آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت صحابی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو یہ سعادت بھی عطا ہوئی کہ آنحضرت ﷺ نے آپؓ کے پیچھے نماز پڑھی
آنحضرتﷺ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو یہ فرما کر بہت بڑا اعزاز بخشا کہ میرا تمہارے پیچھے نماز پڑھنااس بات کی تصدیق ہے کہ تم نیک آدمی ہو
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍ جون 2020ء بمطابق 19؍ احسان 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےمورخہ 19؍ جون 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم رانا عطا الرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پچھلے خطبے میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا ذکر ہو رہا تھا جس کا کچھ حصّہ رہ گیا تھا آج مَیں وہ بیان کروں گا۔حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے امیہ بن خلف کے ساتھ پرانےدوستانہ تعلقات تھے ۔مدینے پہنچ کر آپؓ نے امیہ کو خط لکھا کہ وہ مکّے میں آپؓ کے مال و جائیدادکی حفاظت کرے اور آپؓ یہاں مدینے میں امیّہ کے مال واسباب کی حفاظت کریں گے۔ اس خط میں آپؓ نے اپنا اسلامی نام عبدالرحمٰن لکھا تھا جس پر امیہ نے کہا کہ مَیں عبدالرحمٰن کو نہیں جانتا چنانچہ آپؓ نے زمانۂ جاہلیت کا نام عبد عمرو لکھا۔
جنگِ بدر کے موقعے پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے امیہ نے پناہ کی درخواست کی جس پر آپؓ نے امیہ اور اس کے بیٹے علی کو پناہ دی۔آپؓ ان دونوں باپ بیٹے کے ساتھ چل رہے تھے کہ حضرت بلالؓ نے امیہ کو دیکھ لیا۔ امیہ مکّے میں حضرت بلالؓ کو شدید ترین اذیتیں دیا کرتا تھا چنانچہ بلالؓ نے اسے یوں عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے ساتھ جاتا دیکھ کر شور مچادیا اور انصار کی ایک مجلس میں کھڑے ہوکر کہا کہ یہ کفّار کا سرغنہ ہے اگر یہ بچ نکلا تو میری خیر نہیں۔ اس پر مسلمانوں کی ایک جماعت نے حملہ آور ہوکر امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے دونوں کو ہلاک کردیا۔
جنگِ احد میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ رسول اللہ ؐکے ساتھ ثابت قدم رہے۔آپؓ کواکیس زخم آئے، اگلے دو دانت شہید ہوئے اور ایک ایسا شدید زخم آیا کہ آپؓ لنگڑا کر چلا کرتے تھے۔ شعبان چھ ہجری میں آنحضرتﷺ نے آپؓ کی قیادت میں سات سو مجاہدین کا لشکر دومة الجندل کی طرف اس ہدایت کے ساتھ روانہ کیا کہ پہلے انہیں اسلام کی دعوت دینااوراگر جنگ کی نوبت آئے تو خیانت،دھوکا،بدعہدی نیز بچوں اور عورتوں کے قتل سے مجتنب رہنا۔آپؓ نے رسولِ خداﷺکے حکم کی تعمیل میں تین روز تک قبیلہ کلب کو اسلام کی دعوت دی اور بالآخر انہوں نےاسلام قبول کرلیا۔ آنحضرتﷺ کے حکم کے مطابق آپؓ نے قبیلہ کلب کے سردار کی بیٹی تمازر سے شادی کی جو بعد میں امِّ ابوسلمیٰ کہلائیں۔
چودہ ہجری میں جنگِ جسر کے موقعے پر جب حضرت ابوعبید بن مسعود کی شہادت کی اطلاع ملی تو حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ کو مدینے میں اپنا قائم مقام مقرر فرما کر خود خروج کاا رادہ فرمایا۔ اس موقعے پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت عمرؓ کو جانے سے روکا۔ آپؓ نے فرمایا کہ مَیں نے نبی کریمﷺ کے سِوا کسی کو یہ نہیں کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان لیکن آج مَیں آپ (یعنی عمرؓ سے) کہتا ہوں کہ اے وہ کہ جس پر میرے ماں باپ فدا ہوں آپؓ یہیں رُک جائیں اور ایک بڑا لشکرروانہ کریں۔ کیونکہ اگر آپؓ کی موجودگی میں فوج شکست کھا گئی تو وہ آپؓ کی شکست متصوّر ہوگی اور اگر آپؓ ابتدا میں ہی شہید ہوگئے تو مجھے اندیشہ ہے کہ مسلمان کبھی تکبیر اور لاالہ الا اللّٰہ کی شہادت نہ دے سکیں گے۔حضرت عمرؓ کو عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا مشورہ پسند آیااور آپؓ نے عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے مشورے کے مطابق حضرت سعد بن مالک کوبطور کمانڈر روانہ فرمایا۔
آنحضرتﷺ نےمدینے میں مختلف صحابہ اور قبیلوں کو رہائش کےلیے جگہ عطافرمائی تھی چنانچہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے قبیلے کو مسجد نبوی کے عقب میں کھجوروں کے ایک جھنڈ میں رہائش کے لیے زمین عطاکی۔ آنحضرتﷺ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے وعدہ بھی فرمایا تھا کہ شام کی فتح پر فلاں حصّہ زمین تمہارے لیے ہوگا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں آپؓ کو وہ حصّہ زمین ملا۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو یہ سعادت بھی عطا ہوئی کہ آنحضرت ﷺ نے آپؓ کے پیچھے نماز پڑھی۔ یہ واقعہ غزوۂ تبوک کے موقعے پر ایک دن نمازِ فجر پرپیش آیا۔نماز کے بعد جب رسول اللہﷺ اپنی رہ جانے والی رکعت مکمل کرنے کے لیے کھڑےہوئے تو مسلمانوں میں گھبراہٹ پیدا ہوئی اور وہ بکثرت تسبیح کرنے لگے۔ نماز مکمل کرنے کے بعد حضورؐ نے وقت پر نماز ادا کرنے پر رشک کا اظہار کیا اور فرما یا کہ ہر نبی اپنی زندگی میں امّت کے کسی نہ کسی نیک آدمی کے پیچھے نماز ضرور پڑھتا ہے۔ حضورِ انور نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آنحضرتﷺ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو یہ فرما کر بہت بڑا اعزاز بخشا کہ میرا تمہارے پیچھے نماز پڑھنااس بات کی تصدیق ہے کہ تم نیک آدمی ہو۔
ایک روایت کے مطابق آپؓ ظہر سے قبل لمبے نوافل پڑھا کرتے تھے۔راوی بیان کرتا ہے کہ مَیں نے دیکھا کہ عبدالرحمٰنؓ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں اور یہ دعا کر رہے ہیں کہ اےاللہ! مجھے نفس کے بخل سے بچا۔ حضرت عمرؓ نے اپنی خلافت کے پہلے سال میں آپؓ کو امیرِ حج مقرر فرمایا۔
ایک مرتبہ آپؓ رسول اللہﷺ کی خدمت میں جوؤں کی کثرت کی شکایت لے کر حاضر ہوئے اور ریشمی لباس پہننے کی اجازت چاہی۔ آنحضورﷺ نے اجازت مرحمت فرما دی۔ خلافتِ حضرت عمرؓ میں عبدالرحمٰن بن عوفؓ اپنے بیٹے کے ہمراہ ریشمی لباس میں ملبوس عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت عمرؓ نے آپؓ کے بیٹے کی قمیص گریبان میں ہاتھ ڈال کر پھاڑ ڈالی اور فرمایا کہ آپؓ نے آنحضرتﷺ کے حضور جوؤں کی شکایت پر اجازت لی تھی، یہ اجازت آپ کے سوا کسی کے لیے نہیں۔
سعد بن ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ایک چادر پہنا کرتے تھے جس کی قیمت چار،پانچ سو درہم تھی۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل دیکھیں کہ جب ہجرت ہوئی تو کچھ بھی پاس نہیں تھا اس کے بعد قیمتی لباس بھی پہنا، اور اللہ تعالیٰ نےاُن کے لیےبےشمار جائیداد بھی پیدا کردی۔
حضرت ابوبکرؓ نے اپنے بعد حضرت عمرؓ کو خلیفہ مقرر فرمانے کا ارادہ کیا تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے عمرؓ کے متعلق اُن کی رائے پوچھی۔آپؓ نے جمیع مسلمانوں پر عمرؓ کی افضلیت کا اقرار کرتے ہوئے فرمایا کہ بس عمرؓ کے مزاج میں ذرا شدت زیادہ ہے۔
