’’دنیا میں ایک نذیر آیا‘‘
ملکہ وکٹوریہ، حکومتِ برطانیہ اور کلیسا کو آفات سے خبردار کردیا گیا تھا
امریکہ کے ممتاز سائنس دان اور امریکی صدر ٹرمپ کے اہم ترین مشیرِبرائے سائنسی امور، ڈاکٹر اینتھونی فاؤچی نے تین سال قبل متنبہ کر دیا تھا کہ آئندہ چند سال میں ایک پُراسرار عالمی وبا کے یک دم پھیلنے کا خدشہ ہے۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے ایک پروگرام میں تقریر کے دوران اُنہوں نے صاف طور پر یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ کو ’کسی متعدی بیماری‘کی صورت میں ایک غیر معمولی چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کورونا وائرس کی وبا کے ووہان میں پھیلنے اور پھر مغرب اور امریکہ میں اس کے بد ترین پھیلاؤ کے نتیجہ میں ڈاکٹر فاؤچی کے الفاظ نہ صرف امریکی قوم بلکہ سار ی دنیا کے باخبر حلقوں کے ذہنوں میں گونجنے لگے۔ جبکہ کم خبر رکھنے والے (یا امریکہ سے قدرے بے نیاز) لوگوں کو میڈیا نے ڈاکٹر فاؤچی کے الفاظ یاد کروادیے۔ اور اب تقریباً ہر کوئی قرنطینہ کی حالت میں رہتے ہوئے اس پیش گوئی پر توجہ مبذول کیے ہوئے ہے۔
اس شخص کو کیسے معلوم ہوا ؟یہ پہلے سے خبر کیسے دے سکتا ہے ؟اس کو توجہ کیوں نہیں دی گئی ؟
یہ اور ایسے ہی ملتے جلتے سوالات عوام الناس کے ذہنوں میں ابھررہے ہیں۔ وہ عوام جن میں سے کچھ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، کچھ اپنے کاروبار کو ڈوبتا دیکھ رہے ہیں، کچھ تعلیمی سال گزرتے جانے کے باوجوداپنے بچوں کو سکول کی بجائے گھروں میں بیٹھا دیکھ رہے ہیں، اور کچھ لوگ اس بے یقینی کی حالت میں اپنے پیارے بزرگوں سے جدائی کازمانہ کاٹ رہے ہیں۔
ایسی ہی ایک کہانی برطانیہ میں بھی بیان کی جارہی ہے۔ دی سنڈے ٹیلیگراف نے19؍اپریل2020ءکو یہ انکشاف کیا کہ یونیورسٹی کالج لندن(UCL) کے متعدی امراض کے ماہرین نے2016ء میں ہی ایک ممکنہ وَبا کے جلد پھوٹنے کےبارے میں حکومت کو متنبہ کردیا تھا۔
اس کی باریک ترین تفاصیل میں جا کر یہ بتایا گیا تھا(اور ایک پیش گوئی کے رنگ میں )کہ کیسے ممکنہ طور پر یہ سارے واقعات وقوع پذیر ہوں گے۔ اس وقت خبروں میں جو ہم سب ایک ناخوشگوار صورتِ حال دیکھ رہے ہیں، وہ یونیورسٹی کالج لندن کی اُس پیش گوئی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ہسپتال، مردہ خانے، سماجی سہولیات اور معاشیات ایک ابتراور بے یارومددگار حالت میں ہیں اور ایک مکمل تباہی کے دہانے پر۔ کابینہ کی وہ بریفنگ جو کہ 2016ءمیں دی گئی تھی، وہ Exercise Cygnusکے نام سے کابینہ کے ریکارڈ میں آج بھی محفوظ ہے۔
دی سنڈے ٹیلیگراف کی آزادیٔ معلومات کے قانون کے تحت، Exercise Cygnusکی تحقیقاتی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کی درخواست پر حکومت نے صاف انکار کر دیا ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کو اس بارہ میں پتہ کیسے چلا ؟کابینہ کو بریفنگ دینے سے یہ تو واضح ہے کہ ان کی اس رپورٹ میں کچھ وزن تو ضرورہوگا ! عوام کو اس خطرہ سے آگاہ کیوں نہیں کیا گیا؟اس کی تفاصیل کیوں جاری نہیں کی گئیں؟
پس بے چارے عوام، ایک بار پھر معصومانہ سوالات پوچھ رہے ہیں۔
پس یہ دنیاوی طاقتیں جو کہ اپنی مصنوعی معاشی خوش حالی کے کمزور پُل پر رواں دواں ہیں، ان پیش گوئیوں کو پسِ پشت کیوں ڈال دیتی ہیں۔
2011ء میں آنے والی اسکاٹ برنز کی فلمContagionبھی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ کہ اُس نے ایک عالمی وبا کی پیش گوئی کیسے کی ؟وہ اپنی فلم میں ایک وائرس کے نتیجہ میں ہونے والی تباہ کاری دکھانے میں کیسے کامیاب ہوا، جو کہ آج کل کورونا وائرس کے نتیجہ میں ہونے والی تباہ کاریوں سے عین مشابہت رکھتی ہے۔ اسکاٹ برنز نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ اُس کے بارے میں سوشل میڈیا پر کافی کچھ کہا جارہا ہے، یہاں تک کہ اُس پر’خدا تک رسائی ہے‘ کا بھی گمان ظاہر کیا جارہا ہے۔
