خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 24؍اپریل2020ء
’’ہماری جماعت کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان حاصل کریں۔‘‘
اصل ایمان تو یہ ہے اور تقویٰ کا تقاضا تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے گئے عہد بھی پورے کرو اور باریکی میں جا کر پورے کرو اور اسی طرح اس کی امانتوں کے حق بھی ادا کرو اور باریکی میں جا کر ادا کرو۔
تقویٰ حاصل کرو کیونکہ تقویٰ کے بعد ہی خدا تعالیٰ کی برکتیں آتی ہیں
نیک آدمی ہو اور سعید فطرت ہو، لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہو، اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے والا ہو، عاجز ہو تو فرمایا کہ لوگ کرامت کی طرح اس سے متاثر ہوں گے۔ یہ بھی تبلیغ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
قرآن کریم کی واضح ہدایت ہے کہ مریض ہو تو نہ رکھو۔ مریض ہونے کے امکان پر کہ مریض بن جائیں گے روزہ چھوڑنا یہ غلط ہے۔
اپنی حالتوں اور طبیعتوں کو دیکھتے ہوئے اپنے ضمیر سے فتویٰ لے کر روزہ رکھنے کا فیصلہ کرنے کی تلقین
روزہ رکھنے کی توفیق پانے اور وبا سے نجات حاصل کرنے کے لیے دعائیں کرنے کی نصیحت
دنیا کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال کے تناظر میں جنگ کے منڈلاتے خطرات پر اظہارِ فکر
’’اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں کی توفیق دے۔ اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کی توفیق دے اور دنیا کو، دنیاوی بڑی حکومتوں کو عقل سے اپنی پالیسیاں بنانے اور آئندہ کے لائحہ عمل بنانے کی توفیق عطا فرمائے‘‘
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍اپریل2020ء بمطابق 24؍شہادت 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک ،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ﴿۱۸۴﴾ۙ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸۵﴾ شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٮکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۱۸۶﴾
(البقرۃ: 184تا 186)
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو!تم پر (بھی) روزوں کا رکھنا (اسی طرح) فرض کیا گیا ہے جس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تا کہ تم (روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے )بچو۔
پھر اگلی آیت کا ترجمہ ہے کہ (سو تم روزے رکھو ) چند گنتی کے دن۔ اور تم میں سے جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو( اسے) اَور دنوں میں تعداد( پوری کرنی) ہوگی اور ان لوگوں پر جو اس (یعنی روزہ) کی طاقت نہ رکھتے ہوں (بطور فدیہ) ایک مسکین کا کھانا دینا (بشرط استطاعت ) واجب ہے اور جو شخص پوری فرمانبرداری سے کوئی نیک کام کرے گا تو یہ اس کے لیے بہتر ہوگا اور اگر تم علم رکھتے ہو تو (سمجھ سکتے ہو کہ ) تمہارا روزے رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے۔
رمضان کا مہینہ وہ (مہینہ) ہے جس کے بارے میں قرآن (کریم ) نازل کیا گیا ہے۔ (وہ قرآن ) جو تمام انسانوں کے لیے ہدایت (بنا کر بھیجا گیا )ہے اور جو کھلے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے۔( ایسے دلائل) جو ہدایت پیدا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی (قرآن میں ) الٰہی نشان بھی ہیں۔ اس لیے تم میںسے جو شخص اس مہینہ کو (اس حال میں) دیکھے (کہ نہ مریض ہو نہ مسافر ) ہو اسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اس پر اور دنوں میں تعداد (پوری کرنی واجب ) ہوگی۔ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے تنگی نہیں چاہتا اور(یہ حکم اس نے اس لیے دیا ہے کہ تم تنگی میں نہ پڑو اور ) تا کہ تم تعداد کو پورا کر لو اور اس (بات) پر اللہ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے اور تا کہ تم (اس کے ) شکر گزار بنو۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے کل سے یہاں رمضان شروع ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے ہماری روحانی ترقی کے لیے رکھے ہیں۔ قرآن کریم کی جو پہلی آیت مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں یہی فرمایا کہ روزے تم پر اس لیے فرض کیے گئے ہیں تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو اور تقویٰ کیا ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کاربند ہو جائے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 210)
یعنی امانتوں اور عہدوں کے باریک در باریک پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے پھر ان کی ادائیگی کرنے والا ہو اور اس کا پابند ہو جائے۔ پس یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ حقوق اللہ کیا ہیں اور حقوق العباد کیا ہیں؟ اس کی فہرست بنانے لگیں تو انسان پریشان ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ہے جو ہم ادا نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ کے جتنے ہم پر احسان ہیں اس کا حق بنتا ہے کہ اس کی شکر گزاری کی جائے۔ یہ شکر گزاری کا حق ہم ادا نہیں کرتے اور نہ کر سکتے ہیں اور اس کے بغیر ہی اکثر لوگ تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے چلے جاتے ہیں جیسے کہ یہ ہمارا حق ہے حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جو ہماری حالتوں اور ناشکرگزاری کے باوجود ہمیں نوازتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے عہد ہیں جو ہم نے خدا تعالیٰ سے کیے ہیں ان کو ہم پورا نہیں کرتے۔ مخلوق کے حقوق ہیں، والدین کے حقوق ہیں، ہمسائے کے حقوق ہیں، مسافروں کے حقوق ہیں، معاشرے کے عمومی حقوق ہیں جنہیں ہم ادا نہیں کرتے۔ جنہیں ہمیں ادا کرنے کا حکم ہے اور ہم اس کا حق ادا نہیں کرتے۔ پس اگر ہم باریکی سے جائزہ لیں تو نہ ہم اللہ تعالیٰ کے حق ادا کر رہے ہیں اور نہ بندوں کے۔ میں نے ایک عمومی فہرست بنوائی تھی جس میں بعض موٹے موٹے حقوق ہی رکھے تھے تو جو بندوں کے حقوق ہیں، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ہیں وہ بھی تقریباً اٹھائیس انتیس بن گئے تھے۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اصل ایمان تو یہ ہے اور تقویٰ کا تقاضا تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے گئے عہد بھی پورے کرو اور باریکی میں جا کر پورے کرو اور اسی طرح اس کی امانتوں کے حق بھی ادا کرو اور باریکی میں جا کر ادا کرو۔ اسی طرح مخلوق کے عہد بھی باریکی سے ادا کرو اور اس کی امانتوں کی بھی ایک فکر کے ساتھ ادائیگی کروتب کہا جا سکتا ہے کہ تقویٰ ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ اس لیے آیا ہے، روزے رکھنے کی طرف اس لیے تمھیں توجہ دلائی گئی ہے کہ سال کے گیارہ مہینے میں جو کوتاہیاں کمیاں ان حقوق کے ادا کرنے میں ہو گئی ہیں اس مہینے میں خالصۃً اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی خاطر جائز چیزوں کو بھی چھوڑتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی خاطر بھوک پیاس برداشت کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں پہلے سے بڑھ کر توجہ دیتے ہوئے، بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف خاص طور پر توجہ دیتے ہوئے پورا کرو اور جب یہ کرو گے تو اس کا نام تقویٰ ہے۔ اور یہی رمضان کا اور روزوں کا مقصد ہے اور جب انسان اس نیت اور اس مقصد کے حصول کے لیے روزے رکھے گا اور رمضان میں سے گزرے گا اور نیک نیت ہو کر گزرے گا تو پھر یہ تبدیلی عارضی نہیں ہو گی بلکہ ایک مستقل تبدیلی ہو گی۔
پھر حقوق اللہ کی ادائیگیوں کی طرف بھی مستقل توجہ رہے گی۔ عبادتوں کے حق ادا کرنے کی طرف بھی مستقل توجہ رہے گی۔ دنیا کی مصروفیات اور لغویات غلبہ نہیں کریں گی اور انسانوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی عمومی توجہ رہے گی۔ اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہم لوگوں کے حق مارنے والے نہیں ہوں گے۔ اگر ہم اس نیت سے اور اس ارادے سے روزوں کے مہینے میں داخل نہیں ہو رہے تو ہمارا رمضان میں داخل ہونا بے فائدہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر ارشاد فرمایا کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کا فضل چاہتے ہوئے روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے اور آگ کے درمیان ستر خریف کا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے۔
(صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب فضل الصوم فی سبیل اللہ حدیث 2840)
یعنی خزاں یا سرما کا موسم ہے تو جو فاصلہ ایک موسم اور اگلے موسم کے درمیان ہے وہ اتنا فاصلہ ہے کہ ستر خریف کا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے یعنی ایک خریف اور دوسرے خریف میں ایک سال کا فاصلہ ہے تو اتنا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے جو ستر سالوں کے برابر ہے ۔ تو یہ ہیں روزے کی برکات اور یہ ہے وہ تقویٰ جو روزہ پیدا کرتا ہے۔ یعنی روزہ صرف تیس دن کے لیے تقویٰ پیدا نہیں کرتا بلکہ حقیقی روزہ ستر سال تک اپنا اثر رکھتا ہے اور اس حساب سے اگر ہم دیکھیں تو روزے کی فرضیت ہونے کے بعد ایک انسان پہ، ایک بالغ مسلمان پہ جب روزہ فرض ہوتا ہے اس کے بعد جو روزے سے حقیقی فیض اٹھانے والا ہے اور اس کی روح کو سمجھ کر روزے رکھنے والا ہے وہ تمام عمر کے لیے ہی ان برکات سے فیض پاتا رہے گا جو روزے میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں اور تقویٰ کی راہوں کو تلاش کرتا رہے گا جو روزے کا مقصد ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جائے گا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے والا بنتا چلا جائے گا۔
اگر ہم تصور کریں کہ ایسے روزے دار ہمارے معاشرے میں پیدا ہو جائیں تو وہ کس قدر خوبصورت معاشرہ ہو گا جہاں اللہ تعالیٰ کے حق بھی ادا کیے جا رہے ہوں گے ا ور بندوں کے حق بھی ادا کیے جا رہے ہوں گے اور یہی وہ حسین معاشرہ ہے جو ہر مومن قائم کرنے کی خواہش رکھتا ہے بلکہ ہر انسان اس معاشرے کو قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا جہاں تک اس کے اپنے حقوق کا سوال ہے وہ عموماً اپنے لیے تو یہ پسند کرتا ہے چاہے دوسرے کے لیے اس کو خیال نہ آئے لیکن اسلام کہتا ہے کہ دوسروں کے لیے بھی تم نے یہ معاشرہ قائم کرنا ہے۔ صرف اپنی سہولیات نہیں دیکھنی، اپنے مفادات نہیں دیکھنے، اپنے حقوق نہیں دیکھنے بلکہ دوسروں کے حقوق کی بھی حفاظت کرنی ہے، ان کا بھی خیال کرنا ہے۔
آج کل وائرس کی جو وبا پھیلی ہوئی ہے اس نے حکومتی قانون کے تحت اکثر لوگوں کو گھروں میں بند کر دیا ہے اور اس لحاظ سے یہاں ایک اچھی بات جماعت میں بھی اور بعض جگہوں پہ لوگوں میں بھی پیدا ہو رہی ہے اوران کو خیال آ رہا ہے ۔ لیکن دنیا کے ہر ملک میں جماعت میں خاص طور پر اس طرف توجہ ہے۔خدام الاحمدیہ کے تحت، والنٹیئرز کے تحت جہاں جہاں لوگوں کوجنس پہنچانے کے لیے یا دوسری سہولیات پہنچانے کے لیے، دوائیاں پہنچانے کے لیے مدد کی ضرورت ہے وہ کر رہے ہیں۔ تو یہ جو حق ادا کیے جا رہے ہیں یہ ایک ایسا نمونہ پیش کر رہے ہیں جس سے اپنے تو فائدہ اٹھا ہی رہے ہیں غیر بھی فائدہ اٹھا کر متاثر ہورہے ہیں۔ پس انسانی خدمت کے لیے یہ سوچ جو آج کل پیدا ہوئی ہے یہ سوچ بھی ہمیشہ ہمارے اندر قائم رہنے والی ہونی چاہیے نہ کہ صرف ہنگامی حالات کے لیے۔
