متفرق مضامین

الدلائل القطعیہ فی سیرۃ النبویہؐ (قسط اوّل)

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

نبی کریمﷺ کا شجرہ نسب

انسان جس سے محبت کرتا ہے اس سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں، اس کے دوستوں، آباء و اجداد، اولاد، پڑوسیوں، شہر، ملک سے بھی اس کا ایک تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی لیے نبوت و ماموریت کے کسی بھی دعویدار کے ذاتی حالات کے علاوہ اس کے خاندانی حالات جاننا بھی اس کے ماننے والوں کی خواہشات کا حصہ ہوتا ہے۔ اس خواہش کے نتیجہ میں اکثر مذاہب میں انبیاؑء کے والدین یا اولاد کے متعلق بھی کچھ نہ کچھ روایات پائی جاتی ہیں۔ بسا اوقات تو انبیاؑء کے زمانہ کے بعد آنے والوں نے اس ضمن میں موجود کسی کمی کو وضعی قصص کی مدد سے پورا کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ تاہم یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آنجنابؐ کا قریبی شجرۂ نسب متعدد وجوہ سے آغازِ اسلام سے ہی بیان کیا جاتا رہا ہے۔

جدّی نسب

کتب سیرت میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جدی شجرہ نسب یوں بیان کیا گیا ہے:

محمد ؐبن عبد اللہ بن عبد المطلب جن کا نام شیبہ تھا، بن ہاشم جن کا نام عمرو تھا، بن عبد مناف جن کا نام مغیرہ تھا، بن قصی جن کا نام زید تھا، بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ جن کا نام عامر تھا، بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔ یہ عدنان تک کل ۲۱ پیڑھیاں ہوئیں۔

اس سے اوپر:عدنان بن اد بن مقوم بن ناحور بن تیرح بن یعرب بن یشجب بن نابت بن اسماعیل بن ابراہیم۔ ان ۹ پیڑھیوں کو ملا کر آپؐ سے حضرت ابراہیم ؑ تک اس معروف شجرہ کے مطابق ۳۰ نسلیں ہوئیں۔

اس کے بعدحضرت ابراہیم ؑسے آدم ؑتک یوں بیان کیا جاتا ہے: ابراہیمٖؑ بن تارح بن ناحور بن ساروغ بن راعو بن فالخ بن عبیر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوح ؑبن لمک بن متوشلخ بن اخنوخ بن یرد بن مھلیل بن قینن بن یانش بن شیث بن آدمؑ۔( ابن اسحاق، صفحہ ۱۷۔ ابن ھشام، سیرۃ،جلد ۱، صفحہ ۳۹۔)یہ ۱۹ پیڑھیاں ملا کر کل آپ ؐسے آدم تک ۴۹ نسلیں بنیں۔

دادیوں کا نسب

اس شجرہ کا پہلا حصہ، جو کہ عدنان تک ۲۱ پیڑھیوں پر مشتمل ہے، کی اکثر امہات کا بھی ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ آپؐ کی والدہ اور دادیوں کا نقشہ کچھ یوں بتایا گیا ہے

٭لیکن السدوسی کے مطابق سلمیٰ بنت زید بن خداش بن لبید بن حرام بن عدی بن نجار ہے۔ ٭٭فہر کی والدہ کے چار مختلف نام اور نسب بتائے گئے ہیں۔

اس جدول کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قصی، جو کہ آپؐ سے پانچ پیڑھیاں پہلے ہیں، تک شجرہ نسب کم و بیش متفقہ ہے۔ جبکہ اس کے بعد دادیوں کے شجرہ میں کافی اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ بات، جیسا کہ آگے ذکر آ رہا ہے، جدید تحقیق کے بھی مطابق ہے۔ مضر پر جا کر دادیوں کا ذکر ختم ہو جاتا ہے۔ یہ حقیقت ابن کلبی کے اس دعویٰ سے متصادم ہے جس میں اس نے آپؐ کی ۵۰۰ ماؤں کے نام نہ صرف جاننے بلکہ ان کو کھنگالنے اور ان کے حالات زندگی معلوم ہونے کا ذکر کیا ہے۔ (ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر، جلد ۱، صفحہ ۴۲)یا تو شجرہ نسب کا یہ حصہ ابن کلبی کے بعد کسی وقت ضائع ہو گیا ہے۔ اور یا پھر ابن کلبی نے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے، اور یہی قرین قیاس ہے۔

