خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ یکم مئی 2020ء
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں جن کے ساتھ جُڑ کر بندے اور خدا کے درمیان حقیقی تعلق پیدا کرنے کا سلیقہ ہمیں آ سکتا ہے اور آتا ہے اور خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے پر کامل یقین اور اس کی رضا پر راضی رہنے کے اعلیٰ معیار حاصل ہوتے ہیں
ہمیشہ اگر کچھ مانگنا ہے تو خدا تعالیٰ سے مانگے اور کبھی مطالبہ نہ کرے، یہ انتہائی ضروری خصوصیت ہے جو ہر واقف زندگی کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے
ہمارے ہر ڈاکٹر کو ہر طبیب کو صرف اپنے پیشے کی مہارت پر ہی اعتماد نہ ہو، صرف دوائیوں پر یقین نہ ہو بلکہ جہاں علاج کے دوران مریض کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں وہاں ان کے لیے دعا بھی ضرور کیا کریں اور اگر نفل پڑھیں تویہ تو بہت ہی اچھی بات ہے
دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد ِبیعت کو اپنی طاقتوں کے مطابق نبھانے والے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے، خلافت احمدیہ سے کامل وفا اور اخلاص کا تعلق رکھنے والے، حقوق العباد کا حق ادا کرنے والے اور اسلام کی جس خوبصورت تعلیم پر عمل کروانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو بھیجا ہے اس کی عملی صورت کو اپنی ذات سے ثابت کرنے والے تین مرحومین مثالی واقفِ زندگی مکرم ذوالفقار احمد ڈامانک (Damanik) صاحب ریجنل مبلغ سلسلہ انڈونیشیا، دعا گو، ہمدرد اور بے نفس ڈاکٹر پیر محمد نقی الدین صاحب اسلام آباد پاکستان اور وقفِ زندگی کے جذبے کے ساتھ خدمت کرنے والے مکرم غلام مصطفیٰ صاحب رضاکار کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری (یوکے) کی وفات پر مرحومین کا ذکرِ خیر
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے …فرمایا تھا یہ لوگ شہداء میں شامل ہیں۔‘‘
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم مئی 2020ء بمطابق یکم؍ہجرت 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک ،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
اس وقت مَیں چند مرحومین کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کی گذشتہ دنوں وفات ہوئی۔ ان میں سے ہر ایک مختلف پیشے سے منسلک تھا، مختلف مصروفیات تھیں، تعلیمی معیار مختلف تھے لیکن ایک چیز مشترک تھی کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد ِبیعت کو اپنی طاقتوں کے مطابق نبھانے والے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے، خلافتِ احمدیہ سے کامل وفا اور اخلاص کا تعلق رکھنے والے، حقوق العباد کا حق ادا کرنے والے تھے۔ اور یہ بات ثابت کرنے والے تھے کہ اسلام کی جس خوبصورت تعلیم پر عمل کروانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو بھیجا ہے اس کی عملی صورت حقیقت میں ان میں پائی جاتی تھی۔
مَیں نے کہا کہ یہ ایک چیز مشترک تھی۔ یہ ایک نہیں بلکہ یہ بہت ساری خصوصیات ان میں مشترک تھیں۔ ان کے واقعات ، یہ باتیں، یہ چیزیں سن کر یہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانے میں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں جن کے ساتھ جُڑ کر بندے اور خدا کے درمیان حقیقی تعلق پیدا کرنے کا سلیقہ ہمیں آسکتا ہے اور آتا ہے اور خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے پر کامل یقین اور اس کی رضا پر راضی رہنے کے اعلیٰ معیار حاصل ہوتے ہیں۔
جن مرحومین کا ذکر مَیں نے کرنا ہے ان میں سے ایک ہمارے مبلغ سلسلہ ذوالفقار احمد ڈامانک صاحب، ریجنل مبلغ انڈونیشیا کے تھے جو 21؍ اپریل کو 42سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم کی پیدائش 24؍مئی 1978ء کی ہے۔ نارتھ سماٹرا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام شہرول ڈامانک ہے۔ ان کے دادا کا نام شہنور ڈامانک تھا۔ مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا کے ذریعے سے ہوا تھا جنہوں نے 1944ء میں مولانازینی دہلان صاحب کے ذریعے سے بیعت کی تھی۔ مرحوم مبلغ سلسلہ ذوالفقار صاحب نے 1997ء سے 2002ء تک جامعہ احمدیہ انڈونیشیا میں تعلیم حاصل کی۔ وہاں اس زمانے میں کورس چند سالوں کا ، تھوڑا ہوتا تھا ۔ پھر اس کے بعد ان کو اٹھارہ سال مختلف جگہوں پر بطور مبلغ سلسلہ خدمت سرانجام دینے کی توفیق عطا ہوئی اور پھر یہ مختلف علاقوں میں بطور مبلغ خدمات سرانجام دیتے رہے۔ پسماندگان میں ان کی ایک اہلیہ مکرمہ مریم صدیقہ صاحبہ ہیں اور اس کے علاوہ چار بچے ہیں جاذب اور عائشہ خولہ اور خیرہ فاطمہ اور خیثرہ نصیرہ ۔ بچہ جو ہے پندرہ سال کا ہے اور چھوٹی بچی آٹھ ماہ کی ہے اور یہ تمام وقفِ نو کی سکیم میں شامل ہیں۔
وہاں کے ہمارے مبلغ معراج دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ ذوالفقار صاحب بہت ہی کامیاب اور محنتی مبلغ تھے۔ جہاں بھی ان کی پوسٹنگ ہوتی وہاں تربیت، رابطہ قائم کرنے اور تبلیغ کے کاموں کو نہایت عمدگی سے سرانجام دیتے تھے۔موصوف ہر ایک کے ساتھ نرمی سے بات کرتے تھے اور سب کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے۔ جب ملتے ہمیشہ مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملتے تھے۔ کبھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ دعاکرنے کی تلقین کیا کرتے تھے اوریہی وہ خاصیت ہے جو ایک واقفِ زندگی کی روح ہے اور اس میں ہونی چاہیے کہ اگر کچھ مانگنا ہے تو ہمیشہ خدا تعالیٰ سے مانگے اور کبھی مطالبہ نہ کرے اور یہ انتہائی ضروری خصوصیت ہے جو ہر واقف زندگی کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
موصوف اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان مبلغین میں شامل تھے جنہیں کثیر تعداد میں بیعتیں کروانے کی سعادت ملی اور اس وجہ سے آپ کو جماعتی انتظام کے تحت 2018ء میں یہاں جلسے پر آنے کا بھی موقع ملا ۔عملی میدان میں موصوف ہمیشہ اچھی پلاننگ کے ساتھ کام سرانجام دیتے تھے جس کی وجہ سے آپ کو ہر جگہ کامیابی نصیب ہوتی تھی۔
اسی طرح آصف معین صاحب مربی سلسلہ ان کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ نہایت صالح انسان تھے۔ مخلص اور فرمانبردار تھے۔ کچھ عرصے سے یہ بیمار تھے، علالت کے ان ایام میں بھی مرحوم جماعتی خدمات کو ترجیح دیتے تھے۔ آصف صاحب کہتے ہیں کہ جب صوبہ ریاؤ (Riao) کے ریجن میں بطور ریجنل مبلغ کام کر رہے تھے تو مجھے (آصف صاحب کو) ان کے ساتھ کام کرنے کی، ان کے ماتحت کام کرنے کی توفیق ملی۔ اور بڑی اعلیٰ قیادت کے ساتھ یہ کام کرواتے تھے۔ گورنمنٹ اور صوبے کی مختلف تنظیموں کے ساتھ مضبوط رابطے قائم کیے ہوئے تھے جس کی وجہ سے آپ کو متعدد بار مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچر دینے کا بھی موقع ملا۔ اس کے علاوہ آپ نے صوبے میں بہت ساری lost generation کے ساتھ رابطہ کر کے انہیں جماعت کے بارے میں متعارف کروایا اور پورے صوبے میں اس طرح کی مہم جاری رکھی اور ایک لوکل جماعت سنگیگی (Senggigi)کو تقریباً بیس سال کے بعد دوبارہ قائم کرنے کی ان کو توفیق ملی۔ یہ lost generation جس کو وہاں یہ لوگ کہتے ہیں ان سے رابطہ قائم کرنے کے لیے ان کو کشتی کے ذریعے سے چھوٹے چھوٹے جزیروں میں جانا پڑتا تھا اور ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے تک ڈیڑھ دو گھنٹے کا سفر تھا اور مریض ہونے کے باوجود ہمت کرتے اور کہتے کہ میرے اندر جب تک خدمت کی طاقت ہے میں آخری دم تک خدمت کرتا رہوں گا اور ان سفروں کے نتیجے میں چار خاندان اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی آغوش میں آئے۔
