احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آباؤ اجداد
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان
حسب ونسب کا اعلیٰ ہونا بھی ایک جوہراور خوبی ہے۔اور اہل عقل ودانش لِتَعَارَفُوْا کے مصداق کئی اہم معاملات کی تحقیق وتفتیش میں کسی کے نسب سے اسی طرح رہ نمائی حاصل کرتے ہیں جس طرح ایک جوہری کسی جوہر کے خواص کو جانچتے پرکھتے ہوئے اس کی قدروقیمت معلوم کرتے ہیں۔اورجس طرح راستوں کی کھوج لگانے والے رات کی تاریکی میں آسمان پرچمکنے والے ستاروں سے اپنی منزلوں کاپتہ چلاتے ہیں۔
روم کا بادشاہ ہرقل جو صاحب عقل وفہم اورزیرک اوردانا انسان تھا۔اس کے پاس جب آنحضرت ﷺ کا نامۂ مبارک پہنچا تواس نے نبی اکرم ﷺ کے دعویٰ کی صداقت کے لئے خوب جانچ پڑتال اور تحقیق وتفتیش کی۔اور اس کی جانچ کے معیار کی داد دینی پڑےگی کہ جن امور کو اس نے اپنی تحقیق کے معیار کے لئے منتخب کیا وہ ایک بہترین اور جامع معیارتھا اور ان کی مدد سے جو نتیجہ اس نے نکالا وہ بھی انتہائی درست ثابت ہوااور تاریخ میں جو ذکر ملتاہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ اس نتیجہ پراتنامطمئن تھاکہ وہ اسی وقت مسلمان ہوجانا چاہتاتھا لیکن اس وقت کے مُلّاؤں اورمذہبی رہ نماؤں نے جب اس کے ارادے کی مخالفت کی تو وہ ڈر گیا۔
(صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی حدیث نمبر 7)
لیکن پھر بھی اس نے یہ ضرور کہا کہ جس کایہ خط ہے وہ خداکاایک سچا رسول ہے اوراگر میرے بس میں ہوتا تواس کی جناب میں حاضر ہوتا اور اےکاش! میں اس کی بارگاہ میں ہوتاتواس کے پاؤں مبارک دھوتا۔
فَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَاءَهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمِهِ۔
(صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی حدیث نمبر 7)
ترجمہ:یعنی اگرمیرے بس میں ہوتاکہ میں ان کی طرف جاپاؤں گا تو میں ہرقسم کی مشقت اٹھا کے بھی اس کی خدمت میں حاضر ہوتااور اگر میں اس کی جناب میں ہوتاتو اس کے پاؤں دھوتا۔
یہ ایک طویل مکالمہ ہے جوہرقل قیصرروم اور قریش مکہ کے ایک سردار ابوسفیان کے مابین ہوا۔جس کی تفصیلات صحیح بخاری کی ابتدائی حدیث (حدیث نمبر7) میں موجودہیں کہ نبی اکرمﷺ کاتبلیغی خط جب ہرقل کے پاس پہنچاجس میں یہ بیان تھاکہ میں خداکانبی ہوں لہٰذامجھے قبول کرتے ہوئےمجھ پرایمان لے آؤ تو اس نے مزیدتحقیق کرنے کے لئے مکہ سے آئے ہوئے ایک قافلہ کو طلب کیا اور ممبران قافلہ کے سردار اوررئیس ابوسفیان سے نبی اکرم ﷺ کی بابت کچھ سوالات کئے۔ جومختلف سوالات تھے ان میں سے سب سے پہلاسوال یہ تھا کہ
قَالَ: كَيْفَ نَسَبُهُ فِيْكُمْ؟قُلْتُ: هُوَ فِيْنَا ذُوْ نَسَبٍ،
اس نے کہاکہ وہ تمہارے ہاںحسب ونسب کاکیساہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں میں نے کہاکہ وہ ہم میں اعلیٰ حسب ونسب عالی خاندان کا فردہے۔
پھرکچھ اورسوالات کئے اور ابوسفیان نے جوابات دیے۔جب سوال وجواب کایہ سلسلہ ختم ہواتواس نے ان کاتجزیہ کرتے ہوئے کہا:
سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ فَذَكَرْتَ أَنَّهُ فِيْكُمْ ذُوْ نَسَبٍ، فَكَذٰلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا۔
میں نے تجھ سے اس کے حسب ونسب کی بابت پوچھاتھاتوتم نے کہاتھاکہ وہ عالی خاندان کاہے۔توبات یہ ہے کہ رسول اورنبی ایسے ہی ہواکرتے ہیں وہ اپنی قوم کے اعلیٰ خاندان میں سے ہواکرتے ہیں۔
