شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عمر کا بیان
حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ اپنی ایک تصنیف میں تحریر فرماتے ہیں :
’’ثَمَانِیْنَ حَوْلًا اَوْ قَرِیْبًا مِّنْ ذَالِکَ اَوْتَزِیْدُ عَلَیْہِ سِنِیْنًا۔ وَتَرٰی نَسْلًا بَعِیْدًا
یعنی تیری عمر اَسّی برس کی ہوگی یا دو چار کم یا چند سال زیادہ اور تو اس قدر عمر پائے گا کہ ایک دُور کی نسل کو دیکھ لے گا۔ اور یہ الہام قریباً پینتیس برس سے ہوچکا ہے۔ ‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ و اربعین نمبر3، روحانی خزائن جلد17صفحہ66 و419)
اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں :
’’جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ تو چہتّر اور چھیاسی کے اندراندرعمرکی تعیین کرتے ہیں۔ ‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن 21صفحہ 259)
آپ کی تاریخ ولادت 13؍فروری 1835ء بمطابق 14 شوال 1250ھ یکم پھاگن 1891بکرمی بروزجمعہ بیان ہوتی ہے۔
ایک حساب سے آپ کی تاریخ ولادت 17؍ فروری 1832ءبمطابق 14؍رمضان 1247ھ بروز جمعہ یکم پھاگن 1888ءبکرمی ہوسکتی ہے۔
اس کے علاوہ حضرت اقدسؑ اپنی کتب میں اپنی عمر اندازاً لکھتے رہے ہیں۔ کتاب البریہ میں آپؑ نے تحریر فرمایا:
’’میری پیدائش 1839ء یا 1840ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے اور میں 1857ء میں 16 برس کا یا سترھویں برس میں تھا۔ ‘‘
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ 177 حاشیہ)
پھر ایک اور جگہ آپؑ فرماتے ہیں :
’’یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک بارہ سو نوے ہجری میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ و مخاطبہ پا چکا تھا۔ ‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ 208)
پھر فرماتے ہیں :
’’جب میری عمر چالیس برس تک پہنچی تو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف کیا۔ ‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ283)
پھر ایک اور جگہ حضورؑ نے فرمایا:
’’اور یہ اتفاقات عجیبہ میں سے ہے کہ یہ عاجز نہ صرف ہزار ششم کے آخری حصہ میں پیدا ہؤا جو مشتری سے وہی تعلق رکھتا ہے جو آدم کا روز ششم یعنی اس کا آخری حصہ تعلق رکھتا تھا بلکہ یہ عاجز بروز جمعہ چاند کی چودھویں تاریخ میں پیدا ہوا ہے۔ ‘‘
(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ281 بقیہ حاشیہ نمبر 280)
پھر ایک اور جگہ حضورؑ نے یہ بھی فرمایا تھا:
’’میری پیدائش کا مہینہ پھاگن تھا۔ چاند کی چودھویں تاریخ تھی جمعہ کا دن تھا اور پچھلی رات کا وقت تھا۔ ‘‘
(ذکر حبیب از مفتی محمد صادق صاحبؓ صفحہ 189)
اور یہ بات قابلِ غور ہے کہ ماہ پھاگن میں جمعہ کی چاند کی چودھویں تاریخ صرف دو سالوں میں آئی ہے: مورخہ 17 فروری 1832ء اور 13؍فروری 1835ء مطابق 14 شوال 1250ہجری۔
آپؑ کی شادی کا بیان
رسولِ کریم ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ
خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَہْلِہٖ وَ اَنَا خَیْرُکُمْ لِاَہْلِیْ۔