موصوف ڈائلیسز (dialysis) کی وجہ سے ہسپتال میں زیرِ علاج تھے تو اس حالت میں بھی ایک لوکل اجلاس میں شامل ہوئے۔ وہاں کے ایک خادم نے جب آپ سے پوچھا کہ آپ نے اتنی تکلیف کیوں اٹھائی تو اس پرآپ نے اسے جواب دیا کہ جب تک مجھ میں جان ہے مَیں جماعت کے تمام پروگراموں میں شامل ہونے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ اگرچہ میں بیمار بھی ہوں لیکن میری خواہش ہے کہ میں ہمیشہ خدمتِ دین کے کاموں میں مصروف رہوں۔ یہ ہے واقفِ زندگی کا وہ جذبہ جو ہر ایک واقفِ زندگی میں ہونا چاہیے نہ یہ کہ ذرا ذرا سی بات پر بعض لوگ جو پریشانیوں کا اظہار شروع کر دیتے ہیں وہ اظہار شروع ہو جائے۔
اسی طرح مظفر احمد صاحب وہاں کے مربی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ مجھے ان کے ساتھ جامعہ میں پڑھنے کا موقع ملا اور آخری بار قادیان میں ان سے ملاقات ہوئی تھی یعنی کہ قادیان ان کے ساتھ گئے تھے۔ شاید اس سال گئے تھے۔ قادیان جانے سے پہلے جب مرحوم بہت زیادہ بیمار تھے تو یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اتنی عمر دے کہ میں قادیان جا سکوں۔ آپ کہتے تھے کہ بیت اللہ میں عمرہ بھی کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے دی اور خلیفۂ وقت سے ملاقات کا بھی موقع مل گیا۔ اب قادیان کی زیارت کی حسرت باقی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش بھی پوری فرمائی اورقادیان کی زیارت انہیں نصیب ہوئی۔ اس سال جلسہ تو نہیں ہوا لیکن اس سے روکنے سے پہلے یہ لوگ وہاں پہنچ چکے تھے۔ اس طرح ان کو وہاں آزادی سے عبادت کا بھی موقع ملا۔ یہ مربی صاحب لکھتے ہیں قادیان میں سخت موسم اور شدید سردی کی وجہ سے موصوف کی طبیعت بہت زیادہ خراب بھی ہوئی جس کی وجہ سے انہیں جلد انڈونیشیا واپس جانا پڑا لیکن اس نازک صورتِ حال میں بھی آپ کا نیک ارادہ پورا ہو گیا۔چنانچہ موصوف کو بیت الدعا اور مسجد مبارک میں نماز پڑھنے اور دعا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ پھر کہتے ہیں کہ میں ان کو وہیل چیئر پر بٹھا کر بہشتی مقبرے کی زیارت کے لیے بھی لے گیا۔ وہاں انہوں نے دعا بھی کی۔ موصوف بہت ہی محنتی مبلغ تھے۔ شدت بیماری کے باوجود آپ نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور جو بھی جماعتی کام آپ کے سپرد ہوتا بخوبی اسے سرانجام دیتے۔ اسی طرح ساجد صاحب ایک اور مربی ہیں وہ لکھتے ہیں باوجود سینیئر ہونے کے آپ تبلیغی معاملات میں جونیئرز کی بھی رائے لینے میں کبھی جھجکتے نہیں تھے۔ طبیعت میں بہت عاجزی اور انکساری تھی۔ مرحوم بہت ہی پختہ ارادے والے تھے۔ موصوف گذشتہ سال بیمار ہو گئے لیکن ٹھیک ہوتے ہی لمبا سفر کر کے خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں حاضر ہوئے۔
باسوکی صاحب ہیں وہ لکھتے ہیں کہ یہ مبلغ انچارج بھی تھے۔ آخری تین سال جب خاکسار کی تعیناتی مشن ہاؤس آفس میں ہوئی اور تبلیغی پروگراموں کے حوالے سے میدان ِعمل میں کام کرنے والے مبلغین سے رابطہ ہوا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ تبلیغی پروگرام تشکیل دینے میں مرحوم بہت عمدگی سے کام کرتے تھے۔ تبلیغی پروگراموں کو کامیاب بنانے کے لیے داعیان اور لوکل مبلغین کے انتظامات خوش اسلوبی اور مہارت سے سرانجام دیتے اور خاکسار سے ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ بیعت کی تعداد اَپ ڈیٹ کرتے رہنا چاہیے تا کہ ریجن میں کام کرنے والے داعیان کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے اور یہی طریقہ ہے کہ بیعتوں کی تعداد کو دیکھا جائے، داعیان کو بھی بتایا جائے اور ان سے پوچھا جاتا رہے۔ اسی طرح پھر داعیان بھی ایکٹو رہتے ہیں اور باقی نظام میں بھی ان نومبائعین کو سمویا جا سکتا ہے۔
سرمد صاحب مربی ہیں وہ کہتے ہیں کہ تبلیغی امور کو سرانجام دینے کا وہ ایک خاص جذبہ رکھتے تھے۔ جب ہم شمالی سماٹرا ریجن میں بونٹو پانے سے لے کر سٹیٹ کے سرحدی علاقے سوسا تک تبلیغ کے نئے راستے کھولنے کی مہم تیار کر رہے تھے تو آپ نے بڑی ہمت اور امید سے مختلف پروگرام اور منصوبے تیار کیے اور اللہ کے فضل سے یہ مہم کافی دیر تک جاری رہی اور بعد میں فنڈز کی کچھ کمی کی وجہ سے اس میں کوئی روک بھی پیدا ہوئی لیکن ان کی اس مہم کے نتائج نکلے اور وہاں اکثر نومبائعین اسی علاقے سے آئے۔ آپ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ کبھی مایوس نہیں ہونا کیونکہ ہمارا کام تو تبلیغ کرنا اور بیج لگانا ہے۔ ہو سکتا ہے کٹائی یا اس کا پھل کسی اور کے حصہ میں آئے۔ بہرحال بڑے پختہ ارادے والے اور وفا کے ساتھ اپنا وقف نبھانے والے تھے۔
اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ انہوں نے اپنے عہدِ بیعت کو بھی نبھایا اور وقف کے عہد کو بھی خوبصورتی کے ساتھ نبھایا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا رہے۔ ان کی اہلیہ اور ان کے بچوں کو اپنی حفاظت میں رکھے اور خود ہی ان کا کفیل بھی ہو۔
دوسرے مرحوم جن کا مَیں نے ذکر کرنا ہے وہ اسلام آباد پاکستان کے ڈاکٹر پیر محمد نقی الدین صاحب ہیں جو 18؍اپریل کو وفات پاگئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ وفات سے کوئی ہفتہ عشرہ قبل ان کو یہ جوکورونا وائرس پھیلا ہے اس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔ اس پر ان کو ہسپتال داخل کرایا گیا۔ پہلے تو ان کی طبیعت سٹیبل (stable)ہونے لگی تھی مگر پھر 18؍اپریل کو طبیعت خراب ہوئی اور آئی سی یو میں شفٹ کر دیا گیا جہاں تقریباً شام کو یہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ مرحوم کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ سب شادی شدہ ہیں اور اپنے اپنے گھروں میں آباد ہیں۔ پیر محمد نقی الدین صاحب مرحوم کے ددھیال اور ننھیال سب صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد میں سے تھے۔ آپ کا شجرہ نسب حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ سے ملتا ہے ۔ آپ کے دادا حضرت پیر مظہرالحق صاحبؓ اور نانا حضرت ماسٹر نذیر حسین صاحبؓ دونوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اکابر صحابہ میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ حضرت پیر مظہر الحق صاحب ؓکو قادیان میں مدرسہ احمدیہ میں حضرت مصلح موعوؓد کا کلاس فیلو ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ لدھیانے سے بچپن میں ہجرت کر کے یہ قادیان آئے اور تقریباً چھ ماہ تک یہ پیر مظہر الحق صاحبؓ وغیرہ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں رہنے کا بھی اعزاز نصیب ہوا۔ محترم ڈاکٹر صاحب کی والدہ حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ کی پوتی تھیں۔ ڈاکٹر پیر محمد نقی الدین صاحب 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت تقریباً ایک سال کی عمر کے تھے یعنی تقریباً 1946ء کی ان کی پیدائش ہے۔ اس طرح تقریباً 74؍سال ان کی عمر ہوئی۔ آپ خاندان کے ہمراہ قادیان سے ہجرت کر کے پہلے لاہور آئے۔ پھرمیلسی ضلع وہاڑی میں آباد ہوئے۔ 1970ء میں نشتر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ 76-1975ء میں اسلام آباد شفٹ ہوئے۔ پھریہاں کے سرکاری ہسپتال پولی کلینک میں جاب ملی۔ کافی عرصہ یہاں خدمات بجا لانے کے بعد ملازمت چھوڑ کر ایران چلے گئے۔ دو تین سال تک وہاں کام کیا پھر واپس پاکستان آئے۔ یہاں اسلام آباد میں اپنا کلینک کھولا اور گذشتہ پچیس تیس سال سے اپنا کلینک چلا رہے تھے۔ اللہ کے فضل سے بڑا کامیاب تھا۔ غریبوں کی بڑی خدمت کرتے تھے۔
ڈاکٹر عبدالباری صاحب امیر جماعت اسلام آباد لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر پیر محمد نقی الدین صاحب گذشتہ بارہ سال سے زائد عرصہ سے جماعت احمدیہ اسلام آباد میں قاضی کے منصب پر خدمت بجا لا رہے تھے۔ آپ کے فیصلے ہمیشہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہوا کرتے تھے جو فریقین کے لیے نہایت تسلی کا باعث ہوتا تھا۔ انتہائی خوش اخلاق، ملنسار، پیار کرنے والے، شفیق، غریب پرور اور ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔ ہر ایک سے مسکراتے چہرے سے ملتے۔ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے۔ اس لیے دن رات مخلوقِ خدا کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ جماعت کے غرباء اور نادار مریضوں کے لیے آپ کا کلینک ہمیشہ کھلا رہتا اور آپ اکثر بلامعاوضہ سب کو فیضیاب فرماتے۔ صرف جماعت کے ہی نہیں باقی غیروں کے لیے بھی ان کا دل اور کلینک ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔ نافع الناس وجود تھے۔ آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا اور اس میں غیر از جماعت لوگوں کی بھاری تعداد شامل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قوتِ بیان بھی ودیعت فرمائی تھی۔ چنانچہ غیراز جماعت دوستوں کو پیغامِ حق پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے تھے ۔ ان حالات میں بھی اللہ کے فضل سے پیغام پہنچاتے تھے۔
یہ کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ جب 1970ء میں مَیں نے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا تو میں اپنے دادا حضرت پیر مظہر الحق صاحب کے پاس ربوہ گیا اور انہیں یہ خوشخبری سنائی کہ میں اپنے خاندان میں ڈاکٹر بننے والا پہلا نوجوان تھا۔ میرے دادا بڑے خوش ہوئے اور مجھے دیگر نصائح کرنے کے علاوہ یہ بھی نصیحت کی کہ اپنے مریضوں کو دوا دینے کے علاوہ ان کے لیے دعا بھی کرنا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جو طبیب اپنے بیماروں کے لیے دعا نہیں کرتا اور صرف اپنے علاج پر بھروسہ کرتا ہے وہ دراصل شرک کا مرتکب ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نقی الدین صاحب فرماتے تھے کہ مجھے ڈاکٹری کا پیشہ اختیار کیے پچاس سال ہوئے ہیںاور میں پچاس سال سے اپنے دادا کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اپنے زیر علاج مریضوں کے لیے نہ صرف یہ کہ سستا علاج کرتا ہوں، ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتا ہوں بلکہ بلاناغہ ہر روز دو نفل نماز پڑھتا ہوں۔ دو نفل اداکرتا ہوں اور ان کے لیے دعا بھی کرتا ہوں۔ یہ ہے وہ طریق جو ہمارے ہر ڈاکٹر کو، ہر طبیب کو اپنانا چاہیے۔ صرف اپنے پیشے کی مہارت پر ہی اعتماد نہ رکھیں، صرف دوائیوں پر یقین نہ ہو بلکہ جہاں علاج کے دوران مریض کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں وہاں ان کے لیے دعا بھی ضرور کیا کریں اور اگر نفل پڑھیںتویہ تو بہت ہی اچھی بات ہے۔
ان کی اہلیہ عظمیٰ نقی صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میرے شوہر انتہائی مخلص اور فدائی احمدی تھے۔ تبلیغ ِدین کا جنون کی حد تک شوق تھا اور آپ نے اپنی زندگی میں کئی بیعتیں بھی کروائیں اور بہت سوں کواحمدیت کی صداقت کے متعلق قائل بھی کیا۔ بہت سے لوگ ہیں جو خوف کی وجہ سے یا کسی وجہ سے احمدیت تو قبول نہیں کرتے لیکن ان کو کم از کم احمدیت کی صداقت کا قائل کر لیااور ان کو چپ کرا دیا۔ اس کے بعد پھر ان سے تعلقات بھی اچھے ہوئے۔ پھر کہتی ہیں ، انہوں نے بھی یہی لکھا ہے کہ اس محبت کے پیشِ نظر جو ان کو مریضوں سے تھی، مریضوں کے لیے دو نفل ہمیشہ پڑھتے تھے۔ پھر کہتی ہیں کہ مریضوں کی اس محبت کے پیش نظر وبا کے دنوں میں بھی کلینک جاتے کہ میرے مریض پریشان نہ ہوں۔ بخار ہونے پر چھٹی کی۔پھر لکھتی ہیں یہ جو خصوصیات تھیں۔ مریضوں کو چیک کرنا اور ان کا خیال رکھنا اور ان کے لیے دعائیں کرنا ان اوصاف کے ساتھ ایک انتہائی فرمانبردار بیٹے تھے، مثالی شوہر تھے، شفیق اور محبت کرنے والے باپ تھے اور بہن بھائیوںاور دوستوں کا بہت خیال رکھنے والے نافع الناس وجود تھے۔ زندہ خدا سے بہت گہرا تعلق تھا۔ بے حد دعا گو تھے اور زندہ و قائم خدا ان کی دعاؤں کا جواب بھی دیتا تھا۔ کہتی ہیں ہماری ایک بیٹی کے ہاں شادی کے چند سال بعد تک اولاد نہیں ہوئی۔ اس کے لیے بہت دعا کرتے تھے تو ایک رات ہم اس بیٹی کے گھر رہے۔ صبح واش روم سے جب یہ تہجد کے وقت وضو کر کے یا شاید نماز کے وقت نکلے ہیںتو تھوڑا سا جھکے۔ پوچھنے پر بتایا کہ یہاں بیڈ کے ساتھ ایک بچہ تھا یعنی کشفی رنگ میں انہوں نے اور دوسری روایت میں بھی ہے کہ کشفی رنگ میں ایک بچہ دیکھا اور وہ بیڈ پر تھا۔ کہتے تھے مجھے لگا کہ وہ بچہ گرنے لگا تھا ۔اس لیے وہ ایک دم اس کو پکڑنے کے لیے جھکے تھے۔ اس واقعے کے کچھ عرصے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور ان کی اس بیٹی کو بیٹے سے نوازا جبکہ ڈاکٹر زیادہ امید نہیں رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اس بچے کو بھی نیک اور خادمِ دین بنائے۔
