خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 05؍ جون 2020ء
سعدؓ نے کہا میری قوم سے کہنا کہ اگرتم میں زندگی کادم ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو خدا کے سامنے تمہارا کوئی عذر نہیں ہو گا
آنحضرتﷺ نے فرمایا صُہَیب! تمہارا یہ سودا سب پہلے سودوں سے نفع مند رہا۔ یعنی پہلے اسباب کے مقابلہ میں تم روپیہ حاصل کیا کرتے تھے مگر اب روپیہ کے مقابلہ میں تم نے ایمان حاصل کر لیا
حضرت عمرؓ حضرت صُہَیبؓ سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کے بارے میں اعلیٰ گمان رکھتے تھے یہاں تک کہ جب حضرت عمر ؓزخمی ہوئے تو آپؓ نے وصیت کی کہ میری نماز جنازہ صُہَیبؓ پڑھائیں گے اور تین روز تک مسلمانوں کی امامت کروائیں گے یہاں تک کہ اہل شوریٰ اس پر متفق ہو جائیں جس نے خلیفہ بننا ہے
اللہ تعالیٰ سعدؓپر رحم فرمائے۔ وہ زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کا خیر خواہ رہا
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابہ حضرت صہیب بن سنان اورحضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہما کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
حق یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے یا آپؐ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں گزرا جس نے عورت کے حقوق کی ایسی حفاظت کی ہو جیسی آپؐ نے کی ہے
حقیقت یہ ہے کہ عورت کی آزادی اور حقوق دلوانے کی حقیقی تعلیم اسلام کی ہی ہے
دنیا کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر حکومتوں کے انصاف کے ساتھ نظام چلانے اور عوام کو جائز طریق پر اپنے مطالبات پیش کرنے کی نصیحت حکومتِ پاکستان کو ملّاں کے خوف سے احمدیوں پر ظلم اور سختیاں بڑھانے کی بجائے انصاف کے دامن کو ہاتھ میں لیتے ہوئے حکومت چلانے کی تنبیہ
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 05؍ جون 2020ء بمطابق 05؍احسان1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج مَیں پھر صحابہؓ کا ، بدری صحابہ ؓ کاذ کر کروں گا۔ ان میں سے جن کا ذکر ہے ان کا نام حضرت صُہَیب بن سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔ حضرت صُہَیب کے والد کا نام سِنَان بن مالک اور والدہ کا نام سلمیٰ بنت قَعِید تھا۔ حضرت صُہَیب کا وطن موصَل تھا۔ حضرت صُہَیب کے والد یا چچاکسریٰ کی طرف سے اُبُلَّہ کے عامل تھے۔ اُبُلَّہ دَجلہ کے کنارے ایک شہر ہے جو بعد میں بَصرہ کہلایا۔ رومیوں نے اس علاقے پر حملہ کیا تو انہوں نے حضرت صُہَیب کو قیدی بنا لیا جبکہ وہ ابھی کم عمر تھے۔ ابوالقاسم مغربی کے مطابق حضرت صُہَیبؓ کا نام عُمَیرہ تھا، رومیوں نے صُہَیب نام رکھ دیا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ169-170 صُہَیْب بن سنان،دارالکتب العلمیہ بیروت2017ء)(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد4 صفحہ33-34 صُہَیْب بن سنان،دارالفکر بیروت 2001ء)(معجم البلدان جلد1 صفحہ 99 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
حضرت صُہَیب کا رنگ نہایت سرخ تھا۔ قد نہ لمبا تھا اور نہ ہی چھوٹا اور سر پر گھنے بال تھے۔
(اسد الغابہ جلد3 صفحہ 41 صُہَیْب بن سنان، دارالکتب العلمیہ بیروت2016ء)
حضرت صُہَیبؓ نے رومیوں میں پرورش پائی۔ ان کی زبان میں لکنت تھی۔ کَلب نے انہیں رومیوں سے خرید لیا( یہ ایک اَور شخص تھا )اور انہیں لے کر مکہ آ گیا۔ پھرعبداللہ بن جُدْعَان نے انہیں خرید کر آزاد کر دیا۔ حضرت صُہَیب عبداللہ بن جدعان کی وفات تک اس کے ساتھ مکے میں رہے یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوگئی۔ ایک روایت کے مطابق حضرت صُہَیب کی اولاد کہتی ہے کہ حضرت صُہَیب جب عقل و شعور کی عمر کو پہنچے تو روم سے بھاگ کر مکےآ گئے اور عبداللہ بن جدعان کے حلیف بن گئے اور ان کی وفات تک ان کے ساتھ رہے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ170 صُہَیْب بن سنان،دارالکتب العلمیہ بیروت2017ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’ایک غلام صُہَیب تھے جو روم سے پکڑے ہوئے آئے تھے۔ یہ عبداللہ بن جُدعان کے غلام تھے جنہوں نے ان کو آزاد کر دیا تھا۔ یہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپؐ کے لیے انہوں نے کئی قسم کی تکالیف اٹھائیں۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد 6صفحہ 443)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات اس ضمن میں بیان فرمائی کہ قرآن کریم میں جو ہے کہ کفار کہتے ہیں کہ یہ قرآن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں یا غلاموں کی مدد سے بنا لیا ہے تو اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ یہ غلام تو مسلمان ہونے کی وجہ سے مصائب اور ظلموں کا نشانہ بنے تو کیا انہوں نے یعنی ان غلاموں نے ان تکلیفوں کو اپنے اوپر وارد کرنے کے لیے، سہیڑنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تھی اور پھر نہ صرف یہ کہ چھپ کے مدد کی یہ ظاہر بھی ہوا اور پھر نہایت ثابت قدمی سے مصائب اور ظلم برداشت بھی کیے تو اس بات کو حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا کہ یہ انتہائی بودا اعتراض ہے۔ یہ تو ان مومنین کا، ان لوگوں کا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان تھا جس نے انہیں ثابت قدم رکھا اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام سیکھا اور اللہ تعالیٰ کی وحی پر ایمان لائے تو بہرحال اس ضمن میں یہ بیان تھا۔
(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 6صفحہ 441تا 443)
