حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 37)
تفسیر نویسی میں کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا
’’آج رات کو الہام ہوا۔
مَنَعَہٗ مَانِعُ مِّنَ السَّمَآءِ
یعنی اس تفسیر نویسی میں کوئی تیرا مقابلہ نہ کر سکے گا ۔خدا نے مخالفین سے سلبِ طاقت اور سلب علم کر لیا ہے۔اگرچہ ضمیر واحد مذکر غائب ایک شخص مہرشاہ کی طرف ہے۔لیکن خدا نے ہمیں سمجھایا ہے کہ اس شخص کے وجود میں تمام مخالفین کا وجود شامل کر کے ایک ہی کا حکم رکھا ہے۔تاکہ اعلیٰ سے اعلیٰ اور اعظم سے اعظم معجزہ ثابت ہو کہ تمام مخالفین ایک وجود یا کئی جان ایک قالب بن کر اس تفسیر کے مقابلے میں لکھنا چاہیں تو ہر گز نہ لکھ سکیں گے۔‘‘
فرمایا:’’انسان کا کام انسان کر سکتا ہے ۔ہمارے مخالف انسان ہیں اور عالم اور مولوی کہلاتے ہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ جو کام ہم نے کیا وہ نہیں کر سکتے۔یہی ایک معجزہ ہے۔نبی اگر ایک سونٹا پھینک دے اور کہے کہ میرے سوا کوئی اس کواٹھا نہ سکے گا ۔تو یہ بھی ایک معجزہ ہے۔چہ جائیکہ تفسیر نویسی توایک علمی معجزہ ہے۔‘‘
فرمایا:’’یہ تفسیر رمضان شریف میں شروع ہوئی جیسا کہ قرآن شریف رمضان میں شروع ہوا تھا اور امید ہے کہ دو عیدوں کے درمیان ختم ہو گی۔جیسا کہ شیخ سعدی نے کسی کے متعلق کہا ہے ؎
بروز ہمایوںوسال سعید بتاریخ فر خ میان دو عید
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 204-205)
*۔اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی زبان کے شاعرشیخ سعدی کا یہ شعراستعمال کیا ہے ۔
بِرُوْزِہُمَایُوْںْ وَ سَالِ سَعِیْد بِتَارِیْخِ فَرُّخْ مِیَانِ دُو عِیْد
ترجمہ: ایک مبارک زمانہ اور ایک مبارک سال میں دو عیدوں کے درمیان ایک مبارک تاریخ کو۔
بوستان سعدی ، سعدی شیرازی کی مشہور تصنیف، جس میں اخلاقی مسائل کودرج ذیل دس ابواب میں حکایتوں کے پیرایے میں نظم کیاگیا ہے۔
عدل ،احسان ،عشق ،تواضع،رضا ،ذکر ،تربیت،شکر، توبہ،مناجات وختم کتاب۔ ان نظموں کے اختتام کی تاریخ کو ان اشعار میں اس طرح بیان کیا ہے۔
بِہْ رُوْزِھُمَایُوْن وَسَالِ سَعِیْد بِہْ تَارِیْخِ فَرُّخْ مِیَانِ دُوْ عِیْد
ایک مبارک زمانہ اور ایک مبارک سال میں دو عیدوں کے درمیان ایک مبارک تاریخ کو
زِشِشْ صَدْ فُزُوْن بُوْد پَنْجَاہ وپَنْج
کِہْ پُرْدُرّشُدْاِیْن نَامْبُرْدَارْ گَنْج
چھ سو سے پچپن زیادہ یعنی 655(ہجری قمری) میں یہ نامدار خزانہ موتیوں سے بھر گیا ۔
٭…٭…٭