کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

جو دعا کرتا ہے وہ محروم نہیں رہتا

دیکھو تم لوگ کچھ محنت کرکے کھیت تیار کرتے ہو تو فائدہ کی امید ہو تی ہے۔ اسی طرح پر امن کے دن محنت کے لیے ہیں۔ اگر اب خدا کو یاد کرو گے تو اس کامزا پاؤ گے۔ اگرچہ زمینداری اور دنیا کے کاموں کے مقابلہ میںنمازوں میں حاضر ہو نا مشکل معلوم ہوتا ہے اور تہجد کے لیے اَور بھی۔مگر اب اگر اپنے آپ کواس کا عادی کر لوگے۔ توپھر کوئی تکلیف نہ رہے گی۔ اپنی دعائوںمیں طاعون سے محفو ظ رہنے کی دعا ملا لو۔ اگردعائیںکرو گے تو وہ کریم رحیم خدا احسان کرے گا۔

دیکھواب کام تم کرتے ہو۔ اپنی جانوں اور اپنے کنبہ پر رحم ……کرتے ہو۔ بچوں پر تمہیں رحم آتا ہے۔ جس طرح اب ان پر رحم کرتے ہو یہ بھی ایک طر یق ہے کہ نمازوں میں ان کے لیے دعائیں کرو۔ رکوع میں بھی دعا کرو ۔پھر سجدہ میں دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس بلا کو پھیر دے۔ اور عذاب سے محفوظ رکھے۔ جو دعا کرتا ہے وہ محروم نہیں رہتا۔ یہ کبھی ممکن نہیں ہے کہ دعائیں کرنے والا غافل پلید کی طرح مارا جاوے۔ اگر ایسا نہ ہو تو خدا کبھی پہچانا ہی نہ جاوے۔ وہ اپنے صادق بندوں اور غیروں میں امتیاز کر لیتا ہے۔ ایک پکڑا جاتا ہے۔ دوسرا بچایا جاتا ہے۔ غرض ایسا ہی کرو کہ پورے طور پر تم میں سچا اخلاص پیدا ہو جاوے۔

(ملفوظات جلد 3صفحہ266۔ایڈیشن 1984ء)

ایک قریشی صاحب کئی روز سے بیمار ہو کر دار الامان میں حضرت حکیم الامت کے علاج کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے متعدّد مرتبہ حضرت حجۃاﷲ کے حضور دعا کے لیے التجاء کی۔ آپ نے فرمایا : ’’ہم دعا کریں گے‘‘

تیمارداری

10؍اگست کی شام کو اس نے بذریعہ حضرت حکیم الامت التماس کی کہ میں حضور مسیح موعودؑ کی زیارت کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں مگر پائوں کے متورّم ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتا۔ حضرت نے خود 11؍اگست کو اُن کے مکان پر جا کر دیکھنے کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ وعدہ کے ایفاء کے لیے آپ سیر کو نکلتے ہی خدام کے حلقہ میں اس مکان پر پہنچے جہاں وہ فروکش تھے۔ آپ کچھ دیر تک مرض کے عام حالات دریافت فرماتے رہے۔ زاں بعد بطور تبلیغ فرمایا کہ

قبولیتِ دعا کی شرط

میں نے دعا کی ہےمگر اصل بات یہ ہے کہ نری دعائیں کچھ نہیں کر سکتی ہیں۔ جب تک اﷲ تعالیٰ کی مرضی اور امر نہ ہو۔ دیکھو ۔اہلِ حاجت لوگوں کو کس قدر تکالیف ہوتی ہیں ۔مگر حاکم کے ذرا کہہ دینے اور توجہ کرنے سے وہ دور ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح پر اﷲ تعالیٰ کے امر سے سب کچھ ہوتا ہے۔ میں دعا کی قبولیت کو اس وقت محسوس کرتا ہوں جب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے امر اور اِذن ہو۔کیونکہ اس نے اُدْعُوْنِیْ تو کہا ہے مگر اَسْتَجِبْ لَکُمْ بھی ہے۔