حضرت عمار بن یاسرؓ کہتے ہیں کہ میں صُہَیبؓ سے دارِ ارقم کے دروازے پر ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ میں نے پوچھا تمہارا کیا ارادہ ہے؟ صُہَیبؓ نے مجھ سے کہا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ میں نے کہا میں یہ چاہتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپؐ کا کلام سنوں۔ حضرت صُہَیبؓ نے کہا کہ مَیں بھی یہی چاہتا ہوں۔ حضرت عمارؓ کہتے ہیں کہ پھر ہم دونوں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے ہمارے سامنے اسلام پیش کیا جس پر ہم نے اسلام قبول کر لیا۔ ہم سارا دن وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ ہم نے شام کی۔ پھر ہم وہاں سے چھپتے ہوئے نکلے۔ حضرت عمارؓ اور حضرت صُہَیبؓ نے تیس سے زائد افراد کے بعد اسلام قبول کیا تھا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد جلد 3 صفحہ171صُہَیْب بن سنان،دارالکتب العلمیہ بیروت2017ء)
حضرت انسؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام لانے میں سبقت رکھنے والے چار ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ مَیں عرب میں سبقت رکھنے والا ہوں۔ صُہَیبؓ روم میں سبقت رکھنے والا ہے۔ سلمانؓ اہلِ فارس میں سبقت رکھنے والا ہے۔ اور بلالؓ حبش میں سبقت رکھنے والا ہے۔
(اسد الغابہ جلد3 صفحہ39 صُہَیْب بن سنان، دارالکتب العلمیہ بیروت2016ء)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ سب سے پہلے جنہوں نے اپنے اسلام کا اعلان فرمایا وہ سات ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپؐ پر شریعت اتری تھی اور ابوبکرؓ اور عمارؓ اور ان کی والدہ سمیہؓ اور صُہَیبؓ اور بلالؓ اور مقدادؓ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے چچا ابوطالب کے ذریعہ محفوظ رکھا اور ابوبکر کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کے ذریعہ سے محفوظ رکھا۔ اس بارے میں گذشتہ خطبے میں مَیں وضاحت کر چکا ہوں کہ یہ راوی کا خیال ہے ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی ان ظلموں کا نشانہ بننا پڑا تھا۔ گو شروع میں کچھ بچت ہوئی لیکن پھر بننا پڑا۔ بہرحال راوی کہتا ہے کہ باقیوں کو مشرکوں نے پکڑ لیا اور لوہے کی زرہیں پہنائیں اور انہیں دھوپ میں جلاتے تھے۔ پس ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جس نے ان کے ساتھ جس بات پر وہ چاہتے تھے موافقت نہ کر لی ہو سوائے بلالؓ کے کیونکہ ان پر اپنا نفس اللہ کی خاطر بے حیثیت ہو گیا تھا اور وہ اپنی قوم کے لیے بھی بےحیثیت تھے۔ وہ ان کو پکڑتے اور لڑکوں کے سپرد کر دیتے اور انہیں مکے کی گھاٹیوں میں گھماتے پھرتے اور بلالؓ اَحَد، اَحَد کہتے جاتے تھے۔
(سنن ابن ماجہ،کتاب السنۃ،باب فضل سلمان و ابی ذر و مقداد،حدیث نمبر 150)
بہرحال سختیاں تو ان سب نے برداشت کی تھیں جیسا کہ مَیں نے کہا اور ہر ایک نے اپنے ایمان پر ثابت قدمی کا اظہار کیا لیکن بہرحال حضرت بلالؓ کے بارے میں جو روایت ہے وہ یہی ہے کہ آپؓ کوبہت زیادہ ظلموں کا نشانہ بنایا گیا۔
پھر بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت صُہَیبؓ ان مومنین میں سے تھے جنہیں کمزور سمجھا جاتا تھا اور جنہیں مکے میں اللہ کی راہ میں اذیّت دی جاتی تھی۔(الطبقات الکبری لابن سعد جلد 3 صفحہ171 صُہَیْب بن سنان،دارالکتب العلمیہ بیروت2017ء)تکلیفوں سے ان کو بھی بہت زیادہ گزرنا پڑا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عمار بن یاسرؓ کو اتنی تکلیف دی جاتی کہ انہیں معلوم نہ ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ یہی حالت حضرت صُہَیبؓ، حضرت ابوفَائِدؓ، حضرت عامر بن فُہَیْرہؓ اور دیگر اصحاب کی تھی۔ ان اصحاب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ
ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ هَاجَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهَدُوْا وَصَبَرُوْۤا اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ(النحل: 111)
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 3 صفحہ34صُہَیْب بن سنان،دارالفکر بیروت 2001ء)
پھر تیرا رب یقینا ًان لوگوں کو جنہوں نے ہجرت کی بعد اس کے کہ فتنہ میں مبتلا کیے گئے پھر انہوں نے جہاد کیا اور صبر کیا تو یقیناً تیرا رب اس کے بعد بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
ایک روایت کے مطابق مدینے کی طرف ہجرت کرنے والوں میں سے جو سب سے آخر پر آئے وہ حضرت علیؓ اور حضرت صُہَیب بن سنانؓ تھے۔ یہ نصف ربیع الاوّل کا واقعہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قُبَا میں قیام پذیر تھے ابھی مدینہ کے لیے روانہ نہیں ہوئے تھے۔
(الطبقات الکبری لابن سعد جلد 3 صفحہ172 صُہَیْب بن سنان،دارالکتب العلمیہ بیروت2017ء)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت صُہَیبؓ جب ہجرتِ مدینہ کے لیے نکلے تو مشرکین کے ایک گروہ نے آپؓ کا تعاقب کیا تو اپنی سواری سے اترے اور ترکش میں جو کچھ تھا وہ نکال لیا اور کہا اے قریش کے گروہ! تم جانتے ہو کہ میں تمہارے ماہر تیر اندازوں میں سے ہوں۔ اللہ کی قسم ! تم مجھ تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ جتنے تیر میرے پاس ہیں وہ سب تمہیں مار نہ لوں۔ پھر مَیں اپنی تلوار سے تمہیں ماروں گا یہاں تک کہ میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہ رہے۔ لہٰذا تم لوگ جو چاہو کرو اگر میرا مال چاہتے ہو تو میں تمہیں اپنے مال کے بارے میں بتا دیتا ہوں کہ میرا مال کہاں ہے اور تم میرا راستہ چھوڑ دو۔ ان لوگوں نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ حضرت صُہَیبؓ نے بتا دیا اور جب وہ ، حضرت صُہَیبؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئےتو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سودے نے ابو یحیٰ کو فائدہ پہنچایا۔ سودا نفع مند ہوا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ (البقرۃ: 208)
