خطاب حضور انور

’’جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا‘‘۔ خطاب حضور انور جلسہ سالانہ برطانیہ (04؍اگست 2019ء)

’’وہ دین دین نہیں ہے جس میں عام ہمدردی کی تعلیم نہ ہواور نہ وہ انسان انسان ہے جس میں ہمدردی کا مادہ نہ ہو‘‘

’’ہماری تعلیم کیا ہے صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ہدایت کا بتلا دینا ہے‘‘

اگر مذہب پر یقین ہو، اگر زندہ خدا کی طاقتوں پر یقین ہو، اگر اب بھی یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ بولتا ہے اور اپنے نشانات ظاہر کرتا ہے تو پھر اپنی مذہبی کتابوں کو بدلنے کی باتیں نہ ہوں

قرآن کریم نے زمانے کے مطابق ہر چھوٹی سے چھوٹی بات اور ضرورت کو بیان فرمایا ہے۔ قرآن کریم نے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے حقوق قائم کیے اور جو حقوق قائم کیے ہیں وہی دنیا کی ہر سطح پر امن کی اور حقوق قائم کرنے کی ضمانت ہیں

’’جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا‘‘

جب تک انسان کی اخلاقی حالت بالکل درست نہ ہو وہ کامل الایمان جو منعم علیہ گروہ میں داخل کرتا ہے اور جس کے ذریعہ سچی معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے اس میں داخل نہیں ہو سکتا

ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پر بدظنی نہ کی جاوے اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور انس پیدا ہوتا ہے اور آپس میں قوت پیدا ہوتی ہے

مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے کہ اگر انسان اسے چھوڑدے اور اس سے دور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے

یاد رکھو! ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے۔ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو خواہ وہ کوئی ہو۔ ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اَور

اولاد کا قتل کیا ہے؟ ان کی صحیح پرورش نہ کرنا۔ ان کی دیکھ بھال نہ کرنا۔ ان کی تعلیم کا خیال نہ رکھنا۔ ان کی ضروریات کو پوری نہ کرنا

کون کہہ سکتا ہے کہ اسلام کی تعلیم نئے زمانے سے میل نہیں کھاتی!؟

حقوق العباد، بنیادی اخلاق، والدین، ازواج، بچوں ، بیٹیوں ، بہن بھائیوں، رشتہ داروں، عمر رسیدہ لوگوں اور دشمنوں کے حقوق نیز

یتیموں، بیواؤں، غلاموں اور غیر مسلموں سے حسنِ سلوک کے بارے میں اسلام کی بے مثال تعلیمات کا دل نشیں بیان

جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر 04؍اگست 2019ء بروزاتوارسیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حدیقۃ المہدی، آلٹن(ہمپشئر)یو کے میں اختتامی خطاب

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

آج کل مذہب کے خلاف جو طاقتیں ہیں اس بات پر اپنا پورا زور لگانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ کس طرح دنیا میں مذاہب کو ماننے والوں کو اور خاص طور پر مسلمانوں کو مذہب سے متنفر کر کے ہٹایا جائے۔ ایک بڑا حملہ ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مذہب کی تعلیم اس نئے زمانے سے میل نہیں کھاتی۔ زمانے کے حالات بدل گئے ہیں۔ نئے زمانے کے ساتھ ہمیں اپنے آپ کو ڈھالنا چاہیے۔ پریس، میڈیا بھی اس بات پر بڑا زور لگاتا ہے۔ مختلف قسم کے سوالات مسلمانوں سے پوچھے جاتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ اول تو مذہب کی ضرورت نہیں، انسان بہت ترقی کر گیا ہے اور مذاہب جو ہیں وہ تو دقیانوسی باتیں کرتے ہیں۔ نئے زمانے کے ساتھ ہمیں اپنے آپ کو ڈھالنا چاہیے۔ نئی روشنی میں جو اَب ہمیں اپنے حقوق اور نئی چیزوں اور نئی باتوں کا پتا لگ گیا ہے ۔اور اگر مذہب پر چلنا ہے تو پھر ان کے یہ اعتراض ہوتے ہیں کہ اس کی بعض تعلیمات میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے تا کہ زمانے کی نئی روشنی کے ساتھ ہم چل سکیں۔ اور زمانے کی نئی روشنی کیا ہے؟ حقوق کے حصول اور آزادی کے نام پر بچوںکو ماں باپ کے اثر سے نکالنا۔ بچوں کو لغو باتوں کی جن کا ابھی ان میں شعور پیدا نہیں ہوا اس کی تعلیم دینا۔ غیر فطری جنسی تعلقات کو قانونی تحفظ دینا اور اس قسم کی اَور لغو اور بےہودہ باتیں ہیں جو یہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مذہب ہمیں ان سے روکتا ہے اس لیے ان پر لاگو کرنا چاہیے۔

اور بعض مذہبی لوگ ایسے ہیں یا اپنے آپ کو مذہبی کہنے والے ہیں یا بعض مسلمان کہنے والے بھی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ واقعی ہمیں بعض تبدیلیاں کرنی چاہئیں۔ عیسائی دنیا میں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے مذہبی ادراک رکھنے والے اور مذہب کی تعلیم دینے والوں میں اس بات پر اختلاف ہے اور یہ باتیں اخباروں وغیرہ میں بھی آ جاتی ہیں، میڈیا پے بھی آ جاتی ہیں کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں، عیسائی سکالر بھی کہ بائبل کی بعض بنیادی باتوں میں ہمیں تبدیلی کر لینی چاہیے۔ اصل میں تو یہ مذہب سے لاعلمی اور اپنے مذہب پر یقین نہ ہونے کی نشانی ہے۔ اگر مذہب پر یقین ہو، اگر زندہ خدا کی طاقتوں پر یقین ہو، اگر اب بھی یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ بولتا ہے اور اپنے نشانات ظاہر کرتا ہے تو پھر اپنی مذہبی کتابوں کو بدلنے کی باتیں نہ ہوںلیکن ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے محفوظ رکھنے کا اعلان اور وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ باقی مذہبی صحیفے تو پہلے ہی مختلف وقتوں میں ان مذاہب کے علماء کی اپنی مرضی کے مطابق بدلتے رہے ہیں اور اپنی اصلی صورت میں قائم ہی نہیں ہیں۔ اب بھی چاہیں تو ان کو اختیار ہے کہ زمانے کے حالات کے مطابق بدل لیں لیکن قرآن کریم چودہ سو سال سے اپنی اصلی حالت میں ہے اور تاقیامت ان شاء اللہ تعالیٰ رہے گا اور اس میں بیان کردہ تعلیم تاقیامت قائم رہنے والی تعلیم ہے، ہر زمانے کے انسان کے لیے تعلیم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں بھی اپنے وعدے کے مطابق اپنے فرستادے کو بھیج کر اسے محفوظ رکھنے کے سامان کیے ہیں جنہوں نے ہمیں اس میں چھپے خزانوں کی نشان دہی کی اور تفسیر کر کے اور وضاحت کر کے بتایا کہ معاشرتی، تمدنی تعلقات سے لے کر حکومتوں اور بین الاقوامی تعلقات تک اور ان کے حقوق کی تعلیم اس میں موجود ہے۔ اسی طرح ان باتوں سے لے کر جو ہماری روحانی ترقی کے لیے ضروری ہیں علمی اور سائنسی باتوں تک کا اس میں بیان ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ہیں اور اس کے بندوں کے حقوق بھی بیان ہوئے ہیں اس لیے ہمیں کوئی ضرورت نہیں ان لوگوں کی باتوں سے متاثر ہونے کی یا کسی بھی قسم کے احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کی جو یہ کہتے ہیں کہ نئی روشنی کے مطابق قرآن کریم میں بھی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہر جگہ پریس یہ سوال ضرور کرتا ہے اور بعض مسلمان جو اپنے آپ کو نئی روشنی اور دنیاوی علم کے حاصل کرنے والا سمجھتے ہیں اس کا ماہر سمجھتے ہیں ان لوگوں کی باتوں سے متاثر ہو جاتے ہیں اور اس بات کا اظہار کر دیتے ہیں کہ بعض بنیادی اخلاقی باتیں جو ہیں یا حقوق کی باتیں جو ہیں نئی روشنی کے مطابق ان کی تطبیق ہونی چاہیے۔ ان لوگوں نے کبھی قرآن کریم پر غور ہی نہیں کیا اور اگر کیا تو ان لوگوں کی تفسیروں کے مطابق کیا جو قرآن میں پنہاں اور چھپے ہوئے معنوں تک پہنچ ہی نہیں سکتے تھے اور مذہب مخالف طاقتوں کی اس چال کو نہیں سمجھ سکے کہ ان کی یہ کوششیں دہریت پھیلانے کے لیے ہیں۔ پس ہمیں اس دہریت اور اسلام مخالف طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہے۔