ارشد اعجاز صاحب ان کے بھانجے ہیں، داماد ہیں کہتے ہیں کہ مرحوم میرے رشتے میں سب سے بڑے ماموں تھے۔ اس لیے جب سے ہوش سنبھالا ان کے متعلق بہت کچھ سنا اور دیکھا۔ بہت دعا گو، غریب کے ہمدرد، بے نفس، انتہائی نفیس اور مشکل سے مشکل وقت میں بھی خدا اور رسول کے احکامات کو سامنے رکھتے۔ کوئی بھی مشورہ گھریلو، جماعتی یا دنیوی طور پر لینا ہوتا تو وہ کہتے ہیں بلا جھجک سب سے پہلے ہمارے ذہن میں یہی آتا کہ ماموں کے پاس جایا جائے، ان سے مشورہ لیا جائے۔ اپنے ماموںڈاکٹر صاحب کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کا ایک اور کشف جو شاید کسی اور کو بھی معلوم ہو وہ ایم ٹی اے سے متعلق ہے۔ کہتے ہیں غالباً 2010ء کا واقعہ ہے جبکہ ابھی موبائل فون عموماً اور آج کل کی شکل کے ٹچ موبائل پاکستان میں کم ازکم عام نہ تھے ۔کہتے ہیں مَیں ماموں کے پاس بیٹھا تھا۔ ان کی باتیں سن رہا تھا تو بتانے لگے کہ کچھ عرصہ قبل میں نے دیکھا کہ اعلان ہوتا ہے۔ جیسے اذان ہوئی ہو اور کچھ لوگ اپنی جیب سے کچھ نکال کر اپنے کانوں کو لگا لیتے ہیں۔ معلوم کرنے پر پتا لگتا ہے کہ خلیفة المسیح کے خطبےکا وقت ہے اور تمام لوگ لائیو خطبہ سن رہے ہیں۔ اس بات کو کہتے ہیں کہ آج ہم ہر ہفتہ پورا ہوتے دیکھتے ہیں۔
پھر لکھتے ہیں کہ حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کے خاندان سے تعلق کو نہ صرف اپنے لیے باعث عزت گردانتے تھے بلکہ باقی خاندان کے افراد کو بھی تلقین کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق ہونا چاہیے۔ صرف کسی بزرگ کے خاندان کا ہونا تو کوئی کمال نہیں ہے اس لیے اصل چیز یہ ہے کہ تمہارا اپنا تعلق ہو۔ ہر وقت دعوت الیٰ اللہ کا بہت شوق تھا بلکہ جنون کی حد تک شوق تھا۔ انہوں نے بھی یہی لکھا ہے اور یہ بہت سارے لوگوں نے بھی لکھا ہے سارے بیان بھی نہیں ہو سکتے۔ یہی لکھا ہے کہ دعوت الیٰ اللہ کا بہت شوق تھا اور بڑے احسن رنگ میں قرآن کریم سے دلیلیں دے کر دعوت الیٰ اللہ کیا کرتے تھے۔
جلسہ سالانہ پر غیر از جماعت احباب کو خصوصاً گھر پر مدعو کرتے تھے اور پھر پُرتکلف کھانوں سے ان کی تواضع بھی کرتے۔ جلسہ ان کو سنواتے اور یوں تبلیغ کا سلسلہ بھی کھل جاتا۔ یہ کہتے ہیں جب کورونا وبا آئی تو ماموں نے کلینک جانا بند نہیں کیا۔ میں نے بڑی دفعہ فون کر کے انہیں بتایااور سمجھانے کی کوشش کی کہ کلینک نہ جائیں تو یہی کہتے تھے کہ اگر ڈاکٹر گھر بیٹھ جائیں تو مریض کیا کریں اور پھر دلیلیں بھی دیتے تھے جس پر میں لاجواب ہو جاتا تھا اور بہت بیماری کی حالت میں بھی کلینک جاتے تھے اور ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ ہم تو خدمت کے لیے یہاں آتے ہیں۔ ایک ڈیوٹی ہے جو دے رہے ہیں۔کلینک کا مقصد صرف پیسہ کمانا نہیں ہے ۔
ان کی بیٹی نورین عائشہ نورالدین کہتی ہیں کہ میرے والد صاحب ایک نہایت شفیق اور مہربان اور دعا گو باپ تھے۔ ہر معاملے میں ہمیشہ دعا کرنے اور اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق قائم کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ کہتی ہیں کہ کسی بھی حوالے سے جب ہم دعا کے لیے کہتے تو یہی کہتے کہ خود بھی دعا کرو مَیں بھی کرتا ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ سے رہ نمائی لے کے ہمیں بتاتے کہ مجھے ایسی خواب آئی ہے یا اس طرح اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے۔ پیشے کے لحاظ سے ہزاروں کی مسیحائی کرتے، ہزاروں کا مفت علاج اور کفالت کرتے۔ مریضوں سے اتنی کم فیس لیتے کہ زیادہ تر غریب ہی آپ کے مریض تھے۔ پھرلکھتی ہیںکہ میرے والد تو چلتا پھرتا قرآن تھے۔ کسی بھی معاملے کے متعلق قرآن سے رہ نمائی چاہنی ہو تو پہلے زبانی آیت پڑھتے پھر ترجمہ بیان کرتے اور سمجھاتے۔ پھر خلافت سے اس قدر محبت تھی کہ جیسے ہی ایم ٹی اے پر ایک گھنٹے کا خطبہ آنا شروع ہوا تو فوری طور پہ گھر پر ڈش کا انتظام کیا تاکہ ایم ٹی اے دیکھنے کے لیے لوگ ہمارے گھر آئیں اور خلافت سے اس محبت کی وجہ سے جلسہ سالانہ کے موقعے پر جو اختتامی خطاب ہوتا ہے وہ بھی کئی غیر احمدیوں کو بلا کر سنواتے۔ ساری بیعت کی کارروائی دکھاتے۔ جلسے کی کارروائی دکھانے کے ساتھ ساتھ کھانے کا بھی اچھا انتظام ہوتا اور کہتے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہیں۔
پھر ان کی بیٹی وردہ کہتی ہیں کہ بچپن سے ہی ہمیں نماز، قرآن، روزے رکھنے، وقت پر چندے ادا کرنے اور صدقہ و خیرات کرنے کی عادت ڈالی۔ ہم بہن بھائیوں کی شادی کرتے وقت صرف اور صرف دین دیکھا۔ کبھی دنیاوی چیزوں کی پروا نہیں کی اور ہم سب کو بچپن سے ہی یہ بات بھی سکھائی کہ ہر خواہش فوراً پوری نہیں ہوتی۔ اس لیے ہمیشہ صبر اور دعا سے کام لینا پڑتا ہے۔
عبدالقدوس صاحب ان کے داماد ہیں کہتے ہیں کہ خاکسار کے ساتھ سسر کا تعلق ایک باپ کا سا تھا اور کہتے ہیں کہ مجھے ہمیشہ اس لیے ان سے ملنے کا اشتیاق رہتا کہ کوئی نئی بات، کسی آیت کی تشریح یا کوئی اختلافی مسئلہ ایک نئے پہلو سے سیکھنے کو ملے گا۔ کہتے ہیں کہ میں شادی کے شروع دنوں میں سسرال میں بے تکلف نہیں تھا، ہچکچاتا تھا۔ انہوں نے اپنی ایسی اپنائیت دکھائی کہ ہچکچاہٹ دور ہو گئی۔ پھر لکھتے ہیں کہ انہیں دنیاوی معاملات میں، سیاست میں یا کسی فیشن اور زمانے کے رجحان میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ عبادات، قرآن، دینی علوم اور اخلاقیات ہی محض ان کے پسندیدہ موضوعات ہوتے تھے۔ بدعات کے خلاف ایک ایسی چٹان تھے جس کو کوئی ہلا نہیں سکتا تھا۔ شادی وغیرہ کے موقعے پر انہوں نے بدرسومات کو سختی سے روکا۔ اگر بچیاں کوئی گیت گا لیتی تھیں جس سے کسی کو شرک کا شائبہ ہی ہوتا تو فوراً اسے روکتے اور بڑی سختی سے روکتے۔
اسی طرح ان کی بیٹی قرة العین ہادیہ کہتی ہیں کہ انہوں نے مجھے نصیحت کی کہ کبھی کسی کے خلاف دل میں بات نہ رکھنا۔ اپنے سسرال والوں کو اپنا سمجھنا۔ کسی کو اپنی زبان سے یا عمل سے تکلیف نہ دینا۔ اور پھر انہوں نے یہ بھی بیٹی کو کہا کہ اپنے کسی اچھے کے ساتھ اچھا ہونا تو کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ برے کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرو اور یہ وہ تعلیم ہے جو اسلام کی تعلیم ہے اور جس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اس زمانے میں بتایا کہ یہی چیز ہے، یہی وہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو آج کل دوسروں کو تمہاری طرف کھینچنے کے لیےمتوجہ کریں گے۔ تمہاری طرف متوجہ کریں گے اور کھینچیں گے۔ پھر کہتی ہیں انہوں نے کہا کہ فساد قتل سے بڑا گناہ ہے اس لیے فساد کو روکنے کے لیے سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل اختیار کرو۔ یہ بھی وہ اعلیٰ نصیحت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں فرمائی اور یہی وہ نصیحت ہے جو والدین اگر بچوں کو کرتے رہیں تو ایک حسین معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔
آپ کے بیٹے پیر محی الدین صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ ہمارے گھر کے لاؤنج میں بیٹھے درس دے رہے ہیں۔ میں بھی وہیں بیٹھا ہوا ہوں اور مجھ سے مخاطب ہو کر انہوں نے فرمایا کہ یہ گھر نہیں دَر ہے۔ اس سے تمہیں فیض ملتا ہے۔ اس دَر کو کبھی نہ چھوڑنا اور مجھے مخاطب ہو کر کہا کہ تمہارا باپ ولی اللہ ہے۔ اور پھر کہا یقین رکھو تمہارا باپ ولی اللہ ہے۔
