خلفائے احمدیت کی اُمّت مسلمہ کی فلاح کے لیے تڑپ
’’مسلمان اُمّہکی تکلیف ہمیں بھی تکلیف میں ڈالتی ہے۔ اس لیے کہ یہ ہمارے پیارے آقا کی طرف منسوب ہونے والے ہیں۔‘‘ (حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)
خداتعالیٰ نےقرآنِ کریم میں امّتِ محمدیہ کو گذشتہ تمام امّتوں سے بہترین امّت قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَاُمَّةٍاُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیْراً لَّھُمْ ط مِنْھُمُ الْمُؤمِنُوْنَ وَاَکْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔
(اٰلِ عمران:111)
تم بہترین امّت ہو جو تمام انسانوں کے فائدے کےلیے نکالی گئی ہو۔ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔ او ر اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لےآتے تو یہ اُن کےلیے بہت بہتر ہوتا۔ ان میں مومن بھی ہیں مگر اکثر ان میں سے فاسق لوگ ہیں۔
اس آیتِ کریمہ کے موافق رسول اللہﷺنے بھی کئی مواقع پر امّتِ محمدیہ کی فضلیت اور نیک انجام کا تذکرہ فرمایا ہے۔ مثلاًایک روایت میں آپؐ فرماتے ہیں کہ
‘‘اللہ تعالیٰ اس امّت کو ہرگز رسوا نہیں کرے گاجس کے شروع میں مَیں ہوں اور عیسیٰ بن مریم اُس کے آخرمیں ہو’’
(مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 43)
مخبرِ صادق سیّدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے اِس ارشاد کے تابع، منشائے الٰہی کےمطابق حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نےموعودہ وقت پر احیائے اسلام کی بنیاد رکھی۔ حضورؑ کے بعد تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کا یہ سلسلہ آپؑ کی نیابت اور جانشینی میں خلفائے احمدیت کی قیادت و سیادت میں نئے افق اور نئی بلندیوں کی طرف رواں دواں ہے۔
تاریخ کاسرسری جائزہ ہمارے سامنے یہ منظر پیش کرتا ہے کہ رسول اللہﷺسے آغاز پانے والا امّتِ مسلمہ کا یہ سلسلہ خلفائے راشدین اور بعد کے زمانوں میں وسط ایشیا، افریقہ، اندلس، المغرب اور ہندوستان تک پھیلتا ہی چلا گیا۔ بنو امیّہ، بنو عباس، مملوک اور سلطنتِ عثمانیہ کےتحت جہاں ایک طرف جغرافیائی اور عددی اعتبار سے مسلمان تیزی سے بڑھے وہیں دوسری جانب رنگ و نسل اور فکر و دانش کے تفاوت نے بھی اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ اہلِ تصوّف ہوں یا فلاسفہ، بنیاد پرست اکثریت ہو یا عقلیت پسند روشن خیال گروہ امّتِ مسلمہ ان تمام اکائیوں کے مجموعے کا نام ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نےآسمانی پیش گوئیوں اور بشارات کے مطابق چودہویں صدی ہجری یعنی انیسویں صدی عیسوی کے ربع آخر میں اسلام کی نشاةثانیہ کی بنیاد رکھی۔ آپؑ کی وفات کے ساتھ بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں خلافتِ احمدیہ کا آغازہوا۔ تاریخِ عالَم میں بیسویں صدی عیسوی شدید خون ریزی کی صدی ہے کہ جس میں دنیا نےدو عالم گیر جنگیں دیکھیں۔ جنگِ عظیم اوّل میں ہونے والی تباہی اور نسل کُشی کے اثرات بڑی بڑی عظیم سلطنتوں کے زوال کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ فکرو دانش کے میدان میں انسانی ذہن نے فاشسٹ نظریات، نوآبادیات اور سرمایہ دارانہ نظام جیسے تصوّرات کو ردّ کرتے ہوئے ان کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا۔ اسلامی دنیا بھی تبدیلی سے دوچار تھی، ہندوستان میں 1857ء کے غدر کے بعد ہندومسلم اتحاد کی کوششیں بےسود ثابت ہورہی تھیں۔ سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے نےامّتِ مسلمہ بالخصوص مسلمانانِ ہند کو ذہنی سطح پر بہت متاثر کیا۔ یہ وہ پس منظر ہے کہ جس میں خلفائے احمدیت نے اسلام کا پرچم تھامااور امّتِ مسلمہ کی بہبود کی کوششوں کا آغاز کیا۔
عہدِ خلافتِ اولیٰ
سیّدنا حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کواپنے عِلْم و فضل اور تقویٰ و پرہیزگاری کے سبب منصف مزاج مسلمانانِ ہند میں بِلا تفریق مسلک و عقیدہ ایک بزرگ لیڈر کی حیثیت حاصل تھی۔ مسلم انجمنیں اور ادارے حضورؓ کی رائے اور مشورے کو اپنے لیے اعزاز خیال کرتے اور وقتاً فوقتاًاز خودآپؓ سے رابطہ کرتے رہتے۔ حضورؓ جماعت کی طرف سےاور بسا اوقات ذاتی حیثیت میں بھی اِن اداروں اور انجمنوں کی مالی، فکری اور افرادی مدد فرماتے رہتے۔
مدرسہ الہٰیات کان پور کی اعانت
اسلام کی حفاظت اور اشاعت کے لیے کان پور میں ایک نیا ادارہ ‘مدرسہ الہٰیات’ قائم ہوا۔ حضورؓ نے اس انجمن کو نصاب کے متعلق عمدہ مشورے دیے اور اشاعتِ اسلام کی غرض سے ایک معقول رقم بھجوائی۔ اوائل 1910ء میں آپؓ نے ایک مفصل خط کے ذریعے اُس عہد کے مشہور متکلمین اور اُن کے پیدا کردہ لٹریچر کا تجزیہ کرکے انجمن کو مفید نصائح فرمائیں۔
(تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 315)
ہندو مسلم کش مکش اورحضورؓ کی دُوراندیشی
ایک روز حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب نے ہندو مسلم کش مکش کے متعلق حضورؓ سے دریافت کیا توآپؓ نے اس تمام صورتِ حال پر بڑا دُوراندیش تبصرہ کرتے ہوئےفرمایا:
‘‘مَیں نے اِس پر بہت غور کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں میں بھی قومیت کی روح پیدا ہوجائے گی… مَیں اس کو مسلمانوں کےلیے مفید سمجھتا ہوں۔ ’’
(تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ 335)
مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے لیے چندے کی تحریک
فروری 1911ءمیں نواب فتح علی خاں صاحب نے حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کو ایک خط تحریر کیا اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے لیے چندے کی تحریک کی۔ حضورؓ نے نواب صاحب کو جواباً تحریر فرمایا کہ مجھے اسلامی یونیورسٹی کی تجویز کے ساتھ پوری ہم دردی ہے۔ مَیں خود اس فنڈ میں ان شاء اللہ ایک ہزار روپیہ دوں گا۔ اس کے ساتھ ہی آپؓ نے احبابِ جماعت کو بھی اس نیک تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تاکید فرمائی۔