کورونا وائرس کو اس تناظر میں دیکھتے ہوئے، یہ حیران کُن بات ہے کہ اُس فلم میں دکھایا گیا وائرسMEV-1بھی ابابیل سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔ انٹرویو میں پوچھا گیا تو اسکاٹ برنز نےبتایا کہ اسے فلم کی کہانے کے لیے سائنسی مشیروں نے حقیقی خطرات پر مبنی معلومات مہیا کی تھیں۔
ایک صدی قبل کی پیش گوئیاں
یہ سب حیرتیں اپنی جگہ۔ مگر مسئلہ یہ ہےکہ کورونا وائرس ایک جدید حقیقت ضرور ہے، مگر ایسی پیش گوئیوں کو نظر انداز کرنا دنیا کی پرانی ریت ہے۔ ڈاکٹر فاؤچی کی تنبیہ اور یونیورسٹی کالج لندن کی پیش گوئیاں محض تین سے چار سال پرانی ہیں۔ فلم Contagionتقریباً دس سال پرانی ہے۔ لیکن ایسی وباؤں اور آفاتِ سماوی کے بارے میں پیش گوئیوں کا ایک مجموعہ تھا جو کہ آج سے قریباً ایک صدی پہلے کی گئی تھیں۔ جو کہ دنیا نے اپنی طاقت اور اقتدار کے نشے، اور روئے زمین، سمندروں اور آسمانوں میں موجود ہر چیز کو تسخیر کرلینے کی خوش گمانی میں نظر انداز کردیں۔
آئیے اب ایک صدی پر انی تنبیہات کی طرف توجہ کرتے ہیں، جو کہ برٹش انڈیا کے پنجاب میں مقیم، حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جانب سے دی گئیں۔ جو آئندہ دنیا میں آنے والی آفات کے بارے میں پیش گوئی کرنے کی وجہ سے عوام الناس او رحکومت کے مقتدر حلقوں میں خاصے معروف تھے۔
ضلع گورداسپور کی مقامی حکومت نے،
Gazzette of the Gurdaspur District (1891 – 92)
میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کا ذکر ’’ایک با کمال فصیح اللسان‘‘، ‘‘ایک زبردست مبلغ‘‘ اور’’مسیح ہونے اور اللہ تعالیٰ سے خبر پانے‘‘ والےکے دعویدار کے طور پرکیا۔ یہ گزٹ ہر ضلع کی سطح پر سرکاری طور پر شائع ہوتا تھا اور زیر نظر گزٹ پنجاب حکومت کی جانب سے شائع کیا گیا۔
برطانوی حکومت کی جانب سے یہ اہم دستاویز، آپ علیہ السلام کے مشن کے آغاز پرہی شائع ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1889ء میں باقاعدہ اپنے دعاوی کا اعلان کیا اور دنیا کو ان تمام آفات و مصائب سے متنبہ کیا جو کہ اس دنیا پر برائیوں اور گناہوں کو ترک نہ کرنے کی وجہ سے آنے والی تھیں۔ اس گزٹ میں حضور علیہ السلام کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ؑ کےمشن کے جاری ہونے کے صرف دو سال بعدہی عامۃ الناس اور حکام میں معروف ہورہا تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دعویٰ کیا کہ اُن کا یہ مشن، یعنی تنبیہات اور ان سے نجات کی راہ دکھانے کا عظیم الشان مشن، کسی ایک خطہ تک ہی محدود نہیں، بلکہ ساری دنیا اس کی مخاطب ہے۔
اس عالمی پیغام کو عام کرنے کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کو اُس وقت کی جدید سہولیات سےشانہ بہ شانہ رہنے کی ضرورت تھی۔ اس لیے حضورؑ نے قادیان میں نہایت محدود وسائل کے باوجود ایک پرنٹنگ پریس قائم فرمایا اور اپنی تصانیف کی اشاعت کا آغاز فرمایا۔ اس پریس میں طبع ہونے والی پہلی تصنیف، آئینہ کمالاتِ اسلام تھی، جو کہ 1893 ءمیں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں دیگر مضامین کے علاوہ برطانوی سلطنت کی قیصرہ، ملکہ وکٹوریہ کے نام لکھا گیا ایک خط بھی شامل تھا۔ دنیا کو درپیش مشکلات و مصائب، ان آفات سے نجات کے واحد راستہ یعنی اسلام کا تعارف کروانےکے بعد ملکہ وکٹوریہ کو درج ذیل الفاظ میں دعوت دی :