بہرحال اس کے علاوہ روحانی فائدے کیا ہیں؟ لوگ لکھتے ہیں کہ اس وجہ سے ہمارے گھر کا ایک نیا ماحول بن گیا ہے کہ ہم گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ نمازیں باجماعت ادا ہوتی ہیں۔ نمازوں کے بعد مختصر درس و تدریس بھی ہوتا ہے۔ خطبہ اکٹھے بیٹھ کر سنتے ہیں اور بعض دوسرے پروگرام ایم ٹی اے پر دیکھتے ہیں۔ اگر یہ لاک ڈاؤن مزید لمبا ہوتا ہے ، اگریہ پورے رمضان تک حاوی رہتا ہے تو پھر اس رمضان میں اس طرح باجماعت نمازیں اور درس و تدریس کو مزید توجہ سے ادا کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ بچوں کو چھوٹے چھوٹے مسائل بھی سکھائیں اور بتائیں۔ جیسا کہ پہلے بھی میں نے ایک خطبے میں کہا تھا کہ اس طرح اپنا علم بھی بڑھائیں اور بچوں کا علم بھی بڑھائیں اور دعاؤں کی طرف توجہ دے کر خاص طور پر اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے بھی اور دنیا کے لیے بھی رحم مانگیں۔ پس یہ دن جو اللہ تعالیٰ ہمیں دے رہا ہے اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس وبا نے عموماً گھروں میں جو ماحول پیدا کر دیا ہے جیسا کہ مَیں نے کہا اس میں مزید بہتری کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہیے نہ کہ ان دنیادار گھروں کی طرح ہو جائیں جن گھروں کے بارے میں عموماً آتا ہے کہ گھروں میں لڑائیاں اور فساد بڑھ گئے ہیں اور بے چینیاں بڑھ گئی ہیں۔ ایک نیک ماحول میں تو اس نیکی کی وجہ سے جس کے کرنے کی طرف ہمیں توجہ دلائی گئی ہے ہمارے ماحول بہتر ہونے چاہئیں۔ بعض دفعہ مرد اس ماحول کا مکمل حصہ نہیں بنتے جو ایک دینی ماحول گھروں میں پیدا ہو رہا ہے اور بعض دفعہ عورتیں اپنی ترجیحات مختلف رکھتی ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ ادراک ہی نہیں ہے کہ ایسے حالات میں کس قدر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور یہی وہ وقت ہے جب بچوں کو بھی زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کے قریب لایا جا سکتا ہے۔ پس ان دنوں میں ہمارے ہر گھر کو، ہمارے ہر احمدی گھر کو ان دنوں میں اس طرف بہت توجہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کا پیار جذب کر سکیں اور انجام بخیر ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ کی حقیقت کو سمجھنے کی اور اس پر کاربند ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف انداز میں مختلف مواقع پر تقویٰ کی وضاحت کی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانے کا حصن ِحصین ہیں۔ وہ مضبوط جائے پناہ اور قلعہ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی پا کر اسلام کی حقیقی تعلیم ہم پر واضح کر کے بڑے درد سے ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے دکھا کر اس جائے پناہ میں داخل ہونے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ پس ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم جو اس بات کا عہد کر کے آپؑ کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں کہ آپؑ کی باتوں کو سن کر اس پر عمل کریں گے، اس عہد کو پورا کریں جو ہم نے آپؑ سے کیا ہے۔ آپؑ کے درد سے پُر الفاظ پر غور کر کے ان پر عمل کریں اور جہاں ہم عہدوں کو پورا کرنے والے بنیں وہاں اپنی دنیا و عاقبت بھی سنوارنے والے بن جائیں۔ اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض اقتباسات پیش کروں گا جن کو مختلف مجالس میں آپؑ نے افرادِ جماعت کے سامنے ہماری روحانی ترقی اور تقویٰ میں ترقی کے لیے بیان فرمایا۔ ایک مجلس میں اس بات کو وضاحت سے بیان فرماتے ہوئے کہ تقویٰ کیا ہے اور کیونکر حاصل ہو سکتا ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ضروری امر یہ ہے کہ پہلے یہ سمجھ لے کہ تقویٰ کیا چیز ہے اور کیونکر حاصل ہو تا ہے۔ تقویٰ تو یہ ہے کہ باریک درباریک پلیدگی سے بچے اور اس کے حصول کا یہ طریق ہے کہ انسان ایسی کامل تدبیر کرے کہ گناہ کے کنارہ تک نہ پہنچے اور پھر نری تدبیر ہی کو کافی نہ سمجھے بلکہ ایسی دعا کرے جواس کا حق ہے کہ گداز ہو جاوے۔ بیٹھ کر، سجدہ میں،رکوع میں، قیام میں اور تہجد میں غرض ہر حالت اور ہر وقت اسی فکر ودعا میں لگا رہے کہ اللہ تعالیٰ گناہ اور معصیت کی خباثت سے نجات بخشے۔‘‘ فرمایا کہ ’’اس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے کہ انسان گناہ اور معصیت سے محفوظ اور معصوم ہو جاوے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں راست باز اور صادق ٹھہر جاوے ۔‘‘ فرمایا ’’لیکن یہ نعمت نہ تو نری تد بیر سے حاصل ہو تی ہے اور نہ نری دعا سے۔‘‘ نہ کوشش کافی ہے۔ نہ صرف دعا کافی ہے۔ ’’بلکہ یہ دعا اور تدبیر دونوں کے کامل اتحاد سے حاصل ہو سکتی ہے۔‘‘ جب تک دونوں چیزوں کی انتہا نہیں کرو گے یہ چیز نہیں مل سکتی۔ فرمایا کہ ’’جو شخص نری دعا ہی کرتا ہے اور تد بیر نہیں کرتا وہ شخص گناہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کو آزماتا ہے ۔ ایسا ہی جو نری تد بیر کرتا ہے اور دعا نہیں کرتا وہ بھی شوخی کرتا اور خدا تعالیٰ سے استغنا ظاہر کر کے اپنی تجویز اور تدبیر اور زورِ بازو سے نیکی حاصل کرنا چاہتا ہے۔‘‘ زورِ بازو سے نیکیاں نہیں حاصل ہو سکتیں۔ پھر فرمایا ’’لیکن مو من‘‘ اور سچے مومن ’’اور سچے مسلمان کا یہ شیوہ نہیں۔ وہ تدبیر اور دعا دونوں سے کا م لیتا ہے۔ پوری تد بیر کرتا ہے۔‘‘ جو ظاہری اسباب ہیں ان کو پورا کرتا ہے ’’اور پھر معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ کر دعا کرتا ہے اور یہی تعلیم قرآن شریف کی پہلی ہی سورت میں دی گئی ہے چنانچہ فر مایا ہے۔ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۔ جو شخص اپنے قویٰ سے کام نہیں لیتا وہ نہ صرف اپنے قویٰ کو ضائع کرتا اور ان کی بے حرمتی کرتاہے بلکہ وہ گناہ کرتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 6 صفحہ 337-338ایڈیشن 1984ء)