غریبوں کا بہت درد رکھتے تھے۔ بہت سارے خاندانوں کا ماہانہ راشن اور بچوں کی تعلیم، ادویات اور علاج کی ذمے داری لے رکھی تھی۔ روزانہ پچاس فیصد سے زیادہ مریضوں کو مفت دیکھتے تھے۔
اسی طرح ان کے داماد عبدالصمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ قرآن کریم سے بے انتہا محبت تھی اور جب کوئی حوالہ دینا ہوتا تو آیت ضرور پڑھتے۔ پھر اس کا ترجمہ پیش کرتے۔ غیر احمدیوں سے باتوں میں جب کوئی کہتا کہ مرزا غلام احمدؑ کا کوئی نشان یا معجزہ دکھاؤ تو کہتے تھے کہ مَیں معجزہ ہوں۔ آپ ایک مکمل احمدی تھے۔ جو امید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی جماعت سے تھی اس کے وہ صحیح مصداق تھے۔ ان کی شخصیت میں یہ بات موجود تھی کہ جو ان سے ملتا تھا اس کی طبیعت میں نیکی کا رجحان پیدا ہو جاتا تھا۔ یہی ایک نیک آدمی کی خاصیت ہے کہ اس کے ساتھ بیٹھنے والے بھی نیک ہوتے ہیں اور پھر یہی نہیں ہے کہ بعض دلائل سے کہہ دیا کہ میں نشان ہوں۔ بلکہ جب غیر احمدی بعض دفعہ مذاق سمجھتے کہ یہ مذاق کر رہے ہیں تو کہتے کہ مذاق نہیں کر رہا بلکہ حقیقت ہے اور دلائل سے دوسروں کو قائل کرتے تھے کہ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے اور بہت سارے احمدی جو صحیح تعلیم پر عمل کر رہے ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک زندہ نشان اور معجزہ ہیں۔ پس یہ ہے وہ معیار جو ہر احمدی کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ بجائے پرانے نشانوں کو تلاش کرنے کے خود ایک نشان بنیں۔
اسی طرح عبدالرؤوف صاحب اسلام آباد کے نائب امیر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کئی لوگوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہم تو کسی اَور ڈاکٹر کو جانتے ہی نہیں۔ اب ہم کیا کریں گے۔ کئی جماعت کے ایسے غریب دوست ہیں جن کو کبھی علاج کا مسئلہ نہیں ہوا۔ بغیر سوچے سمجھے وہ ڈاکٹر نقی صاحب کے کلینک پہنچ جاتے تھے، وہاں سے علاج کرواتے تھے۔ بہت سے غیر احمدی دوستوں نے بھی اظہار کیا ہے کہ وہ ہمارے گھر کے بڑے تھے۔ ہم ان سے مشورہ کیے بغیر کبھی کچھ کرتے ہی نہیں تھے۔ صرف احمدی ہی نہیں غیر احمدی بھی ان سے مشورہ کرتے تھے۔ بعض غیر احمدی، غیرازجماعت فیملیز جو ہیں ان کے گھریلو جھگڑے اور معاملات بھی ڈاکٹر صاحب حل کرتے کیونکہ جس جگہ ان کا کلینک ہے وہاں تقریباًچالیس سال سے زائد عرصے سے ان کا کلینک قائم ہے اور پہلے باپ آتا تھا پھر اس کے بچے آنا شروع ہو گئے ۔ کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب نے کئی لوگوں کے واقعات مجھے سنائے۔ بعض غیر احمدی اپنے بچوں کو نصیحت کر کے فوت ہوتے تھے کہ اپنے کسی اختلاف یا جھگڑے کے وقت ڈاکٹر نقی سے مشورہ ضرور کرنا۔
پھر یہ لکھتے ہیں کہ گذشتہ سال 2019ء میں جون کے آخری جمعہ کو ڈاکٹر صاحب جمعہ کی نماز کے بعد میرے دفتر میں آئے اور دروازہ بند کر کے کہنے لگے کہ تمہیں ایک بات سنانی ہے اور یہ صرف میری بیوی کو معلوم ہے۔ کہتے ہیں چار دن پہلے مَیں نے خواب میں دیکھا کہ میدانِ جنگ ہے جہاں لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ وہاں کھڑا ہوں کہ میں ان شہید ہونے والوں میں کیوں شمار نہیں ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز آتی ہے کہ جس کو پانچ زخم لگیں گے وہ شہید ہو گا۔ کہتے ہیں میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اونچی جگہ پر ایک فوجی کمانڈر کی طرح کھڑے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اپنے زخم گننے شروع کیے۔ تین زخم بہت گہرے تھے اور ایک ٹانگ پر بہت ہلکی خراشیں تھیں۔مَیں نے بہت زیادہ استغفار کرنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد آنکھ کھل گئی اور مَیں سوچ رہا تھا کہ اس کا کیا مطلب ہو گا۔ کہتے ہیں میرے دل میں بہت زور سے چندے کا خیال ڈالا گیا اس کا حساب کرنا چاہیے۔ کہتے ہیں کہ میرے سے سستی ہوئی۔ اگلے دن صبح کی نماز کے لیے جب مَیں اٹھا تو میرے دل میں بہت سختی سے خیال آیا کہ میں نے ابھی تک حساب نہیں کیا۔ کہتے ہیں میں نے جا کر صبح اپنا حساب کیا تو واقعی کچھ رقم حساب کے بغیر تھی۔ کہتے ہیں آج انہوں نے دس لاکھ کا چیک سیکرٹری صاحب مال کو دے دیا اور کہتے ہیں کہ مَیں اس دن سے بہت استغفار کر رہا ہوں۔
عزیزالرحمٰن صاحب، مجیب الرحمٰن صاحب ایڈووکیٹ کے بیٹے ان کے بھانجے ہیں ۔کہتے ہیںکہ بارہا ان سے ان کے بچپن اور زندگی بھر کے واقعات سنے۔ انتہائی نامساعد حالات میں خدا کے فضل اور والدین کی دعاؤں کے ساتھ ڈاکٹر بنے۔ بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے ایسا وقت بھی دیکھا ہے کہ کام کرنے کے لیے کاغذ خریدنے کے لیے رقم نہیں ہوتی تھی تو استعمال شدہ لفافے جمع کر کے ان کو کھول کر ان پر نوٹس وغیرہ بنایا کرتے تھے۔ اسی طرح گاؤں میں جب سکول میں پڑھتے تھے تو حساب کا ٹیچر نہیں تھا تو دوسرے گاؤں میں جا کے وہاں کے حساب کے استاد سے حساب سیکھتے تھے۔ پھر اپنے گاؤں میں آ کے اپنے بچوں کو ، اپنی کلاس کے لڑکوں کوپڑھایا کرتے تھے۔
پابندیٔ نماز کی عادت کا واقعہ انہوں نے بیان کیا کہ جب چھوٹے تھے تو ایک روز یہ اور ان کی ہمشیرہ کھیلتے کھیلتے عشاء کی نماز ادا کیے بغیر سو گئے۔ کس طرح ان کو پابندی نماز کی عادت پڑی اس کا یہ واقعہ دلچسپ ہے۔ کہتے ہیں جب والدہ نے پوچھا کہ نماز پڑھ لی ہے۔بچے تھے سو گئے تھے۔ تو انہوں نے سوئے سوئے کہہ دیا کہ ہاں پڑھ لی ہے۔ کہتے ہیں کہ آدھی رات کو والدہ نے آ کر اٹھایا اور وہ ڈاکٹرصاحب کی والدہ رو رہی تھیں کہ تم نے مجھ سے نماز کے بارے میں جھوٹ بولا ہے کہ تم نے پڑھ لی ہے۔ خدا تعالیٰ نے کشفا ً بتا دیا تھا کہ نماز نہیں پڑھی۔ کہتے ہیں اس دن کے بعد سے پھر ہم نے کبھی نماز نہیں چھوڑی۔ تو یہ تھا اور یہ احمدی ماؤں کا مقام ہونا بھی چاہیے۔ بچوں کی تربیت کی، نمازوں کی فکر تھی اور اس کے لیے دعا کرتی تھیں اور جب دردِ دل سے دعا کی تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو نظارہ بھی دکھا دیا کہ اچھا تو پھر صحیح صورت یہ ہے کہ تمہارے بچوں نے نماز نہیں پڑھی ان کو اٹھاؤ اور پھر روتے ہوئے انہوں نے اپنے بچوں کو جگایا ۔جس کا اتنا اثر ہوا کہ کہتے ہیں پھر ساری زندگی ہم نے کبھی نمازنہیں چھوڑی۔ اکثر باتوں کا حوالہ قرآن کریم ہی سے پیش کیا کرتے تھے۔ کہاکرتے تھے کہ اگر خدا سے زندہ تعلق پیدا نہ ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا نہیں ہوتا کیونکہ حضور علیہ السلام کی بعثت کا مقصد ہی خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنا تھا۔