(حیاتِ نور از عبدالقادر سابق سوداگرمل صفحہ 505تا506)
حضورؓ کی تحریک پر مسلمانانِ ہند کا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھاہونا
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنے عہدِ مبارک میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے ایک میموریل کے ذریعے انگریزی حکومت کو متوجہ فرمایا تھا۔ لیکن وہ معاملہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کی غفلت کے باعث درمیان میں ہی رہ گیا تھا۔ 1911ء میں جب شہنشاہ جارج پنجم کا دربارِ تاج پوشی دہلی میں ہونے والا تھاتو حضورؓکے دل میں یہ تحریک ہوئی کہ اس خوشی کی تقریب پر وائسرائے ہند کی خدمت میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی سے متعلق یہ میموریل دوبارہ بھیجا جائے۔ حضورؓ کی اس تجویز کاتمام مسلمانوں نے خیرمقدم کیا اور مسلم پریس اور انجمنوں نے اپنی اپنی قراردادوں کے ذریعے اس تجویز کے حق میں آواز بلند کی۔ اتفاقِ رائے سے یہ میموریل دربار ِتاج پوشی کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے پیش کیا گیا۔ مختصر یہ کہ اس تحریک کے نتیجے میں تدریجاً اکثر صوبوں میں ملازمین کو نمازِ جمعہ کےلیے جانے کی اجازت مل گئی۔
(تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ 379تا 381)
مسلمانوں کے زوال کا دردمندانہ تجزیہ
25؍ دسمبر 1912ء کوجلسہ سالانہ کے موقعے پر جماعت کو وحدت و یگانگت کی تلقین کرتے ہوئے حضورؓ نے بڑے درد کے ساتھ فرمایا:
‘‘ملکوںپرملک تمہارے قبضے سے نکلتے چلے جاتےہیں۔ سمرقند، بخارا، دہلی، لکھنؤ، مصر، مسقط، زنجبار، مراکش، تیونس، طرابلس، ایران وغیرہ بارہ سلطنتیں مسلمانوں کی میرے دیکھتے دیکھتے تباہ ہوئیں اور اب قسطنطنیہ پر بھی دانت ہے یہ کیوں ہوا؟ قرآن میں اس کا سبب لکھا ہے۔ وَ لَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ باہم جھگڑے چھوڑ دو تم سست ہوجاؤ گے۔ تمہاری ہوا بگڑ جائے گی۔ ’’
(تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ 431)
امّتِ مسلمہ کےلیے پُرحکمت، درد انگیز دعا
تاریخ احمدیت میں مرقومہ ایک روایت کے مطابق 5؍جون 1913ء حضورؓ نے شدید علالت میں دو رکعت نماز پڑھی اور یہ دعا فرمائی
‘‘الٰہی اسلام پر بڑا تبر چل رہا ہے۔ مسلمان اول تو سست ہیں۔ پھر دین سے بےخبر ہیں اسلام و قرآن اور نبی کریمﷺ سے بےخبر ہیں۔ تُو اِن میں ایسا آدمی پیدا کر جس میں قوتِ جاذبہ ہو وہ کاہل و سست نہ ہو۔ ہمت بلند رکھتا ہوباوجود ان باتوں کے وہ کمال استقلال رکھتا ہو۔ ’’
(تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ 444)
عہدِ خلافتِ ثانیہ
خلافتِ اولیٰ کےدوران سن 1912ءمیں سیّدنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محموداحمد صاحبؓ مصر اور عرب کے تاریخی سفر پر تشریف لےگئے۔ فریضۂ حج کی ادائیگی کے باعث آپؓ جلسہ سالانہ قادیان میں شریک نہ ہوسکے۔ اس موقعے پر جدّےسے روانہ ہوتے ہوئے اولوالعزم سیّدنا فضلِ عمرؓ نےقادیان ایک تار دے دیاتھا۔ احبابِ جماعت اور اہالیانِ قادیان کے نام تین فقروں کے اِس مختصر پیغام میں آپؓ نے صرف اور صرف ایک امر کی نسبت دعا کی تحریک کی۔ فرمایا:
‘‘مَیں جہاز پر جدہ سے سوار ہوتا ہوں مگر جلسے پر نہیں پہنچ سکوں گا۔ ہاں یہ پیغام دیتا ہوں کہ کشتی ڈوبنے کے وقت جو حالت ہوتی ہے وہ اس وقت مسلمانوں کی ہے۔ سب دعاؤں میں لگ جائیں۔ ’’
(تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ 422)
خلافتِ احمدیہ کے منصب پر سرفراز ہونے کے بعد حضورؓ کے باون سالہ دورِ خلافت میں امّتِ مسلمہ کےلیے یہی درداور جوش بار بار منعکس ہوتا نظر آتا ہے۔
تُرک سلطنت سے ہم دردی اور امّت کی رہ نمائی
جنگِ عظیم اوّل میں اتحادیوں کی کامیابی نے ترک سلطنتِ عثمانیہ کی شان و شوکت خاک میں ملا دی تھی۔ امّتِ مسلمہ بالخصوص مسلمانانِ ہند میں اس صورتِ حال سےمتعلق شدید غم و غصّہ پایا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں ستمبر 1919ء میں لکھنؤ کے مقام پر ایک آل انڈیا مسلم کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ سیّدنا حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اس موقعے پر ایک مفصّل مضمون بعنوان ‘‘ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض’’تحریر کیا۔ اس مضمون میں حضورؓ فرماتے ہیں :
‘‘جماعتِ احمدیہ ترکوں کی سلطنت سے ہر طرح ہمدردی رکھتی ہے کیونکہ باوجود اختلافِ عقیدہ رکھنے کے ان کی ترقی سے اسلام کے نام کی عظمت ہے۔ ’’
حضورؓ نے کانفرنس کے سامنے ایک تفصیلی سکیم پیش کی اور سلطنتِ برطانیہ کو اِ س امرپر قائل کرنے کی ضرورت پر زور دیا کہ مسلم رعایا کے جذبات و احساسات کا خیال کرتے ہوئے ترکی کو دوسری حکومتوں کے سپرد نہ کیا جائے۔
اسی سلسلے میں دسمبر 1919ء میں گورنر پنجاب سر ایڈورڈ ڈگلس میکلیگن(1864ءتا1952ء) کی لاہور آمد کے موقعے پر خیر مقدمی ایڈریس پیش ہوئے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر اکاون اصحاب پر مشتمل ایک وفد گورنر صاحب سے ملا اور حضرت چوہدری سر ظفراللہ خان صاحبؓ نے جماعتِ احمدیہ کی طرف سے ایڈریس پیش کیا۔ اس ایڈریس میں حکومتِ وقت کو وفاداری کا یقین دلاتے ہوئے ترکی کے مسئلے کو بڑے احسن رنگ میں گورنر پنجاب کے سامنے پیش کیا گیا اور جماعتِ احمدیہ کی پوزیشن کی وضاحت بھی کی گئی۔
(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ222تا223)
ان کوششوں کے باجوداتحادی ممالک نے ترکی سے صلح کی جو شرائط طے کیں وہ نہایت ذلت آمیز تھیں۔ ترک افواج محدود کردی گئیں اور سلطنت سے فلسطین، عراق، عرب اور شام کو بظاہر خودمختار قرار دے کر حقیقتاً برطانوی سامراج کی عمل داری میں دے دیا گیا۔ حجاز اور مصر کوبھی ترک سلطنت سے الگ کردیا گیا۔
اس معاہدے کے متعلق لائحہ عمل تجویز کرنے کے لیے یکم اور 2؍جون 1920ء کو الہ آباد میں خلافت کمیٹی کے تحت کانفرنس منعقد ہوئی۔ حضورؓنے اس موقعے پر ایک مضمون ‘‘معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویّہ’’تحریر فرمایا۔ اس مضمون میں آپؓ نے عدم موالات، جہادِ عام اور ہجرت جیسی غیر منطقی تجاویز کو ردّ کرتے ہوئے فوری طور پر ایک عالَم گیر لجنہ اسلامیہ کے قیام پر زور دیا۔