کیا یہ شجرہ مکمل ہے؟

ازمنہ گذشتہ میں یہ رواج تھا کہ بات کرتے وقت بعض آباء کا ذکر چھوڑ دیا جاتا تھا اور محض مشہور اور اہم آباء کا تذکرہ ہی ضروری خیال کیا جاتا تھا۔ خود آنحضور ؐ کے کلام میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ آپ ؐ نے ایک موقع پر فرمایا:

اَنَا النَّبِیُ لَا کَذِبْ، اَنَا اِبْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

(ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر، جلد ۱، صفحہ ۴۲۔)

اس جگہ اپنے آپ کو عبد المطلب کا بیٹا قرار دیتے ہوئے والد، حضرت عبد اللہ، کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک اور موقع پر فرمایا کہ میں:

دعوۃ ابی ابراھیم

(احمد، مسند، مسند الانصار۔ ابی امامہ باھلی، نمبر ۲۲۸۹۹۔ )

یعنی اپنے باپ ابراہیمؑ کی دعا ہوں۔ یوں ابراہیم ؑکو اپنا والد قرار دیتے ہوئے بیچ کے تمام آباء کا ذکر حذف فرما دیا۔ یہ صرف آپؐ کا طرز کلام نہیں بلکہ عربوں میں عام اور معروف طریق تھا۔ ایک موقع پر آپؐ نے بنو اسلم کو فرمایا:

اِرْمُوْا بَنِى إِسْمَاعِيْلَ فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا

( بخاری، صحیح، کتاب الجھاد، باب التحریص علی الرمی)

یعنی اے بنی اسماعیل! تیر چلاؤ تمہارے والد بھی تیر انداز تھے۔ معلوم ہوا کہ کسی شخص کی ذریت، خواہ بیچ میں کتنی ہی نسلیں ہوں، اس کی طرف براہ راست منسوب کر دی جاتی تھی۔ پس شجرۂ نسب میں زید کو بکر کا بیٹا کہنا ضروری نہیں کہ زید کے بکر کا حقیقی بیٹا ہونے پر ہی دلا لت کرے۔ اس سے مراد بکر کی نسل میں سے کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے۔ اسی معروف طریق پر مذکورہ بالا شجرۂ نسب میں بھی بہت سے نام چھوڑ دیے گئے ہیں۔ بلکہ اس شجرہ کے متعلق تو کہا گیا ہے کہ عدنان سے ابراہیمؑ تک کا شجرہ بھلا دیا گیا ہے۔چنانچہ دورِ جاہلیت کے کسی عرب شاعر کے اشعار میں عدنان سے پہلے کے آباء کا یقینی ذکر نہیں ملتا۔ اسی لیے علماء نے زیادہ تر عدنان سے نیچے کے شجرہ پر ہی بحث کی ہے۔

عدنان سے اوپر کے شجرہ نسب کے غیر محفوظ ہونے پر ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ اس کے متعلق روایات میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ ابن ھشام کے مندرجہ بالا شجرہ میں معد بن عدنان اور حضرت اسماعیل ؑکے درمیان آٹھ پیڑھیاں ظاہر کی گئی ہیں لیکن بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ معد اور اسماعیلؑ کے درمیان ۳۰ آباء تھے۔ بعض روایات میں ۷ یا ۹ یا ۱۵ یا ۴۱ آباء کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ یہ تو پیڑھیوں کی تعداد کا حال ہے۔ ناموں میں اختلاف اس کے علاوہ ہے۔ (ابن کلبی، جمھرۃ النسب، صفحہ ۱۷۔ابن عبد البر، الانباہ علی قبائل الرواۃ، صفحہ ۱۶۔ ا بن قتیبۃ، کتاب المعارف، صفحہ ۶۳۔ابن حبان، سیرۃ النبویۃ، صفحہ ۴۰۔۴۳۔)کہا جاتا ہے کہ جب آنجنابؐ کے سامنے عدنان سے اوپر کا شجرہ بیان کیا گیا تو فرمایا:

کذب النسابون، کذب النسابون

(بلاذری، انساب الاشراف، جلد ۱، صفحہ ۱۷۔)

گو اس بارہ میں کلام کیا گیا ہے کہ یہ واقعی حدیث ہے یا کسی صحابی کا قول، (لسھیلی، روض الانف، جلد ۱، صفحہ ۳۲۔القسطلانی، مواھب اللدنیہ، جلد ۱، صفحہ ۹۵۔) تاہم اس بات میں کچھ شک نہیں کہ عدنان سے اوپر کے حصہ پر تو بالکل بھی حصر نہیں۔ عدنان سے نیچے کے شجرہ پر، جو کہ ۲۱ پیڑھیوں پر مشتمل ہے، البتہ کچھ بحث ممکن ہے۔ افسوس کہ اس کے باوجود ایسی روایات خود آپؐ کی طرف منسوب کی گئی ہیں جن میں مبینہ طور پر آپؐ نے خود اپنا شجرہ نسب آدمؑ تک بیان فرمایا ہے۔ (سمعانی، الانساب، جلد ۱، صفحہ ۴۵۔) جبکہ دیگر روایات میں صاف بیان ہوا ہے کہ آپؐ نضر بن کنانۃ، یعنی ۱۴ویں پیڑھی، یا عدنان، یعنی ۲۱ویں پیڑھی، سے اوپر نہیں گئے۔

(ابن عبد البر، الانباہ علی قبائل الرواۃ، صفحہ ۱۹۔ قسطلانی،المواھب اللدنیہ، جلد۱، صفحہ ۹۴۔)

اگر زمانہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ سے حضرت ابراہیم ؑتک ۳۰ نسلوں کا زمانہ، ۳۰سال فی نسل کے حساب سے، ۹۰۰سال بنتا ہے۔ [نوٹ: علماء بالعموم ۳۰ سال فی نسل کا تخمینہ استعمال کرتے ہیں مثلا ً Varisco۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اوسطاً باپ کی عمر ۳۰ سال تھی جب اس کا وہ بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اگلی پیڑھی پر آتا ہے۔ گو پرانے زمانے میں جلدی شادی ہو جاتی تھی اور بکثرت ۲۰ تا ۲۵ کی عمر تک ایسے بیٹے موجود ہو تے تھے تاہم یہ ایک اوسط لی گئی ہے۔]جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آپ ؐسے قریباً ۲۵۰۰سال پہلے ہو گزرے ہیں اور اس دوران کم و بیش ۸۳ نسلیں ہونی چاہئیں۔[نوٹ: علماء نے اسی کے موافق دوسری جگہ لکھا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ سے آپؐ تک ۲۴۰۷ سال بنتے ہیں۔ الطبری، تاریخ، جلد ۲، صفحہ ۲۳۸۔ ابن الجوزی، المنظم، جلد ۲، صفحہ ۱۹۸] اسی طرح آپؐ سے عدنان تک ۲۱ نسلوں کا زمانہ قریباً ۶۳۰ سال بنتا ہے۔ گویا عدنان کو حضرت عیسیٰ ؑکا ہم عصر ہونا چاہیے۔ لیکن مورخین نے عدنان کو بخت نصر (۶۳۴۔۵۶۲ ق۔م)کا ہم عصر بتایا ہے۔[نوٹ: طبری، تاریخ الرسل والملوک، جلد ۱، صفحہ ۵۵۸ کے مطابق عدنان کے بیٹے معد کے وقت میں نبوکدنظر نے عربوں سے جنگ کا ارادہ کیا تھا۔] جو کہ کم و بیش ۷۰۰ سال کا فرق ہے۔

قرآن کریم کا ارشاد

اس معروف نسب نامہ کے محفوظ نہ رہنے کے متعلق قرآن کریم کی مندرجہ ذیل دو آیات روشنی ڈالتی ہیں:

اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَبَؤُا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوۡدَ ۬ؕۛ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ؕۛ لَا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا اللّٰہُ

(سورۃ ابراھیم :۱۰)