پھر اس کی مزید تفصیل اس طرح بیان فرمائی کہ
’’جو کچھ قویٰ خدا تعالیٰ نے انسان کو عطا کیے ہیں ان سے پورا کام لے کر پھر وہ انجام کو خدا کے سپرد کرتا ہے اور خدا تعالیٰ سے عرض کرتا ہے کہ جہاں تک تو نے مجھے توفیق عطا کی تھی اس حد تک تو میں نے اس سے کام لے لیا۔ یہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے معنی ہیں۔ اور پھر اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہہ کر خدا سے امداد چاہتا ہے کہ باقی مرحلوں کے لیے میں تجھ سے امداد طلب کرتا ہوں۔‘‘
(ملفوظات جلد 6 صفحہ 338-339 حاشیہ ایڈیشن 1984ء)
لیکن ہمیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہمارے دلوں کے حال اور ہمارے ہر عمل سے واقف ہے اس لیے اپنی کوشش کو انتہا تک پہنچا کر جس حد تک توفیق ہے اس حد تک کوشش کر کے پھر اس کی مدد کا بھی طلبگار ہوا جا سکتا ہے۔ پس اس معاملے میں بھی اپنے نفس کو اچھی طرح ٹٹولنے کی ضرورت ہے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا تقویٰ سے ہم کام لے رہے ہیں کہ نہیں۔ پھر آپؑ نے فرمایا:
’’اس میں شک نہیں ہے کہ انسان بعض اوقات تد بیر سے فائدہ اٹھا تا ہے لیکن تد بیر پر کلّی بھروسا کرنا سخت نادانی اور جہالت ہے ۔ جب تک تدبیر کے ساتھ دعا نہ ہو کچھ نہیں اور دعا کے ساتھ تدبیر نہ ہو تو کچھ فائدہ نہیں۔ جس کھڑکی کی راہ سے معصیت آتی ہے پہلے ضروری ہے کہ اس کھڑکی کو بندکیا جاوے۔‘‘ پھر جس سوراخ سے یا جس جگہ سے گناہ اندر آتا ہے جو چیز گناہ کی، نافرمانی کی، دین سے دور ہٹنے کی وجہ بنتی ہے پہلے ضروری ہےکہ اس وجہ کو دور کیا جائے۔ فرمایا کہ اس کھڑکی کو بند کیا جاوے۔ ’’پھر نفس کی کشاکش کے لیے دعا کرتا رہے۔ اسی کے واسطے کہا ہے ۔
وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا۔‘‘ (العنکبوت:70)
فرمایا کہ ’’اس میں کس قدر ہدایت تدابیر کو عمل میں لا نے کے واسطے کی گئی ہے۔ تدابیر میں خدا کو نہ چھوڑے۔ دوسری طرف فرماتا ہے
اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۔ (المؤمن:61)
پس اگر انسان پورے تقوے کا طالب ہے تو تد بیر کرے اور دعا کرے۔ دونوں کو جو بجا لانے کا حق ہے بجا لائے۔ تو ا یسی حالت میں خدا اس پر رحم کرے گا لیکن اگر ایک کرے گا اور دوسری کو چھوڑے گا تو محروم رہے گا۔‘‘
(ملفوظات جلد 6 صفحہ 338-339ایڈیشن 1984ء)
پھر اس کو مزید کھولتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’پس انسان ایسے طریق سے تقویٰ پر قائم ہوتا ہے۔‘‘ یعنی تدبیر اور دعا سے ۔ پھر فرمایا ’’اور تقویٰ اللہ ہر ایک عمل کی جڑ ہے۔‘‘ فرمایا کہ انسان ایسے طریق سے تقویٰ پر قائم ہوتا ہے۔ وہ کون سا طریق ہے؟ جو پہلے بیان ہوا ہے یعنی تدبیر بھی اور دعا بھی۔ ایسے طریق سے تقویٰ پر قائم ہوتا ہے اور تقوی اللہ ہر ایک عمل کی جڑ ہے۔ ’’جو اس سے خالی ہے وہ فاسق ہے۔ تقویٰ سے زینت اعمال پیداہوتی ہے۔‘‘ تقویٰ ہی ہے جو اعمال کی خوبصورتی پیدا کرتا ہے۔ ’’اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب ملتا ہے اور اسی کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ کا ولی بن جاتا ہے۔ چنانچہ فرما یا ہے۔
اِنْ اَوْلِيَآؤُهٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ۔‘‘ (الانفال :35)
پھر اِنْ اَوْلِيَآؤُهٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ کی وضاحت مزید اس طرح فرمائی کہ
’’ولایت کا حصہ تقویٰ ہی پر ہے۔ خدا تعالیٰ سے ترساں اور لرزاں ہو کر اگر اسے حاصل کرو گے تو کمال تک پہنچ جاؤ گے۔‘‘
(ملفوظات جلد 6 صفحہ 340 مع حاشیہ)
اللہ کے اولیاء بننا ہے تو وہ تقویٰ سے ملتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رہے گا ،اس سے ڈرتے رہو گے تو پھر انسان اس کمال تک پہنچ سکتا ہے۔ پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’کامل طور پر جب تقویٰ کا کوئی مرحلہ باقی نہ رہے تو پھر یہ اولیاء اللہ میں داخل ہو جاتا ہے اور تقویٰ حقیقت میں اپنے کامل درجہ پر ایک موت ہے کیونکہ جب نفس کی سارے پہلوؤں سے مخالفت کرے گا تو نفس مر جاوے گا۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ
مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا۔‘‘
فرمایا کہ ’’نفس ظاہری لذات کا دلدادہ ہوتا ہے ، پنہانی لذات سے یہ بالکل بے خبر ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی جو لذات ہیں جو روحانی لذات ہیں وہ تو چھپی ہوئی لذات ہیں ان کو تو جانتا ہی نہیں۔ ظاہری دنیا کی چکاچوند ہے انہی کو انسان جانتا ہے اور نفس انہی کو چاہتا ہے۔ نفس کو خبردار کرنے کے لیے فرمایا کہ ’’اسے خبر دار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اول ظاہری لذات پر ایک موت وارد ہو اور پھر نفس کو پنہانی لذات کا علم ہو۔‘‘ ظاہری لذات جو ہیں ان پر موت وارد ہو تو پھر نفس کو پنہانی لذات کا علم ہو گا۔ فرمایا کہ ’’اس وقت الٰہی لذت جو کہ جنتی زندگی کا نمونہ ہے شروع ہوگی۔‘‘ جب چھپی ہوئی لذات کا علم ہونا شروع ہو گا تو جنّتی زندگی کا نمونہ شروع ہو گا۔ پھر آپؑ نے اسی حوالے سے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ پس ’’ہماری جماعت کو چاہیے کہ نفس پر موت وارد کرنے‘‘ یہ کوئی بڑے اولیاء اللہ اور بہت پائے کے پہنچے ہوئے لوگوں کو نصیحت نہیں ہے بلکہ جماعت کے عمومی افراد کو آپؑ کی نصیحت ہے ۔ یہ نہ سمجھے کہ اس مقام پر پہنچنے کے لیے، اللہ تعالیٰ کے لیے ایک خاص مقام چاہیے اور ہر نفس نہیں پہنچتا۔ آپؑ نے جماعت کو عمومی نصیحت فرمائی ہے۔ فرمایا پس ’’ہماری جماعت کو چاہیے کہ نفس پر موت وارد کرنے اور حصول تقویٰ کے لیے وہ اول مشق کریں جیسے بچے خوشخطی سیکھتے ہیں تو اوّل اوّل ٹیڑھے حرف لکھتے ہیں لیکن آخر کار مشق کرتے کرتے خود ہی صاف اور سیدھے حروف لکھنے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح ان کو بھی مشق کرنی چاہیے۔ جب اللہ تعالیٰ ان کی محنت کو دیکھے گا تو خود ان پر رحم کرے گا۔‘‘ اور یہ جو پہلے بیان ہوا تھا وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا اس کی مزید وضاحت فرماتے ہیں کہ ’’وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا میں مجاہدہ سے مراد یہی مشق ہے۔‘‘ محنت کرے انسان اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ رحم کرتا ہے اور اس کو پھل لگاتا ہے۔ فرمایا کہ اس میں مجاہدے سے مراد یہی مشق ہے جس طرح ایک بچہ مشق کرتا ہے ’’کہ ایک طرف دعا کرتا ہے دوسری طرف کامل تدبیر کرے آخر اللہ تعالیٰ کا فضل آ جاتا ہے اور نفس کا جوش و خروش دب جاتا ہے اور ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور ایسی حالت ہو جاتی ہے جیسے آگ پر پانی ڈال دیا جاوے۔ بہت سے انسان ہیں جو نفسِ امارہ ہی میں مبتلا ہیں۔‘‘
پھر جماعت کی اندرونی اصلاح کے لیے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں باہم نزاعیں بھی ہو جاتی ہیں۔‘‘ آپس میں جھگڑے ہیں۔ رنجشیں ہیں۔ دوریاں ہیں وہ ہو جاتی ہیں ’’اور معمولی نزاع سے پھر ایک دوسرے کی عزت پر حملہ کرنے لگتا ہے اور اپنے بھائی سے لڑتا ہے۔ یہ بہت ہی نامناسب حرکت ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک اگر غلطی کا اعتراف کر لے تو کیا حرج ہے؟‘‘ فرمایا کہ ’’بعض آدمی ذرا ذرا سی بات پر دوسرے کی ذلت کا اقرار کیے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ان باتوں سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ خدا تعالیٰ کا نام ستّار ہے۔ پھر یہ کیوں اپنے بھائی پر رحم نہیں کرتا اور عفو اور پردہ پوشی سے کام نہیں لیتا۔ چاہیے کہ اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرے اور اس کی عزت و آبرو پر حملہ نہ کرے۔‘‘
پھر فرمایا کہ ’’ابھی تک بہت سے آدمی جماعت میں ایسے ہیں کہ تھوڑی سی بات بھی خلاف نفس سن لیتے ہیں تو ان کو جوش آ جاتا ہے حالانکہ ایسے تمام جوشوں کو فرو کرنا بہت ضروری ہے۔‘‘ ان کو ختم کرنا بہت ضروری ہے ’’تا کہ حلم اور بردباری طبیعت میں پیدا ہو۔‘‘ فرمایا ’’دیکھا جاتا ہے کہ جب ایک ادنیٰ سی بات پر بحث شروع ہوتی ہے تو ایک دوسرے کو مغلوب کرنے کی فکر میں ہوتا ہے کہ ‘‘ کس طرح مَیں دوسرے کو نیچا دکھاؤں’’کسی طرح میں فاتح ہو جاؤں۔ ایسے موقعہ پر جوش نفس سے بچنا چاہیے اور رفعِ فساد کے لیے ادنیٰ ادنیٰ باتوں میں دیدہ دانستہ خود ذلت اختیار کر لینی چاہیے۔ اس امر کی کوشش ہرگز نہ کرنی چاہیے کہ مقابلہ میں اپنے دوسرے بھائی کو ذلیل کیا جاوے۔‘‘
(ملفوظات جلد 6 صفحہ 341تا 342)
فرمایا کہ ’’یہ بڑی رعونت کی جڑ اور بیماری ہے کہ دوسرے کی خطا پکڑ کر اشتہار دے دیا جاوے۔‘‘ فرمایا کہ ’’اپنے بھائی پر فتح پانے کا خیال رعونت کی ایک جڑ ہے۔‘‘ رعونت کی جڑ پہلے بیان فرمائی تھی کہ دوسرے کی خطا پکڑ کر اشتہار دے دیا جائے، مزید وضاحت فرمائی کہ ’’اپنے بھائی پر فتح پانے کا خیال بھی رعونت کی ایک جڑ ہے اور بڑی بھاری مرض ہے کہ وہ اپنے ایک بھائی کے عیب کے مشتہر کرنے کی ترغیب دلاتی ہے۔‘‘ فرمایا ’’ایسے امور سے نفس خراب ہو جاتا ہے ۔اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ غرض یہ سب امور تقویٰ میں داخل ہیں اور اندرونی بیرونی امور میں تقویٰ سے کام لینے والا فرشتوں میں داخل کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں کوئی سرکشی باقی نہیں رہ جاتی۔ تقویٰ حاصل کرو کیونکہ تقویٰ کے بعد ہی خدا تعالیٰ کی برکتیں آتی ہیں۔ متقی دنیا کی بلاؤں سے بچایا جاتا ہے۔ خدا ان کا پردہ پوش ہو جاتا ہے۔ جب تک یہ طریق اختیار نہ کیا جاوے کچھ فائدہ نہیں۔ ایسے لوگ میری بیعت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔‘‘
فرمایا کہ ’’یاد رکھو بیعت کا زبانی اقرار کچھ شئے نہیں ہے اللہ تعالیٰ تزکیہ نفس چاہتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ فائدہ تو کوئی نہیں ہو گا۔ ’’فائدہ ہو بھی تو کس طرح جبکہ ایک ظلم تو اندر ہی رہا۔ اگر وہی جوش، رعونت، تکبر، عُجب، ریاکاری، سریع الغضب ہونا باقی ہے جو دوسروں میں بھی ہے تو پھر فرق ہی کیا ہے؟‘‘
اس کی مزید وضاحت اس طرح بیان ہوئی ہے ’’اس لیے اپنے نفسوں میں تبدیلی کرو اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ حاصل کرو۔‘‘ فرمایا کہ ’’سعید اگر ایک ہی ہو اور وہ سارے گاؤں میں ایک ہی ہو تو لوگ کرامت کی طرح اس سے متاثر ہوں گے۔‘‘ نیک آدمی ہو اور سعید فطرت ہو، لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہو، اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے والا ہو، عاجز ہو تو فرمایا کہ لوگ کرامت کی طرح اس سے متاثر ہوں گے۔ یہ بھی تبلیغ کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔ فرمایا ’’نیک انسان جو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر نیکی اختیار کرتا ہے اس میں ایک ربانی رعب ہوتا ہے اور دلوں میں پڑ جاتا ہے کہ یہ باخدا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’خواہ کیسی ہی دشمنی ہو رفتہ رفتہ سب خود بخود اس کے تابع ہو جاویں گے اور بجائے حقارت کے اس کی عظمت کرنے لگ جاویں گے۔‘‘ فرمایا کہ ’’یہ بالکل سچی بات ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے خدا تعالیٰ اپنی عظمت سے اس کو حصہ دیتا ہے اور یہی طریق نیک بختی کا ہے۔ پس یاد رکھو کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھائیوں کو دکھ دینا ٹھیک نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمیع اخلاق کے متمم ہیں اور اس وقت خدا تعالیٰ نے آخری نمونہ آپؐ کے اخلاق کا قائم کیا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’اس وقت بھی اگر وہی درندگی رہی تو پھر سخت افسوس اور کم نصیبی ہے۔ پس دوسروں پر عیب نہ لگاؤ کیونکہ بعض اوقات انسان دوسرے پر عیب لگا کر خود اس میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اگر وہ عیب اس میں نہیں۔‘‘ اگر وہ عیب اس میں نہیں ہے اور پھر تم نے الزام لگایا ہے تو خود اس میں گرفتار ہو جاؤ گے۔ ’’لیکن اگر وہ عیب سچ مچ اس میں ہے۔‘‘ جس پر تم الزام لگا رہے ہو، جس کے بارے میں کہہ رہے ہو کہ اس میں یہ عیب ہے تو فرمایا اگر سچ مچ اس میں ہے۔ ’’تو اس کا معاملہ پھر خدا تعالیٰ سے ہے۔‘‘ پھر بھی تمہیں عیب لگانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر برائی ہے تو اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے اور اگر نہیں ہے اور تم کہہ رہے ہو تو پھر وہ تمہارے اوپر پڑ سکتا ہے۔ پھر فرمایا ’’بہت سے آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے بھائیوں پر معاً ناپاک الزام لگا دیتے ہیں ان باتوں سے پرہیز کرو۔ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاؤ اور…… اپنی بیویوں سے عمدہ معاشرت کرو۔ ہمسایوں سے نیک سلوک کرو۔ اور اپنے بھائیوں سے نیک معاشرت کرو اور سب سے پہلے شرک سے بچو کہ یہ تقویٰ کی ابتدائی اینٹ ہے۔‘‘
(ماخوذ از ملفوظات جلد 6 صفحہ 340 تا 344 مع حاشیہ ایڈیشن 1984ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’تقویٰ کے معنی ہیں بدی کی باریک راہوں سے پرہیز کرنا۔ مگر یاد رکھو نیکی اتنی نہیں ہے کہ ایک شخص کہے کہ مَیں نیک ہوں اس لیے کہ مَیں نے کسی کا مال نہیں لیا، نقب زنی نہیں کی، چوری نہیں کرتا، بدنظری اور زنا نہیں کرتا۔ ایسی نیکی عارف کے نزدیک ہنسی کے قابل ہے کیونکہ اگر وہ ان بدیوں کا ارتکاب کرے اور چوری یا ڈاکہ زنی کرے تو وہ سزا پائے گا۔ پس یہ کوئی نیکی نہیں کہ جو عارف کی نگاہ میں قابل قدر ہو بلکہ اصلی اور حقیقی نیکی یہ ہے کہ نوع انسان کی خدمت کرے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں کامل صدق اور وفا داری دکھلائے اور اس کی راہ میں جان تک دے دینے کو تیار ہو۔ اسی لیے یہاں فرمایا ہے
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ(النحل:129)
یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو بدی سے پرہیز کرتے ہیں اور ساتھ ہی نیکیاں بھی کرتے ہیں۔ یہ خوب یاد رکھو کہ نرا بدی سے پرہیز کرنا کوئی خوبی کی بات نہیں جب تک اس کے ساتھ نیکیاں نہ کرے۔‘‘
(ملفوظات جلد 6 صفحہ 241-242ایڈیشن 1984ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں : ’’یقیناً سمجھو کہ ہر ایک پاکبازی اور نیکی کی اصلی جڑ خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ہے۔ جس قدرانسا ن کا ایمان باللہ کمزور ہوتا ہے اسی قدر اعمالِ صالحہ میں کمزوری اور سستی پائی جاتی ہے۔ لیکن جب ایمان قوی ہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ پہ ایمان مضبوط ہو گا تو اعمال بھی اچھے ہوں گے۔ ’’جب ایمان قوی ہو اور اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام صفات کاملہ کے ساتھ یقین کر لیا جائے اسی قدر عجیب رنگ کی تبدیلی انسان کے اعمال میں پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی صفات پر کامل یقین پیدا ہو جائے تو ایک عجیب رنگ کی تبدیلی انسان کے اعمال میں پیدا ہو جاتی ہے۔ ’’خدا تعالیٰ پر ایمان رکھنے والا گناہ پر قادر نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ ایمان اس کی نفسانی قوتوں اور گناہ کے اعضاء کو کاٹ دیتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’دیکھو اگر کسی کی آنکھیں نکال دی جائیں تو وہ آنکھوں سے بدنظری کیونکر کر سکتا ہے اور آنکھوں کا گناہ کیسے کرے گا ؟ اور اگر ایسا ہی ہاتھ کاٹ دیے جائیں پھر وہ گناہ جو ان اعضاء سے متعلق ہیں کیسے کر سکتا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’ٹھیک اسی طرح پر جب ایک انسان نفس مطمئنہ کی حالت میں ہوتا ہے تو نفس مطمئنہ اسے اندھا کر دیتا ہے اور اس کی آنکھوں میں گناہ کی قوت نہیں رہتی۔ وہ دیکھتا ہے پر نہیں دیکھتا کیونکہ آنکھوں کے گناہ‘‘ یعنی دیکھتا تو ہے مگر بدنظری کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ گناہ کی نظر سے ’’نہیں دیکھتا کیونکہ آنکھوں کے گناہ کی نظر سلب ہو جاتی ہے۔ وہ کان رکھتا ہے مگر بہرہ ہوتا ہے۔‘‘ سنتا ہےلیکن غلط باتیں نہیں سنتا۔ ’’اور وہ باتیں جو گناہ کی ہیں نہیں سن سکتا۔ اسی طرح پر اس کی تمام نفسانی اور شہوانی قوتیں اور اندرونی اعضاء کاٹ دیے جاتے ہیں۔ اس کی ساری طاقتوں پر جن سے گناہ صادر ہو سکتا تھا ایک موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ بالکل ایک میت کی طرح ہو تا ہے اور خدا تعالیٰ ہی کی مرضی کے تابع ہوتا ہے وہ اس کے سوا ایک قدم نہیں اٹھا سکتا۔ یہ وہ حالت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کامل اطمینان اسے دیا جاتا ہے۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یہی وہ مقام ہے جو انسان کا اصل مقصود ہونا چاہیے۔‘‘ پھر اس بارے میں کہ جو انسان کا اصل مقصود ہونا چاہیے پھر آگے جماعت کو فرمایا ’’اور ہماری جماعت کو اس کی ضرورت ہے اور اطمینان کامل کے حاصل کرنے کے واسطے ایمان کامل کی ضرورت ہے۔ پس ہماری جماعت کا‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری جماعت کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان حاصل کریں۔‘‘
(ملفوظات جلد 6صفحہ 244-245)