(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 257تا258)
ترک مسلمانوں سے حضورؓ کی یہ ہمدردی ہمیشہ قائم رہی۔ چنانچہ 1937ء میں جب ترکی نےفرانس سےاپنے مقبوضہ علاقے واپس لینے کے لیے مسلح جدوجہد کا ارادہ کیا تو آپؓ نے تُرک حکومت سے ہمدردی کا اظہار کیا اور جماعت کو ترکوں کے لیے دعا کی تحریک فرمائی۔
(تاریخ احمدیت جلد 8صفحہ 437تا438)
حجاز پر مسلم عمل داری کی وکالت
مشرقِ وسطیٰ اور عرب میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے ذیل میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ ہمیشہ اس دُور رس اصول کےحق میں رہے کہ حجاز کے علاقے پر مسلم عمل داری قائم رہنی چاہیے۔ کسی دوسری طاقت کا اثرورسوخ کم از کم حجاز پر قائم نہیں ہونا چاہیے۔
23؍جون 1921ءکو جماعتِ احمدیہ کے ایک وفد نے وائسرائے ہند لارڈ ریڈنگ (1861ءتا1935ء)سے ملاقات کی اور اس امر پر زور دیا کہ ترکوں سے علیحدگی کے بعد حجاز کی آزادی میں کوئی خلل نہیں آنا چاہیے۔
(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 283)
اسی طرح 1935ء میں آلِ سعود نے ایک غیرملکی کمپنی سے پٹرولیم کا معاہدہ کیا تو اِس پر ہندوستان میں بہت شور ہوا۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کواس اشتعال انگیزی پر سخت صدمہ پہنچا۔ آپؓ نے خطبہ جمعہ 30؍اگست 1935ء میں عرب کے معاملات سے اپنی دلچسپی کی وجہ بیان کی۔ فرمایا کہ عرب پر ترک حکومت اور پھر شریفِ مکّہ کی حکومت کا ہم نے صرف اس لیے ساتھ دیا ‘‘تاکہ عرب میں نِت نئے فسادات کا رُونما ہونا بند ہوجائے۔ ’’
سلطان ابنِ سعود کے اس معاہدے کے متعلق حضورؓ نے فرمایا کہ
‘‘مَیں نے وہ معاہدہ پڑھا ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اُس میں بعض غلطیاں ہوگئی ہیں۔ مگر یہ سمجھنے کے باوجود ہم نے اس پر شور مچانا مناسب نہیں سمجھا۔ کیونکہ ہم نے خیال کیا کہ اب سلطان کو بدنام کرنے سے کیا فائدہ۔ اس سے سلطان ابن سعود کی طاقت کمزور ہوگی اور جب ان کی طاقت کمزور ہوگی تو عرب کی طاقت بھی کمزور ہوجائے گی۔ اب ہمارا کام یہ ہے کہ دعاؤں کے ذریعے سے سلطان کی مدد کریں اور اسلامی رائےکو ایسا منظم کریں کہ کوئی طاقت سلطان کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی جرأت نہ کرسکے’’
(تاریخ احمدیت جلد 7صفحہ 231تا 233)
مسلمانانِ حیدرآباد دکن کے نام اہم پیغام
1938ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ ایک رؤیا کی بنا پر حیدرآباد دکن کے تاریخی سفر پر روانہ ہوئے۔ یہاںقیام کے دوران حضورؓ نے نواب اکبریار جنگ اور معروف ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ کے علاوہ عمائدینِ حیدرآباد سے ملاقاتیں کیں اور نہایت مصروف وقت گذارا۔ اس موقعے پر آپؓ نے مسلمانانِ حیدرآباد دکن کے نام ایک اہم پیغام دیا جس میں مسلمانوں کی حالتِ زار کا درد بھرا نقشہ کھینچنے کے بعدحضورؓ نے یک جہتی اور یگانگت پر زور دیا۔ فرمایا:
‘‘مَیں دیکھتا ہوں کہ مسلمان ایسے حالات میں سے گذر رہے ہیں جن میں جانور بھی اکٹھےہوجاتے ہیں اور لڑائی جھگڑے چھوڑ دیتے ہیں…موجودہ خطرات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ مسلمان باہمی اختلاف کو ایسا رنگ دیں جس سے اسلام کے غلبے اور اس کی ترقّی میں روک پیدا ہو۔ ’’
(تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 517تا518)
عالَمِ اسلام کو درپیش خطرناک چیلنج پر حضورؓ کا فکرانگیز تجزیہ
جنگِ عظیم دوم کے دوران عراق میں شیخ رشید علی جیلانی اور اُن کے ہم نواؤں کی غیردانش مندانہ سرگرمیوں نے ایک شدید شورش برپا کردی تھی۔ اِس ناعاقبت اندیش گروہ کی کارروائیوں کے باعث نازی قوتوں کو عالمِ اسلام کے مقدس ترین مقامات کی جانب پیش قدمی پرشہ مل رہی تھی۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اس موقعے پر 25؍مئی 1941ء کو لاہور ریڈیو سٹیشن سے‘‘عراق کے حالات پر تبصرہ’’ کے عنوان سےایک زبردست تقریر فرمائی۔ آپؓ نے بغداد، بصرہ، اور موصل کی تاریخی اہمیت اور مسلمانوں کے اجتماعی شعور میں اِن مقامات اور ان سے منسوب شخصیات کا ذکر کرنے کے بعد مسلم دنیا کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے فوری طور پر اس جنگ کو اِن مقامات سے دُور دھکیلنے کےلیے اقدامات نہ کیے تو یہ جنگ سرعت کے ساتھ عرب کے صحرا میں پھیل جائے گی۔ حضورؓ نے بڑے درد کے ساتھ فرمایا:
‘‘اِس فتنے کے نتیجے میں ترکی گِر گیاہے، ایران کے دروازے پر جنگ آگئی ہے، شام جنگ کا راستہ بن گیا ہے، عراق جنگ کی آماج گاہ ہوگیا ہے، افغانستان جنگ کے دروازے پر کھڑا ہے اور سب سے بڑا خطرہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ وہ مقامات جو ہمیں ہمارے وطنوں، ہماری جانوں اور ہماری عزّتوں سے بھی زیادہ عزیز تر ہیں جنگ اُن کی عین سرحد تک آگئی ہے۔ ’’
(تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 227تا 231)
مسئلۂ فلسطین اور مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال
حضرت مصلح موعودؓ نے مشرقِ وسطیٰ کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے اور عالَم گیر سازشوں سے بچتے ہوئے ایک دوسرے کا سہارا بننے کا باربار ارشاد فرمایا۔ حضورؓنےفلسطین کے مسئلے پر ہمیشہ مسلمانوں کی رہ نمائی فرمائی۔ تقاریر کیں، مضامین تحریر فرمائے، عالمی لیڈروں سے روابط قائم کیے۔ طاقت کی اِس دنیا میں دلیل کی کم مائیگی سے کون انکار کرسکتا ہے تاہم فلسطین کے مسئلے پر حضرت چوہدری سر ظفراللہ خان صاحبؓ کی کوششیں سفارت کاری کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہیں۔
دشمنانِ اسلام کی سازشوں اور موقع پرست مسلمان لیڈروں کی بےضمیری کے سبب اسرائیل کے قیام کی صورت میں عالَمِ اسلام کو شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک عرصے بعد جلسہ سالانہ 1951ء کے موقعے پر حضرت مصلح موعودؓ نے امّتِ مسلمہ کے حالات کا بصیرت افروز تجزیہ اور دعائے خاص کی تحریک کی۔ حضورؓ نے فرمایا:
