رمضان المبارک سے ہم نے کیا سیکھا؟
رمضان المبارک کا عظمتوں اوربرکتوں والا مہینہ چند ہفتے قبل ہم سے رخصت ہوچکا ہے۔ اس ماہ مبارک میں ہم سب نے حسب توفیق اپنی عبادات کے معیار کو بہتر بنانے اور نیکیوں میں بڑھنے کی جو جدوجہد کی، خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے اس عمل میں دوام بخشے۔ آمین۔ ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ اپنے اندر پیداہونے والی تبدیلیوں کا بغور جائزہ لیں کہ کیا ہمارے اندر کوئی مثبت اور مستحکم تبدیلی آئی ہے۔ کہیں ہماری کوشش اور محنت میںکوئی کمی تو نہیں رہ گئی۔ آئیں جائزہ لیتے ہیں کہ رمضان المبارک سے ہم نے کیا سیکھا؟ اور آیا رمضان گزر جانے کے بعد بھی ہم ان نیکیوں پر کاربند ہیںیا نہیں؟
کیا ہم نے نفس کا محاسبہ کرنا سیکھ لیا اورکیا ہمیںقرب الٰہی اور تقویٰ کی دولت حاصل ہوگئی ؟
کیا ہم نے نفسانی خواہشات کو کچلنا سیکھ لیا اور سابقہ گناہوں سے چھٹکارا پالیا ؟
کیا ہم نے عبادات کے معیار بلند کرنے کی کوشش کی ؟
کیا ہم نے اس ماہ مبارک میں نفس پہ قابو پاکرصبر کی تعلیم پالی؟
کیا ہم نے قرآن کریم کی تلاوت کی سعادت حاصل کی اور اس کی آیات پر غور وتدبربھی کیا؟
کیا ہم اپنے بچوں کے دل میں خدا کی محبت جاگزیں کرنے میں کامیاب ہوگئے ؟
کیا ہماری توجہ پہلے سے بڑھ کر حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی جانب بھی مبذول ہوئی؟
مضمون ہٰذا میں خاکسار کی کوشش ہوگی کہ ان نکات کی روشنی میںاپنا جائزہ لیں کہ میں نے رمضان سے کیا فائدہ حاصل کیا۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ (سورۃ البقرہ : 184)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
قرب الٰہی ومدارج تقویٰ کا حصول
عبادات کا مقصد خشیت الٰہی ہے۔ عبادات سے انسان میں پاکیزگی اور اللہ کی عظمت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ یوں تو تمام عبادات اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ ہیں مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو انسان کو نکھار کر کندن بناتا ہے۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جو خالصتاً اللہ ربّ العزت کی رضا کے لیے ہے۔ رمضان المبارک میں خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار کا اندازہ ہمیں بخوبی اس حدیث مبارکہ سے بھی ہو جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’انسان کے سب کام اس کے اپنے لیے ہیں مگر روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا بنوں گا۔ ‘‘(بخاری کتاب الصوم)
پس خدا تعالیٰ نے یہ فرما کر انسان کو کتنا اعلیٰ مقام عطا کر دیا ہے یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے سچی نیت سے روزے رکھے گا اللہ تعالیٰ جزا کے طور پر اپنی محبت، اپنی قربت، اپنی رضا اسے عطا کرے گا۔
حضرت مسیح مو عو د علیہ الصلوٰ ۃ وا لسلام فر ما تے ہیں کہ
’’…ہمیشہ رو زہ دار کو یہ مد نظر ر کھنا چا ہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھو کا ر ہے بلکہ اسے چا ہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذ کر میں مصرو ف ر ہے تا کہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ ا نسا ن ایک روٹی کو چھو ڑ کر جو صر ف جسم کی پرورش کر تی ہے دوسری رو ٹی کو حا صل کر ے جو روح کی تسلی اور سیری کا با عث ہے اورجو لو گ محض خدا کے لئے رو زے ر کھتے ہیں اور نِر ے ر سم کے طو ر پر نہیں ر کھتے انہیں چا ہئے کہ اللہ تعا لیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے ر ہیں جس سے دوسری غذا ا نہیں مل جا وے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد5صفحہ 102، ایڈیشن1988ء)