قرآن کریم نے زمانے کے مطابق ہر چھوٹی سے چھوٹی بات اور ضرورت کو بیان فرمایا ہے۔ قرآن کریم نے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے حقوق قائم کیے ہیںاور جو حقوق قائم کیے ہیں وہی دنیا کی ہر سطح پر امن کی اور حقوق قائم کرنے کی ضمانت ہیں۔ ہاں لغویات کو لغویات کہا ہے اور پھر کھل کر اس کے نقائص بھی بیان کیے۔ قران کریم نے بھی ہمیں وضاحت سے بتا دیا۔

مذہب پر اعتراض کرنے والے یہ بھی اعتراض کر دیتے ہیں کہ مذہب کہتا ہے کہ خدا کی عبادت کرو اور اس سے سستی اور کاہلی پیدا ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف ہر بات منسوب کر دیتے ہیں اصل اشارہ تو ان کا مسلمانوں کی طرف ہے خاص طور پر مسلمانوں پر اور اسلام پر ایسے اعتراض کیے جاتے ہیں۔

پھر یہ اعتراض خاص طورپر کیا جاتا ہے کہ خدا کہتا ہے کہ میری عبادت کرو۔ اس کو بندوں کی عبادت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بےشک ہمیں یہ کہا ہے کہ

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۔(الذاريات:57)

کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا ہے کہ

قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْْ۔(الفرقان:78)

ان سے کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پروا ہی کیا کرتا ہے اگر تمہاری طرف سے دعا اور استغفار نہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ کو ہماری عبادتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں کو اپنے مزید قریب کرنے اور اپنے قرب سے نوازنے کے لیے عبادالرحمٰن اور شیطان کے بندوں میں فرق کے لیے، دنیا کو بتانے کے لیے کہتا ہے کہ جو میرے بندے ہیں وہ اپنے مقصد پیدائش کو پہچانتے ہیں اور پہچانیں گے اور میرے قریب آتے ہیں اور آنے کی کوشش کریں گے اور میں ان کی شکر گزاری کی وجہ سے ان کے میری طرف آنے کی وجہ سے انہیں پھر اَور مزید انعامات سے نوازتا چلا جاؤں گا۔ پس ہمارے فائدے کے لیے یہ باتیں ہیں نہ کہ خدا تعالیٰ کے فائدے کے لیے۔

یہاں دنیا والے، اسلام پر اعتراض کرنے والے یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام حقوق کی حفاظت نہیں کرتا۔ اس وقت میں اس حوالے سے ان حقوق میں سے بعض حقوق کا ذکر کروں گا جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں۔ یہ حقوق ہر زمانے کے لیے قائم ہیں اور یہی حقوق جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا امن کی حقیقی ضمانت ہیں۔ ان لوگوں نے تو حقوق کے نام پر دنیا میں ایک فساد پیدا کیا ہوا ہے اور الزام یہ دیتے ہیں کہ اسلام حقوق کی حفاظت نہیں کرتا اور اسلام کے نام پر دنیا کا امن برباد ہو رہا ہے۔ قرآنِ کریم ایک جامع اور مکمل کتاب ہے جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کا ذکر ہے۔ اس وقت مَیں حقوق العباد کے حوالے سے قرآنی آیات پیش کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْـًٔا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا۔(النساء:37)

اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر اور شیخی بگھارنے والا ہے۔

اب دیکھیں یہ خوبصورت تعلیم۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس تعلیم میں اپنی عبادت کے ساتھ قربت کے تعلقات کے مطابق حق ادا کرنے کی ہدایت فرمائی ہے کہ کس طرح تم نے بندوں کے حق ادا کرنے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاشرے کے امن اور حق قائم کرنے کی نصیحت فرمائی ان میں ایک یہ ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔

(سنن الترمذی ابواب البرّ والصّلۃ بَابُ مَا جَاءَ فِي الشُّكْرِ لِمَنْ أَحْسَنَ إِلَيْكَ حدیث 1954)

آپس میں تمہارے جو تعلقات ہیں، لین دین ہے اس میں اگر تمہاری شکر گزاری کے اظہار ہوں گے تو پھر تمہارے حق بھی صحیح قائم ہوں گے اور معاشرے کا امن بھی صحیح طرح قائم ہو گا۔ اس زمانے میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کس طرح ان حقوق کی ادائیگی کی قرآن و حدیث کی روشنی میں نصیحت فرمائی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ شریعت کے دو ہی بڑے حصے اور پہلو ہیں جن کی حفاظت انسان کو ضروری ہے۔ ایک حق اللہ دوسرے حق العباد۔ حق اللہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اس کی اطاعت، عبادت، توحید ذات اور صفات میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ کرنا۔ اور حق العباد یہ ہے کہ اپنے بھائیوں سے تکبر ، خیانت اور ظلم کسی نوع کا نہ کیا جاوے گو یا اخلاقی حصے میں کسی قسم کا فتور نہ ہو۔ فرماتے ہیں کہ سننے میں تو یہ دو ہی فقرے ہیں لیکن عمل کرنے میں بہت ہی مشکل ہیں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل انسان پر ہو تو وہ ان دونوں پہلوؤں پر قائم ہو سکتا ہے۔ کسی میں قوتِ غضبی بڑھی ہوئی ہوتی ہے،غصہ جلدی آ جاتا ہے، جب وہ جوش مارتی ہے تو نہ اس کا دل پاک رہ سکتا ہے نہ زبان۔ دل سے اپنے بھائی کے خلاف ناپاک منصوبے کرتا ہے اور زبان سے گالی دیتا ہے اور پھر کینہ پیدا کرتا ہے۔ کسی میں قوت شہوت غالب ہوتی ہے اور وہ اس میں گرفتار ہو کر حدود اللہ کو توڑتا ہے۔ غرض جب تک انسان کی اخلاقی حالت بالکل درست نہ ہو وہ کامل الایمان جو منعم علیہ گروہ میں داخل کرتا ہے اور جس کے ذریعہ سچی معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے اس میں داخل نہیں ہو سکتا۔ فرماتے ہیں پس دن رات یہی کوشش ہونی چاہیے کہ بعد اس کے جو انسان سچا موحد ہو اپنے اخلاق کو درست کرے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت اخلاقی حالت بہت ہی گری ہوئی ہے۔ اکثر لوگوں میں بدظنی کا مرض بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ وہ اپنے بھائی سے نیک ظنی نہیں رکھتے اور ادنیٰ ادنیٰ سی بات پر اپنے دوسرے بھائی کی نسبت بُرے بُرے خیالات کرنے لگتے ہیں اور ایسے عیوب اس کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہی عیب اس کی طرف منسوب کیے جائیں تو اس کو برا لگے۔ فرمایا کہ اوّل تو ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پر بدظنی نہ کی جاوے اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور اُنس پیدا ہوتا ہے اور آپس میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کے باعث انسان بعض دوسرے عیوب مثلاً کینہ بغض حسد وغیرہ سے بچا رہتا ہے۔ فرمایا کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھائیوں کے لیے کچھ بھی ہمدردی نہیں۔ اگر ایک بھائی بھوکا مرتا ہو تو دوسرا توجہ نہیں کرتا اور اس کی خبر گیری کے لیے تیار نہیں ہوتا یا اگر وہ کسی اَور قسم کی مشکلات میں ہے تو اتنا نہیں کرتے کہ اس کے لیے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں۔ حدیث شریف میں ہمسایہ کی خبرگیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیاہے بلکہ یہاں تک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکاؤ تو شوربہ زیادہ کر لو تا کہ اسے بھی دے سکو۔ اب کیا ہوتا ہے اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں لیکن اس کی کچھ پروا نہیں۔

اور یہاں ان ترقی یافتہ ملکوں میں گذشتہ ایک سروے تھا اس سے پتا لگا کہ سب سے زیادہ جو چیریٹی دینے والے لوگ ہیں وہ مذہبی لوگ ہیں اور ان میں بھی مسلمانوں میں سب سے زیادہ اس کا رواج ہے۔ دنیا داروں میں جو حقوق قائم کرنے والے ہیں وہ چیریٹی کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ ہاں اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ ہماری اتنی چیریٹی فلاں فلاں آرگنائزیشن نے اکٹھی کر لی لیکن خود اس طرف توجہ نہیں۔

آپؑ فرماتے ہیں کہ ہر شخص کو ہر روز اپنا مطالعہ کرنا چاہیے کہ وہ کہاں تک ان امور کی پروا کرتا ہے اور کہاں تک وہ اپنے بھائیوں سے ہمدردی اور سلوک کرتا ہے۔ فرمایا کہ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ قیامت کے روز خدا تعالیٰ کہے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ میں پیاسا تھا اور تونے مجھے پانی نہ دیا۔ میں بیمار تھا تم نے میری عیادت نہ کی جن لوگوں سے یہ سوال ہوگا وہ کہیں گے کہ اے ہمارے ربّ! تو کب بھوکا تھا جو ہم نے کھانا نہیں کھلایا۔ تو کب پیاسا تھا جو ہم نے پانی نہیں پلایا اور تو کب بیمار تھا جو تیری عیادت نہیں کی۔ پھر خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ جو ہے وہ ان باتوں کا محتاج تھا مگر تم نے اس کی کوئی ہمدردی نہ کی۔ اس کی ہمدردی میری ہی ہمدردی تھی۔ ایسا ہی ایک اَور جماعت کو کہے گا کہ شاباش تم نے میری ہمدردی کی۔ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا وغیرہ۔ وہ جماعت عرض کرے گی کہ اے ہمارے خدا !ہم نے کب تیرے ساتھ ایسا کیا؟ تب اللہ تعالیٰ جواب دےگاکہ میرے فلاں بندہ کے ساتھ جو تم نے ہمدردی کی وہ میری ہی ہمدردی تھی۔ دراصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خد تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ اس سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے۔