‘‘اس مسئلے کا ایک نازک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ہمارے آقا محمد مصطفیٰﷺ کے جوار میں دشمنِ اسلام کو بسا دیا گیا ہے۔ مَیں نے تو ابتدا میں ہی اس خدشے کا اظہار کیا تھا لیکن اب تو یہودی علانیہ اپنی کتابوں میں مدینہ منوّرہ اور مکّہ معظّمہ پر قابض ہونے کے ناپاک عزائم کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ ’’
(تاریخ احمدیت جلد 13صفحہ 400)
انڈونیشیا کی تحریک آزادی کی پُرزور حمایت
دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر انڈونیشیا نےجاپان سے آزادی کے لیے پر تولنا شروع کیے تو ولندیزی افواج نے ایک بار پھر اس پراپنا تسلط قائم کرنے کی مہم شروع کردی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 16؍ اگست 1946ء کے خطبہ جمعہ میں انڈونیشیا کی آزادی کے حق میں پُرزور آواز بلند کی۔ آپؓ نے مسلم اخبارات اور رسائل پر زور دیا کہ وہ انڈونیشیا کے مسلمانوں کی آزادی کے حق میں آواز اٹھائیں اور اس خدشے کا اظہار فرمایا کہ اگر اُن کی حمایت نہ کی گئی تو ڈچ افواج اُن کی آواز کو بالکل دبا دیں گے۔
اتحادِ امّت کےلیے آپؓ کی دردمندانہ کوششیں
سیّدنا حضرت مصلح موعود ؓکو ہمیشہ مسلمان ممالک کے درمیان اتحاد اور یک جہتی کی فکر دامن گیر رہتی تھی۔ اس مقصد کے لیے آپؓ مسلم ممالک سے ہر ممکن رابطے کی کوشش کرتے۔ مختلف مواقع پر جماعتِ احمدیہ کی طرف سے مسلم سربراہان کو خطوط لکھے جاتے جن کے حوصلہ افزا جوابات موصول ہوا کرتے۔ جن لیڈروں سے خط کتابت کا آپؓ نے خصوصیت سے ذکر فرمایا ہے ان میں ابنِ سعود، اردن کے شاہ عبداللہ، شاہِ ایران وغیرہ شامل ہیں۔
ایک منذر رؤیا
1946ء میں مسلم امت سے متعلق حضرت مصلح موعودؓ نے ایک منذر رؤیا دیکھاکہ
‘‘اسلام کےلیے بہت ہی نازک وقت آنے والا ہے اور مسلمانوں کےلیے ضروری ہے کہ وہ اُن معاملات میں آپس میں اتحاد کرلیں جن میں اختلاف کرنے پر ان کا مذہب اور اُن کا عقیدہ انہیں مجبور نہیں کرتا۔ ’’ حضورؓ نے ‘الانذار’ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر فرمایا جس میں اپنی یہ منذر رؤیا بالتفصیل رقم کرنے کے بعد احبابِ جماعت کو نصیحت فرمائی کہ وہ اپنے اپنے حلقۂ اثر میں مسلمانوں کو اتحاد کی طرف توجہ دلائیں۔
اسی تسلسل میں آپؓ نے 30؍اگست کے خطبہ جمعہ میں مسلمانانِ عالَم کے لیے دعائے خاص کی تحریک بھی فرمائی۔
(تاریخ احمدیت جلد 9صفحہ 592تا593)
عالَمِ اسلام کے روشن مستقبل کے متعلق تجاویز
12؍دسمبر1948ء کو لاہور میں حضرت مصلح موعودؓ نے ‘‘موجودہ حالات میں عالَمِ اسلام کی حیثیت اور اس کا مستقبل’’کے موضوع پر ایک لیکچر دیا۔ آپؓ نے اس امر پر زور دیا کہ یورپین ممالک کے سامنے جب کسی اسلامی ملک کا سوال آتا ہے تو وہ خود اسے سیاسی اور مقامی پیرائے میں دیکھنے کے بجائے مذہبی اور عالمی رنگ دے دیتے ہیں۔ اس تناظر میں حضورؓ نے متعدد اہم تجاویز پیش فرمائیں مثلاً یہ کہ مسلم ممالک واقعتاً ایسا اتحاد قائم کرلیں کہ ہر رکن ملک خود کو ایک بڑی قومیت کا حصّہ گمان کرے۔ اسی طرح مسلم ممالک ایک دوسرے سے تجارتی و ثقافتی تعلقات استوار کریں۔ غریب اسلامی ممالک کی منظم امداد کےلیے انجمنیں قائم کی جائیں۔ تبلیغِ اسلام پر زور دیا جائے۔
(تاریخ احمدیت جلد 11صفحہ 408تا409)
مؤتمر عالَمِ اسلامی میں احمدیہ وفد
حضرت مصلح موعودؓ ہمیشہ سے اتحادِ امّت کے داعی اور خواہش مند تھے۔ عالَمِ اسلام کو ایک سٹیج پر جمع کرنے کےلیے آپؓ متعدد مواقع پر اپنے خطابات اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں زور دیتے چلے آرہےتھے۔
فروری 1949ءمیں جب ممالکِ اسلامیہ کی عالمی تنظیم مؤتمر عالَمِ اسلامی کی بنیاد رکھی گئی تو حضورؓ نے اس کا بھرپور خیرمقدم کیا۔ آپؓ کی خاص ہدایت کے تابع احمدیہ وفدحضرت سیّد زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ کی سربراہی میں مؤتمر کے دوسرے اجلاس میں شریک بھی ہوا۔
(کراچی تاریخ احمدیت حصّہ اوّل صفحہ 188تا189)
سفرِیورپ سے واپسی پر اتحادبین المسلمین کی تحریک
حضرت مصلح موعودؓ 1955ء میں دورۂ یورپ پر تشریف لے گئے۔ اس سفرمیں جدید دنیا کے بدلتے رجحانات کے مشاہدے نے آپؓ کی ذات میں موجزن مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کےجذبے کو دوچند کردیا۔ سفر سے واپسی کےبعد1955ءکی آخری شام حضورؓ نے کراچی میں ایک پُرسوز تقریر فرمائی جس میں امّتِ مسلمہ کو بدلے ہوئے حالات کے تقاضوں کو سمجھنے پر زور دیا۔ آپؓ نے مسلمانوں کو فرقہ بندیوں اور معمولی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر ایک ہوجانے کی تلقین فرمائی۔ حضورؓ کے اس لیکچر کو سننے کے لیے مختلف سفارت کار اور اعلیٰ حکومتی شخصیات موجود تھیں۔
تعمیرو استحکامِ پاکستان سے متعلق لیکچرز اور مضامین
پاکستان اپنی خوش نصیبی کےاعتبارسےتمام ممالک سے ممتاز مقام کا حامل ہے۔ یہ وہ خوش قسمت خطۂ زمین ہے جسے اپنے قیام سے پیشتر اور قیام کے بعد خلفائے احمدیت کی براہِ راست رہ نمائی میسر رہی۔
قیامِ پاکستان کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے بڑی باریکی میں جاکر اس خطّے کے مسلمانوں کو اپنے صائب مشوروں سے نوازا۔ اس سلسلے میں حضورؓ نے اپنے دورۂ کراچی 1948ء میں ‘‘پاکستانیوں سے چند صاف صاف باتیں’’کے عنوان سے ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا۔ سامعین میں نومولود سلطنت کے فہمیدہ افراد اور تِھنک ٹینک کے نمائندے موجود تھے جو مکمل سکون اور انہماک سے مسلسل ڈیڑھ گھنٹے تک حضورؓ کے اس خطاب کو سنتے رہے۔ آپؓ نے پہلے پاکستان کے مطالبے کی وضاحت فرمائی پھر اسلامی کلچر اور ریاست کے خدّوخال نمایاں فرمائے اور اِس ضمن میں غیر مسلموں کے خدشات کا اِزالہ فرمایا۔
(کراچی تاریخ احمدیت حصّہ اوّل صفحہ 160تا161)
(تاریخ احمدیت جلد11صفحہ 292تا 301)
