الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
شہید کون ہے
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ 2۔ 2010ء) میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد درج ہے کہ ’’شہید اصل میں وہ شخص ہوتا ہے جو خداتعالیٰ سے استقامت اور سکینت کی قوّت پاتا ہے اور کوئی زلزلہ اور حادثہ اس کو متغیر نہیں کرسکتا۔ وہ مصیبتوں اور مشکلات میں سینہ سِپر رہتا ہے یہاں تک کہ اگر محض خداتعالیٰ کے لئے اس کو جان بھی دینی پڑے تو فوق العادت استقلال اس کو ملتا ہے اور وہ بدوں کسی قسم کا رنج یا حسرت محسوس کئے اپنا سر رکھ دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ بار بار مجھے زندگی ملے اور بار بار اس کو اللہ کی راہ میں دوں۔ ایک ایسی لذّت اور سرور اس کی روح میں ہوتا ہے کہ ہرتلوار جو اس کے بدن پر پڑتی ہے اور ہر ضرب جو اس کو پیس ڈالے، اس کو پہنچتی ہے۔ وہ اس کو ایک نئی زندگی نئی مسرت اور تازگی عطا کرتی ہے۔ یہ ہیں شہید کے معنی۔ ‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ415)
………٭………٭………٭………
مکرم چودھری محمد احمد صاحب شہید
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔ 2010ء) میں مکرمہ امۃالنصیر صاحبہ اور مکرمہ ذکیہ بیگم صاحبہ کے قلم سے مکرم چودھری محمد احمد صاحب شہید کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔ شہید مرحوم کا ذکرخیر اور واقعہ شہادت کا بیان قبل ازیں 16؍مئی 2014ء کے شمارہ کے اسی کالم ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بنایا جاچکا ہے۔ ذیل میں سابقہ مضمون سے چند تصحیح شدہ اور اضافی امور پیش ہیں۔
محترم چودھری محمد احمد صاحب شہید کے دادا حضرت چودھری فضل داد اولکھ رضی اللہ عنہ نے 1895ء میں بیعت کی۔ شہید مرحوم 1928ء میں کھیوہ ضلع فیصل آباد میں پیدا ہوئے اور وہیں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اپنے والد محترم ڈاکٹر نور محمد صاحب کے ہاں پہلے یہ دو بھائی جڑواں پیدا ہوئے تھے بعدازاں تین بہنیں ہوئیں۔
شہید مرحوم نے میٹرک فیصل آباد سے کیا اور پھر پاک فضائیہ میں ملازم ہوگئے۔ چوبیس سال کی ملازمت کے بعد 1972ء میں ریٹائرڈ ہوئے تو بم ڈسپوزل کی ٹریننگ کے لیے امریکہ بھجوائے گئے۔ دو سال کی ٹریننگ کے بعد وارنٹ آفیسر کے طور پر کام کرتے رہے۔ 1965ء میں مخصوص اسلحہ لینے کے لئے چین بھی گئے۔ جنگ کے دوران جب لوڈر (جس کے ذریعے طیارے میں بم لوڈ کیے جاتے ہیں) خراب ہوگیا تو آپ نے بڑی بہادری سے کندھوں پر بم رکھ کے لوڈ کیے اور اپنے ساتھیوں کی بھی ہمّت بندھائی۔ آپ ایک فرض شناس اور نڈر فوجی تھے۔ اپنے کام میں بہت ماہر تھے۔ اوجڑی کیمپ کا سانحہ ہوا تو آپ کو بھی بلوایا گیا لیکن آپ کا مشورہ نہ مانا گیا۔ بعد میں امریکہ سے آنے والی خصوصی ٹیم نے بھی وہی مشورہ دیا۔
شہید مرحوم نماز کے پابند اور قرآن کریم کی تلاوت میں باقاعدہ تھے۔ اپنی ایک بہن جو بہت چھوٹے بچوں کے ساتھ بیوہ ہوگئی تھیں، اُن کا ہر طرح سے خیال رکھا، اُن کے بچوں کو اچھی تعلیم دلوائی اور بہت محبت دی۔
