جھوٹ کے جواز کےتازہ فتویٰ کی صدائے بازگشت (قسط اوّل)
سچائی کا معیار
کسی انسان کے صدق و کذب کا بنیادی معیار یہ ہے کہ اسے سچائی سے کتنی محبت اورجھوٹ سے کتنی نفرت ہے، اگر ایک شخص جھوٹ کو مردار اور نجس کی طرح حرام سمجھتا ہے تو اس کے سچ اور حق پر ہونے کا دعویٰ زیادہ قابل غوروتوجہ ہے اس کے مقابل پر وہ شخص جس کے مسلک اور عقیدہ کے مطابق جھوٹ بولنا ایک دینی حق اور شرعی ضرورت ہوایسے شخص کی سچائی پر کوئی صاحب عقل و بصیرت کیسے اعتبار کرے گا۔ جھوٹ کے جوازکے بارہ میں کچھ ایسا ہی افسوس ناک فتویٰ بعض علمائے دورِحاضر کا ہے۔ جیساکہ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک معروف عالم دین انجینئرمحمد علی مرزا کی جھوٹ کے جائز ہونےکی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک طرف انہوں نےبڑے دھڑلے سےقرآن شریف سے تقیہ کی صورت میں جھوٹ بولنےکا جواز ثابت کرنے کی سعی کی تودوسری طرف حدیث رسولؐ سےتین مواقع پرجھوٹ بولنے کے حق میں ثبوت پیش کرتےرہے۔
اہل تشیع اور تقیّہ
اہل تشیع حضرات تو پہلے ہی بڑی شدّومد سے تقیہ (اخفاء) کے کھلم کھلا قائل ہیں بلکہ ان کے دین کے دس حصوں میں سے نو حصے تقیہ پر مشتمل ہیں۔
چنانچہ ابن ابی عمیر ہشام بن سالم سے اور وہ ابوعمر اعجمی سے بیان کرتے ہیں کہ ’’ابوعبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابو عمر! دین کے دس حصوں میں سے نو حصے تقیہ میں ہیں اور جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے۔ تقیہ ہرچیز میں جائز ہے سوائے نبیذاور موزوں پر مسح کے بارہ میں۔ ‘‘
(الكافی الكلینی جزء 2صفحہ 313)
اس میدان میں وہ اکیلے نہیں، علمائےاہل سنت اور خصوصاًمسلک دیوبندکی مکمل تائید ان کو حاصل ہے۔کیونکہ ان سب کے یہ تائیدی فتاویٰ ریکارڈ پر ہیں کہ حسب ضرورت جھوٹ بولناشرعاً جائز ہے۔
علمائے اہل سنت کا فتویٰ
چنانچہ مشہوردیوبندی عالم مولوی اشرف علی تھانوی کافتویٰ ملاحظہ ہو کہ
’’ضرر سے بچنے کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے۔ ‘‘
(الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ ملفوظات مولوی اشرف علی تھانوی جلد8صفحہ264)
اسی طرح مولوی رشید احمد گنگوہی نےبھی یہ عجیب وغریب فتویٰ صادرکردیا کہ
’’احیاء حق کے واسطے کذب درست ہے مگر تاحد امکان تعریض سے کام لیوے اگر ناچار ہوتو کذب صریح بولے ورنہ احتراز رکھے۔ فقط۔ ‘‘ (فتاویٰ رشیدیہ کامل صفحہ559)
علامہ ابو الاعلیٰ مودودی صاحب تویہاں تک لکھتے ہیں کہ
’’جھوٹ بولنا تین مواقع پر جائز ہے لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے، جنگ کے اندر، بیوی کے سامنے اس کی اصلاح کے پیش نظر۔ اس جھوٹ سے مراد بھی کذب صریح نہیں ہے بلکہ توریہ اور کنایہ سے کام لیا جانا چاہیے۔ یہ قول بھی منقول ہے کہ کسی حق کو زندہ کرنے کے لیے یا کسی ظلم کو دفع کرنے کے لیے بھی کذب مباح ہے بلکہ اگر کسی شخص کو یہ یقین ہوجائے کہ ظلم سے اس کی نجات صرف جھوٹ بولنے سے ہی ہوسکتی ہے تو اس کے لیے کھلا کھلا جھوٹ بول دینا بھی جائز ہےحتی کہ بعض صورتوں میں تو اس کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہوگا۔ ‘‘
(ترجمان القرآن 1970ء، شریعت اسلامی کے بنیادی ضابطےجلد3 صفحہ308)
ہمارے نزدیک جھوٹ کے اس جواز کا کھلم کھلاابلاغ و اظہار ہی اپنی ذات میں قیامت کی ایک نشانی ہے بلکہ اسلام کی اس پاکیزہ تعلیم پر ایک بہت بڑا داغ ہے جو صرف اور صرف سچائی اور راستی کا علمبردار ہے۔
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کی رہ نمائی
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے دورحاضر میں اپنے ماننے والوں کو اسلام کا جو شعوردیا اس کے مطابق قرآن شریف خدا کا وہ برحق کلام ہے جس کے اول مخاطب رسول اللہﷺ تھےجنہوں نے اس پر عمل کرکے دکھایااور قرآن شریف اور رسول اللہﷺ کی سنت میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس لیے فرمایا:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الأحزاب :22)