ستمبر 1948ء میں محمد علی جناح صاحب کی وفات اور سقوطِ حیدرآباد دکن کے صدمات کے باعث مسلمانانِ پاکستان بہت تیزی سے ہمت ہارتے جارہے تھے۔ ایسے میں حضرت مصلح موعودؓ کو عالَمِ رؤیا میں بتایا گیا کہ یہ تازہ مصائب پاکستان کی قوّت و طاقت میں کم زوری کی بجائے اضافے کا موجب بن جائیں گے۔ چنانچہ حضورؓ نے الفضل میں ایک مفصّل مضمون تحریر کیا اور مسلمانوں کوہمّت سے کام لینےاور خدا پر بھروسہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘خداتعالیٰ عام دنیاوی دروازے بند کرکے مسلمانوں کو بُلا رہا ہے کہ میری طرف آؤ۔ خدا کی رحمت کا دروازہ اَب بھی کُھلا ہے کاش مسلمان اپنی آنکھیں کھولیں اور اس کی آواز پر لبیک کہیں۔ اسلام کا جھنڈا سرنگوں نہیں ہوسکتا۔ خدا کے فرشتے جوّ میں اس کو اونچا رکھیں گے۔ ہمیں تو اِس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ خدا کے فرشتوں کے ہاتھوں کے ساتھ ہمارے ہاتھ بھی اس جھنڈے کو سہارا دے رہے ہوں۔ ’’
عہدِ خلافتِ ثالثہ
پہلے سفرِ یورپ سے واپسی پر اتحادِ امّت کی تحریک
1967ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ اپنے اولین سفرِ یورپ پر تشریف لے گئے جہاں سے واپسی پر 22؍اگست کو کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آپؒ نےدنیا بھر میں آباد مسلمانوں کو متحد ہوکر غلبۂ اسلام کی مہم میں حصّہ لینے کے لیےاتحاد بین المسلمین کی تحریک فرمائی۔ حضورؒ کی اس تحریک کو ملکی اخبارات نے نمایاں جگہ دی۔
(خلفائے احمدیت کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات، صفحہ 411)
مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کے لیے بے قراری
عرب اسرائیل جنگ 1967ء کے موقعے پر سیّدنا حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کے لیے دعا کی خصوصی تحریک فرمائی۔ حضورؒ نے فرمایا:
‘‘اس وقت مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان خود حفاظتی میں لڑائی لڑنے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ یہ خالص دینی جنگ تو نہیں۔ مگر خود حفاظتی کی جنگ بھی اسلام میں جہاد ہی ہے۔ پس ضروری ہے کہ ہم بہت دعاکریں اور بہت دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد فرمائے۔ مجھے تو اِس فکر میں رات کو نیند بھی ٹھیک طرح نہیں آئی۔ اور قریباً ساری رات ہی دعامیں گذری’’
(تاریخ احمدیت جلد 24صفحہ 57)
قبلہ اوّل کی بےحرمتی کی مذموم سازش پرجماعتِ احمدیہ کا ردِّ عمل
اگست1969ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کراچی میں قیام پذیر تھے کہ یہ اندوہ ناک خبر سامنے آئی کہ یہودیوں نے مسجداقصیٰ کو نذرِآتش کرنے کی مذموم سازش کی ہے۔ اس خبر سے عالَمِ اسلام میں سخت تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ حضورؒ نے 29؍اگست 1969ء کو اس سانحہ پر گہرے دکھ کا اظہار فرمایا اور امّتِ مسلمہ کو اتحاد کی دعوت دی۔ حکومتِ پاکستان کو جماعتِ احمدیہ کی طرف سے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرانے کے ساتھ عملی اقدام اٹھانے پر زور دیا۔ اسی روز جماعتِ احمدیہ کراچی کی مختلف شاخوں نےاپنے خصوصی اجلاس منعقد کیے اور اس ناپاک سازش کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور کیں۔ احمدیہ مشن انگلستان نے بذریعہ تار لندن میں متعین اسرائیلی سفیر کو اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ مرکزِ احمدیت ربوہ میں بھی اس گھناؤنے جرم کے خلاف ایک غیرمعمولی اجلاس میں خصوصی قرارداد منظور کی گئی۔
(تاریخ احمدیت جلد 25 صفحہ 111تا113)
مسجداقصیٰ کی بےحرمتی سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر غور کرنے کےلیےستمبر 1969ء میں اسلامی ممالک کے سربراہان کی ایک اہم کانفرنس مراکش کے دارالحکومت رباط میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کے متعلق حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے احبابِ جماعت کو خاص طور پر دعا کی تحریک فرمائی کہ اللہ تعالیٰ مسلمان سربراہوں کی صحیح رہ نمائی فرمائے اور انہیں متحد ہوکر معاملے کے حل کی توفیق بخشے۔
(تاریخ احمدیت جلد 25صفحہ 124تا125)
مظلوم فلپائینی مسلمانوں کے لیےصدائے حق
فلپائن میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تو ایک مدت سے ہی تنگ کیا جارہا تھا لیکن 19؍جون 1971ءکو صوبہ کاٹاباٹو کے گاؤں مانیلی میں ظلم و بربریت کی انتہائی دکھ بھری داستان رقم کی گئی۔ اس روز علی الصبح مسیحی فوجیوں نے علاقے کے مسلمانوں کو ایک امن کانفرنس کا جھانسہ دے کرمسجد میں اکٹھا کیا اور انتہائی بے رحمی کے ساتھ دستی بموں اور گولیوں سے 64؍نہتّے مسلمان مردو خواتین اور معصوم بچوں کو شہید کر ڈالا۔ اسی روز ایک سکول کی عمارت پر دستی بموں سے حملہ کرکے بہت سے بچے ہلاک کردیے گئے۔ اس کے علاوہ لوٹ مار، جلاؤگھیراؤ کے مختلف واقعات میں بڑی تعداد میں مسلمان شہید ہوئے اور متعدد مساجد نذرِ آتش کردی گئیں۔
اِن منظّم فسادات کے خلاف دنیا بھر کے احمدیہ مسلم مشنز نے پُرزور احتجاج کرتے ہوئے حکومتِ فلپائن سے اِن مظالم کا سدِّ باب کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان پیغامات کے جواب میں صدر فلپائن نے احمدیہ مشنز کو حکومتی اقدامات سے آگاہ کیا اور مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی۔
سقوطِ ڈھاکہ پر بصیرت افروز تبصرہ
مشرقی پاکستان کی جنگ کے تناظر میں ملک و قوم کو نصائح کرتے ہوئے 17؍دسمبر 1971ء کو حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نےبڑا ہمت افزا پیغام دیا۔ حضورؒ نے اسلام کی شوکت اور مسلمان بھائیوں کی امداد کے لیے ہر قربانی دینے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے فرمایا کہ
‘‘ہمارے دل اس لیے دکھیا نہیں کہ ایک محاذ کے اوپر ہمیں کچھ پریشانی اٹھانی پڑی ہے۔ ہمارے د ل اس لیے دکھیا ہیں اور اس وقت بڑا ہی دکھ محسوس کر رہے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں رہنے والے قریباً 6کروڑ مسلمانوں کو مصیبت پڑگئی ہے۔ اس لیے ہمارا دل دکھتا ہے اور اگر ہمارا دل واقعی میں دکھتا ہے تو ہمیں ان کی خاطر اَور بھی زیادہ قربانی دینی چاہیے۔ ’’
