کسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ
چوتھی شرط بیعت(حصہ سوم)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
کسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ(حصہ دوم)
ایک مسلمان پر یہ واضح حکم ہے اور کسی طرح بھی جائز نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کو حقیر سمجھے اس طرح پر مسلمانوں پر دوسرے مسلمانوں کا خون مال اور عزت حرام ہے تو آپ جو اس زمانہ کے مامور کو مان کر اسلامی تعلیمات پر سب سے زیادہ عمل درآمد کا دعویٰ کرتے ہیں کے بارے میں کس طرح برداشت کیا جاسکتا ہے کہ یہ حرکتیں ہوں اور پھر حضرت اقدس مسیح موعوؑد کی جماعت میں بھی شامل رہیں ۔ ان باتوں کو چھوٹی نہ سمجھتے ہوئے آنحضرت ﷺ کے صحابہ کا اس بارے میں کیا عمل تھا۔ اسلام لانے کے بعد اُنہوں نے اپنے اندر کیا تبدیلیاں کیں۔ اس بارے میں احادیث کے مزید نمونے پیش کرتا ہوں۔
حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کے ایک حوض سے پانی پلایا جاتا تھا تو ایک خاندان کے کچھ لوگ آئے اُن میں سے کسی نے کہا تم میں سے کون ابوذر کے پاس جائے گا اور اُن کے سر کے بال پکڑ کر اُن کا محاسبہ کرے گا ایک شخص نے کہا میں یہ کام کروں گا چنانچہ وہ شخص اُن کے پاس حوض پر گیا اور ابوذر کو تنگ کرناشروع کردیا ابوذر اس وقت کھڑے تھے پھر بیٹھ گئے اُس کے بعد لیٹ گئے اس پر انہوں نے کہا کہ اے ابوذر آپ کیوں بیٹھ گئے اور پھر آپ کیوں لیٹے تھے ؟ اس پر انہوںنے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیںمخاطب کرکے فرمایا تھا جب تم میں سے کسی کو غصہ آجائے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اگر اس کا غصہ دورہو جائے تو ٹھیک وگرنہ وہ لیٹ جائے۔ (مسند احمد بن حنبل۔ جلد نمبر5۔صفحہ152۔مطبوعہ بیروت)
پھر ایک روایت ہے راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم عروہ بن محمد کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اُن کے پاس ایک شخص آیا جس نے اُن کے ساتھ ایسی باتیں کیں کہ ان کو غصہ آگیا ۔راوی کہتے ہیں کہ جب ان کو شدید غصہ آگیا تو وہ کھڑے ہوئے اور وضو کرکے ہمارے پاس لوٹ آئے ۔پھر اُنہوں نے کہا کہ میرے والد نے مجھے میرے دادا عتیہ کے وسیلہ سے جو صحابہ میں سے تھے یہ روایت سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ شیطان کی طرف سے آتا ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کو پانی کے ذریعہ بجھایا جاتا ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اُسے وضو کرنا چاہئے۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد4۔ صفحہ226۔مطبوعہ بیروت)
حضرت زیاد بن عَلاقہ اپنے چچا قَطْبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے میرے اللہ !میں بُرے اخلاق اوربرے اعمال سے اور بری خواہشات سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
(سنن ترمذی۔کتاب الدعوات۔ باب دعاء امّ سلمۃ۔ حدیث نمبر3591)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلہ میں کیا فرماتے ہیں اور اُن کو جماعت سے کیا تو قعات ہیں وہ پیش کرتا ہوں، فرمایا:
’’میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہیں یا اپنے مقامات میں بودوباش رکھتے ہیں اس وصیت کو توجہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہوکر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی اُن کے نزدیک نہ آسکے ۔وہ پنج وقت نماز باجماعت کے پابند ہوں ۔وہ جھوٹ نہ بولیں ۔ وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں۔ وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور ناکردنی اور ناگفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بیجا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہوجائیں اور کوئی زہریلا خمیر اُن کے وجود میں نہ رہے… اور تمام انسانوں کی ہمدری اُن کا اصول ہو اور خدا تعالیٰ سے ڈریں اور اپنی زبانوں سے اور اپنے ہاتھوں سے اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک ناپاک اور فساد انگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچاویں اور پنج وقتہ نمازکو نہایت التزام سے قائم رکھیں اور ظلم اور تعدی اورغبن اور رشوت اور اتلافِ حقوق اور بے جاطرفداری سے باز رہیں اورکسی بدصحبت میںنہ بیٹھیں اور اگر بعد میں ثابت ہو کہ ایک شخص جو اُن کے ساتھ آمدورفت رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے احکام کا پابند نہیںہے… یا حقوق عباد کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا اور یا ظالم طبع اور شریر مزاج اور بدچلن آدمی ہے یا یہ کہ جس شخص سے تمہیں تعلق بیعت اور ارادت ہے اُس کی نسبت ناحق اور بے وجہ بدگوئی اور زبان درازی اور بدزبانی اور بہتان اور افتراء کی عادت جاری رکھ کر خدا تعالیٰ کے بندوں کو دھوکا دینا چاہتا ہے تو تم پر لازم ہوگا کہ اس بدی کو اپنے درمیان سے دور کرو اور ایسے انسان سے پرہیز کرو جو خطرناک ہے اورچاہئے کہ کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو اور ہر ایک کے لئے سچے ناصح بنو اور چاہئے کہ شریروں اور بدمعاشوں اور مفسدوں اور بدچلنوں کو ہرگز تمہاری مجالس میں گزر نہ ہو اور نہ تمہارے مکانوں میں رہ سکیں کہ وہ کسی وقت تمہاری ٹھوکر کاموجب ہوں گے…‘‘۔
فرمایا: ’’…یہ وہ امور ہیں اوروہ شرائط ہیں جو میں ابتداء سے کہتا چلا آیا ہوں۔ میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہوگا کہ ان تمام وصیتوں کے کاربند ہوں اور چاہئے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو او رنیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہوکر زمین پر چلو اور یاد رکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں ۔اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگذر کی عادت ڈالو اور صبر اور حلم سے کام لو اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرو اور جذبات نفس کو دبائے رکھو اور اگر کوئی بحث کرو یاکوئی مذہبی گفتگو ہوتو نرم الفاظ اور مہذبانہ طریق سے کرو اور اگرکوئی جہالت سے پیش آوے تو سلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اُٹھ جائو اگر تم ستائے جائو اور گالیاں دئیے جائو اور تمہارے حق میں برے برے لفظ کہے جائیں تو ہوشیار رہو کہ سفاہت کا سفاہت کے ساتھ تمہارا مقابلہ نہ ہو ورنہ تم بھی ویسے ہی ٹھہروگے جیسا کہ وہ ہیں۔ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راست بازی کا نمونہ ٹھہرو ۔سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکال لو جو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنفسی کا نمونہ ہے۔ جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیزگاری اور حلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہوجائے کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقیناً وہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اُس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا سو تم ہوشیار ہو جائو اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راست باز بن جائو۔ تم پنج وقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جائو گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات۔جلد3۔ صفحہ46تا48۔اشتہارمورخہ29مئی 1898ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں:
’’ انسان کو چاہئے شوخ نہ ہو ۔بے حیائی نہ کرے۔ مخلوق سے بدسلوکی نہ کرے۔ محبت اور نیکی سے پیش آوے۔ اپنی نفسانی اغراض کی وجہ سے کسی سے بغض نہ رکھے۔ سختی اور نرمی مناسب موقع اور مناسب حال کرے‘‘۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد 5۔ صفحہ609)
(باقی آئندہ)