رمضانُ المبارک کی مناسبت سے احادیثِ مبارکہ (قسط نمبر2)
سحری کھا کر روزہ رکھنے میں برکت
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزے کے دنوں میں سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھا کر روزہ رکھنے میں برکت ہے۔
(صحیح بخاری کتاب الصوم باب برکۃ السحور … الخ حدیث 1923)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس کی پابندی فرمایا کرتے تھے۔ خود بھی اور جو اپنے جماعت کے احباب افراد تھے ان کو بھی کہا کرتے تھے کہ سحری ضروری ہے۔ اسی طرح جو مہمان قادیان میں آیا کرتے تھے ان کے لیے بھی سحری کا باقاعدہ انتظام ہوا کرتا تھا بلکہ بڑا اہتمام ہوا کرتا تھا۔اس بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے۔ آپؑ نے سحری کھاتے دیکھ کر فرمایا کہ آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں؟ (سحری کے وقت دال روٹی کھا رہے تھے) اور اسی وقت منتظم کو بلوایا اور فرمانے لگے کہ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میں نہیں (ہیں۔ یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ روزے رکھ رہے ہیں۔) ہر ایک سے معلوم کرو کہ ان کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھانا ان کے لئے تیار کیا جائے۔ پھر منتظم میرے لئے اَور کھانا لایا مگر مَیں کھا چکا تھا اور اذان بھی ہو گئی تھی۔ حضور نے فرمایا کھا لو۔ اذان جلدی دی گئی ہے۔ اس کا خیال نہ کرو۔‘‘
(سیرت المہدی جلد 2 حصہ چہارم صفحہ 127 روایت نمبر 1163)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نماز تہجد پڑھنا اور سحری کھانے کے بارے میں ایک روایت بیان فرماتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ1895ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفاق ہوا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اوّل شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دو دو رکعت کر کے آخرشب میں ادا فرماتے تھے جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے۔ یعنی
اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو
سے
وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم
تک۔ اور دوسری رکعت میں سورۃ الاخلاص کی قراءت فرماتے تھے اور رکوع و سجود میں
یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْث
اکثر پڑھتے تھے اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سن سکتا تھا۔ نیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے اور اس میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ بعض دفعہ کھاتے کھاتے اذان ہو جاتی تھی اور آپ بعض اوقات اذان کے ختم ہونے تک کھانا کھاتے رہتے تھے۔‘‘ حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ’’خاکسار عرض کرتا ہے دراصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب تک صبح صادق افق مشرق سے نمودار نہ ہو جائے سحری کھانا جائز ہے۔ اذان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ صبح کی اذان کا وقت بھی صبح صادق کے ظاہر ہونے پر مقرر ہے۔ اس لئے لوگ عموماً بعض جگہوں پہ سحری کی حد اذان ہونے کو سمجھ لیتے ہیں۔ قادیان میں چونکہ صبح کی اذان صبح صادق کے پھوٹتے ہی ہو جاتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی اور بے احتیاطی سے اس سے بھی قبل ہو جاتی ہو۔ اس لئے ایسے موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اذان کا چنداں خیال نہ فرماتے تھے اور صبح صادق کے تبیّن تک سحری کھاتے رہتے تھے اور دراصل شریعت کا منشاء بھی اس معاملے میں یہ نہیں ہے کہ جب علمی اور حسابی طور پر صبح صادق کا آغاز ہو اس کے ساتھ ہی کھانا ترک کر دیا جاوے بلکہ منشاء یہ ہے کہ جب عام لوگوں کی نظر میں صبح صادق کی سفیدی ظاہر ہو جائے اس وقت کھانا چھوڑ دیا جائے۔ چنانچہ تبیّن کا لفظ اسی بات کو ظاہر کر رہا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی اذان پر سحری نہ چھوڑا کرو بلکہ ابن مکتوم کی اذان تک بیشک کھاتے پیتے رہا کرو کیونکہ ابن مکتوم نابینا تھے اور جب تک لوگوں میں شور نہ پڑ جاتا تھا کہ صبح ہو گئی ہے، صبح ہو گئی۔ اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد اول حصہ دوم روایت نمبر 320 صفحہ 295-296)
