مکرم سید میر قمر سلیمان صاحب کے ساتھ ایک گفتگو
صاحبزادہ میر داؤد احمد صاحب اور صاحبزادی امۃ الباسط صاحبہ کے فرزند ہونے کے ناطے، سید قمر سلیمان صاحب حضرت مصلح موعودؓ کے نواسے اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خالہ زاد بھی ہیں
گذشتہ چندہفتوں میں ہمیں متعدد بار آگاہ کیا جاتا رہا ہے کہ ہم ایک ایسے وقت سے گزر رہے ہیں جس کی پہلے کبھی مثال نہیں ملتی۔ میڈیا کو روایتی طور پر مبالغہ آرائی اور سنسنی خیز رپورٹنگ کرنے کی عادت تو ہے ہی لیکن اس مرتبہ ان کے دعوے درست معلوم ہوتے ہیں۔ ایبولا (Ebola)یا زیکا (Zika)یا دیگر وائرس جنہوں نے گذشتہ چند سالوں سے دنیا میں صرف خوف و ہراس پھیلائے رکھا، ان کے برعکس Covid-19صرف چند ملکوں یا کسی خاص خطے تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ وہ دنیا کے کونے کونے تک پھیل چکا ہے اور دمِ تحریر بھی پھیلتا چلا جا رہا ہے اور دنیا کو مفلوج کیے ہوئے ہے۔
اس تاریک سرنگ کے آخر میں بہر حال امید کی کرنیں نظر آنا شروع ہو رہی ہیں اور بعض ممالک امید کر رہےہیں کہ یہ وبا اب اپنی انتہائی حد کو پہنچ چکی ہے۔ تاہم اس امر کو تسلیم کرنا، جبکہ یہ توقع بھی کی جارہی ہے کہ اس وبا کی ابھی دوسری، تیسری یا چوتھی لہر آنا باقی ہے عجلت میں نتائج اخذ کرنے کے مترادف ہے۔
اگرچہ اس وبا سے جماعت احمدیہ کی سرگرمیاں بھی متأثر ہوئی ہیں، جماعتی تقریبات کو دنیا بھر میں منسوخ یا ملتوی کردیا گیا ہے، ہم رمضان المبارک میں داخل ہوچکے ہیں اور مساجد میں جانے سے محروم ہیں لیکن بفضلہ تعالیٰ احمدی مسلمانوں کا خلافتِ احمدیہ کے ساتھ براہِ راست رابطہ اور تعلق حضورِ انور کے خطبہ جمعہ کے ذریعے قائم ہے۔ خطبہ جمعہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے توسط سے نشر ہو رہا ہے چاہے فی الحال مسجد خالی ہی کیوں نہ ہو۔
میں نے جس احمدی سے بھی بات کی ہے ان میں سے ہر ایک نے کہا ہے کہ انہوں نے سب سے بڑھ کر اس عرصے کے دوران یہ سیکھا ہے کہ ہمیں کبھی بھی اللہ رب العزت کی نعمتوں کی ناشکری نہیں کرنی چاہیے۔
ہر سال اس وقت برطانیہ اور جرمنی میں جلسہ سالانہ کی تیاریاں بڑے ذوق و شوق سے جاری ہوتی ہیں۔ تاہم فی الحال یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہے کہ آیاان کا انعقاد امسال ہو بھی سکے گا یا نہیں۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ تب تک، میں گزشتہ سال کے جلسہ یوکے اور جلسہ جرمنی کی کچھ یادوں میں آپ کو بھی شریک کرنا چاہتا ہوں۔
[اس مضمون کی اشاعت کے بعدیہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ امسال وبائی حالات کی وجہ سے جلسہ سالانہ برطانیہ اور جرمنی منعقد نہیں ہو گا۔ ناقل ]میں ان یادوں کا آغاز سید قمر سلیمان صاحب، وکیل وقف نو سے ہونے والی ایک گفتگو سے کرتا ہوں جنہوں نے تحریک جدید پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے 2019ء کے جلسہ سالانہ یوکے میں شرکت کی۔
