یادِ رفتگاں

مکرم اظہر احمد بھٹی (مرحوم) آف نیروبی

(محمد افضل ظفر۔ کینیا)

موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں

ڈوب جاتے ہیں سفینے موت کی آغوش میں

موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں

کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ المَوْت

کے مطابق ہر انسان کو اس جہان فانی سے کوچ کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے۔ جو لوگ اس جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں ان کی اچھی یادیں اور نیک کام ہمیں ان کی یاد دلاتے رہتے ہیں جس سے ان کے لیے دعا کی توفیق بھی ملتی ہے اور نیک کاموں کی تحریک بھی ہوتی ہے۔ آج یاد رفتگان کے حوالے سے مکرم اظہر احمد بھٹی صاحب کے اوصاف حمیدہ کا مختصر تذکرہ مقصود ہے۔

مکرم اظہر احمد بھٹی صاحب ابن ہومیو ڈاکٹر مظفر احمد بھٹی مرحوم ساکن نیروبی 25؍دسمبر 2019ءصبح نو بجے چون سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

اسی روز شام چار بجے مکرم مولانا طارق محمو د ظفر صا حب امیر و مشنری انچارج کینیا نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اوراحمدیہ قبرستان نیروبی کے قطعہ موصیان میں تد فین کی گئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ 7/1 حصہ کے موصی تھے۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معروف صحابی حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب رضی اللہ عنہ کی نسل میںسے تھے اور آپ کی والدہ محترمہ حضرت ڈاکٹر عمرالدین صاحب صحا بی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل میں سے تھیں۔ گویا آپ کے دونوں بزرگ والدین کا تعلق صحا بہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے تھا۔

آپ نہایت سادہ مزاج اور ہنس مکھ انسان تھے۔ نہایت شائستہ گفتگو کرتے اور ہر ایک سے بہت احترام کےساتھ پیش آتے۔ آپ کو کبھی کسی سے جھگڑتے یا اونچی آواز سے بات کرتے نہیں دیکھا گیا۔ آپ کا لباس سادہ مگر باوقار اور صاف ستھرا ہوتا۔ آپ پیشہ کے لحاظ سے آئی ٹی کنسلٹنٹ اور اکاؤنٹنٹ تھے۔ اپنے والد صاحب کی وفات کے بعد کچھ عر صہ ہومیو پیتھی کی پریکٹس بھی کرتے رہے۔

مکرم اظہر صاحب پنجگانہ نمازوں کے علاوہ نمازتہجد بھی باقاعدگی سے ادا کرتے۔ روزانہ باقاعدگی سے تلاوت قرآن کریم کرتے۔ آپ کو متعدد بار اعتکاف بیٹھنے کی توفیق بھی ملی۔ آپ کثرت سے درود شریف پڑھتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ آپ کو درود شریف سے اتنا لگاؤتھا کہ جب آپ صدر مجلس خدام الاحمدیہ کینیا تھے تو آپ نے خدام کی ماہانہ رپورٹ میں باقاعدہ یہ خانہ رکھا کہ ہر خادم سے پوچھیں کہ اس نے دن میں کتنی مرتبہ درود شریف کا ورد کیا ہے۔ غرضیکہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور خلا فت احمدیہ سے عقیدت ان کی زندگی کا سرمایہ تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں باقاعدگی سے دعائیہ خط لکھتے اور دوسروں کو بھی اس کی تحریک کرتے۔ خلیفۂ وقت کی ہر آواز پر لبیک کہنے اور آپ کی ہر تحریک میں شامل ہونے کی مقدور بھر کوشش کرتے۔ نظام جماعت کی پابندی اور مربیان سلسلہ کی تکریم آپ کی نمایاں خصوصیات تھیں۔