یقىناً تمہارے لئے اللہ کے رسول مىں نىک نمونہ ہے۔ اور رسول اللہﷺ کا اسوۂ حسنہ یہ تھا کہ آپؐ نے کبھی مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولا بلکہ دعویٔ نبوت سے بھی قبل آپؐ کی راستبازی اتنی معروف و مشہور تھی کہ اہل مکہ آپ کو صدوق و امین کے نام سے یاد کرتے اورکوہ صفا پر ان سب نے یہ گواہی دی تھی کہ
مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا
یعنی ہماری گواہی اور تجربہ آپؐ کے بارے میں سچائی کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے برگزیدہ وجود اور اس پر نازل ہونے والے کلام قرآن شریف پریہ الزام کہ وہ جھوٹ بولنے کی اجازت دیتا ہے۔
سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ۔
سبحان اللہ! یہ قرآن اور رسولِ اسلام پر کتنا بڑا بہتان ہے۔
جھوٹ سے بچنے کی اسلامی تعلیم
جماعت احمدیہ کے عقیدہ کے مطابق قرآن شریف وہ سچا کلام ہے جو
’’لَعْنَةَ اللّٰهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ‘‘(آل عمران: 62)
کے ذریعہ اپنےمدمقابل تمام جھوٹوں پرخدا کی لعنت ڈالتاہے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نےجھوٹ سے بچنے کاحکم دیتے ہوئےیہ واضح ارشادفرمایاہے:
فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّورِ (الحج: 31)
یعنی بتوں کی پرستش، شرک کی پلیدی اور جھوٹ سے بچو۔ اس آیت میں شرک کی نجاست اور جھوٹ کوبرابر کے گناہ قرار دیاہے۔ رسول اللہﷺ نے بھی شرک اور جھوٹ دونوں کو ایک ساتھ رکھ کرکبیرہ گناہوں میں شامل کیا۔ آپﷺ نے ایک موقع پرفرمایا کہ کبائر یعنی بڑے گناہ تین ہیں اول شرک، دوسرے والدین کی نافرمانی، پھرآپ جولیٹے ہوئے تھے اٹھ کر بیٹھ گئے اور تین مرتبہ نہایت جوش سےآپؐ نےفرمایا:
أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ
یعنی سنو!جھوٹی بات سے بچو، جھوٹ سے بچو، جھوٹ سے بچو!
(بخاری کتاب الادب بَابٌ عُقُوقُ الوَالِدَيْنِ مِنَ الكَبَائِرِ)
اسی طرح ہمارے آقاومطاع رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سچائی نیکی کی طرف ہدایت کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف اورجو انسان ہمیشہ سچ بولے وہ اللہ کے نزدیک ’’صدیق‘‘ لکھاجاتا ہے اور جھوٹ گناہ اور فسق وفجور کی طرف لےجاتا ہےاور فسق و فجور جہنم کی طرف۔ اور جو آدمی ہمیشہ جھوٹ بولے وہ اللہ کے ہاں ’’کذّاب‘‘لکھا جاتا ہے۔
(بخاری کتاب الادب باب قول اللہ اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین)
اسی طرح رسول کریمﷺ نے سچے اور خالص ایمان کی یہ نشانی بیان فرمائی کہ وہ جھوٹ کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا۔
چنانچہ حضرت صفوان بن سلیمؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا مومن بزدل یابخیل ہوسکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:ہاں۔ پھر پوچھا کہ کیا مومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔
(مؤطا مالك کتاب الجامع باب ما جاء في الصدق والكذب)
پھر رسول اللہﷺ نے ماہ رمضان میں روزہ رکھنے والے کے بارہ میں فرمایا کہ
’’اگر وہ جھوٹ اور اس کے کاروبار کو نہیں چھوڑتا تو اللہ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔ ‘‘
(بخاری کتاب الصوم بَابُ مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ، وَالْعَمَلَ بِهِ فِي الصَّوْمِ)
جھوٹ کی شناعت اورممانعت پر مشتمل اس واضح اسلامی تعلیم کے باوجودکیا یہ ممکن ہے کہ بانیٔ اسلامﷺ نے توریہ یا تقیہ کے رنگ میں بھی جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہو۔ ناممکن! آپﷺ نے تودوغلے شخص کے بارہ میں فرمایا کہ وہ شخص بہت ہی بُرا ہے جس کے دو چہرے ہوں۔ یعنی ظاہر کچھ ہواور باطن کچھ۔