فرماتے ہیں کہ پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے۔ غرض اخلاق ہی ساری ترقیات کا زینہ ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ میری دانست میں یہی پہلو حقوق العباد کا ہے جو حقوق اللہ کے پہلو کو تقویت دیتا ہے۔ جو شخص نوع انسان کے ساتھ اخلاق سے پیش آتا ہے خدا تعالیٰ اس کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا۔ جب انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک کام کرتا ہے اور اپنے ضعیف بھائی کی ہمدردی کرتا ہے تو اس اخلاص سے اس کا ایمان قوی ہوتاہے۔

فرماتے ہیں پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے کہ اگر انسان اسے چھوڑدے اور اس سے دور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے۔ انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے جب تک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروت سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے۔ فرمایا یاد رکھو! ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے۔ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو خواہ وہ کوئی ہو۔ ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اَور۔ میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔ فرمایا میں تمہیں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہرگز ہرگز اپنی ہمدردی کے دائرہ کو محدود نہ کرو۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد7صفحہ 278تا 283)

یہ ایک عمومی نصیحت آپؑ نے ہمیں فرما دی اور یہی وہ تعلیم ہے جو قرآن کریم کی تعلیم کا خلاصہ ہے جس میں تمام حقوق قائم کیے گئے ہیں۔

پھر یہ کہتے ہیں کہ مذہب پر چلنے والے لوگوں کے حقوق ادا نہیں کرنے والے ہوتے۔ صرف یہی سمجھتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کر لی اور کافی ہو گیا۔ اس عمومی نصیحت کے بعد اب میں بعض انفرادی حقوق کے بارے میں بیان کرتا ہوں جن کی ادائیگی کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا۔ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا۔ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا۔ (بنی اسرائیل 24-25)

اور تیرے رب نے فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے حسن کا سلوک کرو اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی تو انہیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر۔ اور ان دونوں کے لیے رحم سے عجز کا پر جھکا دے اور کہہ کہ اے میرے رب ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دنوں نے بچپن میں میری تربیت کی۔ پھر والدین کے حقوق اور ان سے سلوک کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ۔ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ۔ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ۔ وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓى اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا وَّاتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ ۔ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔(لقمان: 15 – 16)

اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے حق میں تاکیدی نصیحت کی اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری میں اٹھائے رکھا اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں مکمل ہوا اور اسے ہم نے یہ تاکیدی نصیحت کی کہ میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ اگر وہ دونوں بھی تجھ سے جھگڑا کریں کہ تو میرا شریک ٹھہرا جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان دونوں کی اطاعت نہ کر اور ان دونوں کے ساتھ دنیا میں دستور کے مطابق رفاقت جاری رکھ اور اس کے راستے کی اتباع کر جو میری طرف جھکا۔ پھر میری طرف ہی تمہارا لوٹ کر آنا ہے پھر میں تمہیں اس سے آگاہ کروں گا جو تم کرتے رہے ہو۔

اللہ تعالیٰ نے یہ تو ضرور فرما دیا کہ تم نے شرک نہیں کرنا اور اگر والدین کا ایسا کوئی شرک کا حکم ہے وہ نہیں ماننا لیکن اس کے باوجود تم نے جو ان کے حقوق ہیں وہ ادا کرنے ہیں وہ حقوق تلف نہیں کرنے کبھی ان کو کبھی بھولنا نہیں۔ پھر ایک حدیث میں آیا ہے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کرنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ کس کا حق ہے کہ میں اس کے ساتھ اچھا سلوک کروں؟ آپؐ نے فرمایا تیری ماں کا۔ عرض کیا پھر کس کا؟ فرمایا تیری ماں کا۔ عرض کیا پھر کس کا؟ فرمایا تیری ماں کا۔ عرض کیا پھر کس کا؟ فرمایا تیرے باپ کا۔

(صحیح البخاری کتاب الادب، باب من احق الناس بحسن الصحبۃ حدیث 5971)

تو اس طرح اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ فرمایا کیونکہ تیری ماں نے کمزوری میں تجھے پالا، پیدا کیا، پیدائش کے عرصے سے گزری اس لیے اس کا حق بہرحال زیادہ ہے۔

ابوعمرو شیبانی بیان کرتے ہیں کہ ایک گھر والے نے ہمیں بتایا اور انہوں نے حضرت عبداللہؓ کے گھر کی طرف اشارہ کیا کہ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پیارا ہے؟ فرمایا نماز وقت پر پڑھنا۔ انہوں نے کہا پھر کون سا؟ فرمایا پھر والدین سے اچھا سلوک کرنا۔ انہوں نے کہا پھر کون سا؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ حضرت عبداللہؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین باتیں مجھے بتائیں۔

(صحیح البخاری کتاب مواقیت الصلوٰۃ، باب فضل الصلوٰۃ لوقتھا حدیث 527)

پھر والدین کے حقوق کے بارے میں ایک اَور روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا۔ اس نے جہاد کے متعلق اجازت مانگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم ان کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو۔

(صحیح البخاری کتاب الجہاد و السیر، باب الجہاد باذن الابوین حدیث 3004)

اسی طرح ایک روایت میں آتا ہے کہ اسماء بنت ابوبکرؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں میری والدہ میرے پاس آئیں اور وہ ابھی مشرک ہی تھیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا۔ میں نے کہا میری والدہ شوق سے میرے پاس آئی ہیں کیا میں ان سے نیک سلوک کروں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں اپنی والدہ سے نیک سلوک کرو۔

(صحیح البخاری کتاب الھبۃ وفضلھا… باب الھدیۃ للمشرکین حدیث 2620)

آج حقوق قائم کروانے کا اعلان کرنے والے تو حقوق کے نام پر والدین اور بچوں میں دوریاں ڈال رہے ہیں۔ کوئی تربیتی بات بھی اگر والدین بچوں کو کر دیں تو بچوں کے حقوق کا جو ادارہ ہے فوراً آجاتا ہے۔ بچے نے سکول میں جا کےکوئی بات کر دی چاہے معمولی سی بات ہی ہو، والدین نے کی ہو تو فوراً والدین سے پوچھ گچھ شروع ہو جاتی ہے۔ اب خود یہ لوگ شور کرنے لگ گئے ہیں۔ ان میں ایسے طبقے اٹھنے لگ گئے ہیں، لوگوں کی آوازیں اٹھنے لگ گئی ہیں اور اب میڈیا میں بھی آنے لگ گئی ہیں کہ یہ کیا تماشا بنایا ہوا ہے تم لوگوں نے کہ ذرا ذرا سی بات پر ہمارے بچوں کو تم خراب کرنے لگے ہو بجائے ان کی اصلاح کرنے کے اور تربیت کرنے کے۔

والدین کے حقوق کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے ماں باپ سے بدسلوکی کرتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جیسا کہ فرمایا کہ جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور اُمور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں (بیان فرما رہے ہیں کہ جو معروف اُمور ہیں جو خلاف قرآن نہیں ہیں) ان میں اگر ان کی بات نہیں مانتے تو پھر تمہارا میرے سے کوئی تعلق نہیں۔ فرمایا کہ اُمور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہد خدمت سے لاپروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔

(ماخوذ از کشتی ٔنوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 19)

پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’پہلی حالت انسان کی نیک بختی کی ہے کہ والدہ کی عزت کرے۔ اویس قرنی کے لیے بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمن کی طرف کو منہ کر کے کہا کرتے تھے کہ مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے۔ آپؐ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی والدہ کی فرمانبرداری میں بہت مصروف رہتا ہے اور اسی وجہ سے میرے پاس بھی نہیں آ سکتا۔ بظاہریہ بات ایسی ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں مگر وہ ان کی زیارت نہیں کر سکتے صرف اپنی والدہ کی خدمت گزاری اور فرمانبرداری میں پوری طرح مصروفیت کی وجہ سے۔ ‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’مگر میں دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہی آدمیوں کو السلام علیکم کی خصوصیت سے وصیت فرمائی یا اویس کو یا مسیح کو۔یہ ایک عجیب بات ہے جو دوسرے لوگوں کو ایک خصوصیت کے ساتھ نہیں ملی چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت عمرؓ اُن سے ملنے کو گئے تو اویس نے فرمایا کہ والدہ کی خدمت میں مصروف رہتا ہوں اور میرے اونٹوں کو فرشتے چرایا کرتے ہیں۔ ایک تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے والدہ کی خدمت میں اس قدر سعی کی اور پھر یہ قبولیت اور عزت پائی اور ایک وہ ہیں جو پیسہ پیسہ کے لیے مقدمات کرتے ہیں اور والدہ کا نام ایسی بری طرح لیتے ہیں کہ رذیل قومیں چوہڑے چمار بھی کم لیتے ہوں گے۔ ہماری تعلیم کیا ہے؟‘‘ فرمایا کہ ’’ہماری تعلیم کیا ہے؟ صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ہدایت کا بتلا دینا ہے۔ اگر کوئی میرے ساتھ تعلق ظاہر کر کے اس کو ماننا نہیں چاہتا تو وہ ہماری جماعت میں کیوں داخل ہوتا ہے؟ ایسے نمونے سے دوسروں کو ٹھوکر لگتی ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں جو ماں باپ تک کی بھی عزت نہیں کرتے۔‘‘