قرآن کریم نے بھی حسب ونسب کے اس پہلو کو اجمالاً بیان کیا ہے اور اس نے قریش مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے دراصل ساری دنیا کو یہ اصول بتایاہےکہ کسی قوم میں نبی اور رسول جب آیا کرتے ہیں تو وہ اس قوم کے بہترین فردہواکرتے ہیں۔ وہ اعلیٰ حسب ونسب والے ہوتے ہیں۔قرآن کریم نے جب نبی آخر الزمان کی بعثت کا اعلان کیا تو جہاں دوسری باتوں کا ذکر کیا وہاں اس کے حسب ونسب کی طرف بھی بطور خاص اشارہ کرتے ہوئے ذکرکیا ۔ فرمایا:
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ (التوبۃ:128)
ترجمہ: تمہارے پاس تمہاری ہی قوم کا ایک فرد رسول ہوکرآیاہے تمہارا تکلیف میں پڑنا اسے شاق گزرتاہے اور وہ تمہارے لئے خیر کا بہت بھوکا ہے۔
اس آیت کی ایک دوسری قراءت بھی ہے۔اوروہ اَنْفَسِکُمْ[فاء کی فتحہ کے ساتھ]ہے۔ یعنی نفیس ترین ،اعلیٰ ترین۔کتب تفسیروحدیث میں اس قراءت کاذکرموجودہے۔
مثلاً تفسیرقرطبی میں اسی آیت کے ذیل میں لکھاہے :
قَوْلُهُ تَعَالٰى:’’مِنْ أَنْفُسِكُمْ” يَقْتَضِي مَدْحًا لِنَسَبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ مِنْ صَمِيمِ الْعَرَبِ وَخَالِصِهَا۔ وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: (إِنَّ اللّٰهِ اصْطَفَى كِنَانَةٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيْلَ وَاصْطَفَى قُرَيْشًا مِنْ كِنَانَةَ وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِيْ هَاشِمٍ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ). وَرُوِيَ عَنْهُ صَلَّى اللّٰهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: (إِنِّي مِنْ نِكَاحٍ وَلَسْتُ مِنْ سِفَاحٍ) مَعْنَاهُ أَنَّ نَسَبَهُ صَلَّى اللّٰهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَمْ يَكُنِ النَّسْلُ فِيهِ إِلَّا مِنْ نِكَاحٍ وَلَمْ يَكُنْ فِيْهِ زِنًى وَقَرَأَ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ قُسَيْطٍ الْمَكِّيُّ مِنْ "أَنْفَسِكُمْ”بِفَتْحِ الْفَاءِ مِنَ النِّفَاسَةِ، وَرُوِيَتْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنْ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا أَيْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أشْرَفِكُمْ وَأَفْضَلِكُمْ [الجامع لاحکام القرآن (تفسیر قرطبی)جلد1ص1510 تفسیر سورة البراءة آیت 128]
ترجمہ : یعنی اللہ تعالیٰ کا مِنْ أَنْفُسِكُمْ فرمانے سے یہ مرادہے کہ آنحضرتﷺ کے خاندان ونسب کی تعریف بیان کی جائےکہ وہ عرب کے خالص اور اعلیٰ ترین خاندان سے ہیں۔ صحیح مسلم میں واثلہ بن اسفع کی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺکوفرماتے ہوئے سناکہ اللہ تعالیٰ نے[شرف ِنبوت کے لئے ] اسماعیل کی نسل میں سے کنانہ کوچنا،اورکنانہ سے قریش قبیلہ کوچنااورپھرقریش میں بنوہاشم کومنتخب فرمایااوربنوہاشم کے خاندان میں سے مجھے چنا۔ اورانہیں سے ایک اورروایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ میں نسلاً بعدنسلٍ نکاح کے معززاورشریف ترین طریق سے پیداہواہوں۔میرے حسب ونسب میں کوئی بھی بدکاری کرنے والانہ تھا۔علامہ قرطبی اس حدیث کی تفسیرمیں بیان کرتے ہیں کہ اس سے مرادیہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کانسب آدم ؑ سے لے کرآپؐ کے بزرگ والدین تک نکاح کے نتیجہ میں ہے اورکسی بھی کڑی میں کوئی زناکی تہمت سے متہم نہیں ہوا۔
عبداللہ بن قسیط مکی نے انفسکمکی قراءت من انفَسِکم ، ‘فا’ کی زبر کے ساتھ بیان کی ہے یعنی نفاست کے معنوں میں اورحضرت فاطمہ ؓنے نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ اس کامطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس رسول آیاہےاس خاندان سے جوشرف وبزرگی میں سب سے ممتازاور فضیلت رکھنے والا عالی مرتبہ ہے۔
حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدؐیہ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اَنْفُس کے لفظ میں ایک قراءت زبر کے ساتھ ہے یعنی حرف فا کی فتح کے ساتھ اور اسی قراءت کو ہم اس جگہ ذکر کرتے ہیں اور دوسری قراءت بھی یعنی حرف فا کے پیش کےساتھ بھی اس کے ہم معنی ہے کیونکہ خدا قریش کو مخاطب کرتا ہے کہ تم جو ایک بڑے خاندان میں سے ہو یہ رسول بھی تو تمہیں میں سے ہے یعنی عالی خاندان ہے۔‘‘
(تریاق القلوب ، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 281حاشیہ)
قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ اور بخاری کی اس روایت کی روشنی میں بہت مناسب ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کے عالی خاندان کا ذکر بھی کیاجائے اور آنے والے امام مہدی اور مسیح موعودعلیہ السلام کی بابت پیشگوئیوں اور الہامات کویکجائی نظر سے دیکھا جائے تو پھر تو اوربھی ضروری ہوجاتاہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کے خاندان کا ذکرقدرے تفصیل سے کیاجائے۔کیونکہ اس آنے والے کے خاندان کابھی پیشگوئیوں میں ذکرکیاگیاہے اور یہ ساری تفصیل خودحضرت اقدس ؑ کی سچائی کی ایک دلیل ہے۔
سورة الجمعۃ میں اللہ تعالیٰ نےفرمایا:
هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَ يُزَكِّيْهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ وَّ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۔(الجمعۃ :3-5)
ترجمہ: وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتاہے اور انہیں پاک کرتاہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی اسے مبعوث کیاہے جو ابھی ان سے نہیں ملے۔وہ کامل غلبہ والا اور صاحب حکمت ہے۔یہ اللہ کا فضل ہے وہ اس کو جسے چاہتاہے عطاکرتاہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔
اس آنے والے کا آنا گویا نبی اکرمﷺ کا ہی آنا تھا۔اور دوسری طرف جب صحابہ ؓرسولﷺ نے پوچھا کہ یارسول اللہ!ﷺ یہ کون لوگ ہوں گے توآپؐ نے حضرت سلمان فارسی ؓپر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا:
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ كُنَّا جُلُوْسًا عِنْدَ النَّبِيِّﷺ فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ “وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ”. قَالَ قُلْتُ مَنْ هُمْ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ؟ فَلَمْ يُرَاجِعْهُ حَتّٰى سَأَلَ ثَلَاثًا وَفِيْنَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ وَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰهِﷺ يَدَهُ عَلٰى سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ “ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِّنْ هٰؤُلٓاءِ”۔
( صحیح البخاری ،کتاب التفسیر تفسیر سورة الجمعة باب قولہ و آخرین منھم لما یلحقوا بھم4897)
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ ؓبیان فرماتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے پاس ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ سورة الجمعہ کی آیت
{وَاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ }
نازل ہوئی۔میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ یہ کون لوگ ہیں؟آپؐ نے جواب نہیں دیا یہاں تک کہ تین بار پوچھا اوراس وقت ہم میںحضرت سلمان فارسی ؓبھی موجودتھے۔رسول اللہﷺ نے اپنا دست مبارک سلمان ؓپر رکھا اورپھر فرمایا کہ اگرایمان ثریا پر ہواتو ان کے خاندان میں سے کوئی شخص اس کو واپس لائے گا۔
گویاآنے والےاس موعود کے خاندان کی نسبت یہ فرمایا کہ وہ موعوداقوام عالم ابنائے فارس میں سے ہوگا۔
(باقی آئندہ)