مکرم بھٹی صا حب ایک لمبے عرصے سے گردوں کی مرض میں مبتلا تھے مگر آپ نے نہایت ہمت کے ساتھ اس تکلیف دہ بیماری کا مقابلہ کیا اور کبھی حرف شکا یت یا نا شکری کے الفاظ زبان پر نہ لاتے۔ جو کوئی حال احوال پوچھتا توہمیشہ یہی کہتے کہ الحمد للہ ٹھیک ہوں بس دعا میں یاد رکھیں۔ آپ کے ہر ہفتہ مسلسل ڈائلائسز ہوتے رہے جس کی وجہ سے آپ بہت کمزور ہو گئے اور چلنے پھرنے کی ہمت نہ رہی۔ وہیل چیئر پر یا گاڑی میں اپنی اہلیہ محترمہ کے ہم راہ مسجد اور ادھر ادھر جاتے۔ اس تکلیف دہ صورت حال کے باوجود آخر وقت تک نماز اور جماعتی پروگراموں میں شرکت کے لیے مسجد آتے۔ آپ کو خدمت دین کا اس قدر شوق تھا کہ اپنی وفات سےدو ہفتے قبل شدید تکلیف کے باوجود جلسہ سالانہ نیروبی کے بابرکت موقع پر ڈیوٹی دی۔ اگر یہ کہا جائے کہ خدمت دین ان کی گھٹی میں شامل تھی تو مبالغہ نہ ہو گا۔ آپ کو اوئل عمر سے لے کر تادم آخر مختلف جماعتی عہدوں پر کام کرنے کی توفیق ملی۔ آپ لمبا عرصہ صدر خدام الاحمدیہ کینیا رہے اس کے علاوہ نیشنل عاملہ میں مختلف حیثیتوں سےخدمات سر انجام دیتے رہے بوقت وفات آپ نیشنل سیکرٹری وصایا کے طور پر خدمت بجا لا رہے تھے۔ اس کے علاوہ مجلس انصاراللہ کینیا کی نیشنل عاملہ اور نیروبی جماعت کی عاملہ کے ممبر بھی رہے۔ بحیثیت سیکرٹری وصیت آپ کو قابل تعریف خدمات کی توفیق ملی۔ اگرچہ آپ بیمار تھے لیکن آپ باقاعدگی سے موصیان سے رابطہ رکھتے ان کا ریکارڈ مکمل کرتےاور انہیں اپنے چندہ جات بروقت ادا کرنے اور وصیت کے تقا ضوں کو کما حقہ پورا کرنے کی تلقین کرتے۔ آپ بذریعہ فون واٹس ایپ اور ای میل اپنے زیرِ رابطہ احباب جماعت کو مالی قربانیوں میں حصہ لینے اورنظام وصیت میں شامل ہونے کی تحریک کرتے اور اس سلسلے میں آیات قرآنیہ، احادیث نبویہؐ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفا ئےکرام کے ارشادات بھیجتے۔ آپ کو دعوت الیٰ اللہ کا بھی بہت شوق تھا۔اپنی بیماری کے دوران بھی وہیل چیئر پر اپنی اہلیہ کے ہم راہ پارکوں، سپر مارکیٹوں اورچوراہوں پر پمفلٹ تقسیم کرتے تھے۔ بعض اوقات تو آپ سرکاری دفاتر میں بھی جا کرافسران اور دیگر لوگوں کو جماعت کا لٹریچر دیتے اور پھر ان سے رابطہ بھی رکھتے۔

آپ کی اہلیہ محترمہ نے بتایا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے زیر تبلیغ متعدد لوگوں کے فون آئےجن میں عرب دوست بھی شامل تھے۔ انہوں نے مزید معلومات حاصل کرنی چاہیں چنانچہ انہیں ان کے علاقہ کے قریبی مربی صاحب کا نمبر دے دیا گیا۔ آپ کو دعوت الیٰ اللہ کے کام کے سلسلے میں متعدد بار سخت حالات کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر آپ نے ہمت نہ ہاری اور اپنا کام جاری رکھا۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مکرم بھٹی صاحب مرحوم کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائےاور آپ کے پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button