عفو و درگذر سے کام لو اور کسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ
چوتھی شرط بیعت(حصہ دوم)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
عفو و درگذر سے کام لو
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایصال خیر کی اقسام کے بیان میں دوسری قسم ان اخلاق کی جو ایصال خیر سے تعلق رکھتے ہیں کے متعلق فرماتے ہیں:
’’پہلا خلق ان میں سے عفوہے ۔ یعنی کسی کے گناہ کو بخش دینا ۔اس میں ایصال خیر یہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے وہ ایک ضرر پہنچاتا ہے اور اس لائق ہوتا ہے کہ اس کوبھی ضرر پہنچایا جائے سزا دلائی جائے، قید کرایا جائے ،جرمانہ کرایا جائے یا آپ ہی اس پر ہاتھ اُٹھایا جائے ۔پس اس کو بخش دینا اگر بخش دینا مناسب ہو تو اُس کے حق میں ایصال خیر ہے۔ اس میں قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے
وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ(آل عمران:135)۔ وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ (الشوریٰ:41)
یعنی نیک آدمی وہ ہیں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہیں اور بخشنے کے محل پر گناہ کو بخشتے ہیں بدی کی جزا اُس قدر بدی ہے جوکی گئی ہو لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقع پر گناہ کو بخش دے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو یعنی عین عفو کے محل پر ہو ،نہ غیر محل پر تو اس کا وہ بدلہ پائے گا ‘‘۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی ۔روحانی خزائن۔ جلد نمبر10۔صفحہ351)
ایک بڑی مشہور حدیث ہے۔ اکثر نے سنی ہوگی جس میں آنحضرت ﷺ اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تقویٰ یہاں ہے یعنی حقیقی اور بے مثال تقویٰ اگر کہیں ہو سکتا ہے تووہ صرف او رصرف آپﷺ کا دل صافی ہے اس دل میں سوائے تقویٰ کے کچھ اور ہے ہی نہیں۔
پس اے لوگو !اے مومنوں کی جماعت! تمہارے لئے ہمیشہ یہ حکم ہے کہ تم نے جس اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنا ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ٔحسنہ ہے۔ پس اپنے دلوں کو ٹٹولو۔ کیا تم دل میں اُس اُسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو تقویٰ سے بھرنے کی کوشش کر رہے ہو؟ کیا تمہارے اندر بھی اللہ کاخوف اُس کی خشیت اور اُس کے نتیجہ میں اُس کی مخلوق کی ہمدردی اور خیرخواہی ہے۔
اب میں پوری حدیث بیان کرتا ہوں جو یوں ہے :
حضرت ابوہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آپس میں حسد نہ کرو۔ آپس میں نہ جھگڑو۔ آپس میں بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے دشمنیاں مت رکھو اور تم میں سے کوئی ایک دوسرے کے سودے پہ سودا نہ کرے ۔اے اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جائو مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔وہ اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا ۔اُسے ذلیل نہیں کرتا اور اُسے حقیر نہیں جانتا پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا:
اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا
یعنی تقویٰ یہاں ہے۔ کسی آدمی کے شر کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔
(صحیح مسلم۔ کتاب البر والصِّلۃ۔باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ…الخ)
کسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ
