قبولیت دعا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
میرے ایک صادق دوست اور نہایت مخلص جن کا نام ہے سیٹھ عبد الرحمن تاجر مدراس اُن کی طرف سے ایک تار آیا کہ وہ کاربنکل یعنی سرطان کی بیماری سے جو ایک مہلک پھوڑا ہوتا ہے بیمار ہیں چونکہ سیٹھ صاحب موصوف اوّل درجہ کے مخلصین میں سے ہیں اِس لئے ان کی بیماری کی وجہ سے بڑا فکر اور بڑا تردّد ہوا قریباً نو بجے دن کا وقت تھا کہ میں غم اور فکر میں بیٹھا ہوا تھا کہ یک دفعہ غنودگی ہو کر میرا سر نیچے کی طرف جھک گیا اور معاً خدائے عزّوجلّ کی طرف سے وحی ہوئی کہ آثارِ زندگی۔ بعد اس کے ایک اور تار مدراس سے آیا کہ حالت اچھی ہے کوئی گھبراہٹ نہیں۔لیکن پھر ایک اور خط آیا کہ جو اُن کے بھائی صالح محمد مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھاجس کا یہ مضمون تھا کہ سیٹھ صاحب کو پہلے اِس سے ذیابیطس کی بھی شکایت تھی ۔ چونکہ ذیابیطس کا کاربنکل اچھا ہونا قریباً محال ہے اِس لئے دوبارہ غم اورفکر نے استیلا کیا اور غم انتہا تک پہنچ گیا اور یہ غم اس لئے ہوا کہ میں نے سیٹھ عبد الرحمٰن کو بہت ہی مخلص پایا تھا اور انہوں نے عملی طور پر اپنے اخلاص کا اول درجہ پر ثبوت دیا تھا اور محض دلی خلوص سے ہمارے لنگر خانہ کے لئے کئی ہزار روپیہ سے مدد کرتے رہے تھے جس میں بجز خوشنودیٔ خدا کے اور کوئی مطلب نہ تھا اور وہ ہمیشہ صدق اور اخلاص کے تقاضا سے ماہواری ایک رقم کثیر ہمارے لنگر خانہ کے لئے بھیجا کرتے تھے اور اس قدر محبت سے بھرا ہوا اعتقاد رکھتے تھے کہ گویا محبت اور اخلاص میں محو تھے اور اُن کا حق تھا کہ اُن کے لئے بہت دعا کی جائے آخر دل نے اُن کے لئے نہایت درجہ جوش مارا جو خارق عادت تھا اور کیارات اور کیا دن میں نہایت توجہ سے دعا میں لگا رہاتب خدا تعالیٰ نے بھی خارق عادت نتیجہ دکھلایا اور ایسی مہلک مرض سے سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب کو نجات بخشی گو یا اُن کو نئے سرے سے زندہ کیا چنانچہ وہ اپنے خط میںلکھتے ہیںکہ خدا تعالیٰ نے آپ کی دُعا سے ایک بڑا معجزہ دکھلایا ورنہ زندگی کی کچھ بھی اُمید نہ تھی اپریشن کے بعد زخم کا مندمل ہونا شروع ہو گیا اور اس کے قریب ایک نیا پھوڑا نکل آیا تھا جس نے پھر خوف اورتہلکہ میں ڈال دیا تھا مگر بعد میں معلوم ہواکہ وہ کاربنکل نہیں آخر چند ماہ کے بعد بکلی شفا ہو گئی۔ میں یقینا ًجانتا ہوں کہ یہی مردہ کا زندہ ہونا ہے۔ کاربنکل اور پھر اس کے ساتھ ذیابیطس اور عمر پیرانہ سالی اِس خوفناک صورت کو ڈاکٹر لوگ خوب جانتے ہیں کہ کس قدر اس کا اچھا ہونا غیر ممکن ہے ہمارا خدا بڑا کریم و رحیم ہے اور اس کی صفات میں سے ایک حیاء کی صفت بھی ہے سال گذشتہ میں یعنی ۱۱؍اکتوبر ۱۹۰۵ء کو ہمارے ایک مخلص دوست یعنی مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اِسی بیماری کار بنکل یعنی سرطان سے فوت ہو گئے تھے اُن کے لئے بھی میںنے بہت دعا کی تھی مگر ایک بھی الہام اُن کے لئے تسلی بخش نہ تھا بلکہ بار بار یہ الہام ہوتے رہے کہ کفن میں لپیٹا گیا۔ ۴۷ برس کی عمر۔ اِنّا للّٰہ و انّا الیہ راجعون۔
ان المنایا لا تطیش سھامھا
یعنی موتوں کے تیر خطا نہیں جاتے۔ جب اس پر بھی دعا کی گئی تب الہام ہوا ۔
یاایھا الناس۴ اعبدوا ربکم الذی خلقکم۔تؤثرون۵ الحیٰوۃ الدُّنیا۔
یعنی اے لوگو! تم اُس خدا کی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے یعنی اُسی کو اپنے کاموں کا کارساز سمجھو اور اس پر توکل رکھو۔ کیا تم دنیا کی زندگی کو اختیار کرتے ہو۔ اِس میں یہ اشارہ تھا کہ کسی کے وجود کو ایسا ضروری سمجھنا کہ اس کے مرنے سے نہایت درجہ کا حرج ہوگا ایک شرک ہے اور اس کی زندگی پر نہایت درجہ زور لگا دینا ایک قسم کی پرستش ہے اس کے بعد میںخاموش ہو گیا اور سمجھ لیا کہ اس کی موت قطعی ہے چنانچہ وہ گیارہ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو بروز چار شنبہ بوقت عصر اس فانی دنیا سے گذر گئے۔ وہ درد جو اُن کے لئے دعا کرنے میں میرے دل پر وارد ہوا تھا خدا نے اس کو فراموش نہ کیا اور چاہا کہ اس ناکامی کا ایک اور کامیابی کے ساتھ تدارک کرے اس لئے اِس نشان کے لئے سیٹھ عبد الرحمٰن کو منتخب کر لیا اگرچہ خدا نے عبد الکریم کو ہم سے لے لیا تو عبد الرحمٰن کو دوبارہ ہمیں دے دیا۔ وہی مرض اُن کے دامنگیرہو گئی آخر وہ اسی بندہ کی دعائوں سے شفایاب ہو گئے فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔ میرا صدہا مرتبہ کا تجربہ ہے کہ خدا ایساکریم و رحیم ہے کہ جب اپنی مصلحت سے ایک دعا کو منظور نہیں کرتا تو اس کے عوض میں کوئی اور دعا منظور کر لیتا ہے جو اُس کے مثل ہوتی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔
مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَاؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۔(البقرۃ:107)
(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 338تا340)
٭…٭…٭