’’ایسا کیا ہے کہ تم اس دن کی روشنی کو نہیں دیکھتیں؟ اے ملکہ معظمہ (خدا تمہارا مددگار ہو)جان لو کہ مذہب اسلام ہی تمام نوروں کا مرکز، تمام چشموں کا منبع اور روحانی پھلوں کا باغ ہے۔ میرے خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ تا میں اُس کی مخلوق کو اس طرف بلاؤں۔ اُس نے مجھے کھُلے کھُلے نشان عطاء فرمائے ہیں، تاکہ میں اُن کو اُس کے دین کی جانب دعوت دوں۔ پس اُن کے لیے بشارات ہیں جو مجھے قبول کریں۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بحیثیت رعایاملکہ وکٹوریہ کو ہمیشہ عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے۔ اس لیے بھی کہ ہندوستان میں تمام مذاہب کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی اسی کی حکومت کے تحت حاصل ہوئی تھی۔ آپ علیہ السلام، مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کو ہمیشہ وہ ظلم وتعصب یاد کرواتے تھے جو برطانوی راج سے قبل ہر مذہب کو دوسرے مذہب سے درپیش تھا۔
اسی تکریم کے سبب اوربطور اظہارِ تشکر، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان میں ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر تقریب بھی منعقد کروائی۔ یہ خوشی کسی عام دنیاوی عیش و عشرت کی مجلس کی طرح نہیں تھی، بلکہ خدا کے حضور شکرگزاری کے ساتھ منائی گئی، کہ اُس نے ایک ایسی قیصرہ عطاء فرمائی جو ہندوستان میں موجود تمام مذاہب سے متعلق اپنے معاملات میں عادل اور روادار ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے225پیروکار، جو ہندوستان کے طول و عرض سے سفر کر کے آئے تھے، قادیان میں اس تقریب میں شامل ہوئے، جو 21؍اور22؍جون1897ءکو منعقد ہوئی۔ اردو، عربی، فارسی، انگریزی، پنجابی اور پشتو میں تقاریر ہوئیں۔ جن میں رحم دل ملکہ کےلیے شکرگزاری کا اظہار کیا گیااور اُس کوانسانیت کےلیے واحد راہِ نجات، یعنی اسلام کی طرف دعوت دی گئی۔
حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے حضرت مسیح موعود ؑکی سوانح ’’لائف آف احمد‘‘ میں اس تقریب کو یوں محفوظ کیا ہے :
‘‘20تاریخ کو وائسرائے لارڈ ایلگن کو مبارکباد کا ایک تار بھیجا گیاتھا۔ اس غیر معمولی موقعہ پر، حضرت احمد علیہ السلام کی کتاب تحفہَ قیصریہ، خوبصورت جلد میں ڈپٹی کمشنر کے ذریعہ ملکہ وکٹوریہ کو بھجوائی گئی۔ اس کتاب کی نقول وائسرائے ہنداور لیفٹننٹ گورنر پنجاب کو بھی بھجوائی گئیں‘‘۔
یہ کتاب اسلام کے تعارف، دنیا کے مصائب و آلام، ملکہ کو دعوتِ اسلام اور آفاتِ سماوی کی تنبیہ پر مشتمل تھی۔ چنانچہ فرمایا:
’’کیونکہ خدا تعالیٰ کے عذاب جو وباؤں کے رنگ میں دنیا پر نازل ہوتے ہیں وہ صدقہ خیرات اور دعا اور توبہ اور خشوع اور خضوع کے ساتھ بیشک زوال پذیر ہوجاتے ہیں۔ اسی وجہ سے جب شدت سے وبا کی آگ بھڑکتی ہے توطبعاً دنیا کی تمام قومیں دعا اور توبہ اور استغفار اور صدقہ خیرات کی طرف مشغول ہوجاتی ہیں اور خدا کی طرف رجوع کرنے کے لیے ایک طبعی حرکت پیدا ہوجاتی ہے۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب کے نزول کے وقت طبائع انسانیہ کا اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ایک طبعی امر ہے۔ اور توبہ اور دعا کرنا عذاب کے وقتوں میں انسان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ یعنی توبہ اور استغفار سے عذاب ٹل بھی جاتا ہے جیسا کہ یونس نبی کی قوم کا عذاب ٹل گیا۔ ایسا ہی حضرت موسیٰ کی دعا سے کئی دفعہ بنی اسرائیل کا عذاب ٹل گیا… دنیا کے لوگ اس بات کو نہیں سمجھیں گے کیونکہ وہ آسمانی اسرار پر کم ایمان رکھتے ہیں لیکن تجربہ کرنے والے ضرور اس سچائی کوپائیں گے ‘‘۔
(تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن، جلد 12، صفحہ262تا273)