کیا تمہارے پاس اُن لوگوں کی خبریں نہیں پہنچیں جو تم سے پہلے تھے۔ قوم نوح اور عاد اور ثمود۔ اور وہ لوگ جو ان کے بعد تھے، جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

اور:

وَ عَادًا وَّ ثَمُوۡدَا۠ وَ اَصۡحٰبَ الرَّسِّ وَ قُرُوۡنًۢا بَیۡنَ ذٰلِکَ کَثِیۡرًا

(سورۃالفرقان:۳۹)

اور عاد اور ثمود اور راس کے لوگ۔ اور ان کے بیچ بہت سی صدیاں۔

پس ان قوموں کے درمیان ایک لمبا عرصہ، جو کہ بہت سی صدیوں پر محیط تھا، گزرا ہے۔ اس دوران ایسی قومیں بھی تھیں جو اپنا زمانہ مکمل کر کے گزر گئیں اور جنہیں اب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے مختلف قبائل اور اقوام کے جو شجرہ ہائے نسب مشہور ہیں وہ سب ناقص ہیں۔ ورنہ لَا یَعْلَمُھُمْ اِلَّا اللّٰہنہ فرمایا جاتا۔

نسب کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات

آنحضورؐ کے شجرۂ نسب کے متعلق فرمایا:

’’ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے اس شجرہ کو صحیح قرار نہیں دیا جو وہ لوگ حضرت اسماعیلؑ تک پہنچایا کرتے تھے اور بجز چند پشت کے باقی کذب کاذبین قرار دیا ہے…قریش جو علم انساب میں بڑے حریص تھے تفصیل وار سلسلہ یاد نہ رکھ سکے۔‘‘

(حضرت مرزا غلام احمدؑ، ایام الصلح، روحانی خزائن، جلد ۱۴، صفحہ ۲۹۹)

فرمایا شجرہ نسب کے بارہ میں اکثر باتیں محض خیال اور دعویٰ ہیں:

و لا یدری الخفایا غیر ربی

و ما الاقوام الا کالاسامی

و ای ثبوت نسبٍ عند قومٍ

سوی الدعوی کأَوھام المنام

(حضرت مرزا غلام احمدؑ، نور الحق نمبر۲، روحانی خزائن، جلد ۸، صفحہ ۲۵۷)

ترجمہ: اور چھپی باتوں کو میرے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور قومیں سوائے نام کے کچھ نہیں۔ کسی قوم کے پاس اپنے نسب کا کیا ثبوت ہے؟ سوائے دعویٰ کے جیسا کہ خواب میں وہم ہوتے ہیں۔

پھر فرمایا:

’’اعلم ان امر النسب و الاقوام امر لا یعلم حقیقتہٗ الا علم العلّام۔

(حضرت مرزا غلام احمدؑ، سر الخلافۃ، روحانی خزائن، جلد ۸، صفحہ ۳۸۵)

جان لو کہ نسب اور اقوام کی بات ایک ایسی بات ہے جس کی حقیقت کوئی نہیں جانتا مگر سب سے زیادہ جاننے والے کا علم۔

اقوام کی حقیقت کیا ہے؟ فرماتے ہیں:

’’قوموں کی حقیقت یہ ہے کہ ایک مدت دراز کے بعد شریف سے رذیل اور رذیل سے شریف بن جاتی ہیں۔ اور ممکن ہے کہ مثلاً بھنگی یعنی چوہڑے یا چمار جو ہمارے ملک میں سب قوموں سے رذیل تر خیال کیے جاتے ہیں کسی زمانہ میں شریف ہوں اور اپنے بندوں کے تغیرات کو خدا ہی جانتا ہے دوسروں کو کیا خبر ہے۔‘‘

(حضرت مرزا غلام احمدؑ، تریاق القلوب، روحانی خزائن، جلد ۱۵، صفحہ ۲۷۸)

