تحریک وقف نو:خلافتِ احمدیہ کی بابرکت رہ نمائی
خلفائے وقت نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود اس تحریک کے واقفین کو خصوصی توجہ اور وقت عطا فرمایا
خدا تعالیٰ کا ہم پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ جس نے خلافت جیسی عظیم نعمت ہم پر اتاری ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح کا بابرکت وجود ہر لمحہ ہماری رہ نمائی کے لیے موجود ہے جو ظلمتوں کے اس دور میں ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور تاریک راہوں پر ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے جو ہمیں ہماری منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے درست سمت میں رہ نمائی کرنے والا ہے۔ اس نعمت پر ہم خداتعالیٰ کا جس قدر بھی شکر ادا کریں کم ہے۔
تحریک وقفِ نو کی اگر بات کی جائے تو یہ وہ تحریک ہے جو اپنی پیدائش3؍اپریل 1987ء کے وقت سے لے کر اپنی بلوغت سے گزرتے ہوئے اب ایک باشعور ذمہ دار عمر کو پہنچ چکی ہے۔ اس تحریک کا بچہ بچہ اپنے خلفاء کی پدرانہ شفقت کے سایہ تلے پلا بڑھا، جوان ہوا ہے جنہوں نے ہرقدم پر ان واقفین نو کی اس طرح رہ نمائی کی ہے کہ وہ اپنے حقیقی مقصد کو پانے والے ہوں اور وقف کی اہمیت کے ساتھ آئندہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے صحیح رنگ میں خلافتِ احمدیہ کے سلطان نصیر اور جماعتِ احمدیہ کے خدمت گار بننے والے ہوں ۔
خلافت رابعہ اور خلافت خامسہ دونوں ادوار میں واقفین نو کی رہ نمائی کے لیے خلفائے وقت نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود اس تحریک کے واقفین نو کو خصوصی توجہ اور وقت دیا۔ زیادہ سے زیادہ وقت ان کو اپنی بابرکت مجالس میں بیٹھنے کا موقع دیاتا یہ اس روحانی وجود پر خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے فیوض سے مستفیض ہونے والے ٹھہریں اور اپنی زندگیوں کو اسلام اور جماعتِ احمدیہ کی تعلیمات کی اشاعت اور اس کی خدمت کے لیے تیار کرنےوالے ہوں ۔
اس کے لیے کیا خطبات جمعہ، کیا خطابات بر اجتماعات وقف نو اور پھر دیس بدیس جہاں بھی خلافتِ احمدیہ کے مبارک قدم پڑے وہاں وقف نو کلاسز میں رونق افروز ہوکر ان واقفین نو کو برکت بخشی اور بیش بہا قیمتی نصائح سے نوازا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر موقع پر واقفین نو کا ایک علیحدہ تشخص قائم کرتے ہوئے ان پر شفقت کی نظر ڈالی اور انفرادی ملاقاتوں میں بھی ان پر خصوصی توجہ فرمائی تا یہ اپنے اصل مقام کو سمجھنے والے ہوں اور صرف وقف نو کاٹائٹل لگا کر ہی خوش نہ ہوں بلکہ ان سب شفقتوں کے نتیجہ میں ’’اسپیشل‘‘ واقفین نو کی خصوصیات اپنے اندر پیدا کرنے والے ہوں ۔ یہ دنیا کے جھمیلوں سے آزادوہ لکھوکھہا تربیت یافتہ واقفین زندگی بنیں جو بلا استثناء جماعت کے ہر طبقہ اور ہر ملک سے آنےوالے ہوں اور اس صدی کے لیے خداتعالیٰ کے حضور پیش کیا جانےوالا بہترین تحفہ ثابت ہوں ۔ آمین
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے نہ صرف اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍فروری 1989ء میں والدین اور انتظامیہ کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے نصائح فرمائیں بلکہ اپنے لگاتار 5، 6خطبات میں ان تمام باتوں کو کھول کھول کربیان فرمایا تھا۔ آپ ؒنے فرمایاکہ پس پیشتر اس کے کہ یہ بچے اتنے بڑے ہوں کہ جماعت کے سپرد کئے جائیں ان ماں باپ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ان قربانیوں کو اس طرح تیار کریں کہ ان کے دل کی حسرتیں پوری ہوں جس شان کے ساتھ وہ خدا کے حضور ایک غیر معمولی تحفہ پیش کرنے کی تمنا رکھتے ہیں وہ تمنائیں پوری ہوں ۔
پھر تربیتی نقطہ نظر سے خصوصی توجہ دلاتے ہوئے والدین کو نصیحت کی کہ ان کی پرورش اور تربیت میں کسی طرف سے غافل رہے تو خدا کے حضور مجرم ٹھہریں گے۔ ان میں بچپن سے ہی اخلاق حسنہ کی آبیاری کی جائے جو ان میں بدرجہ اولیٰ نظر آئیں ۔ ان کے مزاج میں شفتگی ہو۔ ترش رو نہ ہوں ۔ قانع ہوں ۔ حرص وہوس سے دُور ہوں اورسچائی، دیانت و امانت کے اعلیٰ مقام پر پہنچنے والے ہوں ۔ صاف ستھرے اور پاکیزہ رہنے والے ہوں ۔ خوش مزاجی، تحمل اور برداشت ان کی وصف ہوں ۔ ان کے مذاق اور مزاح میں بھی پاکیزگی ہو۔ غنا کی خوبی سے واقف ہوں ۔ شروع سے ان کی قرآن کریم کی تعلیم کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ ان کی دینی و دنیاوی تعلیم میں بھی وسعت ہو۔ ان کے علم کا دائرہ وسیع ہو۔ ان میں وفا کا مادہ پیدا کریں ۔ ان کی عمومی صحت بھی اچھی ہو، ان کی بدنی صحت کا خیال رکھا جائے۔ سخت جان ہوں ۔ نظام جماعت کی اطاعت کی بچپن سے عادت ڈالیں ۔ اپنی اپنی ذیلی تنظیموں کا حصہ بنیں ۔ ان کے کردار میں عظمت ہوتا بات اور دعا میں عظمت پیداہو، دشمنوں کے دل جیتنے والے ہوں ۔ ان کو بچپن سے ہی اپنی مادری زبان، اردو اور عربی کے ساتھ کوئی نہ کوئی غیر زبان بھی سکھائیں تا وہ بعد میں اس میں ماہر بن سکیں ۔ واقفین بیٹیوں کو علمی کاموں میں شامل کریں ۔ گویا ہر لحاظ سے وہ آئندہ صدی کی عظیم لیڈر شپ کی اہلیت اپنے اندر رکھنے والے ہوں ۔