اسی طرح ڈاکٹر عطاء الرحمٰن صاحب ان کے بھانجے ہیں یہ کہتے ہیں قرآن کریم پر تدبر کرتے رہتے اور قرآن کریم کا گہرا علم رکھتے تھے۔ اکثر لمبی لمبی آیات زبانی یاد تھیں۔ پاکستان کے آج کل کے حالات کے باوجود کٹر مخالفین کو گھر پر دعوت دے کر جلسہ سالانہ کی کارروائی اور خطبات سنواتے تھے۔ آپ کی تبلیغ سے اکثر لوگ متاثر ہوتے اور اللہ کے فضل سے کئی بیعتیں بھی آپ کے ذریعے سے ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔
اگلا ذکر جو ہے وہ مکرم غلام مصطفیٰ صاحب کا ہے جو یہاں لندن میں رہتے تھے۔ پھر یہاں ٹلفورڈ میں آگئے۔ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے یہاں یوکے میں رضاکار کارکن تھے۔ ان کی 25؍ اپریل کو 69سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
1983ء میں خلافتِ رابعہ کے دَور میں انہوں نے بیعت کی تھی اور 1986ء میں یہ لندن آئے اور مسجد میں ٹھہرے تو آتے ہی وقف کی درخواست کی۔ کیونکہ تعلیم ان کی بہت معمولی تھی۔ اس وجہ سے شاید وقف تو منظور نہیں ہوا لیکن ایک واقفِ زندگی کی طرح یہ پہلے تو کچن میں اور پھر دفتر میں کام کرتے رہے۔ یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ان کا کاروبار بھی وسیع کر دیا۔ خالی ہاتھ آئے تھے لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت ڈالی کہ کچھ پراپرٹی خریدنے کی توفیق ملی۔ پھراس سے آگے پراپرٹی بنانے کی توفیق ملی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے برکت ڈالی جس کو انہوں نے غریبوں پربھی خرچ کیا، جماعت پر بھی خرچ کیا لیکن میں کہہ رہا تھا کہ یہ وقفِ زندگی کی حیثیت سے اس طرح رہے۔پہلے خلافتِ رابعہ میں بھی ان کا یہی طریقہ ہو گا میرے وقت میں بھی یہ رہا کہ جب بھی دفتر سے کاروباری سلسلے میں اگر کہیں جاتے تھے، دوسرے ملک جانا ہوتا تھا یا ویسے لمبی چھٹی کرنی ہوتی۔ کچھ عرصہ دفتر نہ آنا ہوتا تھا تو باقاعدہ رخصت لیتے تھے کہ مجھے رخصت چاہیے کیونکہ میں فلاں جگہ جا رہا ہوں اور ایک واقف زندگی کی طرح انہوں نے کام کیا اور کہا کرتے تھے کہ وقف تو نہیں لیکن میں اپنے آپ کو واقف زندگی سمجھتا ہوں۔ بہرحال بڑی وفا کے ساتھ انہوں نے اپنے سے جو یہ ایک عہد کیا تھا اور اللہ سے جو وقف زندگی کا عہد کیا تھا اس کوانہوں نے پورا کیا چاہے باقاعدہ وقف میں تھے یا نہیں تھے۔
مسجد میں رہائش کے وقت ان کو کسی نے شروع میں ہوٹل میں جاب کرنے کے لیے بھیجا۔ وہاں ان کو ویٹر کے طور پر کام ملا۔ ان کو یہ ملازمت اچھی نہیں لگی۔ چنانچہ اگلے دن وہ کام چھوڑ کے آ گئے اور کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ جب مجھےبغیر کسی کام کے پیسے بھی مل رہے ہیں تو اس کام سے بہتر ہے کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر کے برتن دھو لوں اور پھر ولی شاہ صاحب کے ساتھ مسجد فضل کے کچن میں کام شروع کر دیا ۔ پھر حفاظتِ خاص میں بھی کچھ عرصہ ڈیوٹیاں دیتے رہے۔ 1993ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابع نے پی ایس آفس میں انہیں ڈیوٹی دی اور اس وقت سے لے کر اب تک جیسا کہ مَیں نے کہا بڑی خوش اسلوبی سے یہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔
ان کی اہلیہ محمودہ مصطفیٰ صاحبہ لکھتی ہیں کہ میرا اور مصطفیٰ صاحب کا تقریباً چونتیس سال ساتھ رہا ہے اور مَیں ان سالوں کی گواہی دے سکتی ہوں کہ ان کا ہر قدم خدا تعالیٰ کے لیے ہوتا تھا۔ بے شماراوصاف کے مالک تھے۔ ایک مخلص شوہر، باپ، بھائی اور دوست تھے۔ اپنے رشتوں کو نبھانے والے، بہت دور اندیش، ہر ایک کے کام آنے والے، بے لوث خدمت کرنے والے، بہادر اور نڈر انسان تھے۔ خلافت پر مر مٹنے والے وجود تھے۔ کہتے تھے کہ جب میں نے پاکستان میں بیعت کی تو اپنے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ میں نے ہمیشہ خلافت کے نزدیک رہنا ہے۔ اس وقت ان کے پاس کوئی وسائل نہیں تھے لیکن انہوں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ وعدہ پورا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے سامان بھی مہیا فرما دیے۔ مالی قربانی کا بہت شوق تھا۔ کہتی ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ میرا بیٹا پیدا ہوا تو میں نے ان سے کہا کہ میں نے سوچا ہے کہ میں اپنا آدھا زیور جماعت کو دے دوں تو فوراً جواب دیا کہ آدھا کیوں دیتی ہو پورا دو۔ کہتی ہیں شروع کی بات ہے کہ افریقہ کے لیے مساجد بنانے کی تحریک ہوئی تو اس وقت اپنے پاس گھر بھی نہیں تھا لیکن جو بھی پیسے جمع ہوتے تھے وہ مساجد کے چندے میں دے دیتے تھے اور اپنی ذات پر وہ کنجوسی کی حد تک خرچ کرتے تھے لیکن دوسروں پر خرچ کرنے سے پہلے کبھی سوچتے بھی نہیں تھے۔ ہمیشہ جہاں دین کو فوقیت دی وہاں ایک سچے مومن کی طرح دین اور دنیا دونوں کمائی۔ ہرکام میں مجھے ساتھ رکھا تا کہ مجھے ہر چیز کا پتا ہو اور ہمیشہ مجھ پر پورا اعتماد کیا۔پھر کہتی ہیں کہ مصطفیٰ صاحب اپنی فیملی میں اکیلے احمدی تھے۔ جب انہوںنے بیعت کی تو اپنے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ اپنے والد کی وراثت سے کچھ نہیں لینا اور دعا کی کہ اے اللہ! اگر تیرا مسیح سچا ہے اور مَیں نے سچا سمجھ کے بیعت کی ہے تو مجھے اپنی جناب سے دینا اور کسی کا محتاج نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش پوری فرمائی اور ثابت کر دیا کہ تم نے جو بیعت کا قدم اٹھایا ہے وہ حقیقتاً سچ ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے بڑے مختلف طریقوں سے ان کی مدد بھی کی۔ اپنے گاؤں میں پھر انہوں نے بڑی مسجدبھی بنوائی کہ کبھی نہ کبھی تو یہ لوگ احمدی ہوں گے اور اس کے علاوہ مختلف طریقوں سے اپنے رشتے داروں کی، بہن بھائیوں کی خود مدد کرتے رہے۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں ان کو اپنی دعاؤں کی قبولیت پر بھی بڑا کامل یقین تھا۔ اور اس کے بےشمار واقعات انہوں نے آگے لکھے ہیں۔
ان کی بیٹی صبیحہ مصطفیٰ کہتی ہیں کہ میرے والد کی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے قائم کردہ نظامِ خلافت سے محبت کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ پر کامل درجہ توکل تھا۔ ہمیں اکثر بتایا کرتے تھے کہ مَیں نے فلاں موقعے پر یہ دعا کی جو اس طرح پوری ہوئی۔ آپ کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی کہ کہیں سے خلیفة المسیح کا تبرک مل جائے اور کہیں سے تبرک مل جاتا تو اس میں سے اپنا حصہ ضرور محفوظ کر لیتے اور پھر تھوڑا تھوڑا کر کے لوگوں میں تقسیم کرتے تاکہ وہ بھی اس سے مستفیض ہوں۔ تبرک کو گھر میں بھی اس نیت سے جمع کرتے تا کہ جلسے کے مہمانوں کو بھی اس میں سے کچھ حصہ دے سکیں۔ کہتی ہیں کہ ابو کے ،میرے والد صاحب کے بہت سارے واقف کاروں نے مجھے فون کر کے کہا کہ ہمیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم ایک بار پھر یتیم ہو گئے ہیں۔ غریبوں کی مدد بھی بہت زیادہ کرتے تھے۔ کہتی ہیں جب ہم وہاں لندن میں تھے اور ٹوٹنگ سے گریسن ہال روڈ منتقل ہوئے تو ابو کی کوشش تھی کہ جلدی کوئی بڑا گھر مل جائے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی بھرپور رنگ میں خدمت کی توفیق ملے اور ہمیشہ کہتے تھے کہ گھر لینا ہے تو خلافت کے سائے میں لینا ہے۔ یہاں سے دور کبھی نہیں جانا۔ کہتی ہیں میرے والد نہایت اخلاص کے ساتھ ہر ایک کی مدد کرتے تھے ۔کوئی دکھ یا تکلیف میں مبتلا ہوتا تو اس کی بہتری کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے۔ اپنی بیماری کے دنوں سے قبل انہوں نے مجھے آخری نصیحت کی کہ ہمیشہ جماعت کے ساتھ جڑے رہنا، نمازیں پڑھنا اور قرآن کی تلاوت باقاعدگی سے کرتے رہنا تو اللہ ہمیشہ ساتھ دے گا۔