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 295-296)

پس ہم تو یہ حق والدین کو دینا چاہتے ہیں، ہم نے تو اس نصیحت پر عمل کرنا ہے اور کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بتائی، اس کے رسول نے بتائی اور پھر اس زمانے میں مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتائی ہے۔ اور حکومت بچوں کو آزادی کے نام پر ان کو والدین کے خلاف کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اگر والدین کے حقوق قائم کیے ہیں تو یہ نہیں کہ صرف والدین کے حقوق قائم کر دیے اور بچوں کو محروم کر دیا ۔بچوں کو بھی ان کے حقوق سے محروم نہیں کیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاهُمْ (الانعام: 152)

کہ رزق کے خوف کی تنگی سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی۔

اور اولاد کا قتل کیا ہے؟ ان کی صحیح پرورش نہ کرنا۔ ان کی دیکھ بھال نہ کرنا۔ ان کی تعلیم کا خیال نہ رکھنا۔ ان کی ضروریات کو پوری نہ کرنا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے بھی حقوق قائم فرما دیے۔

پھر ایک جگہ فرمایا کہ

وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا۔(بنی اسرائیل: 32)

اور اپنی اولاد کو کنگال ہونے کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم ہی ہیں جو انہیں رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی۔ ان کو قتل کرنا یقیناً بہت بڑی خطا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ كُلُّ امْرِئٍۢ بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ۔ (الطور: 22)

اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان کی بدولت ان کی پیروی کی ان کے ساتھ ہم ان کی اولاد کو بھی ملا دیں گے جبکہ ان کے عمل میں سے انہیں کچھ بھی کم نہیں دیں گے۔ ہر شخص اپنے کمائے ہوئے کا رَہین ہے۔

اولاد کا ایمان، ان کی صحیح تربیت، ان کی نیک تربیت، ان کا خیال رکھنا اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والا بنانا یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بناتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اس کی جزا بھی دیتا ہے۔

پھر وراثت کے معاملات ہیں تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق قائم فرمائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی اولاد کی عزت کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب 3 حدیث 3671)

پھر ایک موقعے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ والد کا اولاد کے لیے حسن تربیت سے بہتر کوئی تحفہ نہیں ہو سکتا۔

(مسند احمد بن حنبل،مسند جد ایوب بن موسیٰ حدیث 16830 جلد 5 صفحہ716مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998)

احسن رنگ کی تربیت جو ہے وہ سب سے بہترین تحفہ ہے۔ یہ حق ہے اولاد کا اس کو تم نے قائم کرنا ہے۔ پس یہ وہ تعلیم ہے جس پہ ہمیں عمل کرنے کا حکم ہے اور یہ وہ تعلیم ہے جو معاشرے میں پُرامن فضا پیدا کرنے والی ہے، معاشرے کو پُرامن بنانے والی ہیں۔ اگلی نسلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے والی ہے، اگلی نسلوں میں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کے لیے ایک جوش اور اور ایک جذبہ پیدا کرنے والی ہے۔ پس اس تربیت کی طرف ہمیں توجہ کی ضرورت ہے نہ کہ اس طرف کہ ہم دنیا داروں سے متاثر ہو جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ نیک تربیت اولاد کا حق ہے فرمایا کہ

’’اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کے فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکر کریں۔ نہ کبھی ان کے لیے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مد نظر رکھتے ہیں۔‘‘ فرمایاکہ ’’میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں مَیں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لیے دعا نہیں کرتا۔ بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں۔ ابتدا میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہ نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہوتے جاتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ 372-373 )

پس یہ بھی اولاد کا حق ہے کہ ان کو برائیوں سے بچانے کی کوشش کی جائے، ان کی تربیت کی جائے، اور ان کو معاشرے کا فعال حصہ بنایا جائے نہ یہ کہ ان کو کچھ کہا ہی نہ جائے اور ذرا سا کچھ کہہ دیا کسی نے تو فوراً ان کے حقوق کے ادارے سامنے آ گئے۔ آج کل ماں باپ کی علیحدگی کی صورت میں جو ماں اور باپ کے بچوں کے حوالے سے حقوق قائم ہوتے ہیں یا حقوق قائم کیے گئے ہیں، ان حکومتوں نے کیے ہیں یہ حقوق اور اس سے بہتر حقوق آج سے پندرہ سو سال پہلے اسلام نے قائم کر دیے تھے۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَا لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ۔ (البقرة: 234)

اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں اس مرد کی خاطر جو رضاعت کی مدت کو مکمل کرنا چاہتا ہے اور جس مرد کا بچہ ہے اس کے ذمہ ایسی عورتوں کا نان نفقہ اور اوڑھنا بچھونا معروف کے مطابق ہے ۔کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ ماں کو اس کے بچے کے تعلق میں تکلیف نہ دی جائے اور نہ ہی باپ کو اس کے بچے کے تعلق میں اور وارث پر بھی ایسے ہی حکم کا اطلاق ہو گا۔ پس اگر وہ دونوں باہم رضا مندی اور مشورے سے دودھ چھڑانے کا فیصلہ کر لیں تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں اور اگر تم اپنی اولاد کو کسی اَور سے دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ جو کچھ معروف کے مطابق تم نے ان کو دینا تھا ان کے سپرد کر چکے ہو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور جان لو کہ اللہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری نظر رکھنے والا ہے۔

یہاں عورت کے جذبات کا خیال بھی رکھا ہے، اس کی ضروریات کا خیال بھی رکھا، بچے کی ضرورت کا بھی خیال رکھا اور اس بات سے بھی روک دیا کہ بچے کے ماں یا باپ بچے کو ایک دوسرے کے لیے تکلیف دینے کا ذریعہ نہ بنائیں۔ بچے کی تربیت پر بھی اس سے اثر ہو سکتا ہے، یہ باتیں بچے کی تربیت پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ کس خوبصورتی سے سب باتوں کا خیال رکھا ہے کہ علیحدہ ہو گئے ہو تو پھر، علیحدگی تو ہو گئی اور اگر اس دوران میں بچہ پیدا ہوتا ہے اور ماں بچے کو دودھ پلا رہی ہے تو اس کو نوکروں کی طرح نہیں رکھنا، وہ تمہاری ملازمہ نہیں ہے بلکہ اس کا حق ادا کرو جو اس ماں کا حق ہے۔ اس بچے کا حق اس کو دو کیونکہ وہ تمہارے بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ پس یہ وہ حقوق ہیں جو قائم کر کے پھر معاشرے میں بعض ایسے حالات میں جہاں علیحدگیاں ہو بھی جائیں فساد کا باعث نہیں بنتے۔ پھر بچوں اور خاص طور پر یتیم بچوں کے حق قائم کیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيْهَا وَاكْسُوْهُمْ وَقُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۔ وَابْتَلُوا الْيَتَامٰى حَتّٰى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ اٰنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلَا تَأْكُلُوْهَا إِسْرَافًا وَّبِدَارًا أَنْ يَّكْبَرُوْا وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيْرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوْفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوْا عَلَيْهِمْ وَكَفٰى بِاللّٰهِ حَسِيْبًا۔ (النساء :6-7)

اور بے عقلوں کے سپرد اپنے وہ اموال نہ کیا کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اقتصادی قیام کا ذریعہ بنایا ہے اور انہیں ان اموال میں سے کھلاؤ اور انہیں پہناؤ اور ان سے اچھی بات کہا کرو اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں۔ پس اگر تم ان میں عقل کے آثار محسوس کرو تو ان کے اموال ان کو واپس کر دو اور اس ڈر سے اسراف اور تیزی کے ساتھ ان کو نہ کھاؤ کہ کہیں وہ بڑے نہ ہو جائیں اور جو امیر ہو تو چاہیے کہ اس کا مال کھانے سے کلی اعتراض کرے۔ ہاں جو غریب ہو وہ مناسب طریق پر کھائے۔ پھر جب تم ان کی طرف ان کے اموال لوٹاؤ تو ان پر گواہ ٹھہرا لیا کرو اور اللہ تعالیٰ حساب لینے کے لیے کافی ہے۔