(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍ جون 2016ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 24 ؍جون2016صفحہ6۔7)
’’پھریہ کہ سحری کاوقت کب تک ہے ؟ ایک تو یہ کہ جب سحری کھا رہے ہوں تو جو بھی لقمہ یا چائے جو آپ اس وقت پی رہے ہیں، آپ کے ہاتھ میں ہے اس کو مکمل کرنے کا ہی حکم ہے۔ روایت آتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ جس وقت تم میں سے کوئی اذان سن لے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہوتووہ اس کو نہ رکھے یہاں تک کہ اپنی ضرورت پوری کرلے یعنی وہ جو کھا رہاہے وہ مکمل کرلے۔پھر بعض دفعہ غلطی لگ جاتی ہے اور پتہ نہیں لگتاکہ روزے کاوقت ختم ہو گیاہے اور بعض دفعہ چند منٹ اوپر چلے جاتے ہیں تو اس صورت میں کیا یہ روزہ جائز ہے یانہیں۔ تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے کسی نے سوال کیا کہ مَیں مکان کے اندر بیٹھا ہواتھا اور میرا یقین تھاکہ ابھی روزہ رکھنے کا وقت ہے اور مَیں نے کچھ کھاکے روزہ رکھنے کی نیت کی لیکن بعد میں ایک دوسرے شخص سے معلوم ہواکہ اس وقت سفیدی ظاہر ہو گئی تھی اب مَیں کیاکروں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ایسی حالت میں اس کا روزہ ہوگیا۔ دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اپنی طرف سے اس نے احتیاط کی اور نیت میں فرق نہیں صرف غلطی لگ گئی اور چند منٹوں کا فرق پڑ گیا۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍ اکتوبر 2003ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل19؍دسمبر2003ءصفحہ7تا8)
تلاوتِ قرآنِ کریم کی اہمیت رمضان میں بڑھ جاتی ہے
’’آخری سال میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دفعہ جبرئیل نے قرآنِ کریم کا دَور دو مرتبہ مکمل کروایا ہے۔
(صحیح البخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدیث 3624)
پس قرآنِ کریم کی رمضان کے مہینے کے ساتھ ایک خاص نسبت ہے۔ ہر سال جب رمضان آتا ہے ہمیں اس طرف بھی توجہ دلاتا ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآنِ کریم نازل ہوا۔ گویا رمضان اپنے اَور فیوض کے ساتھ ہمیں اس بات کی بھی یاددہانی کے لئے آتا ہے کہ اس مہینے میں قرآنِ کریم کا نزول ہوا… قرآنِ کریم کی تعلیم مکمل اور جامع ہے۔ لیکن ان سب باتوں کی یاددہانی کا فائدہ تبھی ہے جب ہم اس یاددہانی کی روح کو سمجھنے والے ہوں، ورنہ رمضان تو ہر سال آتا ہے اور آتا رہے گا انشاء اللہ۔ اور رمضان اور قرآن کے تعلق کی یاددہانی جب بھی آئے گا، اور جب بھی آتا ہے کرواتا ہے اور کرواتا رہے گا۔ اور ہم اس کی اہمیت سن کر خوش ہوتے رہیں گے۔ اس یاددہانی کا فائدہ تو تب ہو گا جب ہم اپنے عمل پر اس اہمیت کو لاگو کریں گے۔پس یہ مقصد تب پورا ہو گا جب
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰن
کے الفاظ سنتے ہی قرآنِ کریم ہمارے ہاتھوں میں آ جائے گا اور ہم زیادہ سے زیادہ اُس کے پڑھنے کی طرف متوجہ ہو جائیں گے۔ رمضان کی اس یاددہانی کا مقصد تب پورا ہو گا جب ہم ان دنوں میں قرآنِ کریم کے مطالب کو سمجھنے اور غور کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ
’’ھُدًی لِّلنَّاس‘‘
کی حقیقت ہم پر واضح ہو۔ رمضان اور قرآن کی آپس میں جو نسبت ہے اس کی یاددہانی اُس وقت ہم پر واضح ہو گی جب ہم کوشش کر کے قرآنِ کریم کے حکموں کو خاص طور پر اس مہینے میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ جولائی 2013ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل9؍2013ءصفحہ5)
رمضان المبارک اور رات کی عبادت
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی راتوں کے نوافل کو بڑی اہمیت دی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جو شخص رمضان کی راتوں میں اُٹھ کر نماز پڑھتا ہے اُس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔
(صحیح البخاری کتاب الایمان باب تطوع قیام رمضان من الایمان حدیث نمبر 37)
