نوائے وقت لاہور میں چھپنے والی حضرت چودھری سر ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ کی قلمی تصویر
(پاکستان کے مشہور اخبار نوائے وقت لاہور کی اشاعت 24؍اگست 1948ء میں مرزا غلام صادق ادیب فاضل کے قلم سے حضرت چودھری سر ظفراللہ خان صاحبؓ کے متعلق ایک قلمی تصویر شائع ہوئی، جس کو بعینہٖ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔)
عنوان دیکھ کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ مضمون نگار نے چودھری ظفراللہ خاں کی قلمی تصویر کھینچنے کے لیے قلم تو اٹھایا ہے لیکن جس قسم کی تصویر کی ضرورت ہے آیا وہ کھنچ سکے گی؟ نوائے وقت کے اس صفحہ پر ایسے ہیروز کی قلمی تصاویر دیکھی جا چکی ہیں جن کی خدمات کی آب و تاب سے دنیا کی نظریں خیرہ ہیں، ظفراللہ کی تصویر ان ابطال کی رنگین اور روشن تصاویر کے مقابل ماند نہیں پڑ جائے گی؟
چودھری ظفراللہ خاں کے حالات زندگی مختصرًا یہ ہیں:
1893ء میں بمقام سیالکوٹ پیدا ہوئے۔ والد صاحب کا نام چودھری نصر اللہ خاں، دادا کا نام چودھری سکندر خاں۔ ساہی قوم سے ہیں جو کسی زمانہ میں عام طور سے منٹگمری کے علاقے میں آباد تھی اور جس کی رعایت سے منٹگمری کو ساہی وال بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے خاندان کی دو شاخیں ابھی تک ہندو ہیں باقی سکھ یا مسلمان ہیں لیکن جس شاخ سے آپ کا تعلق ہے وہ قریب قریب بارہ پشتوں سے مسلمان چلی آ رہی ہے۔اپنے والدین کی چھٹی اولاد تھے، آپ سے پہلے ان کے پانچ بچے مر چکے تھے اس لیے بچپن میں پرورش بہت لاڈ پیار سے ہوئی۔
1907ء میں انٹرنس کا امتحان دیا اور کامیاب ہوگئے، 1911ء تک بی اے کر لیا اور اٹھارہ برس کی عمر میں بغرض تعلیم ولایت روانہ ہوگئے۔ 1911ء سے 1914ء تک بہ سلسلہ تعلیم لندن میں مقیم رہے۔ پہلی عالمگیر جنگ شروع ہونے کی وجہ سے بیشتر غیر ملکیوں نے لندن کو خیرباد کہا تو آپ بھی ماہ نومبر 1914ء میں وطن واپس آگئے اور اپنے والد کے ساتھ پریکٹس کرنے لگے۔ 1916ء تک یہی سلسلہ جاری رہا ، اس سال اگست کے مہینے میں Indian Cases کے اسسٹنٹ ایڈیٹر مقرر ہوئے اور لاہور میں آ گئے، یہاں ہائی کورٹ میں پیش ہونے کے مواقع بھی ملنے لگے۔ اس کے بعد انہوں نے ترقی شروع کی اور غیر منقسم ہندوستان میں حکومت انگریزی کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے جن میں جج فیڈرل کورٹ اور ہائی کمشنر فار انڈیا جیسے جلیل القدر عہدے بھی شامل ہیں۔
ظفراللہ کے ان حالات زندگی سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ذہین اور خوش قسمت انسان ہیں اور قدرت نے انہیں اچھی تعلیم حاصل کرنے اور اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کا موقع دیا۔ ان کی نجی زندگی کے چند واقعات یہ ہیں:
جب دس برس کے تھے تو آنکھیں دکھنے آ گئیں اور اس آشوب چشم نے ایسی شدت اختیار کی کہ بعض مرتبہ ہفتوں تک تاریک کمرے میں بند رکھے جاتے، پورے چھ برس تک آنکھوں کی اس بیماری میں مبتلا رہے۔
1932ء میں ایک مرتبہ لاہور سے دہلی جا رہے تھے کہ راہ میں کرتارپور اور جالندھر کے درمیان موٹر ایک چھکڑے سے ٹکرا گئی، چودھری صاحب کو شدید چوٹیں آئیں، جالندھر کے ہسپتال میں داخل کیے گئے، دو روز تک وہیں رہے پھر لاہور لاکر یہاں ہسپتال میں داخل کیا گیا اور ڈیڑھ ہفتے تک علاج ہوتا رہا۔
1938ء میں والدہ بیمار پڑیں تو آپ انہیں دہلی سے شملہ اور شملہ سے دہلی لیے لیے پھرے۔ سفر اور بے آرامی کی صعوبتیں برداشت کیں تاکہ پیاری ماں تندرست ہوجائے مگر قدرت انہیں دنیا سے اٹھا لینا چاہتی تھی، 15؍مئی کو مرحومہ چل بسیں۔ چودھری صاحب کو اپنی والدہ سے بے پایاں محبت تھی، ان کی موت سے بہت قلق ہوا اور ان کی یادگار کے طور پر ایک کتاب ’’میری والدہ‘‘ لکھی۔