عربوں میں شجرۂ نسب کے حصے

مختلف اقوام میں شجرہ نسب کو یاد رکھنے کی بڑی وجہ جتھے کی ضرورت تھی۔ قبائلی معاشرہ میں صرف ایک طاقتور جتھا ہی کسی شخص کو دیگر قبائلیوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھ سکتا تھا۔ جتھے کے کسی فرد پر حملہ پورے جتھے پر حملہ متصور کیا جاتا اور حملہ آور سے بدلہ لینا جتھے کی اجتماعی ذمہ داری خیال کی جاتی۔ بوقت ضرورت اپنے جتھے کے افراد کو جاننا اور مدد کے لئے بلانا اس معاشرہ میں زندہ رہنے کے لئے ضروری تھا۔ اس ضرورت کے پیش نظر قدیم عربوں نے شجرہ نسب کو چھ حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ یہ تقسیم جسم کے حصوں کے مطابق تھی۔ نزدیک ترین حصہ سب سے نیچے اور دور ترین اوپر تھا۔ آپؐ کے حوالہ سے ان حصص کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے ( Varisco، Metaphors and sacred history، صفحہ ۱۴۱۔۱۴۲۔ ابن عبد البر، الانباہ علی قبائل الرواۃ، صفحہ ۴۵)۔

نوٹ :دلچسپ بات یہ ہے کہ سمعانی نے آنحضورؐ کا فصیلہ بنوعبد المطلب کی بجائے بنو عباس بتائے ہیں۔( السمعانی، الانساب، جلد ۱، صفحہ ۵۰) حالانکہ بنو عباس کسی بھی طرح آپؐ کے فصیلہ نہیں بن سکتے کیونکہ عباس آپؐ کے چچا تھے۔ غالباً اس تحریف کی وجہ بنو عباس ہیں جو کہ اس وقت برسراقتدار تھے اور مقصد ان کی آپؐ سے قرابت داری دکھانا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کیسے سیاسی مقاصد کی خاطر حقائق کو تبدیل کیا جاتا تھا۔

عرب بدو قبائل پر تحقیق

جزیرہ نما عرب کے بدو قبائل پر کی گئی جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ تر بدو تین نسلوں پر مشتمل فخذ یعنی پردادا تک کے خاندان کا ہی علم رکھتے ہیں۔ اس حد تک تمام رشتہ داروں کا انہیں علم ہوتا ہے۔ وہ اپنے پردادا کا نام تو جانتے ہیں تاہم پردادا کے باپ کا نام عام طور پر انہیں معلوم نہیں ہوتا۔( Kennedy، From oral tradition…، صفحہ ۵۳۲) اس بات کی تصدیق دیگر علاقوں کے بدو قبائل سے بھی ہوئی ہے مثلاً لیبیا اور یمن کے قبائل میں بھی یہی بات پائی گئی ہے۔(Versico، Methaphor and Sacred History…، صفحہ ۱۴۳۔) معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک عام اصول ہےجو کسی علاقہ سے مخصوص نہیں۔ اکثر معاشروں میں ۵ سے زائد پیڑھیوں تک اپنا ذاتی شجرہ نسب اکثر لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا۔عرب قبائل میں شاذ کے طور پر ۱۴ سے زیادہ پیڑھیوں کا ذکر ملتا ہے، اس کے بعد اکثر اوقات اپنے قبیلے یا علاقہ کا نام بطور جد امجد لے لیا جاتا ہے۔( Levin، Understanding biblical Genealogies، صفحہ ۱۸) جبکہ اس میں بھی کئی پیڑھیوں پر صرف ایک شخص کا ہی ذکر محفوظ ہوتا ہے۔ بدو قبائل میں کسی بھی شخص کا طویل ترین شجرہ نسب اب تک ۱۷ پیڑھیوں پر مشتمل پایا گیا ہے۔ (Kennedy، From oral tradition …۔صفحہ۵۳۴ تا ۵۳۶۔)اس سے زیادہ کسی شخص کا شجرہ نہیں بتایا جا سکا۔ یہ تو شجرہ کی طوالت کا بیان ہے، اور جو شجرہ بیان کیا جاتا ہے اس کے درست یا غلط ہونے کا سوال الگ ہے۔

