جرمنی میں اسلام
جرمنی میں اسلام کی تاریخ بہت پرانی ہےجس کی پہلی کڑی آٹھویں صدی عیسوی میں ملتی ہے۔ جب خلیفہ ہارون الرشید اور جرمن حکمران Karl der Grosseکے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے
تراسی ملین سے زائد آبادی پر مشتمل وفاقی جمہوریہ جرمنی یورپ کے عین وسط میں واقع ہے اور اپنی معیشت و اقتصادیات نیز سیاسی طور پر یورپ بھر میں سے سب سے زیادہ مستحکم ہے۔ اس کے شمال کی طرف زیادہ تر سمندر ہے تاہم ڈنمارک کی سرحد بھی ہے جبکہ مشرق کی طرف پولینڈ اور چیک ریپبلک کی وسیع سرحد ہے۔ جنوب میں آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ واقع ہیں۔ جنوب مغرب میں فرانس ہے اور اس کے ساتھ اوپر شمال تک مغرب میں لکسمبرگ، بیلجیم اور ہالینڈ ہیں۔ اس طرح سے مشرقی یورپ کے لیے دروازہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جرمنی کا رقبہ 357042؍مربع کلو میٹر ہے اور جرمنی کی آبادی 82175700؍نفوس پر مشتمل ہے جس میں سے کرسچین کل آبادی کا 92.8فیصد ہیں جبکہ مسلمان 5فیصد ہیں۔ شرح خواندگی سو فیصد ہے۔ ملک میں نیم صدارتی اور نیم پارلیمانی طرز کا نظام ہے۔ سربراہ ملک صدر کہلاتا ہے جبکہ سربراہ حکومت کو چانسلرکہا جاتا ہے۔ دارالحکومت برلِن ہے اور سرکاری زبان جرمن ہے۔ اس کے سولہ صوبے بہت سے معاملات میں خود مختار ہیں۔ یہ ملک دفاعی معاہدے نیٹو (NATO) اور یورپی مشترکہ منڈی EECکا ممبر ہے۔
جرمنی میں اسلام کی تاریخ بہت پرانی ہےجس کی پہلی کڑی آٹھویں صدی عیسوی میں ملتی ہے۔ جب خلیفہ ہارون الرشید اور جرمن حکمران Karl der Grosseکے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے ا ور اس کے بعدسپین کے امراء کےساتھ جرمن حکمرانوں کے تعلقات رہے۔ صلیبی جنگوں سے دوسرے یورپی ممالک کی طرح جرمنی کو بھی واسطہ پڑا جب یورپ نے مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے اجتماعی کمانڈ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اجتماعی کمانڈ فرانس، جرمنی اور برطانیہ عظمیٰ پر مشتمل تھی۔ پہلی صلیبی جنگ میں تو جرمنی کے حاکم Conrad IIIنے خود بھی حصہ لیا تھا۔
صلیبی جنگوں کے نتیجہ میں یورپ کے عیسائی پادریوں نے یہ خیا ل کیا کہ ہم مسلمانوں کو جنگ کے زور سے مغلوب نہیں کر سکتے۔ لہٰذا بہتر طریق یہی ہے کہ مسلمانوں کی زبان عربی سیکھ کر ان کو عیسائیت کی تعلیم دی جائے اس طرح ان میں عربی زبان اور مسلم تہذیب کے سیکھنے کا خیال پیدا ہوا۔ اس خیال کو عملی شکل بارہویں صدی کے وسط میں دی گئی اور عیسائی مشنریوں کو عربی زبان اور مذہب اسلام کی تعلیم دی جانے لگی، اس امر کی تصدیق ایک جرمن تاریخ دان Mathias Roheکی تصنیف Der Islam in Deutschland: Eine Bestandsaufnahmeسے بھی ہوتی ہے۔ مصنف موصوف نے اس کتاب میں ایک تاریخی چادر کی تصویر بھی شائع کی ہے جسے تیرھویں اور چودھویں صدی عیسوی میں جرمنی کے بادشاہوں کی تاج پوشی کے وقت استعمال کیا جاتاتھا۔ اِس چادرکے حاشیہ میں بعض عربی عبارات کے نقوش، عرب مسلمانوں کے یہاں نفوذ کا علم دیتے ہیں۔
یہی وہ دور تھا جس میں جرمن مفکرین نے ا سلام کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا اور اس کا مثبت و منفی دونوں طرح کا اثر ظاہر ہونے لگا۔
ہمبرگ کے رہنے والے ایک مستشرق پادری ابراہیم ہنکلمان (Abraham Hinckelmann) کا نام بھی اسلام سے دلچسپی رکھنے والوں میں آتا ہے جس نے 1694ء میںاپنے ہاتھ سے قرآن کریم کا ایک نسخہ تحریر کیا تاہم اِس میں بہت سی لفظی غلطیاں تھیں۔ Dominicusنامی جرمن پادری نے 1650ء اور 1665ء کے درمیان قرآن کریم کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا لیکن بوجوہ اس کی اشاعت نہ ہوسکی۔ اس کے بعد 1703ء میں David Nerreter اور 1746ء میں Theodor Arnold نے قرآن کریم کے جرمن تراجم شائع کیے۔ پھر 1772ء میںفرانکفرٹ کے ایک پروفیسر ڈیوڈ فریڈرک میگرلن (David Friedrich Megerlin) نے براہ راست عربی سے قرآن کریم کا جرمن ترجمہ کیا اور اس کے کچھ ہی عرصہ کے بعد ایک اور پادری Friedrich Eberhard Boysenنے قرآن کریم کا ایک اورجرمن ترجمہ شائع کیا جو پہلے سے بہتر تھا۔ اسی طرح 1779ء میں قرآن کریم کی بعض منتخب آیات کے ترجمہ پر مشتمل ایک کتاب Muhammads Lehre von Gott aus dem Koraan کےعنوان سے بھی شائع ہوئی تھی، اس کتاب کا اصل نسخہ ہمارے پاس موجود ہے۔ اگرچہ ان تراجم میں اسلام اور آنحضورﷺ کے بارہ میں روایتی بغض کا اظہار کیا گیا تھا تاہم ایک فائدہ ضرور ہوا کہ ان سے مغرب کی توجہ قرآن، اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کی طرف مبذول ہوئی۔
اس دور کے بعد بہت سے ایسے مستشرقین، مفکرین اور فلاسفروں کے نام تاریخ میں ملتے ہیں جنہوں نے اسلام کے بارے میں کتب تصنیف کیں اور اسلام کے حق میں اور اس کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان میں Noldeke, Lessing, Goldziher, A. Müllerخاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان جرمن مصنفین کی طرف سے اب تک ہزاروں کی تعداد میں ایسی تحقیقی اور علمی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں اسلام، قرآن اور آنحضورؐ کی ذات اقدس پر مخالف و موافق بحثیں کی گئی ہیں۔ جن میں قرآن کریم کی تفسیر اور آنحضرتﷺ کے سوانح پر بھی ضخیم کتب شامل ہیں۔
علاوہ ازیں مشہور شہرہائیڈل برگ کے ایک نزدیکی قصبہ Schwetzingenکے قصر شاہی میں ایک مسجد بھی موجود ہے جسے 1792ء میں بادشاہِ وقت نے یہودی معبد، عیسائی گرجے اورہندو مندر کے ساتھ خیر سگالی کے جذبہ سے علامتی طور پر تعمیر کرایا تھا۔
غرضیکہ جرمن مستشرقین کو اسلام کے بارے میں علمی اور ثقافتی طور پر شروع سے ہی دلچسپی رہی ہے۔ تاہم انہیں اسلام کی حقیقی تعلیم سے متعارف کرانے اور اسے قبول کرنے کی دعوت دینے کا فریضہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے آغاز میں مہدی زمان سیدنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو سرانجام دینے کی توفیق ملی کیونکہ حضور ؑکو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اشاعت اسلام کی مہم کا سپہ سالار بنا کر مبعوث فرمایا تھا اور آپ کو دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ یورپی ممالک میں بھی اسلام کے پھیلنے کی خوشخبریاں عطافرمائی تھیں۔ چنانچہ حضور ؑ فرماتے ہیں:
‘‘درحقیقت آج تک مغربی ملکوں کی مناسبت دینی سچائیوں کے ساتھ بہت کم رہی ہے۔ گویا خدا تعالیٰ نے دین کی عقل تمام ایشیا کو دے دی اور دنیا کی عقل تمام یورپ اور امریکہ کو۔ نبیوں کا سلسلہ بھی اول سے آخرتک ایشیاء کے ہی حصہ میں رہا اور ولایت کے کمالات بھی انہیں لوگوں کو ملے۔ اب خدا تعالیٰ ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے۔ ’’
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ376تا377)
اس کےبعد ایک اور خوشخبری ان الفاظ میں بیان فرمائی :
‘‘نئی زمین ہو گی اور نیا آسمان ہو گا۔ اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا اور بعد اِس کے توبہ کا دروازہ بند ہو گا ۔ کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں۔ ’’
(اشتہار 14؍جنوری 1897ء، مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 304-305)
ان خوشخبریوں اور بشارتوں کی روشنی میں جہاں حضرت مسیح موعودؑ نے یورپ اور امریکہ کے سینکڑوں مذہبی علماء اور اہم شخصیات کو دعوت حق دی وہاں اپنے دعویٰ سے بھی بہت پہلے 1883ء میں جرمن شہزادہ بسمارک کو ایک خط لکھا تھا۔ اِس کے بعد تمام بڑے بڑے عیسائی پادریوں کو سینکڑوں کی تعداد میں خطوط ارسال کیے۔ جن کے نتیجہ میں یہاں کے علماء تک نہ صرف آپ کی آواز پہنچی بلکہ اس کی بازگشت بھی قادیان میں سنائی دی۔ چنانچہ متعدد مصنفین اور پروفیسروں نے اپنی کتابوں میں حضور ؑ اور آپ کی جماعت کا ذکر کیا اور ان کتابوں کی خبریں اسی زمانہ میں قادیان سے شائع ہونے والے اخبارات الحکم اور البدر میں بھی شائع ہوئیں۔ اسی طرح ایک خاتون نے بھی 1907ء میں حضور ؑکی خدمت میں نہایت مخلصانہ خط لکھا۔