یہ ضروری بات ہے کہ بندہ اپنی حالت میں ایک پاک تبدیلی کرے اور اندر ہی اندر خدا تعالیٰ سے صلح کر لے اور یہ معلوم کرے کہ وہ دنیا میں کس غرض کے لیے آیا ہے اور کہاں تک اس غرض کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب تک انسان اﷲ تعالیٰ کو سخت ناراض نہیں کرتا اس وقت تک کسی تکلیف میں مبتلا نہیں ہوتا۔ لیکن اگر انسان تبدیلی کرلے تو خدا تعالیٰ پھر رجوع برحمت کرتا ہے۔ اس وقت طبیب کو بھی سوجھ جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ پر کوئی امر مشکل نہیں بلکہ اس کی تو شان ہے

اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ( یٰسٓ: 83)۔

ایک بار میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک ڈپٹی انسپکٹر پنسل سے ناخن کامیل نکال رہا تھاجس سے اس کا ہاتھ ورم کر گیا۔ آخر ڈاکٹر نے ہاتھ کاٹنے کامشورہ دیا۔ اس نے معمولی بات سمجھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہلاک ہو گیا۔ اسی طرح ایک دفعہ میں نے پنسل کو ناخن سے بنایا۔ دوسرے دن جب میں سیر کو گیا تو مجھے اس ڈپٹی انسپکٹر کا خیال آیا اور ساتھ ہی میرا ہاتھ ورم کر گیا۔ میں نے اسی وقت دعا کی اور الہام ہوا ۔اور پھر دیکھا تو ہاتھ بالکل درست تھا ۔اور کوئی ورم یا تکلیف نہ تھی۔ غرض بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جب اپنا فضل کرتا ہے تو کوئی تکلیف باقی نہیں رہتی ۔مگر اس کے لیے ضروری شرط ہے کہ انسان اپنے اندر تبدیلی کرے۔ پھر جس کو وہ دیکھتا ہے کہ یہ نافع وجود ہے تو اس کی زندگی میں ترقی دے دیتا ہے۔ ہماری کتاب میں اس کی بابت صاف لکھا ہے

وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ (الرّعد : 18)

ایسا ہی پہلی کتابوں سے پایا جاتا ہے۔ حزقیل نبی کی کتاب میں بھی درج ہے۔

انسان بہت بڑے کام کے لیے بھیجا گیا ہے لیکن جب وقت آتا ہے اور وہ اس کام کو پورا نہیں کرتا تو خدا اس کا تمام کام کر دیتا ہے۔ خادم کو ہی دیکھ لو کہ جب وہ ٹھیک کام نہیں کرتا تو آقا اس کو الگ کر دیتا ہے پھر خدا تعالیٰ اس وجود کو کیونکر قائم رکھے جو اپنے فرض کو ادا نہیں کرتا۔

ہمارے مرزا صاحب(حضرت اقدسؑ کے والد صاحب مرحوم و مغفور) پچاس برس تک علاج کرتے رہے۔ اُن کا قول تھا کہ اُن کو کوئی حکمی نسخہ نہیں ملا۔ سچ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے اذن کے بغیر ہر ایک ذرہ جو انسان کے اندر جاتا ہے کبھی مفید نہیں ہو سکتا۔ توبہ واستغفار بہت کرنی چاہیے تا خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے۔ جب خدا تعالیٰ کا فضل آتا ہے تو دعا بھی قبول ہوتی ہے۔ خدا نے یہی فرمایا ہے کہ دعا قبول کروں گا اور کبھی کہا کہ میری قضاء و قدر مانو۔ اس لیے میں تو جب تک اذن نہ ہو لے کم امید قبولیت کی کرتا ہوں۔ بندہ نہایت ہی ناتواں اور بے بس ہے۔ پس خدا کے فضل پر نگاہ رکھنی چاہیے۔

(ملفوظات جلد3صفحہ317تا319۔ایڈیشن 1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button