(تاریخ احمدیت جلد 27صفحہ 94)
عہدِ خلافتِ رابعہ
سیّدنا حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے منصبِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد سب سے پہلی تحریک فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے لیے دعا کی فرمائی۔ اس کے علاوہ عالَمِ اسلام کے اتحاد اور ترقی کے لیے بےشمار مواقع پر حضورؒ نے احبابِ جماعت کو نہایت درد کے ساتھ متوجہ فرمایا۔
عالَمِ اسلام کے لیے دعا کی تحریک
خطبہ جمعہ 18؍ جون 1982ء کو خطبہ ثانیہ کے دوران حضورؒ نے جماعت کو خصوصی دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘ظالم انسانوں کی دسترس سے اللہ تعالیٰ عالَمِ اسلام کو محفوظ رکھے اور رحمت کی نظر فرمائے حضرت محمد مصطفیٰ رسول اللہﷺ کے نام کے صدقے، آپؐ کی طرف منسوب ہونے کےصدقے۔ اس امت کی غفلتوں سے درگذر فرمائے اور ایسے رحمت کے نشان دکھائے کہ دنیا جان لے کہ محمدمصطفیٰﷺ کے نام میں بھی بہت بڑی عظمت ہے اور بہت درد سے ان دعاؤں کی ضرورت ہے’’
(خطباتِ طاہر جلد اوّل صفحہ 20)
عَالَمِ اسلام سے مراد صرف جماعتِ احمدیہ نہیں
22؍مئی 1987ءکو رمضان المبارک کا آخری جمعہ تھا۔ اس خطبے میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے عالَمِ اسلام کو درپیش مسائل کا بڑے درد کے ساتھ تذکرہ فرمایا۔ اتحادِامّت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اسلام کے حقیقی پیغام سے دوری کو قراردیا۔ چنانچہ اس کے حل کے لیےحضورؒنے فرمایا:
‘‘اسلام کی شوکت کا راز مسلمانوں کے تقویٰ میں ہے۔ ’’
اس نادر موقعے پر دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘اس خصوصی جمعہ کے دن زیادہ تر توجہ ایسی دعاؤں کی طرف دینی چاہیے جن کا سارے عالَمِ اسلام سے تعلق ہو۔ ’’
پھر عالَمِ اسلام سے کیا مراد ہے اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے حضورؒ نے فرمایا:
‘‘جب میں عالَمِ اسلام کہتا ہوں تو مراد صرف جماعتِ احمدیہ نہیں ہے۔ مراد یہ ہے کہ جو بھی کسی رنگ میں بھی اسلام کی طرف منسوب ہورہا ہے، جوبھی دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا توحید ِباری تعالیٰ سے تعلق ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے دعاوی پر ایمان لاتا ہے ہر وہ شخص ایک وسیع تر تعریف کی رُو سے عالَمِ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے اور جب مَیں کہتا ہوں کہ عالَمِ اسلام کے دکھ تو سارے عالَمِ اسلام کے دکھ مراد ہیں ہر اُس شخص کے دکھ مراد ہیں جو آنحضرتﷺ کی طرف منسوب ہونے والا ہے۔ ’’
(خطباتِ طاہر جلد 6صفحہ 346تا347)
آنحضورﷺ کا پیغامِ محبت امّت کو دوبارہ پہنچایا جائے
1994ء میں محرم الحرام کے تناظر میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے عالَمِ اسلام کو یہ پیغام دیا کہ وہ ان ایام کو باہمی محبت پیدا کرنے کے لیے استعمال کریں۔ آپؒ نے اہلِ سنّت احباب کو نصیحت فرمائی کہ انہیں شیعہ حضرات کااہلِ بیعت سےمحبت کے اظہار میں جُلوس نکالنا، مختلف رسمیں کرنا خواہ کیسا ہی برا لگے، وہ اس میں مخل نہ ہوں۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے احمدیوں کو مخاطب کرتے ہوئے آپؒ نے فرمایا:
‘‘پس جماعتِ احمدیہ کو آنحضورﷺ کی محبت کا پیغام اس رنگ میں امّت کو دوبارہ دینے کی ضرورت ہے جس رنگ میں پہلی بار دیا گیا تھا۔ ’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍جون 1994ء مطبوعہ خطباتِ طاہر جلد 13صفحہ 449تا450)
مسلمانانِ بوسنیا کے دکھوں کا مداوا
یورپ کی تاریخ میں بوسنیا کے مسلمانوں نے جس نوعیت کا ظلم وستم برداشت کیا ہے ماضی قریب میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ اپنے عہدِخلافت میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے بڑی فکر سےاِن بےیارومددگار مظلوم مسلمانوں کاساتھ دیا۔ اِن کی مدد کرنے، ان سے محبت کرنے، حتیٰ کہ اِن سے مؤاخات قائم کرنے کی تحریکات فرمائیں۔
خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍مئی 1994ء میں حضورؒ نے یورپ کے احمدیوں بالخصوص جماعت جرمنی پر بوسنین مسلمانوں کی مدد کو فرض قرار دیا۔ فرمایا:
‘‘یہ محض للہ ستائے گئے ہیں ان کا اور کوئی قصور نہیں تھا سوائے اس کے کہ یہ اسلام سے وابستہ تھے…اگرچہ ان کو خود اسلام کا عِلْم نہیں تھا مگر مارے اسلام کےنام پرگئے ہیں۔ کاٹے اسی لیے گئے ہیں کہ انہوں نے حضرت اقدس محمدمصطفیٰﷺ کےدامن کو تھاما ہواتھا اور کسی قیمت پر اس سے علیحدہ ہونے پر آمادہ نہیں تھے۔ پس یہ انصار ہیں جن کے ساتھ آپ کو سب سے زیادہ محبت کا سُلوک کرنا چاہیے۔ ’’
(خطباتِ طاہر جلد13صفحہ 405)
مسلمان یتیم بچوں کی خبر گِیری کی تحریکات
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی جانب سے جاری فرمودہ مسلمان یتیم بچوں کی خبر گِیری کی تحریکات کا جائزہ لیتے ہوئے محترم عبدالسمیع خان صاحب لکھتے ہیں:
‘‘1989ءمیں سلمان رشدی کے خلاف ہونےوالے مظاہروں میں بہت سے بچے یتیم ہوگئے۔ حضوؒر نے محض محبتِ رسولؐ میں اِن کی کفالت کا اعلان فرمایا۔
حضورؒ نے 29؍جنوری 1995ءکے خطبے میں سیرالیون میں یتامیٰ اور بیوگان کی خدمت کی طرف خصوصی طورپر جماعت کو متوجہ کیا۔
29جنوری 1999ء کو حضورؒ نے افریقن ممالک خصوصاً سیرالیون کے مسلمان یتامیٰ اور بیوگان کی خدمت کی عالمی تحریک کی اور فرمایا یتامیٰ کو گھروں میں پالنے کی رسم زندہ کریں۔ 5؍ فروری1999ء کو حضورؒ نے عراق کے یتیموں اور بیواؤں کے لیے خصوصی دعاؤں اور خدمتِ خلق کی تحریک فرمائی۔ ’’
(خلفائے احمدیت کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات صفحہ 467)
عہدِ خلافتِ خامسہ