(الطبقات الکبری لابن سعد جلد 3 صفحہ171-172 صُہَیْب بن سنان،دارالکتب العلمیہ بیروت2017ء)
اور لوگوں میں سے ایسا بھی ہے جو اپنی جان اللہ کی رضا کے حصول کے لیے بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں کے حق میں بہت ہی مہربانی کرنے والا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت صُہَیب مکہ سے ہجرت کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت آپؐ قبا میں تھے۔ آپؐ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی تھے۔ یعنی اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ بھی تھے۔ اس وقت ان سب کے سامنے تازہ کھجوریں تھیں جو حضرت کلثوم بن ہِدْمؓلائےتھے۔ راستے میں حضرت صُہَیبؓ کو آشوب چشم ہو گیا تھا، آنکھوں کی تکلیف ہو گئی تھی اور انہیں سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔ سفر کی وجہ سے تھکان بھی تھی۔ حضرت صُہیب ؓکھجوریں کھانے کے لیے لپکے تو حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! صُہَیب کی طرف دیکھیں اسے آشوبِ چشم ہے اور وہ کھجوریں کھا رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مذاقاً فرمایا کہ تم کھجور کھا رہے ہو جبکہ تمہیں آشوبِ چشم ہے۔ آنکھیں سوجی ہوئی ہیں، بہ رہی ہیں۔حضرت صُہَیبؓ نے عرض کیا میں اپنی آنکھ کے اس حصہ سے کھا رہا ہوں جو ٹھیک ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔ پھر حضرت صُہَیبؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ہجرت میں مجھے ساتھ لے کر جائیں گے مگر آپ چلے آئے اور مجھے چھوڑ دیا۔ پھر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ نے مجھے ساتھ لے کر جانے کا وعدہ کیا تھا تاہم آپؐ بھی تشریف لے آئے اور مجھے چھوڑ آئے۔ قریش نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے محبوس کر دیا اور میں نے اپنی جان اور اپنے گھر والوں کو اپنے مال کے عوض خریدا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سودا نفع مند ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ (البقرۃ: 208)
اور لوگوں میں سے ایسا بھی ہے جو اپنی جان اللہ کی رضا کے حصول کے لیے بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں کے حق میں بہت مہربانی کرنے والا ہے۔ حضرت صُہَیبؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میں نے ایک مُدّ، تقریباً آدھا کلو آٹا زادِ راہ کے طور پر لیا تھا۔ اسے میں نے اَبواء مقام پر گوندھا تھا یہاں تک کہ مَیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 172 صُہَیْب بن سنان،دارالکتب العلمیہ بیروت2017ء)
اس سفر میں صرف اتنا کھایا۔ یہی خوراک تھی۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ
’’صُہَیبؓ ایک مالدار آدمی تھے۔ یہ تجارت کرتے تھے اور مکہ کے باحیثیت آدمیوں میں سمجھے جاتے تھے۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ مالدار بھی تھے اور آزاد بھی ہو چکے تھے۔‘‘ اب تو غلام نہیں رہے تھے ’’قریش ان کو مار مار کر بیہوش کر دیتے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تو آپؐ کے بعد صُہَیبؓ نے بھی چاہا کہ وہ بھی ہجرت کر کے مدینہ چلے جائیں مگر مکہ کے لوگوں نے ان کو روکا اور کہا کہ جو دولت تم نے مکہ میں کمائی ہے تم اسے مکہ سے باہر کس طرح لے جا سکتے ہو؟ ہم تمہیں مکہ سے جانے نہیں دیں گے۔ صُہَیبؓ نے کہا اگر میں یہ سب کی سب دولت چھوڑ دوں تو کیا پھر تم مجھے جانے دو گے؟ وہ اس بات پر رضا مند ہو گئے اور آپؓ اپنی ساری دولت مکہ والوں کے سپرد کر کے خالی ہاتھ مدینہ چلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے۔ آپؐ نے فرمایا صُہَیبؓ! تمہارا یہ سودا سب پہلے سودوں سے نفع مند رہا۔ یعنی پہلے اسباب کے مقابلہ میں تم روپیہ حاصل کیا کرتے تھے مگر اب روپیہ کے مقابلہ میں تم نے ایمان حاصل کر لیا۔‘‘
(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد 20 صفحہ 194-195)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صُہَیبؓ کے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ان کے اور حضرت حارث بن صِمَّہ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ حضرت صُہیبؓ غزوۂ بدر، اُحُد، خندق اور باقی تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔
(اسد الغابہ جلد3 صفحہ39 صُہَیْب بن سنان مکتبہ دارالکتب العلمیہ بیروت2016ء)
حضرت عَائِذ بن عَمروؓ سے روایت ہے کہ حضرت سلمانؓ، حضرت صُہَیبؓ اور حضرت بلالؓ لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھےکہ ان کے پاس سے ابو سفیان بن حَرْب کا گزر ہوا۔ لوگوں نے کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی تلواریں ابھی اللہ کے دشمن کی گردن پر نہیں چلیں۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے کہا کیا تم قریش کے سرکردہ اور سردار کے بارے میں ایسا کہتے ہو؟ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکرؓ! شاید تم نے انہیں غصہ دلا دیا ہے۔ اگر تم نے انہیں غصہ دلایا ہے تو تم نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کو غصہ دلایا ہے۔ پس حضرت ابوبکرؓ ان لوگوں کے پاس واپس گئے اور کہا کہ اے ہمارے بھائیو! شاید تم ناراض ہو گئے ہو۔ انہوں نے کہا نہیں اے ابوبکرؓ! اللہ آپؓ سے مغفرت فرمائے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 885 حدیث عائذ بن عمرو، عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت صُہَیبؓ بیان کرتے ہیں کہ جس معرکے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریک ہوئے مَیں اس میں موجود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی بیعت لی میں اس میں موجود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی سریہ روانہ فرمایا مَیں اس میں شامل تھا اور آپؐ جس غزوے کے لیے بھی روانہ ہوئے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھا۔ مَیں آپؐ کے دائیں طرف ہوتا یا بائیں طرف۔ لوگ جب سامنے سے خطرہ محسوس کرتے تو میں لوگوں کے آگے ہوتا۔ جب لوگ پیچھے سے خطرہ محسوس کرتے تو میں ان کے پیچھے ہوتا۔ اور میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں کے اور اپنے درمیان نہیں ہونے دیا یہاں تک کہ آپؐ کی وفات ہو گئی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 3 صفحہ35 صُہَیْب بن سنان،دارالفکر بیروت 2001ء)