پھر 1898ءکا سال آیا۔ طاعون شدت کے ساتھ پھیل رہی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئی کے عین مطابق، بمبئی پریزیڈینسی اور اس کے مضافات میں لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بن رہے تھے۔ اوراب اس کا رخ پنجاب کی طرف تھا۔ آپ علیہ السلام طاعون کی پیش گوئی 6؍فروری1898 ءکو بذریعہ اشتہار فرماچکے تھے۔
اس اشتہار میں آپ علیہ السلام نے اپنے متبعین اور ہم وطنوں کو حکومت کی جانب سے بتائی گئیں احتیاطی تدابیرپر عمل پیرا ہونے اورسرکاری اہلکاروں کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کی تلقین فرمائی۔ اس کے ساتھ اس آفت سے بچنے اور آئندہ آنے والی آفات سے بھی محفوظ رہنے کے لیے راہِ نجات کی نشان دہی فرمائی:
’’اکثر دلوں سے اللہ جلّشانہٗ کا خوف اُٹھ گیا ہے اور وباؤں کو ایک معمولی تکلیف سمجھا گیا ہے جو انسانی تدبیروں سے دُور ہو سکتی ہے۔ ہر ایک قسم کے گناہ بڑی دلیری سے ہو رہے ہیں… یہ تقدیر معلّق ہے اور توبہ اور استغفار اور نیک عملوں اور ترک معصیت اور صدقات اور خیرات اور پاک تبدیلی سے دُور ہو سکتی ہے۔ لہٰذا تمام بندگان خدا کو اطلاع دی جاتی ہے کہ سچے دل سے نیک چلنی اختیار کریں اور بھلائی میں مشغول ہوں اور ظلم اور بدکاری کے تمام طریقوں کو چھوڑ دیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ سچے دل سے خدا تعالیٰ کے احکام بجا لاویں، نماز کے پابند ہوں، ہر ایک فسق و فجور سے پرہیز کریں، توبہ کریں اور نیک بختی اور خدا ترسی اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوں، غریبوں اور ہمسایوں اوریتیموں اور بیواؤں اور مسافروں اور درماندوں کے ساتھ نیک سلوک کریں اور صدقہ و خیرات دیں اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں اور نماز میں اس بَلا سے محفوظ رہنے کے لیے رو رو کر دُعا کریں پچھلی رات اٹھیں اور نماز میں دُعائیں کریں۔ غرض ہر قسم کے نیک کام بجالائیں اور ہر قسم کے ظلم سے بچیں اور اُس خدا سے ڈریں جو اپنے غضب سے ایک دم میں ہی دنیا کو ہلاک کر سکتا ہے۔’’
(مجموعہ اشتہارات، جلد سوم، صفحہ6)
یہ اشتہار عوام ہی میں نہیں بلکہ حکومتی حلقوں میں بھی کثرت سے تقسیم کروایا گیا۔
وَبا شدت اختیار کرتی گئی۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے قادیان میں ’’جلسہ طاعون‘‘ کے نام سے ایک تقریب منعقد کروانے کا اہتمام فرمایا۔ اس جلسہ میں اپنے متبعین کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں کو بھی شمولیت کی دعوت دی گئی تھی۔
آپ علیہ السلام نے ایک اشتہار کے ذریعہ اس کانفرنس اور اس کے مقاصد کو مشتہر کیا، جو کہ عوام اور حکومتی اربابِ اختیار میں کثرت سےتقسیم کیا گیا۔ اس اشتہار نے ہندوستانی پریس کی بھی توجہ حاصل کی۔ 22؍اپریل1898ءکو شائع ہونے والے اس اشتہار میں اس جلسہ طاعون کے مقاصد کو یوں بیان کیا گیا:
٭… عوام کو حکومت کی جانب سے بیان کردہ احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرنا اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے آمادہ کرنا۔
٭… اجلاس کے شرکاء کے ذریعہ اس پیغام کو اُن لوگوں تک بھی پہنچا نا جو شامل نہیں۔
٭… حکومت کو اس بات کی ترغیب دلانا کہ وہ باوجود عوام کی مزاحمت کے، تمام ضروری اقدامات اٹھائے۔
٭… حکومت کو ترغیب دلاناکہ عوام کو زیادہ آگاہی دی جائے تاکہ یہ اقدامات مؤثر ثابت ہوسکیں۔
٭… اللہ تعالیٰ کے حضور اس وبا کے خاتمہ کی دعا کرنا۔