11؍ستمبر2001ءکے بعد دنیا کے سیاسی حالات تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں جہاں مسلمانوں میں انتہاپسندی نے مزید شدّت اختیار کی وہیں مغربی طاقتوں کی اسلام بیزاری اورمسلم دشمنی بھی پوری طرح بےنقاب ہوگئی۔ اِن نئے حالات اور نئے چیلنجز میں ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےایک طرف مغربی دنیا کے لیڈروں اور سربرآوردہ شخصیات تک اسلام کی درست تعلیمات پہنچائیں تو دوسری جانب خود مسلمانوں کو اُن کے فرائض یاد دلائے۔ انہیں اتحاد کا درس دیا اور اپنی اصل یعنی توحیدکی طرف لوٹنے کی نصیحت فرمائی۔ حضورِانور کی اِن بےلوث اور مسلسل کوششوں کی ایک جھلک ذیل میں پیش کی جاتی ہے۔
اتحادِامّت کے لیے احمدیوں کا فرض
خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍فروری 2012ء میں حضورِانور نےتمام دنیامیں پھیلے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ اُن کی ساری طاقت اتحاد میں پنہاں ہے۔ فرمایا:
‘‘پاکستان ہو یا سعودی عرب ہو یا مصر ہو یا شام ہو یا ایران ہو یا انڈونیشیا ہو یا ملائیشیا ہو یا سوڈان ہو یا کوئی بھی اسلامی ملک ہو، ان لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ تمہاری علیحدہ علیحدہ رہ کر کوئی ساکھ نہیں بن سکتی۔ تمہاری ساکھ اُسی وقت بن سکتی ہے اور تمہاری بقا اسی میں ہے، ان ممالک کا رعب تبھی ہے جب وہ ایک ہوکر اسلام کی عظمت کے بارے میں سوچیں گے۔ ’’
مذکورہ خطبہ جمعہ میں حضورِ انور نے امّتِ مسلمہ کی اصلاح کے متعلق دنیا بھر کے احمدیوں کواُن کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘پس یہ دَور جو فساد میں بڑھتے چلے جانے کا دَور ہے، جس میں بڑی طاقتوں کی نظریں بھی اسلامی ممالک کے وسائل پرلگی ہوئی ہیں۔ اس میں بہت زیادہ کوشش کرکے ہم احمدیوں کو، ہر اسلامی ملک کو بھی اور مسلم امّہ کو بھی ہوس پرستوں کی ہوس سے بچانے کےلیے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اقدام کرنے چاہئیں ’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ17؍فروری2012ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل9؍مارچ2012ءصفحہ8)
اختلافاتِ امّت کا دل خراش نقشہ
یوں تو امّتِ مسلمہ ایک طویل مدّت سے افتراق و انتشار کا شکارچلی آرہی ہےلیکن عصرِ حاضر میں فرقہ بندی کا یہ عِفریت اپنی تمام حدبندیاں پھاند کر ہر ایک مسلم ملک میں رقص کناں ہے۔ اِن حالات میں امت مسلمہ کی درست سمت میں رہ نمائی ازحد ضروری ہے۔ سیّدنا وامامنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بارہامسلمان ممالک کو گروہ بندی اور فرقہ سازی کے ناسُور سے چھٹکارا پانے کی نصیحت کر چکے ہیں۔ یہی تفرقہ بازی ہے کہ جس کے نتیجے میں اسلام مخالف عناصر اپنی شیطانی چالوں میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک موقعے پر حضورِ انور نے بڑے درد کے ساتھ فرمایا:
‘‘امّتِ مسلمہ کی اب عجیب قابلِ رحم حالت ہے۔ یہی مذہبی اختلافات یا کسی بھی قسم کے اختلافات ہیں جو مسلمانوں یا مسلمان حکومتوں میں بھی ایک دوسرے میں خلیج پیدا کرتے چلے جارہے ہیں…یہی وجہ ہے کہ اسلام مخالف قوتوں کو اپنی من مانی کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کا حملہ مسلمانوں کے اس اختلاف اور ایک نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ کوئی اسلامی ملک نہیں ہے جہاں مذہبی اختلاف یا سیاسی اختلاف کی بنا پر تمام اخلاقی قدروں کو پامال نہ کیا جارہا ہو۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ23؍نومبر2012ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍دسمبر2012ءصفحہ6)
مسلم امّہ کے لیے دعا کی تحریکات
اسلامی ممالک کی حالتِ زار کے پیشِ نظر حضورِانور اکثر مواقع پر امّتِ مسلمہ کی مخدوش حالت کی اصلاح کے لیے دعا کی تحریکات فرماتے رہتے ہیں۔ رمضان المبارک 2014ء کے موقعے پرخطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی شدت پسندانہ کارروائیوں کا ذکر کرنے کے بعد حضورِانور نے فرمایا:
‘‘کاش کہ مسلم امّہکو بھی یہ سمجھ آجائے اور ان کے آپس کے جھگڑے اور فساد اور حکومتوں کےلیے کھینچاتانیاں ختم ہوجائیں۔ ان کے لیے بھی ہمیں رمضان میں دعا کرنی چاہیے کیونکہ ان کی وجہ سے غیر مسلموں کو اسلام اور آنحضرتﷺ کا نام بدنام کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ ’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍جولائی 2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل25؍جولائی2014ءصفحہ7)
اسی طرح اسلام مخالف طاقتوں کی سازشوں کاتذکرہ کرتے ہوئے ایک اور موقع پر حضورِانور نے دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘مسلمان کو مسلمان سے لڑانا اور خود ہر قسم کا فائدہ اٹھانا، جو طاقتیں مسلمانوں کے خلاف ہیں اُن کا یہی کام ہے اور وہ اس پر آج کل عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ ایجنڈا انہوں نے سب سے پہلے رکھا ہوا ہے۔ اس چیز کو مسلمان نہیں سمجھ رہے۔ اللہ تعالیٰ مسلم امّہکو اپنی حفاظت میں رکھے اور ان لوگوں کو عقل دے کہ یہ اس حقیقت کو سمجھیں۔ ’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍اکتوبر 2012ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل26؍اکتوبر2012ءصفحہ10)
مظلوم امّتِ مسلمہ کی نجات کی ضمانت
حضورِانور نے دنیا بھر کے احمدیوں کو بالعموم اور بالخصوص پاکستانی احمدیوں کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘مسلم امّہ کا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا احمدیت کی فتح سے ہی وابستہ ہے۔ ظلم و تعدی کا خاتمہ اسی سے وابستہ ہے۔ پس چاہے فلسطینیوں کو ظلم سے آزاد کروانا ہے یا مسلمانوں کو ان کے اپنے ظالم حکمرانوں سے آزاد کروانا ہے اس کی ضمانت صرف احمدیوں کی دعائیں ہی بن سکتی ہیں۔ ’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍اگست 2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 29؍اگست2014ءصفحہ6)
مسلمان امّہ کی تکلیف ہمیں بھی تکلیف میں ڈالتی ہے
حضورِانور نے خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍دسمبر 2014ء میں سورة الانفال آیت 47فَتَفْشَلُوْاوَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْکے ذیل میں فرمایا کہ
