شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شادی کا بیان (حصہ سوم)
احترام حضرت ام المومنینؓ(حصہ دوم۔ آخر)
الٰہی بشارت کے موافق اولاد اورمصلح موعودؓ کی پیدائش
حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ بیان فرماتی ہیں:
’’مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی عطر اور چنبیلی کا تیل آپ کے لئے خاص طور پر منگایا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد آپ نے اپنا عطر کا صندوقچہ مجھے پاس بلا کر تیسرے روز دے دیا تھا۔ (جو میں نےبھاوجوں میں تقسیم کر دیا تھا) زمانہ عدت میں آپ نے خوشبو نہیں استعمال کی نہ زیور ہی کوئی پہنا۔ سفید لباس پہنتی تھیں مگر صاف، میلا نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جس دن ایام عدت ختم ہوئے آپ نے غسل کیا صاف لباس پہنا عطر لگایا۔ اور اس دن جو کیفیت صدمہ کی اور پھر ضبط آپ کے چہرہ سے مترشح تھا، وہ تحریر میں نہیں آ سکتا۔ آپ کا رونا نمازوں کا رونا۔ دعاؤں کا رونا ہوتا تھا ویسے نہیں۔ روزانہ بہشتی مقبرہ جاتیں۔ اور نہایت رقت سے دعائیں کرتیں۔ وہ آپ کی حالت دیکھی نہیں جایا کرتی تھی۔‘‘
(تحریراتِ مبارکہ از شعبہ اشاعت لجنہ اماء اللہ پاکستان صفحہ 21، 22)
مکرم مرزا غلام احمد صاحب ایم۔ اے اپنی ایک تقریر میں بیان فرماتے ہیں :
’’جب کبھی حضرت اماں جانؓ بیمار ہوتیں آپ ہر طرح ان کا خیال رکھتے اور عملی طور پر تیمارداری کرتے۔ باوجود ازحد مصروفیت کے غذا کا اہتمام فرماتے۔ اپنے ہاتھوں سے دوا دیتے بلکہ ضرورت کے وقت حضرت اماں جانؓ کو اپنے ہاتھوں سے دباتے بھی تھے۔ غرض اماں جانؓ کی تسلی اور تسکین کی خاطر ہر اقدام فرماتے تھے۔ ‘‘(ذکرِ حبیب از مرزا غلام احمد صاحب ایم اےتقریر برموقع جلسہ سالانہ جرمنی 2002ءصفحہ 21)
الٰہی بشارت کے موافق اولاد
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’خدائے عز ّوجل کے زبردست نشانوں میں سے ایک یہ ہے کہ عرصہ تخمیناً بیس سال کا گذر چکا ہے کہ جب مجھے ایک مقدس وحی کے ذریعہ سے خبر دی گئی تھی کہ خدا تعالیٰ ایک شریف خاندان میں میری شادی کرے گا اور وہ قوم کے سید ہوں گے اور اس بیوی کو خدا مبارک کرے گا اور اس سے اولاد پیدا ہو گی۔ اور پھر یہ الہام ہوا کہ ہر چہ بائد نو عروسی را ہمہ سامان کنم یعنی اس شادی کے تمام ضروریات کا پورا کرنا میرے ذمہ ہو گا۔ چنانچہ اس نے اس وعدہ کے موافق شادی کے بعد اس کے ہر ایک بوجھ سے مجھے سبکدوش کر دیا اور ہمیشہ کرتا رہا اور سب سامان میسر آئے اور حُسن معاشرت کے لئے سب سامان میسر آتے گئے۔ اور کسی طرح کی تکلیف پیش نہ آئی بلکہ ہر طرح کا آرام پہنچا ۔اور دوسرا بڑا نشان یہ ہے کہ جب شادی کے متعلق مجھ پر مقدس وحی نازل ہوئی تھی تو اس وقت میرا دل و دماغ اور جسم نہایت کمزور تھا اور علاوہ ذیابیطس اور دوران سر اور تشنج قلب کے دق کی بیماری کا اثر ابھی بکلی دور نہ ہوا تھا۔ اس نہایت درجہ کے ضعف میں جب نکاح ہوا تو بعض لوگوں نے افسوس کیا کیونکہ میری حالت مردمی کالعدم تھی۔ اور پیرانہ سالی کے رنگ میں میری زندگی تھی۔ چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے مجھے خط لکھا تھا جو اب تک موجود ہے کہ آپ کو شادی نہیں کرنی چاہئے تھی ایسا نہ ہو کہ کوئی ابتلا پیش آوے مگر باوجود ان کمزوریوں کے خدا نے مجھے پوری قوت صحت اور طاقت بخشی اور چار لڑکے عطا کئے۔ ‘‘
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 586، 587)