یتیم بچوں کی پرورش کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ان کے مال اگر ہیں اور تم صاحبِ حیثیت ہو تو پھر یتیموں کی پرورش کا یہ حق ہے کہ ان کی پرورش کرو اور ان کے مال میں سے نہ کھاؤ اور اگر کوئی ایساشخص ہے جس کی حیثیت اچھی نہیں اس کے سپرد یتیم پرورش کرنے کے لیے دیے گئے ہیں تو پھر اس مال میں سے جو یتیم کا مال ہے وہ کھا سکتا ہے لیکن اس نیت سے نہ کھاؤ کہ میں سب کچھ ہضم کر جاؤں بلکہ احتیاط سے استعمال کرو تا کہ جب یتیم بچہ بڑا ہو تو بقایا بچا ہوا مال اس کے کام آ سکے اور پھر وہ مال اس کے سپرد کرو۔ یہ ہے وہ اسلام کی تعلیم اور یہ ہے وہ حق یتیموں کا جو اسلام قائم کرتا ہے۔

پھر بچوں پر شفقت کا سوال ہے اور صرف بچوں پر شفقت نہیں اگر دشمن کے بچے بھی ہیں تو ان پر بھی اسلام کی تعلیم کی روشنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح شفقت فرمائی ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ حنین کے موقعےپر ایک دستہ روانہ فرمایا انہوں نے مشرکین سے قتال کیا جس کا دائرہ وسیع ہوتے ہوتے ان کی اولاد کے قتل تک جا پہنچا۔ جب وہ لوگ واپس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کس چیز نے بچوں کے قتل پر مجبور کیا تھا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! وہ تو محض مشرکین کے بچے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم میں سے جو بہترین لوگ ہیں، آج جو مسلمان ہوئے ہو تم لوگ مشرکین کی اولاد نہیں تھے؟ فرمایا کہ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ جو جان بھی دنیا میں جنم لیتی ہے وہ فطرت پر پیدا ہوتی ہے یہاں تک کہ اس کی زبان اپنا مافی الضمیر ادا کرنا شروع کر دے۔

(مسند احمد بن حنبل مسند الاسود بن سریع جلد 5صفحہ 365 حدیث 15673 مطبوعہ بیروت 1998ء)

بچوں کا تو کوئی قصور نہیں ہے، بچوں پر کیوں ظلم ہوا ہے! اور اب جو حکومتیں اپنی طاقت کے بل بوتے پر ماؤں اور بچوں کو علیحدہ کر رہی ہیں اور اس طرح علیحدہ کر رہی ہیں کہ ان میں سے بعض کے حالات یہ ہیں کہ تمام زندگی ان کے ملنے کی صورت ہی کبھی نہیں پیدا ہو سکتی لیکن پھر بھی ان کے نزدیک اسلام کی تعلیم ظالمانہ ہے اور ان کے بنائے ہوئے قانون اور ان کے عمل منصفانہ ہیں۔

بچوں کے حق کے بارے میں ایک روایت ہے۔ عمرو بن شعیب اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے بچوں سے رحم کا سلوک نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کے حق کا پاس نہیں کرتا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد2 صفحہ644 مسند عبداللّٰہ بن عمر وبن العاص حدیث6733 مطبوعہ عالم الکتب بیروت1998ء)

پھر تمام بچوں کے ساتھ مساوی حقوق کا سوال ہے تو اس بارے میں ایک روایت ہے۔ نعمان بن بشیر نے روایت کی ہے کہ ان کے والد انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام دیا ہے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے اپنے سارے بیٹوں کو اسی طرح دیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اسے واپس لے لو۔(صحیح مسلم کتاب الھبات باب کراھۃ تفضیل بعض الاولاد فی الھبۃ حدیث1623)پس یہ ہے وہ انصاف جو بچوں کے لیے بھی اسلام نے قائم کیا ہے۔

پھر بچیوں کی محبت کی تلقین آپؐ نے فرمائی۔ حضرت عُقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیٹیوں کو ناپسند نہ کرو کیونکہ وہ تو غلو کی حد تک محبت کرنے والی ہوتی ہیں یعنی بیٹیاں بہت زیادہ محبت کرنے والی ہوتی ہیں۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 5صفحہ905مسندعقبۃ بن عامر الجھنی حدیث17508 مطبوعہ عالم الکتب بیروت1998ء)

پھر حق وراثت ہے۔ عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے باپ حضرت سعدؓ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سال حجة الوداع ہوا تھا میری بیمار پُرسی کے لیے اس سال آیا کرتے تھے کیونکہ میری بیماری بڑھ گئی تھی۔ میں نے کہا کہ میری بیماری آخری حد تک پہنچ گئی ہے اور میں مال دار ہوں اور سوائے میری ایک لڑکی کے اور کوئی میری وارث نہیں ہے۔ کیا میں دو تہائی مال صدقہ کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ میں نے کہا تو پھر آدھا مال۔ آ پؐ نے فرمایا نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا تہائی مال بلکہ تہائی بھی بہت زیادہ ہے 3/1 حصہ اور یہ کہ تم اپنے وارثوں کو مال دار چھوڑو بہتر ہے اس سے کہ تم ان کو محتاج چھوڑ جاؤ، لوگوں کے سامنے وہ ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اور جو تم ایسا خرچ کرو گے جس سے اللہ کی رضا مندی چاہتے ہو تو ضرور ہی اس پر تمہیں ثواب دیا جائے گا یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔

(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب رثاء النبی سعد ابن خولۃ حدیث1295)

یہاں پھر اس طرح باریکی سے حقوق بیان کر دیے۔

پھر اس زمانے کے امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بچوں سے سلوک کے بارے میں جو نصائح ہیں۔ ایک مرتبہ ایک دوست نے اپنے بچے کو مارا۔ آپ علیہ السلام کو پتا لگا تو آپ کو اس کا بڑا اثر ہوا اور انہیں بلا کر آپؑ نے بڑی دردانگیز تقریر فرمائی۔ فرمایا میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شرک میں داخل ہے گویا بدمزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے۔ ایک جوش والا آدمی جب کسی بات پر سزا دیتا ہے تو اشتعال میں بڑھتے بڑھتے ایک دشمن کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور جرم کی حد سے سزا میں کوسوں تجاوز کر جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص خوددار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا ہو اور پورا متحمل اور بردبار اور باسکون اور باوقار ہو تو اسے البتہ حق پہنچتا ہے کہ کسی وقت مناسب پر کسی حد تک بچے کو سزا دے یا چشم نمائی کرے۔ جوش میں نہیں آنا۔ اگر کوئی بچے نے غلطی کی ہے تو ایک وقت میں آ کے کسی وقت آرام سے اس کو سمجھائے یا تھوڑی سی سزا کی ضرورت ہے تو سزا دے یا صَرفِ نظر بھی کر سکتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ مگر مغضوب الغضب اور سبک سر اور طائش العقل ہرگز سزاوار نہیں کہ بچوں کی تربیت کا متکفل ہو۔ جس طرح اور جس قدر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لیے سوزِ دل سے دعاکرنے کو ایک حزب مقرر کر لیں۔ اس لیے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد دوم صفحہ 4)

پھر ایک بچےکا پتا لگا اس نے شرارت کی ہے آگ لگائی ہے، کچھ جلا دیا ہے اور اس بارے میں بھی اس لیے کہ والدین بالکل نگرانی نہیں کرتے بالکل ہی بچوں کو مادر پِدر آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ اس پر آپؑ نے فرمایا کہ بچوں کو تنبیہ کر دینا بھی ضروری ہے۔ اگر اس وقت ان کو شرارتوں سے منع نہ کیا جاوے تو بڑے ہو کر انجام اچھا نہیں ہوتا۔ بچپن میں اگر لڑکے کو کچھ تادیب کی جاوے تو اسے خوب یاد رہتی ہے کیونکہ اس وقت حافظہ قوی ہوتا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد8 صفحہ 415)

یہ ہے سموئی ہوئی تعلیم، یہ ہے بیلنس تعلیم جو اسلام دیتا ہے کہ ان کو تادیب کرنا بھی اگر کبھی وقت ہو، ضرورت ہو تو کر دو، منع نہیں ہے یہاں کی طرح نہیں ہے کہ اب حقوق قائم کرتے پھریں۔ اور یہاں ایک واقعہ ہوا ایک باپ کے خلاف ان کا سارا نظام حرکت میں آ گیا کہ اس نے اپنے بچے کو مارا ہے۔ جب تحقیق ہوئی تو پتا لگا کہ بچہ چولہے پر کھڑا تھا فرائنگ پین (frying pan)میں تیل ڈال رہا تھا، تَل رہا تھا، آگ بھڑکی اور تیل میں لگ گئی اور زیادہ شعلے بھڑک اٹھے تو باپ نے گھبرا کر بچے کو اس آگ سے پرے ہٹانے کے لیے دھکا دیا۔ بچے نے وہاں محکمے کو شکایت کر دی اور محکمے والوںنے آ کے باپ کو بڑی وارننگ دی کہ ہم تمہارا بچہ لے جائیں گے اور تمہیں سزا دیں گے تو یہ حالات ہو جاتے ہیں جب بیلنسڈ (balanced) تعلیم نہ ہو جب حقوق قائم کرنے کے لیے انسانی کوششیں ہوں، جب عقل سے کام نہ لیا جائے، جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہوئی تعلیم پر عمل نہ کیا جائے۔