شہید مرحوم نماز جمعہ کی ادائیگی اہتمام سے کرتے۔ ایک دن پہلے ہی کپڑے استری کرکے لٹکادیتے اور بارہ بجے تک مسجد پہنچ جاتے۔ سانحہ لاہور کے دن شدید زخمی ہونے کے باوجود پورے ہوش و حواس میں دہشتگرد کو دبوچنے اور اُس کی خودکُش جیکٹ کو ناکارہ بنانے میں آپ کا کردار تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ واقعہ کے بعد جناح ہسپتال میں آپریشن کے دوران 85 سال کی عمر میں آپ کی شہادت ہوئی۔
………٭………٭………٭………
مکرم شابل منیر صاحب شہید
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔ 2010ء) میں مکرمہ امۃالنصیر بشریٰ صاحبہ اور مکرمہ طاہرہ نورین صاحبہ کے قلم سے مکرم شابل منیر صاحب شہید کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔
مکرم شابل منیر صاحب کے والد محترم محمد منیرصاحب ساؤنڈسسٹم کا بزنس کرتے تھے۔ جماعتی کاموں کے لیے ہمیشہ تیار رہتے۔ آدھی رات کو بھی ان کی ضرورت پڑتی تو کار نکال کر چل پڑتے۔ شہید مرحوم کی والدہ بھی بڑی رحمدل اور غریب پرور ہیں۔ کئی غیرازاجماعت لڑکیوں کی شادی پر بھی کپڑوں کی تیاری میں مدد کی توفیق پائی۔ اُن کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھے۔ مکرم شابل منیر شہید کی عمر 19 سال تھی اور یہ سب سے بڑے تھے۔ ان کے پڑدادا حضرت احمد دین صاحبؓ کو صحابی ہونے کا شرف حاصل تھا۔
28؍مئی2020ء کی صبح شہید مرحوم نے اپنے چھوٹے بھائی سترہ سالہ شہزاد کو ہمراہ لیا اور اپنی کار میں جمعہ ادا کرنے مسجد دارالذکر چلے گئے۔ مسجد کے گیٹ کے سامنے پارکنگ کی جگہ تھی لیکن شابل شہید نے گاڑی کچھ فاصلے پر پارک کی اور دونوں بھائی پیدل چل کر مسجد میں آگئے۔ شہزاد کا بیان ہے کہ ہمیں پہلی صف میں جگہ مل گئی۔ خطبہ جمعہ شروع ہوا تو دہشتگردوں نے حملہ کردیا۔ نہتّے نمازی حیران و پریشان بیٹھے تھے کہ اچانک محراب کی طرف سے ایک دہشتگرد اندر آگیا اور اُس نے محراب پر گرنیڈ پھینکا۔ لوگ باہر بھاگنے لگے تو شابل بھائی بھی ساتھ ہی نکل گئے۔ مجھے لگا کہ باہر خطرہ زیادہ ہے اس لیے وہیں بیٹھا رہا۔ اتنے میں دوسرا گرنیڈ پھٹا جو ایک بزرگ کی ٹانگ پر لگا۔ انہوں نے مجھے پکڑ کر اپنے پیچھے کرلیا اور مجھے بچالیا۔ پھر مجھے اپنے ساتھ ہی لٹالیا۔ مسجد کے صحن میں دو گرنیڈ پھٹے۔ آدھے گھنٹے بعد مجھے بھائی دروازے سے اندر آتے نظر آئے اور وہیں دروازے کے پاس بیٹھ گئے۔ انہوں نے مجھے دیکھا تو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ مَیں نے کہا کیسے آؤں، گولیاں چل رہی ہیں۔ لیکن پھر رینگتے ہوئے گیا اور اُن کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔ گولیوں سے کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ رہے تھے اور لوگ شہید ہورہے تھے۔ اچانک مینار کی طرف والا دروازہ توڑ کر ایک دہشتگرد اندر آیا جس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اور کالی پگڑی پہنی ہوئی تھی۔ اُس نے چاروں طرف چھ گرنیڈ پھینکے اور ہماری طرف فائرنگ شروع کردی۔ میرے دائیں بائیں سے گولیاں گزر رہی تھیں۔ ایک گولی میرے بازو کو چھوتے ہوئے گزرگئی اور مجھے جلن ہونے لگی۔ مجھے نہیں پتہ کہ مَیں کیسے بچ گیا۔ پھر اُس دہشتگرد نے خودکُش جیکٹ سے دھماکہ کیا اور ہماری آنکھوں کے سامنے ہلاک ہوگیا۔ اُس کا سر الگ ہوکر ہمارے سامنے گرگیا۔ مَیں نے بھائی کو آواز دی۔ وہ بولے میری ٹانگ سیدھی کرو۔ مَیں نے اُن کی ٹانگ سیدھی کی۔ ہر طرف خون ہی خون تھا۔ مَیں اُن کے جہاں ہاتھ لگاتا، میرا ہاتھ گوشت کے اندر تک چلا جاتا۔ اسی دوران میرے کزن کا فون آیا۔ مَیں نے انہیں صورت حال بتائی تو انہوں نے بھائی کے زخموں پر پٹی باندھنے کا کہا۔ مَیں نے اپنی قمیص پھاڑ کر پٹی باندھنے کی کوشش کی لیکن زخم اس قدر بڑے تھے کہ آدھے گھنٹے میں پٹی نہ بندھ سکی۔ پھر ابوجان کا فون آیا۔ شابل بھائی نے پیغام دیا کہ ڈاکٹر بھیجیں۔ ابو کہنے لگے مَیں کیسے ڈاکٹر بھیجوں؟ اُس وقت میرے دل میں ڈالا گیا کہ مَیں بچ جاؤں گا۔ بھائی کو چھ گولیاں لگی تھیں۔ مجھ میں پتہ نہیں اتنی ہمّت کیسے آگئی کہ جب بھائی کا سانس رُکنے لگا تو مَیں نے انہیں مصنوعی سانس دینے کی کوشش کی۔ وہ شدید زخمی حالت میں بھی درود پڑھ رہے تھے اور مجھے اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے خوش ہوں کہ میرا بھائی تو بچ گیا۔ پھر مَیں نے قریب پڑے ہوئے ایک اَور زخمی لڑکے کو دیکھا جس کی ٹانگ الگ ہوچکی تھی۔ مَیں نے اُسے سیدھا کیا، اُس کے منہ سے شیشے صاف کیے اور پھر اُسے ہوا دینے لگا۔ پھر میرے سامنے میرا بھائی شہید ہوگیا لیکن مجھ میں اتنی ہمّت نہیں تھی کہ یہ خبر کسی کو بتاسکتا۔
اوپر لجنہ ہال میں ایک دہشتگرد مسلسل چل رہا تھا اور اُس کے چلنے کی آواز نیچے آرہی تھی۔ پھر بہت دیرکے بعد مجھے پولیس اور ریسکیو والے نظر آئے۔ انہوں نے اشارہ کیا تو مَیں باہر نکلا۔ مَیں قمیص کے بغیر تھا، بُری حالت تھی اور خود سے بھی پہچانا نہ جاتا تھا۔ پولیس والوں نے تلاشی لی اور خدام نے پوچھ گچھ کرکے مجھے میرے والدین تک پہنچادیا جو باہر بے چینی سے انتظار کررہے تھے۔ ابّوامی بھائی کا پوچھنے لگے لیکن مَیں نے کچھ نہ بتایا۔ صرف ابّو کے کان میں کہا کہ بھائی کو گولیاں لگی ہیں۔ تب مَیں گھر آگیا اور ابّو امی اور میرے کزن بھائی کی تلاش میں ہسپتال چلے گئے۔ پھر مَیں بھی نہاکر ہسپتال چلاگیا۔ بھائی کی لاش وہاں پہنچادی گئی تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ پھر گاڑی میں بھائی کی نعش کو گھر لے آئے اور رات دو بجے ربوہ پہنچ گئے۔ یہ پہلا شہید تھا جس کا جسد خاکی ربوہ پہنچا تھا۔ پہلے گروپ میں نماز فجر کے بعد بھائی کی بھی تدفین عمل میں آئی۔
شابل شہید کی والدہ محترمہ صفیہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ عزیز شابل کی شہادت کے بعد مَیں بہت پریشان تھی کہ ربوہ میں ایک عورت گھر آکر گلے ملی اور کہا ’’اے شہید کی ماں! تجھے سلام‘‘۔ یہ لفظ سنتے ہی مجھے اپنا غم ختم ہوتا محسوس ہوا اور سوچا کہ مَیں کیوں رو رہی ہوں، مجھے تو میرے خدا نے بہت بڑا رُتبہ عطا فرمایا ہے۔ پھر پیارے حضور کا پون گھنٹے کا فون آیا۔ حضور اقدس نے گھر میں سب سے بات کی اور تسلّی دی تو ہم اپنا غم بھول گئے اور اپنی خوش قسمتی پر خدا کا شکر ادا کیابلکہ مَیں نے کہا کہ اس خوش قسمتی پر اب سب کا منہ میٹھا کرواؤ۔