ماہ رمضان ایمانی درس گاہ میں تربیت کا وہ کیمپ ہے جس میں انسان بقیہ گیارہ مہینوں میں نفس و شیطان کے خلاف معرکہ آرائی کے لیے تیار ی کرتا ہے ایسا شخص جو اس ماہ میں بھی کچھ نہ کر پایا وہ اپنی زندگی کو کیا اور کب بدلے گا ؟ ہمیں چاہیے کہ اس ماہِ مبارک میں ہم اپنی عادات و اطوار جو حکم الٰہی کے خلاف ہوں بدلیں۔ محاسبہ نفس، عبادت کے لیے محنت، زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا حصول، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کی جانےوالی نیکیوں پر دوام، عمل صالح کی توفیق اور نیکیوں کو ضائع کرنے والے اعمال سے اجتناب، دنیا و آخرت میں عین سعادت مندی اور کامیابی کا باعث ہیں۔
رمضان میں ہم نے یہ سیکھا کہ بہترین روزہ وہ ہے جو ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھا جائے۔ خواہشات نفسانی سے رُکے رہنا واجب ہے اور اگر ان کا ارتکاب ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح بہت ساری باطنی چیزیں بھی ہیں جن سے باز رہنا انتہائی ضروری ہے مثلاً جھوٹ، غیبت، چوری، بےایمانی، دھوکا دہی وغیرہ۔ اگر دیکھا جائے تو یہ تمام باطنی اعمال وہ ہیں جن سے رکے رہنے کی وجہ سے معاشرے میں برائی ختم اور اچھائی کے پھیلنے اور بڑھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ تمام باطنی اعمال ایک مسلمان کی زندگی میں عام طور پر سارا سال جاری رہنے چاہئیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍جون 2017ءمیں رمضان کے حوالے سے فرمایا کہ ’’اس مہینے میں ایک خاص ماحول بنا ہوتا ہے اور دوسروں کی دیکھا دیکھی بھی عبادتوں اور نیکیوں کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہوتی ہے۔ ایسے ماحول میں عبادتوں اور نیکیوں کی طرف توجہ کرتے ہوئے، اپنے اعمال کی طرف توجہ کرتے ہوئے، ہمیں اپنے خدا کے آگے جھکتے ہوئے گذشتہ گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے اور پھر اس رمضان کی عبادتوں کو اور اس میں تبدیلیوں کو آئندہ زندگی کا مستقل حصہ بنا لینا چاہیے۔ اور اس میں جو گناہ معاف ہوئے یا جنت کے دروازے کھولے گئے تو پھر ہمیشہ کوشش کرنی چاہیے کہ یہ کھلے رہیں۔ اور رمضان کے فیوض سے حصہ لینے کے لیے نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
روزےکی حقیقی روح وحکمت
روزہ اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے، جس کا مقصد طویل عبادت اور صبر کے ذریعے روحانیت میں اضافہ کرنا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ رمضان وہ سالانہ تربیتی ورکشاپ ہے، جس میں نفس کو لگام دینے اور دوسرے کی بھوک و پیاس کا کرب محسوس کرنے کے علاوہ انسانوں کی حاجت روائی اور قلب اور رُوح کی صفائی کی جاتی ہے اور یہی روزے کی حقیقی رُوح ہے۔ روزے کا حقیقی مقصد تقویٰ کا حصول ہے اور تقویٰ وپرہیزگاری عبادات کی رُوح ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویﷺ میں کم و بیش ہر عبادت اور نیک عمل کا بنیادی مقصد تقویٰ ہی کو قرار دیا گیا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍ جون 2017ء میں اس طرف توجہ دلائی کہ