(اخبار بدر قادیان 14؍مارچ 1907ء صفحہ2)
علی گڑھ کالج میں ایک جرمن پروفیسر عربی کی تعلیم دیتے تھے۔ انہوں نے 1907ء میں جرمن زبان میں شائع شدہ ایک کتاب Die WeltreligionenمصنفہProf. Karl Voller ایک احمدیہ دوست مکرم ماسٹر محمد دین صاحب کو دکھائی جس کے صفحہ 121پر ہندوستان کے مذاہب کا تذکرہ کرتے ہوئے جماعتِ احمدیہ اور سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔
(اخبار بدر قادیان 9؍مئی 1907ء صفحہ2)
اصل کتاب دفتر تاریخ جرمنی میں موجود ہے۔
مندرجہ بالا چند شواہد سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جرمنی کے اہل علم طبقہ میں اور بالخصوص مستشرقین تک احمدیت کی آواز اس دَور میں پہنچ چکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑنے انہیں جرمن زبان سیکھنے کی ہدایت بھی فرمائی تھی۔ گویا حضرت مسیح موعود ؑکے دل میں جرمن قوم کے لیے شدید تڑپ تھی کہ اسے حقیقی اِسلام سے متعارف اور فیضیاب کرایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ عظیم اوّل کے خاتمہ کے فوراً بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے جرمنی میں جماعت کے قیام کے لیے منصوبہ بندی فرمائی اور ایک کے بعد دوسرے مبلغ سلسلہ کو یہاں بھجوایا۔ جن میں اولین مبلغ سلسلہ محترم مولوی مبارک علی صاحب بنگالی اور مکرم ملک غلام فرید صاحب ؓ شامل تھے۔ اولین مبلغ سلسلہ مکرم بنگالی صاحب نے دار الحکومت برلن میں بڑی محنت کے ساتھ تبلیغ اسلام کا آغاز کیا تو آپ کو مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر مولوی صاحب موصوف مصروف جہاد رہے۔ آپ کی ان کوششوں کو خدا تعالیٰ کے فضل سے کس قدر کامیابی نصیب ہوئی اس کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 2؍فروری 1923ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
‘‘ ان کی رپورٹیں نہایت امید افزا ثابت ہوئیں بلکہ ان کو تو اس ملک میں کامیابی کا اس قدر یقین ہو گیا کہ وہ متواتر مجھے لکھ رہے ہیں کہ وہاں فوراً ایک مسجد اور مکان بنایا جائے اور یہ کہ جس طرح ہو سکے چھ ماہ کے لئے میں خود وہاں چلا جاؤں جس کے نتیجہ میں انہیں اس قدر جلد کامیابی کی امید ہے کہ قلیل عرصہ میں دنیا میں اہم تغیرات ہو سکتے ہیں۔ ’’
(الفضل قادیان 15؍فروری1923ء صفحہ11)
مولوی صاحب کی کامیابیوں کو دیکھ کر حسد بھی پیدا ہوا اوربعض مسلمان بھائیوں کی طرف سے جرمن زبان میں مختلف کتابچے جماعت کے خلاف شائع کیے گئے جن کا جواب موصوف نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی خاص رہ نمائی میں تیار کرکے شائع کیا۔ Der reiner Islamکے عنوان سے 1924ء میں شائع ہونے والا یہ مختصر سا کتابچہ جرمن زبان میں جماعتی لٹریچر کا نقطۂ آغاز تھا۔ محترم مولوی صاحب موصوف نے اس مخالفت کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی کوششوں کو جاری رکھا اور بہت جلد مسجد تعمیر کرنے کی غرض سے ایک قطعہ زمین خرید کر ایک وسیع تعمیری منصوبہ تیار کیا اور اس کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ اس موقع پر جرمنی کی وزارت داخلہ کے نمائندہ، صوبائی وزیراعلیٰ، ترکی کی طرف سے مقرر کردہ امام اور افغانستان کے سفیر، متعدد اخبار نویس اور بعض دیگر معززین سمیت چار سو جرمن مہمان شامل ہوئے۔ (اخبار احمدیہ جرمنی دسمبر 2015ء صفحہ 4) اس مسجد کی تعمیر کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے ہندوستان کی احمدی خواتین کو چندہ کی تحریک فرمائی تھی جس پر والہانہ لبیک کہتے ہوئے لجنہ اماءاللہ ہندوستان نے ہزاروں روپیہ جمع کرکے حضور ؓ کی خدمت میں پیش کیا۔ مگر گرتی ہوئی ملکی اقتصادی صورت حال کے پیش نظر اُس وقت تو نہ ہو سکی حتی ٰکہ مبلغین سلسلہ کو بھی واپس جانا پڑا تاہم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے دل میں جوش مارتا رہا کیونکہ خدا تعالیٰ آپ کو جرمنی میں اشاعت و غلبہ اسلام کی بشارتیں مسلسل عطا فرما رہا تھا۔ چنانچہ ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
‘‘1945ء کی بات ہے میں نے رؤیا میں دیکھا کہ ہٹلر ہمارے گھر میں آیا ہے۔ پہلے مجھے پتا لگا کہ ہٹلر قادیان میں آیا ہوا ہے اور مسجد اقصیٰ میں گیا ہے میں نے اس کی طرف ایک آدمی دوڑایا اور کہا کہ اسے بلا لاؤ۔ چنانچہ وہ اسے بلا لایا۔ میں نے اسے چارپائی پر بٹھا دیا اور اس کے سامنے میں خود بیٹھ گیا میں نے دیکھا کہ وہ بے تکلف وہاں بیٹھا تھا اور ہمارے گھر کی مستورات بھی اس کے سامنے بیٹھی تھیں۔ میں حیران تھا کہ ہماری مستورات نے اس سے پردہ کیوں نہیں کیا پھر مجھے خیال آیا کہ چونکہ ہٹلر احمدی ہو گیا ہے اور میرا بیٹا بن گیا ہے اس لئے ہمارے گھر کی مستورات اس سے پردہ نہیں کرتیں۔ پھر میں نے اسے دعا دی اور کہا کہ اے خدا تو اس کی حفاظت کر اور اسے ترقی دے پھر میں نے کہا وقت ہو گیا ہے میں اسے چھوڑ آؤں۔ چنانچہ میں اسے چھوڑنے کے لئے گیا میں اس کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا اور یہ خیال آ رہا تھا کہ میں نے تو اس کی ترقی کے لئے دعا کی ہے اور ہم انگریزوں کے ماتحت ہیں اور ان کے ساتھ اس کی لڑائی ہے یہ میں نے کیا کیا ہے لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ وہ ہٹلر عیسائی ہے اور یہ ہٹلر احمدی ہو چکا ہے اس لئے اس کے لئے دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں’’
(ہفت روزہ بدر قادیان 23؍فروری 1957ء صفحہ4کالم نمبر2)
1956ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ مری میں قیام فرما تھے ان دنوں حضور ؓنے جرمنی سے متعلق ایک رؤیا دیکھا جس کا ذکر حضورؓ نے ان الفاظ میں فرمایا:
‘‘ پچھلے سال جب میں مری میں تھا تو میں نے ایک رؤیا دیکھا کہ جرمنی کے مبلغ کا ایک خط آیا ہے کہ جرمنی کا ایک بہت بڑا آدمی احمدی ہو گیا ہے۔ بعد میں رؤیا میں ہی مجھے تار آئی اور اس میں بھی لکھا تھا کہ وہ احمدی ہو گیا ہے اور امید ہے کہ اس کے ذریعہ جرمنی میں جماعت کا اثر رسوخ بڑھ جائے گا۔ ’’
(ہفت روزہ بدر قادیان 23؍فروری 1957ء صفحہ3)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کایہ جذبۂِ تبلیغ اسلام جنگ عظیم دوم کے بعد اُس وقت پھر سے رنگ لایا جب 1948ء میں یہاں مبلغین سلسلہ کو بھجوایا اور پہلے عارضی طور پرمحترم شیخ ناصر احمد صاحب(مبلغ سوئٹزرلینڈ) اور مکرم غلام احمد بشیر صاحب(مبلغ ہالینڈ)چند دنوں کے لیے ہمبرگ آتے رہے۔ بعدمیں 20؍جنوری 1949ء کو مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب مبلغ سلسلہ مستقلاً ہمبرگ تشریف لائے اور حضورؓ کی رہ نمائی میں احمدیہ مشن کی بنیاد رکھی۔
حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ نے 1945ء میں جبکہ آپ لندن مشن کے انچارج تھے، حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر مشہور اشاعتی ادارے Berlitzسے جرمن زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کروایا تھا لیکن اس وقت اس کی اشاعت کا انتظام نہ ہو سکا تھا۔
( الفضل 17؍اگست1949ء صفحہ6و 10جون 1954ء صفحہ5)