صاحبزادہ میر داؤد احمد صاحب مرحوم اور صاحبزادی امة الباسط صاحبہ مرحومہ کے فرزند ہونے کےناطے سید قمر سلیمان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندا ن سے تعلق رکھتے ہیں اورحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے نواسے ہیں۔ آپ حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خالہ زاد بھی ہیں۔
قمر سلیمان صاحب کو ان کے دوست احباب اور اہل خانہ پیار سے ‘‘ببی’’ کے نام سے پکارتےہیں۔ آپ رشتہ میں میرے خالو بھی ہیں۔ یعنی میری خالہ لبنیٰ امة الکبیر کے شوہر ہیں جو خود بھی گذشتہ سال جلسے میں شامل ہونے کے لیے تشریف لائی تھیں۔ بچپن کی یادوں میں سے ایک بات جو ابھی بھی ذہن پہ نقش ہے 1980ء کی دہائی کے آخرکا ایک واقعہ ہے جب میں صبح جاگا تو اپنی والدہ مرحومہ ساجدہ حمید صاحبہ کو اس خبر سے انتہائی فکر مند پایا کہ ربوہ میں خالو ببی کو چور ڈاکو نے گھر میں داخل ہو کر گولی ماردی ہے۔ شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ مکمل صحت یاب ہوگئے۔
مزید یہ کہ2000ء کی دہائی کے اوائل میں مجھے پاکستان میں بھی ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ انہی دنوں میں آپ نے مجھ سے عجیب سنسنی خیز کام بھی کروائے مثلاً خوفناک سانپ کو پکڑنا اور ربوہ میں موجود ایک خطرناک پہاڑی سے نیچے اترنا۔
گذشتہ موسم گرما میںمَیں نے ان سے خلافت سے متعلق ان کے ذاتی مشاہدات کے بارہ میں کچھ باتیں پوچھیں نیزیہ بھی کہ کئی دہائیوں سے جماعت کی خدمت کے دوران انہوں نے کیا سیکھا۔
بچپن کی یادیں
گفتگو کے دوران مَیں نے قمر سلیمان صاحب سے درخواست کی کہ وہ حضورِ انور کے ساتھ اپنے بچپن کی کچھ یادیں بیان کریں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اطفال کے مختلف مقابلوں میں حصہ لیا کرتے تھے نیز یہ کہ انہیں صفائی اور نفاست کے مقابلے میں حضورِ انور کا اوّل رہنا یاد ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ربوہ میں نوجوانی کی عمر میں انہیں حضور انور کے ساتھ راتوں کو پہرے دینے کا موقع ملا۔
آپ خوش نصیب ہیں کہ حضور انور کے ساتھ ربوہ کے نزدیک احمد نگر کے فارمز میں اکٹھے چہل قدمی کیا کرتے، اور یہ کہ کبھی کبھی اچانک بارش کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ پریشان ہونے کے بجائے حضور انور بارش میں بھیگنے کے باوجود خوب لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔
آپ کی یہ روایات سن کر میرے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی اتنا خوش نصیب ہوتا کہ بچپن میں حضور انور کے ان ابتدائی سالوں کو دیکھ سکتا۔
قمر سلیمان صاحب نے بتایا کہ
‘‘بچپن کے دنوں میں مجھے اکثر حضور انور سے ملنے کا موقع ملتاکیونکہ ہم رشتہ دار بھی تھے اور ہمسائے بھی۔ اُس دَور میں حضورانور کی ایک نمایاں ترین خصوصیت جس نے آپ کو دوسرے بچوں سے ممتاز کیا ہوا تھا یہ تھی کہ آپ اپنی عمرکے اعتبار سے بہت سمجھدار تھے اور جو کام بھی آپ کے سپرد کیا جاتا اسے سنجیدگی اور ذمہ داری سے کیا کرتےتھے۔ زیادہ تر نوجوان وقتی جوش کے باعث جلد بازی سےکام کرتے ہیں، اس کے برعکس میں نے ہمیشہ مشاہدہ کیا کہ حضور انور نہایت پُرسکون طریق اور گہرائی میں جاکر کام سر انجام دیا کرتے۔ میں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ بچپن اور جوانی کے ایام میں بھی حضور انور کی بات میں زیادہ وزن اوراثرہوتا تھا اگرچہ ہم بھی آپ ہی کے ہم عمر تھے۔