مگر ان سب باتوں کے لیے جو اہم بات والدین کو بتائی کہ جس پر چل کر وہ اپنی ذمہ داری حقیقی طور پر پوری کرنے والے بن سکتے ہیں کہ‘‘پس ایک ہی راہ ہے اور صرف ایک راہ ہے کہ ہم اپنے وجود کو اور اپنے واقفین کے وجود کو خدا کے سپرد کردیں اور خدا کے ہاتھوں میں کھیلنے لگیں ۔‘‘
اس وقت روئے زمین پر صرف ایک ہی وجود ایسا ہے جس پر ہر احمدی مسلمان کا ایمان ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے جو خدا کا نمائندہ اور خلیفۃ اللہ ہے۔ اس کی ہر بات خدا کی طرف سے ہے۔ اوروہ یقیناً ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بابرکت وجود ہی ہے جو ظلمتوں کے اس دَور میں براہ راست خداتعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے اور رہ نمائی پاتا ہے اور زمانے کی بدیوں کے مقابلہ کے لیے وہ ہماری ڈھال ہے۔ اسی کے سایہ تلے آکر ہم اس زمانہ کی دھوپ سے بچ سکتے ہیں اور خود کو اسی کے سپرد کرکے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ حقیقی طور پر ہم خدا کے سپرد ہیں اور اس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔
ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے منصب خلافت پر فائز ہوتے ہی طفولیت کی عمر میں پہنچی ہوئی اس تحریک کو اپنی آغوش میں لے لیا اور بلوغت میں قدم رکھتی اس نسل کی پرورش اور تربیت کے لیے ہر لمحہ نگرانی اور رہ نمائی فرمائی۔
27؍جون 2003ء کو اپنے خطبہ جمعہ میں واقفین نو کے والدین کو توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آئندہ زمانے میں جو ضرورت پیش آنی ہے مبلغین کی بہت بڑی تعداد کی ضرورت ہے اس لیے اس نہج پر تربیت کریں کہ بچوں کو پتہ ہو کہ اکثریت ان کی تبلیغ کے میدان میں جانے والی ہے۔
اس کے ساتھ یہ نصیحت فرمائی کہ تربیت کی ضروری باتوں میں سے سب سے پہلی اور اہم بات وفا کا معاملہ ہےجس کے بغیر کوئی قربانی، قربانی نہیں کہلا سکتی۔
پھر فرمایا کہ میرے نزدیک انتہائی اہم باتوں میں سے ایک بلکہ سب سے اہم بات ہے کہ بچوں کو پانچ وقت نمازوں کی عادت ڈالیں ۔ کیونکہ جس دین میں عبادت نہیں وہ دین نہیں ۔
(بحوالہ الفضل انٹرنیشنل22؍اگست2003ءصفحہ5تا8)
آج بھی ہمارےدل وجان سے پیارےآقااپنی اس روحانی اولاد کی تربیت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اوراس کے لیے خطبات جمعہ، خطابات بر اجتماعات وقف نو اور کلاسز میں ہر طرح سے رہ نمائی فرما رہے ہیں ۔
آپ کا خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍اکتوبر 2016ء بمقام کینیڈا اس حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے جس میں آپ نے واقفین نو اور ان کے والدین کو نصیحت کرتے ہوئے تربیت کے بعض اہم معیار بیان فرمائے کہ اگر واقفین نو خود کو اسپیشل سمجھتے ہیں تو پھر کیسے وہ حقیقی وقف نو اور پھر ‘‘سپیشل’’ وقف نو بن سکتے ہیں ۔ انہیں توجہ دلائی کہ اسپیشل بننے کے لیے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ان معیاروں پر پورا اترنے والے ہیں ۔ پھر جلسہ سالانہ یوکے2018ء کے موقع پر لجنہ سے اپنے خطاب میں اس خطبہ کو واقفین نو کے لیے ایک لائحہ عمل قرار دیاکہ جس پر عمل کرکے واقفین نو سلسلہ کے لیے مفید وجود ثابت ہوسکتے ہیں ۔
واقفین نو کے بلند معیار بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’وقف نَو جیسا کہ میں نے کہا بڑے سپیشل ہیں لیکن سپیشل ہونے کے لئے ان کو ثابت کرنا ہو گا۔ کیا ثابت کرنا ہو گا ؟کہ وہ خدا تعالیٰ سے تعلق میں دوسروں سے بڑھے ہوئے ہیں تب وہ سپیشل کہلائیں گے۔ ان میں خوف خدا دوسروں سے زیادہ ہے تب وہ سپیشل کہلائیں گے۔ ان کی عبادتوں کے معیار دوسروں سے بہت بلند ہیں تب وہ سپیشل کہلائیں گے۔ وہ فرض نمازوں کے ساتھ نوافل بھی ادا کرنے والے ہیں تب وہ سپیشل کہلائیں گے۔ ان کے عمومی اخلاق کا معیار انتہائی اعلیٰ درجہ کا ہے۔ یہ ایک نشانی ہے سپیشل ہونے کی۔ ان کی بول چال، بات چیت میں دوسروں کے مقابلے میں بہت فرق ہے۔ واضح پتا لگتا ہے کہ خالص تربیت یافتہ اور دین کو دنیا پر ہر حالت میں مقدم کرنے والا شخص ہے تب سپیشل ہوں گے۔ لڑکیاں ہیں تو ان کا لباس اور پردہ صحیح اسلامی تعلیم کا نمونہ ہے جسے دوسرے لوگ بھی دیکھ کر رشک کرنے والے ہوں اور یہ کہنے والے ہوں کہ واقعی اس ماحول میں رہتے ہوئے بھی ان کے لباس اور پردہ ایک غیر معمولی نمونہ ہے تب سپیشل ہوں گی۔ لڑکے ہیں تو ان کی نظریں حیا کی وجہ سے نیچے جھکی ہوئی ہوں نہ کہ ادھر ادھر غلط کاموں کی طرف دیکھنے والی تب سپیشل ہوں گے۔ انٹرنیٹ اور دوسری چیزوں پر لغویات دیکھنے کی بجائے وہ وقت دین کا علم حاصل کرنے کے لئے صرف کرنے والے ہوں تو تب سپیشل ہوں گے۔ لڑکوں کے حلیےدوسروں سے انہیں ممتاز کرنے والے ہوں تو تب سپیشل ہوں گے۔ وقف نَو لڑکے اور لڑکیاں روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے اور اس کے احکامات کی تلاش کر کے اس پر عمل کرنے والے ہوں گے تو پھر سپیشل کہلا سکتے ہیں ۔ ذیلی تنظیموں اور جماعتی پروگراموں میں دوسروں سے بڑھ کر اور باقاعدہ حصہ لینے والے ہیں تو پھر سپیشل ہیں ۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے لئے دعاؤں میں اپنے دوسرے بہن بھائیوں سے بڑھے ہوئے ہیں تو یہ ایک خصوصیت ہے۔ رشتوں کے وقت لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی دنیا دیکھنے کی بجائے دین دیکھنے والے ہیں اور پھر وہ رشتے نبھانے والے بھی ہیں تو تب کہہ سکتے ہیں کہ ہم خالصتاً دینی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اپنے رشتے نبھانے والے ہیں تو سپیشل کہلائیں گے۔ ان میں برداشت کا مادہ دوسروں سے زیادہ ہے، لڑائی جھگڑااور فتنہ و فساد کی صورت میں اس سے بچنے والے ہیں بلکہ صلح کروانے والے ہیں تو سپیشل ہیں ۔ تبلیغ کے میدان میں سب سے آگے آ کر اس فریضہ کو سرانجام دینے والے ہیں تب سپیشل ہیں ۔ خلافت کی اطاعت اور اس کے فیصلوں پر عمل میں صف اول میں ہیں تو سپیشل ہیں ۔ دوسروں سے زیادہ سخت جان اور قربانیاں کرنے والے ہیں تو بالکل سپیشل ہیں ۔ عاجزی اور بے نفسی میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں ، تکبر سے نفرت اور اس کے خلاف جہاد کرنے والے ہیں تو بڑے سپیشل ہیں ۔ ایم ٹی اے پر میرے خطبے سننے والے اور میرے ہر پروگرام کو دیکھنے والے ہیں تا کہ ان کو رہ نمائی ملتی رہے تو بڑے سپیشل ہیں ۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ28؍اکتوبر2016ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل18؍نومبر2016ءصفحہ7تا8)
اسی خطبہ جمعہ میں آپ نے فرمایاکہ
’’واقفین نَو کو تو اپنے قناعت کے معیاروں کو بہت بڑھانا چاہئے۔ اپنی قربانی کے معیاروں کو بہت بڑھانا چاہئے۔ یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم مالی لحاظ سے کمزور ہوں گے تو ہمیں شاید ہمارے بہن بھائی کمتر سمجھیں یا والدین ہمیں اس طرح توجہ نہ دیں جس طرح باقیوں کو دے رہے ہیں ۔ اول تو والدین کو ہی یہ خیال کبھی دل میں نہیں لانا چاہئے کہ واقفین زندگی کمتر ہیں ۔ واقفین زندگی کا معیار اور مقام ان کی نظر میں بہت بلند ہونا چاہئے۔ لیکن واقفین زندگی کو خود اپنے آپ کو ہمیشہ دنیا کا عاجز ترین بندہ سمجھنا چاہئے۔
واقفین نَو کو جہاں قربانی کا معیار بڑھانا ہے وہاں اپنی عبادتوں کے معیار کو بھی بلند کرنا چاہئے، اپنی وفا کے معیار کو بھی بڑھانا چاہئے۔ اپنے اور اپنے والدین کے عہد کو پورا کرنے کے لئے اپنی تمام صلاحیتوں اور استعدادوں سے کام لینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دین کی خاطر، دین کی سربلندی کی خاطر کام کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تب اللہ تعالیٰ بھی نوازتا ہے اور کسی کوبغیر جزا کے اللہ تعالیٰ نہیں چھوڑتا۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ28؍اکتوبر2016ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل18؍نومبر2016ءصفحہ6)
اس کے علاوہ ان واقفین نو کی تربیت کی فکر اور ان کے ساتھ محبت اور شفقت ہی کا سلوک ہے کہ بعض اوقات آپ باوجود اپنی ناسازی طبع کے ان کی کلاسز اور بیرون ممالک سے اپنے آقا کےرخ انور کے دیدار کی طمع لے کر حاضر ہونے والے وفود کی مجالس میں رونق افروز ہوتے ہیں اور ان کوان روحانی برکات سے فیض یاب ہونے کا موقع دیتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے روئے ارض پر اپنےخلیفہ کے وجود میں جاری کر رکھی ہیں ۔ جہاں بظاہر دیکھنے والوں کو تو سامنے کلاس میں بیٹھے ہوئے واقفین نو کے بچگانہ سوالوں کے جوابات ان کی عقلوں اور عمروں کے مطابق دیتے نظر آتے ہیں ورنہ در حقیقت بقول حضرت مصلح موعود ؓ خلیفہ کا یہ کام نہیں کہ مجالس میں وہ تمہارے سوالوں کا جواب دیتا پھرے بلکہ وہ تو یہ سب اس لیے کرتا ہے کہ تا تم اس کی مجلس میں بیٹھو اور ان فیوض سے حصہ پاؤ جو خداتعالیٰ کی طرف سے اس کے وجود میں نازل ہو رہے ہوتے ہیں ۔
حقیقت بھی تو یہی ہے اگر کوئی سمجھے جو اوپر بیان ہو چکا کہ دراصل حضرت خلیفۃ المسیح کا وجود انہیں اس مجلس میں روحانی برکت بخش رہا ہوتا ہے اس لیے جتنا موقع میسر ہوسکے ان مجالس میں شامل ہو کر مستفیض ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ خدا تعالیٰ ہمارے پیارے حضور کی عمر اور صحت میں بھی برکت عطافرمائے جو ہمارے لیے اس فیضان کا سرچشمہ اور ان برکات کا موجب ہیں اور ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم ان سب برکات سے حصہ پانے والے ہوں جو خدا نے اپنے خلیفہ کے وجود سے وابستہ کر رکھی ہیں ۔ آمین