چنانچہ محترم شیخ ناصر احمد صاحب نے بہت جلد جرمن زبان سیکھ کر جرمنی کے ایک نو مسلم احمدی عبداللہ کوہنے (Kuhne) کے ساتھ مل کر اس ترجمہ قرآن کریم پر نظر ثانی کی۔ یہ ترجمہ 1954ء میں جماعتی اشاعتی ادارہ پی آر کو ربوہ کے زیر اہتمام جرمنی کے شہر Wiesbadenمیں قائم Otto، Verlag، Harrassowitz کے اشتراک سے طبع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی آپ کوسیدنا حضرت مسیح موعودؑ کی معرکہ آرا تصنیف لطیف ‘‘اسلامی اصول کی فلاسفی’’ کا جرمن ترجمہ بھی شائع کرنے کی سعادت ملی۔
اس کے ساتھ ساتھ محترم چوہدری عبداللطیف صاحب ہمبرگ میں جماعتِ احمدیہ کی ایک مذہبی تنظیم کے طور پر باقاعدہ رجسٹریشن کرانے میں کامیاب ہو گئے جس کے بانی ممبران کی کل تعداد آٹھ تھی۔ اسی دوران 1955ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکا جرمنی میں ورودمسعود ہوا۔ آپؓ نے دو بڑے شہروں نیورن برگ اور ہمبرگ میں چند دن قیام فرما کرتبلیغ اسلام کی مہم کا جائزہ لیا، مختلف سرکردہ شخصیات سے ملاقاتیں کرکے اسلام کا پیغام پہنچایا اور جرمن نواحمدی احباب کی تعلیم و تربیت فرمائی۔ حضورؓ کے اس دورہ کے دوران نیورن برگ میں مسجد کی تعمیر کا منصوبہ بھی زیر غور آیا۔ اس کے بعد مبلغ سلسلہ محترم چوہدری صاحب نےاَن تھک محنت کرکےپہلے ہمبرگ (1957ء) اور پھر فرانکفرٹ (1959ء) میں دو مساجد تعمیر کرانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ خلافت ثانیہ کے دَور میں تعمیر ہونے والی یہ دونوں مساجد اپنے اپنے شہر کی اوّلین مساجد کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔
محترم چوہدری عبداللطیف صاحب دس سال تک تن تنہا جرمنی میں اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ اس دوران آپ نے متعدد جماعتی کتب کے جرمن زبان میں تراجم شائع کرائے، جرمن ترجمہ قرآن کریم کی طبع دوم ہوئی۔ کثرت سے تبلیغی نشستیں منعقد ہوئیں۔ میئر سے لے کر چانسلر اور صدر جرمنی تک رسائی حاصل کی اور انہیں قرآن کریم اور دیگر لٹریچر پیش کیا۔ 1958ءمیںحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ان کی مدد کے لیے ایک اَور مبلغ سلسلہ کو بھجوایا اور اس کے بعد مسلسل دو تین مبلغین جرمنی میں متعین رہے جن کی تعداد خلافت رابعہ کے دور میں نو ہوگئی تھی۔ خلافت خامسہ کے دورمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جامعہ احمدیہ کینیڈا ، یوکے اور جرمنی کے قیام کے بعد مربیان سلسلہ کی تعداد تک91؍ جا پہنچی ہے، الحمدللہ۔ ان میں بیشتر تو جرمنی بھر کی مقامی جماعتوں میں تعلیمی، تربیتی اور تبلیغی خدمات بجا لا رہے ہیں جبکہ کچھ جامعہ کے اساتذہ اور مختلف شعبہ جات میں بھی خدمت پر مامور ہیں۔
دورِ خلافت ثالثہ(1965ءتا 1982ء)
خلافت ثالثہ کے بابرکت دور میں جماعتِ احمدیہ جرمنی کی تاریخ میں ایک ایسا موڑ آیا جس سے جماعتی ترقی کی بنیاد پڑی جس کی خوشخبری اللہ تعالیٰ نے آپ ؒکو پہلے سے دے رکھی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک رؤیا دیکھا تھا، جس کا ذکر حضورؒ نے ان الفاظ میں فرمایا:
‘‘میں نے دیکھا کہ ایک جگہ ہے وہاں ہٹلر بھی موجود ہے وہ کہتا ہے کہ آئیں میں آپ کو اپنا عجائب خانہ دکھاؤں۔ چنانچہ وہ آپ کو ایک کمرہ میں لے گیا جہاں مختلف اشیاء پڑی ہیں۔ کمرہ کے وسط میں ایک پان کی شکل کا پتھر ہے جیسے دل ہوتا ہے اس پتھر پر ‘‘ لَااِلَہٰ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ’’ لکھا ہوا ہے۔
حضورؒ نے فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرمن قوم اگرچہ اوپر سے پتھر دل یعنی دین سے بیگانہ نظر آتی ہے مگر اس کے دلوں میں اسلام قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔’’
(روزنامہ الفضل ربوہ10؍اگست 1967ء صفحہ4)
1973ء میں جب حضور رحمہ اللہ جرمنی کے دورہ پر تشریف لائے تو 23؍اگست کوفرانکفرٹ میں ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے حضور نے فرمایا:
‘‘آئندہ پچاس سال تک انشاء اللہ جرمن قوم اسلام قبول کر لے گی میں نے عرصہ ہوا خواب میں دیکھاتھا کہ جرمن قوم کے دلوںپر لَااِلَہٰ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِلکھا ہوا ہے۔ اس لئے مجھے یقین ہے کہ یہ قوم بالآخرضرور مسلمان ہو گی۔ ’’
نیز اس روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرماتے ہوئے حضور نے فرمایا:
‘‘مجھے یقین ہے کہ پچاس سے سو سال کے اندر اندر اس آسمانی انقلاب کو دنیا عموماً اور جرمن قوم خصوصاً تسلیم کرلے گی۔ ’’
(روزنامہ الفضل ربوہ 16؍ستمبر 1973ء صفحہ اول کالم 3و4)
چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے متعدد بار جرمنی کے دورے فرمائے اور احباب جماعت کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ مختلف تبلیغی پروگراموں میں شرکت فرمائی۔ حضورؒ پہلی مرتبہ 1967ء میں تشریف لائے اور اس کے بعد 1970ء 1973ء، 1976ء، 1978ءاور آخری بار 1980ء میں ورود فرماہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے1980ء میں جرمنی تشریف لانے سے قبل اپنے اس دورہ کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ
‘‘ یورپ کے مشنوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے اور ان میں دن بدن وسعت پیدا ہو رہی ہے۔ ان کی طرف زیادہ وقت اور توجہ دینے کی ضرورت ہے دوسرے پاکستانی احمدی ان ممالک میں خاصی تعدادمیںآ چکے ہیں ان کی تربیت اور غیر اسلامی ماحول سے ان کی حفاظت ضروری ہے وقت کا ایک اہم تقاضہ ہے کہ مغربیت اور لادینیت کے اثر سے انہیں بچایا جائے اور انہیں غلبہ اسلام کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے قابل بنایا جائے۔ یہ سب امور ایسے ہیں جو وقت اور توجہ چاہتے ہیں ا ور ان کےلیے سفر اختیار کرنا ضروری ہے۔ ’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ4؍جولائی 1980ء مطبوعہ روزنامہ الفضل 15؍جولائی 1980ء صفحہ2)
چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکے ان دوروں کی وجہ سے جماعت میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ جاتی رہی۔ بیداری کے نتیجہ میں ترقیات کی نئی منازل طے ہوتی رہیں۔ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں، پریس کانفرنسز اور ان کی اخبارات میں خبریں شائع ہونے سے تبلیغ کے نئے نئے رستے کھلتے رہے۔
1974ء کے فسادات کے بعد احمدی نوجوانوں کی ہجرت کی وجہ سے جرمنی میں احباب ِجماعت کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی۔ اسی طرح بعض مقامی افراد کو بھی بیعت کرکے حلقہ بگوش اسلام ہونے کی سعادت ملی جن میں اطالوی نژادمکرم عبدالہادی کیوسی صاحب اور جرمن نژاد مکرم ہدایت اللہ ہُبش صاحب اور مکرم عبد اللہ واگس ہاؤزر صاحب(امیر جماعت جرمنی) شامل ہیں۔ 1969ء میں مکرم کیوسی صاحب کو اسپرانٹو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی توفیق بھی ملی۔
خلافت ثالثہ کےعہد مبارک میں جماعت کو فرانکفرٹ میں لگنے والی کتابوں کی بین الاقوامی نمائش 1967ء میں پہلی مرتبہ شرکت کی توفیق ملی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک مسلسل جماعت کے اشاعتی ادارہ Verlag der Islam کے نام سے اس میں جماعتی سٹال لگ رہا ہے، الحمدللہ۔
جلسہ سالانہ جرمنی کا آغاز بھی خلافت ثالثہ کے دور میں ہوا۔ پہلا جلسہ 1975ء میں ہمبرگ میں ہوا۔ اس کے بعد سے بفضل خدا یہ جلسے ہر سال پہلے ہمبرگ اور 1980ء سےفرانکفرٹ، ناصر باغ، من ہائیم اور کالسروئے میں منعقد ہو رہے ہیں۔ ان جلسوں میں پہلی مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ 1987ء میں جلوہ افروز ہوئے۔ اس کے بعد دو جلسوں کے استثناء کے ساتھ حضور ؒ ہر سال ان جلسوں میں رونق افروز ہوتے رہے۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ایک جلسہ کے استثناء کے ساتھ ہر سال جلسہ کے لیے تشریف لاتے اور اپنے خطابات سے نوازتے ہیں۔ پہلے جلسہ میں کل حاضری 75؍کے قریب تھی اور خلافت کے سایہ تلے ترقی کرتے کرتے یہ جلسہ اس قدر وسعت اختیار کر گیا ہے کہ 2019ء میں ہونے والے جلسہ میں 42؍ہزار شمع خلافت کے پروانوں نے شرکت کی۔