یہ ہیں چودھری ظفراللہ کی نجی زندگی کی دو ایک جھلکیاں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک صاحب دل انسان ہیں اور انہوں نے مصائب کے باوجود ترقی کی ہے۔ اب تک کے حالات میں وہ چیز کہیں نہیں ملتی جس سے ایک انسان قومی ہیرو کی حیثیت حاصل کرتا ہے۔ لیکن یہ حالات اس زمانے تک کے ہیں جب ظفراللہ اپنی قابلیتوں اور صلاحیتوں سے ذاتی ترفع کے لیے کام لیتے رہے، اس وقت تک دنیا انہیں محض ایک کامیاب وکیل اور کامیاب سرکاری افسر ہی سمجھتی تھی لیکن جونہی آپ نے خدمت ملت کے میدان میں قدم رکھا اور مسلمانوں نے آپ کو نگاہ قبولیت سے دیکھا ظفراللہ کا نام ایک بطل کی حیثیت سے مطلع شہرت پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمکنے لگا۔
ظفراللہ خاں کی زندگی کے اس دور کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب قائداعظم نے یہ چاہا کہ آپ پنجاب باؤنڈری کمیشن کے سامنے مسلمانوں کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوں اور ظفراللہ خاں نے فورًا یہ خدمت انجام دینے کی حامی بھر لی۔ جو افراد کمیشن کے ارکان کی حیثیت سے جج بنا کر بٹھائے گئے تھے وہ باعتبار تجربہ و صلاحیت آپ کے مقابلے میں طفلانِ مکتب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے تھے لیکن قائداعظم کی خواہش تھی کہ ظفراللہ کمیشن کے سامنے ملت کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوں اس لیے آپ نے بلا تامل یہ کام اپنے ذمہ لے لیا اور اسے اسی قابلیت سے انجام دیا کہ قائداعظم نے خوش ہوکر آپ کو یو این او میں پاکستانی وفد کا قائد مقرر کر دیا۔
باؤنڈری کمیشن کے سامنے جس طرح آپ نے ملت کی وکالت کا حق ادا کیا تھا اس سے آپ کا نام پاکستان کے قابل احترام خادموں کی فہرست میں شامل ہو چکا تھا لیک سکسس (Lake Success۔ ناقل) میں آپ کی مدلل اور پُر زور تقریروں سے بین الاقوامی حلقے گونج اٹھے تو اس نام کے وزن اور اہمیت میں اور اضافہ ہوا۔
یو این او میں فلسطین کا قضیہ پیش تھا، چودھری صاحب نے اس میں غیر معمولی دلچسپی لی اور ایسی مؤثر تقریریں کیں جن سے حالات کا پانسہ پلٹ گیا۔ یہودی نمائندے اس پر زور دے رہے تھے کہ خانماں برباد یہودیوں کو آباد کرنے کے لیے فلسطین میں یہودی حکومت قائم کر دینی چاہیے۔ یو این او کے ارکان اس ’’درد انگیز فریاد‘‘ سے بہت متاثر تھے لیکن جب چودھری ظفراللہ خاں اس مسئلے پر تقریر کرنے اٹھے تو آپ نے صرف چند فقروں میں اس فریاد کی غیر معقولیت کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا۔ آپ نے کہا ’’کیا دنیا کی حکومتیں محض خانماں برباد انسانوں کی خواہشات کے مطابق اپنے ان قوانین کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار ہیں جو انہوں نے انتقال وطن کے بارے میں وضع کر رکھے ہیں، اگر پنجاب کے پچاس لاکھ خانہ برباد باشندے اچانک امریکہ میں آن بسنے کا فیصلہ کر لیں تو کیا امریکی حکومت انہیں اپنے ملک میں داخل ہونے اور یہاں آباد ہوجانے کی اجازت دینے کو تیار ہوجائے گی! اگر یہ صورت حال امریکہ میں ممکن نہیں تو فلسطین میں کیوں ممکن سمجھی جا رہی ہے؟‘‘
پاکستانی قائدِ وفد کی اس زبردست دلیل سے یہودیوں کے مکرو فن اور امریکہ کی یہود نوازی کا کریہہ چہرہ بے نقاب ہوگیا۔
