللہ ثم الحمدللہ کہ ہم پر خدا تعالیٰ کے احسانات کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا،کیونکہ اس نے ہم پر ایسی برکات نازل فرما ئیں جن کا ہم کبھی تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔

منگل 7؍ اپریل 2020 کا دن ہماری زندگیوں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ہم اس دن کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔جب بھی ہم اس دن کو یاد کرتے ہیں ہم بے اختیار آسمانوں اور زمین کے مالک کے حضورسجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔

ہوا یوں کہ دوپہر 12 بجے کے قریب محترم منیر جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری حضور انورنے میری اہلیہ کو فون کیا۔آپ نے ہماری صحت کے بارے میں دریافت کیا۔ میری اہلیہ انہی کے فون پربہت خوش تھیں۔لیکن اس کے بعد جو ہوا، ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے! اتنی بڑی سعادت کہ جس کو فی الحقیقت الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جاسکتا!

محترم منیر جاوید صاحب کہنے لگے:

’’حضور آپ سے بات کریں گے۔‘‘

ریم فرطِ جذبات سے اچھل پڑیں اور مجھے کہنے لگیں:

’’حضور (ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) ہم سے بات کریں گے۔‘‘

اچانک ریم کو حضوراقدس کی آواز سنائی دی:

’’السلام علیکم‘‘

ریم کی تو بے اختیار آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔

حضور انور نے فرمایا کہ میں نے ریم کا مضمون پڑھا  تو سوچا اسے فون کرلوں۔

ریم نے حضور انور کا بے حد شکریہ ادا کیا اور عرض کیا:

’’حضور کی دعاؤں کے بغیر ہمارا زندہ بچنا ناممکن تھا۔‘‘

حضورِ انور نے کمال عاجزی کے ساتھ فرمایا:

’’میں اکیلا ہی نہیں ہوں جس نے دعا ئیں کیں۔ آپ کے دوستوں اور دنیا بھر کے ہزاروں احمدیوں نے بھی آپ کے لیے دعا ئیں کی ہیں۔ میں نے آپ کے لیے بڑے درد کے ساتھ دعا کی اور صدقہ دیا۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا۔‘‘

حضور نے پھر ریم، بچوں اور میری صحت کے بارے میں دریافت فرمایا اور پوچھا کہ کیا ابراہیم بات کرنے کی طاقت رکھتاہے؟ ریم نے جواب دیا کہ الحمد للہ ابراہیم اب اتنے بہتر ہوگئے ہیں کہ بات کر سکتے ہیں۔

تب حضور نے جیسے کہ آپ خاکسار سے ازراہ شفقت و تفنن فرماتے ہیں،فرمایا:

’’مولوی صاحب، کیا حال ہے؟ آپ اب ایک حقیقی مولوی بن گئے ہیں کیونکہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھ لیا ہے۔ اب جبکہ آپ نے خدا کو دیکھ لیا ہے تو آپ کو اپنے تجربے سے دوسروں کو بھی آگاہ کرنا چاہیے۔‘‘

حضورِ انور نے پھر میری اور میرے بچوں کی صحت کے بارے میں دریافت فرمایا۔

پھر حضور نے فرمایا:’’دیکھیں! خلیفۂ وقت کی تمام ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔ میں نے آپ کو بھی اور جمعے کے خطبے میں بھی کہا تھا کہ اپنی نیند پوری کرنی چاہیے۔ اگر آپ چھ گھنٹے نیند لیں گے تو پہلے کی نسبت کہیں زیادہ محنت سے کام کر سکیں گے۔‘‘

پھر حضور نے مجھ سے پوچھا کہ کیا بیماری کی وجہ سے میرا وزن کم ہوا ہے۔ میں نے عرض کیا: ’’جی حضور۔‘‘

اس کے بعد حضورِ انور ایک شفیق والد کی طرح فرمانے لگے کہ تمہیں اپنا وزن کم کرنا چاہیے، ناشتے میں cereal کھانا چاہیے، دوپہر کا کھانا کم اوررات کا کھانا مناسب (main meal)کھانا چاہیے، بشرطیکہ کھانے اور سونے میں کم از کم دو سے تین گھنٹہ کا وقفہ ہو۔

نیزحضورِ انور نے نصیحت فرمائی:’’ورزش کیا کریں،  دوڑ لگائیں، چھلانگیں لگائیں۔‘‘

پھرحضور ِ انور نے  ازراہِ شفقت فرمایا:’’اپنے پیٹ کو گیند کی طرح پھولنے نہ دینا۔‘‘

اس پر میں بے اختیار ہنس پڑا۔ صاف محسوس ہوتا تھا کہ حضورِ انور بھی یہ فرماتے ہوئے تبسم فرما رہے تھے۔