حضرت صُہَیبؓ بڑھاپے میں لوگوں کو جمع کر کے نہایت لطف کے ساتھ اپنے جنگی کارناموں کے دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے۔
(ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2صفحہ268صُہَیْب بن سنان مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
حضرت صُہَیبؓ کی زبان میں عجمیت تھی یعنی عربوں والی فصاحت نہیں تھی۔ زَید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ کے ساتھ چلا یہاں تک کہ وہ حضرت صُہَیبؓ کے ایک باغ میں داخل ہوئے جو عالیہ مقام میں تھا۔ حضرت صُہَیبؓ نے جب حضرت عمرؓ کو دیکھا تو کہا یَنَّاسْ یَنَّاسْ۔ حضرت عمرؓ کو لگا کہ اَلنَّاسکہہ رہے ہیں تو حضرت عمر ؓنے کہا اسے کیا ہوا ہے؟ یہ لوگوں کو کیوں بلا رہا ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ مَیں نے عرض کیا کہ وہ اپنے غلام کو بلا رہےہیں جس کا نام یُحَنَّسْہے۔ زبان میں گرہ کی وجہ سے وہ اسے ایسا کہہ رہے ہیں۔ اس کے بعد پھر وہاں باتیں ہوئیں تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ اے صُہَیبؓ! تین باتوں کے علاوہ میں تم میں کوئی عیب نہیں دیکھتا۔ اگر وہ تم میں نہ ہوتیں تو میں تم پر کسی کو فضیلت نہ دیتا۔ میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنے آپ کو عرب کی طرف منسوب کرتے ہو جبکہ تمہاری زبان عجمی ہے۔ اور تم اپنی کنیت ابو یحیٰیبتاتے ہو جو ایک نبیؑ کا نام ہے۔ اور تم اپنا مال فضول خرچ کرتے ہو۔ حضرت صُہیبؓ نے جواب میں کہا جہاں تک میرے مال فضول خرچ کرنے کاتعلق ہے تو میں اسے وہیں خرچ کرتا ہوں جہاں خرچ کرنے کا حق ہوتا ہے۔ فضول نہیں کرتا۔ جہاں تک میری کنیت کا تعلق ہے تو وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو یحیٰیرکھی تھی اور میں اس کو ہرگز ترک نہیں کروں گا۔ اور جہاں تک میرے عرب کی طرف منسوب ہونے کا تعلق ہے تو رومیوں نے مجھے کم سنی میں قیدی بنا لیا تھا اس لیے میں نے ان کی زبان سیکھ لی۔ مَیں قبیلہ نَمِرْ بِن قَاسِطْسے تعلق رکھتا ہوں۔
حضرت عمرؓ حضرت صُہَیبؓ سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کے بارے میں اعلیٰ گمان رکھتے تھے یہاں تک کہ جب حضرت عمر ؓزخمی ہوئے تو آپؓ نے وصیت کی کہ میری نماز جنازہ صُہَیبؓ پڑھائیں گے اور تین روز تک مسلمانوں کی امامت کروائیں گے یہاں تک کہ اہل شوریٰ اُس پر متفق ہو جائیں جس نے خلیفہ بننا ہے۔
حضرت صُہَیبؓ کی وفات ماہ شوال 38؍ ہجری میں ہوئی، بعض کے مطابق 39؍ ہجری میں وفات ہوئی۔ وفات کے وقت حضرت صُہَیبؓ کی عمر تہتر برس تھی، بعض روایات کے مطابق ستر برس تھی۔ آپؓ مدینہ میں دفن ہوئے۔
(اسد الغابہ جلد3 صفحہ 41صُہَیْب بن سنان،دارالکتب العلمیہ بیروت2016ء)
اگلے صحابی جن کا ذکر ہے وہ حضرت سعد بن ربیعؓ ہیں۔ حضرت سعد بن ربیعؓ کاتعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو حَارِث سے تھا۔ آپؓ کے والد کا نام رَبِیع بن عَمْرو اور والدہ کا نام ھُزَیْلَہ بنتِ عِنَبَہ تھا۔ حضرت سعدؓ کی دو بیویاں تھیں ایک کا نام عَمْرَہ بنت حَزْم اور دوسری کا نام حَبِیْبَہ بنتِ زَید تھا۔ حضرت سعد بن ربیعؓ کی دو بیٹیاں تھیں۔ ایک بیٹی ام سعد تھیں ایک جگہ انہیں اُمِّ سعید بھی لکھا گیا ہے ان کا اصل نام جمیلہ تھا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد جلد 3 صفحہ 395، جلد 8 صفحہ 303، ام عمارة، دارالکتب العلمیہ بیروت 2017ء)
(عمدة القاری جلد 20 صفحہ 216 داراحیاء الترا ث العربی بیروت 2003ء)
حضرت سعد بن ربیعؓ زمانہ جاہلیت میں بھی لکھنا پڑھنا جانتے تھے جبکہ بہت کم لوگ یہ جانتے تھے۔ حضرت سعد قبیلہ بنو حارث کے نقیب تھے۔ ان کے ساتھ حضرت عبداللہ بن رَوَاحہؓ بھی اسی قبیلہ کے نقیب تھے۔ حضرت سعدؓ بیعت عَقَبہ اولیٰ اور عَقَبہ ثانیہ میں شامل تھے۔
(اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 214دارالکتب العلمیہ بیروت 2016ء)
ہجرت مدینہ کے وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم مدینہ میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور سعد بن ربیعؓ کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا۔ تو سعد بن ربیعؓ نے کہا میں انصار میں سے زیادہ مالدار ہوں۔ سو میں تقسیم کر کے نصف مال آپؓ کو دے دیتا ہوں اور میری دو بیویوں میں سے جو آپؓ پسند کریں میں آپؓ کے لیے اس سے دستبردار ہو جاؤں گا۔ جب اس کی عدت گزر جائے تو اس سے آپؓ نکاح کر لیں۔ یہ سن کر حضرت عبدالرحمٰنؓ نے حضرت سعدؓ سے کہا کہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم صرف یہ بتاؤ یہاں کوئی بازار ہے جس میں تجارت ہوتی ہو؟ حضرت سعدؓ نے بتایا کہ قینقاع کا بازار ہے۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ یہ معلوم کر کے صبح سویرے وہاں گئے اور پنیر اور گھی لے آئے۔ پھر اسی طرح ہر صبح وہاں بازار میں جاتے رہے۔ ابھی کچھ عرصہ نہ گزرا تھا کہ حضرت عبدالرحمٰنؓ آئے اور ان پر زعفران کا نشان تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکیا وجہ ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب حاضر ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پتا تھا کہ ان کی شادی ہوگئی ہے۔ زعفران کا نشان ڈالتے تھے تو مطلب تھا کہ شادی ہو گئی ہے۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے شادی کر لی ہے؟ عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کس سے؟ انہوں نے کہا کہ انصار کی ایک عورت سے تو آپؐ نے فرمایا کتنا مہر دیا ہے۔ تو انہوں نے عرض کیا کہ ایک گٹھلی کے برابر سونا یا کہا سونے کی گٹھلی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولیمہ کرو خواہ ایک بکری کا ہی سہی۔