’’رمضان کی فضیلت نہ صرف مہینے کے دنوں سے ہے، نہ صرف ایک وقت تک کھانے پینے کے رکنے سے ہےبلکہ ایمان کی حالت میں روزہ رکھنے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے روز و شب رمضان میں گزارنے سے ہی گزشتہ گناہ بھی معاف ہوتے ہیںاور خدا کی رضا اور قرب نصیب ہوتاہے۔ انسان ایمان میں ترقی کرتا ہےتواپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہےاور اپنی کمزوریوں کو دیکھتا ہے، اپنے اعمال کو دیکھتا ہےتوحقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی پر غور کرتا ہے۔ اپنے عملوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو تبھی گناہوں کی معافی بھی ہوتی ہے۔ اور یہی مقصد اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی رمضان کے روزوں سے حاصل کرنے کا بیان فرمایا ہے۔ ‘‘
روزے کی فرضیت کے بیان کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ یہ بھی یقین دلاتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے قریب ہے اور ان کی دعائوں کو سننے والا ہے اور اس مہینے میں وہ پہلے سے بڑھ کر اپنی قربت اور محبت کا احساس دلاتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے
وَاِذَا سَاَ لَکَ عِبَا دِیْ عَنِّیْ فَاِ نِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّ اعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْ مِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (سورۃ البقرۃ: 187)
اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہیے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
پس رمضان میں دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہونے والا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہنا چاہیے اور عام دنوں میں بھی ایک حقیقی مومن کودعاؤں میں کبھی کمی نہیں آنے دینی چاہیے۔ خاص طور پر موجودہ حالات کے پیش نظر یہ بات ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ دعاؤں کی طرف توجہ قائم رکھی جائے۔
روزے کا حقیقی مقصد، گناہ سے بچنا
روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ، پرہیز گاری اور طہارت کا حصول ہے۔ جو خود بُھوکا نہ ہو، اسے بُھوک کی اور جو خود پیاسا نہ ہو، اُسے پیاسے کی تکلیف کا احساس کیسے ہو ؟ روزہ اسی احساس اور ایثار اور رحم دلی کے جذبات کو بیدار کرتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے اجتناب نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں یعنی اس کا روزہ رکھنا بیکار ہے۔ ‘‘
(حدیقۃ الصالحین صفحہ 312بحوالہ صحیح بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور و العمل بہا )
یعنی وہ روزہ رکھنے کے باوجود دروغ گوئی، غیبت، چوری اور رشوت خوری سمیت دیگر گناہوں سے نہیں بچتے۔ لہٰذا، ہمیں اپنے روزوں کی قبولیت کی فکر کرنی چاہیے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ ایک ڈھال اور آگ سے بچانے والا ایک مضبوط قلعہ ہے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 3صفحہ 458 حدیث 9214مطبوعہ بیروت1998ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس حصول تقویٰ کی جانب توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’پس رمضان میں جب ہم تقویٰ کے حصول کے لئے کوشش کرتے ہیں یا کوشش کرنے و الے ہوں گے تو اپنی عبادتوں کی طرف توجہ ہو گی۔ اگر ہم تقویٰ پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے روزے رکھیں گے تو برائیوں سے بچنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات تلاش کر کے ان پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ اگر ہم برائیوں سے نہیں بچ رہے چاہے وہ برائیاں ہماری ذات پر اثر کرنے والی ہیں یا دوسروں کو تکلیف میں ڈالنے والی۔ ان کو چھوڑنے سے ہی روزے کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ اگر ان کو نہیں چھوڑ رہے تو روزے کا مقصد پورا نہیں ہوتا اور یہی تقویٰ ہے۔ اگر روزے رکھ کر بھی ہم میں تکبر ہے، اپنے کاموں اور اپنی باتوں پر بے جا فخر ہے، خود پسندی کی عادت ہے، لوگوں سے تعریف کروانے کی خواہش ہے، اپنے ماتحتوں سے خوشامد کروانے کو ہم پسند کرتے ہیں جس نے تعریف کر دی اس پر بڑا خوش ہو گئے، یا اس کی خواہش رکھتے ہیں تو یہ تقویٰ نہیں ہے۔ روزوں میں لڑائی جھگڑا، جھوٹ فساد سے اگر ہم بچ نہیں رہے تو یہ تقویٰ نہیں ہے۔ روزوں میں عبادتوں اور دعاؤں اور نیک کاموں میں اگر وقت نہیں گزار رہے تو یہ تقویٰ نہیں ہے اور روزے کا مقصد پورا نہیں کر رہے۔ پس رمضان میں برائیوں کو چھوڑنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا، یہی ہے جس سے روزے کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ اور جب انسان اس میں ثابت قدم رہنے کی کوشش کرے تو پھر حقیقت میں روزے کے مقصد کو پانے والا ہو سکتا ہے۔ ورنہ اگر یہ مقصد حاصل نہیں کر رہے تو پھر بھوکا رہنا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے بھوکا رہنے سے کوئی غرض نہیں ہے۔
(صحیح البخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور … الخ حدیث 1903)‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍ مئی 2018ء )
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’… ہما را خدا بڑا پیا رکر نے وا لا خدا ہے۔ قربا ن جا ئیں ہم اس پر کہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں ر مضا ن میںاپنے بند ے کے بہت قر یب آگیا ہوں اس لئے فیض اُٹھا لو جتنااُٹھا سکتے ہواور تقویٰ کے حصو ل کے لئے میرے بتا ئے ہو ئے طر یق پر چلنے کی کو شش کروتا کہ تم اپنی د نیا وعا قبت سنوا رنے والے بن سکو۔ یہ کیمپ جو ایک مہینہ کا قا ئم ہوا ہے اس سے بھر پو ر فا ئدہ اُٹھا لوکہ اس میں خا لصتاً اللہ تعا لیٰ کے لئے کی گئی نیکیاں تمہیں عام دنوں میں کی گئی نیکیوں کی نسبت کئی گنا ثوا ب کا مستحق بنانے وا لی ہو ں گی۔ پس اُٹھو ا ور میر ے حکمو ں کے مطابق ا پنی عبا د توں کو بھی سنوارو اور اس عہد کے ساتھ سنوارو کہ یہ سنوار اَب ہم نے ہمیشہ قا ئم ر کھنے کی کوشش کرنی ہے۔ ا ٹھواور اپنے ا عما ل کو بھی خو بصو رت بنائواور اللہ تعا لیٰ کی ر ضا کے مطا بق بنائواور اس ارادے سے بنا نے کی کوشش کرو کہ اب ہم نے ان کو اپنی ز ندگیوں کا حصہ بنا نا ہے۔ اٹھو اور دین کو د نیا پر مقدم رکھنے کا جو عہد کیا ہے اس کا حقیقی ادراک اس مہینے میں حا صل کر نے کی کوشش کرو اور اس سو چ کے سا تھ کر و کہ اب یہی ہما ری زند گی کا مقصد ہے…‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 25تا31جولائی 2014ء صفحہ6)
خود احتسابی اور رمضان
ہر انسان زندگی کے ہر میدان میں چاہتا ہے کہ اسے ترقی ملے، اس کی ذہنی ،علمی ،اخلاقی اور روحانی نشو ونما ہو۔ اس کا ہر دن آنے والے دن سے بہتر ہو اور اس کی ہر صبح اسے نئی منزل کی جانب لے جانے والی ہو۔ اعلیٰ مدارج کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک طریق بتایا کہ ہم اپنے نفس کو ٹٹول کر دیکھیں کہ ہم سے کیا کیا کوتاہیاں یا گناہ سرزد ہوئے ہیں۔ کونسی ذمہ داریاں ہم یکسر فراموش کیے بیٹھے ہیں، یا کونسے ایسے کام تھے جنہیں ہم نے نظر انداز کیا ہوا ہے۔ گویا بیتے ہوئے لمحات کا جائزہ لینا، انہیں پرکھنا از حد ضروری ہے۔
اس مضمون کو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔
مَنْ قَا مَ رَ مَضَا نَ اِیْمَا ناً وَّ اِحْتِسَا باً غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّ مَ مِنْ ذَنْبِہ۔ (بخاری کتاب الایمان )