مورخہ2؍مئی1898ءکوعید الاضحی کے دن، قادیان میں یہ جلسہ طاعون منعقد ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تقریر میں طاعون کی خوف ناک صورت اورگوشہ نشینی اور قرنطینہ کے سلسلہ میں حکومتی اقدامات کے خلاف اُٹھائے گئے اعتراضات کے بارہ میں نصائح بیان فرمائیں۔ آپ ؑنے وہ امور بیان فرمائےجن کی رو سے یہ اقدامات ضروری تھے اور کس طرح یہ اقدامات اس وبا پر قابو پانے میں مدد گار ہو سکتےتھے۔ آپ ؑنے عوام الناس کو تلقین فرمائی کہ وہ حکومتی انتظامیہ کی جانب سے ہر مطالبہ پر عمل پیرا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تقریر کا مرکزی خیال یہ تھا کہ عوام الناس اور حکومتی شخصیات سمیت تمام لوگ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے کی طرف رجو ع کریں، تا وہ انسانیت کو اس وَبا کی تباہ کاریوں سے بچائے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جہاں ایک طرف اس وبا سے بچاؤ کےلیے جسمانی صفائی اہم ہے، وہیں دوسری طرف ہر ایک شخص خود کو اخلاقی، معاشرتی اور روحانی سطح پر بھی پاک کرے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات پر زور دیا کہ کسی ایک شخص، خاندان یا قوم پر ایسی آفات، گناہوں کے نتیجہ میں آتی ہیں۔ نیز یہ کہ اس دنیا میں، طبّی علاج کے مؤثر ہونے کے لیے بھی خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس ’’بہتر ہے کہ اس وقت سب لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں تا انجام بخیر ہو‘‘۔
شیخ رحمت اللہ صاحب نے اس جلسہ کی رپورٹ تیار کی اور پریس اور لیفٹننٹ گورنرپنجاب کو ارسال کردی۔
سول اینڈ ملٹری گزٹ، لاہور نے 10؍جون1898ءکے اپنے شمارے میں اس جلسہ کی کارروائی اور حضرت احمد علیہ السلام کی تقریر کو ان الفاظ میں تحریر کیا:
اس خطاب کا خلاصہ یہ تھا کہ حکومت بیماری کے خاتمے کے اقدامات میں پوری طرح انسانیت کی روح کے تحت عمل کرتی ہے، کیونکہ یہ اقدامات ضروری ہیں۔ یہ کہانیاں کہ حکومت عوام کو زہر آلود کرنا چاہتی ہیں، جھوٹی اور بے بنیاد ہیں اور کسی شخص کو ایسی افواہوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ایسی ایک خطرناک وَبا کی موجودگی میں، عورتوں کا پردہ کے بغیر، گھر سے اس صورت میں نکلنا کہ صرف چہرہ ہی ڈھکا ہوا ہو، کسی بھی صورت میں اسلامی تعلیم کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
یہ رپورٹ موصول ہونے کے بعد لیفٹننٹ گورنر پنجاب کے دفتر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جواب تحریر کیا:
’’مجھے آنجناب لیفٹننٹ گورنر کی طرف سے ہدایت ہے کہ انہوں نے انتہائی مسرت کے ساتھ 2مئی1898کو قادیان میں منعقدہ جلسہ کی کارروائی اور (حضرت)مرزا غلام احمد، رئیس قادیان کی تقریر متعلقہ حکومتی اقدامات بسلسلہ انسدادِ طاعون، دونوں کا مطالعہ کیا ہے۔
آنجناب نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ میں اُن کی طرف سے اس بات کا شکریہ ادا کردوں، کہ آپ کی جماعت نے یہ جلسہ منعقد کر کے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کا اظہار کیا ہے۔
آپ کا فرمانبردار
(دستخط) ایچ۔ جے۔ مینارڈ
جونیئر سیکرٹری، حکومتِ پنجاب‘‘
ستمبر 1898ء میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی، ایڈیٹر اخبار الحکم قادیان نے، اس جلسہ کی کارروائی، کتابی صورت میں بعنوان ’’الانذار‘‘شائع کی، جو کہ عوام اور حکومتی حلقوں میں تقسیم کی گئی۔
اب قدرتی آفات، اُن کا منجانب اللہ ہونا اور اُن سے نجات کے حصول کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات ہندوستان اور انگلستان کی حکومتوں کے علم میں آچکے تھے۔ برطانوی پریس نے آپ علیہ السلام کے عقائد، تنبیہات اور مجوزہ حل کو شائع کرنے کی طرف خاص توجہ کرنی شروع کی۔