ہر خاندان کے ہر فرد کا اپنا جداگانہ نسب نامہ ہے۔ قبل از وقت کسی کو علم نہیں ہو سکتا کہ کون سی اہم شخصیت کس خاندان میں پیدا ہو گی۔ لہٰذا کسی مشہور شخص کا شجرہ نسب محفوظ رہنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اس قبیلہ میں ہر پیڑھی پر تمام افراد کا شجرہ نسب محفوظ رہا ہو۔ علم الانساب کی کتب دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتنی بڑی تعداد ہے۔ مثلاً ابن کلبی کی کتاب میں ۳۵ ہزار ناموں کا ذکر ہے۔( Henninger، Altarabische Genealogie، صفحہ ۸۵۳)جبکہ سمعانی اور بلاذری کی کتب ابن کلبی کی کتاب سے دس گنا زیادہ حجم رکھتی ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ شجرہ نسب حفظ کرنے کا کوئی باقاعدہ تدریسی نظام نہیں تھا۔ اسی لئے مختلف لوگوں کے یاد کردہ شجرہ نسب میں اختلاف پایا جاتا ہے اور کوئی بھی شجرہ نسب یقینی نہیں کہلا سکتا۔

آنحضورؐ کے شجرہ نسب میں بھی سینکڑوں نام بتائے گئے ہیں۔ ان میں آدمؑ تک آپؐ کے تمام آباء کے ناموں کے علاوہ عدنان تک تمام دادیوں کے نام اور ان دادیوں کے آباء کے نام اور اُن آباء کی ماؤں کے نام بھی شامل ہیں۔ صرف ان خواتین کی تعداد ہی ۵۰۰ سے زائد بتائی گئی ہے۔( ابن حبان، سیرۃالنبویۃ، صفحہ ۴۴۔۴۹۔ بن سعد، کتاب الطبقات الکبیر، جلد ۱، صفحہ ۴۲) اتنی کثیر تعداد میں مختلف قبائل اور وسیع پیمانے پر لوگوں کا شجرہ نسب مکمل تفصیل و ترتیب سے زبانی یاد رکھنا ناممکن ہے۔

آثار قدیمہ کی گواہی

کتب کے مقابل پر آثار قدیمہ ایک ایسا طریق ہے جس کے ذریعہ ہم کسی زمانہ کے لوگوں کی باتیں اور خیالات یا طور طریقے براہ راست اور اصل حالت میں دیکھ سکتے ہیں۔ قریباً ۲۵۰۰ قبل مسیح میں آباد سمر کی تہذیب کے کتبوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شجرہ نسب شاذ کے طور پر لکھا جاتا تھا۔ چنانچہ اکثر جگہ جہاں نسب کا ذکر ملتا ہے وہ بادشاہ کے آباء کی صورت میں ہے۔ اور شاہی نسب ناموں میں بھی اکثر جگہ پر صرف ۳، بعض جگہ پر ۵ اور صرف ایک جگہ پر ۸ پیڑھیوں کا ذکر ہے۔ (Levin، Understanding biblical Genealogies، صفحہ ۲۰۔ ۲۱)شمالی عرب میں آباد اقوام کے کتبوں میں فلاں ابن فلاں کے طریق پر نسب کا ذکر ملتا ہےمثلاً کتبہ Mu113 میں ایک شخص سعد بن ضب بن عبد بن ادم کا ذکر ہے جبکہ کتبہ C4985 میں زدال بن نجفت بن اعلی بن ضحی بن حوق بن کونت بن شوا مذکور ہے۔( مثلاً Al-Jallad,، An ancient arabic zodiac) ان کتبوں اور تحریروں میں دس پیڑھیوں تک پر مشتمل شجرہ نسب موجود ہیں۔ (Al- Housan، A selection of Safaitic inscriptions from Al-Mafraq, Jordan: II)

اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ عربوں میں ازمنہ قدیم سے یہ رواج موجود تھا کہ لوگ اپنا نسب نامہ یاد رکھتے تھے۔ یہ امر قابل فہم ہے جیسا کہ اوپر ذکر گزر چکا ہے یہ بدوی اور صحرائی زندگی کا ایک طبعی تقاضا ہے اور ایسا کرنا ان قبائل کے لئے زندگی و موت کا سوال تھا۔ تاہم دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کا بیسیوں پیڑھیوں پر مشتمل شجرہ نسب محفوظ ہونا محض ایک خیال ِ خام ہے شاذ کے طور پر ہی ۵ پیڑھیوں سے زائد نسب نامہ پایا گیا ہے۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button