(اخبار احمدیہ جرمنی اگست 2019ء)
جرمنی میں احمدیوں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ذیلی تنظیمیں بھی اپنی اپنی جگہ قائم ہو کر فعال ہوتی جا رہی تھیں اور اشاعت اسلام کی مہم میں شامل ہو رہی تھیں۔ چنانچہ ان ذیلی تنظیموں کا قیام بھی خلافت ثالثہ کے عہد میں ہوا۔ مجلس خدام الاحمدیہ اگرچہ اوّل اوّل فروری1961ء میں ہمبرگ میں منظم کی گئی اور اگلے سال فرانکفرٹ میں پانچ خدام پر مشتمل دوسری مجلس کا قیام عمل میں آیا لیکن رفتہ رفتہ یہ مجالس قائم نہ رہ سکیں اور غیر مؤثر ہو گئیں۔
(رپورٹ از مسعود احمدجہلمی صاحب 3؍نومبر1962ء فائل جرمنی 1962-63 صفحہ155ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ)
پھر خلافت ثالثہ میں 1973ء میں اس کی تنظیم نو کی گئی اور سالانہ اجتماع کا بھی آغاز ہوا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تنظیم مستحکم سے مستحکم تر ہوتی چلی گئی اور چند خدام سے چلنے والا یہ قافلہ اب 11401؍پر مشتمل ہو چکا ہے جبکہ اطفال کی تعداد3166؍ہوچکی ہے، الحمدللہ۔
اسی طرح لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کا قیام فرانکفرٹ میں اکتوبر 1973ء میں عمل میں آیا۔ اس وقت فرانکفرٹ میں احمدی خواتین کی تعداد صرف چار تھی رفتہ رفتہ بڑھتی چلی گئی اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے 16700؍ہوچکی ہے جبکہ ناصرات کی تعداد 3700؍ہے۔
مجلس انصار اللہ پہلے پہل 1975ء میںفرانکفرٹ میں قائم ہوئی۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ مختلف شہروں میں بھی قائم ہوتی چلی گئی اوراب تک پورے جرمنی میں اس کے ممبران کی تعداد 7000؍ سے تجاوز کر چکی ہے۔
دورِ خلافت رابعہ(1982ءتا 2003ء)
خلافت رابعہ کے دور میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت جرمنی نے غیر معمولی رنگ میں ترقی کی منازل طے کیں۔ اس ترقی میں سب سے بڑا کردار حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خاص توجہ کا تھا جو جماعت جرمنی کو شروع سے ہی حاصل رہی۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعدجماعت جرمنی کو اپنے فیض صحبت سے غیر معمولی طور پر نوازتے رہے۔ آپ 21سالہ بابرکت دور خلافت کے دوران 31مرتبہ جرمنی تشریف لاکر تبلیغی، تربیتی اور تنظیمی امور کا نہ صرف جائزہ لیتے رہے بلکہ جماعتی سرگرمیوں میں براہ راست بھی شامل رہے۔ ہر سال جماعت کے جلسہ سالانہ اور ذیلی تنظیموں کے اجتماعات سے خطاب فرماتے رہے، متعدد مساجد اور جماعتی مراکز کے افتتاح فرمائے، مجالس عاملہ کے اجلاسات میں ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ انہیں ہدایات دیتے رہے۔ ہر دورہ کے موقع پر سینکڑوں افرادِ جماعت سے انفرادی و اجتماعی ملاقاتیں فرماتے رہے۔ احباب جماعت اور جرمن، البانین، ترک، بوسنین اور عرب باشندوں کے ساتھ مجالس عرفان اورتبلیغی سوال وجواب کی سینکڑوں نشستیں ہوئیں۔ اسی طرح متعدد پریس کانفر نسز سے بھی حضورؒنے خطاب فرمایا جن میں اخبارات، نیوز ایجنسیوں، چرچ کی پریس ایجنسیوں، ٹی وی اور ریڈیو کے نمائندگان شامل ہوتے رہے۔
(ملخص از ریکارڈ وکالت تبشیر و اخبار احمدیہ جرمنی و احمدیہ بلیٹن جرمنی)
مختلف شہروں کے میئرز اور عدالتوں کے ججز حضورؒ سے ملاقات کا شرف حا صل کرتے رہے۔ جماعت کی طرف سے دیے گئے بہت سے استقبالیوں میں بھی حضورؒ نے شرکت فرمائی جن میں یونیورسٹی کے پروفیسرز حضرات، اعلیٰ سرکاری عہدیدار، مختلف ممالک کے قونصل جنرل صاحبان، وکلاء، عمائدین چرچ، اور معززین شہر شامل ہوتے رہے۔ ان تمام پروگراموں کی خبریں جرمنی کے متعدد بڑے اخبارات میں شائع ہونے کے ساتھ ساتھ ٹی وی اور ریڈیو پر بھی نشر ہوتی رہیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ25؍اگست1982ء صفحہ8)
ذیلی تنظیموں کی وسعت
اس بابرکت دورِ خلافت میں جرمنی میں احمدیوں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ذیلی تنظیمیں بھی اپنی اپنی جگہ قائم ہو کر فعال ہوئیں۔ 1991ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے ہر ملک کی ذیلی تنظیموں کو براہ راست اپنی نگرانی میں لیا تو جرمنی میں بھی تمام ذیلی تنظیموں کے سربراہ صدر کہلائے اور ان کی کارکردگی میں نمایاں اضافہ ہوا۔
تربیتی کلاسز کا اجراء
1974ءکے بعد پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جرمنی میں مقیم ہو چکی تھی۔ ان کی دینی تعلیم و تربیت وقت کا ایک اہم تقاضا بن گئی تھی اوریہ ضروری تھا کہ ان احمدی نوجوانوں کو مغربیت اور لادینیت کے مقابلہ کے لیے تیار کیا جائے۔ انہی اغراض کی تکمیل کے لیے مرکز سلسلہ میں جاری تربیتی کلاسز کی طرز پر مکرم ملک منصور احمد عمر صاحب مبلغ سلسلہ جرمنی نے تربیتی کلاسز کا اجرا کیا اور اس سلسلہ کی پہلی تربیتی کلاس ہمبرگ مشن میں مکرم لئیق احمد منیر صاحب کے زیر اہتمام 25؍تا 31؍دسمبر1981ء منعقد ہوئی جس سے 11؍شرکا نے استفادہ کیا۔ اس کلاس میں قرآن کریم، حدیث، فقہ، ردّعیسائیت وغیرہ مضامین پڑھائے جاتے رہے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ3؍مارچ1982ء صفحہ4)
یہ تربیتی کلاسز نہایت کامیابی سے ہم کنار ہوئیں اور یہ سلسلہ پھر مسلسل جاری رہا اور خلافت رابعہ کےدور میں یہ کلاسز اَور بھی زیادہ منظم انداز میں اور وسیع پیمانہ پر منعقد ہوتی رہیں جن سے خدام و دیگر احباب نے ہزاروں کی تعداد میں استفادہ کیا اور جماعت کے لیے مفید وجود بنے۔
(رپورٹ از مکرم ملک منصور احمد عمر صاحب84/1/30فائل مبلغ انچارج 1984-85صفحہ31ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ، روزنامہ الفضل ربوہ 28؍جنوری1984ء صفحہ اوّل)
مجلس شوریٰ کا آغاز
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے آغاز خلافت رابعہ میں ہی نظام کو پہلے سے زیادہ فعال و مستحکم بنانے اور اسے مزید تقویت دینے کے لیے بیرونی جماعتوں میں بھی شوریٰ کا نظام جاری فرمایا۔ اگست 1982ء میں مسجد نور فرانکفرٹ میں جماعت احمدیہ جرمنی کی پہلی مجلس شوریٰ منعقد ہوئی جس کی صدارت خود حضور رحمہ اللہ نے فرمائی۔
(روزنامہ الفضل ربوہ15؍نومبر1982ء صفحہ2کالم 3)
اس کے جلد بعد دسمبر1982ء میں دوسری مجلس شوریٰ کا انعقادہوا جس کےبعد سالانہ بنیادوں پر یہ سلسلہ مستقل طور پر جاری ہوگیا۔
(رپورٹ از مکرم عبد البا سط طا رق صاحب 19؍جنوری 1983ءفا ئل نمبر 30جرمنی 1983ء صفحہ 3ریکا رڈ وکا لت تبشیر ربوہ )
جرمن زبان میں آڈیو کیسٹ کی تقسیم
تکنیکی ترقی کے دور میں میسر آنے والےذرائع میں سے ایک ذریعہ آڈیو و ویڈیو کیسٹس ہیں۔ مغربی دنیا میں تبلیغ کے لیے اس ذریعہ کا استعمال ایک بنیادی ضرورت بن گیا تھا جس کے پیش نظر جماعت جرمنی کے زیر اہتمام نومبر1983ء میں احمدیت کے تعارف پر پہلی آڈیو کیسٹ تیار کی گئی جس کی تیاری میں مکرم ہدایت اللہ ہبش صاحب، مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب کے علاوہ دو احمدی خواتین اور چار بچوں کی آواز میں مختلف انداز سے احمدیت کے پیغام کو سننے والوں تک پہنچایا گیا تھا۔ اس کے بعد مزید ایک اور کیسٹ تیار کی گئی جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی آواز میں تلاوت قرآن کریم جو سورۃ فاتحہ پر مشتمل تھی مع جرمن ترجمہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی نظموں کے جرمن تراجم شامل کیے گئے تھے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ5؍مارچ 1984ء صفحہ اوّل، رپورٹ از مکرم عبدالباسط طارق صاحب30؍دسمبر1983ءجنرل فائل1983.84ء صفحہ 89ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ)
