ہدایاتِ زریں (مبلغین کو ہدایات) (قسط ہشتم)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
تیرہویں ہدایت
تیرہویں بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی پارٹی میں اپنے آپ کو داخل نہ سمجھے۔ بلکہ سب کے ساتھ اس کا ایک جیسا ہی تعلق ہو۔ یہ بات صحابہؓ میں بھی ہوتی تھی کہ کسی سے محبت اور کسی مناسبت کی وجہ سے زیادہ تعلق ہوتا تھا اور وہ دوسروں کی نسبت آپس میں زیادہ تعلق رکھتے تھے۔ اور ہم میں بھی اس طرح ہے اور ہونی چاہئے لیکن جو بات بُری ہے اور جس سے مبلغ کو بالا رہنا چاہئے یہ ہے کہ وہ کسی فریق میں اپنے آپ کو شامل کر لے۔ ہر ایک مبلغ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل ہے اور ظل وہی ہوسکتا ہے جس میں وہ باتیں پائی جائیں جو اصل میں تھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ نکلے تو دیکھا کہ دو پارٹیاں آپس میں تیر اندازی کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ آپؐ ان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے ایک کے ساتھ ہو کر تیر مارنے لگے اس پر دوسری پارٹی نے اپنی کمانیں رکھ دیں اور کہا ہم آپؐ کا مقابلہ نہیں کریں گے۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا لو، میں دخل نہیں دیتا۔
(بخاری کتاب الجہاد و السیر باب التحریض علی الرمی و قول اللہ تعالیٰ…..الخ)
چونکہ آپؐ سب کے ساتھ ایک ہی تعلق رکھتے تھے اس لئے آپؐ کو مدمقابل بنانے کے لئے صحابہؓ تیار نہ ہوئے۔اور اس بات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم کر کے دخل دینا چھوڑ دیا۔ یہ چونکہ جنگی لحاظ سے ایک مقابلہ تھا اس لئے آپؐ الگ ہوگئے ورنہ ایسی باتیں جو تفریح کے طور پر ہوتی ہیں ان میں آپؐ شامل ہوتے تھے۔ چنانچہ ایسا ہوا ہے کہ گھوڑ دوڑ میں آپؐ نے بھی اپنا گھوڑا دوڑایا۔ اس قسم کی باتوں میں شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ غرض مبلغ کو بھی ایسی باتوں میں کسی فریق کے ساتھ نہیں ہونا چاہئے جو مقابلہ کے طور پر ہوں اور بالکل الگ تھلگ رہ کر اس بات کا ثبوت دینا چاہئے کہ اس کے نزدیک دونوں فریق ایک جیسے ہی ہیں۔
چودہویں ہدایت
چودہویں بات یہ ضروری ہے کہ کسی کو یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ میرا علم کامل ہوگیا ہے۔ بہت لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارا علم مکمل ہوگیا ہے اور ہمیں اَور کچھ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر اس سے زیادہ جہالت کی اور کوئی بات نہیں ہے کیونکہ علم کبھی مکمل نہیں ہوسکتا۔ میں تو علم کی مثال ایک رستہ کی سمجھا کرتا ہوں جس کے آگے دو رستے ہو جائیں پھر اس کے آگے دو ہوجائیں اور اس کے آگے دو۔ اس طرح آگے شاخیں ہی شاخیں نکلتی جائیں اور اس طرح کئی ہزار رستے بن جائیں۔ یہی حال علم کا ہوتا ہے۔ علم کی بے شمار شاخیں ہیں اور اس قدر شاخیں ہیں جن کی انتہا ہی نہیں۔ پس علم کا خاتمہ شاخوں کی طرف نہیں ہوتا بلکہ اس کا خاتمہ جڑ کی طرف ہے کہ وہ ایک ہے اور وہ ابتدا ہے جو جہالت کے بالکل قریب ہے۔ بلکہ جہالت سے بالکل ملی ہوئی ہے ورنہ آگے جُوں جُوں بڑھتے جائیں اس کی شاخیں نکلتی آتی ہیں اور وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتیں۔ اگر کسی نے ایک شاخ کو ختم کر لیا تو اس کے لئے دوسری موجود ہے۔غرض علم کی کوئی حد نہیں ہوتی اور وہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا اور روحانی علوم کی تو قطعاً کوئی حد ہے ہی نہیں۔ ڈاکٹری کے متعلق ہی کس قدر علوم دن بدن نکل رہے ہیں اور روز بروز ان میں اضافہ ہورہا ہے۔ پس کوئی علم ختم نہیں ہوسکتا۔ اور جہاں کسی کو یہ خیال پیدا ہو کہ علم ختم ہوگیا ہے وہاں سمجھ لینا چاہئے کہ وہ علم کے درخت سے اُتر کر جہالت کی طرف آگیا ہے۔ پس کبھی یہ مت خیال کرو کہ ہمارا علم کامل ہوگیا۔ کیونکہ ایک تو یہ جُھوٹ ہے کوئی علم ختم نہیں ہوسکتا۔ دوسرے اس سے انسان متکبر ہوجاتا ہے اور اس کے دل پر زنگ لگنا شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر انسان ہر وقت اپنے آپ کو طالب علم سمجھے اور اپنے علم کو بڑھاتا رہے تو اس کے دل پر زنگ نہیں لگتا۔ کیونکہ جس طرح چلتی تلوار کو زنگ نہیں لگتا۔ لیکن اگر اسے یوں ہی رکھ دیا جائے اور اس سے کام نہ لیا جائے تو زنگ لگ جاتا ہے۔ پس ہر وقت اپنا علم بڑھاتے رہنا چاہئے اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ علم کبھی ختم نہیں ہوتا۔
پندرہویں ہدایت
پندرہویں بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ بَلِّغْ میں کہا گیا ہے کہ پہنچا دے۔ اور جس کو کچھ پہنچایا جاتا ہے وہ بھی کوئی وجود ہونا چاہئے جو معین اور مقرر ہو۔ ورنہ اگر کسی معین وجود کو نہ پہنچانا ہوتا تو یہ کہا جاتا کہ پھینک دو یا بانٹ دو۔ مگر اللہ تعالیٰ نے پہنچانا فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ معین وجود ہیں جن کو ان کا حصہ پہنچانا ہے۔ پھر قرآن کریم فرمایا ہے۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(آل عمران:111)
اس میں عموم کے لحاظ سے سب انسان آگئے ان کو پیغام الٰہی کا پہنچانا ہمارا کام ہے۔ پس کسی قوم اور کسی فرقہ کو حقیر اور ذلیل نہ سمجھا جائے۔ مبلغ کا کام پہنچانا ہے اور جس کو پہنچانے کے لئے کہا جائے اسے پہنچانا اس کا فرض ہے۔ اسےیہ حق نہیں کہ جسے ذلیل سمجھے اسے نہ پہنچائے اور جسے معزز سمجھے اسے پہنچائے۔ مگر ہمارے مبلغوں میں یہ نقص ہے کہ وہ ادنیٰ اقوام چوہڑوں چماروں میں تبلیغ کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ بھی خدا کی مخلوق ہے اسے بھی ہدایت کی ضرورت ہے۔ ان کو بھی تبلیغ کرنی چاہئے اور سیدھے رستہ کی طرف لانا چاہئے۔ عیسائیوں نے ان سے بڑا فائدہ اٹھایا ہے اور اس سے زیادہ ہندوستان میں ایسی اقوام کے لوگوں کو عیسائی بنا لیا ہے جتنی ہماری جماعت کی تعداد ہے اور اب ان لوگوں کو کونسل کی ممبری کی ایک سیٹ بھی مل گئی ہے۔ ہمارے مبلغ اس طرف خیال نہیں کرتے۔ حالانکہ ان لوگوں کو سمجھانا بہت آسان ہے۔ ان کو ان کی حالت کے مطابق بتایا جائے کہ دیکھو تمہاری کیسی گری ہوئی حالت ہے۔ اس کو درست کرو اور اپنے آپ کو دوسرے انسانوں میں ملنے جلنے کے قابل بناؤ۔ اس قسم کی باتوں کا ان پر بہت اثر ہوگا۔ اور جب انہیں اپنی ذلیل حالت کا احساس ہوجائے گا اور اس سے نکلنے کا طریق انہیں بتایا جائے گا تو وہ ضرور نکلنے کی کوشش کریں گے۔ ان کو کسی مذہب کے قبول کرنے میں سوائے قومیت کی روک کے اور کوئی روک نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا تو یہ اچھی بات نہ ہوگی۔ ہمارے ہاں جو چوہڑیاں آتی ہیں تبلیغ کرنےپر کہتی ہیں۔ ہم مسلمان ہی ہیں مگر ہم اپنی قوم کو کیونکر چھوڑ دیں۔ یہ روک اس طرح دور ہوسکتی ہے کہ دس پندرہ بیس گھر اکٹھے کے اکٹھے مسلمان ہوجائیں اور ان کی قوم کی قوم بنی رہے جیسا کہ یہ لوگ جب عیسائی ہوتے ہیں تو اکٹھے ہی ہوجاتے ہیں۔ پس ان میں تبلیغ کرنے کی ضرورت ہے اور سخت ضرورت ہے۔ اگر ہم ساری دنیا کے لوگوں کو مسلمان بنا لیں مگر ان کو چھوڑ دیں تو قیامت کے دن خدا تعالیٰ کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ چوہڑے چمار تھے اس لئے ہم نے ان کو مسلمان نہیں بنایا۔ خدا تعالیٰ نے ان کو بھی آنکھ، کان، ناک، دماغ، ہاتھ، پاؤں اسی طرح دئیے ہیں جس طرح اوروں کو دیئے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے ان چیزوں کا غلط استعمال کر کے انہیں خراب کر لیا ہے۔ اگر ان کی اصلاح کر لی جائے تو وہ بھی ویسے ہی انسان بن سکتے ہیں جیسا کہ دوسرے۔ چنانچہ مسیحیوں میں بعض چوہڑوں نے تعلیم پاکر بہت ترقی کر لی ہے۔ ان کے باپ یا دادا عیسائی ہوگئے اور اب وہ علم پڑھ کر معزز عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور معزز سمجھے جاتے ہیں۔ پس اگر ان لوگوں کی اصلاح کرلی جائے تو یہ بھی اوروں کی طرح ہی مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہمارے مبلغین کو اس طرف بھی خیال کرنا چاہئے اور ان لوگوں میں بھی تبلیغ کرنی چاہئے۔
سولہویں ہدایت
سولہویں بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ لوگوں سے ملنا جُلنا جانتا ہو۔ بہت لوگ اس بات کو معمولی سمجھتے ہیں اور اس سے کام نہیں لیتے۔ لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے بڑا فائدہ ہوتا ہے اور اس طرح بہت اعلیٰ نتائج نکلتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابتداء میں لوگوں کے خیموں میں جاتے اور تبلیغ کرتے تھے۔ وہ لوگ جو اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں وہ عام لیکچروں میں نہیں آتے ان کے گھر جا کر ان سے ملنا چاہئے۔ اس طرح ملنے سے ایک تو وہ لوگ باتیں سُن لیتے ہیں دوسرے ایک اور بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر کبھی کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہوگی تو اگر یہ لوگ ظاہری مدد نہیں دیں گے تو خفیہ ضرور دیں گے۔ کیونکہ ملنے اور واقفیت پیدا کر لینے سے ایک ذاتی تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔ اور وہ لوگ جن میں شرافت ہوتی ہے اس کا ضرور لحاظ رکھتے ہیں۔ ہمارے مسٹر محمد امین سابق ساگر چند صاحب میں ملنے کی عادت ہے۔ وہ لارڈوں تک سے ملتے رہے ہیں اور اب تک خط و کتابت کرتے رہتے ہیں۔ تو ملنے جلنے اور واقفیت پیدا کرلینے سے انسان بہت سی باتیں سنا سکتا ہے۔ جو کسی دوسرے ذریعہ سے نہیں سُنا سکتا۔ اس لئے ہمارے مبلغوں کو اس بات کی بھی عادت ڈالنی چاہئے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