یعنی تم میں سے درحقیقت بہترین وہ شخص ہے جو اپنے اہل کے ساتھ بہتر سلوک کرتا ہے اور میں اپنے اہل کے ساتھ تم میں سے سب سے زیادہ بہتر اور اچھا سلوک کرنے والا ہوں۔
(جامع ترمذی ابواب المناقب حدیث نمبر 3895)
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں :
’’حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات میں جہاں تک میرا مشاہدہ ہے میں نے رسولِ پاکؐ کے اس ارشاد کو اپنی پوری جامعیت اور حقیقت کے ساتھ پورا ہوتے دیکھا ہے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام اپنے گھر والوں سے، اپنے بچوں سے، اپنے ملازموں سے مہمانوں سے (احمدیوں سے)، دوستوں سے، عام ملنے جلنے والوں سے غرضیکہ ہر ایک سے نہایت ہی محبت اور شفقت اور ہمدردی کا سلوک فرمایا کرتے تھے۔ لفظ’’اہل‘‘ کے وسیع معنوں کے ساتھ اپنے اہل کے لیے آپؑ کا وجود سراسر خیر ہی خیر تھا جہاں تک گھر والوں کا تعلق ہے۔
مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام اپنے گھر والوں کے ساتھ نہایت ہی شفقت اور محبت کا سلوک فرمایا کرتے تھے۔ آپؑ حضرت اماں جانؓ کی طبیعت کا اس قدر خیال رکھا کرتے تھے کہ ہمارے موجودہ زمانے میں مَیں نے کسی خاوند کو ایسا خیال رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور پھر اسی طرح خود حضرت اماں جانؓ کا یہ حال تھا کہ وہ بھی ہر لحظہ اور ہر لمحہ حضورؑ کے آرام اور آسائش کا پورا پورا خیال رکھتیں۔ چنانچہ اکثر حضور ؑکے لیے کھانا خود تیار کیا کرتی تھیں۔ ‘‘
(ذکرِ حبیب، تقریر حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ جلسہ سالانہ 1957ء ربوہ صفحہ 5، 6)
حضرت اماں جانؓ کی بعض خصوصیات
(از حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ)
حضرت والدہ صاحبہ کے متعلق تو بہت کچھ لکھنے کو دل چاہتا ہے۔ اور یہ موضوع ایسا ہے جس سے سیری نہیں ہو سکتی۔ مگر طبیعت کی خرابی سر کی کمزوری خاص کر زیادہ لکھنے سے مانع رہی، اور ہے۔ اس مبارک وجود کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو مصرع تحریر فرما دیا وہی ایسا جامع ہے کہ اس سے بڑھ کر تعریف نہیں ہو سکتی یعنی
’’چن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لیے‘‘
اللہ تعالیٰ کا کسی کو چن لینا کیا چیز ہے۔ اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اس محسن و رحمٰن خدا نے کیا کیا جوہر اس روح میں رکھ دیے ہوں گے جس کو اس نے اپنے مسیحا کے لیے تخلیق کیا۔ میں ان کی تعریف اس لیے نہیں کروں گی کہ وہ میری والدہ ہیں بلکہ اس نظر سے کہ وہ فی زمانہ’’مومنوں کی ماں‘‘ ہیں۔ اور خدا کو حاضر ناظر جان کر اس امر کی گواہی ہمیشہ دوں گی کہ وہ اس منصب کے قابل ہیں۔ خدا نے میری والدہ پر فضل و احسان فرمایا کہ ان کو اپنے مسیحا کے لیے چن لیا۔ مگر انہوں نے بھی خدا کی ہی نصرت کے ساتھ دکھا دیا وہ اس کی اہل ہیں۔ اور اس انعام اور احسان خداوندی کی بے قدری و ناشکری ان سے کبھی ظہور میں نہیں آئی۔ اور خدا کا شکر ہے کہ یہ باران رحمت بے جگہ نہیں برسا۔ بلکہ بار آور زمین اس سے فیضیاب ہوئی۔ زیادہ کیا لکھوں، مجمل طور سے آپ کی چند خصوصیات او خوبیوں کا ذکر لکھ دیتی ہوں :