پھر بیوی کے حقوق ہیں، بچوں کے حقوق ہیں ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا بھی سکھا دی کہ

وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا۔ (الفرقان:75)

اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنی جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا تو یہ دعا ہے جو پھر بیوی اور بچوں کے لیے انسان کرتا ہے اور ان کے لیے پھر ان کی بہتری کے سامان بھی ہوتے ہیں۔

پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کس طرح طلاق کے بعد بیوی کے حقوق قائم کیے گئے ہیں فرمایا کہ

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا وَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْـًٔا وَّيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا۔ وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَيْـًٔا اَتَاْخُذُوْنَهٗ بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا۔ وَكَيْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ وَقَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ وَّاَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا۔(النساء:20تا 22)

کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم زبردستی کرتے ہوئے عورتوں کا ورثہ لو اور انہیں اس غرض سے تنگ نہ کرو کہ تم جو کچھ انہیں دے بیٹھے ہوں اس میں سے کچھ پھر لے بھاگو سوائے اس کے کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہوں۔ اور ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو اور اگر تم انہیں ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔ اور اگر تم ایک بیوی کو دوسری بیوی کی جگہ تبدیل کرنے کا ارادہ کرو اور تم ان میں سے ایک کو ڈھیروں مال بھی دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔ کیا تم اسے بہتان تراشی کرتے ہوئے اور کھلے کھلے گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے لو گے اور تم کیسے وہ لو گے جبکہ تم ایک دوسرے سے خلوت میں مل چکے ہو اور وہ تم سے وفا کا پختہ عہد لے چکی ہیں۔

پس یہ ہے وہ اسلامی تعلیم جس پر ہمارے میں سے بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو عمل نہیں کرتے اور قضاء میں جب مقدمے آتے ہیں تو اپنے مطالبات لینے کے لیےضرورت سے زیادہ سختیاں شروع کر دیتے ہیں، ان کو فکر کرنی چاہیے، سوچنا چاہیے کہ جب ہم احمدی ہوئے ہیں، زمانے کے امام کو ہم نے مانا ہے، ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات جو ہیں وہ تمام حقوق قائم کرنے والے ہیں تو پھر ہمیں اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔

ایک عورت کو جو مقام دے کر اس کا حق قائم کیا ہے اس بارے میں ایک حدیث آتی ہے ۔حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا ایک دولت ہے اور عورت کا مقام اس میں بیان فرمایا کہ دنیا کی بہترین دولت نیک عورت ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الرضاعہ باب خیر متاع الدنیا والمراة الصالحة حدیث1469)

پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ اچھا ہے اور میں تم سب سے اپنے اہلِ خانہ کے لیے بہترین ہوں۔

(سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشرة النساء حدیث1977)

پھر مزید فرمایا کہ مومنین میں سے کامل ترین ایمان والے وہ ہیں جو اخلاق میں بہترین ہیں اور تم میں سے بہترین وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں۔

(سنن الترمذی ابواب الرضاع باب ما جاء فی حق المرأة علی زوجھا حدیث 1162)

پھر گھر میں مدد کے حوالے سے بتایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں ان سے کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میںپوچھا کہ آپؐ اپنے گھر میں کیا کیا کرتے تھے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کے کام کاج میں مدد کرتے تھے یعنی گھر کے مشکل کاموں میں مدد دیا کرتے تھے۔ جب نماز کا وقت ہوتا تو آپؐ نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔

(صحیح البخاری کتاب الاذان باب من کان فی حاجۃ اھلہ فأقیمت الصلوٰۃ فخرج حدیث نمبر 676)

پھر ایک اَور حق قائم فرمایا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن مرد مومن عورت سے نفرت نہ کرے۔ اگر اس کی کوئی ایک عادت اسے ناپسند ہو گی تو اس کی دوسری عادت سے وہ خوش ہو گا۔

(صحیح مسلم کتاب الرضاع باب الوصیة بالنساء حدیث1467)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک الہام

خُذُوا الرِّفْقَ الرِّفْقَ فَاِنَّ الرِّفْقَ رَأْسُ الْخَیْرَاتِ

کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس الہام میں تمام جماعت کے لیے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رِفق اور نرمی سے پیش آویں۔ وہ ان کی کنیزیں نہیں ہیں۔ درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم معاہدہ ہے۔ پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدے میں دغا باز نہ ٹھہرو۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ

وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ

یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو ۔ اور حدیث میں ہے کہ

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ بِاَھْلِہٖ

یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے ۔ سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو۔ ان کے لیے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو کیونکہ بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے۔ جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو۔

(ماخوذ از اربعین نمبر 3، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 428 مع حاشیہ)

ہمیں بھی بعض دفعہ یہاں، بعض دفعہ کیا یہاں کے حالات کی وجہ سے یا دنیا کی لپیٹ میںآنے کی وجہ سے دنیا سے متاثر ہو کر جماعت کے اندر بھی طلاق کی جو تعداد ہے وہ بڑھ رہی ہے اس طرف ہمیں توجہ کرنی چاہیے، غور کرنا چاہیے۔ ذرا ذرا سی باتوں پر لڑائی جھگڑے نہیں ہونے چاہئیں۔ یہاں تو یہ جو حق قائم کرنے کی باتیں کرتے ہیں یہ تو بیویوں کے حقوق ادا نہیں کرتے اور ان سے انصاف نہیں کرتے اور نہ صرف یہ کہ انصاف نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ تعلق میں خیانت کرتے ہیں۔ دوستیاں بنائی ہوتی ہیں اس لیے یہاں عمومی طور پر ان ملکوں میں ساٹھ سے ستر فیصد جو شادیاں ہیں وہ ٹوٹ جاتی ہیں، طلاقوں تک ان کی نوبت آ جاتی ہے۔ پس اگر ایک دوسرے کے صحیح حق ادا کیے جائیں، خاوند بیوی کے کرے اور بیوی خاوند کےکرے تو کبھی اس حد تک نوبت نہ آئے لیکن اس طرف ان کی توجہ نہیں۔ توجہ ہے تو ذرا ذرا سی چھوٹی چھوٹی باتوں پر جو بیہودگیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔

پھر بہن بھائیوں کے حقوق ہیں تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِاَخِيْ وَاَدْخِلْنَا فِيْ رَحْمَتِكَ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ۔(الاعراف: 152)

اس نے کہا کہ اے میرے رب! مجھے بخش دے اور میرے بھائی کو بھی اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر اور تو رحم کرنے والوں میں سے سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

یعنی اپنے لیے دعا کی ہے تو اپنے بھائی کے لیے بھی دعا کرنی چاہیے۔ پھر بہن بھائیوں کے حق کی ادائیگی کے لیے حسن ِظن کی ضرورت ہے اس لیے فرمایا کہ

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ۔(الحجرات: 13)

کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ اور تجسس نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے کیا تم میں سےکوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

ایک حدیث میں آیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان بَابٌ مِنَ الإِيمَانِ أَنْ يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهٖ حدیث13)

پھر ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ شہری غیر شہری کے لیے بیع کرے اور تم دھوکا دینے کے لیے آپس میں قیمت نہ بڑھاؤ۔ بعض دفعہ کاروبار کرتے ہیں، چیز خریدنے کے لیے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ فرمایا اس کےلیے قیمت نہ بڑھاؤ اور کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے اور اپنے بھائی کے پیغام ِنکاح پہ پیغام ِنکاح نہ دے اور کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق طلب نہ کرے اس نیت سے کہ اس کے برتن میں جو کچھ ہے وہ خود انڈیل لے۔

(صحیح البخاری کتاب البیوع باب لا یبیع علی بیع اخیہ… حدیث 2140)

یعنی اس کو وہاں سے طلاق دلوا دے اور خود پھر اس شخص سے شادی کر لے۔ اس نیت سے نہ ہو کبھی۔ پھر آپس کے تعلقات بہتر رکھنے کے لیے حق کی ادائیگی ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپس میں بغض نہ رکھو اور نہ حسد کرو اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو اور اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی ہو جاؤ اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔

(صحیح بخاری کتاب الادب باب الھجرة حدیث 6076)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ ’’تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں۔ وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے۔ تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاؤ نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لیے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا۔‘‘

(کشتی نوح روحانی خزائن جلد19صفحہ 12)

پھر رشتے داروں کے حقوق ہیں۔ اس کے بارے میں پہلے بھی بیان ہو چکا ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس میں رشتے داروں کے حقوق بھی آ جاتے ہیں

وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْـًٔا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا۔(النساء: 37)

کہ اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان میں سے جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر اور شیخی بگھارنے والا ہے۔ رشتہ داروں کے حقوق قائم کرو گے تو پھر یہی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جسے پسند ہو کہ اس کے رزق میں فراخی دی جائے یا اس کی عمر لمبی کی جائے تو اسے چاہیے کہ وہ صِلہرحمی کرے۔