(صحیح بخاری کتاب البیوع باب ما جاء فی قول اللّٰہ عزَّ وجلَّ فاذا قضیت الصلوٰۃ۔۔۔حدیث نمبر 2048)
ان کی حیثیت کے مطابق ان کو ولیمہ کی دعوت کی طرف توجہ دلائی۔ حضرت سعد بن ربیعؓ غزوۂ بدر و اُحد میں شامل ہوئے اور غزوۂ احد میں شہید ہوئے۔ غزوۂ احد کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سعد بن ربیع کی خبر کون لائے گا؟ ایک شخص نے عرض کیا کہ میں۔ چنانچہ وہ مقتولین میں جا کر تلاش کرنے لگے۔ حضرت سعدؓ نے اس شخص کو دیکھ کر کہا تمہارا کیا حال ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے تاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تمہاری خبر لے کے جاؤں تو حضرت سعدؓ نے کہا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دینا کہ مجھے نیزے کے بارہ زخم آئے ہیں اور میرے سے لڑنے والے دوزخ میں پہنچ گئے ہیں یعنی جس نے بھی میرے سے لڑائی کی اس کو میں نے مار دیا ہے اور میری قوم کو یہ کہنا کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی عذر نہیں ہو گا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو جائیں اور تم لوگوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ رہا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جو شخص ان کے پاس گیا تھا وہ حضرت اُبَیبن کعبؓ تھے۔ حضرت سعدؓ نے حضرت اُبَی بن کعبؓ سے کہا اپنی قوم سے کہنا کہ تم سے سعد بن ربیعؓ کہتا ہے کہ اللہ سے ڈرو اور ایک اَور روایت بھی ہے کہ اَور جو عہد تم لوگوں نے عَقَبہ کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا اس کو یاد کرو۔ اللہ کی قسم ! اللہ کے حضور تمہارے لیے کوئی عذر نہ ہو گا اگر کفار تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پہنچ گئے اور تم میں سے کوئی ایک آنکھ حرکت کر رہی ہو یعنی کوئی شخص بھی زندہ باقی رہے تو اللہ کے نزدیک یہ کوئی عذر نہیں ہو گا ۔حضرت اُبَیبن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ابھی وہیں تھا یعنی حضرت سعدؓ کے پاس ہی تھے تو حضرت سعد بن ربیعؓ کی وفات ہو گئی۔اس وقت وہ زخموں سے چور تھے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس حاضر ہوا اور آپؐ کو سب بتا دیا کہ یہ گفتگو ہوئی تھی۔ یہ ان کی حالت ہے اور اس طرح شہید ہو گئے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ وہ زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کا خیر خواہ رہا۔ حضرت سعد بن ربیعؓ اور حضرت خارجہ بن زیدؓ کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ396 دارالکتب العلمیہ بیروت 2017ء) (الاستیعاب جلد 2 صفحہ157، دارالکتب العلمیہ بیروت2010 ء)(اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 432-433، دارالکتب العلمیہ بیروت 2016ء)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ حضرت سعدؓ کی شہادت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس طرح تحریر فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی میدان میں اتر آئے ہوئے تھے اور شہدا ءکی نعشوں کی دیکھ بھال شروع تھی۔ جو نظارہ اس وقت ،یعنی جب جنگ ختم ہو گئی، مسلمانوں کے سامنے تھا وہ خون کے آنسو رلانے والا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زخمی بھی تھے لیکن آپ پھر بھی میدان میں آ گئے۔شہداء کی نعشوں کی دیکھ بھال شروع ہوئی، کس طرح تدفین کرنی ہے۔ زخمیوں کو سنبھالنے کی طرف توجہ ہوئی تو بہرحال اس وقت جو نظارہ مسلمانوں کے سامنے تھا وہ ایسا خوفناک تھا کہ کہتے ہیں کہ خون کے آنسو رلانے والا تھا۔ ستر مسلمان خاک وخون میں لتھڑے ہوئے میدان میں پڑے تھے اور عرب کی وحشیانہ رسم مُثلہ کا مہیب نظارہ پیش کر رہے تھے۔ یعنی نہ صرف یہ کہ شہید ہوئے تھے بلکہ مُثلہ کیا گیا تھا۔ ان کے اعضاء کاٹے گئے تھے۔ ان کی شکلوں کو بگاڑا گیا تھا۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ ان مقتولین میں صرف چھ مہاجر تھے اور باقی سب انصار سے تعلق رکھتے تھے۔ قریش کے مقتولوں کی تعداد تئیس تھی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا اور رضاعی بھائی حمزہ بن عبدالمطلبؓ کی نعش کے پاس پہنچے تو بے خود سے ہو کر رہ گئے کیونکہ ظالم ہند جو زوجہ ابوسفیان تھی، نے ان کی نعش کو بری طرح بگاڑا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر تک تو آپؐ خاموشی سے کھڑے رہے اور آپؐ کے چہرے سے غم وغصہ کے آثار نمایاں تھے۔ ایک لمحہ کے لیے آپؐ کی طبیعت اس طرف بھی مائل ہوئی کہ مکہ کے ان وحشی درندوں کے ساتھ جب تک انہی کا سا سلوک نہ کیا جائے گا وہ غالباً ہوش میں نہیں آئیں گے۔ ان کو سبق نہیں ملے گا مگر آپؐ اس خیال سے رک گئے اور صبر کیا بلکہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مُثلہ کی جو رسم تھی، شکلوں کو بگاڑنے والی رسم، اعضاء کاٹنے والی رسم اس کو اسلام میں ہمیشہ کے لیے ممنوع قرار دے دیا اور فرمایا دشمن خواہ کچھ کرے تم اس قسم کے وحشیانہ طریق سے بہر حال باز رہو اور نیکی اور احسان کا طریق اختیار کرو۔ آپؐ کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب اپنے بھائی حمزہؓ سے بہت محبت رکھتی تھیں۔ وہ بھی مسلمانوں کی ہزیمت کی خبرسن کر مدینہ سے نکل کے آئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے صاحبزادے زُبیر بن العوامؓ سے فرمایا کہ اپنی والدہ کو ماموں کی نعش نہ دکھانا مگر بہن کی محبت کب چین لینے دیتی تھی۔ بیٹے نے تو کہا کہ حضرت حمزہؓ کی نعش نہ دیکھیں کیونکہ مثلہ کیا ہوا ہے۔ چہرہ بگاڑا ہوا ہے۔ انھوں نے اصرار کے ساتھ کہا کہ مجھے حمزہؓ کی نعش دکھا دو۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ صبر کروں گی اور کوئی جزع فزع کا کلمہ منہ سے نہیں نکالوں گی۔ چنانچہ وہ گئیں اور بھائی کی نعش دیکھ کر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھتی ہوئی خاموش ہو گئیں۔