… پس اس مہینے میں ہر ایک کو اپنے جائزے لیتے ہوئے روزے اور رمضان کی روح کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ تقویٰ کے راستوں کی تلاش کی ضرورت ہے۔ حلال اور جائز چیزوں کے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے چھوڑنے کا جو تجربہ حاصل ہو گا اُسے اپنے اندر عمومی، اخلاقی تبدیلی پیدا کرنے کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی ضرورت ہے۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف جو توجہ پیدا ہو گی، اپنے غریب بھائیوں کی مدد کی طرف جو توجہ پیدا ہو گی، اُسے مستقل زندگی کا حصہ بنانے کی طرف توجہ اور کوشش کی ضرورت ہے۔ پس روزوں میں، رمضان کے مہینے میں عبادات اور قربانی کا جو خاص ماحول پیدا ہوتا ہے اُسے مستقل اپنانے کی ضرورت ہے تا کہ ہم متقیوں کے گروہ میں شامل ہونے والوں کی طرف بڑھنے والے ہوں۔ اس رمضان میں ہمیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے…ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اس مہینہ میں عبادتوں، تزکیہ نفس اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ذریعہ جنت کے ان دروازوں میں داخل ہونے کی کوشش کریں۔ یا جنت کے ان دروازوں سے جنت میں داخل ہونے کی کوشش کریں جو پھر ہمیشہ کھلیں رہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کرتے ہوئے جھکیں اور اُن خوش قسمتوں میں شامل ہو جائیں جن کی توبہ قبول کر کے اللہ تعالیٰ کو اُس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی ایک ماں کو اپنا گمشدہ بچہ ملنے سے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اُس پیار کو حاصل کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کو اس رمضان میں وہ خوشی پہنچانے والے ہوں جو گمشدہ بچہ کے ماں کو مل جانے سے زیادہ ہے۔ لیکن جیسا کہ اس کا پہلے بار بار ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ خوشی پہنچانے کے لئے ہمیں تقویٰ پر چلتے ہوئے ان عبادتوں جن میں فرائض بھی ہیں اور نوافل بھی، ان کے معیاروں کو بلند کرنا ہوگا۔ اپنے روزوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے یہ سب کچھ اس رمضان میں ہمیں حاصل کرنے اور ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍ جولائی 2013ءمطبوعہ الفضل انٹر نیشنل2؍گست2013ءصفحہ7)
جھوٹ بولنے اور اُس پر عمل کرنے سے رکنا
’’آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے نہیں رُکتا، اللہ تعالیٰ کو اُس کا بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یعنی ایسا روزہ پھر بے کار ہے۔
(صحیح بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم حدیث نمبر 1903)
پس ہمیں اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ شیطان جکڑا گیا بلکہ روزوں کے معیار بلند کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ روزوں کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جھوٹ بولنے سے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے جو نہیں رُکتا اُس کا روزہ نہیں۔ ان الفاظ میں چھوٹی سے چھوٹی برائی سے لے کر بڑی سے بڑی برائی تک کی طرف توجہ دلا دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ہر حالت میں سچائی پر قائم رہنے کا کہہ کر اُسے اُس کی تمام کمزوریوں، غلطیوں اور گناہوں سے پاک کروا دیا۔ یہ بھی مثالیں ملتی ہیں کہ جس کو یہ کہا کہ تم نے سچائی پر قائم رہنا ہے اس شخص کی تمام اخلاقی اور روحانی کمزوریاں سچائی پر قائم رہنے کے عہد سے دورہو گئیں۔
(التفسیر الکبیر لامام رازیؒ جلد8جزو 16 صفحہ 176 تفسیر سورۃ التوبۃ زیر آیت نمبر 119 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے
فَاجْتَنِبُواالرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ(الحج:31)
اس کی وضاحت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ‘‘یعنی بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کی پلیدی سے پرہیز کرو‘‘۔
(نورالقرآن نمبر2روحانی خزائن جلد9 صفحہ403)