مغربی جرمنی میں امارت کا قیام اور پہلے نیشنل امیر کا تقرر
1984ء تک جرمنی میں بھی نظام جماعت مبلغ انچارج کےہی زیرانتظام تھا۔ دسمبر 1984ء میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جرمن نژاد نو احمدی مکرم عبداللہ Wagishauser صاحب کو جماعتِ احمدیہ مغربی جرمنی کا نیشنل امیر مقرر فرمایا۔ بعد ازاں آپ 1987ء کے انتخاب میں امیر منتخب ہوئے اور تا حال اسی خدمت پر فائز ہیں۔
(مکتوب از مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب محررہ 2؍اپریل1987ءبنام مکرم وکیل التبشیر صاحب ربوہ صفحہ6ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ)
ایم ٹی اے کے آغاز پر جماعت جرمنی نے ڈیڑھ ملین جرمن مارک سالانہ پیش کرنے کا وعدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے آج تک اس کی ادائیگی کا سلسلہ جاری ہے، الحمدللہ۔ ابتدا میں ٹیلیفون کے ذریعہ حضور انور ؒ کا خطبہ جمعہ سننے کا اہتمام کرنے والی جماعتوں میں بھی جماعت جرمنی شامل ہے۔
نئے سینٹرز کے قیام کی تحریک
1982ء تک جرمنی میں جماعتِ احمدیہ کے صرف دو مشن کام کر رہے تھے ایک فرانکفرٹ اور دوسرا ہمبر گ میں۔ 1984ء کے حالات نے بے شمار احمدیوں کو نقل مکانی کرکے جرمنی کے مختلف شہروں میں آبادہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ جرمنی میں احمدیوں کی بڑی تعداد آ جانے کی وجہ سے مزید مشنز کے قیام کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 18؍مئی 1984ء کو خطبہ جمعہ میں ایک عظیم الشان جامع پروگرام کا اعلان فرمایا جس کا ایک اہم پہلو دو نئے یورپین مراکز کے قیام کی تحریک پر مشتمل تھا۔ ان میں سے ایک انگلستان میں اور ایک جرمنی میں بننا تھا۔ حضورؒ نے فرمایا:
‘‘دو نئے مراکز یورپ کے لئے بنانے کا پروگرام ہے، ایک انگلستان میں اور ایک جرمنی میں۔ انگلستان کو یورپ میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے اس لئے انگلستان میں بہرحال بہت بڑا مشن چاہئے۔ اس لئے انگلستان میں بہت بڑا مرکز قائم کرنا ہے اور ایک جرمنی میں کیونکہ جرمنی کی جماعت بہت مخلص اور تبلیغ میں دن رات منہمک ہے۔ ایسا اللہ نے ان کو اخلاص بخشا ہے کہ جب چندہ کی ضرورت پڑی تو جرمنی کا مشن بہت سے دوسرے مشنوں کے لئے کفیل بن گیا تھا اور حیرت انگیز قربانی کے مظاہرے انہوں نے کئے…اس لئے اللہ تعالیٰ روپیہ اپنے فضل سے مہیا کرے گا۔
(خطبات طاہر جلد 3صفحہ 265تا266)
چنانچہ حضور ؒ کی تحریک پر جماعت جرمنی نے والہانہ انداز میں لبیک کہنے کی سعادت پائی اور فرانکفرٹ سے قریباً 35کلو میٹر دور گروس گیراؤ (Groß Gerau)نامی شہر کے نواح میں ایک وسیع قطعہ اراضی خریدنے کی توفیق پائی۔ اس جگہ پہلے ایک تفریحی پارک تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒیہاںمتعدد مرتبہ سیر کے لیے تشریف لاچکے تھے اور حضورؒ کو یہ جگہ بہت پسند تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی خرید کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اسے ناصر باغ کا نام عطا فرمایا۔ ناصر باغ کا کل رقبہ 28968؍مربع میٹر ہے۔ اس قطعہ اراضی پر ابتداء میں لکڑی سے بنی ہوئی ایک عمارت تھی جس کے ہال میں مسجد قائم کی گئی اور بقیہ عمارت میں جماعت کےبعض مرکزی دفاتر بنائے گئے۔
اس وسیع اراضی کے ملنے کے بعد جماعت کو اپنے جملہ پروگراموں کے لیے موزوں جگہ میسر آگئی تھی۔ چنانچہ اس کی خرید کے بعدسے 1995ء تک جماعت کے جلسہ سالانہ اور ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماعات یہاں منعقد ہوتے رہے، دوسرا یورپین اجتماع خدام الاحمدیہ بھی یہاں منعقد ہوا۔ فٹ بال اور باسکٹ بال اور دیگر تفریحی پروگراموں کے لیےبھی اس مرکز میں باقاعدہ گراؤنڈز اور انتظامات موجود ہیں۔ مختلف ریجنل اجتماعات اور تربیتی کلاسز کا بھی یہاں باقاعدہ انعقاد ہوتا ہے۔
بیت النصر کولون
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 1984ء کے اواخر میں جرمنی کا دورہ فرمایا تو جرمنی کے دو بڑے شہروں کولون اور میونخ میں مشنز کھولنے کا ارشاد فرمایا۔ ان میں سے کولون مشن کا افتتاح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے 1985ء کے دورہ جرمنی کے دوران 17؍ستمبر کوفرمایااس کا نام حضور ؒنے بیت النصر عطا فرمایا۔
مسجد المہدی میونخ
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جرمنی کے تیسرے بڑے شہر میونخ میں مشن ہاؤس کھولنے کی ہدایت 1984ء کے اواخر میں فرمائی تھی۔ چنانچہ جماعت اسی وقت سے جگہ کی تلاش کرنے لگی تھی جس میں کامیابی 1986ء میں اُس وقت ہوئی جب میونخ کے نواح میں ایک چھوٹے سے قصبہ Neufahrn نوئے فارن میںMassenhausener Straße 7 پر واقع ایک تین منزلہ گھراللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا 437مربع میٹر کے قطعہ اراضی پر بنی ہوئی عمارت میں تبدیلی کرکے مسجد کی شکل دی گئی، دفاتر بنائے گئے، تہ خانہ میں کھانے کا کمرا بنایا گیا اور بالائی منزل کو مربی سلسلہ کی رہائش کے لیے مخصوص کیا گیا۔ حضور ؒ نے 27؍اکتوبر1986ء کو اس کا افتتاح فرمایا اور اسے مسجد المہدی کا نام عطافرمایا۔
مہدی آباد Nahe
1989ء میں جماعت جرمنی کو اپنے آقا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہمبرگ کے قریب Naheنامی قصبہ میں Walkendorferstr.11پر واقع 69ایکڑ پر مشتمل قطعہ اراضی خریدنے کی توفیق ملی، الحمدللہ۔ یہ قطعہ اراضی زیادہ تر زرعی زمین پر مشتمل تھا تاہم اس میں موجود ایک گھر کو بطورمربی ہاؤس اوربڑے بڑے ہالوں کو مسجد اور جماعتی پروگراموں کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔
بیت المقیت
جماعت جرمنی کے مرکزی دفاتر کی ضرورت پورا کرنے کی غرض سے 1991ء میں جرمنی کے شہر فرانکفرٹ کے وسط میں Mittelweg 43پر واقع ایک چار منزلہ عمارت خریدی گئی۔ اس میں چھوٹی سی مسجد اورجماعت کے مرکزی شعبہ جات قائم کئے گئے۔
بیت القیوم
یہ مشن ہاؤس فرانکفرٹ کے انتہائی شمال میںHomburger Landstr. 909پرواقع بڑے ہال اور رہائشی حصہ کے ساتھ نصف ایکڑ کے قریب زرعی زمین پر مشتمل ہے جسے 1993ء میں جماعت فرانکفرٹ کی ضروریات کے لیے خریدا گیا۔
بیت السلام
فرانکفرٹ سے فرانس جانے والی مشہور شاہراہ موٹر وے نمبر6پر واقع جرمنی کے شہر فرائنزہائم (Freinsheim)میں Haintorstr.11پر مقامی جماعت کے لیےیہ عمارت 3؍نومبر 1993ء کو خریدی گئی۔
بیت اللطیف
اوفن باخ(Offenbach)میں جماعت اور مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیےLuisenstr.82aپر واقع ایک تین منزلہ عمارت 1994ء میں خریدی گئی۔ اس وقت یہاں دفتر دارالقضاء جرمنی ہے۔
بیت الوکیل
جرمنی کی مشہور بندرگاہ والےشہر بریمر ہافن (Brem erhaven) میں Post Straße 23پر واقع ایک عمارت 1994ء میں خریدی گئی اور اس کا افتتاح حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒنے اپنے دورۂ جرمنی مئی 1995ءکے دوران فرمایا اور اسے بیت الوکیل کا نام عطافرمایا۔
بیت الظفر
جرمنی کے عین وسط میں ایک قصبہ Immenhausen میں Am Bahnhof 1 پر واقع ایک تین منزلہ عمارت جولائی 1996ء میں خریدی گئی۔ اس کا رقبہ 3715؍مربع میٹر ہے۔ جس میں 1364؍مربع میٹرپر تعمیر شدہ عمارت ہے۔
بیت الرشید
ہمبرگ جرمنی کی سب سے بڑی اور قدیمی جماعت ہے جس کی ضروریات کے لیے صرف مسجد فضل عمر تھی جو ناکافی ہو چکی تھی۔ چنانچہ جنوری 1994ء میں ہمبرگ شہرکےشمالی علاقہ میں Pinneberger Straße 46پر واقع ایک وسیع وعریض عمارت خریدی گئی جس کا مجموعی رقبہ 2783؍مربع میٹر ہے۔ اِس میں قریباً ایک ہزارافراد کے لئے دو ہال بطور مسجد مخصوص کئے گئے ہیں۔
بیت السبوح