(بخاری کتاب الاحکام بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ ثَنَاءِ السُّلْطَانِ، وَإِذَا خَرَجَ قَالَ غَيْرَ ذَالِكَ)
پس اصل بات چھپاکر کوئی اور مفہوم بیان کرناجھوٹ ہےاور قرآنی حکم کےخلاف ہے۔
سچائی کے بارہ میں قرآنی تعلیم
اللہ تعالیٰ توسچائی سےبھی بڑھ کر صاف اور سیدھی بات کہنے کاحکم دیتاہے۔ فرمایا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا۔ یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا (الأحزاب 71-72)
ترجمہ:اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! اللہ کا تقوىٰ اختىار کرو اور صاف سىدھى بات کىا کرو۔ وہ تمہارے لئے تمہارے اعمال کى اصلاح کر دے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور جو بھى اللہ اور اس کے رسول کى اطاعت کرے تو ىقىناً اُس نے اىک بڑى کامىابى کو پالىا۔
پھرقرآن شریف نے جھوٹوں کا ساتھ چھوڑ کر سچوں کی معیت اختیار کرنےکی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِيْنَ (التوبة: 119)
اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! اللہ کا تقوىٰ اختىار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
صدق وسدادکی ایسی واضح تعلیم کے بعد قرآن سے جھوٹ بولنے کی اجازت ایک واضح تضاد ہوگااور اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے:
وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (النساء: 83)
اگر وہ(قرآن) اللہ کے سوا کسى اور کى طرف سے ہوتا تو وہ ضرور اس مىں بہت اختلاف پاتے۔
پس قرآن میں بھی دومتضاد حکم جمع نہیں ہوسکتے۔ اس کے باوجودقرآن جیسی کتاب برحق سے جھوٹ بولنے کے فتویٰ کا استنباط محض ایک الزام کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔
جھوٹ کے جواز کا ردّ
جھوٹ کے جواز کے قائلین اپنے حق میں قرآن سےجو دلیل پیش کرتے ہیں جیساکہ انجینئر محمد علی صاحب نے ان کی وکالت میں پیش کی، ان میں ایک یہ آیت ہے:
لَا یَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡکٰفِرِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَلَیۡسَ مِنَ اللّٰہِ فِیۡ شَیۡءٍ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡہُمۡ تُقٰٮۃً ؕ وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفۡسَہٗ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ الۡمَصِیۡرُ (آل عمران :29)
مومن، مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ پکڑىں اور جو کوئى اىسا کرے گا تو وہ اللہ سے بالکل کوئى تعلق نہىں رکھتا سوائے اس کے کہ تم ان سے پورى طرح محتاط رہو اور اللہ تمہىں اپنے آپ سے خبردار کرتا ہے اور اللہ ہى کى طرف لَوٹ کر جانا ہے۔
آپ نے دیکھا کہ سچائی کی واضح تعلیم کی طرح اس آیت میں جھوٹ کی کوئی واضح اجازت نہیں سوائے اس کے کہ تکلف سے کوئی تاویل دوسری آیات قرآنی کے خلاف کی جائے جیساکہ بعض مفسرین نے اس آیت سے کفار کی طرف سے کسی خوف کے پیش نظر اس سے بچنے کے لیے کوئی حیلہ کرنے کے معنے بھی کیے ہیں امام رازی نے اس آیت کی تفسیر میں تقیہ کامشروط استدلال کرتے ہوئے یہ صراحت کی ہے کہ
’’اظہار دوستی و دشمنی کی حد تک اور بعض دفعہ دین کے غلبہ کی خاطرتقیہ(یعنی کوئی بات چھپانا)جائز ہے مگر ایسا تقیہ(بات چھپائی) جس کا نقصان کسی دوسرے کو قتل کرنا، زنا، غصب مال یا جھوٹی گواہی، پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانے سے ہو ہر گز جائز نہیں۔ ‘‘
(تفسیر کبیر للرازی جزء 8صفحہ194)
جھوٹ بولنے کے قائل علماء نےتفسیر کایہ ایک کمزور پہلو تو سچ کے متعلق قرآنی آیات کے باوجودتقیہ کے حوالے سے فوراً قبول کرلیالیکن حضرت معاذ بن جبلؓ جیسے صحابہ اور بعض تابعی مفسرین مجاہد وغیرہ کے ان اقوال کی طرف توجہ نہیں کی کہ تقیہ ابتدائے اسلام کی کمزوری کے وقت کی عارضی رخصت تھی۔ اسلام کی شوکت کے بعد یہ جائز نہیں۔ اسی طرح مشہور مفسرمجاہدکے نزدیک