چوتھی شرط میں یہ بیان ہے کہ نہ ہاتھ سے نہ زبان سے نہ کسی بھی طرح سے کسی کو تکلیف نہیں دینی۔ اس شرط کو مزید کھولتا ہوں۔یہ جو حدیث میں نے پڑھی ہے اس میں سے اس کو سامنے رکھیں فرمایا ’’ حسد نہ کرو‘‘ اب حسد ایک ایسی چیز ہے جو آخر کار بڑھتے بڑھتے دشمنی تک چلی جاتی ہے اس حسد کی وجہ سے ہر وقت دل میں جس سے حسد ہو اس کو نقصان پہنچانے کا خیال رہتا ہے ۔پھر حسد ایک ایسی چیز ہے، ایک ایسی بیماری ہے جس سے دوسرے کو تو جو نقصان پہنچتا ہے وہ تو ہے ہی، حسد کرنے والا خود بھی اس آگ میں جلتا رہتا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو حسد پیدا کر رہی ہوتی ہیں کہ فلاں کا کاروبار کیوں اچھا ہے۔ فلاں کے پاس پیسہ میرے سے زیادہ ہے ۔فلاں کا گھر میرے سے اچھا ہے۔ فلاں کے بچے زیادہ لائق ہیں۔ عورتوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ فلاں کے پاس زیور اچھا ہے تو حسد شروع ہوگیا پھر اور تو اور دین کے معاملے میں جہاں نیکی کو دیکھ کر رشک آنا چاہئے۔ خود بھی کوشش ہونی چاہئے کہ ہم بھی آگے بڑھ کر دین کے خادم بنیں۔ اس کے بجائے خدمت کرنے والوں کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح شکایات لگاکر اس کو بھی دین کی خدمت سے محروم کردیا جائے۔
پھر اس حدیث میں آیا ہے کہ جھگڑنا نہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں اور لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں مثلاً چھوٹی سی بات ہے کسی ڈیوٹی والے نے کسی بچے کو جلسہ کے دوران ا ُس کی مسلسل شرارتوں کی وجہ سے ذرا سختی سے روک دیا یا تنبیہ کی کہ اب اگر تم نے ایسا کیا تو میں سختی کروں گا سزا دوں گا تو قریب بیٹھے ہوئے ماں یا باپ فوراً بازو چڑھا لیتے ہیں اور یہ تجربہ میں آئی ہیں باتیں اور اس ڈیوٹی والے بیچارے کی ایسی مٹی پلید کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔ اب تمہاری اس حرکت سے جہاں تم نے عہد بیعت کو توڑا اپنے اخلاق خراب کئے وہاں اپنی نئی نسل کے دل سے بھی نظام کا احترام ختم کردیا اور اس کے دماغ سے بھی صحیح اور غلط کی پہچان ختم کردی۔
پھر فرمایادشمنیاں مت رکھو۔ اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر دشمنیاں شروع ہوجاتی ہیں دل کینوں اور نفرتوں سے بھر جاتے ہیں ۔تاک میں ہوتے ہیں کہ کبھی مجھے موقعہ ملے اور میں اپنی دشمنی کا بدلہ لوں حالانکہ حکم تو یہ ہے کہ کسی سے دشمنی نہ رکھو، بغض نہ رکھو۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے آنحضرتﷺ سے عرض کی ایسی مختصر بات بتائیں ۔ نصیحت کریں جو میں بھول نہ جائوں آپ ؐ نے فرمایا غصے سے اجتناب کرو۔ پھر آنحضرتؐ نے دوبارہ فرمایا ’’ غصے سے اجتناب کرو‘‘۔ تو جب غصے سے اجتناب کرنے کو ہر وقت ذہن میں رکھیں گے تو بغض اور کینےخود بخود ختم ہوتے چلے جائیں گے پھر ایک عادت کسی کو نقصان پہنچانے کی تکلیف پہنچانے کی یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح خراب کرنے کے لئے کسی کے کئے ہوئے سودے پر سودا کرے۔ اس حدیث میں اس سے بھی منع فرمایا ہے ۔ زیادہ قیمت دےکرصرف اس غرض سے کہ دوسرے کا سودا خراب ہوچیز لینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ کوئی ذاتی فائدہ اس سے نہیں ہو رہا، یہاں یہ بھی بتادوں کہ کسی کے رشتے کے لئے بھیجے ہوئے پیغام پر پیغام بھی اس زمرے میں آتا ہے او ریہ بھی منع ہے اس لئے احمدیوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔
پھر فرمایا کہ ظلم نہیں کرنا۔ کسی کو حقیر نہیں سمجھنا۔ کسی کو ذلیل نہیں کرنا ۔ ظالم کبھی خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل نہیں کرسکتا تویہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو آپ خدا کی خوشنودی کی خاطر بیعت کرکے زمانہ کے مامور من اللہ کو مان رہے ہوں اور دوسری طرف ظلم سے لوگوں کے حقوق پر قبضہ کر رہے ہوں ۔ بھائیوں کو ان کے حق نہ دیں بہنوں کو اُن کی جائیدادوں میں سے حصہ نہ دیں صرف اس لئے کہ بہن کی شادی دوسرے خاندان میں ہوئی ہے ہماری جدی پشتی جائیداد دوسرے خاندانوں میں نہ چلی جائے یہ دیہاتوں میں عام رواج ہے تو بیویوں پر ظلم کرنے والے ہوں اُن کے حقوق کا خیال نہ رکھنے والے ہوں۔ بیویاں خاوند کے حقوق کا خیال نہ رکھنے والی ہوں تو روز مرہ کے معاملات میں بہت سی ایسی باتیں نکل آئیں گی جو ظلم کے زمرے میں آتی ہیں۔ تو بہت سی ایسی باتیں سرزد ہو جاتی ہیں۔ جن سے محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے کو حقیر سمجھ رہے ہیںیا دوسرے کو ذلیل سمجھ رہے ہیں تو ایک طرف تو بیعت کا دعویٰ کرنا تمام برائیوں کو چھوڑنے کا عہد کرنا اور دوسرے یہ حرکتیں ۔
(باقی آئندہ)