پھر لکھتے ہیں کہ قریش نے دوسرے صحابہ کی نعشوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن جَحْشؓ کی نعش کو بھی بری طرح بگاڑا گیا تھا۔ جوں جوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک نعش سے ہٹ کر دوسری نعش کی طرف جاتے تھے آپؐ کے چہرے پر غم واَلم کے آثار زیادہ ہوتے جاتے تھے۔ غالباً اسی موقعے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی جا کر دیکھے کہ سعد بن الربیع رئیسِ انصار کا کیا حال ہے۔ آیا وہ زندہ ہیں یا شہید ہو گئے ہیں؟ کیونکہ میں نے لڑائی کے وقت دیکھاتھا کہ وہ دشمن کے نیزوں میں بری طرح گھرے ہوئے تھے۔ آپؐ کے فرمانے پر ایک انصاری صحابی ابی بن کعبؓ گئے اور میدان میں اِدھر اُدھر سعدؓ کو تلاش کیا مگر کچھ پتہ نہ چلا۔ آخر انہوں نے اونچی اونچی آوازیں دینی شروع کیں اور سعدؓ کا نام لے لے کر پکارا مگر پھر بھی کوئی سراغ نہ ملا۔ مایوس ہوکر وہ واپس جانے کو تھے کہ انہیں خیال آیا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کانام لے کر تو پکاروں شاید اس طرح پتہ چل جاوے۔ پہلے تو خالی نام لے کر پکارا پھرکہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کے اس طرح پکاروں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےتمہیں تلاش کرنے کے لیے مجھے بھیجا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بلند آواز سے پکار کر کہاکہ سعد بن ربیعؓ کہاں ہیں؟ مجھے رسول اللہؐ نے ان کی طرف بھیجا ہے۔ اس آواز نے سعدؓ کے نیم مردہ جسم میں ایک بجلی کی لہر دوڑا دی۔ لاشوں کے بیچ میں نیم مردہ پڑے ہوئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سنا تو ایک دم جسم میں جنبش پیدا ہوئی اور انہوں نے چونک کر مگر نہایت دھیمی آواز میں جواب دیا۔ کون ہے؟ میں یہاں ہوں۔ ابی بن کعبؓ نے غورسے دیکھا تو تھوڑے فاصلہ پر مقتولین کے ایک ڈھیر میں سعدؓ کو پایا جو اس وقت نزع کی حالت میں جان توڑ رہے تھے۔ ابی بن کعبؓ نے ان سے کہا کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے بھیجا ہے کہ تمہاری حالت سے آپؐ کو اطلاع دوں۔ سعد نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا سلام عرض کرنا اورکہنا کہ خدا کے رسولوں کو اُن کے متبعین کی قربانی اوراخلاص کی وجہ سے جو ثواب ملا کرتا ہے خدا آپؐ کو وہ ثواب سارے نبیوں سے بڑھ چڑھ کر عطا فرمائے اور آپؐ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرے اورمیرے بھائی مسلمانوں کوبھی میرا سلام پہنچانا اور میری قوم سے کہنا کہ اگرتم میں زندگی کادم ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو خدا کے سامنے تمہارا کوئی عذر نہیں ہو گا۔ یہ کہہ کر سعدؓ نے جان دے دی۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 500-501)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس واقعہ کا ذکر اپنے الفاظ میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ’’جنگ احد کا ایک واقعہ ہے۔ جنگ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی ابن کعبؓ کو فرمایا کہ جاؤ اور زخمیوں کو دیکھو۔ وہ دیکھتے ہوئے حضرت سعد بن ربیعؓ کے پاس پہنچے جو سخت زخمی تھے اور آخری سانس لے رہے تھے۔ انہوں نے ان سے کہا کہ اپنے متعلقین اور اعزاء‘‘ عزیزوں ’’کو اگر کوئی پیغام دینا ہو تو مجھے دے دیں۔ حضرت سعدؓ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں منتظر ہی تھا کہ کوئی مسلمان ادھر آئے تو پیغام دوں۔ تم میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر وعدہ کرو کہ میرا پیغام ضرور پہنچا دو گے اور اس کے بعد انہوں نے جو پیغام دیا وہ یہ تھا کہ میرے بھائی مسلمانوں کو میرا سلام پہنچا دینا اور میری قوم اور میرے رشتہ داروں سے کہنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس خدا تعالیٰ کی ایک بہترین امانت ہیں اور ہم اپنی جانوں سے اس امانت کی حفاظت کرتے رہے ہیں۔ اب ہم جاتے ہیں۔‘‘ ہم تو جا رہے ہیں۔ اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔ ’’اور اس امانت کی حفاظت تمہارے سپرد کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اس کی حفاظت میں کمزوری دکھاؤ۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’دیکھو ایسے وقت میں جب انسان سمجھتا ہو کہ میں مر رہا ہوں کیا کیا خیالات اس کے دل میں آتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے میری بیوی کا کیا حال ہو گا۔ میرے بچوں کو کون پوچھے گا۔ مگر اس صحابیؓ نے کوئی ایسا پیغام نہ دیا۔ صرف یہی کہا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے اس دنیا سے جاتے ہیں تم بھی اسی راستہ سے ہمارے پیچھے آ جاؤ۔‘‘ سب سے بڑا کام یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنی ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’ان لوگوں کے اندر یہی ایمان کی قوت تھی جس سے انہوں نے دنیا کو تہ و بالا کر دیا اور قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں کے تختے الٹ دیے۔ قیصر روم حیران تھا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ کسریٰ نے اپنے سپہ سالار کو لکھا کہ اگر تم ان عربوں کو بھی شکست نہیں دے سکتے تو پھر واپس آ جاؤ اور گھر میں چوڑیاں پہن کر بیٹھو۔