آپ نے مزید بتایا:
میرا کہنے کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ حضور ہمیشہ سنجیدہ یا الگ تھلگ رہا کرتے تھے۔ در اصل آپ بہت بذلہ سنج شخصیت کے حامل تھے۔ آپ کے لطائف بھی بہت مہذب ہوتے اور کبھی شائستگی کی حد سے تجاوز نہیں کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بچپن میں بھی حضور انور نے کبھی کوئی ایسا مذاق نہیں کیا جوکسی کے لیے تکلیف کا باعث ہو اور نہ ہی کبھی ایسی بات کی جس سے دوسروں کے جذبات مجروح ہوئے ہوں۔ یہ ایسی خصوصیات تھیں جن کی بنا پر آپ سب سے ممتاز تھے۔
ایک منفرد تعلق
بچپن اور نوجوانی کے واقعات سننے کے بعد میں نے آپ سے پوچھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ آپ کے حضور کے ساتھ تعلق میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟
قمر سلیمان صاحب نے جواب میں کہا:
‘‘حضورِ انور کے گھانا سے پاکستان واپس آنے کے بعد مجھے حضور کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملتا رہا۔ مثال کے طور پر ہم نے ایک دفعہ ربوہ سے دو اور دوستوں کے ساتھ بذریعہ ٹرین سندھ کا سفر کیا۔ یہ ایک نہایت خوشگوار سفر تھا جس میں ہم چاروں نے ٹرین کے لوئر اے سی میں ایک خانہ بک کروایاتھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مربی صاحب بھی ٹرین کے اسی ڈبے میں تھے لیکن ان کی سیٹ اوپر والی برتھ تھی۔ مربی صاحب نسبتاًفربہ تھے اس لیے وہ چھوٹی سی سیڑھی سے برتھ پر جانے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ ہم نے ان کی مدد کرنے کی کوشش بھی کی لیکن بے سود۔ اس موقعے پر ہم اپنی ہنسی کو روکنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ آخر کار اس مسئلے کا واحد حل یہ نکلا کہ ہم میں سے ایک نے مربی صاحب کے ساتھ اپنی سیٹ تبدیل کرلی۔
قمر سلیمان صاحب نےاپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
اس سفر کے کچھ ہی عرصے بعد 1997ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضور انور کو ناظر اعلیٰ و امیر مقامی پاکستان مقرر فرما دیا اور میرا خیال ہے کہ اس وقت ہمارے آپس کے تعلق میں کچھ تبدیلی آئی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ حضور انور کے رویے میں کوئی تبدیلی آئی تھی بلکہ اب آپ انتظامی امور کے لحاظ سے جماعت احمدیہ پاکستان کے سب سےسینیئر عہدے پر فائز ہو چکے تھے۔
ایک بابرکت ہجرت
میں نےقمر سلیمان صاحب سے پوچھا کہ آپ کو تو احمدی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کئی دہائیوں سے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے نیز آپ نے 1980ء کی دہائی میں نائجیریا میں بھی خدمت کی ہے، آپ کے خیال میں آپ کی زندگی میں جماعت پر سب سے کٹھن دور کب آیا؟
اس کے جواب میں آپ نے کہا:
‘‘ہم لوگ جو ربوہ میں مقیم ہیں، ہمارے لیے سب سے کٹھن مرحلہ اور مشکل ترین چیلنج خلافتِ احمدیہ کا ربو ہ سے لندن منتقل ہوجانا تھا۔ جب خلافت پاکستان میں تھی تو ہم دوسری جماعتوں کے لیے اپنے آ پ کو ایک مثال سمجھتے تھے کیونکہ ہمیں خلافت کا قرب اور اس کے زیر سایہ تربیت حاصل ہوتی تھی۔ بے شک خلافت کی برکات دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں لیکن جو لوگ خلیفۂ وقت کے قریب رہتے ہیں وہ اس وجود کی ،خلافتِ احمدیہ کی خاص برکات کے حامل بھی ہوتے ہیں۔ بہر حال اب پاکستان میں ہم باقی جماعتوں کی طرح ایک جماعت ہیں اور اب ہم نمونے کے لیے جماعت یوکے کو دیکھتے ہیں تا ان سے سیکھ سکیں۔ ’’
آپ نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا:
‘‘یہ بات مناسب نہ ہوگی کہ صرف ربوہ اور پاکستان کے لحاظ سے بات کی جائے بلکہ ہمیں ان مظالم کی طرف نظر دوڑانی چاہیے جن وجہ سے خلافت کو ہجرت کرنا پڑی۔ ان کا نتیجہ کیا نکلا؟ کیا احمدیت دنیا سے ختم ہوگئی یا حیران کن طور پر دنیا کے کناروں تک پھیلتی چلی گئی ! کوئی چیز خلافتِ احمدیہ اور اس کی ترقی کو روک نہیں سکتی۔ چاہے خلیفہ وقت قادیان میں ہوں، ربوہ میں ہوں، یوکے میں یا کہیں اَور۔ الٰہی تقدیر جہاں بھی خلافت کو لے جائے گی وہ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی بہتری کے لیے ہوگا۔ ’’
آپ نے مزید کہا:
‘‘سوچیں اگر خلافت پاکستان میں رہتی، ہاں ہم پاکستان میں رہنے والوں کے لیے تو اچھا ہوتا لیکن باقی جماعت پر کیا اثر ہوتا؟ اوّلاً یہ کہ ایم ٹی اے کی بنیاد رکھنا ناممکن ہوتا۔ برطانیہ چونکہ دنیا کا مرکز سمجھا جاتا ہے اس لیے جماعت کی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے لندن یا اسلام آباد دونوں ہی مرکز کے طور پر بہترین جگہیں ہیں۔
یہاں رہ کر حضور انور دنیا بھر کے جماعتی امور پر بہتر رنگ میں نظر رکھ سکتے ہیں اور احمدی احباب آسانی سے سفر کرکے حضور انور سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ جماعت کا اصل مقصد تمام دنیا کی روحانی تبدیلی ہے نہ کہ صرف پاکستان کی یا دیگر ایک دو ممالک کی۔ پس ہم نے پاکستان میں کچھ سخت حالات کا سامنا کیا ہے لیکن اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے جس طرح جماعت کو نوازا ہے اس کا حساب نہیں کیا جاسکتا۔ ’’
قمر سلیمان صاحب نے بتایا کہ انہوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ کس طرح ہر چیلنج کے مقابلہ میں، ہر مشکل کے سامنے اور ہر قربانی پیش کرکے، آخرکار نتیجہ ہمیشہ جماعت کے حق میں بہتر ثابت ہوا ہے۔ ہر دفعہ مخالفین جماعت نے سوچا کہ وہ ہماری کمر ہمت توڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو دنیا سے مٹا ڈالیں گے لیکن وہ ہمیشہ ناکام ونامراد رہے۔
آپ نے کہا:
‘‘28؍مئی 2010ء لاہور میں ہونے والے واقعے کی مثال لے لیں، اس دن اتنی بڑی تعداد میں احمدی شہید ہوئے لیکن اس کے ساتھ ہی مَیں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے تعارف میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہوا۔ وہ لوگ جنہوں نے کبھی احمدیت کا نام بھی نہیں سنا تھا ان کی جماعت کی طرف توجہ پیدا ہوئی کیونکہ بین الاقوامی میڈیا میں اس کی بہت کوریج ہوئی تھی۔ اس طرح وہ اسلام کی حقیقی تعلیم سےمتعارف ہوگئے۔ ’’