(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا حدیث2557)

ایک حقیقی مومن کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرے اور جنت میں جائے۔ اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔جو اپنے رشتہ داروں کا خیال نہیں رکھتا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھاحدیث2556)

پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو صرف بدلے میں صلہ رحمی کرے بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے ۔

(بخاری کتاب الادب باب لیس الواصل بالمکافی حدیث5991)

یہ حقیقی تعلق ہے جو اسلامی معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے۔

پھر ہمسایوں کے حقوق ہیں یہاں بھی وہی آیت آ گئی۔

وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلْ۔

رشتہ دار ہمسایوں اور بے تعلق ہمسایوں اور پہلو میں بیٹھنے والوں اور مسافروں ان سب سے احسان کا سلوک کرو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل مجھے ہمسائے کے بارے میں اس طرح تاکید سے کثرت سے تاکید کرتے رہے کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ اس کو وراثت میں شریک نہ کر دیں۔

(صحیح بخاری کِتَابُ الْاَدَب بَابُ الْوصاة بالجار حدیث6014)

پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں۔ عرض کیا گیا کون یا رسول اللہؐ۔ فرمایا وہ شخص جس کا ہمسایہ اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔

(صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ إِثْمِ مَنْ لاَ يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَايِقَهُ حدیث6016)

پھر ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے پڑوسی کا یا فرمایا کہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔

(صحیح مسلم كِتَابُ الْإِيمَانَ بَابُ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ مِنْ خِصَالِ الْإِيمَانِ أَنْ يُحِبَّ لِأَخِيهِ الْمُسْلِمِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ مِنَ الْخَيْرِ حدیث45)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’جو شخص اپنے ہمسایہ کو ادنیٰ ادنیٰ خیر سے بھی محروم رکھتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔‘‘

(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ19)

پھر بیواؤں کے حقوق کس طرح قائم کیے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

وَاَنْکِحُواالْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآ ئِکُمْ اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِھِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (النور:33)

اور تمہارے درمیان جو بیوائیں ہیں ان کی بھی شادیاں کراؤ اور اسی طرح جو تمہارے غلاموں اور لونڈیوںمیں سے نیک چلن ہیں ان کی بھی شادی کراؤ۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی بنا دے گا اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ أَزْوَاجًا وَصِيَّۃً لِّأَزْوَاجِهِمْ مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَّعْرُوفٍ وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (البقرۃ:241)

اور تم میں سے جو لوگ وفات دیے جائیں اور بیویاں پیچھے چھوڑ رہے ہوں ان کی بیویوں کے حق میں یہ وصیت ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ایک سال تک فائدہ اٹھائیں اور نکالی نہ جائیں ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں اس بارے میں جو وہ خود اپنے متعلق معروف فیصلہ کریں اور اللہ کامل غلبہ والا اور صاحب حکمت ہے۔ پس یہ بیوہ کا حق دیا گیا ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیواؤں اور مسکینوں کی خاطر محنت اور دوڑ دھوپ کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کے برابر ہے یا رات بھر عبادت اور دن کو روزے رکھنے والے کے برابر ہے یعنی ان کے حقوق دلوانے کے لیے کوشش کرنا ان کے لیے کام کرنا ان کی مدد کرنا ایک جہاد کے برابر ثواب کا باعث ہے۔

(صحیح البخاری کتاب النفقات باب فضل النفقَۃ علی الاھل حدیث5353)

پھر بوڑھوں کے حقوق ہیں یہ کس طرح قائم فرمائے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَـرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّـهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْـهَرْهُمَا وَقُلْ لَّـهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا(بنی اسرائیل: 24)

یہاںاس میں والدین کے حقوق بھی آ گئے، پہلے بیان ہو گئے تھے۔ اس میں بوڑھوں کے لیے بھی حق قائم ہو گئے کہ تیرے رب نے یہ فیصلہ صادر کر دیا ہے تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کا سلوک کرو۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی آئیں تو انہیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نمازوں تک میں بوڑھوں کے حقوق کا خیال رکھا ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں عشاء کی نماز میں فلاں فلاں شخص کے طویل نماز پڑھانے کی وجہ سے شریک نہیں ہوتا۔ ابومسعودؓ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وعظ میں اس سے زیادہ غصے میں نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! ہم میں سے بعض وہ ہیں جو دوسروں کو بھگاتے ہیں، نفرت دلاتے ہیں اس لیے تم میں سے جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو مختصر پڑھائے اس لیے کہ ان میں مریض اور بوڑھے اور حاجت مند لوگ بھی ہوتے ہیں۔

(صحیح البخاری کتاب الادب باب ما یجوز من الغضب و الشدۃ لامر اللّٰہ حدیث6110)

لیکن مختصر کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ صرف ٹکریں مار کے جلدی جلدی چلے جائیں جس طرح میڈیا پہ ہم دیکھتے ہیں بعض غیر احمدی پڑھاتے ہیں کہ دس منٹ میں ساری آٹھ رکعتیں تراویحوں کی پڑھا دیں یا پانچ منٹ میں پڑھا دیں۔ یہ نہیں۔ نماز کا جو حق ہے وہ بھی ادا ہونا چاہیے لیکن چھوٹی سورتیں پڑھی جائیں، مختصر پڑھی جائیں۔

پھر دشمن کا حق ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۔ (البقرة: 191)

اور اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو۔ یقیناً اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

پھر فرمایا کہ

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓى اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔(المائدة: 9)

کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ سے ڈرو یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ فتح مکہ کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے قریش کے گروہ! اللہ نے تمہاری زمانہ جاہلیت والی نخوت کو ختم کر دیا ہے اور اسے آباؤ اجداد کے ذکر کے ساتھ عظمت دی ہے۔ اور تمام لوگ آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔

یٰاَ یُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَجَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا (الحجرات:14 )

کہ اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادے سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا ہے اور ہمیشہ باخبر ہے۔ اے قریش! تم مجھ سے کس قسم کے سلوک کی توقع رکھتے ہو؟ قریش نے کہا ہم آپؐ سے بھلائی ہی کی امید رکھتے ہیں کیونکہ آپؐ کریم ابن کریم ہیں، ہمارے معزز بھائی اور ہمارے معزز بھائی کے بیٹے ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ سہیل بن عمرونے اس سوال پر کہا تھا کہ ہم اچھی بات کرتے ہیں اور آپؐ سے اچھی امید وابستہ کرتے ہیں کیونکہ آپؐ ایک معزز بھائی اور ایک معزز بھائی کے بیٹے ہیں اور اب آپ ہم پر قدرت بھی رکھتے ہیں۔ قریش کا یہ جواب سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو میں ویسے ہی کہتا ہوں جس طرح میرے بھائی یوسف نے کہا تھا کہ

لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُاللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ (یوسف:93)

فرمایا جاؤ تم سب آزاد ہو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا تھا تو وہ لوگ ایسے نکلے جیسے وہ قبروں سے نکلے ہوں۔ بعد میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔

(ماخوذ از السیرۃ الحلبیۃ 3صفحہ 140-141 فتح مکہ، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1427 از مکتبۃ الشاملۃ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دشمن سے سلوک کے بارے میں ہی فرماتے ہیں

’’لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓى اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى

یعنی دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو۔ انصاف پر قائم رہو کہ تقویٰ اسی میں ہے۔ اب آپ کو معلوم ہے کہ جو قومیں ناحق ستاویں اور دکھ دیویں اور خون ریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں جیسا کہ مکہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لیے وصیت کی …… انجیل میں اگرچہ لکھا ہے کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو مگر یہ نہیں لکھا کہ دشمن قوموں کی دشمنی اور ظلم تمہیں انصاف اور سچائی سے مانع نہ ہو۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل اور انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا یہ بہت مشکل اور فقط جوان مردوں کا کام ہے۔ اکثر لوگ اپنے شریک دشمنوں سے محبت تو کرتے ہیں اور میٹھی میٹھی باتوں سے پیش آتے ہیں مگر ان کے حقوق دبا لیتے ہیں۔ ایک بھائی دوسرے بھائی سے محبت کرتا ہے اور محبت کے پردہ میں دھوکہ دے کر اس کے حقوق دبا لیتا ہے۔ مثلاً اگر زمیندار ہے تو وہ چالاکی سے اس کا نام کاغذات بندوبست میں نہیں لکھواتا اور یوں اتنی محبت کہ اس پر قربان ہوا جاتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں محبت کا ذکر نہ کیا بلکہ معیار محبت کا ذکر کیا کیونکہ جو شخص اپنے جانی دشمن سے عدل کرے گا اور سچائی اور انصاف سے درگذر نہیں کرے گا وہی ہے جو سچی محبت بھی کرتا ہے۔‘‘

(نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 409-410)

پھر غلاموں اور لونڈیوں کا حق قائم کیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغْنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَالَّذِيْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِيْهِمْ خَيْرًا وَّاٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَمَنْ يُّكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۔(النور: 34)