کہ جو رمضان کی نیکیوں اور عبادات کے لیے ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے کھڑا ہو جائے تو اُس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
ایک اور روایت میں آتا ہے حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے رمضان المبارک کو عبادت کے لحاظ سے تما م مہینوں سے افضل قرار دیا اور فرمایا:
جو شخص رمضان کے مہینہ میں حالت ایمان میں اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے رات کو اٹھ کر عبادت کرتا ہے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے اس روزتھا جب اس کی ماں نے اسے جنا۔
(سنن نسائی کتاب الصیام، باب ثواب من قام رمضان و صامہ ایمانا و احتساباً)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ رمضان میں احتساب کے مضمون کو یوں بیان فرماتے ہیں:
’’جب اپنے نفس کا احتساب کرو گے کہ تم کس حالت میں ہو، روزانہ کیا تمہارا مشغلہ ہے، کیا کیا کام جو بُرے کام تھے تم نے اب رمضان میں چھوڑنے شروع کر دئیے ہیں۔ کیا کیا کام جو اچھے تھے اِن کو پہلے سے زیادہ حسین کر کے تم نے اُن پر عمل شروع کیا ہے اس کو احتساب کہتے ہیں…بہت سے لوگ روزے رکھتے ہیں تو رسماً روزے رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ روزے رکھتے ہیں لیکن خدا پر پورا ایمان نہیں ہوتا۔ جب بھی رمضان ختم ہو تو وہ واپس انہی پہلی منفی حالتوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور خدا کے بغیر جو اُن کی زندگی ہے وہ از سرِ نو پھر شروع ہو جاتی ہے۔ ادھر رمضان ختم ہوا ادھر پرانی زندگی لوٹ آئی…سب سے پہلے اپنی نیّتوں کو پرکھ کر دیکھیں اور غور کریں کہ واقعتاً اللہ پر ایمان کے نتیجہ میں روزہ ہے تو ایمان کے تقاضے بھی پورے کرتے ہیں کہ نہیں۔ وہ ایمان جو فرضی ہو جس کے تقاضے پورے نہ کیے جائیں اس ایمان کا فائدہ کیا اور ایمان کے تقاضے پورے کرنے کے لئے احتساب ضروری ہے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍جنوری 1997ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍مارچ1997ء)
پس محاسبہ نفس کا عمل نہ صرف رمضان بلکہ ایک مومن کی زندگی کا مستقل حصہ بننا چاہیے۔ اسی امر کی طرف توجہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بھی مختلف مواقع پر دلائی ہے اور اپنے اعمال کا ایک روز نامچہ بنانے کا ارشاد فرمایا ہے۔
تلاوت قرآن کریم اور تدبر کی عادت
رمضان المبارک میںتلاوت قرآن کریم کی طرف خاص توجہ ہوتی ہے۔ ہر کوئی اس کوشش میں دکھائی دیتا ہےکہ حسب استعداد قرآن کریم کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کی جائے۔ اسی طرح قرآن کریم کے درس و تدریس کاسلسلہ بھی رمضان کے مہینہ میں جاری رہتا ہے۔ تاہم قرآن کریم کی تلاوت اس پر غور و فکر کرنا تو ایک مومن کا مستقل شیوہ ہونا چاہیے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍مئی 2019ء میں فرمایا کہ
’’رمضان میں قرآن کریم پڑھنے، اسے سمجھنے اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی طرف خاص طور پر توجہ پیدا ہوتی ہے۔ پھر اسے اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر رمضان کے مہینے میں قرآن کریم پڑھنے کی طرف جو مومنین کو توجہ دلائی ہے تو اس لیے کہ اس مجاہدے کے مہینے سے گزرتے ہوئے جب ہم قرآن کریم کی طرف خاص توجہ دے رہے ہوں گے تو پھر عام دنوں میں بھی اس طرف توجہ کی عادت پڑے گی ورنہ اللہ تعالیٰ کا رمضان کے مہینے میں قرآن کی طرف توجہ دلانے کا جو مقصد ہے وہ فوت ہو جاتا ہے۔ مومن تو وہی ہے جو مستقل مزاجی سے نیکیوں کو تلاش کرتا ہے اور انہیں جاری رکھتا ہے۔ پس یہ عظیم ہدایت جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہم تک پہنچائی ہے اسے ہمیں اپنی ہدایت کا ذریعہ بنانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ ان دنوں میں جب ہمیں قرآن کریم پڑھنے کی طرف خاص توجہ ہوتی ہے تو اس سوچ اور اس انداز سے پڑھنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ ‘‘