آپ نے مزید کہا کہ
‘‘میں نے ربوہ میں جماعت کی ایک نمائش پر کام کیا ہے اور جماعت کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جب بھی جماعت پر مظالم بڑھے یا کوئی اَور افسوسناک واقعہ پیش آیا تو ان دنوں میں جماعت نے باقی سالوں کی نسبت بہت زیادہ مالی قربانی پیش کی۔
اگر آپ ان چندہ جات کو دیکھیں جو 1953ء، 1974ء، 1984ء اور 2010ء کے بعد کے سالوں میں پیش کیے گئے جبکہ احمدیوں پرمظالم کے پہاڑ توڑے گئے تھے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ باقی سالوں کے مقابلے بہت زیادہ ہیں۔ مزید یہ کہ باوجود اس بات کے کہ یہ واقعات اپنی ذات میں انتہائی خوفناک تھے، جماعت ان سے اَور بھی زیادہ متحد ہوگئی۔ پس آپ دیکھ سکتے ہیں کہ احمدی ان مظالم اور ابتلاؤں کے نتیجہ میں نظام ِجماعت سےزیادہ وابستہ اور خلافت ِاحمدیہ سے وفاداری میں پہلے سے بہت بڑھ گئے۔’’
ہماری مستقل رہ نمائی کا ذریعہ
گفتگو کے دوران میں نے ذکر کیا کہ مجھ سے بعض اوقات یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی شخص سے خلیفۃالمسیح ناراض ہو جائیں تو اس کا ردّ عمل کیا ہونا چاہیے؟
محترم قمر سلیمان صاحب نے اس پر اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا:
‘‘ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خلیفۂ وقت نہ صرف احمدی مسلمانوں کے روحانی سربراہ ہیں بلکہ وہ انتظامی اعتبار سے بھی جماعت کے سربراہ ہیں۔ یہ ان کا فرض ہے کہ اگر وہ انتظامی اعتبار سے کوئی کمی دیکھیں تو اس پر درستگی اور رہ نمائی فرمائیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو جماعتی ترقی رُک جائے گی۔
بالکل اسی طرح اگر ہمارے اندر اخلاقی کمزوری ہو تو روحانی لیڈر ہونے کے اعتبار سے یہ آپ کو حق ہے کہ آپ ہماری رہ نمائی فرمائیں تاکہ ہم اپنے اعمال درست کرسکیں، اور کوئی گناہ یا لغزش جماعت میں رواج نہ پائے۔’’
محترم قمر سلیمان صاحب بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا:
‘‘اگر کوئی شخص خلیفہ وقت کی ناراضگی کا مورد بنتا ہے تو اسے ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آپ کی ناراضگی کسی ذاتی رنجش کی بنا پر نہیں ہوتی اور نہ ہی خدانخواستہ اس سے آپ خوش ہوتے ہیں بلکہ وہ ناراضگی ہمارے اور جماعت کے فائدے کے لیے ہوتی ہے۔ درحقیقت آپ کی رنجش یا ناراضگی بھی ہمارے لیے پیار کا اظہار ہے۔ میرے خیال میں اس پر ہمارا ردّ عمل یہ ہونا چاہیے کہ ہم خلوص دل کے ساتھ غیر مشروط معافی طلب کریں اور استغفار کریں۔ ’’
اس کے بعد قمر سلیمان صاحب نے مجھے ایک ایسا واقعہ بتایا جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح فطری طور پر کس قدر شفقت اور محبت کرنے والا وجود ہیں۔ نیز یہ بھی کہ اگر کسی پر کوئی پابندی لگائی بھی جاتی ہے تو کس طرح حضورِ انور کا دل اس سے بوجھل ہوتا ہے۔