اس کے علاوہ حضور انور ایدہ اللہ کی براہ راست رہ نمائی میں واقفین نو کی تعلیم و تربیت کے لیے مرکزی رسائل بھی جاری ہیں ۔ واقفین نو کے لیے ‘‘اسماعیل’’ اور واقفات نو کے لیے ‘‘مریم’’ رسالہ ہر سہ ماہی میں شائع ہوتا ہے۔ یہ رسائل شعبہ وقف نو مرکزیہ کی ویب سائیٹ WWW.WAQFENAUINTERNATIONAL.ORG پر بھی آن لائن دستیاب ہوتےہیں ۔ یہ دونوں رسائل یوکے کے علاوہ انڈیا سے بھی شائع ہوتے ہیں ۔ انڈیا میں ‘‘اسماعیل’’ میگزین ’’گلدستہ وقف نو‘‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ انڈونیشیا میں بھی یہ رسائل انڈونیشین زبان میں شائع ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جرمنی سے بھی دونوں رسائل جرمن زبان میں شائع ہورہے ہیں ۔
حضور انور ایدہ اللہ کی براہ راست رہ نمائی میں واقفین نو کی تعلیم وتربیت اور والدین کی رہ نمائی نیز رابطہ کے لیے مذکورہ بالا مرکزی ویب سائیٹ کا بھی اجرا ہوچکا ہے۔
گذشتہ سال حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خصوصی شفقت اور رہ نمائی سے دنیا بھر کی جماعتوں کے نیشنل سیکرٹریان کا پہلا سہ روزہ ریفریشر کورس بھی 6تا 8 دسمبر 2019ء اسلام آباد، ٹلفورڈ میں منعقد ہو چکا ہے جس میں حضور انور نے اپنے نہایت زریں خطاب میں 33؍ممالک کے شاملین نیشنل سیکرٹریان وقف نو اور جملہ مہمانان کو وقف نو کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو باحسن سرانجام دینے کی طرف توجہ دلائی۔
اب ذیل میں ایسی ہی بعض مجالس میں مختلف مواقع پرہونے والی اجتماعی یا انفرادی انتظامی ہدایات بغرض رہ نمائی قارئین کی نذر کی جاتی ہیں :
٭…آسٹریلیا میں واقف نو بچوں کی کلاس میں ایک سوال یہ کیا گیا کہ جب وقف نو بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو کیا وہ کہیں بھی Jobکرسکتے ہیں ۔ اس پر حضور انور نے فرمایا :
اگر جماعت اجازت دے گی تو کرسکتے ہیں ورنہ نہیں ۔ جماعت کی خدمت کرنی چاہیے۔ لڑکیاں بھی جماعت سے پوچھیں ۔ اگر جماعت کہہ رہی ہے کہ فوری طور پر تمہاری ضرورت نہیں ہے تو پھر تمہیں اجازت دیں گے کہ تم کچھ وقت باہر جاب کرسکتی ہو۔ لیکن اس کے لیے پوچھنا اور اجازت لینا ضروری ہے۔
حضور انور نے فرمایا: میں نے بارہا یہ ہدایت دی ہے کہ جب پندرہ سال کے ہوجاؤ تو وقف کا فارم پر کرکے اپنے آپ کو پیش کرو۔ پھر جب تمہاری تعلیم مکمل ہوجائے تو پھر دوبارہ اپنے آپ کو پیش کرو اور بتاؤ کہ میں نے اپنی تعلیم مکمل کرلی ہے۔ یہ میری تعلیم اور ڈگری ہے اور مجھے بتایا جائے کہ میں اب کیا کروں ۔ پھر تمہیں بتائیں گے کہ اپنا کام کرلو اور جماعت کی خدمت بھی ساتھ ساتھ کرلو یا اپنے آپ کو پوری طرح جماعت کے سپرد کرو۔ پھر جماعت جہاں خدمت لینا چاہے گی لے گی۔
٭…مجلس عاملہ ناروے کی حضور انور کے ساتھ ملاقات تھی اس دوران حضور انور ایدہ اللہ نے ہدایت فرمائی ہے کہ
واقفین نو بچے ذیلی تنظیموں کے پروگرام میں پہلے شامل ہوں ۔ بعد میں ان کےاپنے پروگرام ہوں ۔ ان کے ذہن میں ہونا چاہیے کہ یہ ذیلی تنظیموں کا اسی طرح حصہ ہیں جس طرح دوسرے بچے ہیں ۔ بچپن سے ہی ان کی ٹریننگ ہونی چاہیے کہ بہن بھائیوں سے نہیں لڑنا۔
٭…14؍ستمبر 2012ء میں جرمنی میں واقفین نو کی حضور انور کے ساتھ کلاس ہوئی۔ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا :
واقفین نو چاہے وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں ان کا انتظام نیشنل سیکرٹری وقف نو کے ذمہ ہے۔ لجنہ کے تحت نہیں ہے۔ لجنہ میں سیکرٹری وقف نو کوئی نہیں ہے۔ لجنہ آپ کی مددگار تو ہوسکتی ہے لیکن ان کو آپ کی ہی ہدایات کو Follow Upکرنا چاہیے۔ ان کی علیحدہ سے اپنی کوئی پالیسی نہیں ہونی چاہیے۔
٭…جرمنی میں وقف نو کی ایک کلاس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
صرف توجہ ہی نہیں دلانی بلکہ ان کو بتادیں کہ اگر آپ نے کام کی منظوری نہیں لی تو آپ کا نام وقف نو سے خارج کردیا جائے گا۔ اگر کوئی وقف نو بغیر منظوری کے کام کررہا ہے تو اس کو نوٹس دے دیں کہ اگر ایک مہینہ کے اندر اندر آپ کام کرنے کا اجازت نامہ حاصل نہیں کرتے تو آپ کو واقفین نو کی فہرست سے فارغ کرکے واپس بھیج دیا جائے گا۔
اس پر سیکرٹری صاحب وقف نو نے بتایا کہ جب ہم کام کرنے والے واقفین سے پوچھتے ہیں تو ان میں سے کئی کہتے ہیں کہ حضور انور سےملاقات کے دوران اجازت لے لی تھی۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ملاقات کا مطلب یہ نہیں ہےکہ دفتر کا تحریری ریکارڈ مکمل نہ ہو۔ آپ کا ریکارڈ بہر حال مکمل ہونا چاہیے اور تحریر ی اجازت نامہ ہونا چاہیے۔ یہ اجازت نامہ اور ریکارڈ مرکز میں بھی جانا چاہیے۔
٭…سنگاپور میں واقفین نو بچوں سے ہونے والی ایک کلاس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے کسی نے سوال کیا کہ اگر کسی واقف نو کے والدین کا جماعت سے اخراج ہوا ہو تو اس کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ اب ان کے بچے بھی وقف نو سکیم سے فارغ ہیں ؟ اس کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
بالکل ایسا ہی ہے۔ وہ والدین جنہوں نے خود اپنا اچھا نمونہ پیش نہیں کیا تو وہ کس طرح اپنے بچوں کی ایک اچھے احمدی کے طور پر تربیت کرسکتے ہیں ۔ ان کے بچے کس طرح ایک اچھے، بہتر ماحول میں پروان چڑھیں گے۔