ایک موقعے پر حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے سختی سے معاملہ کیااور کہا کہ تم ابتدائی ایمان لانے کو بڑا اعزاز سمجھتے ہو۔ جب یہ بات رسول اللہﷺ کو معلوم ہوئی تو آپؐ نے فرمایا میرے اصحاب کو چھوڑ دو قَسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ جتنا سونا بھی خرچ کرے تو ان کے معمولی خرچ کو نہیں پہنچ سکتا۔ آنحضورﷺ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی نسبت فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے سردار اور زمین و آسمان میں امین ہیں۔
ایک روز افطار کے وقت حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی خدمت میں انواع واقسام کے کھانے پیش ہوئے۔ آپؓ نے ایک لقمہ منہ میں ڈالا تو ان پر رقّت طاری ہوگئی اوریہ کہہ کر کھانے سے ہاتھ اٹھالیے کہ مصعب بن عمیرؓ شہید ہوئے تو انہیں ایک چادر میں کفنایا گیاجبکہ وہ ہم سے بہتر تھے۔اس کفن کی حالت یہ تھی کہ اگر پاؤں ڈھانکتے تو سر ننگا ہوجاتا اور اگر سر ڈھانکتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے تھے ۔ پھر حضرت حمزہ کو یاد کرکے بھی یہی فرمایااور کہا کہ ہمیں مالی فراخی اور دنیاوی آسائش عطا کی گئی اور ہمیں اس سے وافر حصّہ ملا ۔مجھے ڈر ہے کہ ہماری نیکیوں کا اجر ہمیں جلد مل گیا اس کے بعد وہ رونے لگے اور کھانا چھوڑ دیا۔ اسی طرح کے ایک اور موقعے پر آپؓ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ آپؐ اور آپ کے اہلِ خانہ جَو کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے۔
ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے ام المومنین حضرت ام سلمیٰؓ سے اپنی نسبت کثرتِ مال کے سبب ہلاکت کے خوف کا اظہار کیا تو امِّ سلمیٰؓ نے انہیں صدقہ وخیرات کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعض ساتھی ایسے بھی ہوں گے کہ میری جدائی کےبعد دوبارہ مجھے کبھی نہ دیکھ سکیں گے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اُن صحابہ میں شامل تھے جنہیں آنحضرتﷺ نے جنت کی بشارت دے رکھی تھی پھر بھی ان لوگوں میں خداتعالیٰ کا خوف اور خشیت اتنی تھی کہ ہر وقت فکر میں رہتے تھے۔
شام کے ملک میں طاعون کی وبا پھوٹنے کی خبر ملنے پر حضرت عمرؓ نے اسلامی لشکر کی پیش قدمی کے متعلق مشورے کے لیے اکابر صحابہ کو طلب کیا ۔ اس موقعے پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے عرض کیا کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم کسی جگہ کے بارے میں سنو کہ وہاں وبا پھوٹ پڑی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر تم اس مقام پر ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ حضرت عمر نے حضرت ابو عبیدہؓ سے فرمایا کہ اے ابوعبیدہ کاش تمہارے علاوہ کسی اور نے یہ بات کہی ہوتی۔ ہاں ہم اللہ کی ایک تقدیر سے فرار ہوتے ہوئے اللہ ہی کی ایک دوسری تقدیر کی طرف جاتے ہیں۔
حضورِانور نے کورونا وائرس کی حالیہ وبا کے تناظر میں فرمایا کہ آج کل بھی جن ممالک نےوقت پہ لاک ڈاؤن کیا وہاں کافی حد تک اس کو محدود کرلیا اور جن ممالک نے لاپروائی برتی وہاں یہ وبا پھیلتی جارہی ہے۔
خطبے کے اختتام پر حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی سیرت کے بارے میں کچھ حصہ باقی ہے جو ان شاء اللہ آئندہ خطبے میں بیان کروں گا۔
٭…٭…٭
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته یہ خلاصہ خطبہ جمعہ والا بہت ہی اچھا کام ہے اللہ اپ کو اجر عظیم عطا کرے امین