…پھر آپ فرماتے ہیں ’’بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پرہیز کرو‘‘۔ یعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا پر بھروسہ چھوڑ دیتا ہے۔ سو جھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ361) پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے والے کا روزہ نہیں تواس لئے کہ ایک طرف تو روزہ رکھنے والے کا دعویٰ ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کے حکم سے روزہ رکھ رہا ہوں… تو ایک طرف تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے روزے رکھ رہا ہوں لیکن دوسری طرف یہ کہ جس کے حکم سے روزہ رکھا جا رہا ہے اُس کے مقابلے پر جھوٹ کو خدا بنا کر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ پس یہ دو عملی نہیں ہو سکتی۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍ جولائی 2012ء مطبوعہالفضل انٹرنیشنل17؍اگست2012ءصفحہ6)
آخری عشرہ کی ایک خاص اہمیت
’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کس لیتے اور رات بھر جاگتے رہتے۔ (بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب العمل فی العشر الاواخر من رمضان حدیث نمبر 2024) (یعنی نیند بہت کم ہوتی۔ سوتے تو تھے لیکن بہت کم نیندہوتی)۔ اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔
پس اس حدیث میں یہ واضح ہے کہ آخری عشرہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف خود اپنی عبادت میں پہلے سے کئی گنا بڑھ جاتے تھے۔ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عام دنوں کی عبادتوں کی لمبائی اور خوبصورتی کا توہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ (مسند احمد بن حنبل مسند عائشۃؓ جلد 8صفحہ 106 حدیث نمبر 24950 مطبوعہ بیروت ایڈیشن 1998)یہ بھی حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ جواب دیا تھا، تو اس عشرہ میں کیا حالت ہوتی ہو گی یہ تصور سے بھی باہر ہے۔ اور پھر جو انعامات کی اور فضلوں کی بارش خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو رہی ہوتی ہے یا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی جوبارش اس عشرہ میں ہوتی ہے جس کا سب سے زیادہ فہم و ادراک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی تھا توآپ یہ کس طرح برداشت کر سکتے تھے کہ میرے اہلِ خانہ اس سے محروم رہیں۔ اس لئے آپ ان کو بھی اٹھاتے اور پھر جو روحانی حالت اور کیفیت ہوتی ہو گی اس کا انداز بھی یقینا ًعجیب ہوتا ہو گا۔ پس یہ نمونہ آپؐ نے ہمارے لئے قائم فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ یہ حالت اپنے اور اپنے گھروں میں پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے بنیں۔ یہی کیفیت ہے جسے ہم جب اپنے پر طاری کریں گے تو ہماری مغفرت کے سامان بھی ہو رہے ہوں گے اور حقیقی مومن بھی کہلا سکیں گے…پس رمضان کے روزے بھی ایمان میں مضبوطی اور اللہ تعالیٰ کی رضا سے مشروط ہیں ورنہ بھوکارہنے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی غرض نہیں ہے اور لیلۃ القدر بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول سے مشروط ہے۔ خالص ہو کراللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہے۔ صرف دنیاوی اغراض سے کہ لیلۃ القدر مجھے مل جائے تو مَیں یہ دعا کروں گا کہ میرے دنیاوی مقاصد پورے ہو جائیںتو یہ غرض نہیںنیکیوں کے حصول کی کوشش ہونی چاہئے۔ بلکہ سب سے مقدم دعاؤں میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔ اس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے پھرایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح توجہ دلائی ہے۔
عقبہ جو حُرَیْث کے بیٹے ہیں سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا۔ وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو (آپ کی مراد لیلۃ القدر سے تھی) اگر تم میں سے کوئی کمزور ہو جائے یا عاجز رہ جائے۔ تو وہ آخری سات راتوں میں ہرگز مغلوب نہ ہو جائے۔ (صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل لیلۃ القدر… حدیث نمبر 2765) پس دیکھیں، یہ کس قدر تاکید ہے کہ اگر کسی وجہ سے رمضان سے فیض نہیں بھی اٹھا سکے اور یہ خواہش رکھتے ہو کہ حقیقی مومن بنو تو اس عشرہ یا سات دن میں ہر عذر کو دور پھینکواور اپنی راتوں کو خدا تعالیٰ کی عبادت میں اس طرح گزارو جو عبادت کا حق ہے۔ جس کا نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمایا۔ یہی کوشش ہے جو تمہاری روحانی ترقیات کا باعث بنے گی۔ اور اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنے گی… یہ باتیں جو مَیں نے بیان کی ہیں، یہ لیلۃ القدر کا ایک پہلو ہے جس میں حدیثوں کی رو سے رمضان کے آخری عشرے کے طاق دنوں میں خدا تعالیٰ کے خاص فضل کے اترنے کی ایک رات کا ذکر ہے۔ جس کے بارہ میں قرآنِ کریم فرماتا ہے، جیسا کہ مَیں نے سورۃ قدرتلاوت کی کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اور ہزار مہینے تقریباً 83 سال سے اوپر بنتے ہیں۔ یعنی اگر یہ رات میسر آ جائے تو انسان کی زندگی بھر کی دعائیں جو خدا تعالیٰ کی نظر میں ایک مومن کی بہتری کے لئے ہیں وہ قبول ہو جاتی ہیں۔ انسان بہت ساری دعائیں کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بہتر نہیں ہوتیں۔ اور جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہتر ہوں تو مومن جب خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا ہے تو اللہ تعالیٰ پھرمومن کا فائدہ دیکھتے ہوئے اس کے لئے وہ دعائیں قبول فرماتا ہے۔ یا مومن کو وہ معیار حاصل ہو جاتا ہے جو اس کے روحانی معیار کو بلند کرتا ہے۔ ملائکہ کا نزول ایک مومن کے تعلق باللہ میں ایک انقلاب پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اور ایک رات کی عبادت ساری زندگی کی عبادتوں کے برابر ہو جاتی ہے کیونکہ وہ اپنے مقصدِ پیدائش کو پا لیتا ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا جب ایک دفعہ پا لیا تو پھر اسے پاتے چلے جانے کی جستجو اور کوشش میں ایک مومن لگا رہتا ہے۔ پس یہ رات ہے جس کی ایک مومن کی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍ اگست 2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍ستمبر2010ءصفحہ6تا7)
رحمت ومغفرت اورجہنم سے نجات کا ذریعہ ہے
’’ آنحضرتﷺ نے فرمایا
ھُوَ شَہْرٌ اَوَّلُہٗ رَحْمَۃٌ وَاَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ وَآخِرُہٗ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ۔
(الجامع لشعب الایمان للبیہقی جلد 5۔ باب فضائل شھر رمضان۔ الباب الثالث والعشرون، باب فی الصیام حدیث نمبر 3363 مکتبۃ الرشد، ریاض۔ طبع دوم صفحہ204)
یعنی وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے… پس جب اللہ تعالیٰ یہ اعلان آنحضرتﷺ سے بھی کرواتاہے کہ مومنوں کو بتا دو کہ یہ مہینہ بخشش کا مہینہ ہے اور خود بھی اس بارہ میں یہ کہہ رہاہے کہ بخشش میرے سے مانگو، مَیں بخشوں گا۔ بڑ ابخشنے والااور رحم کرنے والا ہوں تو اللہ تعالیٰ پھر بخشتا بھی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتاکہ اللہ تعالیٰ کے بندے بخشش مانگتے ہوئے اس کے آگے جھکیں اور بخشے نہ جائیں۔ اصل میں تو یہ رحمت، بخشش اور آگ سے نجات ایک ہی انجام کی کڑیاں ہیں اور وہ ہے شیطان سے دُوری اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کاقرب حاصل کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہی ایک انسان کوروزے رکھنے کی توفیق ملتی ہے۔ عبادت کی بھی توفیق ملتی ہے۔ اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے جائز کام چھوڑنے کی بھی توفیق ملتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ تمام پچھلی کوتاہیاں، غلطیاں اور گناہ معاف فرماتے ہوئے ایسے انسان کو پھر اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لیتا ہے۔ یہ مغفرت بھی خداتعالیٰ کی رحمت سے ہی ہے۔ مغفرت کے بعد خداتعالیٰ کی رحمت ختم نہیں ہوتی بلکہ مغفرت اور توبہ کا تسلسل جو ہے یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل سے جاری ہوتا ہے اور جب یہ تسلسل جاری رہتا ہے تو ایک انسان جو خالصتاً اللہ تعالیٰ کا ہونے کی کوشش کرتا ہے پھر اس سے ایسے افعال سرزد ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو جذب کرنے والے ہوں۔ ایسے اعمال صالحہ بھی بجا لاتا ہے جن کے بجا لانے کا خداتعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور نتیجتاً پھر آگ سے نجات پاتا ہے…پس یہ رمضان کے تین عشرے جو بیان ہوئے ہیں یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اور اعمال سے مشروط ہیں۔ صرف رمضان کا مہینہ یا سحری اور افطاری کے درمیان کھانا نہ کھانا انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت مغفرت اور آگ سے نجات کا حقدار نہیں بنا دیتا۔ پس جب خداتعالیٰ اپنے بندے کو ان باتوں کے حاصل کروانے کے لئے رمضان کے مہینے میں ایک خاص ماحول پیدا فرماتا ہے، شیطان کو جکڑ دیتا ہے اور دعائیں سننے کے لئے اپنے بندوں کے قریب ہو جاتا ہے تو پھر اِن کے حصول کی بندوں کو زیادہ سے زیادہ کوشش بھی کرنی چاہئے… پس استغفار اور نیک اعمال جب ہمیں رمضان کے آخر ی عشرے میں داخل کریں گے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے مطابق آگ سے آزاد کرانے کا عشرہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ
وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ (الانفال: 34)
اللہ ایسا نہیں ہے کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ بخشش کے طالب ہوں۔ اللہ تعالیٰ تو مختلف ذریعوں سے ہمیں سمجھاتا رہتا ہے۔ پرانے لوگوں کے واقعات بیان کرکے، انبیاء کے واقعات بیان کرکے، انبیاء کے ذریعہ نصائح فرما کر کہ کس کس طرح تم میری بخشش طلب کر سکتے ہو اور کس طرح مَیں پہلی قوموں سے سلوک کرتا رہا ہوں اور اب بھی کروں گا۔ ظاہرہے جب انسان ایک خاص توجہ کے ساتھ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہو، اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کر رہا ہو، نوافل سے بھی انہیں سجا رہا ہو، استغفار بھی کر رہا ہو، اور دوسرے نیک اعمال بجا لانے کی بھی کوشش کر رہا ہو یہاں تک کہ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ اگر اس سے کوئی جھگڑے، اُسے برا بھلا کہے تو وہ بالکل جواب نہ دے اور یہ کہہ کے چپ ہو جائے کہ مَیں روزہ دار ہوں، مَیں تو اس ٹریننگ میں سے گزر رہا ہوں اور میری یہ کوشش ہے کہ خداتعالیٰ کے احکامات کو اپنی زندگی کا حصہ بناؤں۔ تو لازماً ایسا شخص پھر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر لے وہ آگ سے یقینا ًنجات پا جاتا ہے اور اس کی جنت میں داخل ہوتا ہے۔‘‘
( خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ ستمبر 2008ءمطبوعہ الفضل انٹر نیشنل10؍اکتوبر2008ءصفحہ5تا7)
سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک سفر پرتھے۔ آپؐ نے لوگوں کا ہجوم دیکھااورایک آدمی پر دیکھاکہ سایہ کیا گیاہے۔ آ پؐ نے فرمایا: ’’کیا ہے؟‘‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ شخص روزہ دار ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔
(بخاری کتاب الصوم باب قول النبیﷺ لمن ظلل علیہ واشتد…)
تو اس سے مزید واضح ہوگیاکہ سفر میں روزہ بالکل نہیں رکھنا چاہئے۔ لیکن بعض دفعہ بعض لوگ دوسری طرف بہت زیادہ جھک جاتے ہیں۔ بعض اس سہولت سے کہ مریض کوسہولت ہے خود ہی فیصلہ کر لیتے ہیں کہ مَیں بیمارہوں اس لئے روزہ نہیں رکھ سکتا۔ اور پوچھو تو کیا بیماری ہے ؟ تم تو جوان آدمی ہو، صحت مند ہو، چلتے پھر رہے ہو، بازاروں میں پھررہے ہو، بیماری ہے تو ڈاکٹر سے چیک اپ کرواؤ تو جواب ہوتاہے کہ نہیں ایسی بیماری نہیں بس افطاری تک تھکاوٹ ہو جاتی ہے، کمزور ی ہوجاتی ہے۔ تویہ بھی وہی بات ہے کہ تقویٰ سے کام نہیں لیتے۔ نفس کے بہانوں میں نہ آؤ۔ فرمایا یہ ہے کہ نفس کے بہانوں میں نہ آؤ۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دل کا حال جانتاہے۔ خوف کا مقام ہے۔ یہی نہ ہو کہ ان بہانوں سے کہیں ان حکموں کو ٹال کر حقیقت میں کہیں بیمار ہی بن جاؤ… تویہ افراط اور تفریط دونوں ہی غلط ہیں۔ ہمیشہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے روزے رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے جو طاقت رکھتے ہیں، مالی وسعت رکھتے ہیں اگرکسی وجہ سے وہ روزہ نہیں رکھ سکے تو فدیہ دیا کریں۔ اور فدیہ کیاہے ایک مسکین کو کھانا کھلانا۔ اس کے مطابق جس طرح تم خود کھاتے ہو کیونکہ دوسرے کی عزت نفس کا بھی خیال رکھنے کا حکم ہے۔ اس لئے اچھا کھانا کھلاؤ، یہ نہیں کہ مَیں روزے رکھتا تواعلیٰ کھانے کھاتا لیکن تم چونکہ کم حیثیت آدمی ہواس لئے تمہارے لئے فدیہ کے طورپر یہ بچا کھچا کھانا ہی موجود ہے۔ نہیں۔ یہ نہیں ہے، تمہاری نیکی تو اس وقت ہی نیکی شمار ہوگی جب تم خداکی رضا کی خاطر یہ کر رہے ہوگے نہ کہ اس غریب پر احسان جتانے کے لئے۔ توجب تم خداکی رضاکی خاطر یہ فدیہ دو گے تو ہو سکتاہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اس بیماری کی حالت کو صحت میں بدل دے۔ کیونکہ فرمایاکہ تمہارا روزے رکھنا بہرحال تمہارے لئے بہترہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ۔
ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ یہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیاہے تومعلوم ہواکہ توفیق کے واسطے ہے تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔ خداہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شئے خدا ہی سے طلب کرنی چاہئے۔ خداتعالیٰ تو قادر مطلق ہے۔ وہ اگرچاہے توایک مدقوق کوبھی روزہ کی طاقت عطا کرسکتاہے’’۔ یعنی ایک بیمار مریض بہت زیادہ لاغر کمزور ہو، ٹی بی کا مریض ہی ہو بے شک۔‘‘ تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جاوے اور یہ خداکے فضل سے ہوتاہے۔ پس میرے نزدیک خوب ہے کہ انسان دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور مَیں اس سے محروم رہا جاتاہوں۔ اورکیامعلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ۔ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کرسکوں یانہ۔ اوراس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا طاقت بخش دے گا‘‘۔ لیکن بعض لوگوں کی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ باوجود خواہش کے روزہ نہیں رکھ سکتے اور مستقلاً فدیہ دینا پڑتاہے۔ ایسے لوگوں کو جیساکہ مَیں نے پہلے بھی کہا اپنی حیثیت کے مطابق فدیہ دیناچاہئے۔ اللہ تعالیٰ نیتوں کو جانتاہے یہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس میں بیان فرمایا۔ آپ نے آگے فرمایاکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتاتو دوسری امتوں کی طرح اس اُمّت میں کوئی قید نہ رکھتا مگر اس نے قیدیں بھلائی کے لئے رکھی ہیں۔ ’’میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتاہے کہ اس مہینہ میں مجھے محروم نہ رکھ توخداتعالیٰ اسے محروم نہیں رکھتا۔ اور ایسی حالت میں اگر انسان ماہ رمضان میں بیمار ہو جائے تو یہ بیماری اس کے حق میں رحمت ہوتی ہے کیونکہ ہر ایک عمل کا مدار نیت پرہے۔ مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کرے‘‘۔ یعنی بہادر ثابت کرے۔ ’’جو شخص روزہ سے محروم رہتاہے مگر اس کے دل میں یہ نیت درددل سے تھی کہ کاش مَیں تندرست ہوتااورروزہ رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اس کے لئے روزہ رکھیں گے۔‘‘فرمایا اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے، بہت تڑپ رہاہے، بہت افسوس کررہاہے، تو فرشتے اس کے لئے روزہ رکھیں گے’’بشرطیکہ وہ بہانہ جُو نہ ہو تو خداتعالیٰ اسے ہرگزثواب سے محروم نہ رکھے گا۔‘‘
( البدر 12 دسمبر 1903ء، ملفوظات جلد چہارم صفحہ 258-259)
(خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍ اکتوبر 2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل19؍دسمبر2003ءصفحہ7تا8)
مریض اور مسافرکے لیے روزہ نہ رکھے
’’بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ضرورت سے زیادہ سختی اپنے اوپر وارد کرتے ہیں یا وارد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج کل کا سفر کوئی سفر نہیں ہے اس لئے روزہ رکھنا جائز ہے۔ آپؑ نے یہی وضاحت فرمائی ہے کہ نیکی یہ نہیں ہے کہ زبردستی اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالا جائے بلکہ نیکی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کی جائے اور اپنی طرف سے تاویلیں اور تشریحیں نہ بنائی جائیں۔ جو واضح حکم ہیں ان پر عمل کرنا چاہئے۔ اور یہ بڑا واضح حکم ہے کہ مریض اور مسافرروزہ نہ رکھے۔ تو برکت اسی میں ہے کہ تعمیل کی جائے نہ کہ زبردستی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کی جائے۔
ایک روایت میں آتا ہے: ’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے رمضان کے مہینے میں سفر کی حالت میں روزہ اور نماز کے بارے میں دریافت کیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارمضان میں سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھو۔ اس پر اس شخص نے کہا یا رسول اللہ! میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا
اَنْتَ اَقْوٰی اَمِ اللّٰہ؟