‘‘پس اللہ تعالیٰ کی یہ بات آج مسلمانوں کی حالت کو دیکھ کر سو فیصد ان پر پوری ہوتی نظر آتی ہےکہ انہی لڑائی اور جھگڑوں کی وجہ سے مسلمانوں کی طاقت ختم ہوچکی ہے۔ آپس کے بےشمار شدّت پسند گروہوں کی وجہ سے اکثر ملک جنگ کا میدان بنے ہوئے ہیں۔ ’’
او۔ آئی۔ سی کی ناکامی، مغربی طاقتوں کے ہاتھوں اسلامی دنیا کی معاشی غلامی اور مسلم ممالک کے لیڈروں کی بےحسی کا دل دوز نقشہ کھینچنے کے بعد حضورِانور نے فرمایا:
‘‘کاش کہ یہ باتیں ہمارے لیڈروں اور علماء کہلانے والوں کو بھی اور عوام الناس کو بھی سمجھ آجائیں۔ مسلمان امّہکی تکلیف ہمیں بھی تکلیف میں ڈالتی ہے۔ اس لیے کہ یہ ہمارے پیارے آقا کی طرف منسوب ہونے والے ہیں۔ ہمیں تو زمانے کے امام نے اپنے آقا اور مطاع کی طرف منسوب ہونے والوں سے ہمدردی اور پیار کرنے کے گُر سکھائے ہیں۔ ’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ19؍دسمبر2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل9؍جنوری2015ءصفحہ7)
شامی مسلمانوں کی مخدوش حالت کا تکلیف دہ بیان
خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍دسمبر 2014ء میں عالَمِ اسلام بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کی تشویش ناک صورتِ حال کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا:
‘‘عراق، شام، لیبیاوغیرہ سب ملکوں میں ظلم ہورہا ہے۔ اورسب سے بڑھ کر ظلم کی بات یہ ہے کہ یہ سب ظلم خداتعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے نام پر ہورہا ہے۔ شام میں ہی حکومتی اور سنّی فسادوں میں ایک رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب لوگ مارے گئے ہیں۔ کُل جتنی اموات ہوئی ہیں ان میں سے چھ ہزار چھ سو بچے مارے گئے۔ ’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ19؍دسمبر2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل9؍جنوری2015ءصفحہ6)
عالمی فورمز پر مسلم امّہکی وکالت
عالمی طاقتوں کی سازشوں کا شکار مسلم امّہ کے مسائل کے حل کے لیے حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ ا لعزیز نے ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کی۔ 2013ء میں نیوزی لینڈ کی نیشنل پارلیمنٹ کے دورے کے دوران حضورِانور نے ایران اور اسرائیل کے سفارت کاروں سے بھی ملاقات کی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں شام میں جاری پراکسی وار اور اس کے نتیجے میں ممکنہ عالمی تباہی کا خاص طور پر ذکر فرمایا۔
اسی طرح 2012ء میں برسلزکے مقام پر یورپین پارلیمنٹ سے خطاب میں مسئلۂ فلسطین کے متعلق عالمی طاقتوں کی بےحسی اور دوغلی پالیسی کا نہایت بہادری کے ساتھ دوٹوک الفاظ میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘شام، لیبیا اور مصر میں حالات کی کشیدگی پر اہم طاقتوں نے بڑا کھل کر غم و غصّہ اور تشویش کا ظہار کیاہے۔ حالانکہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ درحقیقت ان ممالک کے داخلی مسائل تھے لیکن فلسطین کے معاملے پر ایسا نہیں لگتا کہ یہ طاقتیں کوئی تشویش رکھتی ہیں یا ویسی تشویش رکھتی ہیں۔ اس قسم کے دوغلے معیار کا تأثر مسلمان ممالک کے لوگوں کےدلوں میں دنیا کی اہم طاقتوں کے خلاف رنجشیں اور کینہ بڑھا رہا ہے۔ ’’
(عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ 95)
اتحاد بین المسلمین کے لیے سعودی فرماں روا کو خط
حالیہ برسوں میں عالمی منظر نامے پر مسلمانوں کو جس طرح دیوارسےلگانے اور منتشر کرنے کی کوششوں نے شدّت اختیار کی، ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ کی امن کی کاوشوں میں بھی اسی رفتار سے تیزی آتی چلی گئی۔ چنانچہ اتحاد بین المسلمین کے لیے آپ نےبعض مسلم سربراہان کو خطوط تحریر کیے۔ ایسا ہی ایک خط 2012ء میں حضورِانورنے سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ کو تحریر کیا جس میں آپ نے فرمایا:
‘‘تمام مسلمانوں اور مسلمان حکومتوں کی نظر میں آپ کا ایک خاص مقام ہے جو آپ پر یہ فرض عائد کرتا ہے کہ امّتِ مسلمہ کی درست رہ نمائی کریں اور مسلمان ممالک کے مابین امن اور ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ نیز یہ بھی آپ کی ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کے درمیان باہمی محبت اور ہمدردی کا احساس پیدا کریں اور انہیں رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کی رُوح سے رُوشناس کروائیں۔ ’’
(عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ 191)
مامورِ زمانہ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑکی بعثت کے مقاصد میں سے ایک عظیم مقصد امّتِ مسلمہ کو وحدت کی لڑی میں پِرونا ہے۔ چنانچہ آپؑ کو مخاطب کرتے ہوئے خدائے واحد و لاشریک نے الہاماً فرمایا:
‘‘سب مسلمانوں کو جو رُوئے زمین پر ہیں جمع کروعَلیٰ دِیْنٍ وَّاحِدٍ’’
(الہام 20؍نومبر1905ء۔ تذکرہ صفحہ490)
پس آپؑ کی بعثت کے مقاصد کی تکمیل کےلیے، حضورؑ کی جانشینی اور نیابت میں خلفائے احمدیت امّتِ مسلمہ کو ایک وحدت بنانے کے مشن پر گامزن ہیں۔ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں لیکن خدا کی بات اٹل ہے۔ پس خلافتِ احمدیہ کی قیادت میں ایک روز دنیا کے افق پر اسلام کی فیصلہ کُن فتح کا سورج ضرور بالضرور طلوع ہوگا اور اُس روز شرق و غرب میں آباد تمام امّتِ محمدیہ یک جان و یک رنگ ہوکر خداتعالیٰ کی وحدانیت کے گیت گائے گی۔ انشاء اللہ العزیز۔
٭…٭…٭
ماشاءاللہ! بہت عمدہ تحریر اور ایک علمی کاوش۔اللہ کرےزور قلم اور زیادہ۔
اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے امام کی روح القدس سے مدد فرمائے اور انکی عمر اور امر خلافت میں بیش بہا برکات عطاء فرماتا چلاجائے۔آمین۔
اور مسلم امہ کو بھی عقل سلیم عطا فرمائے اور مہدی آخر الزماں کو پہچاننے اور ماننے کی توفیق دے۔ اور آپسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر امت واحدہ بننے توفیق دے آمین۔