پھر فرماتے ہیں آپؑ ’’کوئی پاک نہیں بن سکتا جب تک خدا تعالیٰ نہ بناوے۔ جب خدا تعالیٰ کے دروازہ پر تذلّل اور عجز سے اس کی روح گرے گی تو خدا تعالیٰ اس کی دعا قبول کرے گا اور وہ متقی بنے گا اور اس وقت وہ اس قابل ہو سکے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو سمجھ سکے ۔ اس کے بغیر جو کچھ وہ دین دین کر کے پکارتا ہے اور عبادت وغیرہ کرتا ہے وہ ایک رسمی بات اور خیالات ہیں کہ آبائی تقلید سے سن سنا کر بجا لاتا ہے۔‘‘ باپ دادا کر رہے تھے تو میں بھی کر رہا ہوں ’’کوئی حقیقت اور روحانیت اس کے اندر نہیں ہوتی۔‘‘
(ملفوظات جلد 6 صفحہ 228ایڈیشن 1984ء)
پس یہ ہیں وہ معیار ِتقویٰ اور یہ ہے وہ دین کو جاننے ،سمجھنے اور عمل کرنے کا معیار جسے حاصل کرنے کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں توجہ دلائی اور جس کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے اور اپنے عملوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے جھک کر اس کی مدد مانگنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہمیں ان معیاروں کو حاصل کرنے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توقعات پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہی تقویٰ ہے جو پھر اگلی آیات میں روزے کی اس کی چھوٹ کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں اس کے صحیح استعمال کی بھی توفیق دیتا ہے۔ یہ ہر انسان کی اپنی حالت پر اللہ تعالیٰ نے چھوڑا ہے بشرطیکہ تقویٰ سے کام لیا جائے۔ اگر روزے رکھنے کی طاقت نہیں، ایسی بیماری ہے جس میں روزہ برداشت کرنا مشکل ہے، ایسی بیماری ہے جس میں ڈاکٹر نے کہا ہے کہ روزہ نہیں رکھنا تو پھر فدیہ دے دو لیکن بہانے تلاش کر کے فدیے کا جواز پیدا نہ کرو بلکہ فرمایا کہ نیک کام کے لیے فرمانبرداری ضروری ہے۔ یہ دیکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس کام کو کرنے کا حکم دیا ہے۔ پس اگر گہرائی میں جا کر، تقویٰ پر چلتے ہوئے کوئی اپنا جائزہ لے تو پتا چلتا ہے کہ روزہ رکھنا بہتر ہے یا عارضی طور پر فدیہ دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پھر آگے مزید وضاحت فرما دی کہ مریض ہو یا سفر پر ہو تو روزہ نہ رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ تنگی نہیں چاہتا اور جب بیماری دور ہو جائے تو پھر چھوڑے ہوئے روزے پورے کرو۔ سفر کے دوران جو روزے چھوٹ گئے انہیں پورا کرو چاہے فدیہ دے بھی دیا ہو۔ پس گھوم پھر کر بات وہیں آ جاتی ہے کہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ وہ ہماری حالتوں کو جانتا ہے اپنے فیصلے کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے بہتر صورت پیدا کرے گا، بہتر نتائج پیدا کرے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آ گیا اور میں اس کا منتظر تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور وہ بوجہ بیماری کے روزہ نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے۔ فرمایا اس دنیا میں بہت لوگ بہانہ جُو ہیں، بہانے کرتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جس طرح اہلِ دنیا کو دھوکا دے لیتے ہیں ویسے ہی خدا کو فریب دیتے ہیں۔ دنیا والوں کو دھوکا دے لیا تو اللہ کو بھی دیا جا سکتا ہے۔ بہانہ جُو اپنے وجود سے آپ مسئلہ تراش کرتے ہیں۔ خود ہی مسئلہ بنا لیا اور تکلفات شامل کر کے ان کو صحیح گردانتے ہیں۔ بیچ میں تکلفات شامل کر لیے یہ ہو گیاوہ ہو گیا اور سمجھتے ہیں کہ روزہ چھوڑنے کی صحیح وجہ بیان ہو گئی۔ فرمایا لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ صحیح نہیں۔ فرمایا کہ تکلفات کا باب بہت وسیع ہے۔ بہانے بنانے ہیں یا عذر نکالنے ہیں تو ایک سے دوسرا عذر نکلتا چلا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں اگر انسان چاہے کہ انہی تکلفات کو بنیاد بنانا ہے تو پھر اگر انسان چاہے تو ساری عمر بیٹھ کر نماز پڑھتا رہے اور رمضان کے روزے بالکل نہ رکھے۔ فرماتے ہیں کہ مگر خدا اس کی نیت اور ارادے کو جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ ہماری پاتال تک کو جانتا ہے۔ وہ ہماری نیتوں کو بھی جانتا ہے۔ ہمارے ارادوں کو بھی جانتا ہے۔ فرمایا جو صدق اور اخلاص رکھتا ہے اس کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ صدق اور اخلاص دکھانے والے کا سلوک کرتا ہے لیکن جو بہانہ جُو ہے اس سے پھر اس کے مطابق سلوک ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ جانتا ہے جو صدق اور اخلاص رکھتا ہے۔ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کے دل میں درد ہے اور خدا تعالیٰ اسے ثواب بھی زیادہ دیتا ہے کیونکہ دردِ دل ایک قابل قدر شئے ہے۔ جو بہانہ جُو ہے اس کے دل میں درد کوئی نہیں ۔ حیلہ جُو انسان تاویلوں پر تکیہ کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ تکیہ کوئی شئے نہیں۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 6 صفحہ 259-260)
پس یہ اصول ہے جو ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ جو مسافرہے اور مریض ہے اس کے لیے تنگی نہیں وہ بعد میں پورا کر لے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس حالت میں بھی فدیہ بھی ضرور دو۔ اس سے روزہ رکھنے کی توفیق پیدا ہو گی۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 6 صفحہ 258)