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ تک بے شک ہمارے دلوں پر آپ کی شفقت کا اثر والدہ صاحبہ سے زیادہ تھا۔ مگر آپ کے بعد آپ کو دنیا کی بہترین شفیق ماں پایا اور آج تک وہ شفقت و محبت روز افزوں ثابت ہو رہی ہے۔ ہمیشہ آپ کی کوشش رہی ہے۔ خصوصاً لڑکیوں کے لیے کہ ان کے مہربان باپ کی کمی کو پورا فرماتی رہیں۔ یہ تڑپ اس لیے بھی رہی کہ دراصل آپ کو حضرت اقدس علیہ السلام کی ہم پر مہر و محبت و شفقت کا خوب اندازہ تھا اور آپ خود باوجود سب سے اچھی ماں ہونے کے آج تک ہمارے لیے ایک کمی ہی محسوس کیے جا رہی ہیں۔ اور مہربانیوں سے آپ کا دل بھر نہیں چکتا۔ خدا آپ کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے آمین…
مجھے آپ کا سختی کرنا کبھی یاد نہیں۔ پھر بھی آپ کا ایک خاص رعب تھا۔ اور ہم بہ نسبت آپ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دنیا کے عام قاعدہ کے خلاف بہت زیادہ بے تکلف تھے۔ اور مجھے یاد ہے کہ حضور اقدس علیہ السلام کے حضرت والدہ صاحبہ کی بے حد قدر و محبت کرنے کی وجہ سے آپ کی قدر میرے دل میں بھی بڑھا کرتی تھی۔
آپ باوجود اس کے کہ انتہائی خاطر داری اور ناز برداری آپ کی حضرت اقدسؑ کو ملحوظ رہتی کبھی حضور علیہ السلام کے مرتبہ کو نہ بھولتی تھیں۔ بے تکلفی میں بھی آپ پر پختہ ایمان اور اس وجود مبارک کی پہچان آپ کے ہر انداز و کلام سے ترشح تھی جو مجھے آج تک خوب یاد ہے۔
آخر میں بار بار وفات کے متعلق الہامات ہوئے۔ تو ان دنوں بہت غمگین رہتیں۔ اور کئی بار میں نےآپ کو اور حضرت مسیح موعودؑ کو اس امر کے متعلق باتیں کرتے سنا۔ حضرت اقدس بشاش رو تھے۔ مگر والدہ صاحبہ کی اس امر کے متعلق اداسی کا اثر لیتے اور خود بھی ذرا خاموش ہو جاتے۔
ایک بار مجھے یاد ہے کہ حضرت والدہ صاحبہ نے حضرت اقدسؑ سے کہا۔ (ایک دن تنہائی میں الگ نماز پڑھنے سے پہلے نیت باندھنے سے پیشتر) کہ’’میں ہمیشہ دعا کرتی ہوں کہ خدا مجھے آپ کا غم نہ دکھائے اور مجھے پہلے اٹھا لے۔ ‘‘یہ سن کر حضرتؑ نے فرمایا’’اور میں ہمیشہ یہ دعا کرتا ہوں کہ تم میرے بعد زندہ رہو اور میں تم کو سلامت چھوڑ جاؤں۔ ‘‘ان الفاظ پر غور کریں اور اس محبت کا اندازہ کریں۔ جو حضرت مسیح موعودؑ آپ سے فرماتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے بعد ایک بہت بڑی تبدیلی آپ میں واقع ہوئی۔ پھر میں نے آپ کو پر سکون مطمئن اور بالکل خاموش نہیں دیکھا۔ ایک بے قراری اور گھبراہٹ سی آپ کے مزاج میں باوجود انتہائی صبر اور ہم لوگوں کی دلداری کے خیال کے پیدا ہوگئی جو آج تک نہیں گئی۔ یہ معلوم ہوتا ہے اس دن سے کہ آپ دنیا میں ہیں بھی، مگر نہیں بھی۔ اور ایک بے چینی سی ہر وقت لاحق ہے جیسے کسی کا کچھ کھو گیا ہو۔ اس سے زیادہ میں اس کیفیت کی تفصیل نہیں بیان کر سکتی۔
آپ کی خاص صفات یہ ہیں کہ آپ بے انتہا صابرہ ہیں اور پھر شاکرہ۔ ہر وقت کلمات شکر الٰہی آپ کی زبان پر جاری رہتے ہیں۔ دعاؤں کی آپ بہت ہی عادی ہیں۔ گو فرماتی ہیں کہ اب اس زور کی دعا کمزوری کے سبب سے مجھ سے نہیں ہو سکتی جس میں میری طاقت بہت خرچ ہوتی تھی۔ نماز آپ بےحد خشوع اور خضوع سے ادا فرماتی ہیں۔ اس کمزوری کے عالم میں آپ کے سجدوں کی طوالت دیکھ کر بعض وقت اپنی حالت پر سخت افسوس اور شرم معلوم ہوتی ہے۔
(باقی آئندہ)