تب حضورِ انور نے وباکے بارے میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے خطبۂ جمعہ اور الحکم کے ذریعہ وضاحت کر دی ہے۔ میں نے جواب میں عرض کیا کہ کچھ لوگ میرے متعلق خوش تھے کہ یہ فوت ہو جائے گا۔

حضور نے جوابا ًفرمایا: ’’جب کوئی مومن وبائی مرض سے فوت ہو جائے تو وہ شہید ہوتا ہے۔‘‘

میں نے پھر عرض کیا:’’حضور، جب آپ نے جمعے کا خطبہ ارشاد فرمایا، اگرچہ ہم جانتے تھے کہ مسجد میں صرف مؤذن ہی موجود تھا لیکن حضور کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا تھا جیسے مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہے۔‘‘

حضورِانور نے فرمایا: ’’اس کی یہ وجہ ہے کہ جب خلیفۂ وقت جمعے کا خطبہ دے رہا ہوتاہے تو وہ پوری دنیا سے مخاطب ہوتا ہےاور وہ دنیا بھر کے احمدیوں سے ایسے بات کرتا ہے گویا وہ اس کے سامنے ہوں۔‘‘

حضورِ انور نے مزید نصیحت فرمائی کہ سپینش فلو کے دوران حضرت مصلح موعودؓ کے تجویز شدہ قہوے کا استعمال جاری رکھیں اور استفسار فرمایا کہ کیا ہومیوپیتھک دوائیں موجود ہیں؟

میں نے عرض کیا کہ :’’ایک دواتقریباً ختم ہو چکی ہے۔‘‘

حضورِ انور نے فرمایا:’’جب بھی آپ کی دوا ختم ہوآپ صدر صاحب خدام الاحمدیہ سے رابطہ کریں اور وہ ضرورت کے وقت آپ کو مزید دوا فراہم کر دیں گے۔‘‘

تاہم، ہمیں اس بات پر حیرت ہوئی کہ اس فون کال کے کچھ دیر بعد ہمیں مطلوبہ دوا موصول ہو گئی جبکہ ہم نے ابھی صدر صاحب خدام الاحمدیہ سے اس بارے میں بات بھی نہیں کی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضورِ انور نے از خود اس کا انتظام فرما دیا اور اس بات کا تصور کر کے ہم ایک دفعہ پھر جذباتی ہو گئے اور ہماری آنکھیں آنسو بہانے لگیں۔ بے شک ہم اپنے پیارے امام کے بے حد شکرگزار ہیں۔ ہمارے پاس اللہ رب العزت اور اس کے خلیفہ کے احسانات کو پوری طرح بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ میرے ہسپتال میں قیام کے دوران، حضرت بیگم صاحبہ مدّ ظلہا العالی نے ریم کوفون کر کے تسلی دی کہ وہ میری صحت کے لیے ان الفاظ میں مستقل دعا مانگ رہی ہیں کہ ’’اے اللہ تعالیٰ! تُو ہمیں معجزہ دکھا۔‘‘

یہ بات میری بیوی کے لیے سکون کا باعث بنی اور وہ میری صحت کے لیے پہلے سے بڑھ کر پُر امید ہو گئی۔ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد جب میری اہلیہ نے مجھے یہ بات بتائی تو میں بھی بہت جذباتی ہوگیا۔

حرفِ آخر

اے انکار کرنے والو، میں نے احمدیت کو بغیر سوچے سمجھے قبول نہیں کیا؛

بیعت کرنے سے پہلے میں نے اپنی ساری زندگی اہل سنت،اہل تشیع، صوفیوں، مستشرقین، عیسائیوں اور بہت سے دوسرے افراد اور گروہوں اور فرقوں کے نقطۂ نظر سے دین کی تعلیم حاصل کی۔

سچائی کا تجربہ بہت سے طریقوں سے ہوتا ہے؛بہت سے راز ایسے ہیں جن کی کنہ کو ہم محض اپنی عقل پر بھروسا کرتے ہوئے نہیں پا سکتے۔ہمیں اپنے اندر عاجزی پیدا کرتے ہوئے اپنے گردو اطراف کا مشاہدہ کرنا چاہیے کہ عین ممکن ہے کہ مسیح موعود کا ظہور ہو چکا ہو اور اس کا جانشین، اس کا خلیفہ جو اس کے تخت کا وارث ہے ہم میں موجود ہو!

(ترجمہ: ٹیم تراجم الفضل انٹرنیشنل)

[یہ مضمون انگریزی زبان میں پریس اینڈمیڈیاآفس کی ویب سائیٹ پرشائع کیاگیا۔ اصل مضمون کےلیےدرج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:

https://www.pressahmadiyya.com/corona/2020/04/ibrahim-ikhlaf-part2/]

مضمون کی قسط اوّل کے لیے درج ذیل لنک کلک کیجیے:

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button