قمر سلیمان صاحب نے بتایا :
‘‘حضور انور احباب جماعت کو سزا دینا پسند نہیں فرماتے اور پھر جتنی جلدی ممکن ہو ان کی معافی بھی ہو جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے حضور انور سے ایک شخص کا ذکر کیا جس پر کوئی پابندی لگائی گئی تھی اور یہ بھی ذکر کیا کہ وہ شخص اس لیے بہت پریشان ہے۔ اس پر حضور انور نے مجھے بتایا کہ اسے اس وجہ سے معافی نہیں دی گئی کیونکہ اس طرف سے ابھی تک معافی کے لیے کوئی خط حضور انور کو موصول نہیں ہوا۔ ’’
قمر سلیمان صاحب نے مزید بتایا :
‘‘اسی طرح ایک اَور موقعے پر حضور انور نے مجھے بتایا کہ اگر قضاءبورڈ کی طرف سے کسی کو سنائی جانے والی سزا میں ازالے کے طور پر مقابل فریق کو کچھ رقم ادا کرنے کا کہا جائے اوروہ اس رقم ادا نہ کر سکتا ہو تو بسا اوقات حضور انور اس شخص کی طرف سے خود ادائیگی فرمادیتے ہیں تاکہ اسے معافی مل سکے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضور انور احمدیوں سے کتنی محبت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم مل کر ایک خاندان کی طرح رہیں۔ اگر کبھی بھی حضور کو کوئی سخت قدم اٹھانا پڑتا ہے تو وہ نظام جماعت کا تقدّس قائم کرنے کے لیے ہوتاہے۔ ’’
جلسہ سالانہ یوکے اور لندن میں عید
جب قمر سلیمان صاحب اور میری خالہ کو جلسہ سالانہ یوکے اور حضور انور کی اقتداء میں نماز عید الاضحی ادا کرنے کی توفیق ملی تو اس کے چند دن بعد مجھے دوبارہ ان سے بات کرنے کا موقع ملا۔
قمرسلیمان صاحب نے نماز عید حضورِ انور کی اقتدا میں اداکرنے کے حوالےسے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا :
‘‘جب مجھے چند روز قبل حضور انور کی اقتدا میں نماز عید ادا کرنے کی توفیق ملی تو یہ میرے لیے بہت جذباتی لمحہ تھا کیونکہ 1980ء کے بعد یہ پہلا موقع تھا (کہ میں نے خلیفۃ المسیح کی اقتدا میں نمازِ عید ادا کی)۔ 1980ء میں خاکسار کی تقرری نائجیریا میں ہو گئی تھی اور جب میری پاکستان واپسی ہوئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ برطانیہ ہجرت فرما چکے تھے۔ یہ محض حضور انور کی شفقت ہے کہ انہوں نے ہمیں اس سال جلسہ سالانہ میں شمولیت اور عید تک قیام کی اجازت مرحمت فرمائی۔ ’’
محترم قمر سلیمان صاحب نے مزید بتایا:
‘‘ یہ میری اہلیہ لبنیٰ کے لیے اور بھی زیادہ جذباتی لمحہ تھا کیونکہ پاکستان میں لجنہ کو 28؍مئی 2010ء کےلاہور حملہ کے بعد نماز عید ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ تو وہ نہ صرف خلیفۂ وقت کی اقتداء میں نماز عید ادا کر نے کی توفیق پا رہی تھیں بلکہ کئی سال کے بعد پہلی مرتبہ نماز عید ادا کر رہی تھیں۔ مزید یہ کہ عید کی نماز کے بعد حضورِ انور نے ازراہ شفقت دوپہر کے وقت اپنے خاندان کے افراد کے لیےباربی کیو دعوت کا اہتمام فرمایا اور یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ ہمیں بھی وہاں بلایا گیا۔ یہ بہت فخر کی بات تھی کہ ہمیں یو کے میں رہنے والے اور بیرون ملک سے آنے والے خاندان حضرت اقدس مسیح موعودؑکے افراد کے ساتھ جنہوں نے اپنے قیام میں توسیع کر لی تھی اس دعوت میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ ’’