عیسائی مبلغین، امرتسر میں ہونے والے ایک عظیم مباحثہ، المعروف جنگِ مقدّس کے دور سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے واقف تھے۔ جہاں آپ ؑنے واضح طور پر عیسائی مبلغین کو شکست دے دی تھی۔ چرچ مشن سوسائٹی کو موصول ہونے والی خفیہ رپورٹس میں آپ ؑکو ’’ایک غیر معمولی انسان‘‘ کے طور پر بیان کیا گیا۔ اور اس بات کا اقرار کیا گیا کہ آپ علیہ السلام نے نہایت ہی عمدہ علمی دلائل پیش کیے، جن کا عیسائی مبلغین نے کبھی سامنا نہیں کیا تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری دور میں، ایک معروف پادری H D Griswoldنے آپؑ پر ایک کتاب تحریر کی، جو کہ اُس نے لندن میں قائم رائل فلاسوفیکل سوسائٹی آف گریٹ برٹن کے سامنے مکمل پڑھ کرپیش کی۔ عنوان تھاThe Messiah of Qadian۔ پادری Griswold نے یہ مسودہ15؍مئی1905ءکو مشہور و معروف علمی شخصیات کی اس مجلس میں پڑھ کر سنایا۔ جس کی صدارت Colonel Thomas Hobein CIE کر رہے تھے۔
اس کتاب کے اختتامی الفاظ خاص طور پر قابلِ توجہ ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں ان آفات کو آخری زمانہ اور قربِ قیامت کی علامات کے طور پربیان کرنے کے بعد Griswold یہ نتیجہ نکالتے ہیں:
’’جس قوت اور جوش و جذبہ کے ساتھ قادیانی مسیحا اپنے کام اور اپنے عقائد کو شائع کرتا ہےاور پھر اس کی تشہیر ہوتی ہے، وہ جوش اور جذبہ ہمارے سر شرمندگی سے جھکا دیتا ہے جن کا کام ہی یہ ہے کہ یسوع مسیح کا نام پھیلایا جائے، جو کہ اس دنیا کے لیے حقیقی مسیح اور نجات دہندہ ہے۔
اور مرزا قادیانی کی طرف سے دورِ حاضر کی اخلاقی اور روحانی برائیوں کا حل بتانا، ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھولیں اور خدا کے حضور یہ دعا کریں کہ اے خدا! یا توتُوخود زمین پر اترآیا پھر اپنے حقیقی مسیح کو بھیج دے۔ نہ یہ کہ ہم شکرگزار ہوجائیں کہ شاید واقعی مسیح آچکا‘‘۔
اس تقریر کے بعد حاضرین میں ایک طویل گفتگو ہوئی، جو کہ ملی جلی کیفیات پر منتج ہوئی۔
حاضرین میں سے سب سے آخر پر J O Corrieنامی ایک شخص کے تاثرات آئے۔ جن کے دوران اس نے یہ اقرار کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی ’’انسانیت کےلیے ایک روحانی رہ نما کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہیں‘‘۔
انہوں نے مجلس سے سوال کیا:
’’کیا مرزا صاحب کے دعاوی اور تنبیہات ایک روحانی پیشوا کی ضرورت کی طرف اشارہ نہیں کرتے؟‘‘
ایک معروف جرمن پادری Julius Richter کے نام سے گزرا ہے۔ وہ مورخ تھا اور عیسائی مشن کی تاریخ لکھنے کے عمل کے دوران ملکوں ملکوں پھرا اور ان گنت پادریوں سے معلومات حاصل کیں۔ Richter نےاپنی کتاب A History of Missions in India میں اپنے مشاہدہ کا خلاصہ بیان کیا ہے۔ اس میں حضرت احمد علیہ السلام کی تعلیمات اور آئندہ آنے والی آفات کے متعلق تنبیہات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
اُس نے اعتراف کیا ہے کہ ’’غلام احمد آف قادیان (علیہ السلام)بہت سے عناصر کا مجموعہ ہے، اس نے اسلامی الہیات (جو اب ایک دلدل سے زیادہ نہیں) کے زیر سایہ نشوونما پائی اور اس کے ساتھ ساتھ عیسائیت کی روشنی اور آفتاب میں نشوونما پائی۔ غلام احمد ایک غیر معمولی انسان ہے۔ وہ بہت ہی ذہانت سے نہایت ہی فصیح و بلیغ اردو، فارسی اور عربی زبانوں میں کتابیں لکھتا ہے۔ اور اپنے الٰہی مقصد کی فتح و کامرانی ثابت کرنے کے لیے اپنے مخالفین کو عربی میں علمی مضامین کا چیلنج دیتا ہے۔
اُس نے نہ صرف تورات اور انجیل کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے، بلکہ انجیلِ برنباس سے بھی بخوبی واقف ہے۔
وہ نہ صرف عیسائی مسیح ہونے کا دعو یدار ہے، جو کہ خدا کے وعدہ کے مطابق آیا ہے۔ بلکہ ساتھ ہی ساتھ وہ موعود مسلمان مہدی ہونے کا بھی دعویٰ رکھتا ہے۔ اس کے لیے جو دلائل پیش کرتا ہے، وہ نہایت غیر معمولی ہیں۔‘‘