1974ء اورپھر 1985ء کے بعدجرمنی کی جماعتوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوااورسن 2000ءتک جماعتوں کی تعداد 200سےتجاوز کر چکی تھی۔ ان حالات میں جماعت جرمنی کو ایک بڑی مرکزی عمارت کی شدید ضرورت تھی جہاں سب مرکزی دفاترکے علاوہ ضروری رہائشیں بھی ہوں۔ چنانچہ اپریل 2001ءمیں اللہ تعالیٰ نے جماعت جرمنی کوفرانکفرٹ میں موٹروے کے بالکل قریب شہری آبادی میں Genfer Str. 11پر واقع ایک چار منزلہ وسیع عمارت قریباًسات ملین مارک میں خریدنے کی توفیق عطافرمائی جس کا کل رقبہ ساڑھے سات ہزار مربع میٹر ہے اور اس میں چار منزلوں پر مشتمل مجموعی مسقف حصہ آٹھ ہزار مربع میٹر ہے۔ یہاں 2002ء سے جماعت کے علاوہ ذیلی تنظیموں کی بھی مجلس شوریٰ منعقد ہو رہی ہے علاوہ ازیں نمازجمعہ و عیدین بھی ہوتی ہیں، حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کئی مرتبہ نماز جمعہ یہاں پڑھا چکے ہیں۔ شادیوں کے لیے بھی ان ہالوں کو استعمال کیا جاتا ہے علاوہ ازیں مختلف گراؤنڈز بنا کر کھیلوں کا انتظام بھی موجود ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے آخری دورۂ جرمنی اگست 2001ء میں اسی عمارت میں قیام فرمایا تھا اورحضوررحمہ اللہ نے ہی اس عمارت کو بیت السبوح کا نام عطافرمایا۔
ایوان خدمت
بیت السبوح کے احاطہ میں ہی ایک اور چار منزلہ عمارت میں مجلس خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ جرمنی کے مرکزی دفاتر ہیں۔
تعمیرسو مساجد منصوبہ
جلسہ سالانہ جرمنی 1989ء کےموقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعتِ احمدیہ جرمنی کو صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر ملک بھر میں سو مساجد تعمیر کرنے کا منصوبہ عطا فرمایاتھا۔ اس موقع پر حضور ؒنے فرمایا:
‘‘گذشتہ سو سال کامیابی کے ساتھ گزرنے کے طور پر سو مساجد جرمنی میں بنا دیں، اظہار تشکر کے طور پر۔ ’’
(روزنامہ الفضل، 5؍جون1989ء صفحہ5)
چنانچہ جماعت جرمنی نے اپنے آقا کی آواز پر والہانہ لبیک کہتے ہوئے فوری طور پر لاکھوں جرمن مارک کے وعدے پیش کردیے مگر کئی سال گزرنے کے بعد بھی بعض قانونی اور معاشرتی رکاوٹوں کے باعث اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا نہ جاسکا۔ 1997ء میں حضور ؒنے ایک مرتبہ پھر اس منصوبہ کی طرف توجہ دلائی (اخبار احمدیہ جرمنی جون 1997ء صفحہ3)تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس منصوبہ پر جوش و خروش سے کام شروع ہوگیا اور ایک کے بعد دوسری مسجد تعمیر ہونے لگی، الحمدللہ۔
مسجد بیت الشکور
بیت الشکور جرمنی کے شہر Gross-Gerauمیں واقع جماعت مرکز ناصر باغ میں تعمیرہوئی۔ اس کا کل رقبہ 1850؍مربع میٹر ہے۔
مسجد بیت الحمد
سومساجد سکیم کے تحت پہلی باقاعدہ طور پر تعمیر ہونے والی مسجد لکسمبرگ کے قریب جرمنی کے شہر Wittlichمیں بنائی گئی۔ اس کا سنگِ بنیاد نومبر 1998ء میں رکھا گیا اور 9؍جنوری 2000ء کو اس کاافتتاح ہوا۔ مسجد 200؍مربع میٹرپر تعمیر کی گئی ہے جو دو منزلوں پر مشتمل ہے۔
مسجد بشارت
یہ مسجد Osnabruckمیں تعمیر ہوئی۔ اکتوبر 1999ء میں اس کا سنگِ بنیاد رکھا گیا اور اکتوبر 2002ء میں اس کا افتتاح ہوا۔ 2481؍مربع میٹر کے پلاٹ پر بنائی جانے والی مسجد کا تعمیری رقبہ 211؍ مربع میٹرہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 31؍اگست 2000ء کو زیرتعمیر مسجد کا معائنہ فرمایا اور ظہر و عصر کی نمازیں ادا کیں۔
مسجد بیت المومن
میونسٹر شہر میں تعمیر ہونے والی اس مسجد کا سنگِ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 31؍اگست 2000ء کو رکھا۔ اس مسجد کی تعمیر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی زندگی میں مکمل ہوگئی تھی تاہم اس کا افتتاح حضور ؒکی وفات کے چند روز بعد 3؍مئی 2003ءکو عمل میں آیا۔ اس میں 213؍ نمازیوں کے ادا کرنے کی گنجائش ہے۔
دیگر زیر تعمیر مساجد
علاوہ ازیں مسجدنورالدین ڈارمسٹڈٹ، مسجد ناصر بریمن اور مسجد طاہر کوبلنزکا سنگِ بنیاد خلافتِ رابعہ کے دور میں رکھ دیا گیا تھا۔ خلافت رابعہ کے زمانے میں جو مزید پلاٹ خریدے گئے ان میں کیل شہر میں مسجد حبیب، Riedstadtمیں مسجد عزیز، جامع مسجد اوفن باخ، مسجدسمیع ہنوور، بیت العلیم ورزبرگ، مسجد الہدی Usingen، مسجد بشیر Bensheimشامل تھے۔
( احمدیہ بلیٹن جرمنی نومبر 2001ء صفحہ 2 و ریکارڈ شعبہ مساجد جرمنی)
قرآن کریم و دیگر کتب کی اشاعت
۱۔ جرمن زبان میں ترجمہ قرآن کی پہلی مرتبہ اشاعت 1954ء میں ہوئی تھی جس کے بعد اس کے بعد متعدد ایڈیشن طبع ہوئے۔ تاہم خلافت رابعہ کے دَور میں اس کی اشاعت کئی گنا بڑھ گئی اور A5کے علاوہ A6یعنی پاکٹ سائز پر بھی طبع ہوا جوجرمن مارکیٹ میں بے حد مقبول ہوا۔ اس طرح سے دونوں سائز کے ایک لاکھ سے زائد نسخے خلافت رابعہ کے دور میں طبع کرائے گئے جن کی بڑی تعداد مارکیٹ میں فروخت ہوئی۔
(غیر مطبوعہ ریکارڈ شعبہ اشاعت جرمنی)
۲۔ ڈاکٹر عبدالغفار صاحب قرآن کریم کے ترکی زبان میں ترجمہ پر کام کر رہے تھے کہ 1988ءمیں ان کا جرمنی میں تقرر ہوگیا۔ چنانچہ آپ نےحضور ؒ کی ہدایت پر یہاں آکر اسے مکمل کیا اور کولون کے ایک پریس سے اس کی کمپوزنگ کراکر طباعت کے لیے تیار کرنے کی سعادت حاصل کی۔ یہ ترجمہ قرآن بعد ازاں صد سالہ احمدیہ جوبلی1989ء کے موقع پر لندن سےشائع ہوا۔
(الفضل انٹرنیشنل 4؍دسمبر 2009ء صفحہ 9)
۳۔ لندن سے شائع شدہ البانین زبان میں ترجمہ قرآن ختم ہوجانے پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نےہدایت فرمائی کہ اس پر نظر ثانی کرنے کے ساتھ ساتھ تفسیر صغیر کے نوٹس اس میں شامل کرکے اس کا نیا ایڈیشن تیار کیا جائے۔ چنانچہ اس کے مترجم محمدزکریا خان صاحب نے حضور ؒ کی اس ہدایت کے مطابق بڑی محنت کے ساتھ یہ کام مکمل کیا اور نظر ثانی شدہ یہ ترجمہ قرآن 2003ء میں پہلی مرتبہ کمپیوٹرائزڈ عربی متن کے ساتھ شعبہ اشاعت جرمنی میں ہی تیار ہوا اورجرمنی کے ہی ایک پریس Kösel Kemptenسےطبع ہوا۔
(الفضل انٹرنیشنل لندن مؤرخہ 6 نومبر 2009ء صفحہ 9)
تبلیغی مساعی (اندرون و بیرون جرمنی)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 1992ءمیں جماعتِ احمدیہ جرمنی کو ہدایت دی کہ جرمنی کے اردگرد آباد یورپین و دیگر ممالک میں جماعتِ احمدیہ کے قیام کوعمل میں لایا جائے۔
1992ءسے لےکر 2003ءتک جرمن، عرب، ترک، البانین، بوزنین اور میسیڈونین اقوام کے ساتھ جماعتِ احمدیہ جرمنی کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ 150سے زائد تبلیغی نشستوں کا اہتمام کروانے کی توفیق ملی۔ مزید برآں ان اقوام کے ساتھ مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد تبلیغی نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔
خلافت رابعہ کے دور میں درج ذیل ممالک میں جماعتِ احمدیہ جرمنی کو اسلام احمدیت کا پودا لگانے کی توفیق ملی، ا لحمدللہ
1۔ البانیہ 1992ء
2۔ بوزنیا 1992ء
3۔ میسیڈونیا 1992ء
4۔ رومانیہ 1993ء
5۔ سلوینیا 1997ء
6۔ چیک ریپبلک 1998ء
7۔ سلواکیا 1998ء
8۔ کروشیا 1998ء
9۔ آذربائیجان 2000ء
10۔ ہنگری 2000ء
11۔ مالٹا 2001ء
(بحوالہ غیرمطبوعہ ریکارڈ شعبہ تبلیغ جرمنی )
کسر صلیب کانفرنس
9؍مئی 1992ء کو جماعت جرمنی نےاپنی پہلی کسرصلیب کانفرنس کا انعقادفرانکفرٹ کے مشہور ہال Volks Bildung Heim واقع Eschenheimer Torمیں کیا۔ امیر جماعت جرمنی محترم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب کی صدارت میں ہونے والی اس کانفرنس میں جرمنی کے ایک مشہور سکالر مسٹر ہولگر کیرسٹن Holger Kerstenنے کفن مسیح اور اس کے اصلی ہونے کے تازہ شواہد، مکرم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب نے مسیح کی صلیبی موت کے عقیدہ کے مشرق و مغرب پر اثرات اور مولانا عبدالباسط طارق صاحب مبلغ سلسلہ جرمنی نے بائبل اور قرآن کی رو سے واقعہ صلیب کی حقیقت کے موضوعات پر خطاب کیا۔ مسٹر ہولگر جو مشہور کتاب حضرت مسیح کی ہندوستان میں زندگی کےعلاوہ متعدد مضامین اور کتب کے بھی مصنف ہیں، نے سلائیڈز کی مدد سے حاضرین کو بتایا کہ کفن مسیح پر جو ریسرچ اب تک ہوچکی ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح زندہ اس میں لپیٹے گئے تھے۔