حضور انور نے فرمایا کہ اگر والدین کو معافی مل جاتی ہے تو پھر ان کے واقف نوبچے دوبارہ وقف میں آنے کے لیے خلیفہ وقت کو لکھ سکتے ہیں ۔ پھر اس بارہ میں خلیفۃ المسیح فیصلہ فرمائیں گے کہ ان کو دوبارہ شامل کرنا ہے یا نہیں ۔
٭…حضور انور نے فرمایا کہ لڑکیوں کے لیے میں اس بات کو ترجیح دیتا ہوں کہ وہ ڈاکٹر بنیں ، کسی زبان میں مہارت حاصل کریں یا ٹیچر، آرکیٹکٹ اور Historian کے پروفیشن میں جائیں ۔ یا ریسرچ میں جائیں ۔
٭…اس سوال پر کہ کیا ایک واقفہ نو بچی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک واقف نو سے ہی شادی کرے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
یہ ضروری نہیں ہے لیکن خفیہ طور پر کوئی شادی نہیں ہونی چاہیے۔ واقف نو بچیاں کسی بھی احمدی لڑکے سے شادی کرسکتی ہیں لیکن لڑکا اچھے کردار کا ہونا چاہیے اور اس شادی کے بعد بھی آپ واقفین کی طرح ہی خدمت کریں گی۔
٭… اس سوال پر کہ ہم کس عمر میں یہ فیصلہ کریں کہ ہم نے وقف نو سکیم کے تحت اپنا وقف جاری رکھنا ہے؟ حضور انور نے فرمایا کہ
جب آپ پندرہ سال کی عمر کو پہنچیں تو اپنا وقف فارم پُر کریں اور اپنے سیکرٹری وقف نو کی وساطت سے مرکز کو بھجوائیں اور جب آپ اپنی تعلیم مکمل کرکے فارغ ہوں تو پھر بھی اپنے وقف کا عہد کریں اور سینٹرکو اس سے مطلع کریں ۔
٭…اس سوال پر کہ کیا جب ہم اپنی تعلیم مکمل کرلیں تو کیا ہم بطور civil servant کام کرسکتے ہیں باوجود اس کے کہ ہم نے اپنے وقف کا فارم پر کیا ہوا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
از خود اس کی اجازت نہیں ہے۔ کوئی بھی کام کرنے سے قبل خلیفۃ المسیح سے اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔ خلیفۃ المسیح کی اجازت کے بعد ہی کوئی دوسرا کام کیا جاسکتا ہے۔
(اب حضور انور نے ہدایت فرمائی ہے کہ واقفین نو جماعتی خدمات کے علاوہ ملک و قوم کی خدمت کے لیے پبلک سروسز میں بھی جائیں ۔ مگر اس سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ سے اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔ )
٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے کے حوالہ سے فرمایا کہ
دنیا میں دین کو پھیلانے کے لیے دینی علم کی ضرورت ہے اور یہ علم سب سے زیادہ ایسے ادارہ سے ہی مل سکتا ہے جس کا مقصد ہی دینی علم سکھانا ہو اور یہ ادارہ جماعتِ احمدیہ میں جامعہ احمدیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس لئے واقفین نو کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو جامعہ احمدیہ میں آنا چاہیے۔
سیکرٹریان وقف نو کو اس طرف بھی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
٭…حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا:
وقف نو کا ایک نصاب بنا ہوا ہے۔ (یہ نصاب شعبہ وقف نو مرکزیہ کی ویب سائٹ WWW.WAQFENAUINTERNATIONAL.ORG پر بھی آن لائن دستیاب ہے) اگر جماعت کا بھی ایک نصاب بنا ہوا ہے تو جب سیکرٹری تربیت اور سیکرٹری تعلیم اور سیکرٹری وقف نو جماعتی نظام کے تحت ہی کام کررہے ہیں تو امراء اور صدران کا کام ہے کہ ان کو اکٹھا کرکے ایسا معین لا ئحہ عمل بنائیں کہ یہ نصاب بہر حال پڑھا جائے۔ خاص طور پر واقفین نو کو اس میں ضرور شامل کیا جائے۔
٭… 8؍جنوری 2013ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا:
ہر ملک کی انتظامیہ ایک کمیٹی بنائے جو جائزہ لےکہ ان ملکوں کی اپنی ضروریات آئندہ دس سال کی کیا ہیں؟ کتنے مبلغین ان کو چاہئیں ۔ کتنے زبان کے ترجمے کرنے والے چاہئیں ۔ کتنے ڈاکٹر چاہئیں ؟ کتنے ٹیچرز چاہئیں جہاں جہاں ضرورت ہے۔ اور اس طرح مختلف ماہرین اگر چاہئیں تو کیا ہیں ؟ مقامی زبانوں کے ماہرین کتنے چاہئیں ۔ یہ جائزے لے کر تین سے چار مہینے کے اندر اندر اس کی رپورٹ ہونی چاہیے اور شعبہ وقف نو اس کو Proper Follow Up کرے۔
٭…جو بچے جامعہ احمدیہ سے تعلیم حاصل نہیں کرتے، ان کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سنگاپور میں ارشاد فرمایا تھا :
جو واقفین نو بچے جامعہ نہیں جائیں گےتو وہ دینی تعلیم (Religious Knowledge)کہاں سے حاصل کریں گے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے امیر صاحب انڈونیشیا کو ہدایت فرمائی کہ ایک کمیٹی بنائیں ۔ ایسے بچوں کو دینی تعلیم دینے کے لیے سلیبس ہو۔ جس میں قرآن کریم کا ترجمہ ہو، احادیث ہوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہوں ۔ مبلغین جو اردو زبان جانتے ہیں وہ کتب کا ترجمہ کرسکتے ہیں ، بعض انگریزی سے کرسکتے ہیں ۔ حضور انور نے فرمایا کہ بیس بائیس سال کی عمر تک ہر واقف نو کو قرآن کریم کا ترجمہ آنا چاہیے۔ کم از کم سواحادیث اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے کچھ حصے ضرور آنے چاہئیں ۔
٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے امیر صاحب جرمنی کو ہدایت فرمائی کہ شعبہ وقف نو کا کام بھی بہت زیادہ ہے۔ ان کے پروگراموں کا جائزہ لینے کے لیے نگرانی کے لیے کسی اور کو مقرر کردیں ۔ آپ وقف نو کے لیے بے شک اسسٹنٹ سیکرٹری بنالیں ۔