Richter نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ دعویٰ صا ف الفاظ میں بیان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپؑ کو ہی اس زمانہ کےلیے بھیجا ہے اور تمام پیش گوئیاں آپؑ ہی کی ذات میں پوری ہونا لازم ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد، آپ کے خلفاء بھی اس دنیا کو وَباؤں، زلزلوں اور دیگر آفات کے متعلق یاددہانی کرواتے رہے، تاکہ خدا کو بھول جانے والی اس دنیا کو ایک بار پھر سے اُس قادر مطلق خدا کی طرف توجہ ہو۔
جب انگلستان کے ایڈورڈشہزادہ ویلز نے1921-1922ء میں ہندوستان کا دورہ کیا، تو حضرت خلیفۃ المسیح ؓنے اُس کوخود تحریر کر کے ایک کتابچہ تحفہ کے طور پر دیا، جس کا عنوان ’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘ تھا۔ اس کتاب کے مضامین اسلامی تعلیمات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کے متعلق تھے۔ آپ ؓ نے فرمایا:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک الہام شائع فرمایا کہ جس میں آئندہ آنے والی بیماریوں اور اُن کے نتیجہ میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارہ میں خبر تھی۔ اور یہ دعویٰ فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ… ایک نئی قسم کی وبا پھیلے گی … کہ جس کے متعلق لوگ پوچھیں گے کہ کیا ہورہا ہے ؟ اور یہ کہ ایک شدید اور خطرناک قسم کی طاعون پھیلے گی، جو ہندوستان اور دیگر ممالک میں بھی پھیلے گی۔ اور انسانوں پرایک دہشت طاری کردے گی۔ اور یہ طاعون خاص طور پر یورپ اور دیگر عیسائی ممالک کو گرفت میں لے گی ‘‘۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اس کتابچہ میں1918ءمیں پھیلنے والے سپینش فلو کو بھی اس پیش گوئی کا مصداق قرار دیااور خبردار کیا کہ اگر اس تنبیہ پر توجہ نہ کی گئی تو، مزید آفات آئیں گی۔
حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب، خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے مورخہ 28؍ جولائی 1967ء کولندن میں ایک تقریب سے خطاب فرمایا جس میں دنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے طور پر نازل ہونے والی وَباؤں اور دیگر آفات کے بارہ میں پیش گوئیوں سے آگاہ فرمایا۔
’’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ، دیگر تمام پیش گوئیوں کی طرح، یہ پیش گوئی بھی، ایک تنبیہ ہے۔ اس کے پورا ہونے میں تاخیر بھی ہوسکتی ہے، یا پھرمکمل طور پر ٹل بھی سکتی ہے، بشرطیکہ انسان اپنے رَبّ کی طرف رجوع کرلے، توبہ کرے اور اپنے اطواربدل لے۔ اگر انسان دولت، طاقت اور شان و شوکت کی صورت میں بنائے گئے جھوٹے خداؤں کی پرستش ترک کر دے، اور قادرِ مطلق خدا کے ساتھ ایک سچا تعلق قائم کر لے، تمام بدیاں چھوڑ دے، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرے، اور انسانیت کی سچی خدمت کرنا سیکھ لے، تو خدا تعالیٰ کا یہ عذاب ٹل سکتا ہے۔ یہ سب کچھ دنیا میں پھیلی تمام اقوام پر منحصر ہے۔ وہ سب اقوام جودولت، طاقت اور شان و شوکت کے نشے میں مخمورہیں۔ ‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے بھی دنیا کو واضح طور پر بتا دیا تھا کہ قدرتی آفات محض حادثہ نہیں، بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان کردہ پیش گوئیوں کا ظہورہے:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وقت سے قبل ہی واضح اور فصیح پیش گوئیوں کے ذریعے انسانیت کو تنبیہ کر دی تھی کہ…اگر دنیا آنحضرت ﷺ کی تعلیمات کے آگے نہیں جھکتی، تو پھر خدا تعالیٰ یکے بعد دیگرے آفات نازل فرمائے گا۔ تاکہ اس دنیا کو اس خوابِ غفلت سے جگائے اور اسے جھنجھوڑے۔ ‘‘