مصلح موعود ؓ کی پیدائش
مولانا دوست محمد شاہد صاحب ایک کتاب میں یوں تحریر فرماتے ہیں :
’’نومبر1884ء میں دہلی کے صوفی مرتاض حضرت خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ کے نبیرہ حضرت میر ناصر نواب صاحب کی بیٹی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ آپ کے عقد میں آئیں۔ اس طرح خدا نے تمام جہاں کی مدد کے لئے ایک مبارک اور مبشر خاندان کی بنیاد ڈالی۔ 1886ء میں بحکمِ الٰہی آپ نے ہوشیار پور میں چلہ کشی کی۔ جس کے نتیجہ میں آپ کو اپنے مخلصین اور اپنے خاندان کی نسبت بھاری بشارتیں ملیں۔ نیز مصلح موعود جیسے فرزند ارجمند کی خبر دی گئی۔ جو 12 جنوری 1889ء کو سیدنا محمود المصلح الموعود کے نورانی وجود کی ولادت سے پوری ہوئی۔ ‘‘
(سوانح حضرت مسیحِ موعود از دوست محمد شاہدصاحب صفحہ 9، 10)
حضرت مسیح موعودؑ کی اولاد مبارکہ کا بیان
فَيَتَزَوَّجُ وَيُولَدُلَہٗ۔
پس وہ شادی کرے گا اوراس کے ہاں اولاد ہوگی۔
(مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفتن باب نزول عیسی علیہ السلام حدیث 5508)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’قد اخبر رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ان المسيح الموعود يتزوّج و يولد له۔ ففي هذا اشارة الي ان اللّٰه يعطيه ولدًا صالحًا يشابه اباه و لا يأباه و يكون من عباد اللّٰه المكرمين۔ والسر في ذالك ان اللّٰه لا يبشر الانبياء والاولياء بذرية الّا اذا قدر توليد الصالحين۔ و هذه هي البشارة التي قد بُشرت بها من سنين و من قبل هذه الدعوي ليعرفني اللّٰه بهذا العلم في اعين الذين يستشرفون و كانوا للمسيح كالمجلوذين۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ 578 حاشیہ)
ترجمہ:یقیناًَ رسول اللہﷺ نے خبردی ہے کہ مسیح موعود شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہوگی اس میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالی اسےایک نیک بیٹا دے گا جو اپنے باپ سے مشابہ ہوگا۔ اور اس کا انکار کرنے والا نہیں ہوگا اور اللہ کے مکرمین بندوں میں سے ہوگا۔ اس میں راز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء اوراولیاء کو اولاد کی خوشخبری نہیں دیتا مگر جبکہ اس نیک کا پیداہونا مقدرہوچکاہو۔
بچوں کو سفر میں ہمراہ لے کر جانا
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں :
’’اکتوبر1897ء میں آپ کو ایک شہادت پر ملتان جانا پڑا۔ وہاں شہادت دے کر جب واپس تشریف لائے تو کچھ دنوں لاہور بھی ٹھہرے۔ یہاں جن جن گلیوں سے آپ گذرتے اُن میں لوگ آپ کو گالیاں دیتے اور پکار پکار کر بُرے الفاظ آپ کی شان میں زبان سے نکالتے۔ میری عمر اُس وقت آٹھ سال کی تھی اور میں بھی اس سفر میں آپؑ کے ساتھ تھا۔ ‘‘
(سیرت حضرت مسیحِ موعودؑ از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ صفحہ 58)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں :
’’جب 1905ء کا زلزلہ آیا تو میں بچہ تھا اور نواب محمد علی خان صاحب کے شہر والے مکان کے ساتھ ملحق حضرت صاحب کے مکان کا جو حصہ ہے اس میں ہم دوسرے بچوں کے ساتھ چارپائیوں پر لیٹے ہوئے سو رہے تھے ،جب زلزلہ آیا تو ہم سب ڈر کر بے تحاشا اُٹھے اور ہم کو کچھ خبر نہیں تھی کہ یہ کیا ہورہا ہے۔صحن میں آئے تو اوپر سے کنکر روڑے برس رہے تھے ہم بھاگتے ہوئے بڑے مکان کی طرف آئے وہاں حضرت مسیح موعودؑ اور والدہ صاحبہ کمرے سے نکل رہے تھے۔ہم نے جاتے ہی حضرت مسیح موعودؑ کو پکڑ لیا اور آپ سے لپٹ گئے۔آپ اس وقت گھبرائے ہو ئے تھے اور بڑے صحن کی طرف جانا چاہتے تھے مگر چاروں طرف بچے چمٹے ہوئے تھے اور والدہ صاحبہ بھی۔کوئی اِدھر کھینچتا تھا توکوئی اُدھر اور آپ سب کے درمیان میں تھے آخر بڑی مشکل سے آپؑ اور آپ کے ساتھ چمٹے ہوئے ہم سب بڑے صحن میں پہنچے۔اس وقت تک زلزلے کے دھکے بھی کمزور ہو چکے تھے۔تھوڑی دیر کے بعد آپؑ ہم کو لے کر اپنے باغ میں تشریف لے گئے۔دوسرے احباب بھی اپنا ڈیرا ڈنڈا اُٹھا کر باغ میں پہنچ گئے۔وہاں حسب ضرورت کچھ کچے مکان بھی تیار کروا لئے گئے اور کچھ خیمے منگوالئے گئے اور پھر ہم سب ایک لمباعرصہ باغ میں مقیم رہے۔ان دنوں میں مدرسہ بھی وہیں لگتا تھا۔گویا باغ میں ایک شہر آباد ہو گیا تھا۔اللہ اللہ کیا زمانہ تھا۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 32)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ بڑی بیوی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو لڑکے پیدا ہوئے۔ اعنی مرزا سلطان احمد صاحب اورمرزا فضل احمد۔حضرت صاحب ابھی گویا بچہ ہی تھے کہ مرزا سلطان احمدپیداہوگئے تھے۔اور ہماری والدہ صاحبہ سے حضرت مسیح موعود ؑکی مندرجہ ذیل اولاد ہوئی۔عصمت جو 1886ء میں پیدا ہوئی اور 1891ء میں فوت ہوگئی۔بشیر احمد اوّل جو1887ء میں پیدا ہوا اور 1888ء میں فوت ہوگیا۔حضرت خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد جو 1889ء میں پیدا ہوئے۔شوکت جو 1891ء میں پیدا ہوئی اور 1892ء میں فوت ہوگئی۔خاکسار مرزا بشیر احمد جو 1893ء میں پیدا ہوا۔مرزا شریف احمد جو 1895ء میں پیدا ہوئے۔مبارکہ بیگم جو1897ء میں پیدا ہوئیں۔ مبارک احمد جو 1899ء میں پیدا ہوا اور 1907ء میں فوت ہوگیا۔امۃ النصیر جو 1903ء میں پیداہوئی اور 1903ء میں ہی فوت ہوگئی۔امۃالحفیظ بیگم جو 1904ء میں پیدا ہوئیں ۔سوائے امۃ الحفیظ بیگم کے جو حضرت صاحب کی وفات کے وقت صرف تین سال کی تھیں باقی سب بچوں کی حضرت صاحب نے اپنی زندگی میں شادی کر دی تھی۔‘‘(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر 59)
صاحبزادہ مبارک احمد صاحب مرحوم
نیز آپؓ فرماتے ہیں :
’’1907ء میں ستمبر کے مہینے میں آپ کا لڑکا مبارک احمد اس پیشگوئی کے مطابق جو اس کی پیدائش کے وقت ہی چھاپ کر شائع کر دی گئی تھی ساڑھے آٹھ سال کی عمر میں فوت ہو گیا۔‘‘
(سیرت حضرت مسیحِ موعودؑ از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ صفحہ 85، 86)
صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی وفات پر بہت سے خطوط ماتم پُرسی کے حضرت صاحبؑ کی خدمت میں آئے جو اب تک میرے پاس محفوظ ہیں (تعداد 83)۔ان خطوط میں اکثر دوستوں نے اظہارِ غم اور ہمدردی کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ جیسے صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی پیدائش پیشگوئیوں کے مطابق ایک نشان تھی ایسا ہی مرحوم کی وفات بھی ایک نشان ہے اور جتنا عرصہ وہ زندہ رہے اس میں بہت سے نشانات ظاہر ہوئے۔ان کی پیدائش زندگی اور موت سب ہمارے لئے موجب ازدیادِ ایمان ہیں ۔بعض احباب نے حضرت صاحبؑ کے اس الہام کا جو پہلے سے شائع ہو چکا تھا اپنے خطوں میں حوالہ دیا۔’’اے اہل بیت ہے تو بھاری مگر خدا کے امتحان کو قبول کر۔‘‘
(ذکرِ حبیب مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ صفحہ 111)
٭…٭…٭