اب وقف نو کا کام مزید بڑھ گیا ہے اور طلباء کی تعلیم میں رہ نمائی کا ایک بہت بڑا کام اور ذمہ داری ہے۔ اس لئے ایسا اسسٹنٹ سیکرٹری بنائیں جو یہاں کا پڑھاہوا ہو اور اس کا علم اور معلومات بھی وسیع ہوں اور اسے یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی عبور حاصل ہو۔ یہاں کے سکول، کالج اور یونیورسٹی کے سسٹم اور طریق کار کو جانتا ہو۔
حضور انور نے فرمایا :
جہاں تک کونسلنگ اور واقفین نو کی رہ نمائی کا تعلق ہے تو اس کام کے لیے ایک کمیٹی مقرر ہونی چاہیے جس میں ایسے ممبران شامل ہوں جو کہ ماڈرن سائنس اور دیگر مضامین کا اچھا علم رکھنے والے ہوں ۔
حضور انور نے فرمایا :
شعبہ کو ایک شکوہ ہے کہ بعض والدین وقف کرنے کے بعد حوالہ نمبر ملنے کے بعد مقامی جماعت اور مرکزی دونوں سے تقریباً لاتعلق ہوجاتے ہیں یا ویسے رابطہ نہیں رکھتے جیسا کہ رکھنا چاہیے۔ اور پھر ایک سٹیج پر پہنچ کے جب شعبہ یہ کہتا ہے کہ رابطہ نہیں ہے آٹھ دس سال گزرگئے ہیں ان کو نکال دیا جائے، تو اس وقت پھر شکوے پیدا ہوتے ہیں ۔ اس لئے حوالہ نمبر ملنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب رابطہ ختم کرلیا اور وقف نو ہوگیا۔ مسلسل رابطہ دفتر سے اور اپنے نیشنل سیکرٹری شعبہ سے بھی اور مرکز سے بھی قائم رکھنا ضروری ہے۔ پھر واقفین نو اور واقفات نو کا نصاب مقرر رہے جو پہلے تو صرف بنیادی تھا۔ اکیس سال تک کے لڑکوں اور لڑکیوں کا یہ نصاب مقرر ہوچکا ہے۔ اس کو پڑھنا بھی چاہیے اور اگر امتحان وغیرہ ہوتے ہیں تو اس میں بھرپور شمولیت اختیار کرنی چاہیے۔
حضورانور نے فرمایا:
پھر اسی طرح ہر ملک میں واقفین نو کے لیے کیریئر گائیڈنس کمیٹی(Career Guidance Committee) بھی ہونی چاہیے جو جائزہ لیتی رہے اور مختلف فیلڈز میں جانے والوں کی رپورٹ مرکز بھجوائے یا جن کو مختلف فیلڈز میں دلچسپی ہے، ان کے بارہ میں اطلاع ہو، پھر مرکز فیصلہ کرے گا کہ آیا اس کو کس صورت میں اجازت دینی ہے۔ اور پھر یہ بھی جیسا کہ میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ پندرہ سال کی عمر کو پہنچنے والے واقفین نو اپنے تجدید وقف نو کے عہد کو نہ بھولیں ، لکھ کر بھجوایا کریں ۔ بانڈ (Bond) لکھیں ۔ اسی طرح واقفین نو کے لیے ایک رسالہ لڑکوں کے لیے ‘‘اسماعیل’’ اور لڑکیوں کے لیے ‘‘مریم’’ شروع کیا گیا ہے۔ جرمن اور فرنچ میں بھی اس کا ترجمہ ہونا چاہیے۔ اگر تو ایسے مضامین ہیں جو وہاں کے مقامی واقفین نو واقفات نو لکھیں تو وہ شائع کریں ۔ نہیں تو یہاں سے مواد مہیا ہوسکتا ہے اور اس کو یہ اپنی اپنی زبان میں شائع کرلیا کریں ۔ اردو کے ساتھ مقامی زبان بھی ہو۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جیسا کہ میں نے کہا کہ سیکرٹریان وقف نو کو بھی فعال ہونے کی ضرورت ہے۔ اور اگر یہ فعال ہوں گے تو پھر متعلقہ جماعتوں کے اپنے واقفین نو بچوں سے معلومات لے کر مرکز کو مطلع بھی کریں گے اور پھر مرکز یہ بتائے گا کہ کیا کام کرنا ہے، کیا نہیں کرنا۔ یا کیا آگے پڑھنا ہے یا پڑھائی مکمل کرنے کے بعد مرکز میں اپنی خدمات پیش کرنی ہیں ۔ خود ہی فیصلہ کرنا واقف نو کا کام نہیں ہے۔ نہ ان کے والدین کا۔ اگر خود فیصلہ کرنا ہے تو پھر بھی بتادیں کہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے اور اب میں وقف نو میں رہنا نہیں چاہتا تا کہ اس کو وقف نو کی فہرست سے خارج کردیا جائے۔ گو کہ اب تک یہی ہدایت ہے کہ پندرہ سال کے بعد جب اپنا وقف کا فارم فل (Fill) کردیا تو پھر واپسی کا کوئی رستہ نہیں ہے۔ لیکن اب میں یہ راستہ بھی کھول دیتا ہوں ۔ تعلیم مکمل کرکے دوبارہ لکھیں ۔ اور یہ لکھوانا بھی سیکرٹریان وقف نو کا کام ہے اور اس کی مرکز میں باقاعدہ اطلاع ہونی چاہیے کہ ہم نے یہ تعلیم مکمل کرلی ہے اور ا ب ہم اپنا وقف جاری رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں رکھنا چاہتے۔
نیز حضور انور نے فرمایا ہے :
اسی طرح یہ تو میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ یونیورسٹیوں میں پڑھنا چاہیں تو بتادیں اور پہلے اجازت لے لیں ۔ اور جو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرچکے ہوں اور اپنا وقف میں رہنا بھی کنفرم کیا ہوا ہو تو ان کے لیے بھی لازمی ہے کہ وقتاً فوقتاً جماعت سے رابطہ رکھیں کہ اب ہم کام کررہے ہیں ۔ کام کرنے کا عرصہ اتنا ہوگیا ہے۔ فی الحال اکثریت کو اجازت دی جاتی ہے کہ اپنے کام جاری رکھیں ۔ جب جماعت کو ضرورت ہوگی بلالے گی۔ لیکن ان کا کام یہ ہے یہ ہر سال اس کی اطلاع دیتے رہیں ۔ اسی طرح جو دوسرے پیشے کے لوگ جو اعلیٰ تعلیم تو حاصل نہیں کرسکے لیکن دوسرے پیشوں میں مختلف قسم کے skills ہیں ، professions ہیں ، ان میں پہلے چلے گئے ہیں تو ان کو بھی اپنی ٹریننگ یا ڈپلومہ وغیرہ مکمل کرنے کے بعد اطلاع کرنی چاہیے۔