پھر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا دور آیا۔ عین سترہ سال قبل، اپریل2003ء میں، ایک ایسے وقت پر کہ جب حضرت مسیح موعودؑ کی پیش گوئیاں غیر معمولی انداز میں وقوع پذیر ہو رہی تھیں، آپ خلافت کے مقام پر متمکن ہوئے۔ قدرتی آفات پے در پے اس دنیا پر نازل ہورہی تھیں۔ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو تمام دنیا میں قومی اور بین الاقوامی اہمیت کے حامل ایوانوں اورمقتدر اداروں کی جانب سے مدعو کیا جاتا رہا ہے۔ آپ دنیا کے رہ نماؤں سے مخاطب ہوئے اور اُن کو واضح الفاظ میں تنبیہ کرتے رہے کہ دنیا کے رہ نما دنیا کو غلط سمت میں لے کر جارہے ہیں۔ آپ نے ان کو اس کا علاج بھی بارہا بتایا۔ وہی علاج جو حضرت مسیح موعودؑ نے بتایا تھا، یعنی اگر آفات سے بچنا چاہتے ہو، تو واحد و یگانہ خدا کی طرف توجہ کرو۔
’’آج کی اس مادیت پرست دنیا میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے الفاظ پہلے سے بھی کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ لوگ مذہب سے بہت دور جارہے ہیں اورتیزی کے ساتھ مادیت پرست بن رہے ہیں …
ہمیں اس دنیا میں، بڑھتی ہوئی قدرتی آفات کے اس فلسفہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دنیاوی اور مادیت پرست لوگ شاید اس بات کو نہ مانیں یا نہ سمجھیں۔ لیکن ہمیں، احمدی مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔ ہمیں دوسروں کو یہ بتانا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آج سے ایک صدی قبل، ان آفات کی پیش گوئی فرمائی تھی اور ان آفات سے بچاؤ کے لیے واحد راستہ خداتعالیٰ کی طرف توجہ کرنا ہے۔‘‘
پس، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئیاں دنیا کے سامنے موجود تھیں۔ ملکہ برطانیہ، برطانوی حکومت اورانگلستان و امریکہ میں قائم عیسائی مشن اور دیگر مذہبی حلقوں کوبھی ان پیشگوئیوں کا علم تھا۔
ان بااثر حلقوں کے نمائندے آج بھی اُن تقریبات میں شامل ہوتے ہیں کہ جن میں حضرت مرزا مسرور احمد صاحب، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ایک صدی قبل کی تنبیہات کی طرف حاضرین کی توجہ مبذول کرواتے ہیں۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی نصائح اور فرمودات، حضور کی کتاب ’’عالمی بحران اور امن کا راستہ‘‘، سینکڑوں خطباتِ جمعہ اور مختلف اقوام کے ارباب اختیار اور پریس کے ساتھ ہونے والی حضورایدہ اللہ کی سینکڑوں ملاقاتوں میں موجود ہیں۔ جو چاہے استفادہ کرسکتا ہے۔
پس دنیا کی عظیم طاقتوں نے ایک طویل عرصہ تک خدا تعالیٰ کے ایک نذیر کی باتوں کو نظر انداز کیا۔ اُس نے جو پیش گوئی فرمائی، وہ آج بھی ان سب کے سامنے ہے۔ اوروہ تمام آفات شدت کے ساتھ حملہ آور ہیں اور ایک تباہی پھیلا رہی ہیں۔ مگر اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ ابھی بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔
پس جب عالمی طاقتیں ڈاکٹر فاؤچی کی پیش گوئی کی ریکارڈنگز، یونیورسٹی کالج لندن کی Cygnus Exercise اورفلمContagionکا سکرپٹ بند ڈبوں میں سے تلاش کر کے نکالیں، خدا کرے کے انہیں یاد رہے کہ کچھ اور پیش گوئیاں بھی ہیں جنہیں انہوں نے ڈبوں میں بند کر کےبالائے طاق رکھ چھوڑا ہوا ہے۔
یعنی اس نذیر کی باتیں جو اس نذیرؑ نے کھول کھول کر بیان کردیں۔ جن کی یاددہانی آج آپ کے خلیفہ اور جانشین حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ دنیا کو کروارہے ہیں۔
اختتام کرتے ہیں ان مبارک الفاظ پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستادہ حضرت مسیح موعودؑکے سینہ پر نازل فرمائے:
’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ ‘‘
٭…٭…٭