(اخبار احمدیہ جرمنی جون، جولائی 1992ء صفحہ 24)
عربوں تک پیغام
حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے عربوں کی طرف خصوصی توجہ فرمائی اوران میں تبلیغی جدوجہد کو منظم اور تیز تر کرنے کی غرض سے مصر سے تعلق رکھنے والے مخلص احمدی مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب کو جرمنی جا کر عربوں سے رابطے کرنے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب 8؍اکتوبر 1985ء کو ہمبرگ آئے، کئی ہفتوں تک جرمنی بھر میں دورے کیے ا ور عربوں سے ملاقات و رابطوں کے ذریعہ انہیں احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی ہدایات کے مطابق جماعت جرمنی نے باقاعدہ عرب ڈیسک تشکیل دے کر اس کام کو مربوط بنیادوں پر جاری رکھا۔
(رپورٹ از مکرم لئیق احمد منیر صاحب محررہ 16؍اکتوبر1985ءفائل مکرم لئیق احمد منیر صاحب 1985ء صفحہ26ریکارڈ وکال تبشیر ربوہ)
ترکوں کو تبلیغ
ترک احباب میں تبلیغ کے لیےترک ڈیسک کا قیام عمل میں لایا گیا اور مبلغین سلسلہ ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب اور ڈاکٹر عبدالغفار صاحب نےحضور رحمہ اللہ کی ہدایات کی روشنی میں وسیع پیمانہ پر تبلیغی نشستوں کا انعقاد کیا۔
(‘میونخ مشن’ غیر مطبوعہ نوٹ از میونخ مشن صفحہ16ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ، سووینئر صد سالہ 1989ء جرمنی)
مجلس خدام الاحمدیہ کا جرمنی میں یورپین اجتماع
1986ء میں یورپی ممالک کی جملہ مجالس خدام الاحمدیہ کااجتماع جرمنی میں ہوا۔ اس اجتماع میں خدام و دیگر زائرین کی تعداد 1900؍تھی۔ حضور رحمہ اللہ نے افتتاح اور اختتام دونوں مواقع پرخدام سے خطاب فرمایا۔
(ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ نومبر 1986ء صفحہ6-7-8)
جلسہ سالانہ 2001ء
سال 2001ء میں برطانیہ میں فٹ اینڈ ماؤتھ(Foot & Mouth) بیماری پھیل جانے کے باعث جلسہ سالانہ کا انعقاد ممکن نہ رہا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فیصلہ فرمایا کہ اس سال جرمنی میں مرکزی جلسہ سالانہ منعقد ہو۔ اس موقع پرحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جرمنی ورود فرمایا اور اس جلسہ کو رونق بخشی۔ یہ جلسہ من ہائیم کی مئی مارکیٹ میں منعقد ہوا اور اس میں 60؍سے زائدممالک کے 48؍ہزار چھ سو احباب نے شرکت کی۔ اس موقع پر پہلی مرتبہ سر زمین جرمنی پر عالمی بیعت کی تقریب بھی عمل میں آئی۔
(الفضل انٹرنیشنل 7؍ستمبر 2001ء صفحہ اول)
تحریک وقف نو
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی جاری فرمودہ وقف نو کی تحریک پر افرادِ جماعت جرمنی نے بھی والہانہ لبیک کہتے ہوئے کثیر تعداد میںاپنے بچوں کو قبل از پیدائش وقف کرنے کی سعادت حاصل کی۔ اپریل 2003ءجرمنی میں ان واقفین نو کی تعداد حسب ذیل تھی:
واقفین نو: 1310
واقفاتِ نو: 956
ملینیم فولڈر
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے انٹرنیشنل مجلس شوریٰ 1999ء کے موقع پر فرمایا تھا کہ ہم نئے ملینیم کا استقبال اس طرح کریں گے کہ سال 2001ء کے دوران دنیا کی دس فیصد آبادی تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچادیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے مکرم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب مرحوم نے خصوصی طور پر چھ صفحات پر مشتمل جرمن زبان میں ایک تعارفی فولڈر تیار کیا جسے پانچ ملین کی تعداد میں طبع کرا کر ملک بھر میں تقسیم کیا گیا۔ اس فولڈر کے ساتھ ایک جوابی کارڈ بھی منسلک کیا گیا تھا۔
(اخبار احمدیہ جرمنی جولائی 2001ء صفحہ اول)
گذشتہ صفحات میں جرمنی میں تبلیغ اسلام کے حوالےصرف دورِ خلافت رابعہ میں کی جانے والی کوششوں اور ان کے نتائج کی ایک معمولی سی جھلک پیش کی گئی ہے۔ اسے مزید واضح کرنے کے لیے ایک تقابلی جائزہ درج ذیل ہے:
مذکورہ بالا اعداد و شمار سے دورِ خلافت رابعہ کے دوران جرمنی میں جماعتی ترقی کی رفتار کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے، الحمدللہ۔ یہ مساعی اس امر کی شاہد ہے کہ جماعتِ احمدیہ اسلامی تعلیمات، دینی روایات، مذہبی اقدار اور روحانی جذبوں کو زندہ رکھنے کے لیے جرمنی میں بھی اپنی مقدور بھر کوششوں میں مصروف ہے۔ اوراسلام کا عَلم بلند ترکرر ہی ہے جس کے سائےتلے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں لاکھوں سعید روحیں جمع ہو رہی ہیں جن میں صرف پاکستانی احمدی ہی نہیں بلکہ ایسے جرمن اور دوسری قومیّتوں کے احمدی بھی ہیں جن کی زندگیوں میں قبول احمدیت کے بعد ایک عظیم روحانی انقلاب برپا ہوچکا ہے۔ جو اس بات کا آئینہ دار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جرمنی میں اسلام کے غلبہ کے دن قریب سے قریب تر آتے چلے جارہے ہیں۔ جو روحانی انقلاب آج ہمیں انفرادی سطح پر نظر آرہا ہے یہ ان شاء اللہ جلد یا بدیر قومی انقلاب پر منتج ہوگا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعتِ احمدیہ جرمنی کی اس مساعی کے بارے میں مسجد نورفرانکفرٹ میں 20؍اگست 1982ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا کہ
‘‘یہ جماعت جو بعض دفعہ اپنے کام چلانے کے لئے دوسری جماعتوں کی مرہون منت ہوا کرتی تھی نہ صرف خود کفیل ہوگئی ہے بلکہ اس نے کئی دوسری جماعتوں کے بوجھ اُٹھا لئے۔ اور آج خدا تعالیٰ کے فضل سے یورپ کی اُن جماعتوں میں شمار ہوتی ہے جو اپنے بوجھ اُٹھانے کے بعد باہر کی جماعتوں کے بوجھ بھی اُٹھا رہی ہے۔ ’’
(روزنامہ الفضل 31؍ اکتوبر 1983ء صفحہ 2)
نیز فرمایا: ‘‘1984ء کے بعد جب سے پاکستانی احمدیوں کی ایک کثیر تعداد جرمنی میں منتقل ہوئی ہے جرمنی کی جماعت نے اخلاص و فدائیت اور مال و وقت کی قربانی کی نئی عظیم داستانیں رقم کی ہیں۔ اور تبلیغ و اشاعت اسلام اورتربیت کے لحاظ سے نمایاں طور پر آگے قدم بڑھایا ہے۔ جرمنی میں مقیم مبلغین سلسلہ دن رات تبلیغ اسلام میں مصروف ہیں۔ نیک طبعوں اور مستعددلوں تک اسلام کا پیغام پہنچایا جارہا ہے اور نتیجتاً سنجیدہ طبائع میں اسلام کے متعلق تعصّب بھی روز بروز کم ہورہا ہے۔ اور وہ کسی نہ کسی رنگ میں اسلام کی خوبیوں کا اعتراف کرنے لگے ہیں۔ مادیّت اور دہریّت کی رو میں بہنے والے اس ملک کے دانشور طبقہ کو بھی یہ احساس ہوچکا ہے کہ ان کی یہ مادی ترقی یامادی بنیادوں پر کھڑی کی گئی تہذیب انہیں تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔ خود یورپ میں رہنے والے مسلمان باشندے بھی اس بات کا اظہار کر تے ہیں کہ جماعتِ احمدیہ کی کوششیں نہ ہوتیں تو یورپ میں رہنے والے مسلمان اسلام سے بہت دور جاچکے ہوتے۔ ’’
(ماہنامہ تحریک جدید ربوہ جون 1987ء صفحہ 13)
خلافت خامسہ کا عہد مبارک
خلافت خامسہ کا مبارک دور بھی جماعت جرمنی کے لیے نئی ترقیات اور فتوحات کے سورج کے ساتھ آیا۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی جرمنی کے مسلسل دورے فرمائے، ایک استثناء کے ساتھ ہر سال جلسہ سالانہ کو رونق بخشی اور احباب جماعت کے تربیتی اور روحانی معیار بلند کرنے کے لیے نصائح فرمائیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پہلے دورہ میں امیر صاحب جرمنی کو ہر سال پانچ مساجد تعمیر کرنے کا ٹارگٹ عطا فرمایا۔ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے برکت بخشی اور گذشتہ سترہ سالوں میں جرمنی جماعتِ احمدیہ کی مساجد کی تعداد 53ہوچکی ہے جبکہ متعدد مساجد زیر تعمیر ہیں۔
