مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافت کی بڑی نعمت سے نوازا ہوا ہے، پیارے حضور کی زندگی کا ہر ہر لمحہ اور ہر ہر بات ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے
کچھ ماہ پہلے کی بات ہے کہ مجھے دو تین مہینوں میں کوئی چار بار ملک سے باہر جانا پڑا۔ یہ محض اتفاق تھا ورنہ میں سارا سال یہیں برطانیہ میں ہی ہوتا ہوں۔ میں نے انہی دنوں اپنے پیارے محبوب امام حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز سے ملاقات کے لیے درخواست بھی دی ہوئی تھی۔ اتفاق یہ کہ دو بار جب میری باری آئی میں ملک سے باہر تھا۔
پہلی بار میں ایک چیریٹی پروگرام میں شرکت کے لیے سوئٹزرلینڈ میں تھا۔ اس وقت تو شکر ہے کسی نے نوٹ نہیں کیا۔
دوسری بار میں فرینکفرٹ اپنے دوست وسیم طاہر صاحب کی دعوت پر ایک مشاعرے میں شامل ہونے کے لیے جہاز میں بیٹھ چکا تھا جب دفتر سے ایک نوجوان کی شائستہ سی کال آئی۔
‘‘پرسوں صبح دس بجے آ جائیں حضور سے ملاقات کے لیے’’۔
میں نے صورتِ حال بتائی اور عرض کی کہ محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے بات کر کے ابھی مجھے بتا دیں میں کیا کروں۔
انہوں نے بتایا کہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب ابھی دفتر میں نہیں ہیں دس پندرہ منٹ تک کال کر کے بات کر لیں۔
میں جہاز سے اترنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ جہاز نے رن وے پر دوڑنا شروع کر دیا۔
جرمنی میں مشاعرے کے دوران میں اندر ہی اندر بہت اداس تھا کہ مجھے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت مل رہی تھی اور میں ایک مشاعرے میں شامل ہوں۔
دوران مشاعرہ ہر چند، میرا ذہن شعروں کی طرف نہیں تھا لیکن میں وقفے وقفے سے اپنے دوست شعرا ءکو داد دیتا رہا کیونکہ صرف اسی صورت میں انہوں نے میری باری پر مجھے داد دینی تھی۔
محترم مبارک شاہد صاحب صدر انصار اللہ جرمنی کو اللہ بہت جزا دے کہ وہ ہم سب کی حوصلہ افزائی کے لیے سارا وقت تشریف فرما رہے۔ شام کو چائے کے دوران دوستوں جلیل عباد صاحب، طاہر عدیم صاحب، ڈاکٹر وسیم صاحب، حنیف تمنا صاحب، خالد ساحل صاحب اور ایک دو اَور دوستوں کے ساتھ ایک بے تکلف نشست تھی وہاں پہ بھی میں کچھ گم سم رہا۔ پیارے حضور سے ملاقات کی اجازت ملنے کی سعادت کے باوجود حاضر نہ ہونے کا دکھ مجھ پر حاوی تھا۔
اگلے روز صبح لندن پہنچتے ہی میں نے پہلا کام کیا کہ گرتے پڑتے اسلام آباد سرے پہنچا۔ درخواست لکھی کہ پیارے آقا کئی مہینوں سے ملاقات کا متمنی ہوں۔ اجازت عطا فرمائی جائے۔
خط لکھنے کے بعد میں نے اپنے گھر میں کہا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ مجھے اب مستقل ‘‘نہ’’ہو جانی ہے۔
الحمد للہ ! پیارے حضور کی شفقت سے ملاقات کی اجازت مل گئی۔ ملاقات کے روز میں بہت ڈرا ہوا تھا لیکن مجھے تسلی تھی کہ ہر ہفتے سینکڑوں لوگوں کو شرف ملاقات بخشنے والے اور بلامبالغہ ہزاروںخطوط ملاحظہ فرمانےوالےہمارےپیارےمحبوب حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اتنی زیادہ مصروفیات میں کہاں یاد ہو گا کہ میں پہلے نہیں آیا تھا۔
خاکسار خود کو یہی حوصلہ اور تسلی دیتے ہوئے عقیدت و احترام سے ملاقات کے لیے حضور انور کے بابرکت دفتر میں داخل ہوا۔ حضور انور کے کمرے میں داخل ہو کر جو روحانی سرور اور سکون حاصل ہوتا ہے جو لذت ملتی ہے وہ آپ قارئین مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ اس وقت پیارے آقا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطوط ملاحظہ فرما رہے تھے۔
میں نے عرض کی حضور ہماری تعلیم الاسلام کالج ایسوسی ایشن برکینا فاسو میں ایک کالج بنوا رہی ہے۔ حضورنے فرمایا بڑی اچھی بات ہے۔ مجھے یاد ہے حضور میری طرف نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ خطوط پڑھ کر دستخط فرما رہے تھے۔ خطوط کو ملاحظہ فرماتے ہوئے حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ آپ کیا مجھے تنگ کرتے رہتے ہیں ملاقات کے لیے وقت دیں۔ وقت دیں۔ جب میں کہتا ہوں آجائیں۔ پتہ چلتا ہے آپ مشاعروں میں مصروف ہیں۔