اور وہ لوگ جو نکاح کی توفیق نہیں پاتے انہیں چاہیے کہ اپنے آپ کو بچائے رکھیں یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے مال دار بنا دے اور تمہارے جو غلام تمہیں معاوضہ دے کر اپنی آزادی کا تحریری معاہدہ کرنا چاہیں اگر تم ان کے اندر صلاحیت پاؤ تو ان کو تحریری معاہدہ کے ساتھ آزاد کر دو اور وہ مال جو اللہ نے تم کو عطا کیا ہے اس میں سے کچھ ان کو بھی دو اور اپنی لونڈیوں کو اگر وہ شادی کرنا چاہیں تو روک کر مخفی بدکاری پر مجبور نہ کرو تاکہ تم دنیوی زندگی کا فائدہ چاہو اور اگر کوئی ان کو بے بس کر دے گا تو ان کے بے بس کیے جانے کے بعد یقیناً اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

یعنی ان کا تو پھر کوئی قصور نہیں ہو گا۔

معرور بن سوید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر غفاریؓ کو دیکھا۔ انہوں نے نئے کپڑوں کا ایک جوڑا پہنا ہوا تھا اور ان کا غلام بھی ویسا ہی نیا جوڑا پہنے ہوئے تھا۔ ہم نے اس کے متعلق ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے ایک شخص کو گالی دی تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری شکایت کر دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ کیا تم نے اس کو اس کی ماں کا طعنہ دیا ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے بھائی ہی تمہارے نوکر چاکر ہوتے ہیں جنہیں اللہ نے تمہارے ماتحت کر دیا ہے۔ اس لیے جس کا بھائی اس کا ماتحت ہو تو چاہیے کہ وہ اس کو اسی کھانے میں سے کھلائے جو وہ خود کھاتا ہو اور اسی کپڑے سے پہنائے جو وہ خود پہنتا ہو اور تم ان کو ایسے کاموں کی تکلیف نہ دیا کرو جو انہیں نڈھال کر دیں اور اگر تم ان کو ایسے کاموں کی تکلیف دو جو اُن پر گراں ہو تو ایسے کاموں میں ان کی مدد کیا کرو۔

( صحیح البخاری كِتَاب العِتْقِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ العَبِيدُ إِخْوَانُكُمْ فَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ حدیث 2545)

پھر غیر مسلموں کے ساتھ سلوک کا معاملہ ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۔ (البقرة:257)

دین میں کوئی جبر نہیں۔ یقیناً ہدایت گمراہی سے کھل کر نمایاں ہو چکی ہے۔ پس جو کوئی شیطان کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو یقیناً اس نے ایک ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لیا جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں اور اللہ بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔

پھر مذہبی رواداری کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۔(الانعام: 109)

اور تم ان کو گالیاں نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ورنہ وہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر علم کے اللہ کو گالیاں دیں گے۔ اسی طرح ہم نے ہر قوم کو ان کے کام خوبصورت بنا کر دکھائے ہیں۔ پھر ان کے رب کی طرف ان کو لوٹ کر جانا ہے۔ تب وہ انہیں اس سے آگاہ کرے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔

پس تمہارا یہ کام نہیں ہے کہ غیروں کے جھوٹے معبودوں کو یا بتوں کو بھی گالیاں دو نہیں تو وہی گالیاں خدا تعالیٰ کو دیں گے اور لوٹ کر اس کے ذمہ وار پھر تم ہو گے۔

پھر غیروں سے غیر مسلموں سے حسن سلوک کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۔(الممتحنۃ: 9)

اللہ تمہیں اس سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں قتال نہیں کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیا کہ تم ان سے نیکی کرو اور ان سے انصاف کے ساتھ پیش آؤ۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے کھڑے ہو گئے اور ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ ہم نے کہا یا رسول اللہ یہ تو یہودی کا جنازہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو۔

(صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب من قام لجناز ۃیہودی حدیث 1311 )

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی کرو اور اپنے نفسانی جوشوں سے کسی کومسلمان ہو یا غیر مسلم تکلیف مت دو نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 525)

اپنے ہم وطنوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں اور یہی نصیحت ہماری باقی دنیا کو بھی ہے کہ ’’وہ دین دین نہیں ہے جس میں عام ہمدردی کی تعلیم نہ ہو۔‘‘ عام سے مراد ہے مسلم دنیا کو ہماری نصیحت ہے کہ وہ دین دین نہیں ہے جس میں عام ہمدردی کی تعلیم نہ ہو ’’اور نہ وہ انسان انسان ہے جس میں ہمدردی کا مادہ نہ ہو۔ ہمارے خدا نے کسی قوم سے فرق نہیں کیا۔ مثلاً جو جو انسانی طاقتیں اور قوتیں آریہ ورد کی قدیم قوموں کو دی گئی ہیں وہی تمام قوتیں عربوں اور فارسیوں اور شامیوں اور چینیوں اور جاپانیوں اور یورپ اور امریکہ کی قوموں کو بھی عطا کی گئی ہیں۔ سب کے لیے خدا کی زمین فرش کا کام دیتی ہے اور سب کے لیے اس کا سورج اور چاند اور کئی اَور ستارے روشن چراغ کا کام دے رہے ہیں اور دوسری خدمات بھی بجا لاتے ہیں۔ اس کی پیدا کردہ عناصر یعنی ہوا اور پانی اور آگ اور خاک اور ایسا ہی اس کی دوسری تمام پیدا کردہ چیزوں اناج اور پھل اور دوا وغیرہ سے تمام قومیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ پس یہ اخلاق ربانی ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ہم بھی اپنے بنی نوع انسانوں سے مروت اور سلوک کے ساتھ پیش آویں اور تنگ دل اور تنگ ظرف نہ بنیں۔‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 439-440)

پس یہ ہے اسلامی تعلیم جس پر ہم نے عمل کرنا ہے اور ہمیں عمل کرنا چاہیے اور چاہے دوسرے جو مرضی کہتے رہیں اور یہی چیز یں یہی پیغام ہے جو ہم نے دوسروں کو بھی دینا ہے کہ یہی چیز ہے جو دنیا کے امن کی ضمانت ہے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف طبقات کے حقوق کی ایک لمبی فہرست ہے۔ وہ تو بیان نہیں ہو سکتی۔ ابھی بھی اسی میں چند پہلوؤںکو بیان کرتے کافی وقت لگ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بے شمار حقوق بیان فرمائے ہیں اور ہر ایک طبقے کے حق کو محفوظ کر لیا ہے اور اس کے ادا کرنے کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے۔ پس اس کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ اسلام کی تعلیم نئے زمانے سے میل نہیں کھاتی!؟ ہاں جو آزادی کے نام پر اپنے آپ کو تمام اخلاق سے بھی آزاد کر کے جانوروں کی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں جن کے نزدیک شہوت کی تسکین اور دنیا کی عیاشیاں سب کچھ ہیں اگر وہ انسانوں کے اس قسم کے حقوق قائم کروانا چاہتے ہیں تو پھر یہ وحشیوں کی حالت ہے۔ یہ جہالت پیدا کرنے والی باتیں ہیں۔ یہ لوگ تو پھر درندگی پھیلانا چاہتے ہیں اور اسی کے لیے ہم دیکھ رہے ہیں آج کل کے آزاد ماحول میں کوشش ہو رہی ہے۔ قانونِ قدرت اور قانون شریعت سے ہٹ کر یہ لوگ اپنی دنیا اور آخرت برباد کرنا چاہتے ہیں۔ اگریہ یہی چاہتے ہیں تو پھر ان کو اس قسم کے آزادی کے حق مبارک ہوں لیکن ہم پھر بھی یہ دعا کرتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ انہیں عقل دے اور یہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ جائیں اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے نافذ کردہ دائرے میں رہ کر تمام حقوق قائم کر کے ایک خوبصورت معاشرہ انسانیت جو انسانیت کی قدروں پر قائم ہونے والا معاشرہ ہے وہ قائم کرنے والے ہوں۔

اب دعا کریں گے۔ ہم دعا میں مختلف ممالک میں جہاں جہاں بھی جماعت پر سختیاں ہیں ان افراد جماعت کو بھی یاد رکھیں۔ ان حالات کے بہتر ہونے کے لیے دعا کریں۔ مسلمانوں کے لیے دعا کریں،مسلمان ملکوں کے لیے دعا کریں۔ آپس میں جو ان کی رنجشیں ہیں اور لڑائیاں ہیں اور فتنہ اور فساد ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی ان کو بچائے اور عقل دے۔ تمام دنیا کے لیے دعا کریں۔ پہلے بھی میں نے کہا تھا دنیا بڑی تیزی سے جنگ کے شعلوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بچا کے رکھے اور محفوظ رکھے اور عقل دے اور یہ خدا کی طرف رجوع کرنے والے ہوں اور اپنے فلسفوں اور اپنے فیصلوں اور اپنے حقوق کی اور اپنی تعریفوں کے بجائے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق چلنے والے ہوں تبھی ان کی بچت ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ اس طرف توجہ دینے والے ہوں۔ دعا کر لیں۔

٭٭٭دعا٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button