میں محترم قمر سلیمان صاحب کے جلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت کے بارے میں تأثرات جاننا چاہتا تھا کیونکہ انہیں کئی سال کے بعد یہ موقع ملا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح پچھلے سالوں کی نسبت عمومی طور پر انتظام بہتر تھا لیکن سب سے زیادہ جلسہ کی وسعت نے انہیں متاثر کیا۔
قمر سلیمان صاحب نے بتایا:
‘‘جلسہ کے آخری دن حضور انور نے اعلان فرمایا کہ اس جلسہ میں 115؍ممالک کے افراد جماعت نے شمولیت کی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری جماعت نے اللہ کے فضل سے کتنی ترقی کر لی ہے۔ پوری دنیا سے احباب جماعت کا یہاں جمع ہونا اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ فی الحقیقت احمدیت کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچ چکا ہے۔ ’’
ایک منفرد اور ممتاز جماعت
گفتگو کے اختتام میں مَیں نے محترم قمر سلیمان صاحب سے دریافت کیا کہ آپ نے بطور واقف زندگی اتنا لمبا عرصہ جماعت کی خدمت کرکے کیا سیکھاہے۔ اس بات کا جو جواب انہوں نے دیا یقیناً اس سے دنیا کے تمام احمدی متفق ہوں گے بلکہ اس کی تصدیق کریں گے۔
قمر سلیمان صاحب نے بتایا:
‘‘میں نے سیکھا ہے کہ ہمارا ایک منفرد جماعت ہونے کا دعویٰ جھوٹ یا مبالغے پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ بالکل سچ ہے۔ دنیا کی تمام اقوام خواہ ان کا دعویٰ کچھ بھی ہو اپنے ذاتی فائدے اور نفع کو ترجیح دیتی ہیں جبکہ ہماری جماعت ایسی ہے جو تمام اقوام عالم اور نسل انسانی کے لیے سچی ہمدردی رکھتی ہے قطع نظر اس کے کہ ان کی مذہبی اور سماجی حیثیت کیا ہے۔ ہم نہ صرف انسانیت کی اصلاح کرنا چاہتے بلکہ ہم اس کی خدمت بھی کرنا چاہتے ہیں۔ خلیفۃ المسیح ہمارے لیے مرکزی نقطہ ہیں اور ان کی شخصیت ہماری جماعت میں موجود تمام نیکیوں کا سرچشمہ ہے۔ ان کا دل اور دعائیں تما م احمدیوں اور تمام انسانیت کے ساتھ ہیں اور یہ وہ خصوصیت ہے جو ہمیں سب سے ممتاز کرتی ہے۔ ’’
خاکسار محترم قمر سلیمان صاحب کے ساتھ اسلام آباد میں اپنے آفس میں اس نشست اور ان کے ذاتی تجربات اور خاص طور پر خلافت احمدیت کے متعلق ان سے واقعات سن کر بہت لطف اندوز ہوا۔
اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت قریب کوئی خطرناک پہاڑ یا سانپ وغیرہ موجود نہیں تھے مبادا وہ مجھے میرے مزاج کے خلا ف کوئی سنسنی خیز مہم سر کرنے پر قائل کر لیتے جیسا کہ کچھ سال قبل ربوہ میں ہوچکا تھا۔
رسمی سوال جواب کا سلسلہ ختم ہو ا تو مجھے خوشی ہوئی کہ اب خالو ببّی کے ساتھ معمول کی گفتگو ہو گی۔
(ترجمہ: ٹیم تراجم الفضل انٹرنیشنل)
[یہ مضمون انگریزی زبان میں پریس اینڈ میڈیا آفس کی ویب سائیٹ پرشائع کیا گیا۔ ادارہ الفضل انٹرنیشنل اس ترجمے کو اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے۔ اصل مضمون کے لیے درج ذیل لِنک ملاحظہ فرمائیں:A Conversation with Qamar Suleman sahib
٭…٭…٭