یعنی تو زیادہ طاقتور ہے یا اللہ؟ یقینا ًاللہ تعالیٰ نے میری امت کے مریضوں اور مسافروں کے لئے رمضان میں سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کو بطور صدقہ ایک رعایت قرار دیاہے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ تم میں سے کسی کوکوئی چیزصدقہ دے پھر وہ اس چیز کو صدقہ دینے والے کو واپس لوٹا دے۔
(المصنف للحافظ الکبیر ابی ابکرعبدالرزاق بن ھمام الصنعانی الجزء الثانی صفحہ 565 باب الصیام فی السفر)
( خطبہ جمعہ فرمودہ15؍ اکتوبر 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍اکتوبر2004ءصفحہ6تا7)
روزہ دار کی دُعارد نہیں ہوتی
حضرت عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ رمضان میں اللہ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتاہے اور اس ماہ اللہ سے مانگنے والا کبھی نامراد نہیں رہتا۔پھر ایک حدیث ہے کہ روزہ دار کے لئے اس کی افطاری کے وقت کی دعا ایسی ہے جو ر دّ نہیں کی جاتی۔
(ابن ماجہ کتاب الصیام باب فی الصائم لاتردد …)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں :
’’اگر لوگ پوچھیں کہ روزہ سے کیسے قرب حاصل ہوسکتاہے تو کہہ دے
فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَاِن۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ
یعنی مَیں قریب ہوں اور اس مہینہ میں دعائیں کرنے والوں کی دعائیں سنتاہوں۔ چاہئے کہ پہلے وہ ان حکموں پر عمل کریں جن کا مَیں نے حکم دیاہے اور ایمان حاصل کریں تا کہ وہ مراد کوپہنچ سکیں اور اس طرح سے بہت ترقی ہوگی‘‘۔
(الحکم 17؍نومبر 1907ء صفحہ 5)
…حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’رمضان کا مہینہ مبارک مہینہ ہے، دعاؤں کا مہینہ ہے ‘‘۔
(الحکم 24؍ جنوری 1901ء)
…حدیث میں آتاہے آنحضرتﷺ نے فرمایا حضرت ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کو خوب یاد کیا کرو یہاں تک کہ لوگ کہیں کہ یہ مجنون شخص ہے۔ یہ ہے اللہ کو یاد کرنے کا طریق۔
حدیث میں آتاہے کہ رمضان کی ہر رات اللہ تعالیٰ ایک منادی کرنے والے فرشتہ کو بھیج دیتاہے جو یہ اعلان کرتاہے کہ اے خیر کے طالب آگے بڑھ اور آگے بڑھ۔ کیا کوئی ہے جو دعا کرے تا کہ اس کی دعا قبول کی جائے کیا کوئی ہے جو استغفار کرے کہ اسے بخش دیاجائے کیاکوئی ہے جو توبہ کرے تاکہ اس کی توبہ قبول کی جائے‘‘۔
(کنز العمال جلد ۸ کتاب الصوم قسم الاول )
(خطبہ جمعہ فرمودہ 31؍ اکتوبر 2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل26؍دسمبر2003ءصفحہ7تا8)
’’اب ایک دعا پیش کرتاہوں جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کو لکھی تھی کہ یہ کریں۔ فرمایا، دعا یہ ہے :
’’اے رب العالمین ! مَیں تیرے احسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا۔ تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے۔ تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تامَیں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تُو راضی ہو جائے۔ مَیں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات کی پناہ مانگتاہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وار د ہو۔ رحم فرما، رحم فرما، رحم فرما اور دنیا و آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کیونکہ ہرایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ (آمین)‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 31؍ اکتوبر 2003ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل26؍دسمبر2003ءصفحہ8)
’’پس ہم میں سے ہر ایک کو رمضان میں سے یہ عہد کرتے ہوئے نکلنا چاہئے کہ جو باتیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں اور جو باتیں ہمیں کھول کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائیں ان کو ہم ہمیشہ سامنے رکھتے ہوئے ان کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم یہ کریں تبھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنے آپ کو رمضان میں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق گزارنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘
( خطبہ جمعہ فرمودہ23؍ جون 2017ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍ جولائی2017ءصفحہ8)
٭…٭…٭