عرب ممالک میں ظفراللہ کی اس تقریر سے انہیں ایک زبردست مقرر اور بطل سمجھا جانے لگاچنانچہ جب آپ یو این او کا اجلاس ختم ہونے پر نیویارک سے عازم کراچی ہوئے اور راہ میں تین دن کے لیے دمشق میں قیام کیا تو حکومت دمشق کی جانب سے آپ کا شاہانہ استقبال کیا گیا ، فضائی مستقر پر دمشق کے بڑے بڑے سرکاری افسروں کے علاوہ صدر جمہوریہ شام کے خاص نمائندے بھی آپ کے استقبال کے لیے پہنچے اور آپ کو بصدتکریم و اعزاز شاہی محل میں لے جایا گیا جہاں آپ نے صدر جمہوریہ سے ملاقات کی۔
دو دن بعد مفتیٔ اعظم فلسطین حضرت امین الحسینی نے آپ سے ملاقات کی، مفتی اعظم کی حریت پسندی روایتی شہرت رکھتی ہے۔ یو این او میں ظفراللہ کی تقریروں سے ان جیسا انسان بھی اتنا متاثر تھا کہ انہوں نے ملاقات کے وقت چودھری صاحب کو ایک بیش قیمت تسبیح، ایک عطر کی شیشی اور ایک نفیس فاؤنٹن پین بطور تحفہ دیا۔
اسی روز شامی یونیورسٹی الجامعہ السوریا میں آپ کی تقریر ہوئی۔ یہ تقریر جو طوالت کے خوف سے درج نہیں کی جاتی ، اس قدر مؤثر تھی کہ حاضرین اور طلبا نے بے اختیار ہوکر ’’ظفراللہ خاں زندہ باد‘‘ کے نعرے بلند کیےاور ہر شخص کہتا تھا ’’رجل عبقری‘‘(یہ شخص عدیم النظیر شخصیت کا مالک ہے)
قائد اعظم مردم شناسی اور خدمت نوازی میں دیرینہ شہرت رکھتے ہیں، وہی سر محمد ظفراللہ خاں جو حکومت برطانیہ کے ایک پرزے کی حیثیت سے مسلم لیگ سے دور دور رہے تھے، جب انہوں نے ملک و ملت کی شاندار خدمات انجام دیں توقائداعظم انہیں حکومت پاکستان کے اس عہدے پر فائز کرنے کے لیے تیار ہوگئے جو باعتبار منصب وزیر اعظم کے بعد سب سے اہم اور وقیع عہدہ شمار ہوتا ہے،قائداعظم نے چودھری صاحب کو بلا تامل پاکستان کا وزیر خارجہ بنا دیا۔
لیکن ابھی ظفراللہ کے ہاتھوں وہ زبردست کارنامہ انجام پانا باقی تھا جس سے ان کا نام تاریخ پاکستان میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ہندوستان نے کشمیر کا قضیہ یو این او میں پیش کردیا۔ چودھری صاحب پھر نیو یارک پہنچے۔ 16؍فروری 1948ء کو آپ نے یو این او میں دنیا بھر کے چوٹی کے دماغوں کے سامنے اپنے ملک و ملت کی وکالت کرتے ہوئے مسلسل ساڑھے پانچ گھنٹے تک تقریر کی۔ یوں تو اور بھی بہت سی طویل تقریریں ریکارڈ پر موجود ہیں لیکن ظفراللہ کی تقریر ٹھوس دلائل اور حقائق سے لبریز تھی، مسلسل ساڑھے پانچ گھنٹے تک ایسی پر مغز سیاسی تقریر کرنا کھیل نہیں جس میں ایک لفظ کی چوک سے مقدمہ ہار جانے اور اپنے ملک کی سبکی ہونے کا احتمال ہو اس کو بجا طور پر تلوار کی دھار پر چلنا کہہ سکتے ہیں لیکن چودھری صاحب نے یہ کام اس خوبی سے انجام دیا کہ لوگ حیران و ششدر رہ گئے۔
یو این او میں قضیہ کشمیر کی بحث درحقیقت ایک دماغی جنگ تھی پورے چار ماہ تک مباحثہ جاری رہا، ہندوستانی وفد کے ارکان بھاگے بھاگے پھرتے رہے، نیو یارک سے دہلی آکر اپنی حکومت سے مشورہ کرتے پھر نیو یارک پہنچتے اور وہاں سے پھر نئی دہلی آتے مگر وہ شکست سے بچ نہ سکے۔ ظفراللہ نے انہیں چاروں شانے چت گرایا بلکہ انہیں کیا اصل میں حکومت ہندوستان کوشکست ہوئی۔ ظفراللہ خاں کا وزیر خارجہ پاکستان مقرر ہونا بھی اس کی روشن دلیل ہے کہ مسلمان قوم احسان فراموش نہیں ہے اور وہ اپنے ابطال کی قدر کرنی جانتی ہے لیکن مسلمان قوم کی احسان شناسی کا ثبوت اس عہدے کی تفویض سے کہیں زیادہ یہ ہے کہ وہی چودھری ظفراللہ خاں جنہیں قومی اسٹیج پر کوئی حیثیت حاصل نہیں تھی آج پاکستان کی ان شخصیتوں میں شمار ہوتے ہیں جو اس وقت مقبول ترین ہیں اور جن کا سچے دل سے احترام کیا جاتا ہے ۔ کشمیر کا (قضیہ) ظفراللہ کا ایک ایسا کارنامہ ہے جسے مسلمان (کبھی) نہ بھولیں گے۔
(نوائے وقت لاہور 24؍اگست 1948ء صفحہ 8،22)