إِلَّا أَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقَاةً
سے مرادمعاندکفار سےقطع رحمی سے بچنا ہے جبکہ دنیوی معاملات میں ان سے حسن معاشرت کاہی حکم ہے۔
(بحر المحیط فی التفسیر جزء 3 صفحہ93)
مزیدبرآں مشہور فقیہ اورمفسرابن عطیّہ اندلسی (متوفی:541ھ) نے اس آیت کےیہ معنے کیے کہ اللہ تعالیٰ کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جیساکہ اس کا حق ہے اور جو متقیوں کو کرنا چاہیے جواُن پر واجب و ثابت ہے۔
(بحر المحیط جزء3 صفحہ285)
الغرض آیت کے الفاظ
إِلَّا أَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقَاةً (آل عمران 29)
سےجھوٹ کے جواز کی دلیل لینا درست نہیں کیونکہ ’’ تقاة‘‘ تقویٰ مصدرسے ہےاوریہ مفعول مطلق کے طور پریہاں بغرض تاکید آیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ مومنوں کے علاوہ معاند کافروں میں سے کسی کو دوست بنانے کے لیے تمہارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ تم مکمل طور پران کی گہری دوستی سے قطعی پرہیز کرو۔
جیساکہ اس آیت کےسیاق و سباق سے ظاہر ہے کہ اس آیت کے پہلے حصہ میں کافروں کودوست بنانےکی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ جو ایسا کرے گا، اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں سوائے اس کے کہ وہ کامل تقویٰ اختیارکرے۔ آیت کے بعد والےحصہ میں بھی کافروں کو دلی دوست بنانے کے دوغلے پن کی نفی کرتے ہوئے فرمایا:
وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهُ(آل عمران: 29)
یعنی اللہ اپنی ذات کا خوف دلا کر تمہیں ڈراتا ہے کہ تم مومن ہوتے ہوئے معاند کافروں سے دوستی رکھ کر خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے کیسے بچ سکتے ہو۔
انجینئر صاحب موصوف نے عملاًعلمائے دیوبند اور بعض اہل سنت کی وکالت کرتے ہوئےبوقت ضرورت جھوٹ بولنے کی دلیل کے طور پر دوسری آیت یہ پیش کی ہے کہ
مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ(النحل : 107)
جس کا مطلب ہے کہ جو بھى اپنے اىمان لانے کے بعد اللہ کا انکار کرے سوائے اس کے کہ جو مجبور کر دىا گىا ہو حالانکہ اس کا دل اىمان پر مطمئن ہو (وہ برى الذمہ ہے)۔ اس پر سوائے اس کے کیا کہاجائے کہ
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہمارےنزدیک اس آیت سےبطورتوریہ کلمہ کفرکہنے کا جواز نہیں البتہ یہ استنباط ہوتا ہے کہ جبرواکراہ سے جھوٹ پر مجبور کیا جائے تو وہ فی الحقیقت جھوٹ نہیں کہلاسکتا۔ تلوار یا بندوق کی گولی پر جو جھوٹ مجبوراً بلوایا جائے وہ ہرگز جھوٹ کے زمرہ میں نہیں آئے گا۔ پس اس آیت سے بھی توریہ یا جھوٹ مراد لینا ایک غلط فہمی اور ایمانی کمزوری ہے۔
حضرت ابراہیمؑ سے منسوب تین جھوٹ اور ان کا ردّ
جھوٹ کے جواز کے قائلین ایک دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حدیث سے حضرت ابراہیمؑ کے تین جھوٹ بولنے بھی ثابت ہیں۔ حالانکہ یہ ضعیف روایت ہے اور قرآن کے خلاف ہونے کی وجہ سےقابل ردّ ہے جس میں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیمؑ کے بارہ میں فرماتا ہے کہ
إِنَّهُ كَانَ صِدِّيْقًا نَبِيًّا(مريم: 42)
کہ وہ اللہ تعالیٰ کے صدیق نبی تھے یعنی کہ بہت زیادہ سچ بولنےو الا۔ اللہ تعالیٰ جس نبی کو انتہائی اور غیر معمولی سچ بولنے والا قرار دے رہا ہے۔ اس نبی پر جھوٹ کی تہمت لگا دینا کتنا بڑا ظلم ہےدراصل ایسی باتیں اسرائیلی روایات سے احادیث میں داخل ہوئیں۔
بعض مفسرین نےاسرائیلی روایات پر انحصار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے تین جھوٹ بولے۔ چنانچہ یہ روایت بخاری کتاب الانبیاء میں حضرت ابوہریرہؓ (جواسلام سے پہلے عیسائی تھے)سے مروی ہے کہ
لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيْمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِلَّا ثَلاَثَ كَذَبَاتٍ
(بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللّٰهِ تَعَالَى وَاتَّخَذَ اللّٰهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا)
لیکن امام بخاری نے تصریف روایات سےکام لیتے ہوئےوہی روایت حضرت انسؓ سے
(بخاری کتاب تفسیر القرآن بَابُ قَوْلِ اللّٰهِ وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا)
بیان کی ہےجس میں تین جھوٹ کےیہ الفاظ موجودہی نہیں اوریوں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کا اسرائیلی ہوناامام بخاری نے واضح کردیا۔
جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے سورہ مریم کی آیت 42کی روشنی میں یہ واضح فرمایا کہ ایسی روایات قرآنی بیان کہ حضرت ابراہیمؑ صدیق نبی تھے، کے خلاف ہونے کی وجہ سےقابل قبول نہیں ہیں۔ آپؓ فرماتے ہیں:’’بائبل ابراہیم کو جھوٹا قرار دیتی ہے۔ پس چونکہ بائبل میں ابراہیم کو صدیق نہیں بتایا گیا بلکہ اس کی طرف یہ جھوٹ منسوب کیا گیاہے کہ اس نے بادشاہ سے ڈرکر اپنی بیوی کو بہن کہا اور اپنی بیوی سے بھی یہی کہاکہ تو مجھے اپنا بھا ئی کہنا (پیدائش باب 20آیت 1تا13)اس لئے فرماتاہے کہ یہ بیان بالکل غلط ہے انہ کان صدیقانبیا ابراہیم صدیق بھی تھا اور نبی بھی تھا۔
چونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کی نسبت یہ لفظ بولا ہے اس لئے لازماًہمیں اس کے وہی معنے کرنے پڑیں گے جو شان ابراہیمی کے مطابق ہوں … یعنی سچ کی اسے اتنی عادت تھی کہ وہ جھوٹ بول ہی نہیں سکتاتھا۔ سچ اس کی فطرت ثانیہ بن چکا تھا۔ ‘‘
(تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ 259-260)
پھر حضرت ابراہیمؑ کی طرف منسوب ہونے والے جھوٹوں کی تردید اور ان آیات کی وضاحت کرتے ہوئے آپؓ نے مزید بیان فرمایا کہ
1۔ حضرت ابراہیمؑ کےیہ کہنے کہ إِنِّي سَقِيْمٌ (الصافات : 90)کا یہ مطلب ہے کہ تمہارے ستاروں کی چال کے اندازہ کے مطابق تو میں بیمار ہونے والا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:’’قرآن کریم بتا چکا ہے کہ ابراہیمؑ ان باتوں پر ایمان نہیں رکھتا تھا مگر اپنی قوم کو شرمندہ کرنے کے لیے اس نے کہا کہ تمہاری جوتش کے اصول سے تو میں بیمار ہونے والا ہوں۔ مگر دیکھنا کہ خدا تعالیٰ مجھے کیا کیا توفیق دیتا ہے اور تم کو جھوٹا ثابت کرتا ہے۔ ‘‘
(تفسیرصغیر صفحہ 590 حاشیہ)
2۔ قَالُوْا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ
کے جواب میں سورة انبیاء آیت64میں بت توڑنے سے حضرت ابراہیمؑ نے انکار نہیں فرمایا بلکہ جیسا کہ آیت میں بَلْ فَعَلَهُ کے بعد وقف ہے۔ اسے مدنظر رکھ کر آیت کو پڑھا جائے تو مطلب صاف اور واضح ہے کہ ’’ابراہیم نے کہا آخر کسی کرنے والے نے تو یہ کام ضرور کیا ہے۔ یہ سب سے بڑا بت سامنے کھڑا ہے۔ اگر وہ بول سکتے ہوں تو ان سے پوچھ کر دیکھو۔
آیت میں وقف نہ کرنے کی صورت میں
قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيْرُهُمْ هَذَا
کے معنےبیان کرتے ہوئے امام جماعت حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ فرماتے ہیں:
’’دوسرے معنے یہ ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ اپنی عادت کے مطابق تعریضاً کلام کرتے ہیں کہ نہیں میں نے کیوں کرنا تھا۔ اس نے کیا ہوگا۔ ایسے کلام سے مراد انکار نہیں بلکہ یہ مراد ہوتی ہے کہ کیا یہ سوال بھی پوچھنے والا تھا میں نہ کرتا تو کیا اس بت نے کرنا تھا؟‘‘
(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ530)
3۔ تیسری بات بیوی کو دینی لحاظ سے بہن قرار دینے والی روایت اگر درست بھی ہوتو تعریضی کلام کی ذیل میں آئے گی۔