شہید کی والدہ کی بلند حوصلگی دیکھیے کہ اگلے ہی دن شہزاد کو امتحان دینے بھجوادیا۔ پھر اگلے جمعے کو پرچہ دینے کے بعد شہزاد ازخود دارالذکر میں نماز جمعہ ادا کرنے چلاگیا اور بعد میں کہنے لگا کہ اگر ضرورت پڑی تو مجھے اس سے بھی آگے پائیں گے۔
عزیزم شابل شہید بہت نرم مزاج اور محنتی تھا۔ اس کی والدہ کہتی ہیں کہ شہید مرحوم بہت مہمان نواز تھا۔ شہادت سے کچھ دن قبل کھانے کی میز پر مَیں نے اپنے میاں سے کہا کہ مجھے عید کے کپڑے بنانے کے لیے کچھ پیسے چاہئیں تو شہیدمرحوم نے فوراً جیب سے پانچ ہزار روپے نکال کر مجھے دیے۔ شہید مرحوم تیرہ چودہ سال کی عمر سے روزے رکھ رہا تھا۔ مجھے کبھی اُسے جگانے کی ضرورت نہ پڑتی بلکہ خود مجھے جگاتا۔ پچھلے چند ماہ سے نمازوں کا بہت خیال رکھتا تھا بلکہ چھوٹے بہن بھائیوں کی بھی خاص نگرانی کرتا۔ قرآن کریم قراءت سے سیکھا ہوا تھا۔ اُس کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی جو شہادت کے وقت بھی موجود تھی۔ کبھی فالتو بات نہ کرتا۔
شہید مرحوم ہر ایک کا خیال رکھتا اور دوسرے بھی اس سے محبت کرتے۔ کبھی کسی کو کسی کام سے انکار نہ کرتا۔ گھر کے ملازم بھی اس سے خوش رہتے۔ اس کی شہادت پر کئی غیرازاجماعت تعزیت کے لئے آئے۔ کئی عزیزوں نے اس واقعے سے قبل بہت واضح خواب دیکھے تھے جو شابل شہید کی شہادت سے پورے ہوئے۔ اس کی شہادت کے تین دن بعد اس کے ایک خالو جو شہید کی والدہ کو اپنی بیٹی بھی کہا کرتے تھےوفات پاگئے۔
شہید مرحوم کی چھوٹی بہن عزیزہ شیزا منیر نے بیان کیا کہ وہ میرے سب سے بڑے اور سب سے اچھے بھائی تھے۔ وہ ہر کسی سے پیار کرتے تھے اور بچوں کو چیزیں لاکر دیتے تھے۔ جمعہ والے دن مَیں ٹیوشن پڑھنے گئی تو بڑے دونوں بھائی جمعہ کی نماز پڑھنے گئے ہوئے تھے۔ لیکن جب مَیں واپس آئی تو ہمارے گھر بہت سے لوگ آئے ہوئے تھے اور سب رو رہے تھے۔ مَیں نے اپنی امّی سے پوچھا کہ اتنے لوگ کیوں آئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ تمہارے شابل بھائی اللہ میاں کے پاس چلے گئے ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ جو اللہ میاں کے پاس چلے جائیں وہ کبھی واپس نہیں آسکتے۔ پھر ہم سب جنازے کے ساتھ ربوہ گئے۔ وہاں پر بہت زیادہ لوگ جمع تھے۔ ہر کوئی رو رہا تھا۔ میرے بھائی کو مٹی کے نیچے دبادیا گیا۔ اس دن جو کچھ دیکھا وہ بار بار میرے سامنے آتا ہے۔ جب ہم واپس اپنے گھر آئے تو بھائی بہت یاد آئے۔ میری امی میرے بھائی کو یاد کرکے روتی ہیں۔ جب وہ روتی ہیں تو مَیں بہت پریشان ہوتی ہوں اور مَیں بھی روتی ہوں۔ مَیں اپنے بھائی کے لیے تصویریں بناتی ہوں۔ جب ہم بھائی کی پسند کا کھانا بناتے ہیں تو میری امی اور ہم سب رو پڑتے ہیں۔ ربوہ جانے کے لیے ہم ہر وقت تیار رہتے تھے۔ جیسے ہی چھٹیاں ہوتیں بھائی سب سے پہلے تیار ہوتے تھے۔ اب وہ ہمیشہ کے لیے ربوہ رہ گئے ہیں۔ سب لوگ کہتے ہیں کہ وہ شہید ہیں لیکن مجھے ابھی شہید کے بارے میں نہیں پتہ کہ شہید کون ہوتے ہیں۔ جو لوگ شہید ہوئے ہیں مَیں اُن سب کے لیے دعا کرتی ہوں۔
………٭………٭………٭………