‘‘ اس نے اپنے جرنیل کو یہ کہا کہ ’’یہ گوہیں کھانے والے لوگ ہیں ان کو بھی تم نہیں روک سکتے۔‘‘ بالکل معمولی لوگ ہیں، کھانا بھی ان کو نہیں ملتا۔ گوہ کھاتے ہیں یہ لوگ۔ ’’اس نے جواب دیا یہ تو آدمی معلوم ہی نہیں ہوتے۔ یہ تو کوئی بلا ہیں۔ یہ تلواروں اور نیزوں کے اوپر سے کودتے ہوئے آتے ہیں۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 338) ان میں ایسا جوش و جذبہ ہے۔ ان کو ہم کس طرح شکست دے سکتے ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت سعد بن ربیعؓ کی صاحبزادی ام سعد حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئیں تو انہوں نے اس کے لیے اپنا کپڑا بچھا دیا۔ حضرت عمرؓ آئے تو انہوں نے پوچھا یہ کون ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا یہ اس شخص کی بیٹی ہے جو مجھ سے اور تم سے بہتر تھا۔ حضرت عمر نے کہا اے خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایاکہ وہ شخص جس کی وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوئی اور اس نے جنت میںاپنا ٹھکانا بنا لیا جبکہ مَیں اور تم باقی رہ گئے۔
(الاصابہ جلد2 صفحہ315سعد بن الربیع، دارالفکر بیروت 2001ء)
حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ربیع کی بیوی اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ دونوں سعد بن ربیعؓ کی بیٹیاں ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہید ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے لیا ہے یعنی حضرت سعدؓ کی جائیداد جو تھی اِن کے چچا نے لے لی ہے۔ انہیں کچھ نہیں ملا اور ان کے لیے مال نہیں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھی نہیں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں فیصلہ فرمائے گا۔ اس پر میراث کے احکام پر مشتمل آیت نازل ہوئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے چچا کو بلوایا اور فرمایا کہ سعد کی بیٹیوں کو سعد کے مال کا تیسرا حصہ دو اور ان دونوں کی والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے۔
(سنن الترمذی،کتاب الفرائض، باب ما جاء فی میراث البنات،حدیث نمبر 2092)
اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اس بارے میں کچھ تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں اس طرح لکھی ہے کہ حضرت سعدؓ ایک متمول آدمی تھے۔ اچھے کھاتے پیتے تھے۔ اپنے قبیلہ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی۔ صرف دو لڑکیاں تھیں اوربیوی تھی۔ چونکہ ابھی تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ورثہ کے متعلق کوئی جدید احکام نازل نہیں ہوئے تھے اورصحابہ میں قدیم دستور عرب کے مطابق، عرب کا جو دستورتھا اس کے مطابق ورثہ تقسیم ہوتا تھا۔ متوفیٰ یعنی فوت ہونے والے کی نرینہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں اس کے جدی اقرباء جو تھے جائیداد پر قابض ہوجاتے تھے اور بیوہ اورلڑکیاں یوں ہی خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں۔ اس لیے سعد بن ربیع کی شہادت پر ان کے بھائی نے سارے ترکے پرقبضہ کرلیا اوران کی بیوہ اور لڑکیاں بالکل بے سہارا رہ گئیں۔ اس تکلیف سے پریشان ہوکر سعد کی بیوہ اپنی دونوں لڑکیوں کو ساتھ لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ساری سرگزشت سنا کر اپنی پریشانی کاذکر کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت صحیحہ کواس درد کے قصہ نے ایک ٹھیس لگائی مگر چونکہ ابھی تک اس معاملہ میں خدا کی طرف سے آپؐ پرکوئی احکام نازل نہیں ہوئے تھے آپؐ نے فرمایا تم انتظار کرو ۔پھر جو احکام خدا کی طرف سے نازل ہوں گے ان کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارہ میں توجہ فرمائی اورابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ آپ پرورثہ کے معاملہ میں بعض وہ آیات نازل ہوئیں جو قرآن شریف کی سورۃ النساء میں بیان ہوئی ہیں۔ اس پر آپؐ نے سعد کے بھائی کو بلایا اوراس سے فرمایا کہ سعدکے ترکہ میں سے دو ثُلث ان کی لڑکیوں اورایک ثُمن اپنی بھاوجہ کے سپرد کردو اورجو باقی بچے وہ خود لے لو۔ اس وقت سے تقسیم ورثہ کے متعلق جدید احکام کی ابتدا قائم ہو گئی جس کی رو سے بیوی اپنے صاحب اولادخاوند کے ترکہ میں آٹھویں حصہ کی اور بے اولاد خاوند کے ترکہ میں چہارم حصہ کی اور لڑکیاں اپنے باپ کے ترکہ میں اپنے بھائی کے حصہ کی نسبت نصف حصہ کی اوراگر بھائی نہ ہوتو سارے ترکہ میں سے حالات کے اختلاف کے ساتھ دو ثلث یانصف کی (تین چوتھائی یا نصف کی، دو تہائی یا نصف کی) اورماں اپنے صاحب اولاد لڑکے کے ترکہ میں چھٹے حصہ کی اور بے اولاد لڑکے کے ترکہ میں تیسرے حصہ کی حق دار قرار دی گئی اوراسی طرح دوسرے ورثاء کے حصے مقرر ہوگئے۔ اورعورت کا وہ فطری حق جو اس سے چھینا جاچکا تھا اسے واپس مل گیا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے آگے ایک نوٹ لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس موقع پر یہ نوٹ بھی غیرضروری نہیں ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپؐ نے طبقہ نسواں کے تمام جائز اورواجبی حقوق کی پوری پوری حفاظت فرمائی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے یا آپؐ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں گزرا جس نے عورت کے حقوق کی ایسی حفاظت کی ہو جیسی آپؐ نے کی ہے۔ چنانچہ ورثہ میں، بیاہ شادی میں، خاوند بیوی کے تعلقات میں، طلاق وخلع میں، اپنی ذاتی جائیداد پیدا کرنے کے حق میں، اپنی ذاتی جائیداد کے استعمال کرنے کے حق میں، تعلیم کے حقوق میں، بچوں کی ولایت وتربیت کے حقوق میں، قومی اور ملکی معاملات میں حصہ لینے کے حق میں، شخصی آزادی کے معاملہ میں، دینی حقوق اورذمہ داریوں میں الغرض دین ودنیا کے ہر اس میدان میں جس میں عورت قدم رکھ سکتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تمام واجبی حقوق کوتسلیم کیا ہے اوراس کے حقوق کی حفاظت کواپنی امت کے لیے ایک مقدس امانت اورفرض کے طور پر قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب کی عورت آپؐ کی بعثت کواپنے لیے ایک نجات کاپیغام سمجھتی تھی۔