ماہ مبارک کا ماحصل
روزوں کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ روزے دار اپنی سابقہ کیفیت سے بہتر حالت میں آجائے یعنی گناہوں سے اجتناب جاری رکھے اور نیکیوں میں دوام حاصل ہو۔ اگر ہم نےاپنے آپ کو پرہیزگاروں کے اوصاف سے متصف کرلیا تو ہم نے حقیقی روزے رکھے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ خدا تعالیٰ کےفرمانبردار رہیں، ایسا نہ ہو کہ اس ماہ میں تو عبادت الٰہی کو اوڑھنا بچھونا بنالیں اور دوسرے مہینوں میں عبادات کی ادائیگی میں پہلوتہی سے کام لیں۔ بلکہ رمضان کے بعد بھی نیکی کی رغبت اورشوق ہونا چاہیے۔ نوافل کے ساتھ ساتھ فرض نماز یں باجماعت ادا کرنے کی کوشش کریں اور جس طرح رمضان المبارک میںلغویات سے اجتناب کیا اسی طرح بقیہ مہینے بھی ان سے اجتناب کریں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ جو اِن دنوں میں رمضان کے مہینہ میں ساتویں آسمان سے نچلے آسمان پہ آ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو اِن دنوں میں اپنے بندوں کے قریب ہو کر ان کی دعائیں سنتا ہے۔ (الجامع لشعب الایمان الجزء الخامس حدیث 3394، 3334مطبوعہ مکتبۃ الرشدناشرون بیروت 2004ء)۔ اللہ تعالیٰ جو اِن دنوں میں روزہ رکھنے والوں کی خود جزا بن جاتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالیٰ یریدون ان یبدلوا کلام اللہ … الخ حدیث 7492)۔ اللہ تعالیٰ جو اِن دنوں میں شیطان کو جکڑ دیتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل شھر رمضان حدیث 2495)۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں اور اس کی رحمتوں سے فیض اٹھانے کے لیےکیا کیا یا کیا کیا عہد کیے ہیں۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کے حکموں کو ماننے اور اس کی تعلیم کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے گزشتہ کوتاہیوں کو چھوڑنے کے لیے کیا عہد کیے ہیں اور کس حد تک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کی ہیں۔ پس یہ جائزے ہمیں اللہ تعالیٰ کے مستقل فضلوں کے حصول کی طرف توجہ دلانے والے اور اس وجہ سے اپنی حالتوں میں مستقل تبدیلی لانے کی کوشش، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہمیشہ جذب کرنے والا بنائے گی۔
اگر ہم نے نمازوں میں باقاعدگی صرف رمضان کی وجہ سے اختیار کی ہے اور بعد میں ہم نے پھر سست ہو جانا ہے تو یہ تو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنا نہیں ہے۔ اگر ہم نے جمعوں میں باقاعدگی صرف رمضان کے مہینے تک ہی رکھنی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق چلنا نہیں ہے۔ اگر ہم نے قرآن کریم کی تلاوت کو صرف رمضان کے لئے ہی ضروری سمجھا ہے اور بعد میں اس کی طرف توجہ نہیں دینی تو یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر چلنا نہیں ہے۔ اگر ہم نے درود اور ذکر کو صرف رمضان تک ہی محدود رکھنا ہے تو صرف یہ بات تو اللہ تعالیٰ ہم سے نہیں چاہتا۔ اگر ہم نے اپنے اخلاق اور دوسری نیکی کی باتوں کو صرف رمضان تک ہی مجبوری سمجھ کر کرنا ہے تو یہ تو اللہ تعالیٰ ہم سے نہیں چاہتا۔ رمضان تو ایک ٹریننگ کیمپ کے طور پر آتا ہے۔ رمضان تو اللہ تعالیٰ نے اس لئے فرض کیا ہے کہ جن نیکیوں کو تم بجا لا رہے ہو اس میں مزید ترقی کرو اور ہر آنے والا رمضان جب ختم ہو تو ہمیں عبادات اور نیکیوں کی نئی منزلوں اور بلندیوں پر پہنچانے والا ہو اور ہم پھر عبادتوں اور نیکیوں کے نئے اور بلند معیار قائم کرنے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ تو ہم سے مستقل مزاجی کے ساتھ ان نیکیوں پر چلنے کا مطالبہ کرتا ہے… گویا کہ جہاں مجاہدہ کر کے، کوشش کر کے انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف آئے اللہ تعالیٰ اس کوشش کو بھی قدر کرتے ہوئے نوازتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نیکیوں کے اجر دینے کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ پس وہ اپنی راہ میں کوشش کرنے والوں کو بے انتہا نوازتا ہے اور جب انسان دنیا اور ذاتی خواہشات کے بتوں کو توڑ کر اس کی طرف آتا ہے تو پھر اس کے فضلوں کی بھی انتہا نہیں رہتی۔
اللہ تعالیٰ نے نماز کے بارے میں کئی جگہ مختلف حوالوں سے ہمیں توجہ دلائی ہے۔ صرف رمضان تک ہی محدودنہیں کیا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں، جمعوں اور رمضان کے حوالے سے ایک ایسا ارشاد فرمایا ہے جو ایک مومن کو اور ایک ایسے شخص کو جو اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتا ہو ہر وقت سامنے رکھنا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ نمازیں، جمعہ اگلے جمعہ تک اور رمضان اگلے رمضان تک ان کے درمیان ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے جب تک کہ وہ بڑے گناہوں سے بچتا رہے۔ (صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب الصلوٰت الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ … الخ حدیث 552)
…لیکن یہ واضح ہونا چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہوں سے معافی کے جو ذرائع بتائے ہیں وہ آپ ایک ترتیب سے بیان فرما رہے ہیں۔ پہلے نماز۔ پھر جمعہ۔ پھر رمضان۔ پس اس ترتیب سے یہ غلط فہمی دُور ہو جانی چاہیے کہ صرف سال کے بعد رمضان کی عبادتیں ہی گناہوں سے معافی کا ذریعہ ہیں…
پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اس سوچ کے ساتھ اپنی نمازوں، جمعوں اور اپنے روزوں کے حق ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے والے ہیں اور رمضان کے اس ماحول سے ہر لحاظ سے پاک ہو کر نکلنے والے ہیں۔ ایسی پاکیزگی جو ہمیشہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے و الا بنانے والی ہے یا بناتی ہے۔
…پس ہم میں سے ہر ایک کو رمضان میں سے یہ عہد کرتے ہوئے نکلنا چاہیے کہ جو باتیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں اور جو باتیں ہمیں کھول کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائیں ان کو ہم ہمیشہ سامنے رکھتے ہوئے ان کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم یہ کریں تبھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنے آپ کو رمضان میں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق گزارنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ23؍ جون 2017ء )
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے روزے قبول فرمائے ہماری نمازوں، قرآن کریم کی تلاوت اور دیگر تمام اعمال کو شرفِ قبولیت بخشے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر رمضان سے بھرپور نیکیاں سمیٹنے کی توفیق بخشے اور رمضان کے بعد ہماری حالت پہلے سے بہتر ہو۔ آمین۔
٭…٭…٭