ان کی دوسری بیٹی ہیں۔ پہلے تو چھوٹی بیٹی کا ذکر تھا۔ بڑی بیٹی مدیحہ مصطفی ٰکہتی ہیں کہ بے شک میرے والد ایک گاؤں سے آئے تھے، زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن ان کے خیالات، دُور اندیشی اور زندگی کے اصول ان کو بہت پڑھے لکھے لوگوں سے بھی آگے لے گئے۔ آج کی دنیا میں بہت کم لوگ ایسے دیکھے ہیں جو سچے معنوں میں مرد اور عورت کو برابری کا مقام دیتے ہیں۔ انہوں نے بیٹیوں کو کبھی بوجھ نہیں سمجھا بلکہ اکثر کہتے تھے کہ جس کی بیٹی ہو گئی وہ تَر گیا اور اس کے کام کے دن ختم ہو گئے اور آرام کے دن شروع ہو گئے۔ کہتی ہیں اپنے بیٹے اور بیٹیوں کی برابر تعلیم و تربیت کا فرض بخوبی نبھایا۔ اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اس کے ساتھ انہوں نے اولاد سے محبت کے باوجود کبھی حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پیچھے نہیں چھوڑا۔ عید ہو یا بیٹی کی شادی ہو یا کوئی اَور کام ہو انہوں نے کبھی نماز کو نہیں چھوڑا۔ خدا پر توکل تھا۔ وہ جانتے تھے کوئی کام پیچھے نہیں رہے گا لیکن اگر فکر تھی تو اس بات کی تھی کہ عبادت کی کمی کی وجہ سے خدا کی کوئی ناراضگی نہ آ جائے۔
ان کے بیٹے سرفراز محمود کہتے ہیں کہ جب ہم ٹوٹنگ میں رہا کرتے تھے تو اس وقت بھی باقاعدگی سے نماز پڑھنے کے لیے مسجد فضل جاتے تھے۔ کبھی کوئی نماز مسجد میں ادا نہ کر سکتے تو اس بات کو یقینی بناتے کہ ہم سب مل کر گھر میں باجماعت نماز ادا کریں۔ کہتے ہیںمجھے کہتے تھے کہ زندگی میں تم جو چیز حاصل کرنا چاہو صرف ایک اللہ کی ذات ہی ہے جو اسے پورا کر سکتی ہے۔ اگر نماز کا وقت ہوتا تو باقی ہر کام چھوڑ کر پہلے نماز ادا کرتے۔ پھر یہ بیٹاکہتا ہے کہ پندرہ سال کی عمر تک مجھے باقاعدگی سے اپنے ساتھ فجر کی نماز پر لایا کرتے تھے۔ پھر کہتا ہے ان کی دعائیں ہی تھیں جن کی برکات ہمیں حاصل ہو رہی ہیں۔ اور جب مسجد سے فجر کی نماز کے بعد آتے تو جائزہ لیتے کہ میں مسجد گیا ہوں کہ نہیں۔ اگر کبھی سستی ہو جاتی تو کہتے کہ اللہ تعالیٰ سے بے وفائی کرنے میں تمہارا ہی نقصان ہے۔ اللہ کو تمہاری نمازوں کی ضرورت نہیں۔ ہر انسان اپنے لیے نماز پڑھتا ہے۔کہتے ہیں کہ علالت کی وجہ سے ہم نے ایمبولینس بلوائی تو اس وقت بڑی بھاری آواز میں سانس لے رہے تھے لیکن اس وقت بھی لیٹنے یا بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہو کر نماز ادا کر رہے تھے اور کہتے ہیں کہ ہسپتال جاتے ہوئے جب سیڑھیاں اتر رہے تھے تو بار بار یہی کہا کہ نماز کو باجماعت ،ہمیشہ جماعت کے ساتھ اور وقت پر ادا کرنا ۔
پھر مہمان نوازی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی۔ بڑا گھر تھا تو وہاں چالیس کے قریب جلسے کے مہمان ہوتے تھے۔ یہاں جب مسجد کے قریب آئے تو چھوٹا گھر تھا تو وہاں بھی پچیس کے قریب افراد سماتے تھے۔ اس گھر میں بھی پچیس مہمانوں کا سمانا ایک بڑا مشکل کام ہے لیکن بہرحال بڑی خوشی سے کرتے تھے۔ مَیں نے بھی ان سے کئی دفعہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ بس ہم اپنا گزارہ کر لیتے ہیں اور گھر مہمانوں کو دے دیتے ہیں۔ ہمیشہ کہتے تھے کہ دین اور دنیا دونوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہے لیکن یہ یادرکھو کہ یہ کام آسان نہیں ہے۔ جب بھی کوئی دنیاوی معاملہ سامنے آئے تو دین کو ہمیشہ دنیا پر مقدم رکھنا۔ یہی ہمیشہ انہوں نے بچوں کو نصیحت کی۔ کہتے ہیں مجھے ہمیشہ یہ نصیحت کی کہ ہمارا سب کچھ اللہ کی جماعت کی امانت ہے اس لیے ہماراکام ہے کہ ہم اس کی حفاظت کریں اور اس امانت کو اس نیت سے بڑھائیں کہ یہ جماعت کے کام آ سکے۔ ہمیشہ تلقین کرتے کہ چندے کی ادائیگی میں کبھی تاخیر نہیں کرنی اور خود مہینے کے پہلے دن ہی اپنا چندہ ادا کر دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ مت سوچنا کہ جماعت کو ہمارے چندے کی ضرورت ہے بلکہ چندہ دینے سے ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو جذب کر سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ علالت کے آخری ایام میں جب وینٹی لیٹر لگایا گیا تو قومہ میں جانے سے پہلے، پھر بعد میں قومہ میں چلے گئے تھے، آخری الفاظ جو انہوں نے مجھ سے کہے وہ یہی تھے کہ سرفراز مَیں جانتا ہوں کہ مہینے کا پہلا دن گزر گیا ہے۔ میری الماری میں جا کر دیکھو وہاں تمام فائلیں موجود ہیں، میرے چندے کا حساب کتاب لکھا ہوا ہے میرا پورا چندہ ادا کردو اور میری نصیحت ہمیشہ یاد رکھنا کہ ہر مہینے کے پہلے روز اپنا سارا چندہ ادا کرنا اور اس میں کبھی تاخیر نہ کرنا۔
ان کے سسر کرامت اللہ صاحب کہتے ہیں کہ عزیزم مصطفیٰ نے اپنی بیوی کے رحمی رشتوں کو بڑے خلوص سے نبھایا اور خاکسار کو اپنے حقیقی والد کا درجہ دیا۔ مصطفیٰ نے ساری زندگی خدا تعالیٰ کی عبادت اور خلافت کے قدموں میں خدمت کرتے ہوئے گزار دی۔
اسی طرح بلال ان کے داماد ہیں وہ کہتے ہیں مختلف قرآنی دعائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی فوٹو کاپیاں حاصل کرکے مجھے بھی اور اپنے باقی بچوں، دوستوں اور رشتہ داروں کو دیا کرتے تھے کہ اس کو پڑھو اور قرآنی دعاؤں کو یاد کرو۔ کہتے ہیں مَیں نے دیکھا کہ مسجد فضل میں جو درس ہوتا تھا اس کی کاپی حاصل کر کے اس کو گھر آ کر دوبارہ پڑھتے تھے اور سب کو پڑھنے کے لیے دیتے اور موبائل فون سے اس کی تصویر بنا کر اپنے دوسرے غیر احمدی بہن بھائیوں اور ان کے بچوں کو بھی بھیجا کرتے تھے اور اس کے بعد ان کو فون کر کے پوچھا کرتے تھے کہ انہوں نے پڑھا ہے یا نہیں اور پھر یوں تبلیغ کرتے رہتے تھے۔ بہت مہمان نواز تھے۔ عام دنوں میں تقریباً ہر روز کسی نہ کسی کو بطور مہمان گھر لے آتے اور جلسے کے دنوں میں تو چوبیس گھنٹے مہمانوں کی آمد و رفت رہتی اور ہر ایک کو یہی کہا کرتے تھے کہ پوچھنے کی ضرورت کوئی نہیں ہے۔ اپنا گھر سمجھو اور آ جایا کرو۔
حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کو تو آپ خاص طور پر بہت فوقیت دیتے تھے۔ کہتے تھے ہر وقت میرے دروازے کھلے ہیں۔ اگر کوئی ایک بار ان کے گھر ٹھہرنے کے لیے جلسے پہ آ جاتا اور اگلے سال کہیں اَور قیام ہوتا تو بڑے پریشان ہوتے کہ شاید میرے سے کوئی کوتاہی ہو گئی ہے۔ مہمان نوازی میں کمی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے وہ نہیں آیا۔ پھر اگر موقع ملتا تو زبردستی اسے اپنے گھر لے بھی آتے۔ اپنے باقی دنیاوی کاموں اور کاروبار کو اس طرح manageکر رکھا تھا کہ نماز کے وقت میں بھی رکاوٹ نہ بنیں۔ کاموں کو چھوڑ کر مسجد پہنچ جایا کرتے تھے۔