پھر آپؓ لکھتے ہیں کہ مجھے اپنے رستہ سے ہٹنا پڑتا ہے یعنی مضمون جو بیان ہو رہا ہے اس سے پرے ہٹ رہا ہوں۔ اگر میں اس کی مزید تفصیلات بیان کرتا تو ہٹنا پڑتا ورنہ میں بتاتا (کیونکہ یہ عورتوں کے حقوق کا مضمون نہیں بیان ہو رہا اس لیے بیان نہیں کرسکتا) کہ عورت کے معاملہ میں آپؐ کی تعلیم حقیقتاً اس اعلیٰ مقام پر قائم ہے جس تک دنیا کا کوئی مذہب اور کوئی تمدن نہیں پہنچا اور یقیناً آپؐ کا یہ پیارا قول ایک گہری صداقت پرمبنی ہے کہ
حُبِّبَ اِلَیَّ مِنْ دُنْیَاکُمُ النِّسَاءُ وَالطِّیْبُ وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ
یعنی دنیا کی چیزوں میں سے میری فطرت کو جن چیزوں کی محبت کا خمیر دیا گیا ہے وہ عورت اورخوشبو ہیں مگر میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز یعنی عبادت الٰہی میں رکھی گئی ہے۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ صفحہ 507تا 509)
آج کی دنیا عورت کے حقوق کی بات کرتی ہے اور چند سطحی باتوں کو اٹھا کر جن کا آزادی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اسلام نے جو پابندیاں لگائی ہیں وہ بھی عورت کی عزت قائم کرنے اور گھروں کے سکون اور اگلی نسل کی تربیت کے لیے رکھی ہیں ان پر اسلام پر اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عورت کی آزادی اور حقوق دلوانے کی حقیقی تعلیم اسلام کی ہی ہے۔ اللہ کرے کہ دنیا اس حقیقت کو سمجھ کر غلاظتوں اور فسادوں سے بچ سکے اور ہماری عورتیں بھی اس حقیقت کو سمجھیں۔ بعض دفعہ دنیا کے پیچھے چل پڑتی ہیں کہ دنیا کی آزادی یہ ہے۔ وہ اس حقیقت کو سمجھیں اور جو مقام اسلام نے عورت کو دیا ہے اس کو سمجھیں کیونکہ وہ نہ کسی مذہب نے دیا ہے اور نہ ہی نام نہاد روشن خیال حقوق نسواں کے اداروں نے دیا ہے یا تحریک نے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مردوں کو بھی عورتوں کے حقوق ادا کرنے کی اسلامی تعلیم کے مطابق توفیق عطا فرمائے تا کہ یہ معاشرہ پُرامن معاشرہ ہو۔
اس کے بعد میں مختصراً موجودہ حالات کے لیے بھی دعا کے لیے کہنا چاہتا ہوں۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جہاں کورونا کی وبا سے اور آفات سے دنیا کو پاک کرے وہاں انسانوں کو یہ عقل اور سمجھ بھی دے کہ ان کی بقا اور بچت ایک خدا کی طرف جھکنے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے میں ہے۔ اپنی قربانی دیتے ہوئے دنیا سے فتنہ و فساد ختم کرنے میں ہے۔ حکومتوں کو اللہ تعالیٰ عقل دے کہ انصاف پر مبنی نظام چلائیں۔ امریکہ میں بھی آج کل جو بےچینی اور بدامنی پھیلی ہوئی ہے اس سے ہر احمدی کو خصوصاً اس کے بداثرات سے محفوظ رکھے۔ وہاں عوام کو بھی صحیح رنگ میں اپنے مطالبے پیش کرنے اور حقوق لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ اگر افریقن امریکن توڑ پھوڑ کے ذریعہ سے اپنے گھروں کو جلائیں گے تو اس کا نقصان ان کو ہی ہو گا کیونکہ اس پر تو کئی افریقن لیڈروں نے بھی کہا ہے کہ اپنے گھروں کو تو نہ جلاؤ۔ اپنے گھروں کی توڑ پھوڑ تو نہ کرو۔ ہاں اپنے حق لو اور جائز طریقے سے لو۔ جہاں تک حکومت اجازت دیتی ہے پروٹسٹ (protest) بھی ہوں لیکن اپنی جائیدادوں کو تباہ کرنے کا تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ الٹا نقصان ہو گا۔ اس لیے اس بارے میں بھی پروٹسٹ کرنے والوں کو سوچنا چاہیے۔ بہرحال یہ جو سارے فسادات ہو رہے ہیں اس کے تناظر میں حکومتی نظام کو بھی یہ سمجھ لیناچاہیےکہ طاقت استعمال کر کے ہی مسائل حل نہیں ہوتے اور نہ ہی طاقت تمام مسائل کا حل ہے بلکہ انصاف سے تمام شہریوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے حکومتیں چلا کرتی ہیں اور ملک میں امن اور استحکام قائم ہو سکتا ہے، اس کے بغیر نہیں۔ جتنی مرضی کوئی طاقتور حکومت ہو اگر عوام میں بےچینی ہے تو کوئی حکومت اس کے سامنے ٹک نہیں سکتی۔ بہرحال اللہ کرے کہ دنیا میں جہاں جہاں بھی فساد ہیں ہر جگہ فساد دور ہوں اور حکومتیں عوام کے حق ادا کرنےو الی ہوں اور عوام اپنے حقوق کے لیے جائز حد تک حکومتوں پر دباؤ ڈالنے والے ہوں۔
اسی طرح پاکستانی حکومت کو بھی سوچنا چاہیے کہ صرف ملّاں کے خوف سے آج کل احمدیوں پر جو ظلم اور سختیاں بڑھ رہی ہیں وہ نہ کریں بلکہ انصاف سے حکومت چلائیں۔ اپنی تاریخ سے سبق لے لیں۔ احمدیت کے معاملے کو لے کر یا اس ایشو (issue) کو لے کر اور ظلم کر کے نہ پہلی حکومتوں کی حکومت قائم رہ سکی ہے نہ آئندہ کسی کی رہ سکے گی۔ اس لیے اس خیال کو چھوڑ دیں کہ اس ایشو سے حکومتوں کو لمبا کر سکتے ہیں۔ ہاں ان ظلموں کے نتیجے میں دنیا میں احمدیت کی ترقی پہلے سے بڑھ کر ہوئی ہے اور آئندہ بھی ان شاء اللہ تعالیٰ ہوتی رہے گی۔ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور اس کو کوئی نہیں روک سکتا۔ بہرحال ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ظلم اور فساد اور بدامنی کو دور فرمائے اور جو وبا آج کل پھیلی ہوئی ہے، بیماری پھیلی ہوئی ہے اس میں سے انسان سبق حاصل کر کے اپنی حالتوں میں تبدیلیاں پیدا کرے اور ہم احمدیوں کو پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق اور اس کے بندوں کا حق ادا کرنے کی توفیق ملے تا کہ ہم زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے بن سکیں اور ترقیات کو جلد سے جلد اپنے سامنے ہوتا ہوا دیکھ سکیں۔
(الفضل انٹر نیشنل 26جون2020ء صفحہ 5تا9)