سترہویں ہدایت
سترہویں بات یہ ہے کہ مبلغ میں ایثار کا مادہ ہو۔ جب تک یہ نہ ہو لوگوں پر اثر نہیں پڑتا۔ جب ایثار کی عادت ہو تو لوگ خودبخود کھنچے چلے آتے ہیں۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایثار کس طرح کریں۔ کونسا موقع ہمارے لئے ایثار کا ہوتا ہے۔ مگر اس کے بہت موقعے اور محل ملتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہی دیکھ لو کہ ریل پر سوار ہونے والوں کو قریباً ہر اسٹیشن پر وہ لوگ سوار ہونے سے روکتے ہیں جو پہلے بیٹھے ہوتے ہیں۔ سوار ہونے والا ان کی منتیں کرتا ہے خوشامدیں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں کھڑا ہی رہوں گا لیکن اسے روکا جاتا ہے اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو دیکھا گیا ہے کہ پھر جو سوار ہونے کے لئے آتا ہے اسے سب سےآگے بڑھ کر وہی روکتا ہے اور کہتا ہے یہاں جگہ نہیں ہے ہمارا دَم گھٹ رہا ہے۔ اسی طرح ہر جگہ ہوتا رہتا ہے۔ ایسے موقع پر مبلغ ان کا افسر بن کر بیٹھ جائے اور نرمی و محبت سے کہے آنے دیجئے کوئی حرج نہیں بیچارہ رہ گیا تو نہ معلوم اس کا کتنا نقصان ہو۔ اور اگر کہیں جگہ نہ ہو تو کہہ دے میں کھڑا ہوجاتا ہوں یہاں بیٹھ جائے گا۔ جب وہ اس بات کے لئے تیار ہوجائے گا اور اس قدر ایثار کرے گا تو اس کا لوگوں پر اتنا اثر ہوگا کہ سب ایثار کے لئے تیار ہوجائیں گے اور تھوڑی تھوڑی جگہ نکال کر آنے والے کو بٹھا دیں گے۔ اس طرح اسے اپنی جگہ بھی نہیں چھوڑنی پڑے گی اور بات بھی پوری ہوجائے گی۔ اس قسم کی باتوں سے مبلغ لوگوں کو ممنون احسان بنا سکتے ہیں۔ ایک مبلغ جن لوگوں کو گاڑی کے اندر لائے گا وہ تو اس کے شکر گذار ہوں گے ہی، دوسرے بھی اس کے اخلاق سے متاثر ہوں گے اور اس کی عزت کرنے لگیں گے اور اس طرح انہیں تبلیغ کرنے کا موقع نکل آئے گا۔ لیکن اگر اس موقع پر اسی قسم کی بداخلاقی دکھائی جائے جس طرح کی اَور لوگ دکھاتے ہیں تو پھر کوئی بات سننے کے لئے تیار نہ ہوگا۔ اور نہ تمہیں خود جرأت ہوسکے گی کہ ایسے موقع پر کسی کو تبلیغ کر سکو۔ ایک سفر میں ایک شخص گاڑی کے اس کمرہ میں آ داخل ہوا جس میں ہمارے آدمی بیٹھے تھے۔ اس کے پاس بہت سا اسباب تھا۔ جب وہ اسباب رکھنے لگا تو بعض نے اسے کہا کہ یہ سیکنڈ کلاس ہے۔ اس سے اتر جائیے اور کوئی اَور جگہ تلاش کیجئے۔ لیکن وہ خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا اور جب اسباب رکھ چکا تو سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ نکال کر ان کو دکھلا دیا۔ اس پر وہ سخت نادم ہو کر بیٹھ گئے۔ مجھے سخت افسوس تھا کہ ان لوگوں نے اس قسم کی بداخلاقی کیوں دکھائی۔ جب میں نے اس کا جواب سُنا تو میرے دل کو بہت خوشی ہوئی۔ جس سے اس طرح پیش آئے تھے وہ لوگ تبلیغ کر سکتے تھے اور وہ ان کی باتوں سے متاثر ہوسکتا تھا۔ ہرگز نہیں۔ توایثار کے موقع پر ایثار کر کے لوگوں میں اپنا اثر پیدا کرنا چاہئے تاکہ تبلیغ کے لئے راستہ نکل سکے۔ اس قسم کی اور بیسیوں باتیں ہیں جن میں انسان ایثارسے کام لے سکتا ہے۔
(جاری ہے)