آج کل وائرس کی بیماری کی وجہ سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ گلا خشک ہو جائے گا۔ بیماری کا زیادہ امکان بڑھ جائے گا تو روزہ رکھیں یا نہ رکھیں۔ مَیں اس بارے میں کوئی عمومی فتویٰ یا فیصلہ نہیں دیتا۔ مَیں یہی عموماً لکھتا ہوں کہ تم لوگ اپنی حالت دیکھ کر خود فیصلہ کرو اور پاک دل ہو کر، تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنے دل سے فتویٰ لو۔ قرآن کریم کی واضح ہدایت ہے کہ مریض ہو تو نہ رکھو۔ مریض ہونے کے امکان پر کہ مریض بن جائیں گے روزہ چھوڑنا یہ غلط ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ پھر تو ایک عذر سے دوسرا عذر اور ایک بہانے سے دوسرا بہانہ بنتا چلا جائے گا۔ اگر کوئی کہے کہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ مشکل ہو سکتی ہے تو مَیں نے مختلف ماہرین، ڈاکٹروں سے رائے لی ہے۔ ان کی، ڈاکٹروں کی اپنی رائے میں بھی اختلاف ہے ۔بعض ماہرین نے واضح لکھا کہ یہ کوئی یقینی بات نہیں ہے کہ روزے سے بیماری ضرور آئے گی۔ ہاں اگر آثار ظاہر ہوں ،کھانسی یا ہلکا بخار بھی ہو تو روزہ چھوڑدیں یا کوئی اور symptom دیکھیں تو روزہ چھوڑ دیں۔ اگر رکھا ہوا ہے تو توڑ دیں۔ ڈاکٹروں میں سے بھی جو اس بات کا رجحان رکھتے ہیں کہ نہیں رکھنا چاہیے یا بعض شرطیں ایسی عائد کرتے ہیںجس کا آخر میں نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ نہ رکھو تو بہتر ہے۔ وہ بھی واضح رائے نہیں رکھتے۔ ڈراتے بھی ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ خوراک کا خیال رکھ کر پھر رکھے جائیں۔ اب جو غریب لوگ ہیں وہ کس حد تک خوراک کس چیز کا خیال رکھیں۔
بہرحال مختلف آراء دیکھ کر تو یہی رائے قائم ہوتی ہے کہ روزہ رکھنے میں ہرج نہیں ہے۔ ہاں اگر ہلکا سا بھی شبہ ہے تو فوراً روزہ ترک کر دیں۔ بعض کا خیال ہے کہ جس گھر میں مرض ہے اور خود وہ شخص چاہے صحت مند بھی ہو تو وہ بھی روزہ نہ رکھے لیکن دوسرے ڈاکٹر کی رائے ہے کہ اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بہرحال روزہ کھولتے ہوئے اور رکھتے ہوئے پانی کا استعمال کرنا چاہیے اور جو زیادہ فکر مندہیں اپنے بارے میں اور affordبھی کر سکتے ہیں وہ ایسی خوراک بھی کھا لیں جو پانی کو زیادہ دیر تک جسم میںریٹین (retain) رکھ سکتی ہے ۔ بہرحال جب ڈاکٹروں کی رائے میں اختلاف ہے جس میں امریکہ کے ڈاکٹر بھی شامل ہیں اور جرمنی کے بھی اور یہاں کے بھی تو پھر یہ بھی ہمیں دیکھنا چاہیے کہ بلا وجہ روزہ چھوڑنا کہیں اس زمرے میں نہ آجائے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تکیہ کرتے ہیں۔ ہاں احتیاط لازمی ہے۔ بعضوں کی پانی کی requirementویسے ہی کم ہوتی ہے عموماً پانی نہیں پیتے۔ روزے بھی رکھتے ہیں عموماً حالات میں بھی نہیں پیتے۔ ہمارے ایک بزرگ ہوتے تھے چودھری نذیر صاحب۔ وہ گرمیوں میں سارا دن پھرتے رہتے تھے۔ بہت تھوڑا سا پانی کبھی پیا کبھی نہ پیا اور ہم آتے ہی پانی کی طرف جھپٹتے تھے لیکن ان سے مَیں نے کئی دفعہ پوچھا ۔کہتے تھے میری پانی کی requirement ہی کم ہے۔ بہرحال مختلف طبائع بھی ہوتی ہیں۔ ان حالات میں کس حد تک اس کا خیال رکھنا چاہیے یہ بہرحال اپنی اپنی حالتیں اور طبیعتیں دیکھ کر ہر کوئی فیصلہ کرے۔ اپنے ضمیر سے فتویٰ لے۔اور اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگتے ہوئے روزہ رکھنے کے لیے دعا کریں اور دعائیں بھی ان دنوں میں بہت زیادہ کریں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو عقل بھی دے۔ خدا تعالیٰ کو پہچاننے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس وبا کو دنیا سے جلد ختم کرے۔ دنیا پر رحم فرمائے اور ہم بھی، احمدی بھی تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کا حق ادا کرنے والے ہوں اور رمضان کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھانے والے ہوں۔
یہ بھی یاد رکھیں آج کل دنیا کے جو حالات ہو رہے ہیں جب ایسی وبا کی وجہ سے دنیا کے معاشی حالات بھی انتہائی خراب ہو چکے ہیں۔ جب ایسے معاشی حالات آتے ہیں جیسے آج کل ہیں تو پھر جنگوں کے امکان بھی بڑھ جاتے ہیں۔ بہت سے تجزیہ نگار اس طرح کی باتیں بھی کر رہے ہیں اور پھر دنیا دار حکومتیں اپنے مفادات کے حل دنیاوی حیلوں سے تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور اپنے عوام کی توجہ بٹانے کے لیے ایسی باتیں کرتی ہیں جو پھر مزید مشکلات میں ان کو ڈالنے والی ہوں۔ پھر مزید تباہی میں یہ لوگ چلے جاتے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا تبصرہ کرنے والے بھی اس رنگ میں کرنے لگ گئے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ بڑی طاقتوں کو بھی عقل دے کہ وہ بھی عقل سے کام لیں اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے دنیا میں مزید فساد پیدا ہو اور دنیا میں مزید تباہی آئے۔ اب تو کُھلے طور پر اخباروں میں بھی آنے لگ گیا۔ تبصرہ نگار بھی کہنے لگ گئے ہیں۔ امریکہ نے ایران کو دھمکی دی، چین پر الزام لگائے جا رہے ہیں کہ اس نے صحیح اطلاع نہیں دی۔ اس پر مقدمے ہونے چاہئیں۔ اس کے ساتھ یہ سلوک ہونا چاہیے۔ ہم یہ کر دیں گے۔ ایران کے ساتھ ہم یہ کر دیں گے۔ بہرحال امریکہ کی حکومت کو بھی عقل کرنی چاہیے۔ باقی حکومتوں کو بھی عقل کرنی چاہیے اور ان حالات میں بجائے اس کے کہ کوئی غلط قدم اٹھا کر دنیا کو مزید تباہی کی طرف لے کے جائیں صحیح سوچ کے ساتھ، صحیح پلاننگ کر کے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اس کی طرف جھکتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس وبا سے بچنے کے لیے دعائیں کریں اور کوشش کریں اور اس بیماری کے علاج کے لیے جو بھی سائنس دان کوشش کر رہے ہیں ان کی مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں کی توفیق دے۔ اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کی توفیق دے اور دنیا کو، دنیاوی بڑی حکومتوں کو عقل سے اپنی پالیسیاں بنانے اور آئندہ کے لائحہ عمل بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(الفضل انٹر نیشنل لندن 15؍مئی 2020ءصفحہ 05تا09)