اسی طرح ان کے برادر ِنسبتی سہیل احمد صاحب چوہدری ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایسے وجود تھے جنہیں تین چیزوں کا جنون کی حد تک شوق تھا ۔ایک عبادت، دوسرا خلافت سے تعلق اور تیسرا مہمان نوازی۔ مصطفیٰ بھائی کا گھر جلسہ کے دنوں میں حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں سے بھرا ایک سرائے کا منظر پیش کرتا تھا۔
اسلم خالد صاحب ہمارے پرائیویٹ سیکرٹری کے کارکن ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دفتر میں آپ سے روزکا تعلق تھا۔ بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ نڈر، نیکیوں میں سبقت لے جانے والے، غریب پرور، مہمان نواز، چندوں میں بے مثل۔ ہر نیک کام کی تلاش رکھتے۔ دفتر میں ہر بندے سے کام حریصوں کی طرح چھین کر خود کرنے کے مشتاق رہتے۔ کہا کرتے تھے کہ یہی میری کمائی ہے اور کہتے تھے اب یہی صحیح کام ہے اور تب خوش ہوتے تھے۔
فہیم احمد بھٹی صاحب بھی کارکن پرائیویٹ سیکرٹری ہیں۔ یہ والنٹیئر ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ غالباً 1992ء سے دفتر میں کام کرنا شروع کیا۔ ان دنوں سٹاف کی کمی تھی۔ بڑی باقاعدگی سے کام کرتے۔ ایک وفادار اور جاں نثار کارکن تھے۔ بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے جن میں سب سے زیادہ نمایاں پیاری اور قابلِ رشک خوبی خلافت کے ساتھ دلی پیار، اطاعت و فرمانبرداری اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر رہ نمائی لینا تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مالی کشائش عطا فرمائی تھی۔ جب بھی اس کا تذکرہ کرتے، ہمیشہ کہتے کہ اس دفتر میں کام کرنے اور اس دَر کی برکت سے مجھے سب کچھ ملا ہے۔
ڈاکٹر طارق باجوہ صاحب کہتے ہیں کہ میرا دوستی کا تعلق 81ء 1980-ء سے تھا اور احمدیت قبول کرنے سے لے کر وفات تک انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بے شمار خوبیوں کے مالک، اللہ پر توکل کرنے والے اور خلافت کے عاشق تھے۔ سندھ آ کر اپنے ایک دُور کے رشتے دار کے پاس رہنے لگ گئے کیونکہ وہاں پنجاب میں زمین پر ان پہ کچھ مقدمات ہو گئے تھے۔ وہاں سے یہ پولیس سے بچ کے آگئے تھے۔بہرحال وہاں ان کا احمدیت سے تعارف ہوا اور مسلسل تین سال تک ان سے تبلیغ کا سلسلہ چلتا رہا۔ اس دوران بھی یہ وہاں احمدیوں کی مسجد میں باقاعدگی سے اذان دیتے رہے جس کا انہیں شروع سے شوق تھا۔ آخر میں انہوں نے ایک خواب دیکھنے کے بعد فوری طور پر بیعت کی۔ وہ خواب یہ تھی کہ گھر میں حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ تشریف لاتے ہیں اور مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ دو خدام کی ضرورت ہے اور پھر سلیم صاحب اور ان کی طرف،مصطفی ٰصاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک تم آ جاؤ اور ایک تم اور پھر اس کے بعد انہوں نے بیعت کر لی۔ بیعت سے پہلے ہی جماعت کے اجتماع وغیرہ میں شامل ہوتے تھے۔ بیعت کے بعد اخلاص میں بہت ترقی کی۔ توجہ سے خطبات اور سوال و جواب سن کر ان میں اتنا اعتماد آ گیا تھا کہ کہتے تھے مَیں خود ہی غیر احمدی مولویوں کے لیے کافی ہوں۔ میرے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ متعدد مرتبہ انہیں عمرہ کرنے کی توفیق ملی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو 2010ء میں حج کی بھی سعادت دی۔ قادیان سے بھی محبت تھی۔ اکثر وہاں پہلے جاتے تھے۔ مرکز میں مکان کی خواہش تھی پھر وہاں مکان بنوایا اور پھر جماعت کو پیش کر دیا۔
ڈاکٹر ابراہیم ناصر بھٹی صاحب جو ان کا علاج کر رہے تھے کہتے ہیں کہ مَیں غلام مصطفیٰ صاحب کو زیادہ عرصے سے نہیں جانتا۔ آخری علالت کے دوران بحیثیت کنسلٹنٹ ان کی دیکھ بھال کا موقع ملا۔ اتفاق سے یہ وہاں ہسپتال میں ڈاکٹر تھے اور مصطفیٰ صاحب ان کے مریض بن گئے۔ کہتے ہیں ان کو آخری بیماری میں دیکھنے کا موقع ملا۔ اس معمولی سے عرصے میں چند ایسی باتیں ہیں جو مَیں نے نوٹ کی ہیں اور جو قابلِ ذکر ہیں۔ کہتے ہیں کورونا وائرس کی بیماری کی شدت کے باعث آپ ہمیشہ نہایت پختہ طور پر اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی تھے۔ مجھے یاد ہے کہ مَیں ان کے پاس آیا اور ان سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ بیماری کی شدت کی وجہ سے شاید افاقہ ممکن نہ ہو۔ یہ سن کر مصطفیٰ صاحب کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر کہا کہ اللہ جو چاہے میں اسی پر راضی ہوں۔آپ کے چہرے پر غم اور فکر کی کوئی نشانی نہیں تھی۔ نہایت مطمئن تھے۔ پھر ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں دوسری مثال جس نے مجھے بہت متاثر کیا وہ خلافت سے محبت تھی کہ بیماری کی شدت کی وجہ سے ہمیں سی پی اے سی لگانے کی ضرورت پڑتی تھی جو آکسیجن پہنچانے کے لیے ایک انتہائی سخت مشین ہے جو انسان کو بسا اوقات بے قرار کر دیتی ہے اور تکلیف کی وجہ سے خوفناک حالت پیدا ہو جاتی ہے۔ مشین لگانے کی وجہ سے جب انہیں تکلیف محسوس ہونے لگتی تو ان کے گھر والے انہیں میری طرف سے آکر کہتے کہ خلیفۂ وقت کا پیغام ہے اورکہتے کہ انہوں نے پیغام دیا ہے کہ ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق عمل کریں۔ جب ان کو میرا یہ پیغام ملتا تو اچانک ریلیکس ہو جاتے اور آرام سے مشین کو برداشت کرنے لگ جاتے اور ایسا محسوس ہوتاکہ ان کا حوصلہ بڑھا ہے اور جسم میں ایک دم توانائی آئی ہے اور اسی طرح کہتے ہیں کہ مَیں نے دیکھا ہے کہ ہومیو پیتھک دوائی اس لیے نہیں کھاتے تھے کہ کوئی افاقہ ہوگا۔ صرف اس لیے کھاتے کہ ان کو مَیں نے یہ نسخہ تجویز کیا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں خلافت سے محبت اور وفا کا ایک ایسا بے مثال تعلق ہے کہ مَیں اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔
اللہ تعالیٰ ان تمام مرحومین کے درجات بلند فرمائے ۔ جو وفا انہوں نے خدا تعالیٰ اور اس کے دین کے ساتھ کی ہے اور جس طرح اپنے عہدِ بیعت نبھانے کی کوشش کی ہے اللہ تعالیٰ اس سے بڑھ کر ان سے پیار کا سلوک فرمائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جیسا کہ فرمایا تھا یہ لوگ شہداء میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو بھی اپنی حفظ و امان میں رکھے اور اللہ تعالیٰ ان کی نیکیاں اپنانے اور جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے ہوں اور جماعت اور خلافت سے ہمیشہ وفا کا تعلق رکھنے والے ہوں اور والدین نے ان کے لیے جو دعائیں کی ہیں ان کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کے حق میں قبول فرماتا رہے۔
(الفضل انٹر نیشنل لندن 22؍مئی 2020ءصفحہ 05تا10)