مساجد کی تعمیر کے ساتھ سنگ بنیاد اور افتتاح کی تقریبات خلافت خامسہ میں نہایت مفید تبلیغی پروگراموں کی صورت اختیار کرگئیں۔ چنانچہ ان مواقع پر سینکڑوں کی تعداد میں عمائدین شہر کی شرکت ہونے لگی جنہیں حضور انور اپنے خطاب میں اسلام کی تعلیم اور مسجد کے مقام کے بارہ میں اسلامی تصور سمجھاتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ نے 2004ء میں نئی وصایا کی تحریک فرمائی تو اُس وقت جرمنی میں صرف 834؍موصی تھے۔ حضور انور کی توجہ سے ان کی تعداد 2020ءمیں 13068؍ہو چکی ہے، الحمدللہ۔ اسی طرح سالانہ بجٹ بھی بفضلہ تعالیٰ 28؍ملین یوروز تک پہنچ چکا ہے۔
جرمنی میں جامعہ احمدیہ کا قیام بھی خلافت خامسہ کے مبارک دور میں عمل میں آیا۔ 2008ء میںاس کا آغاز بیت السبوح فرانکفرٹ کی عمارت میں ہوا۔ اگلے سال قریباً 50؍کلومیٹر دور ریڈشٹڈ میں احمدیہ مسجد عزیز کے پہلو میں ایک وسیع قطعہ اراضی پر حضور انور ایدہ اللہ نےجامعہ احمدیہ کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا جس کی 2012ء میں تعمیر مکمل ہونے پر حضور انور نے ہی افتتاح فرمایا۔ اس عظیم ادارہ میں اس وقت ایک سو سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں جبکہ 2015ءسے اب تک 71؍مربیان سلسلہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد میدان عمل میں خدمت بجا لا رہے ہیں، الحمدللہ۔
خلافت خامسہ کے ہی دَور میں جماعت جرمنی کو یہاں حکومت کی طرف سےسماجی اور معاشرتی طور پر ایک مذہبی تنظیم (Körperschaft) کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہ درجہ جرمنی میں ابھی تک صرف جماعتِ احمدیہ کو ملا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور کتب کے تراجم اور لائبریریوں کے قیام کی طرف بھی توجہ دلائی جس کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود ؑکی پچاس سے زائد کتب کے جرمن تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ دیگر کتب اس کے علاوہ ہیں۔
خلافت خامسہ کے عہد مبارک میں ایک عظیم الشان نشان یہ بھی ظاہر ہوا کہ 2006ء میں یہاں کے شہر Regensburgکی ایک یونیورسٹی میں جرمن نژاد پاپائے روم نے ایک تقریر کے دوران ہرزہ سرائی کرتے ہوئے آنحضرتﷺ کی ذات اقدس پر ایک ناپاک حملہ کیا۔ حضور انور نے اس کا فوری نوٹس لیا اور بیت الفتوح مورڈن میں اپنے دو خطبات جمعہ میں اس کا جواب دیا۔ اس کے ساتھ حضور انور نے جماعت جرمنی کو اس کا تفصیلی جواب تیار کرنے اور اسے پوپ اور دیگر دانشوروں کو بھجوانے کی ہدایت فرمائی۔ جس پر ایک ضخیم کتاب شائع کی گئی۔ اس واقعہ کے دو ماہ بعد حضور انور جرمنی تشریف لائے تو 22؍ دسمبر 2006ء کو بیت السبوح فرانکفرٹ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے پوپ صاحب کو سمجھایا:
‘‘اسی طرح جرمنی میں بھی اسلام اور خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق لغو اور بیہودہ باتیں کی گئی ہیں جیسا کہ یہاں جب پوپ آئے تھے تو انہوں نے یونیورسٹی میں اپنے لیکچر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام میں خدا کے تصور کے بارے میں ہرزہ سرائی کی تھی۔ ایسی باتیں کیں کہ انسان حیران ہوتا ہے کہ اس مقام کے شخص بھی جو امن کے دعویٰ دار اور محبتیں پھیلانے کے دعویدار ہیں ایسی باتیں کر سکتے ہیں۔ لیکن جس آزادی کے نام پر انہوں نے باتیں کیں یا بعض لیڈروں کے بیانوں میں دیکھنے میں آتی ہیں یا مختلف اوقات میں اسلام کے بارے میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہایت گھٹیا اور دل آزار باتیں اخباروں میں لکھی جاتی ہیں۔ ’’
‘‘ماضی میں بھی اس قبیل کے لوگ تھے جنہوں نے انبیاء کا انکار کیا، ان سے استہزا کیا، برائیوں اور شرک میں ڈوب گئے اور پھراس کے نتیجہ میں ان پر عذاب بھی آئے۔ اللہ تعالیٰ نے تو انبیاء اس لئے بھیجے تھے یا بھیجتا ہے کہ ان کو مان کر بگڑے ہوئے لوگ راہ راست پر آجائیں اور اس دنیا یا آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائیں۔ لیکن انکار کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد باوجود وارننگ کے اور باوجود سمجھانے کے اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور عذاب کے نیچے آگئی ہے۔ ’’
‘‘ان دنیا داروں کو خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا اندازہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی اور اپنے انبیاء کی بڑی غیرت رکھتا ہے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ہتک کے بھی مرتکب ہوتے ہیں، اس نبی کی ہتک کے بھی مرتکب ہوتے ہیں جس عظیم نبی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اگرمَیں نے تجھے پیدا نہ کرنا ہوتا تو یہ زمین و آسمان پیدا نہ کرتا۔ تو جس خدا کی ربوبیت اور رحمانیت کے صدقے یہ لوگ دنیاوی نعمتوں سے مالا مال ہو رہے ہیں اسی پر الزام لگا رہے ہیں۔ جس درخت پر، جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹ رہے ہیں۔ ’’
‘‘پس بجائے اسلام اور بانیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پرالزام تراشی کرنے اور اللہ تعالیٰ پر بدظنی کرنے کے اور نعوذ باﷲ اس رحمن خدا کو ظالم قرار دینے کے، اس خدا کی پناہ میں آجاؤ جو ماں باپ سے بھی زیادہ اپنے بندوں پر مہربان ہوتا ہے۔ وہ اپنے بندے کو آگ سے بچانے کے لئے دوڑ کر آتا ہے بشرطیکہ بندہ بھی اس کی طرف کم از کم تیز چل کر آنے کی کوشش تو کرے۔ سنو اس زمانے کے امام اور اللہ تعالیٰ کے اس نبی نے کس پیار اور ہمدردی سے اپنے مبعوث ہونے کے مقصد سے آگاہ کیا۔ ’’
(خطبہ جمعہ فر مودہ 22؍ دسمبر 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل12؍جنوری2007ءصفحہ5تا7)
افسوس کہ پوپ صاحب نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اور جلد بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑاجو ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس کے بعد وہ چرچ قوانین کے مطابق زندگی بھر منظر ِعام پر نہیں آسکتے، فَاعْتَبِرُوْا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ۔
جماعتِ احمدیہ کی یہی اسلامی خدمات ہیں کہ جرمنی میں اسلام کا چرچا اس قدر عام ہوگیا ہے کہ پہلے جرمنی کے وفاقی صدر جناب Christian Wulff اور بعدہ چانسلر محترمہ Angela Merkelکو کہنا پڑا کہ Der Islam gehört zu Deutschland یعنی اب جرمنی میں اسلام کا بھی حصہ ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دورۂ فرانس 2008ء کے بارے میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘ایک جرمن سفارتکار وہاں آئے ہوئے تھے، ان سے باتیں بھی ہوتی رہیں۔ کہنے لگے کہ جرمنی میں بعض نوجوانوں میں اسلام قبول کرنے کی رَو چلی ہوئی ہے اور کہتے ہیں کہ میری تو یہ دعا ہے کہ اگر ان جرمنوں نے مسلمان ہونا ہے تو وہ احمدی مسلمان ہوں تاکہ کم از کم حقیقی تعلیم پر عمل کرنے والے تو ہوں۔ ’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍ اکتوبر 2008ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 14؍نومبر2008ءصفحہ6)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ محض اپنے فضل سے جماعتِ احمدیہ جرمنی کو خلافت کے سایہ تلے دن دگنی اور رات چوگنی ترقیات عطا فرماتا چلا جائے اور اس جماعت پرحسب سابق ہمیشہ اپنے آقا کی پیار کی نظریں پڑتی رہیں اور اس جماعت کی طرف سےاپنے آقا کے لیے ہمیشہ راحت و مسرّت کی خبریں جاتی رہیں، آمین۔
٭…٭…٭