اس طرح حضرت امام جماعت احمدیہ نے حضرت ابراہیمؑ کو قرآنی بیان کے مطابق صدیق نبی ہونا ثابت کیا اور ان کے تین جھوٹ بولنے کے متعلق اسرائیلی روایات کو ردّ فرمادیا جن کو مفسرین نے اپنی تفاسیر میں جگہ دی ہے۔
تین مواقع پر جھوٹ کے جواز کی تردید
اب رہا جھوٹ کے جواز والوں کایہ موقف کہ رسول اللہﷺ نے خود تین جھوٹ بولنے کی اجازت عطا فرمائی۔ یہ بھی ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفیٰﷺ پر بہتان عظیم ہے۔ وہ برگزیدہ وجود جس نے دعویٰ نبوت سے پہلے بھی کبھی جھوٹ نہیں بولا اور تمام اہل مکہ آپؐ کو صدوق کے نام سے پکارتے تھے۔ ان کے بارہ میں یہ گمان کہ جب نبی بن گئے تو یہ تعلیم دینی شروع کردی کہ جھوٹ بولنے کی اجازت ہے، بہت بڑاظلم ہے۔
اور آنحضرتﷺ کی طرف اسے منسوب کرنا عمداً جھوٹ ہے اور اس کے لیے رسول اللہﷺ کی یہ وعید ہے
مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہ مِنَ النَّارِ(بخاری باب إثم من کذب علی النبیﷺ )
جس نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا اس نے جہنم میں جگہ بنائی۔
اور جہاں تک تین جھوٹ بولنے کی اجازت رسول اللہﷺ سے منسوب کرنے کا تعلق ہے اس میں پہلی اجازت جنگ میں جھوٹ بولنے کی لی جاتی ہے حالانکہ حدیث میں ’’خدعة‘‘ کے الفاظ ہیں جس کےمعنی دھوکا کے ہوتے ہیں اور جنگ ایک دھوکا اور جؤاہی ہوتا ہے گویا اس کا نتیجہ نکلنے اورفتح وشکست سے پہلے نہیں بتایا جاسکتاکہ کونسا فریق جیتے گا۔
دوسرے معنی الحرب خدعة (بخاری کتاب الجہاد والسیر بَابٌ الحَرْبُ خَدْعَةٌ)کے جنگی چال اور لطیف تدبیر کے ہیں جیسے رسول اللہﷺ غزوات کےلیے نکلتے وقت اپنی اصل منزل کی طرف نکلنے کی بجائے دوسری طرف کا رخ کرتے تھے تاکہ دشمن کو خبر نہ ہونے پائے۔ سفرفتح مکہ میں بھی آپؐ نے یہ طریق اختیار کیا جسے ہرگز جھوٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
مؤلف سیرت خاتم النبیینؐ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے تحریر فرماتے ہیں کہ
’’پس جنگ میں جس قسم کے خدعة کی اجازت دی گئی ہے وہ حقیقی دھوکہ یا جھوٹ نہیں ہے بلکہ اس سے جنگی تدابیر مراد ہیں اور جو بعض صورتوں میں ظاہری طور پر جھوٹ اور دھوکے سے مشابہ تو سمجھی جاسکتی ہیں مگر وہ حقیقةً جھوٹ نہیں ہوتیں۔ چنانچہ مندرجہ ذیل حدیث ہمارے اس خیال کی ٍمصدق ہے:
عن أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللّٰهِ صَلّٰى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُوْلُ لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ، وَيَقُوْلُ خَيْرًا وَيَنْمِي خَيْرًا قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَلَمْ أَسْمَعْ يُرَخَّصُ فِي شَيْءٍ مِمَّا يَقُوْلُ النَّاسُ كَذِبٌ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ الْحَرْبُ، وَالْإِصْلَاحُ بَيْنَ النَّاسِ، وَحَدِيثُ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ وَحَدِيثُ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا
(صحيح مسلم کتاب البر والصلة والآداب 27 بَابُ تَحْرِيمِ الْكَذِبِ وَبَيَانِ مَا يُبَاحُ مِنْهُ)
یعنی ’’ام کلثوم بنت عقبہ روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو صرف تین موقعوں کے لیے ایسی باتوں کی اجازت دیتے ہوئے سنا جو حقیقةً تو جھوٹ نہیں ہوتیں مگر عام لوگ انہیں غلطی سے جھوٹ سمجھ سکتے ہیں۔ اول: جنگ دوم:لڑے ہوئے لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا موقع اور سوم :جبکہ مرد اپنی عورت سے یا عورت اپنے مرد سے ایسی بات کرے جس میں ایک دوسرے کو راضی اور خوش کرنا مقصود ہو‘‘۔
