پاؤں کی تکالیف
چلنے پھرنے کی سکت ہر فرد میں مختلف ہوتی ہے۔ ایک دکان دار اور خاتونِ خانہ بآسانی روزانہ دس میل اپنی دکان اور گھر کے اندر چل پھر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اپنی کرسی سے نہ اٹھنے والا فرد تمام دن میں مشکل سے ایک میل کا فاصلہ طے کر سکے گا۔
قدرت نے پائوں کی ہڈیوں کو کاریگرانہ تناسب عطا کیا ہے،تاکہ پائوںکو جو دھکے لگتے ہیں اور انہیں جن نشیب و فراز سے گزرنا پڑتا ہے وہ اسی تناسب کے طفیل بآسانی برداشت کیے جا سکیں۔ 200 پونڈ وزن رکھنے والے فرد کا بوجھ،جو پائوںبرداشت کرتے ہیں،وہ دراصل ان پائوں کا ایک تہائی مربع فیٹ رقبہ ہوتا ہے۔ سالہا سال تک رات دن یہ پائوں اس بوجھ کو برداشت کرتے اور چلنے کے دوران سہارا دیتے ہیں۔ بعض افراد کے لیے ایک دن ایسا آتا ہے،جب اس بوجھ کو برداشت کرنا ان کی قوت سے باہر ہو جاتا ہے،یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جو افراد اپنے پائوں کی تکلیف کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے،ان کو جسم کے دیگر مقامات پر بھی تکالیف شروع ہو جاتی ہیں،یعنی ایک تو ان کی ٹانگوں کے پٹھوں کو ضرر پہنچتا ہے اور دوسرے ان کے پٹھوں کے خون کی رسد متاثر ہوتی ہے،اس کے علاوہ یہ افرادمستقل کمر میں درد کی شکایت بھی کرتے ہیں۔
پائوں خراب ہونے کی سب سے عام وجہ نا مناسب اور تنگ جوتے ہیں۔ اگر ہموار جگہ پر ننگے پائوں چلا جائے تو جسم کا وزن ایڑیوں اور تلووں کی ان نرم گدیوں پر پڑتا ہے،جو انگوٹھوں اور انگلیوں کے عقب میں ہیں البتہ انگلیاں پھیل کر سہا را دیتی ہیں۔
اگر پائوں تنگ جوتوں میں پھنسا ہو یا جوتے کی نوک تنگ ہو تو پائوں کی قدرتی حرکت میں رکاوٹ ہوتی ہے اور پائوں درد کرنے لگتے ہیں۔ چنانچہ پائوں کی تین چوتھائی تکالیف کی وجہ تکلیف دہ اور نا مناسب جوتے ہیں۔ جوتے کی اندرونی تنگی اور سختی کی وجہ سے پائوں میں گٹّے بن جاتے ہیں۔ ان تکالیف کا آغاز بچپن ہی سے ہونے لگتا ہے،اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کے جوتے ہلکے، نرم،لچک دار،اندر سے کشادہ اور پائوں کو سہارا دینے والے ہوں۔ بچوں کو ایک دوسرے کے جوتے نہیں پہنائے جائیں،کیونکہ ہر بچے کے پائوں کی شکل اور ساخت مختلف ہوتی ہے۔ تنگ موزے بھی انگلیوں پر دبائو ڈال کر یہی خرابیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ تنگ جوتوں سے پائوں میں بل پڑتے ہیں اور پائوں ٹھنڈے محسوس ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ نیلگوں اور بد شکل دکھائی دے سکتے ہیں،ٹخنے پھُولے پھُولے سے ہو جاتے ہیں اور ان سب کا سبب تنگ جوتوں کی وجہ سے خون کی رسد میں کمی ہے۔
پائوں میں تکلیف کی ایک وجہ اونچی ایڑھی کے جوتے ہیں،جن سے جسم کا وزن آگے کی طرف انگلیوں،انگوٹھوں اور اُن کی نرم گدیوں پر پڑتا ہے۔ نتیجۃًان جگہوں (پنڈلی و ٹخنے ) کے عضلات کمزور ہو جاتے ہیں۔ جو خواتین اس طرح کے جوتے پہنتی ہیں وہ اکثر خود بھی تکلیف میں ہوتی ہیں اور چلتی بھی غلط طرح سے ہیں،کیونکہ نہ تو ان کا انداز خرام اور کھڑے ہونے کا ڈھب ٹھیک ہوتا ہے، نہ توازن باقی رہتا ہے،جسم آگے کی طرف گرا پڑتا ہے اور کندھوں کے عضلات ڈھیلے ہو جاتے ہیں۔
ان تکالیف کا مداوا صرف اس طرح ہو سکتا ہے کہ پائوں میں صحیح طرح سے آنے والے جوتے پہنے جائیں،جو نہ تنگ ہوں اور جن کا اندرونی خول نرم ہو اور ان میں مناسب وسعت ہو،تاکہ انگلیاں بآسانی پھیل سکیں اور چلنے میں کوئی تکلیف یا قباحت نہ ہو۔
ہر چند کہ پائوں کا ہر وقت چلنے پھرنے کا کام ہے،مگر پھر بھی پائوں کی ورزشوں سے فائدہ ہوتا ہے۔ پنسل کی لمبائی کو پائوں کی انگلیوں میں پکڑ کر اسے اٹھانے سے پٹھے مضبوط ہو جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں جوتے اتار کر انگلیوں کو آگے پیچھے ہلائیں،اسی طرح ٹخنوں کو موڑیں اور پائوں کو حرکت دیں۔ ان سے پائوں کا دورانِ خون بہتر ہوتا ہے اور تھکن کم ہو جاتی ہے۔
پائوں کی انگلیوں کو ان کے جوڑوں پر کئی دفعہ اوپر نیچے کریں،کوئی سہارا لے کر ننگے پیر اپنی انگلیوں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں۔ ایک ایک پائوں فرش سے اوپر اٹھا کر اس کے ٹخنے کو مختلف جانب میں حرکت دیں،یہی عمل دوسرے پائوں سے کریں۔ اس طرح دوران ِ خون میں حرکت آتی ہے اور پٹھے و جوڑ مضبوط ہوتے ہیں۔
سب سے اچھی ورزش چلنا ہے،خصوصاً کھلی ہوا میں۔ ورزش کے بعد اپنے پائوں ایسے اونچے اسٹول پر ٹکائیں کہ بوجھ پائوں پر نہ رہے۔ پائوں کی کھال نرم اور چکنی رکھنے کے لیے غسل کے بعد نیم گرم روغنِ زیتون کی مالش مفید ہے۔
(مرسلہ امۃ الرؤوف ورک، جرمنی، ہمدرد صحت،اکتوبر2018ء،صفحہ9،8)
جاکم اللہ مفید انفارمیشن ہے۔