٭…2005ء میں سویڈن میں واقفین نو بچوں سے کلاس کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کلاس کے بچوں سے بھی دریافت فرمایا کہ کس کس کو اردو پڑھنی آتی ہے۔ حضور انور نے فرمایا جس طرح اس بچے نے اردو زبان سیکھی ہے تو باقی بچے بھی اسی طرح سیکھ سکتے ہیں ۔
حضور انور نے بچوں سے فرمایا کہ آپ سب اردو زبان سیکھیں ۔ آپ نے کل کو بڑے ہونا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اردو کتب پڑھنی ہیں ، پھر ان کتب کے تراجم کرنے ہیں ۔ اس لئے آپ کو اردو آنا ضروری ہے۔ ضروری نہیں کہ سب ڈاکٹر ہی بنیں ۔
اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچوں سے دریافت فرمایا کہ آپ نے بڑے ہوکر کیا بننا ہے؟ فرمایا کتنے ہیں جنہوں نے مبلغ بننا ہے، کتنے ہیں جنہو ں کمپیوٹر سائنس میں جانا ہے؟
حضور انور نے فرمایا آپ میں سے ہر ایک کو دین کا علم ہونا ضروری ہے۔
٭…دنیاداری میں پڑنے والوں سے متعلق ایک اہم ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:
ان بچوں سے جو پندرہ سال کی عمر تک پہنچ چکے ہیں مسلسل رابطہ رکھیں اور ان کو بتائیں کہ وہ پروفیشن لیں جو جماعت کے لیے مفید ہے۔ بعض بچوں نے ملاقاتوں کے دوران کہا کہ میں بزنس مین بنوں گا کیونکہ باپ بزنس مین ہے۔
حضور انور نے فرمایا جنہوں نے اپنی زندگی وقف کی ہے ان کو تو مال کے بارہ میں نہیں سوچنا چاہیے۔
٭… واقفین نو کا مختلف شعبوں میں تقرر کے حوالہ سے حضور انور نے فرمایا:
آئندہ ملکوں میں جہاں واقفین نو موجود ہیں وہاں کارکن مقرر کرنے کا سوال ہو اور قابل واقفین نو اور واقفات نو موجود ہوں اور مطلوبہ معیار ر پورا اترتے ہوں تو ان کو کارکن رکھنے کے لحاظ سے ترجیح دی جائے۔ مثلاً استاد، ڈاکٹر اور دیگر مختلف آسامیاں ۔
٭…سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بنام مکرم وکیل اعلیٰ صاحب مکتوب گرامی 22؍ستمبر 2007ء میں ہدایت فرمائی تھی:
وقف نو کا سیکرٹری اپنی طرف سے کسی لجنہ کو اپنی ٹیم میں شامل نہیں کرسکتا۔ انہوں نے واقفات نو کے جو پروگرام کروانے ہوں وہ صدر لجنہ کو دے دیا کریں ۔ جو اپنی لجنہ کے ذریعہ اس پروگرام پر عمل کرواکر اپنی رپورٹ انہیں دے دیاکریں ۔ اس میں نصاب کا پڑھانا، کلاسیں اور اگر ضرورت ہو تو علیحدہ اجتماع شامل ہے۔ لجنہ میں ایک معاون صدر میں نے اس کام کے لیے مقرر کی ہوئی ہے۔ جہاں نہیں وہاں صدر لجنہ مقرر کرلیں اور مجھ سے منظوری لے لیں ۔
(یہاں یہ بات بھی ذکر کردی جائے کہ اب حضور انور ایدہ اللہ کی منظوری سے بعض ممالک جہاں واقفین نو کی تعداد زیادہ ہے، مجلس خدام الاحمدیہ کی نیشنل عاملہ میں بھی ایک معاون صدر برائے وقف نو مقرر ہوتا ہے۔ )
٭… نائب امیر جماعت جرمنی برائے شعبہ وقف نو نے واقفین نو بچوں کے حوالے سے دو امور میں رہ نمائی کے لیے حضور انور کی خدمت میں تحریر کیا تھا کہ
1۔ بعض بچے جنہوں نے وقف کنفرم کردیا ہوا ہے۔ اگر کسی وجہ سے وہ اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرپاتے اورکوئی دوسری پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ یا تعلیمی سلسلہ منقطع کرچکے ہیں اور اگر ملازمت کرنا چاہتے ہیں تو کیا ملازمت شروع کرنے سے پہلے انہیں حضرت خلیفۃ المسیح سے اجازت حاصل کرنی ہوگی؟
2۔ جن بچوں نے وقف کنفرم کردیا ہوا ہے۔ اور وہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہوں تو کیا ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس فیلڈ میں آگے پڑھنا چاہتے ہیں ۔ اس فیلڈ کی منظوری حضرت خلیفۃ المسیح یا وکالت وقف نو سے حاصل کریں ۔ مثلاً فوج کی نوکری، بنک کی نوکری، پوسٹ کی نوکری یا عام مارکیٹوں میں سیلز مین شپ وغیرہ کی فیلڈ وغیرہ۔
حضور انور نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا : دونوں صورتوں میں ضروری ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
پس وقف نو کے کام زائد ہیں جو انہوں نے کرنے ہوتے ہیں ۔ اس پہلو سے ان کے پروگرام ذیلی تنظیموں سے الگ بھی ہوں گے اور ذیلی تنظیموں کے ساتھ بھی۔ ذیلی تنظیمیں سب کے لیے عام ہیں مگر وقف نو کی سکیم صرف ان ہی کے لیے ہے جو باقاعدہ اس میں شامل ہیں ۔ اگر کسی پروگرام میں دونوں کی تاریخ ایک ہی ہے تو وقف نو والے اپنا پروگرام بدلیں اور بچے ذیلی تنظیم کے پروگرام میں شامل ہوں ۔ جہاں تک نصاب کا تعلق ہے۔ وقف نو کے بچے ذیلی تنظیموں کے نصاب کا امتحان بھی دیں ان کے اجلاسوں میں بھی شامل ہوں ۔
پندرہ سال کی عمر سے زائد وقف نو بچوں اور بچیوں کے اکٹھے پروگرام بنانے کی بالکل اجازت نہیں اور نہ ہی ایسے اکٹھے پروگرام بنانے مناسب ہیں ۔
٭…نیشنل مجلس عاملہ جماعتِ احمدیہ آسٹریلیا کے ساتھ میٹنگ منعقدہ 18؍اپریل 2006ء میں سیکرٹری صاحب واقف نو سے حضور انور نے دریافت فرمایا:
کیا آپ نے 15سال کی عمر کو پہنچنے والے بچوں کا جائزہ لے لیا ہے۔ اس پر سیکرٹری صاحب وقف نو نے بتایا کہ سوائے ایک کے باقی سب تیار ہیں ۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جو تیار نہیں اس پر زور نہیں دینا۔ والدین کو بھی سمجھادیں کہ اس پر زور نہیں دینا۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دورہ کینیڈا 2005ء کے دوران سیکرٹری صاحب وقف نو کو ہدایت فرمائی:
اردو زبان سکھانے کے لیے کلاسز ہونی چاہئیں ۔ باقاعدہ اردو زبان سکھانے کے لیے کلاسز لگائیں ۔ ان سب کو اردو زبان سیکھنی چاہیے۔ تا کہ حضور اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھ سکیں ۔ ارد و سے دوسری زبانوں میں ترجمہ کرسکیں ۔ اس کی ہمیں ضرورت ہے۔
حضو رانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 20؍ستمبر 2006ءکو مکرم وکیل اعلیٰ صاحب تحریک جدید ربوہ کو ہدایت فرمائی ہے :
یورپ کے ممالک اور امریکہ کینیڈا سے ایسے واقفین نو بچوں کا انتخاب کیا جائے جو ٹیچنگ کا بھی رحجان رکھتے ہوں اور ترجمانی سے بھی ان کو تعلق ہوا اور زبان سیکھنے کی صلاحیت ہو۔ ان کو عربی زبان کا ٹیچنگ کورس بھی کروایا جاسکتا ہے۔ اور ترجمہ کرنے کے ماہرین بھی تیار کئے جاسکتے ہیں ۔ یہ مصر جاکر پڑھ سکتے ہیں ۔ مصر کی زبان اچھی ہے۔ سیریا بھی جاسکتے ہیں ۔ وہاں جائیں اور تعلیم حاصل کریں ۔ گریجویشن کریں اور اعلیٰ معیار کی زبان سیکھیں ۔ اسی طرح ان یورپین ممالک سے انگریزی، فرنچ جرمن اور سپینش زبان سکھانے کے لیے واقفین نو تیار کئے جائیں ۔ ان زبانوں میں ٹیچنگ کے لیے بھی ہوں اور علیحدہ ترجمانی کے لیے بھی ہوں ۔
حضورانور نے فرمایا:
لڑکیاں جو واقفاتِ نو ہیں ، جو پاکستانی اوریجن (origin) کی ہیں ، پاکستان سے آئی ہوئی ہیں ، جن کو اردو بولنی آتی ہے، وہ اردو پڑھنی بھی سیکھیں ۔ اور جو یہاں باہر کے ملکوں میں رہ رہی ہیں وہ مقامی زبان بھی سیکھیں ۔ جہاں انگلش ہے، جرمن ہے یا ایسے علاقوں میں ہیں جہاں انگلش سرکاری زبان ہے اور مقامی لوکل زبانیں اور ہیں وہ بھی سیکھیں ، عربی سیکھیں ، پھر اپنے آپ کو تراجم کے لیے پیش کریں ۔ میں نے دیکھاہے عورتوں میں لڑکیوں میں زبانوں کا ملکہ زیادہ ہوتاہے۔ اس لئے وہ اپنے آپ کو پیش کرسکتی ہیں ۔ پھر ڈاکٹر ہیں ، ٹیچر ہیں ، یہ بھی لڑکیاں اپنے آپ کو ٹیچر اور ڈاکٹر بن کے بھی پیش کرسکتی ہیں ، اسی طرح لڑکے بھی۔ تو اس طرف بھی توجہ ہونی چاہئے اور شعبہ کو ہر مرحلہ پر پتہ ہونا چاہئے۔ مقامی جماعتی نظام کو لڑکوں اور لڑکیوں کی رہ نمائی اور تربیت کے لیے سال میں کم از کم دو مرتبہ اُن کے فورم منعقد کرنے چاہئیں جس میں کام اور تعلیم کی رہ نمائی ہو۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
واقفینِ نو کے مطالعہ میں روزانہ کوئی نہ کوئی دینی کتاب ہونی چاہئے۔ چاہے ایک دو صفحے پڑھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب، جیساکہ میں نے کہا، اگر وہ پڑھیں تو سب سے زیادہ بہتر ہے۔ پھر اسی طرح خطبات ہیں سو فیصد واقفینِ نو اور واقفاتِ نوکوخطبات سننے چاہئیں ۔ کوشش کریں ۔ یہاں یوکے میں ایک دن میں نے کلاس میں جائزہ لیاتھا تو میرا خیال ہے دس فیصد تھے جو باقاعدہ سنتے تھے۔ اس کی طرف شعبہ کو بھی اور والدین کو بھی اور خود واقفینِ نو کو بھی توجہ دینی چاہئے۔ انتظامیہ کو بھی چاہئے کہ وہ واقفینِ نو کے جو پروگرام بناتے ہیں ، وہ interactive پروگرام ہونے چاہئیں جس سے زیادہ توجہ پیداہوتی ہے۔
حضورانور نے فرمایا:
پس اردو زبان سیکھے بغیر بھی صحیح طرح زبانوں میں مہارت حاصل نہیں ہوسکتی۔ ایک وقت تھا کہ جماعت میں ترجمے کے لیے بہت دقت تھی، دقت تو اب بھی ہے لیکن یہ دقت اب کچھ حد تک مختلف ممالک کے جامعات کے جو لڑکے ہیں اُن سے کم ہورہی ہے یا اس طرف توجہ پیداہورہی ہے۔ جامعہ احمدیہ کے مقالوں میں اردو سے ترجمے بھی کروائے جاتے ہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی بعض کتب کے ترجمے کئے ہیں اور جو بھی طلباء کے سپروائزر تھے اُن کے مطابق اچھے ہوئے ہیں ۔ لیکن بہر حال اگر معیار بہت اعلیٰ نہیں بھی تو مزید پالش کیاجاسکتاہے۔ بہرحال ایک کوشش شروع ہوچکی ہے۔ لیکن یہ تو چند ایک طلباء ہیں جن کو دو چار کتابیں دے دی جاتی ہیں ، ہمیں زیادہ سے زیادہ زبانوں کے ماہرین چاہئیں ۔ اس طرف واقفینِ نو کو بہت توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر جامعہ کے طلباء کے علاوہ کوئی کسی زبان میں مہارت حاصل کرتاہے تو اُسے جیساکہ میں نے کہا عربی اور اُردو سیکھنے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔ اس کے بغیر وہ مقصد پورا نہیں ہوسکتاجس کے لیے زبان کی طرف توجہ ہے۔
ایک تازہ ارشاد جو واقفین نو کو ان کے حقیقی مقصد کی طرف توجہ دلانے کے لئے ارشاد فرمایا تحریر کرکے مضمون کو ختم کرتے ہیں ۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ایسے واقفین نو جو چاہے پڑھائی کررہے ہیں یا اجازت سے ذاتی کاروبار یا ملازمت کر رہے ہیں اور رضاکارانہ طور پر بھی کوئی جماعتی خدمت نہیں کر رہے تو ایسے واقفین نو کی وقف نو سے فراغت کر دی جائے گی۔ اگر وہ جماعت کے کام نہیں آرہے تو وقف نو میں بھی ان کی کوئی ضرورت نہیں ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی توقعات کے عین مطابق سلسلہ کے بہترین خدام میں شامل ہونے کی بھر پور توفیق عطا فرمائے۔ آمین