یہ حدیث اس بات میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑتی کہ جس قسم کے خدعة کی جنگ میں اجازت دی گئی ہے اس سے جھوٹ اور دھوکا مراد نہیں ہے بلکہ وہ باتیں مراد ہیں جو بعض اوقات جنگی تدابیر کے طور پر اختیار کرنی ضروری ہوتی ہیں اور جو ہر قوم اور ہر مذہب میں جائز سمجھی جاتی ہیں۔ ‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ475-476)
جھوٹ کی دوسری اجازت یہ سمجھی جاتی ہے کہ میاں بیوی آپس میں جھوٹ بول سکتے ہیں۔اوریہ اجازت بھی سچوں کےسرداراس نبی کی طرف منسوب کی گئی ہےجس نے ہمیشہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت ڈالی۔ وہ اتنے قریبی تعلقات میں کس طرح حقیقةًجھوٹ بولنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ جس سےجہاں میاں بیوی کےباہمی اعتماد کوایسی ٹھیس لگ سکتی ہےکہ وہ پارہ پارہ ہوکررہ جاتاہے جبکہ باہمی بھروسہ سے ہی تو میاں بیوی کے رشتے نبھا کرتے ہیں یہ تعلقات جب تک شیشے کی طرح شفاف نہ ہوں، پختہ اورمضبوط استوار نہیں ہوسکتے اس لیے میاں بیوی کوایک دوسرے سے حقیقةً جھوٹ بولناجائزسمجھنانہ صرف ایک برائی ہےبلکہ معاشرہ میں فتنہ کا دروازہ کھولنا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’الفتنة اشد من القتل‘‘کہ فتنہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔
فی الواقعہ حدیث میں اس سے مراد یہ ہے کہ مرد اپنی عورت سے یا عورت اپنے مرد سے ایسی بات کرے جس میں ایک دوسرے کو راضی اور خوش کرنا مقصود ہو۔ نہ یہ کہ میاں بیوی آپس میں حقیقةًجھوٹ بول سکتے ہیں۔ اور اگر بفرض محال کوئی اس حدیث سے یہ مرادلے بھی تو وہ قرآن جو جھوٹ کو شرک جیسا گناہ قراردیتا ہے اور یہ فرماتا ہے کہ
وَكُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِيْنَ(التوبة 119)
کہ سچوں کے ساتھ رہو۔ اس تعلیم کی روشنی میں جھوٹےمیاں یابیوی کی معیت نہ توخیرخواہی پرمبنی ہوگی نہ دیرپا ہوسکتی ہے۔ پس قرآن کے خلاف کوئی بھی ایسی روایت ناقابل قبول ہوگی۔
تیسرے مصالحت کے لیے جھوٹ بولنے کی اجازت کا رسول اللہﷺ سے منسوب کرنا بھی واضح غلط فہمی ہے۔ حدیث میں زیادہ سے زیادہ یہ مراد لیا جاسکتا ہے کہ اس طرح مصالحت نہیں ہوسکتی کہ ایک فریق کی پوری کی پوری باتیں اور الزامات دوسرے تک پہنچادیے جائیں ہاں دونوں فریقوں کی بعض مشترک یا مسلمہ باتیں بھی ہوتی ہیں اگر الزامات وغیرہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے سے مثبت باتوں کا ذکر کردیا جائے تو وہ جھوٹ نہیں، اس کے علاوہ جھوٹ پرصلح کی بنیاد ہوگی تو کاٹھ کی ہنڈیا کب تک چڑھے گی۔ ایسی صلح کبھی پائیدار نہیں ہوسکتی۔
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کا موقف
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ جن کا دعویٰ مسیح و مہدی ہونے کا ہے اورجن کا مقام حَکَم(انصاف سے فیصلہ کرنے والے)کاہے۔ انہوں نے اسلام اور بانیٔ اسلام کی طرف منسوب ایسے تمام الزامات کا دلائل سے ردّ کیا۔ اور چومکھی لڑائی لڑتے ہوئےایک طرف علمائے دیوبند اور اہل سنت کے ان خیالات کا ردّ کیا کہ اسلام میں جھوٹ بولنا جائز ہے تودوسری طرف پادری فتح مسیح جیسے دشمن اسلام عیسائی کے اس اعتراض کا جواب دیا کہ آنحضرتﷺ نے معاذ اللہ تین مواقع پرجھوٹ کو جائز قرار دیا۔ آپؑ نے اس پادری کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اور پھر آپ لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے مگر یہ آپ کو اپنی جہالت کی وجہ سے غلطی لگی ہے اور اصل بات یہی ہے کہ کسی حدیث میں جھوٹ بولنے کی ہرگز اجازت نہیں بلکہ حدیث میں تو یہ لفظ ہیں کہ ان قتلت واحرقت یعنی سچ کو مت چھوڑ اگرچہ تو قتل کیا جائے اور جلایا جائے۔ پھر جس حالت میں قرآن کہتا ہے کہ تم انصاف اور سچ مت چھوڑو اگرچہ تمہاری جانیں بھی اس سے ضائع ہوں اور حدیث کہتی ہے کہ اگرچہ تم جلائے جاؤ اور قتل کئے جاؤ مگر سچ ہی بولو۔ تو پھر اگر فرض کے طور پر کوئی حدیث قرآن اور احادیث صحیحہ کی مخالف ہو تو وہ قابل سماعت نہیں ہوگی کیونکہ ہم لوگ اُسی حدیث کو قبول کرتے ہیں جو احادیث صحیحہ اور قرآن کریم کے مخالف نہ ہو۔ ہاں بعض احادیث میں توریہ کے جواز کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ اور اُسی کو نفرت دلانے کی غرض سے کذب کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور ایک جاہل اور احمق جب ایسا لفظ کسی حدیث میں بطور تسامح کے لکھا ہوا پاوے تو شاید اس کو حقیقی کذب ہی سمجھ لے کیونکہ وہ اس قطعی فیصلہ سے بے خبر ہے کہ حقیقی کذب اسلام میں پلید اور حرام اور شرک کے برابر ہے مگر توریہ جو درحقیقت کذب نہیں گو کذب کے رنگ میں ہے اضطرار کے وقت عوام کے واسطے اس کا جواز حدیث سے پایا جاتا ہے مگر پھر بھی لکھا ہے کہ افضل وہی لوگ ہیں جو توریہ سے بھی پرہیز کریں اور توریہ اسلامی اصطلاح میں اس کو کہتے ہیں کہ فتنہ کے خوف سے ایک بات کو چھپانے کے لئے یا کسی اور مصلحت پر ایک راز کی بات مخفی رکھنے کی غرض سے ایسی مثالوں اور پیرایوں میں اس کو بیان کیا جائے کہ عقلمند تو اس بات کو سمجھ جائے اور نادان کی سمجھ میں نہ آئے اور اس کا خیال دوسری طرف چلا جائے جو متکلم کا مقصود نہیں اور غور کرنے کے بعد معلوم ہوکہ جو کچھ متکلم نے کہا ہے وہ جھوٹ نہیں بلکہ حق محض ہے اور کچھ بھی کذب کی اس میں آمیزش نہ ہو اور نہ دل نے ایک ذرہ بھی کذب کی طرف میل کیا ہو جیسا کہ بعض احادیث میں دو مسلمانوں میں صلح کرانے کے لئے یا اپنی بیوی کو کسی فتنہ اور خانگی ناراضگی اور جھگڑے سے بچانے کے لئے یا جنگ میں اپنے مصالح دشمن سے مخفی رکھنے کی غرض سے اور دشمن کو اور طرف جھکا دینے کی نیت سے توریہ کا جواز پایا جاتا ہے مگر باوصف اس کے بہت سی حدیثیں دوسری بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ توریہ اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کے برخلاف ہے اور بہرحال کھلی کھلی سچائی بہتر ہے اگرچہ اس کی وجہ سے قتل کیا جائے اور جلایا جائے …آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حتی الوسع اس سے مجتنب رہنے کا حکم کیا ہے تا مفہوم کلام کا اپنی ظاہری صورت میں بھی کذب سے مشابہ نہ ہو…اگر کسی حدیث میں توریہ کو بطور تسامح کذب کے لفظ سے بیان بھی کیا گیا ہو تو یہ سخت جہالت ہے کہ کوئی شخص اس کو حقیقی کذب پر محمول کرے جبکہ قرآن اور احادیث صحیحہ بالاتفاق کذب حقیقی کو سخت حرام اور پلید ٹھہراتے ہیں اور اعلیٰ درجہ کی حدیثیں توریہ کے مسئلہ کو کھول کر بیان کر رہی ہیں تو پھر اگر فرض بھی کر لیں کہ کسی حدیث میں بجائے توریہ کے کذب کا لفظ آگیا ہو تو نعوذ باللّٰہ اس سے مراد حقیقی کذب کیونکر ہوسکتا ہے بلکہ اس کے قائل کے نہایت باریک تقویٰ کا یہ نشان ہوگا کہ جس نے توریہ کو کذب کی صورت میں سمجھ کر بطور تسامح کذب کا لفظ استعمال کیا ہو ہمیں قرآن اور احادیث صحیحہ کی پیروی کرنا ضروری ہے اگر کوئی امر اس کے مخالف ہوگا تو ہم اس کے وہ معنے ہرگز قبول نہیں کریں گے جو مخالف ہوں …۔
قرآن نے جھوٹوں پر لعنت کی ہے۔ اور نیز فرمایا ہے کہ جھوٹے شیطان کے مصاحب ہوتے ہیں اور جھوٹے بے ایمان ہوتے ہیں اور جھوٹوں پر شیاطین نازل ہوتے ہیں اور صرف یہی نہیں فرمایا کہ تم جھوٹ مت بولو بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ تم جھوٹوں کی صحبت بھی چھوڑ دو اور ان کو اپنا یار دوست مت بناؤ اور خدا سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ اور ایک جگہ فرماتا ہے کہ جب تو کوئی کلام کرے تو تیری کلام محض صدق ہو ٹھٹھے کے طور پر بھی اس میں جھوٹ نہ ہو۔ ‘‘
(نورالقرآن نمبر2روحانی خزائن جلد9 صفحہ402-408)
(باقی آئندہ)
نوٹ:خاکسار اس مضمون کے حوالہ جات کی تخریج کےلیے عزیزم مکرم باسل احمد بشارت صاحب مربی سلسلہ کا ممنون اور ان کے لیے دعا گو ہے۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