میں نے کہا اللہ اکبر پیارے حضور کو یاد ہے یہ بات ؟
حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا میں نے تو منیر جاوید صاحب کو کہا ہے کہ مبارک صاحب مصروف آدمی ہیں ان سے پوچھ لیں جب ان کے پاس وقت ہو وہ آ جائیں ملنے کے لیے۔
میری حالت آپ سمجھ سکتے ہیں لکھنے کی ضرورت نہیں۔ کچھ لمحات کی کیفیات لکھنے کے لیے الگ مضمون درکار ہوتا ہے۔
میں نے عرض کی حضور بہت بہت معذرت کا خواستگار ہوں آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ اس کے بعد حضور انور ہماری ایسوسی ایشن کی مساعی سے متعلق دریافت فرماتے رہے۔ اس روز حضور انور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے اس ادنیٰ خادم کو معمول سے زیادہ وقت دیا۔ بلکہ جب میں ملاقات کر کے اٹھا تو حضور نے فرمایا یہ ہاتھ میں کیا ہے کوئی تازہ غزل ہے؟ میں نے عرض کی جی حضور سنانی تھی۔ حضور نے فرمایا اچھا جلدی سے تین چار شعر سنا دیں۔ تو اس طرح پیارے آقا کی بابرکت قربت میں بیٹھنے کی چند اَور ساعتیں نصیب ہوئیں۔
ملاقات کے بعد سارے راستے احمد ندیم قاسمی کا شعر مجھے یاد آتا رہا کہ
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالمِ نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
اور ساتھ ساتھ میں یہ سوچتا رہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافت کی کتنی بڑی نعمت سے نوازا ہوا ہے۔ پیارے حضور کی زندگی کا ہر ہر لمحہ اور ہر ہر بات ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ کیسے میں دل میں ڈرا ہوا تھا کہ شاید اب مجھے ملاقات کا وقت ہی نہ دیا جائے اور کیسے اس ادنی ٰکارکن سے درگزر کا سلوک کہ جب فرصت مل جائے مل لیں۔
اللہ تعالیٰ ہمارے محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی عمر اور صحت میں برکت عطا فرمائے اور خلافت کی یہ ٹھنڈی چھاؤں یہ شفقتوں ،رحمتوں اور برکتوں کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے آمین۔
کچھ دنوں بعد میرے خط کا جواب بھی موصول ہو گیاجس میں لکھا ہوا تھا کہ
‘‘ملاقات اس لئے نہیں ہوتی کہ آپ اکثر دوروں پر ہوتے ہیں’’۔
اب میں نے عہد کر لیا ہے کہ جب بھی ملاقات کی درخواست کروں گا اس وقت تک ملک سے باہر نہیں نکلنا جب تک ملاقات نہ ہو جائے۔ مشاعرے تو ہوتے رہتے ہیں۔
حضور انور کی غیر معمولی یاد داشت کے اور شفقت کے بہت سے واقعات کا میں گواہ ہوں۔ آخر میں صرف ایک اور مختصر واقعہ لکھتا چلوں۔
ایک مرتبہ ہفتے کے روز میری ملاقات تھی۔ سب ملاقات کرنے والوں کوصبح دس بجے بلایا گیا تھا۔ دفتر میں جا کر معلوم ہوا کہ میرا نمبر تقریبا ًسب سے آخر پر ہے۔ مجھے تقریبا ًساڑھے گیارہ بجے انتخاب سخن کے لیے بیت الفتوح ایم ٹی اے کے سٹوڈیو بھی پہنچنا تھا۔ ملاقاتیں شروع ہوئیں تو پہلی دو تین ملاقاتوں کا دورانیہ دیکھ کر ہی مجھے لگا کہ آج میں وقت پر ایم ٹی اے سٹوڈیو نہیں پہنچ پاؤں گا۔ میں خاموشی سے دعا کرتے ہوئے بیٹھا رہا اور کسی سے ذکر نہیں کیا۔ میں انتخاب سخن کے پروڈیوسر کو فون کرنے ہی والا تھا کہ میرا نام پکارا گیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت فرمایا کہ آپ کا نام تو بہت بعد میں تھا لیکن آپ نے انتخاب سخن کے لیے بھی پہنچنا ہے اس لیے میں نے آپ کو پہلے بلا لیاہے۔ سبحان اللہ سبحان اللہ!!
ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کس طرح جماعت کے ایک ایک فرد پر شفقت کی نظر رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے محبوب امام کی عمر اور صحت میں برکت فرمائے اور خدا کرے کہ ہم سب جان و دل سے اپنے محبوب امام کے ہر اشارے پر لبیک کہنے والے ہوں۔ آمین۔
٭…٭…٭